aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "दो-राह"
رائے ٹھاکر دت
مصنف
آر۔ ڈی۔ رانڈے
مجھ کو آنہ ہے تو ویسے بھی چلا آؤں گارہنے دو راہ میں پھولوں کو بچھاتے کیوں ہو
عقل اور دل میں بھی بحث نہ ہوسکی اور وہ تالا لگاکر چل نکلے۔ امی نے اپنی جائے نماز بھی چھوڑدی تھی۔ انجم دروازہ کی اس اوٹ کو بھی بھول چکی تھی جہاں اس نے زندگی کی کتنی شامیں نذر کردی تھیں۔۔۔ انھوں نے چلتے وقت اجداد کے اس گھر...
ایک دو رات میں شہرت نہیں ملتی پگلےاتنے سستے میں یے دولت نہیں ملتی پگلے
پھونک دے روح کہ جاں دے کوئیخاک کو میری اماں دے کوئی
غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچےمجھے خوف ہے یہ تہمت ترے نام تک نہ پہنچے
سایہ شاعری ہی کیا عام زندگی میں بھی سکون اور راحت کی ایک علامت ہے ۔ جس میں جاکر آدمی دھوپ کی شدت سے بچتا ہے اور سکون کی سانسیں لیتا ہے ۔ البتہ شاعری میں سایہ اور دھوپ کی شدت زندگی کی کثیر صورتوں کیلئے ایک علامت کے طور پر برتی گئی ہے ۔ یہاں سایہ صرف دیوار یا کسی پیڑ کا ہی سایہ نہیں رہتا بلکہ اس کی صورتیں بہت متنوع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح دھوپ صرف سورج ہی کی نہیں بلکہ زندگی کی تمام ترتکلیف دہ اور منفی صورتوں کا استعارہ بن جاتی ہے ۔
روشنی اور تاریکی شاعری میں صرف دو لفظ نہیں ہیں بلکہ ان دونوں لفظوں کا استعاراتی اور علامتی بیان زندگی کی بے شمار صورتوں پر محیط ہے ۔ روشنی کو موضوع بنانے والے ہمارے اس انتخاب کو پڑھ کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ ایک لفظ شاعری میں جا کر کس طرح اپنے معنی کی سطح پر نئی نئی صورتیں اختیارکرلیتا ہے ۔ شاعری میں روشنی زندگی کی مثبت قدروں کی علامت بھی ہے اور تاریکی کی معصومیت کو ختم کرکے نئی بے چینیوں اور پریشانیوں کو جنم دینے کا ذریعہ بھی ۔
شمع رات بھر روشی لٹانے کیلئے جلتی رہتی ہے ، سب اس سے فیض اٹھاتے ہیں لیکن اس کے اپنے دکھ اور کرب کو کوئ نہیں سمجھتا ۔ کس طرح سے سیاہ کالی رات اس کے اوپر گزرتی ہے اسے کوئی نہیں جانتا ۔ تخلیق کاروں نے روشنی کے پیچھے کی ان تمام ان کہی باتوں کو زبان دی ہے ۔ خیال رہے کہ شاعری میں شمع اور پروانہ اپنے لفظی معنی اور مادی شکلوں سے بہت آگے نکل کر زندگی کی متنوع صورتوں کی علامت کے طور پر مستعمل ہیں ۔
दो-राहدو راہ
two-way, forked
آگے پیچھے
رام لعل
ناول
اقبال درراہ مولوی
سید محمد اکرام
تنقید
دی اسٹادھیائے آف پینینی
ماسٹر رام ناتھ شرما
کلاسیکل پوئٹس آف گجرات
گووردھن رام
تذکرہ
روح دو عالم
مولانا غلام حسین
نعت
مہرشی دیانند کی تعلیم
ہندو ازم
Pangli Peer Ra Do Akhar
گیانیسرور وچنا مرت
امید و بیم نے مارا مجھے دوراہے پرکہاں کے دیر و حرم گھر کا راستا نہ ملا
رات دو رات کا بسیرا ہےزندگی جوگیوں کا پھیرا ہے
ہوتا ہے مسافر کو دوراہے میں توقفرہ ایک ہے اٹھ جائے جو شک دیر و حرم کا
اب نہ ان اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گامیں نے اک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
بس دکھا دے راہ مے خانہ کوئیلے چلے یا سوئے ویرانہ کوئی
دن کو کہہ دیں رات ہم سمجھے نہیںآپ کی یہ بات ہم سمجھے نہیں
بس ایک جان بچی تھی چھڑک دی راہوں پردل غریب نے اک اہتمام سادہ کیا
کر دے راکھلیکن ہم
تری عقل گم تجھے کر نہ دے رہ زندگی میں سنبھل کے چلتو گماں کی حد نہ تلاش کر کہ کہیں بھی حد گماں نہیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books