aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "aaq-naame"
جشن نامی کمیٹی، حیدرآباد
ناشر
اوم پرکاش نامی
مصنف
سید آقا حسن نامی
محفوظ الرحمٰن نامی
1911 - 1963
کتب خانہ شاہ نامہ اسلام،لاہور
او۔ پی۔ نامی
مترجم
نامی مطبع العلوم، مرادآباد
دفتر ہند نامہ، حیدرآباد
نظم نو پبلی کیشنز، کراچی
مکتبہ ناز برن، جامعہ نگر، نئی دہلی
ویسے بھی کون سی زمینیں تھیںمیں بہت خوش ہوں عاق نامے سے
نئے عہد کی طرح نئی غزل کو بھی کچھ لوگ پرانے عہد یا پرانی غزل کا جواب سمجھ بیٹھے تھے۔ مگراب اسے کیا کہا جائے کہ نئی غزل ابھی اچھی طرح نئی ہو بھی نہیں پائی تھی کہ پرانی دکھائی دینے لگی۔ ایک ایسی صنف جو ایک پوری تہذیب کے نقطہ کمال کی نشاندہی کرتی ہو، اس کا یہ حشر افسوسناک ہے۔ ہرتہذیب اپنے ایک خاص زاویے کے ساتھ اپنی جینیس کا اظہار کرتی ہے۔ یہ زاویہ اس ...
نجم الدولہ دبیر الملک نواب محمد اسد اللہ خاں بہادر عرف مرزا نوشہ المتخلص بہ اسدؔ ثم غالبؔ مرزا عبد اللہ بیگ عرف مرزا دولہا کے بیٹے اور غلام حسین کمیدان کے نواسے تھے۔ دادا کا نام فوقان بیگ تھا۔ چچا کا نام نصر اللہ خاں۔ پیدائش کا ’’تاریخاً‘‘ ۱۲۱۲ھ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سلجوقی، ایبکی، ترکمانی، تورانی، افراسیابی فریدونی اور جمشیدی ہے۔ سلجوقی بڑے پائے ک...
اکا دکا شعری تخلیقات کی روشنی میں جدیدیت کے اولین نشانات تلاش کئے جائیں تو تصدق حسین خالد، تاثیر، فراق، شاد عارفی، مجاز، جذبی، جاں نثار اختر، ساحر، کیفی، سلام مچھلی شہری، حتی کہ بیسوی صدی کے اوائل کے بعض شعرا کے یہاں بھی نئی شاعری کی خاموش دستک سنی جا سکتی ہے۔ یہ نشانات فی الواقع بعض شعرا کی ذاتی کدوکاوش کے مرہون منت تھے۔ ان کے پیچھے نئے نفسیاتی، ح...
زندگی کو نئے تجربوں کی راہ پر ڈالنا، بندھے ٹکے اصولوں سے انحراف کرکے زندگی میں نئی قدروں کی جستجو کرنا بت شکنی ہے۔
زمانے بیت گئے مگر محمد رفیع آج بھی اپنی آواز کی ساحری کے زور پر ہرکسی کے دل پر اپنی حکومت جمائے ہوئے ہیں ، ان کے گائے ہوئے بھجن ، اورنغموں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ آج ہم آپ کے لئے کچھ مشہورو معروف شاعروں کی ایسی غزلیں لے کر حاضر ہوئے ہیں جنہیں محمد رفیع نے اپنی آواز دی ہے اور ان غزلوں کے حسن میں لہجے اور آواز کا ایسا جادو پھونکا ہے کہ آدمی سنتا رہے اور سر دھنتا رہے ۔
نئے سال کے موقے پر ہم آپکے ساتھ چنندہ نظمیں ساجھا کر رہے ہیں۔
میر 18ویں صدی کے جدید شاعر ہیں ۔اردو زبان کی تشکیل و تعمیر میں بھی میر کی خدمات بیش بہا ہیں ۔خدائے سخن میر کے لقب سے معروف اس شاعر نے اپنے بارے میں کہا تھا میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی۔ ریختہ ان کے 20 معروف و مقبول ،پسندیدہ اور مؤقراشعار کا مجموعہ پیش کر رہاہے ۔ ان اشعار کا انتخاب بہت سہل نہیں تھا ۔ ہم جانتے ہیں کہ اب بھی میر کے کئی مقبول اشعار اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔اس سلسلے میں آپ کی رائے کا خیر مقدم ہے ۔اگر ہماری مجلس مشاورت آپ کے پسندیدہ شعر کو اتفاق رائے سے پسند کرتی ہے تو ہم اس کو نئی فہرست میں شامل کریں گے ۔ہمیں قوی امید ہے کہ آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہوگی اور آپ اس فہرست کو سنوارنے اور آراستہ کرنے میں معاونت فرمائیں گے۔
आक़-नामेعاق نامے
letter declaring forfeit of any inheritance-plural
انتخاب نظم راشد
سعادت سعید
نظم
شعلہٗ نم
عید نامہ
خواجہ حسن نظامی
چشم نم
اکرام جاوید
معاشرتی
فروغ مرثیہ
اصغر مہدی اشعر
سوانح حیات
معاصر تنقید
حامدی کاشمیری
کلیات نامی انصاری
جاوید ہاشم
ریت پر ایک نام (نظموں کا مجموعہ)
مجموعہ نظم آزاد
محمد حسین آزاد
آم نامہ
سہیل کاکوروی
مجموعہ
مجموعہ نظم حالی
الطاف حسین حالی
جلوۂ نمو
حرمت الااکرام
برائے نام
یوسف ناظم
نثر
جدید شاعرات اردو
طاہرہ پروین
شاعری تنقید
بوسۂ نم
لطف الرحمن
اک نئے شہر میںآ گیا ہوں
ایک نالے میں ساری رات گئیایک ہچکی میں کائنات گئی
لب پہ اک نام ہمیشہ کی طرحاور کیا کام ہمیشہ کی طرح
یہ بات اب واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ہماری غزل پر غالب کے بجائے میر کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ محض تنوع پسندی نہیں ہے۔ اب ہمارے غزل گو نئی ذہنی اور روحانی ضرورتیں محسوس کر رہے ہیں جو غالب کی شاعری سے پوری نہیں ہوتیں۔ اب ان کے سامنے ایسے مسئلے ہیں جنہیں میر نے زیادہ شدت سے محسوس کیا تھا اور ایک ایسا مزاج پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جو زندگی سے ہم آہن...
ابھی دو ایک مہینے ہوئے، میں نے ذکر کیا تھا کہ پچھلے دو تین سال کے عرصہ میں غزل پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مقبول ہو گئی ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے شاعروں کی ذہنی عادتوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں واقع ہوئی، نہ ان کے تجربات میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی ہے، اس لئے ادبی قدر و قیمت کے لحاظ سے بیشتر نئی غزلوں اور آزاد نظموں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ میر کا تتبع بھی عموماً اسی طرح ہوا ہے کہ جن عناصر پر میر کی حقیقی عظمت قائم ہے انہیں نظرانداز کر کے صرف ایسی باتیں چن لی ہیں جو اپنی طبیعت اور اپنی ذہنی ضرورتوں سے مناسبت رکھتی ہوں۔ یعنی اس زمانے میں میر نے مقبولیت پائی بھی ہے تو صرف میر کی شخصیت اور شاعری کے ایک حصے نے۔ پھر بعض دفعہ میر کی اس مقبولیت کی ایک عجیب توجیہہ کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ فسادات کے دوران میں لوگوں کو ایسے ہولناک تجربات پیش آئے ہیں کہ اب ان میں سوچنے کی سکت نہیں رہی، اس کے بجائے جذبات کو بروئے کار آنے کا زیادہ موقع ملا ہے۔ اس وجہ سے شاعرغالب اور اقبال کی پیروی تو کر نہیں سکتے، کیونکہ اس میں تفکر کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے بجائے میر کی تقلید کرتے ہیں جس میں سوچنے کے بغیر اور خالی محسوس کرنے ہی سے کام چل جاتا ہے۔
خیر مقدم ہے تیرااے نئے سال
’’جی چاہتا ہے کہ بازاری گویا بن کر گلی گلی بستی بستی گھومتا پھروں۔ یوں ہی زندگی گزار دوں۔ ایک عورت اور ایک ہارمونیم کی پیٹی پہلو میں لئے اور دنیا یہ سمجھے کہ وہ ہمارا تماشہ دیکھ کر رحم کھاتی ہے اور میں یہ سمجھوں کہ تماشائی ہوں۔ یہ ہارمونیم کی پیٹی، یہ میرے ساتھ گاتی ہوئی عورت اور یہ ہجوم یہ سب تماشا ہے۔ یہ سب دنیا ہے اور میں ہی دنیا کا تماشا دیکھ ر...
اک نئے مسئلے سے نکلے ہیںیہ جو کچھ راستے سے نکلے ہیں
ایک نالے پہ ہے معاش اپنیہم غریبوں کی ہے یہی معراج
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books