Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دودھ بھری گلیاں

بلونت سنگھ

دودھ بھری گلیاں

بلونت سنگھ

MORE BYبلونت سنگھ

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو بہت غلیظ ہے اور شہر کے پرانی گلیوں میں گھومتا پھرتا ہے۔ وہاں اسے ایک سفید بزرگ دکھائی دیتا ہے، جو اس کی غلاظت کو دیکھ کر اسے گندی گندی گالیاں بکتا ہے۔وہ کسی گالی کا جواب نہیں دیتا۔ اس پر سفید بزرگ غصہ ہوکر اسے اتنا مارتے ہیں کہ خود ہی تھک کر چور ہو جاتے ہیں، لیکن اسے کچھ اثر نہیں ہوتا۔

    شام کی سرمئی زلفیں آسمان کی بے کراں وسعتوں میں لہرا گئیں۔

    وہ اپنے مکان سے باہر نکلا۔ اس نے تنگ و تاریک اور غلیظ گلی کی نانک شاہی اینٹوں کی بنی ہوئی اونچی دیواروں کے بیچ میں سے دم بدم چمک کھوتے ہوئے عمیق آسمان کی جانب دیکھا۔ آڑی ترچھی سرخ لکیرو ں کے باعث آسمان کا چوڑا سینہ تلواروں اور چھریوں کے گھاؤ سے معمور دکھائی دیتا تھا۔

    بچھو کے ڈنک کی طرح پیچ و تاب کھاتی ہوئی یہ گھناؤنی گلی نہ جانے کہاں سے کہاں کو چلی گئی تھی۔ یوں جان پڑتا تھا جیسے دیواروں کی اینٹیں کبھی خوب بڑی بڑی اور سونے کی بنی ہوں گی۔ لیکن اب سونا غائب تھا مٹی باقی بچ گئی تھی۔ اینٹیں جیسے صدیوں کے بوجھ تلے دب، گھٹ اور پچک کر رہ گئی تھیں۔ دیواروں پر کائی پھوٹ آئی تھی جو کبھی خوشنما سبز رنگ کی تھی۔ لیکن اب اس کی تہہ کھجلی کے مارے ہوئے کتے کی کھال کے مانند دکھائی دیتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی اینٹیں نمناک اور ناہموار تھیں اور ان کے بیچ میں تھپے ہوئے بوسیدہ پلستر میں صدہا سپید سپید کیڑے اوپر تلے کلبلاتے رہتے تھے۔ گلی کا فرش بھی نانک شاہی اینٹوں کا بنا ہوا تھا۔ ان کی دراڑوں میں سے مٹیالا اور بدبو دار پانی رستا رہتا تھا جس میں آفتاب عالمتاب کی کرنیں منعکس ہونے کی ناکام کوشش کیا کرتی تھیں۔ اس دھندلی فضا میں نالیوں کا سرسراتا ہوا پانی یوں دکھائی دیتا تھا جیسے گوبر اور مٹی ملا پارہ، بیسیوں قسم کے حشرات الارض دم بھر کو سطح آب سے اوپر اٹھتے اور ڈبکی لگا جاتے۔ بعض منچلے نالی سے باہر رینگ آتے۔ ایک لمحہ کے لیے ارد گرد کا جائزہ لیتے اور پھر عجب شان بے اعتنائی اور روکھے پن سے منہ کو موڑ کر پانی اندر سرک جاتے۔

    سنسان گلی کے مکانوں کے دروازے زیادہ تر بند اور بعض نیم وا تھے۔ یہ مقام طلسم ہو شربا کے کسی شہر کا ایک حصہ دکھائی دیتا تھا جس پر کسی جادو گر نے سحر کر دیا ہو یا جہاں آدم خور دیو کی آمد کا خدشہ ہو یا جس کی گلیوں میں گھڑی بھر پہلے جادو کا بدمست بیل نتھنوں سے شعلے اڑاتا گزر گیا ہو۔

    تاریک ڈیوڑھی سے باہر نکل کر اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائیں۔ اس کا قد میانہ تھا۔ بدن اکہرا، جسم کا رنگ ہلکا سرمئی، جلد مینڈک کی کھال کے مانند چکنی، آنکھیں بے حس و جامد لیکن ان میں عجیب قسم کا تجسس اور تیزی بھی تھی۔ وہ بے داغ سفید لباس زیب تن کیے تھا۔ اس نے ہاتھوں کو تیزی کے ساتھ ملا۔ ہونٹوں کو سکیڑ سکیڑ کر مسوڑھوں کو صاف کیا۔ اس کے سرخ مسوڑھوں میں سفید دانت آبدار خنجروں کی طرح چمک اٹھے۔

    ڈیوڑھی کے دروازے کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے دو چبوترے بنے تھے۔ اس نے سرسری انداز سے ان کی طرف دیکھا پھر اس نے بے چینی سے کھڑے کھڑے پاؤں کو تیزی سے حرکت دی۔ پیشتر اس کے کہ وہ نیچے اتر کر روانہ ہو اس کی نگاہ ایک آدمی پر پڑی جو پرچھائیں کی طرح گلی کی دیوار کے ساتھ چلا آ رہا تھا۔

    اسے نو وارد کی صورت سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ وہ رک کر اسے بڑے غور سے دیکھنے لگا۔

    گلی کی بدبودار خنک فضا میں اجنبی نمدار، غلیظ اور بوسیدہ دیوار کے ساتھ کندھا بھڑاتا چلا آ رہا تھا۔ وہ قد آور انسان تھا فاقہ زدہ ہونے کے باوجود ا س کے پھیلے پھیلے ڈیل ڈول اور بڑے بڑے ہاتھ پاؤں سے ظاہر ہوتا تھا کہ اگر اسے پیٹ بھر کھانے کو ملے تو وہ مردانہ وجاہت کا بہت اچھا نمونہ بن جائے۔ اس کی داڑھی بڑھ آئی تھی، آنکھیں بے رونق، لب خشک اور بال بکھرے ہوئے تھے جو کپڑے اس نے پہن رکھے تھے انھیں لباس کہنا بھی لفظ لباس کی توہین کرنا تھا۔ اس کے جسم کا بیشتر حصہ ننگا تھا۔ میلے کچیلے بدبودار چیتھڑے لٹکائے۔ نظر زمین پر گاڑے ماحول سے غافل وہ لپکتا چلا جا رہا تھا۔ دفعتاً فضا میں ’’ابے کون ہے تو؟‘‘ کی آواز گونجی اور نو وارد چوہے کی مانند ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ جب اس نے سفید پوش کی سانپ کی سی آنکھیں دیکھیں تو اس کی مسکینی اور بھی بڑھ گئی۔ اس نے ڈرے ہوئے کتے کی طرح دانت دکھائے۔

    دونوں پاس پاس کھڑے تھے۔ سفید جی نے اینٹھ کر دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں کولھوں پر جما رکھی تھیں۔ نو وارد بے طرح سہما ہوا تھا، اس کا سر نیچا ہو گیا تھا۔ وہ کن انکھیوں سے ڈر ڈر کر سفید جی کی طرف دیکھتا تو اس کے دیدوں کی پھیکی نمائش سے اس کی بیچارگی کا احساس اور بھی بڑھ جاتا۔ ا س کے جسم کی رگ رگ کپکپا رہی تھی۔ اس کی گرد آلود پیشانی اور گردن پر پسینے کی ہلکی سی تہہ نے اسے اور بھی مکروہ اور قابل نفرت بنا دیا تھا۔

    ’’بولتا کیوں نہیں سو نور کے بچے؟‘‘

    ’’م میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘

    ’’میں میں کے بچے۔۔۔ بھنچھو‘‘ سفید جی کا چہرہ تمتما اٹھا۔ کتے کے پلے۔۔۔ حرامی کے بچے۔۔۔ تیری اماں کی۔۔۔

    سفید جی نے ہاتھ بڑھایا اور اس کی لجلجی انگلیاں جو در حقیقت بے حد سخت اور طاقتور تھیں۔ نو وارد کی گردن پر کس گئیں۔ ان کی گرفت میں اس کی گردن اور چہرے کی رگیں پھٹ جانے کی حد تک پھول کر دمکنے لگیں۔ آنکھیں ابل پڑیں اور زبان پانی میں بھیگی ہوئی ڈبل روٹی کی طرح محسوس ہونے لگی۔ اس نے ابروؤں اور آنکھوں کے اشاروں سے سمجھایا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کی حرکات مظلومانہ کے ساتھ ساتھ بڑی مضحکہ خیز بھی معلوم ہوتی تھیں۔ دم بھر کو موقع ملا تو اس نے کہا ’’ہجور! آپ مائی باپ ہیں۔ میں بوہت گریب اور مسکین ہوں۔ آپ کے پاؤں پر سر رکھ کر پرارتھنا کرتا ہوں کہ مجھے اپنی نجر سے دور ہٹ جانے کا موکا دیجئے۔۔۔‘‘

    سفید جی نے زناٹے کا تھپڑ اس کے دائیں گال پر ریسد کیا۔ پھر بائیں پر۔۔۔ پھر دائیں پر۔۔۔ پھر۔۔۔ غرض پے در پے تھپڑوں کی بوچھار سے اس کا بےخون کا چہرہ پہلے سرخ ہوا اور پھر نیلا پڑ گیا۔

    ’’سالے! ہمارے منہ لگتا ہے؟ تیری لونڈیا کو۔۔۔ بد کے تخم۔۔۔ تجھ ایسے انسانوں کو میں خوب جانتا ہوں۔ اڑتی چڑیا پہچانتا ہوں۔ بیل کی صورت! چمار! کہاں کام کرتا ہے؟ کسی کھیت میں یا کارخانے میں۔۔۔؟‘‘

    ’’بیل کی صورت‘‘ نے ہکلا کر کچھ کہنا چاہا تو اس نے اس کے دونوں کانوں کو چٹکیوں میں لے کر انھیں پوری قوت سے کھینچا اور مسلا اور پھر ان میں اپنے ناخن گڑو کر انھیں چھیل ڈالا اور دانت پیستے ہوئے چلایا۔ ’’حرام خور! مفت کی کھا کھا کر سرکاری سانڈ ہو گیا ہے۔ سالو! تم زمین کا بوجھ ہو۔ تم سب کو قطار میں کھڑا کر کے گولی سے اڑا دینا چاہیے۔۔۔ تیرے ایسے گریبوں اور مسکینوں کی رگوں سے خوب اچھی طرح واقف ہوں میں۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے اس کے بڑھے ہوئے بالوں کو مٹھی میں دبوچ کر اس زور سے کھینچا کہ ان میں سے بیشتر جڑ سے اکھڑ گئے۔۔۔ اس سے اسے نئی بات سوجھی۔ اس نے اس کی پلکوں کے بال نوچنے شروع کر دیئے۔ ’’ارے یہ کیا چھپا رہے ہو۔۔۔ ہٹاؤ ہاتھ‘‘

    یہ کہہ کر اس نے اس کے چیتھڑوں میں ہاتھ ڈالا۔ دو تین گندی پوٹلیاں دکھائی دیں جنھیں زور سے کھینچا تو وہ کھل گئیں اور مٹھی بھر چاول، تھوڑا سا آٹا اور دال کے چند دانے گلی میں بکھر گئے۔ نو وارد دھڑام سے ان پر گر پڑا اور وحشیانہ انداز سے دانہ دانہ چننا شروع کر دیا۔۔۔ یہ دیکھ سفید جی غصے کے مارے کانپنے لگا۔ ’’ارے بھوتنی پلستر! تو کہتا تھا گریب ہوں مسکین ہوں آخر یہ اناج کہاں سے لایا۔ اتنا کھاتے ہو، جبھی تو اتنی بڑی لاش ہوگئی ہے تمہاری۔ لیکن نیت نہیں بھرتی۔ یہ چاول، دال اور آٹا کیااپنی ماں کے لیے لے جا رہا تھا۔۔۔ ہاں بھوتنی کے تو تو یہی کہےگا کہ اماں کے لیے ہی لے جا رہا ہوں۔۔۔ سالے کھاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔۔۔‘‘

    وہ سالا بدذات اناج کے دانے چننے کے لیے زمین پر جھکا ہوا تھا۔ سفید جی نے اس کے چہرے پر زور سے لات رسید کی جس سے اس کے اگلے چار دانت ہل گئے۔ پھر اس نے گھونسوں کی بوچھاڑ کر دی۔ یہاں تک کہ بد ذات کا چہرہ ٹماٹر کی طرح پلپلا ہو گیا۔ ’’جھین پود! چادر مود! گو کے گیڑے۔۔۔ بد ذات کے پلے !!‘‘ سفید جی کے منہ سے کف اڑ رہی تھی وہ بری طرح سے ہانپ رہا تھا۔

    زور کی ٹھوکر کھا کر الّو کا پٹھا سر کے بل نالی میں گر پڑا۔ سفید جی ناک اور منہ دونوں سے سانس لے رہا تھا۔ پھر اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے فضا ہوا سے یکسر خالی ہو گئی ہو۔

    ’’گلی کی دھندلی اور اداس فضا میں اس کا دم گھٹ سا رہا تھا۔ پھر اس نے قہر آلود نگاہوں سے جھین پود کی جانب دیکھا۔۔۔ یہ سب اسی کا قصور تھا۔ سالا، کتا! سور کی اولاد۔‘‘

    قریب تھا کہ وہ اس پر پھر پل پڑے۔۔۔

    دیواروں اور فرش کی اینٹیں یکے بعد دیگرے گلی کے موڑ تک پہنچ کر افق میں گم ہوئی ریل گاڑی کے ڈبوں کے مانند دکھائی دیتی تھیں151 وہ ڈبے جو آندھی کی رفتار سے اڑے جا رہے ہوں۔ موڑ پر پہنچ کر ان کے نقوش بےحد مبہم ہو گئے تھے۔ ان پر اڑتی ہوئی سیاہی انجن میں نکلنے والے دھوئیں کے مرغولوں کے مانند دکھائی دیتی تھی۔ گلی کے موڑ سے معاً ایک چھوٹی سی لڑکی نمودار ہوئی۔۔۔ بڑی عجیب بات تھی۔ آندھی کے رخ کے برعکس روئی کاایک گالا بڑی سبک رفتاری سے چلا آ رہا تھا۔۔۔ بچی نے ان دونوں کو دیکھا تو کھٹ سے رک گئی۔ وہ روکھے سوکھے بالوں اور کچوری سے گالوں والی بھولی بھالی معصوم بچی تھی۔ اس کے ہاتھ میں کانسی کا کٹورا تھا۔

    سفید جی نے اسے دیکھا تو دفعتاً صورت بگڑ گئی ناک کے قریب سے سر تک تین گہری گہری لکیریں نمودار ہوئیں آنکھوں کی پتلیاں کھٹ سے ناک کی جڑ کے قریب پہنچ گئیں۔ باچھیں چر گئیں۔ اس کے ’’کتا دانت، نمایاں ہو گئے اور اس کی سانپ کی سی جامد، مقناطیسی آنکھیں بچی کے چہرے پر جم گئیں۔ اُدھر بچی کے پاؤں زمین میں گڑ گئے اور اس کی آنکھوں میں انتہائی خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو گئی۔‘‘

    سفید جی نے زخم خوردہ درندے کی طرح بڑی تیزی سے ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو بچی کا دل لرز اٹھا۔

    بالآخر سفید جی کو ایک سالم اینٹ مل گئی۔ جسے اٹھا کر اس نے جلدی سے نشانہ باندھا۔۔۔ بچی نے حلق کی پوری قوت سے ایک مہیب چیخ بلند کی اور کٹورے کو بے اختیار پرے پھینک بگولے کی سی تیزی کے ساتھ بھاگ نکلی۔ سالم اینٹ نے اس کا پیچھا کیا لیکن وہ بال بال بچ گئی البتہ مچھیرے کے جال کے مانند دور دور تک پھیلی ہوئی گلیوں میں سے ذبح ہوتے ہوئے بھیڑکے بچے کی سی دلدوز چیخوں کی بازگشت رہ رہ کر سنائی دیتی رہی۔۔۔ چیخوں کا درد و کرب کانسی کی لڑکتے ہوئے کٹورے کی غیر انسانی کھنکھناہٹ کے ساتھ گھل مل کر عجب دل کو دہلا دینے والا شور بلند کر رہا تھا۔۔۔ اس کے بعد یک لخت موت کا سناٹا طاری ہو گیا۔

    بہت دیر تک سفیدجی کی صورت مسخ رہی۔۔۔ لیکن رفتہ رفتہ اس کی بے حس اور بےکیف آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی رنگین دھاری نظر آنے لگی۔۔۔

    دائیں ہاتھ کو گلی کا موڑ تھا۔ موڑ سے اس طرف کو گلی کی دیواریں یوں کھلتی تھیں جیسے کسی پر اسرار اور سحر انگیز مقام میں داخلے کے لیے طلسمی اژدہا منہ کھولے ہر دیکھنے والے کو اندر داخل ہونے کی دعوت دے رہا ہو۔ گلی کے عین سامنے ایک بہت بڑی تاریک ڈیوڑھی کا بلند و عریض دروازہ حیرت سے کھلا تھا۔ اندر مکمل سیاہ بادل کی سی تاریکی کے بعد ہلکے رنگین خطوط حسین و دلکش زاویئے بناتے ہوئے ایک روشن دالان کے نور میں مدغم ہو رہے تھے۔ دالان بےحد صاف اور ستھرا تھا۔ وہاں پھولوں کے پودے اس قدر ساکت کھڑے تھے جیسے ان کے پھول اور پتیاں لعل و زمرد میں سے تراش کر بنائے گئے ہوں۔ بڑ کا ایک عظیم الشان پیڑصحن کے بیچوں بیچ ایستادہ تھا۔ اس کی سیدھی لٹکتی ہوئی ڈاڑھی ان جٹادھاری برہمچاری سنیاسیوں کی یاد دلاتی تھی جن کی آنکھیں انگارہ اور ان میں سلفے کا خمار و غبار نظر آتا ہے۔

    پیڑ تلے ایک عورت پاؤں کے بل اکڑوں بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی۔ اس کے گہرے بھورے بال سورج کی روشنی میں دمکتے ہوئے خشک بھوسے کی طرح انگارہ ہو رہے تھے۔ لیکن جو گھنی زلفیں سورج کی کرنوں کی براہ راست زد سے باہر تھیں۔ وہ اپنے گہرے پن کے باعث زعفران کے سائے کے مانند دکھائی دیتی تھیں۔ اس نے کمر کے گرد گہرے سرخ رنگ کا سالو لپیٹ رکھا تھا۔ بدن پر ایک ڈھیلی ڈھالی چولی تھی جس پر رو پہلے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ چولی اس قدر ڈھیلی تھی کہ نہ صرف اس کی اُجلی بغلوں میں سے بھٹے کے سے بالوں کے گچھے دکھائی دے رہے تھے بلکہ بغلوں کے آگے چولی کے ہلالی زاویے میں سے رانوں اور گھٹنوں کے دباؤ سے دودھیا پستان کے پچھلے حصے میں پیدا ہونے والے زیرو بم سے عجب مسحور کن سماں بندھ گیا تھا 151 کپڑوں سے فارغ ہو کر اس نے نہانے کے لیے پانی کی بالٹی قریب سرکائی۔ جب وہ بالٹی پر جھکی ہوئی تھی تو پانی میں پیدا ہونے والے روشنی کے دائرے اس کے بدن پر منعکس ہو رہے تھے۔ نور کے یہ دائرے گورے بدن کے نشیب و فراز سے گستاخیاں کرتے ہوئے ایک جانب لبوں اور دوسری طرف پاؤں کو چوم رہے تھے۔ اور پھر جب اس ’’کافرہ‘‘ پر شباب ’’سرکشوں‘‘ کو چولی کی قید سے آزاد کیا اور سالو بھی اتار پھینکا تو وہ سر تا پا بجلی کی قاش کی مانند بل کھا کر تڑپی اور یوں معلوم ہونے لگا کہ دالان اس کے غیر مرئی وجود سے منور وتاباں تھا اور جیسے وہ شعلے بھڑک کر اٹھےگا اور چشم زدن میں آسمانوں کی وسعتوں میں گم ہو جائےگا۔۔۔

    سفید جی کی پتلیاں آہستہ آہستہ گھو میں اور غلیظ کے چہرے پر جاکر رک گئیں151 دفعتاً اس کی صورت پہلے سے بھی زیادہ مسخ ہوگئی۔ ’’ابے تیری میا کی۔۔۔ سالے تو بھی دیکھتا ہے۔ کیا تیری آنکھیں اس کام کے لیے بنی ہیں۔۔۔ مدر چو۔۔۔ بھوتنی پتنگ۔۔۔ تو۔۔۔ ابے تو؟‘‘

    یہ کہہ کر سفید جی نے اسے گریبان سے پکڑ لیا اور گھیسٹ کر دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا اور فرمایا۔ ’’سیدھا کھڑا رہ۔‘‘

    غلیظ سیدھا کھڑا ہو گیا، سفید جی بہت دور سے لڑاکا مینڈھے کی طرح سر جھکا کر بگولے کی سی تیزی کے ساتھ آیا اور سر جھکا کر اچھلا اور سر پوری قوت سے مدرچو کے پیٹ میں دھانس دیا۔ نشانہ ٹھیک بیٹھا اور بھوتنی پتنگ درد سے دوہرا ہو گیا۔ سفید جی نے سیدھا کھڑا رہنے کا حکم صادر فرما کر پھر وہی عمل کیا۔ بار بار ٹکریں مارتا رہا۔ صورت اور زیادہ مسخ ہو گئی۔ بھوؤں کے بال بڑھ گئے اور موٹے ہو گئے۔ نتھنوں کے اوپر سے منہ کے دہانے تک پہنچنے والی لکیریں بہت گہری ہو گئیں۔

    سورج غروب ہو گیا تاریکی بڑھنے لگی۔

    سفید جی نے غلیظ جی کی باچھوں میں انگوٹھے ڈال کر اس کا منہ پھاڑ دینے کی کوشش کی۔ پھر اس سے گتھم گتھا ہوگئے۔ کبھی اسے گراتے کبھی پٹختے، کبھی چیختے۔۔۔ سفید جی کی صورت پہچانی نہیں جاتی تھی۔ کپڑے غلاظت میں لت پت ہوگئے تھے اور وہ کیچڑ میں نہائے ہوئے کچھوے کے مانند دکھائی دینے لگا۔ کان گدھے کے کانوں کے برابر ہو گئے۔ موسوڑھے اوپر کو اٹھ گئے، دانت لمبے ہو گئے، ناخن بڑھ آئے۔ اس نے ہر ممکن طریقے سے غلیظ جی کو مارا اور دانت پیس پیس کر کہا ’’میں تجھے مار ڈالوں گا۔۔۔ میں تجھے مار ڈالوں گا۔‘‘

    بالآخر اس نے غلیظ جی کو گلی کے فرش پر لٹا دیا اور کہا ’’اب میں چھت پر سے تجھ پر چھلانگ لگاؤں گا‘‘ اسے لٹا کر وہ ڈیوڑھی میں غائب ہو گیا، پھر چھت پر دکھائی دیا اور پھر اس قدر بلندی سے غلیظ جی کے پیٹ پر چھلانگ لگائی، پھر چھاتی پر، پھر گردن پر، پھر سر پر۔۔۔

    ہر طرف تاریکی چھا گئی تھی۔ متعدد چھلانگیں لگانے کے بعد سفید جی نے غلیظ کو اٹھایا۔ وہ سمجھا تھا کہ غلیظ کا بھرتہ نکل گیا ہوگا لیکن غلیظ بدستور سانس لے رہا تھا، آنکھیں جھپکا رہا تھا۔ اس پر سفید جی چلایا ’’ابے مدرچو۔۔۔ ابھی تو زندہ ہے؟‘‘

    اب سخت تاریکی میں جھکڑ سا چلنے لگا۔ غلیظ اٹل پہاڑ تھا اور سفید جی جواب غلیظ جی سے بھی زیادہ غلیظ دکھائی دیتا تھا اس پہاڑ سے ٹکریں مارنے والا شیطان! چیت، گھونسے، لاتیں، گالیاں سب کچھ فضا میں گونج رہا تھا۔ اب کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کون کس کو مار رہا ہے۔

    آخر سفید جی ڈھیلا پڑ گیا۔ اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ بازو لٹکنے لگے۔ آنکھیں پھٹ گئیں۔ ٹانگیں جھولنے لگیں۔ وہ غلیظ سے آنکھیں ملائے بغیر دونوں مٹھیاں بڑی نقاہت سے اس کے سینہ پر مارتے ہوئے بڑ بڑایا۔

    ’’نہیں۔ تم نہیں مرو گے، تم نہیں مر سکتے، تم کبھی نہیں مر سکتے۔‘‘

    اس کے گھٹنے آگے کو دھنس گئے اور وہ زمین پر اوندھے منہ گر پڑا 151

    مار کھا کھا کر غلیظ کا سر چکرانے لگا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی۔ پھر تاریکی میں بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔ ’’سفید جی آپ کہاں ہیں۔۔۔ آپ کہاں ہیں؟‘‘

    اس کا پاؤں کسی گول چیز پر پڑا اور وہ شے اس کے بوجھ سے چکنا چور ہو گئی۔

    اس نے جھک کر غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ سفید جی کا سر ہے اور ٹوٹی ہوئی کھوپڑی میں سے آنکھوں کی پتلیاں کانچ کی گولیوں کی طرح ادھر ادھر لڑھک گئیں۔ اسے بڑی حیرت ہوئی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ چشم زدن میں اتنا بڑا انقلاب آ جائےگا۔

    فضا میں کچھ مترنم صدائیں سنائی دینے لگیں۔ اس نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ تارے معصوم بچوں کی دھلی دھلائی آنکھوں کی طرح دمک رہے ہیں۔

    معاً رو پہلا چاند کالے بادل کے چنگل سے باہر نکل آیا اور مچھیرے کے جال کی مانند دور دور تک پھیلی ہوئی آڑی ترچھی گلیاں یوں دکھائی دینے لگیں جیسے وہ دودھ سے چھلکتی ہوئی نہریں ہوں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے