aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "सफ़ेद-ख़ानों"
سفید خانوںسیاہ خانوں میں رکھے
اسے ہم ڈھونڈنے تو نکلے ہیںمگر پہچانیں گے کیسے
جنس کے خانوں سے باہر یہ سفید ہوائیں کیا جانیںخاک کو جذبۂ عشق نے مل کر اچھا خاصا مرد کیا
میونخ میں آج کرسمس ہےسارے مناظر نے سفید چادر اوڑھ رکھی ہے
رواں ہوں میںاور اس روانی میں
सफ़ेद-ख़ानोंسفید خانوں
white houses
ایک کاغذ بالکل سادہ اور سپید میرے آگے بڑھایا گیا۔ میری کور ہوتی ہوئی آنکھیں جو تاریک خلا میں بھٹک بھٹک کر تھک رہی تھیں اس مکمل سپیدی پر جم کر رہ گئیں۔ اچانک میری نظر کے آگے اس سپیدی پر کالا رنگ انڈیل دیا گیا۔ گہرا قطرہ بہ قطرہ گرتا اور پھیلتا ہوا۔ پھر یہ کالا رنگ خشک ہو کر سفید کا غذ پر ایک اچوڑی پٹی کی شکل میں محیط ہو گیا۔
بڑی ممانی کا کفن بھی میلا نہیں ہواتھا کہ سارے خاندان کو شجاعت ماموں کی دوسری شادی کی فکر ڈسنے لگی۔ اٹھتے بیٹھتے دلہن تلاش کی جانے لگی۔ جب کبھی کھانے پینے سے نمٹ کر بیویاں بیٹیوں کی بری یا بیٹیوں کا جہیز ٹانکنے بیٹھتیں تو ماموں کے لیے دلہن تجویز کی جانے لگتی۔’’ارے اپنی کنیز فاطمہ کیسی رہیں گی؟‘‘
’’ اچھا۔؟ ‘‘’’ واقعی۔؟‘‘
سفیدی خانۂ دل میں سیہ کاروں کے پھیریں گےنہیں منبر پہ واعظ پاڑ پر معمار بیٹھے ہیں
آج سے دس پندرہ برس کا ماجرا ہے، بحر ہند میں ایک جزیرہ تھا جو اب ناپید ہے، چاندنی رات تھی، سطح آب پر سکون مطلق طاری تھا اور اس سکون پر چاند اپنی شعاعیں ڈال رہا تھا، فضا میں خاموشی، بے پایاں سمندر، ڈراؤنی تنہائی، وحشت انگیز سکوت، کوئی صدا نہیں، کوئی اثر حیات نہیں، ایک غیر محدود مگر روشن تنہائی، ایک محشر سکون۔یہ عالم ہے، چاند خاموشی کے ساتھ گویا سوچ رہا ہے، موجیں بھی سوچ رہی ہیں، چاند کی کرنوں کے سیلان سے بچا ہوا سایہ سوچ رہا ہے، بادلوں کے منتشر ٹکڑے سوچ رہے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہوا، اس خاموشی کا بھید چپکے چپکے سمندر کے کان میں کہنا چاہتی ہے اور نہیں کہہ سکتی، سمندر کا سینہ سانس لینے کی کوشش کرنا چاہتا ہے۔ تمام موجودات میں گویا ایک کروٹ لینے خواہش معلوم ہوتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بے پایاں سستی اور سکوت میں اگر کہیں سے ذرا سی صدا بھی آجائے تو دنیا ہنس پڑے گی، اچھل پڑے گی۔
بدلی ہوئی ہے چرخ کی رفتار آج کلہو بند راست گوئی کا بازار آج کل
جب دن ڈھل جاتا ہے، سورج دھرتی کی اوٹ میں ہو جاتا ہےاور بھڑوں کے چھتے جیسی بھن بھن
میں اس نئی زندگی میں خاصا فٹ ہوگیا تھا، اس لیے کہ اب وہ سیٹ پر سے گھسی ہوئی پتلون میں نے ایک سائل کو دے دی تھی اور مارکیٹ کی دکانوں میں سجی رہنے والی کئی پتلونیں اب میری اپنی ملکیت تھیں اور پھر یہ کہ ٹریننگ اور کام کے دوران ہم کو عجیب و غریب قطع کی اور رنگوں کی یونیفارم پہننے کو ملتی تھیں، جن میں ہمارے رنگ و روپ تو خاصے چمک جاتے تھے لیکن ان کو پہن ...
’’اے دیکھ تو ان موٹے مسٹنڈے خانوں کو۔ پھوٹیں ان کے دیدے۔ ادھر دیکھ دیکھ کر کیسے ہنس رہے ہیں!‘‘نسیمہ نے نگاہ موڑی دیکھا کہ کئی خان اپنے چھجے پر دانت نکالے اس کی طرف گھور رہے ہیں۔ نسیمہ کے ادھر دیکھتے ہی خانوں کی فوج میں ایک حرکت ہوئی اور وہ زور زور سے باتیں کرنے لگے۔ شکر تو یہ تھا کہ ان کا گھر ذرا ترچھا تھا لیکن پھر بھی سامنا خوب ہوتا تھا۔
جیسے ہی سکھوبائی کو میرے آنے کی خبر ملی فوراً ہاتھ میں دوچار مونگنے کی پھلیاں لیے آن دھمکی۔ ’’کیسا ہے بائی؟‘‘ اس نے رسماً میرے گھٹنے دبا کر پوچھا۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books