aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "सरश्क-आलूदा"
نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگاقیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
تری رحمت کے موتی بن کے برسے جب کبھی برسےسرشک آلود عصیاں کار کا داماں نہیں ہوتا
خوں پتھر پہ سرک آیاگہرا نیلا رنگ ہوا میں ڈوب گیا
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابیافق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
’’انہیں کپڑے پہنا دو۔‘‘ میرا دل بار بار صدا دیتا ہے لیکن میری کوئی نہیں سنتا۔ لوگ میری بات اس لیے نہیں سن سکتے کہ انہیں باتیں کرنے کا بہت شوق ہے۔ کچ، کچ، کچ، وہ باتیں کیے جا رہے ہیں۔ ملی جلی آوازوں میں دنیا زمانے کی باتیں کیے...
سمندر پھلانگ کر ہم نے جب میدان عبور کیے تو دیکھا کہ پگڈنڈیاں ہاتھ کی انگلیوں کی طرح پہاڑوں پر پھیل گئیں۔ میں اک ذرا رکا اور ان پر نظر ڈالی جو بوجھل سر جھکائے ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے تھے۔ میں بے پناہ اپنائیت کے احساس سے لبریز...
ننھا رام۔ ننھا تو تھا، لیکن شرارتوں کے لحاظ سے بہت بڑا تھا۔ چہرے سے بے حد بھولا بھالا معلوم ہوتا تھا۔ کوئی خط یا نقش ایسا نہیں تھا جو شوخی کا پتہ دے۔ اس کے جسم کا ہر عضو بھدے پن کی حد تک موٹا تھا۔ جب چلتا تھا...
شام کی سرمئی زلفیں آسمان کی بے کراں وسعتوں میں لہرا گئیں۔ وہ اپنے مکان سے باہر نکلا۔ اس نے تنگ و تاریک اور غلیظ گلی کی نانک شاہی اینٹوں کی بنی ہوئی اونچی دیواروں کے بیچ میں سے دم بدم چمک کھوتے ہوئے عمیق آسمان کی جانب دیکھا۔ آڑی...
گھر میں بڑی چہل پہل تھی۔ تمام کمرے لڑکے لڑکیوں، بچے بچیوں اور عورتوں سے بھرے تھے۔ اور وہ شور برپا ہو رہا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اگر اس کمرے میں دو تین بچے اپنی ماؤں سے لپٹے دودھ پینے کے لیے بلبلا رہے ہیں...
کشمیری گیٹ دہلی کے ایک فلیٹ میں انور کی ملاقات پرویز سے ہوئی۔ وہ قطعاً متاثر نہ ہوا۔ پرویز نہایت ہی بے جان چیز تھی۔ انور نے جب اس کی طرف دیکھا اور اس کو آداب عرض کہا تو اس نے سوچا، ’’یہ کیا ہے۔۔۔ عورت ہے یا مولی۔‘‘ پرویز...
اسکول کے تین چار لڑکے الاؤ کے گرد حلقہ بنا کربیٹھ گئے۔ اور اس بوڑھے آدمی سے جو ٹاٹ پر بیٹھا اپنے استخوانی ہاتھ تاپنے کی خاطر الاؤ کی طرف بڑھائے تھا کہنے لگے، ’’بابا جی کوئی کہانی سنائیے!‘‘ مردِ معمر نے جو غالباً کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔...
پچھلے دنوں میری روح اور میرا جسم دونوں علیل تھے۔ روح اس لیے کہ میں نے دفعتاً اپنے ماحول کی خوفناک ویرانی کو محسوس کیا تھا اورجسم اس لیے کہ میرے تمام پٹھے سردی لگ جانے کے باعث چوبی تختے کے مانند اکڑ گئے تھے۔ دس دن تک میں اپنے...
میدان بالکل صاف تھا مگر جاوید کا خیال تھا کہ میونسپل کمیٹی کی لالٹین جو دیوار میں گڑی ہے، اس کوگھور رہی ہے۔ بار باروہ اس چوڑے صحن کو جس پر نانک شاہی اینٹوں کا اونچا نیچا فرش بنا ہوا تھا، طے کرکے اس نکڑ والے مکان تک پہنچنے کا...
وہ اچانک راہ چلتے مل گئی تھی۔ اور جس طرح گڈھے کا پانی پاؤں رکھتے ہی میلا ہو جاتا ہے اسی طرح......
رات کی تھکن سے اس کے شانے ابھی تک بوجھل تھے۔ آنکھیں خمار آلودہ اور لبوں پر تریٹ کے ڈاک بنگلے کی بیئر کا کسیلا ذائقہ۔ وہ بار بار اپنی زبان کو ہونٹوں پر پھیر کر اس کے پھیکے اور بے لذّت سے ذائقے کو دور کرنے کی کوشش کر...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books