aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "तअज्जुब"
تفضل حسین خاں کوکب دہلوی
شاعر
قاضی تفضل حسین متین
مصنف
منشی تفضل حسین
سید تفضل حسین
تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سےابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں
رندھیر کو پسینے کی بو سے سخت نفرت تھی۔ وہ نہانے کے بعد عام طور پرا پنی بغلوں وغیرہ میں خوشبو دار پوڈر لگاتا تھایا کوئی ایسی دوا ستعمال کرتا تھاجس سے پسینے کی بو دب جائے۔ لیکن حیرت ہے کہ اس نے کئی بار۔۔۔ ہاں کئی باراس گھاٹن لڑکی ی بالوں بھری بغلوں کو چوما اور اسے بالکل گھن نہ آئی بلکہ عجیب طرح کی لذت محسوس ہوئی۔ اس کی بغلوں کے نر نرم بال پسینے کے با...
ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں۔۔۔ بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس کو مالک مکان انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نیچے نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لیے اس پاخانہ میں...
جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں زیادہ فارغ البال تھے، وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ہم تو کہیں گے گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہون...
صحرا نوردیکیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے
اپنی فکر اور سوچ کے دھاروں سے گزر کر کلی طور سے کسی ایک نتیجے تک پہنچنا ایک ناممکن سا عمل ہوتاہے ۔ ہم ہر لمحہ ایک تذبذب اور ایک طرح کی کشمکش کے شکار رہتے ہیں ۔ یہ تذبذب اور کشمکش زندگی کے عام سے معاملات سے لے کر گہرے مذہبی اور فلسفیانہ افکار تک چھائی ہوئی ہوتی ہے ۔ ’’ ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر‘‘ اس کشمکش کی سب سے واضح مثال ہے ۔ ہمارے اس انتخاب میں آپ کو کشمکش کی بے شمار صورتوں کو بہت قریب سے دیکھنے ، محسوس کرنے اور جاننے کا موقع ملے گا ۔
तअ'ज्जुबتعجب
wonder, astonishment, surprise, amazement
میخانۂ تغزل
عطا کاکوی
انتخاب
میر کا تغزل
عبدالمغنی
شاعری تنقید
مسلمانوں کی ترقی اور انکے تنزل کے اسباب
محسن الملک
تاریخ
امواج تغزل
سید محمد ظفر اشک سنبھلی
مجموعہ
نئی کتاب حکمت
سرمایۂ تغزل
افسر صدیقی امروہوی
کلیات
دیوان متین
دیوان
تعصب اور اسلام
شبلی نعمانی
رفیع الخیال
رہنمائے آزادی
تحریک آزادی
مطلع الانوار ترجمہ مخزن الاسرار
اسباب تنزل
عبد الرحمٰن دہلوی
قصہ / داستان
حامد المساحت
رب نواز نے پورے خلوص کے ساتھ کہا۔’’ہاں، رام سنگھا!‘‘ رام سنگھ نے اپنا سر ہلایا،’’نہیں۔۔۔میں نہیں مان سکتا۔۔۔ تمہیں ورغلایا گیا ہے۔‘‘ رب نواز نے اس کو یقین دلانے کے انداز میں کہا،’’تمہیں ورغلایا گیا ہے۔۔۔ قسم پنجتن پاک کی۔۔۔‘‘رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ پکڑلیا،’’قسم نہ کھایارا۔۔۔ ٹھیک ہوگا۔‘‘لیکن اس کا لہجہ صاف بتارہا تھا کہ اس کو رب نواز کی قسم کا ...
صرف ظاہر ہو گیا سرمایۂ زیب و صفاکیا تعجب ہے جو باطن با صفا ملتا نہیں
تمہارے غم سے توبہ کر رہا ہوںتعجب ہے میں ایسا کر رہا ہوں
دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سر و سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شا کر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے، تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کئے ہوئے ہے۔
شیخ اور بہشت کتنے تعجب کی بات ہےیارب یہ ظلم خلد کی آب و ہوا کے ساتھ
امین نے اس سے پوچھا، ’’آپ کون ہیں۔۔۔ یہاں کیوں آئی ہیں؟‘‘اس لڑکی نے جواب دیا، ’’میں آپ کی بیوی ہوں،یہاں کیوں آئی ہوں ،یہ آپ کا عجیب و غریب سوال ہے۔‘‘
مری الفت تعجب ہو گئی توبہ معاذ اللہکہ منہ سے بھی نہ نکلے بات اور افسانہ ہو جائے
کلام عروض تغزل خیال ذوق جمالبدن کے جام نے الفاظ کی صراحی بھری
پروہت، ’’اسی نیت کا تو یہ پھل بھو گ رہے ہو کھانے کو نہیں جڑتا۔‘‘یہ کہہ پر وہت جی نے اس کا سوا سیر گیہوں کا ذکر کیا جو آج سےسات سال قبل شنکر کو دیے تھے۔ شنکر سن کر ساکت رہ گیا۔ میں نے کتنی بار انہیں کھلیانی دی۔ انہوں نے میرا کون سا کا م کیا۔ جب پو تھی پتر اد یکھنے، ساعت شگون بچارنے دوار پر آتے تھے تو کچھ نہ کچھ دچھنا لے ہی جا تے تھے۔ اتنا سوارتھ۔ سوا سیر اناج کولے انڈے کی طرح یہ بھو ت کھڑا کر دیا۔ جو مجھے نگل ہی جائے گا۔ اتنے دنوں میں ایک بار بھی کہہ دیتے تو گیہوں دے ہی دیتا۔ کیا اسی نیت سے چپ بیٹھے رہے۔ بولا، ’’مہا راج نام لے کر تو میں نے اتنا انا ج نہیں دیا، مگر کئی با ر کھلیانی میں سیر سیر، دودوسیر دے دیا ہے۔ اب آپ آج ساڑھے پانچ من مانگتے ہو، میں کہاں سے دوں گا؟‘‘
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books