aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "थकन"
بہت قریں تھا حسینان نور کا دامنسبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن
مجبوری یا مہجوری کی تھکن سے لوٹا کرتے ہیںتم جاؤ
گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوستگر مجھے اس کا یقیں ہو کہ ترے دل کی تھکن
کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن جاگ پڑےایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
تیرے لہجے کی تھکن میں ترا دل شامل ہےایسا لگتا ہے جدائی کی گھڑی آ گئی دوست
ایک شاعر دو سطحوں پر زندگی گزارتا ہے . ایک تو وہ جسے اس کی مادی زندگی کا نام دیا جا سکتا ہے اور دوسری تخلیق اور تخیل کی سطح پر ۔ یہ دوسری زندگی اس کی اپنی بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس کے ذریعے تخلیق کئے جانے والے کرداروں کی بھی ۔ آبلہ پائی اس کی اسی دوسری زندگی کا مقدر ہے ۔ کلاسیکی شاعری میں عاشق کو خانماں خراب ہونا ہی ہوتا ہے ، وہ بیابانوں کی خاک اڑاتا ہے ، گریباں چاک کرتا ہے . ہجرکی یہ حالتیں ہی اس کے لئے عشق کی معراج ہوتی ہیں ۔ جدید شعری تجربے میں آبلہ پائی دکھ کے ایک وسیع استعارے کے طور پر بھی برتا گیا ہے ۔
فراموشی شاعری میں عاشق اور معشوق کے درمیان کی ایک کیفیت ہے ۔ عشق کے اس کھیل میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب دونوں تھک کر ایک دوسرے کو فراموش کرنے اور بھلانے کی ترکیبیں سوچتے ہیں لیکن یاد ایسی سخت جان ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے پلٹ کر آہی جاتی ہے ۔ یہ وہ تجربہ ہے جس سے ہم سب گزرے ہیں اور گزرتے ہیں اس لئے یہ شاعری بھی ہماری اپنی ہے اسے پڑھئے اور عام کیجئے۔
थकनتھکن
tiredness, weariness
تھکن
دت بھارتی
رومانی
سارے دن کا تھکا ہوا پرش
صلاح الدین پرویز
دیگر
تیری سانسوں کی تھکن تیری نگاہوں کا سکوتدر حقیقت کوئی رنگین شرارت ہی نہ ہو
میں جب بھیدوسروں کے اور اپنے جھوٹ سے تھک کر
دیکھو کتنے تھک سے گئے ہوکتنی تھکن آنکھوں میں گھلی ہے
دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکنماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے
یہ سفر اتنا مسلسل ہے کہ تھک ہار کے بھیبیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
صعوبتوں میں سفر کی کبھی جو نیند آئیمرے بدن کی تھکن نے اٹھا دیا ہے مجھے
چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دےوہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے
یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مرےدل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
دن بھر کی تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سو گئی۔ میونسپل کمیٹی کا داروغہ صفائی، جسے وہ سیٹھ جی کے نام سے پکارا کرتی تھی، ابھی ابھی اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور، گھر واپس گیا تھا۔...
مگر جو بولی تو اس کے لہجے میں وہ تھکن تھیکہ جیسے صدیوں سے دشت ظلمت میں چل رہی ہو
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books