Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سون گڑیاں

الطاف فاطمہ

سون گڑیاں

الطاف فاطمہ

MORE BYالطاف فاطمہ

    تب وہ دن بھر کی تھکی ہاری دبے پاؤں اس کوٹھری کی طرف بڑھتی، جہاں دن بھر اور رات گئے تک کام خدمت میں مصروف رہنے کے بعد آرام کرتی، اور پھر ایک بار ادھر ادھر نظر ڈالنے کے بعد کہ آس پاس کوئی جاگتا یا دیکھتا تو نہیں، وہ کوٹھری کے کواڑ بند کرلیتی۔ طاق پر سے ڈبہ اٹھاتی اور کھول کر کوٹھری کے بیچوں بیچ دھردیتی اور پھر یکے بعد دیگرے گڑیاں نکل نکل کر اپنے اپنے کار سے لگ جاتیں۔ پہلے سقہ آتا اور پانی چھڑک جاتا۔ پھر خاکروب آتا اور جھاڑو لگاجاتا۔ فراش فرش بچھاتا، مسند تکیہ لگاتا۔ محفل سج جاتی، تب سون گڑیاں زرق برق لباسوں میں نمودار ہوتیں، اور رقص و سرود، ناؤنوش کی محفل درہم برہم ہوتی، اور جو جہاں ہوتا وہیں رہ جاتا۔

    تب وہ بی بی سروآہ بھرتی۔ گڑیوں کو سمیٹ کرڈبے میں رکھتی، اور کہتی، ’’جو بی بی تھی، لونڈی بنی، جو لونڈی تھی سو بی بی بنی۔‘‘

    تو میں بس یہ کہانی یہیں تک سن پاتا کہ بے سدھ ہوجاتا تھا۔ ہر رات میں نے اس امید پر یہ کہانی سننے کی ضد کی۔ کبھی تو سون گڑیوں کے انجام تک کہانی پہنچے گی ہی اور ہر رات میں اس بی بی کے اس فقرے تک پہنچتے پہنچتے قصہ کہانی اور پریوں کے اصل دیس یعنی خواب کی دنیا میں پہنچ جاتا۔

    اور اب ذہن میں اتنی دیکھی اور ان د یکھی، سنی اور اَن سنی کہانیاں گڈمڈ ہیں کہ میں خود یہ تمیز نہیں کرپاتا کہ ان میں سے کون سی کہانیاں میں نے سنی ہیں اور کون سی دیکھی ہیں۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میرے اندر اب حقیقتیں بھی کہانی بن کر آتی ہیں، اور اب میں نہیں کہہ سکتا کہ آگے جو بات میں بیان کروں گا وہ کس کہانی، کس داستان کا حصہ ہے۔ یہ کہانی اگر مجھے کسی نے نہیں سنائی، تو پھر یہ میرے اندر کہاں سے آئی ہے اور یہ قصہ میرے اندر کچھ اس انداز میں سراٹھاتا ہے۔

    ’’وہ کہ اس ویرانے میں دشت نوردی کرتا تھا، بھوک لگتی تو کھجور کے چند دانے نوش فرماتا اور چھاگل سے چند گھونٹ پانی لے کر حلق تر کرتااور پھر آسمان کی طرف منہ اٹھاکر دیکھتا ہی چلا جاتا کہ ایسے موقعوں میں آسمان اور بھی نیلا اور پراسرار نظر آتا ہے۔۔۔ پھریوں ہوا کہ ایک صبح وہ یونہی فرش ریگ پر پاؤں پھیلائے بیٹھا تھا کہ پچھم یعنی مغرب کی جانب سے ایک آہنی چڑیا پرواز کرتی ہوئی آئی اور حدنظر کے اس طرف ٹھہرگئی۔ پھر ایک مرد سفید فام گندم گوں بالوں اور کنجی آنکھوں والا اس کی طرف تیز قدموں چلتا ہوا آیا اور اس کی پھیلی ہوئی ٹانگ کو اپنی چھڑی سے چھوکر یوں گویا ہوا۔

    اے جوانِ رعنا! یوں ٹانگ پسار کر بے فکری سے بیٹھا ہے۔ اٹھ تیری دولت اس ریگزار کے قلب میں موجیں مار رہی ہے۔ اٹھ کہ تیری جبیں ستارۂ ہوش مندی۔۔۔ نہیں میں بھولا۔ ستارۂ مراد مندی سے دمک رہی ہے۔ اے حاتم! مژدہ ہو کہ تو دونوں ہاتھوں سے دولت لٹائے گا اور اپنے کاسہ لیسوں کی حرص و آزکا تماشہ کرے گا۔

    تب وہ جوان نہایت حقارت سے یوں گویا ہوا کہ تیری تمام باتوں سے جھوٹ اور مکر کی بُو آتی ہے۔ اول تو یہ کہ یہ عاجز عمر کے اس دور کو طے کرچکا ہے، جب کہ اس کو جوانِ رعنا کے لقب سے مخاطب کیا جائے۔ دوم یہ تو نے مجھے حاتم کے نام سے پکارا کہ حاتم نام کا ایک شخص ہوگزرا ہے۔ بہت پہلے قبیلہ طے میں کہ اس کی دادودہش کا چرچا سارے مشرق میں ہے۔ کہاں حاتم طائی، کہاں یہ عاجز و بے نوا، تب وہ سفید فام اس کی حقارت پر بڑے صبر سے مسکرایا اور گویا ہوا، مردِ دانا کی بات کو مان، چوں و چرا سے کام نہ لے۔ تیرے حصے کی دولت اور رعنائی کو ڈھونڈنا میرا کام ہے اور تیرا کام فقط اس کو دونوں ہاتھوں سے لٹانا اور اس درجہ پھینکنا ہے کہ حاتم طائی کو بھی شرمادے۔ تو مجھے فقط اتنی اجازت دے کہ میں تیری دولت کی تلاش میں کنوؤں میں بانس ڈالوں اور ان کو اچھی طرح کھنگالوں۔‘‘

    تو بس یہ کچھ اسی قسم کا قصہ تھا، جو کچھ دن سے میرے تحتِ شعور یا نہ معلوم کون سے شعور میں بھٹک رہا تھا۔ مگر ان دنوں کہ جب میں ابھی کالج میں زیر تعلیم تھا اور گریجویشن کی تیاری کر رہا تھا، میرے خیال میں کبھی نہ آتا تھا۔ اور پھر جب میں نے امتحان میں تھرڈ ڈویژن لی، جب بھی ذہن کے کسی گوشے سے کبھی اس گوشے نے سرنہ اٹھایا، تو خیر اس وقت کی بات اور تھی اور میرے ذہن و گمان میں بھی نہ تھا کہ میری یہ تھرڈ ڈویژن اونٹ کے گلے کی بلی بن جائے گی۔ پھر پے درپے مجھ پر یہ انکشاف ہوئے کہ کلرکی کی جس پوسٹ کے لیے میں نے درخواست خود ٹائپ کی تھی، اس کے لیے پانچ سوفرسٹ، بارہ سو سیکنڈ اور ہزاروں تھرڈ ڈویژن والے خواہاں تھے۔ چنانچہ اس پوسٹ کو اس لیے ابالش کردیا گیا کہ جب ایک انار سو بیماروں کی چارہ گری نہیں کرسکتا تو اس کو دریا برد کردینا ہی مناسب ہے۔

    کلرکی کی اس نایاب پوسٹ کے علاوہ میں نے بحری، بری اور فضائی افواج کی بھرتی کے دفاتر سے بھی ہر قسم کے فارم حاصل کرکے پرکیے تھے کہ سناتھا کہ یہاں بھرتی کا بازار گرم اور نفری کی مانگ شدید ہوتی ہے۔ مگر واے ناکامی اور ان دفاتر کے یکے بعد دیگرے کئی انٹرویو دینے کے بعد مجھ پر چند ضروری انکشافات ہوئے، یعنی یہ کہ میری نظرحد سے زیادہ کمزور ہے، اس لیے کم پاور والے بلب میں رات گئے تک غلط رخ بیٹھ کر پڑھنے کی بناپر میری عینک کے شیشوں کے نمبر نفی کی جانب زیادہ مائل ہیں۔ پھر یہ کہ میرا قد کافی چھوٹا نکلتا، یا پھر ضرورت سے زیادہ لمبا نکلتا۔ اسی طرح میراوزن بھی غیرمعتدل پایا گیا اور ان کے علاوہ جو میں نے پرائیویٹ انٹرویو دیے، ان کے نتائج حسب ذیل رہے :

    (۱) اس پوسٹ پر سلیکشن تو پہلے ہی ہوچکا تھا، اور یہ اشتہار تو فقط یہ جائزہ لینے کے لیے دیا گیا تھا کہ ملک میں بے روزگاری کے اعداد و شمار کیا ہیں۔

    (۲) آپ کو دھکادے کر اس دروازے میں داخل کرنے والا کوئی نہ تھا۔

    (۳) عرصہ تک بیمار رہنے کی بناپر آپ کے اعصاب مشتعل یا پھر مضمحل ہوچکے ہیں اور ایسی صورت میں ہم آپ کو ملک و قوم کی خدمت کا اہل نہیں سمجھتے۔

    خلاصہ یہ کہ ہمیں افسوس ہے۔

    اور واقعہ یہ ہے کہ افسوس تو مجھے بھی تھا کہ اب مجھ میں سوتیلے چچا کی وہ چبھتی ہوئی نظریں برداشت کرنے کی قوت بھی گھٹتی جارہی تھی۔ وہ مجھ پر اس لیے ڈالتے تھے کہ میرے دونوں ٹیوشنوں کی مجموعی آمدنی صرف تیس روپے بنتی تھی اور یہ کہ مکان کا سارا کرایہ ان ہی کو دینا پڑتا تھا۔ ہم نے بجلی کے بل بھی ایک مدت سے ادا نہیں کیے تھے اور سب سے زیادہ یہ کہ جب ہم ماں بیٹا ان ہی کی چھت تلے بیٹھ کر بغیر بگھری دال سے تندوری روٹیاں کھاتے تھے، تو ان کے وقار کو صدمہ پہنچتا تھا۔ چنانچہ وہ میرے دل سے بہی خواہ تھے اور یہ کہ دلی آرزو تھی کہ میرے کھانے میں کم سے کم ڈالڈا گھی ہی شامل ہو۔

    تو یہ ٹھیک ہی تھا کہ وہ ان دنوں میری ماں پر بری طرح گرجتے برستے تھے کہ اپنے ساتھ لڑکے کا دماغ بھی عرش معلی پر پہنچا رہی ہے اور جو یہ سوچو کہ میرے لڑکے کی برابری کرو، تو میرے لڑکے کی بات اور ہے۔ میں نے ان پر احسان کیا تھا۔ بس احسان ہی سمجھو۔ وہ احسان کی تفصیلات میں جانے والے تھے۔

    تو انہوں نے یہ گرماگرمی جن دنوں دکھائی، ان دنوں شہر میں ایک عجیب و غریب ہوٹل کھلنے والا تھا کہ اس کے متعلق جو بھی بات سنی، ایسی کہ یقین نہ آئے۔ ایسے جیسے احمقوں کی خیالی جنت کی بات اور چچا نے اپنی یا میری اس جنت کا ذکر کئی دن اس طرح لگاتار کیا کہ مجھے ان کی اور اپنی دونوں ہی کی دماغی صحت پر شک ہونے لگا اور پھر ایک دن وہ آیا کہ وہ میری ماں پر پچھلے تمام دنوں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر گرجے برسے، اور پھر انہوں نے ان کو دھمکی دی کہ عدم تعاون کی صورت میں ان کا آخری فعل یہ ہوگا کہ وہ ہمارا سامان اٹھاکر گلی میں پھینک دیں گے۔ چنانچہ پھر خشک ہونٹوں، سوکھی آنکھوں اور تھرتھراتے جسم کے ساتھ ماں نے عہد کیا کہ وہ جس بات میں ان کا تعاون مانگتے ہیں، وہ ان کو ملے گا۔ البتہ بات تو پتہ چلے کہ کیا ہے۔

    چنانچہ وہ بات یہ پتہ چلی کہ بھرتی ہونے کے بعد میں اپنا چھوٹا سا ٹرنک اٹھاکر تیز گام کی تلاش میں اسٹیشن کی جانب روانہ ہوا، تاکہ بڑے شہر جاکر اس بڑے ہوٹل میں ویٹر اور بٹلر کی باقاعدہ تربیت لینے اور بحیثیت اپرینٹس کام کرنے کے بعد یہاں واپس آکر اپنے اس معزز عہدے کا چارج سنبھالوں کہ ایک تھرڈ ڈویژن میں پاس گریجویٹ تو اس تنخواہ کا تصور خواب و خیال میں بھی نہیں کرسکتا۔

    تب میں نے اس شہر کی جاگتی جگاتی راتوں میں بارہا سون گڑیوں کی کہانی کو نہیں معلوم کہ سنا، دیکھا یا سوچا تھا اور میرا خیال تھا کہ یہ سون گڑیاں اور ان کا خیال مجھے فقط اسی شہر کی روشن راتوں میں ستاتا ہے، جس کی سڑکیں اور شاہراہیں دن کو نسبتاً خاموش اور چپ چاپ نظر آتی ہیں۔

    میں اس نئی زندگی میں خاصا فٹ ہوگیا تھا، اس لیے کہ اب وہ سیٹ پر سے گھسی ہوئی پتلون میں نے ایک سائل کو دے دی تھی اور مارکیٹ کی دکانوں میں سجی رہنے والی کئی پتلونیں اب میری اپنی ملکیت تھیں اور پھر یہ کہ ٹریننگ اور کام کے دوران ہم کو عجیب و غریب قطع کی اور رنگوں کی یونیفارم پہننے کو ملتی تھیں، جن میں ہمارے رنگ و روپ تو خاصے چمک جاتے تھے لیکن ان کو پہن کر ہم میں سے اکثر کو اپنے اسکول اور کالج کے دنوں میں مسخروں اور ا حمقوں کے وہ بہروپ اور لباس یاد آجاتے تھے، جن کو پہن کر ہم کالج اسٹیج پر دندناتے پھرتے تھے اور ناظرین پر اپنے ٹیلنٹ (TALENT) کی دھاک بٹھایا کرتے۔

    چند خر دماغ لڑکے ہمارے تربیتی گروپ میں ایسے بھی شامل تھے، جو اس رنگارنگ یونیفارم کو نہ پہننے اور محض سفید قمیص پتلون میں سروس کرنے پر مصر ہوئے۔ یہ ایک اچھا خاصا ہنگامہ رہا، تاوقتیکہ ان کے ہاتھ میں برخواستگی کے پروانے نہ تھمادیے گئے۔ ہم جیسوں نے ان کو حیرت کی نظر سے دیکھا کہ وہ اپنی مارکیٹ سے خریدی پتلونوں کے بنڈل سمیت اس وسیع و عریض شہر کی سڑکوں پر دھکے کھانے روانہ ہوگئے۔

    توچنانچہ ایک دن ایسا بھی آیا کہ میں چند سوروپوں کے علاوہ کٹ پیس کے کئی اچھے ٹکڑوں اور احمد کے حلوے سمیت پھر اپنے شہر واپس آیا اور دوسرے دن اپنی والدہ سمیت اس موجودہ فلیٹ میں دوکمروں میں منتقل ہوگیا۔

    اس فلیٹ کے فرش صاف ہیں اور اس میں ایک نئے بنے ہوئے نعمت خانے میں کئی طرح کے کھانے کی چیزیں رکھی مل جاتی ہیں۔ دیوار میں جو الماریاں ہیں، اس میں سچ مچ کے کپڑے یعنی میرے اپنے خریدے اور سلوائے ہوئے لباس موجود ہیں۔ مگر اب قصہ یہ ہے کہ اب فرزانہ مجھ سے نہیں ملتی۔ پہلے وہ چچا کے گھر آتی تو میں اس کے ڈر سے اپنے پرانے جوتے اور خستہ کوٹ چھپاتا پھرتا تھا اور اب تو میرے دوجوڑے جوتے سامنے ہی شوریک پر رکھے رہتے ہیں اور میرا اور کوٹ سامنے کھونٹی پر ٹنگا ہوا ہے۔ مگر وہ مجھ سے بدستور ناراض ہے۔

    وہ مجھے کہتے ہیں اس سے بازآؤ میں تمہیں سون گڑیوں کی کہانی سناؤں۔ مگر یہ کچھ ایسا چلتا پھرتا وقت ہے کہ کون کسی کی سنتا ہے اور کون سننے کے قابل بات بولتا ہے۔ اور اب تو مجھے اتنی بھی تمیز نہیں کہ کون سی کہانی سنی تھی، کون سی دیکھی تھی، اور کون سی خود سوچی تھی۔ زندگی کی رواروی میں ساری کہانیاں گڈمڈ ہو رہی ہیں اور ہم صبح سے رات تک مختلف شفٹوں کی شکل میں رنگ برنگی مسخری مسخری وردیوں میں بے تحاشا کھانوں سے لبریز ظروف سے لدی پھندی میزوں کے ارد گرد منڈلاتے اور کھانے والوں کو چندھیاتے رہتے ہیں کہ کس طرح اپنے دس روپے فی کس کو زیادہ سے زیادہ وصول کرلیں۔

    ہم یہاں کھانے والوں کو چندھائیں، یا پھر ان کے سامانوں اور مقفل کمروں کے رکھ رکھاؤ کا خیال رکھیں، جوادھر سوئمنگ پول کے ادھر ادھر رنگ برنگی کرسیوں پر کم لباسی اور بے فکری کے ساتھ دھوپ میں پڑے (TAN) ہو رہے ہیں، یعنی اپنے آپ کو بھورا کر رہے ہیں، مگر کیوں؟ گندم گوں بالوں، کنجی آنکھوں والے سفید فام کس خبط میں مبتلا ہیں؟ میں نے ابھی ابھی سوچا تھا، اور ساتھ ہی میرے ذہن میں وہ کہانی ابھری ہے۔ میں اور میرے ساتھی جو ہر وقت اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کبھی کہیں ان میزوں پر آکر وہ لوگ نہ بیٹھ جائیں، جو ہمارے ہم جماعت، ہم پیالہ وہم نوالہ ہواکرتے تھے، تو پھر اس خیال سے بچنے کے لیے ہم خوب سوچتے ہیں، حتی کہ چیزیں جو ہمیں پکڑائی جاتی ہیں، ہمارے ساتھیوں سے پھسل پھسل جاتی ہیں۔

    تو چنانچہ پھر وہ کہانی یوں گڈمڈ ہوئی کہ ان دنوں میں حاتم دوراں کی آمد آمد کا غلغلہ بند ہوا کہ اس کو کسی مردِدانا نے مژدہ دیا تھا اور دولت کو دونوں ہاتھوں سے لٹانے کی تلقین کی تھی۔ پھر اس کا شکار یہ ٹھہرا کہ سردیاں گرم مشرقی علاقوں کے سیر و شکار میں گزرتیں اور گرمیاں ارضِ مغرب کے نشاط خانوں میں اور باقی وقت اسی ویرانے میں شکرے سے چڑیوں کے شکار میں گزرجاتا لیکن اس کے اردگرد لوگ جمع رہتے کہ وہ اہل طمع کا تماشا کرے۔

    چنانچہ وہ جوانِ رعنا کہ اپنی عمر کے چالیس سال سے اوپر کئی سال گزار چکا تھا، آیا اور بڑی شان سے آیا تھا، اس نے اہل طمع کا تماشہ کیا اور ہم نے اس کا اور سب کا تماشہ کیا کہ اس دور کے حاتم کا دستور بھی نیا تھا۔

    کہ جس کے پاس ہے اس کو دیا جائے گا۔

    چنانچہ جس کے پاس تھا، انہوں نے اس کے گرد حلقے کو تنگ کیا اور پھر اس حلقے میں سون گڑیوں کا عمل دخل ہوا کہ نئے حاتم کے اردگرد حلقہ ڈالنے والوں اور مصاحبین کو محفل طرب بھی جمانا تھی۔

    چنانچہ سون گڑیوں کی کہانی میرے ذہن میں یوں گڈ مڈ ہوئی کہ اب آدھی رات کو کوئی بی بی ڈبہ نہ کھولتی۔ بلکہ یوں ہوتا کہ آدھا پہردن گزارنے کے بعد ہم ازسرنو میزیں سجاتے۔ پھول دانوں کے پھول بدلتے، مشروبات کے دور تیار کرتے اور تب وہ مردِ حاتم اور اس کے ساتھی نیچے آتے اور سون گڑیاں از خود نظر فریب اور دلربا لباسوں میں آکر اس کے گرد گھیرا ڈال لیتیں اور اس حلقے کے باہر ایک اور گھیرا تیار ہوتا کہ وہ اہل غرض اور اہل طمع اور مردِحاتم کے ساتھی سون گڑیوں کے ساتھ ہنگامہ وناؤنوش تیار کرتے، اور اچھا وقت گزارتے اور اچھا ہاتھ مارتے۔ یہ سب کچھ ہوتا مگر مردِحاتم اس سب کے عین وسط میں ایک ننھے سے نیوکلس کے مانند تنہا اپنے گرد عملِ ضربی کو تیزی سے مصروف کار دیکھتا، تماشہ کرتا، اور مسکراتا کہ اس کا کام اور مقصد ہنگامہ ناؤ ونوش برپا کرنا تھا، بلکہ اہل غرض کا تماشا کرنا تھا اور سون گڑیوں کی بے بضاعتی پر مسکرانا تھا کہ وہ اہل غرض اور اس کے مصاحبین کے درمیان وسیلہ بن کر اپنے آپ میں بہت بالا تھیں۔

    کہانی جب یوں گڈمڈ ہوتی، تو میں اپنے ساتھی کو کہ میں اور وہ مرد حاتم کی شب و روز خدمت پر مامور ہوئے تھے کہتا، دوست میں تم کو ان گڑیوں کی کہانی نہیں سناسکتا، جو آدھی رات کو ٹین کی صندوقچی سے نکل کر محفل طرب جماتی تھیں۔ اب تم ان سون گڑیوں کو دیکھو کہ دن کے اجالے اور شام کے جھٹپٹے میں بے محابا محفلیں برپا کرتی ہیں اور کسی کو ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ ادھر ادھر دیکھ کر اطمینان کرے کہ کوئی دیکھتا تو نہیں، اور یوں میرے ذہن میں ان سنی کہانی ابھرتی کہ مجھے اعتراف ہے کہ دادو ہش کے اس سلسلے میں میرا بھی حصہ رہا اور میری ساری جیبیں بہت گرم رہنے لگیں۔ تب ہم نے ایک اور فلیٹ بدلا اور میں نے اور میری ماں نے سوتیلے چچا سے یوں ترک تعلق کیا کہ مبادا وہ اپنے اس احسان کے بدلے چکانے ہمارے پاس آجائیں، جو انہوں نے آخری مرتبہ ہنگامہ کرکے مجھے یوں فٹ کرواکر کیا تھا۔

    لیکن فرزانہ کا معاملہ قدرے پیچیدہ تھا کہ ہمارے نئے فلیٹ میں پہنچنے کے بعد اس کے رویہ میں نرمی آگئی تھی اور اس نے بار بار یہ کہنا چھوڑ دیا تھا، ’’مگر تمہاری عزت کیا ہے۔‘‘ اب تو کئی بار وہ خود مجھ سے ملنے آئی تھی، مگر قصہ یہ ہے میں نے سون گڑیوں کی کہانی ’’چشم دید‘‘ طور پر دیکھی اور ان کی قوتوں اور بالادستی کا نظارہ کیا۔ اب مجھے صبح کا ستارہ ڈوبنے سے پہلے ٹین کی پٹاری کو بند کرتے کرتے۔۔۔ جو رنڈی تھی سو بیوی بنی، جو بیوی تھی وہ باندی بنی۔۔۔ کہنے والی خاتون سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ میرا اور میرے تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے والے تمام دوستوں کا فیصلہ یہی تھا کہ اس ڈگری اور ایسی احمق خاتون کہ بیوی سے لونڈی بن جائے، کے مقابلے میں سون گڑیاں بدرجہا بہتر ثابت ہوتی ہیں۔

    مگر یہ رموز فرازانہ جیسی لڑکیوں کے کب سمجھ میں آسکتے ہیں کہ صبح صبح کالی نقاب منہ پر ڈال کر اور داہنے ہاتھ میں نوٹس کی کاپی اٹھاکر وہ اپنے مستقبل کے اجالوں کی تلاش میں بسوں کے دھکے اور کنڈکٹروں کی گھڑکیاں کھانے گھر سے نکل پڑتی ہیں۔

    جب کہ سون گڑیوں کی بات اور ہے۔ میں ایسی ہی ایک پٹاری کی تلاش میں ہوں کہ جس میں ایک یا کئی سون گڑیاں بند ہوں۔

    مأخذ:

    پاکستانی کہانیاں (Pg. 89)

      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2000

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے