aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "bekasii-haa-e-shab-e-hijr"
بیکسی ہائے شب ہجر کی وحشت ہے ہےسایہ خورشید قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے
کہوں اے ذوق کیا حال شب ہجرکہ تھی اک اک گھڑی سو سو مہینے
صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہےصدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم
مت پوچھ واردات شب ہجر اے نصیرؔمیں کیا کہوں جو کار نمایان نالہ تھا
یہ داستان شب ہجر کون سنتا بھلاجنوں بھی اس کو کہاں تک بیان کرتا بھلا
ہجر محبّت کے سفر میں وہ مرحلہ ہے , جہاں درد ایک سمندر سا محسوس ہوتا ہے .. ایک شاعر اس درد کو اور زیادہ محسوس کرتا ہے اور درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو وہ کسی تخلیق کو انجام دیتا ہے . یہاں پر دی ہوئی پانچ نظمیں اسی درد کا سایہ ہے
وزیر علی صبا لکھنؤی تقریباً ۱۸۵۰ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آتش کے شاگرد تھے۔ دو سو روپیہ واجد علی شاہ کی سرکار سے اور تیس روپیہ ماہوار نواب محسن الدولہ کے یہاں سے ملتا تھا۔ افیون کے بہت شوقین تھے۔ جو شخص ان سے ملنے جاتا اس کی تواضع منجملہ دیگر تکلفات افیون سے بھی ضرور کرتے۔ ۱۳؍جون ۱۸۵۵ء کو لکھنؤ میں گھوڑے سے گرکر انتقال ہوا۔ ایک ضخیم دیوان’’غنچۂ آرزو‘‘ ان کی یادگار ہے۔
شام کا تخلیقی استعمال بہت متنوع ہے ۔ اس کا صحیح اندازہ آپ ہمارے اس انتخاب سے لگا سکیں گے کہ جس شام کو ہم اپنی عام زندگی میں صرف دن کے ایک آخری حصے کے طور دیکھتے ہیں وہ کس طور پر معنی اور تصورات کی کثرت کو جنم دیتی ہے ۔ یہ دن کے عروج کے بعد زوال کا استعارہ بھی ہے اور اس کے برعکس سکون ،عافیت اور سلامتی کی علامت بھی ۔ اور بھی کئی دلچسپ پہلو اس سے وابستہ ہیں ۔ یہ اشعار پڑھئے ۔
बेकसी-हा-ए-शब-ए-हिज्रبیکسی ہائے شب ہجر
helplessness of night of separation
پس پردہ شب
حسین الحق
افسانہ
رسالئہ شرع محمدی
محمد عبدالحی
مولوی عبدالحی
اسلامیات
رزم حق و باطل
شاہ بلیغ الدین
حج بیت اللہ
اکبر شاہ خاں نجیب آبادی
شب فراق کا جاگا ہوا
بشیر چراغ
شاعری
نالۂ شبگیر
محمد صادق حسین
رومانوی
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
صدیق الرحمن قدوائی
شاعری تنقید
مقامات وارث شاہ
علی عباس جلالپوری
مسلک ارباب حق
شاہ وجیہ الدین احمد خان
شجر معرفت
حی شاہ
قول حق
احقاقِ حق
شاہ فضل رسول قادری بدایونی
Jan 2007
نکتہ چیں ہے غم دل
برناڈ شا
جغرافئیہ عالم
ایچ ٹی نولٹن بہادر
جغرافیہ
دیکھ کر طول شب ہجر دعا کرتا ہوںوصل کے روز سے بھی عمر مری کم ہو جائے
کب اشک شب ہجر سمندر نہ ہوا تھاہاں قطرۂ نیساں ابھی گوہر نہ ہوا تھا
ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور توجو دم ہے غنیمت ہے کہ پھر رات ہے اور تو
شاہد رہیو تو اے شب ہجرجھپکی نہیں آنکھ مصحفیؔ کی
اے شب ہجر اب مجھے صبح وصال چاہئےتازہ غزل کے واسطے تازہ خیال چاہئے
فسانہ ہائے شب غم ہے داستاں میریگئی نہ آہ کبھی سوئے آسماں میری
خواب ہی میں نظر آ جائے شب ہجر کہیںسو مجھے حسرت دیدار نے سونے نہ دیا
ہم مسافر ہیں گرد سفر ہیں مگر اے شب ہجر ہم کوئی بچے نہیںجو ابھی آنسوؤں میں نہا کر گئے اور ابھی مسکراتے پلٹ آئیں گے
شب ہجر میں کم تظلم کیاکہ ہمسائیگاں پر ترحم کیا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books