aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "तीर-ए-क़ज़ा"
برش تیغ ادائے دوست کا احساس ہےاب رہین منت تیر قضا کوئی نہیں
جس نے دیکھی ہو وہ چتون کوئی اس سے پوچھےجان کیوں کر ہدف تیر قضا ہوتی ہے
مانا کہ سب اجل کے مقابل تھے سر بکفلیکن شکار تیر قضا ہم ہوئے کہ تم
تیر مژگاں کو تو پیکان قضا کہتے ہیںپر نگاہ غلط انداز کو کیا کہتے ہیں
ہم سمجھے تھے صیاد کا ترکش ہوا خالیباقی تھا مگر اس میں ابھی تیر قضا اور
جس تیرسے ہم واقف ہیں آخراس کی شاعری میں کیا جگہ ، اگرہے بھی تو ان خاص مواقع پرجہاں جنگ وجدل کا بیان ہو لیکن ایسے مواقع آتے ہی کتنےہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں دیکھئے کہ تیرزخمی کردینے کی اپنی صفت کے ساتھ معنی کی کن نئی صورتوں میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ تخیل اورتخلیق کی کارکردگی یہی ہوتی ہے ۔ محبوب اوراس کے حسن کے بیانیے میں تیرایک مرکزی استعارے کے طورپرسامنے آتا ہے۔
نئے سال کی آمد کو لوگ ایک جشن کے طور پر مناتے ہیں ۔ یہ ایک سال کو الوداع کہہ کر دوسرے سال کو استقبال کرنے کا موقع ہوتا ہے ۔ یہ زندگی میں وہ واحد لمحات ہوتے ہیں جب انسان زندگی کے گزرنے اور فنا کی طرف بڑھنے کے احساس کو بھول کر ایک لمحاتی سرشاری میں محو ہوجاتا ہے۔ نئے سال کی آمد سے وابستہ اور بھی کئی فکری اور جذباتی رویے ہیں ، ہمارا یہ انتخاب ان سب پر مشتمل ہے ۔
شعر وادب کے سماجی سروکار بھی بہت واضح رہے ہیں اور شاعروں نے ابتدا ہی سے اپنے آس پاس کے مسائل کو شاعری کا حصہ بنایا ہے البتہ ایک دور ایسا آیا جب شاعری کو سماجی انقلاب کے ایک ذریعے کے طور پر اختیار کیا گیا اور سماج کے نچلے، گرے پڑے اور کسان طبقے کے مسائل کا اظہار شاعری کا بنیادی موضوع بن گیا ۔آپ ان شعروں میں دیکھیں گے کہ کسان طبقہ زندگی کرنے کے عمل میں کس کرب اور دکھ سے گزرتا ہے اور اس کی سماجی حثیت کیا ہے ۔ مزدوروں پر کی جانے والی شاعری کی اور بھی کئی جہتیں ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
तीर-ए-क़ज़ाتیر قضا
arrow of death
ترے لبوں میں ہے اک راز زندگی پنہاںتری نگاہ کو تیر قضا سمجھتے ہیں
بچتے نہیں دیکھا کبھی مجروح محبتیا رب نگہ ناز ہے یا تیر قضا ہے
سیریٔ نظر بھی نہ ہوئی ہائے میسرآنکھیں جو ہوئیں چار لگے تیر قضا دو
اب کے بھی راس آئی نہ حب وطن حفیظؔاب کے بھی ایک تیر قضا کھا کے آ گیا
آسماں ہو کہ قیامت ہو کہ ہو تیر قضاچال اس فتنۂ دوراں سے ہر اک بار چلا
تیری چتون کے بل کو ہم نے قاتل تاک رکھا تھاکدھر مقتل میں بچ کر ہم سے یہ تیر قضا جاتا
اے ذوقؔ ہے غضب نگہ یار الحفیظوہ کیا بچے کہ جس پہ یہ تیر قضا چلے
دین و دل جا ہی چکا جان بھی جاتی ہے تو جائےترکش کفر میں اک تیر قضا اور سہی
روبرو اس زلف کے دام بلا کیا چیز ہےاس نگہ کے سامنے تیر قضا کیا چیز ہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books