aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "टिमटिमाते"
جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا اور سبھی نہتے تھے اور سبھی آزادی کے پرستار تھے۔ ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں نہ ریوالور، نہ برین گن نہ اسٹین گن۔ ہنڈ گری نیڈ نہ تھے۔ دیسی یا ولایتی ساخت کے بمب بھی نہ تھے مگر پاس کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی نگاہوں کی گرمی کسی بھونچال کے قیامت خیز لاوے کی حدّت کا پتہ دیتی تھی۔ سامراجی فوجوں کے پاس لوہے کے ہتھیار تھے۔ یہاں دل فولاد کے بن کے رہ گئے تھے اور روحوں میں ایسی پاکیزگی سی آگئی تھی جو صرف اعلیٰ و ارفع قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا پانی اور ان کے رومان اور ان کا سچا عشق اور ان کی تاریخی بہادری آج ہر فرد بشر بچے بوڑھے کے ٹمٹماتے ہوئے رخساروں میں تھی۔ ایک ایسا اجلا اجلا غرور جو اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب قوم جوان ہو جاتی ہے اور سویا ہوا ملک بیدار ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے امرتسر کے یہ تیور دیکھے ہیں۔ وہ ان گروؤں کے اس مقدس شہر کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔
ایک آیا گیا دوسرا آئے گا دیر سے دیکھتا ہوں یوں ہی رات اس کی گزر جائے گیمیں کھڑا ہوں یہاں کس لیے مجھ کو کیا کام ہے یاد آتا نہیں یاد بھی ٹمٹماتا
’’ہاں یہی سمجھئے کہ ایک طوفان آیا۔۔۔ مگر یہ طوفان سمندر میں نہیں ایک بے ایمان آدمی کے من میں اٹھا تھا، اس نے اپنی قوم کو دغادی اور لالٹین بجھا کر اپنے دوست کی موت کا باعث ہوا۔‘‘’’مگر کیوں؟ کوئی انسان ایسی کمینی اور بے کار حرکت کیسے کر سکتا ہے؟‘‘
استبداد کی آندھیاں ٹمٹاتے چراغوں کو گل کر سکتی ہیں مگر انقلاب کے شعلوں پر ان کا کوئی بس نہیں چلتا۔
کتنی کھوئی ہوئی بیمار و فسردہ آنکھیںٹمٹماتے سے دیے چار طرف نوحہ کناں
टिमटिमातेٹمٹماتے
twinkle
رات آئی، خیر کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے اور اس کے بیاہ کا اعلان کیا گیا۔۔۔ وہ لال دوپٹے میں سمٹی ہوئی سوچنے لگی کہ اتنا بڑا واقعہ اتنے مختصر عرصے میں کیسے تکمیل تک پہنچا، وہ تو یہ سمجھے بیٹھی تھی کہ جب برات آئےگی تو زمین اور آسمان کے درمیان الف لیلہ والی پریوں کے غول ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، پروں سے ملائے بڑا پیارا سا ناچ ناچیں گے، بکھرے ہوئے تارے ادھر اد...
ٹمٹماتے دیے کی جھلمل میںجوت سلگا لو اک نئی دل میں
ٹمٹماتے رہیں بجھتی ہوئی یادوں کے چراغدل کی ویرانی پہ گر آپ کو اصرار نہ ہو
یہ سنتے سنتے سندر سمدراور گوپال دونوں نے اتساہ سے تتھاگت کی جے بولی، ودّیا ساگر نے دونوں کو دیکھا یہ جاننے کے لئے کہ ان میں پوچھنے کی چٹک ابھی تک ہے یا جاتی رہی، پھر کہا کہ ’’بھکشوؤ بتانے والا ہمیں تمھیں سب کچھ بتا کے پرلوک سدھارا ہے، سو اب کسی سے مت پوچھو اور اب اپنا دیا آپ بنو کہ امی تابھ نے سدھارتے سمے آنند سے یہی کہا تھا۔ سندر سمدر اور گوپال دو...
یہ ٹمٹماتے چراغ دیکھوہے چند روزہ نمود ان کی
ٹمٹماتے رہے گلی کے چراغرقص کرتی رہی ہوا مجھ میں
دامن کوہ کی اک بستی میںٹمٹماتے ہیں مزاروں پہ چراغ
کاش ہماری نیازی خانم آج اس جدید دور کی پیدایش ہوتیں۔ اگر انھوں نے یہ زمانہ پایا ہوتا تو نہ جانے شہرت کے کون سے آسمان پر اپنا جلوہ دکھاتیں۔ اپنی طبّاعی کی کتنی داستانیں، قہقہوں کے کتنے زعفران زار اور اپنی مزاحی شاعری کی کیسی کیسی یادگاریں چھوڑ جاتیں۔ اب تو ان کی باتیں نری کہانیاں ہیں۔ وہ بھی اندھیری راتوں میں سنی ہوئی، جن میں فطری ذہانت کے سوا کوئی ...
یاد شیریں کا زمانہ ہے نہ فرہاد کا دورٹمٹماتے ہوئے آکاش کے تاروں کی طرح
دل میں یادوں کے رت جگے جیسےٹمٹماتے ہوں مرگھٹوں کے دیے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books