aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "जा-ए-अदब"
زباں ہی تیرا سرمایہ ہے لیکنعطاؔ خاموش یہ جائے ادب ہے
اخترؔ کہیں گے مجھ کو نکیرین دیکھ کرجائے ادب ہے دیکھو نبی کا غلام ہے
عرش الہ العالمیں جائے ادب ہے کھول جھڑہے خانۂ دل غرق پر دیکھ اشک طغیانی نہ کر
اجمیر کی جامع مسجد میں خود عکس ہے اجنبی مندر کاپھر اور ذرا یہ فن بڑھ کر مانند غزل بن جاتا ہے
میرتقی میر اردو ادب کا وہ روشن ستارہ ہیں ، جن کی روشنی آج تک ادیبوں کے لئے نئے راستے ہموار کر رہی ہے - یہاں چند غزلیں دی جا رہی ہیں، جو مختلف شاعروں نے ان کی مقبول غزلوں کی زمینوں پر کہی اور انھیں خراج عقیدت پیش کی-
شعر وادب کے سماجی سروکار بھی بہت واضح رہے ہیں اور شاعروں نے ابتدا ہی سے اپنے آس پاس کے مسائل کو شاعری کا حصہ بنایا ہے البتہ ایک دور ایسا آیا جب شاعری کو سماجی انقلاب کے ایک ذریعے کے طور پر اختیار کیا گیا اور سماج کے نچلے، گرے پڑے اور کسان طبقے کے مسائل کا اظہار شاعری کا بنیادی موضوع بن گیا ۔آپ ان شعروں میں دیکھیں گے کہ کسان طبقہ زندگی کرنے کے عمل میں کس کرب اور دکھ سے گزرتا ہے اور اس کی سماجی حثیت کیا ہے ۔ مزدوروں پر کی جانے والی شاعری کی اور بھی کئی جہتیں ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
دوہا ہندی، اردو شاعری کی ممتاز اورمقبول صنف سخن ہے جو زمانہ قدیم سے تا حال اعتبار رکھتی ہے۔دوہا ہندی شاعری کی صنف ہے جو اب اردو میں بھی ایک شعری روایت کے طور پر مستحکم ہو چکی ہے۔ اس خوبصورت صنف کو پڑھنے کا سفر شروع کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لیے چند منتخب دوہے پیش خدمات ہیں۔
जा-ए-अदबجائے ادب
place of respectfullness
اردو ادب پر ذرائع ترسیل عامہ کے اثرات
قیصر شمیم
تحقیق
منزل فقر و فنا جائے ادب ہے غافلبادشہ تخت سے یاں اپنے اتر لیتا ہے
رنگ جام شراب پر مت جایہ تو شرما گئی ہے تجھ سے شراب
’’ڈاکٹر! تم مجھے یادوں کے گھنے جنگل میں چھوڑ گئے ہو۔ جہاں تمہاری ہر بات، ہر قہقہہ ایک مستقل گونج بن کر پھیل گیا ہو۔ اور میں اس جنگل میں تنہا پھر رہی ہوں۔۔۔۔ تمہارے بغیر زندگی کے لمحات پژمردہ پتیوں کی مانند درختوں سے رک رک کر گر رہے...
موٹی عورت نے کہا، ’’پلیز، ضرور بھجوا دیں۔‘‘ لڑکی نے فوٹو گرافی کا رسالہ اٹھا کر کہا، ’’پلیز اسے پیک کر کے گاڑی میں رکھوا دیں۔‘‘...
’’راجدہ دیکھ کر چلنا کہیں کانٹا نہ چبھ جائے۔‘‘ یہ بھانجی کی آواز تھی۔ ’’اوئی پانی بڑا ٹھنڈا ہے تم بھی آ جاؤ۔۔۔‘‘ یہ راجدہ کی آواز تھی۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں سے ساٹن کی شلوار کے پائنچے اٹھائے پلاٹ کے پانی میں چل رہی تھی۔ اب وہ میرے قریب کھڑی...
تمہیں جو پا کے خوشی ہے تم اس خوشی پہ نہ جاؤتمہیں یہ علم نہیں کس قدر اداس ہوں میں
اپنی دنیائے حسیں دفن کیے جاتا ہوںتو نے جس دل کو دھڑکنے کی ادا بخشی تھی
عرصۂ دہر پہ سرمایہ و محنت کی یہ جنگامن و تہذیب کے رخسار سے اڑتا ہوا رنگ
خود عشق قرب جسم بھی ہے قرب جاں کے ساتھہم دور ہی سے ان کو پکار آئے یہ نہیں
شجر عشق تو مانگے ہے لہو کے آنسوتب کہیں جا کے کوئی شاخ ہری آوے ہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books