شام پر شعر
شام کا تخلیقی استعمال
بہت متنوع ہے ۔ اس کا صحیح اندازہ آپ ہمارے اس انتخاب سے لگا سکیں گے کہ جس شام کو ہم اپنی عام زندگی میں صرف دن کے ایک آخری حصے کے طور دیکھتے ہیں وہ کس طور پر معنی اور تصورات کی کثرت کو جنم دیتی ہے ۔ یہ دن کے عروج کے بعد زوال کا استعارہ بھی ہے اور اس کے برعکس سکون ،عافیت اور سلامتی کی علامت بھی ۔ اور بھی کئی دلچسپ پہلو اس سے وابستہ ہیں ۔ یہ اشعار پڑھئے ۔
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے
-
موضوعات : روماناور 4 مزید
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
-
موضوعات : اداسیاور 4 مزید
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
-
موضوع : انتظار
شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
-
موضوعات : امیداور 4 مزید
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
-
موضوعات : سردیاور 1 مزید
تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو
کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جائے
تمہارے نام کی اک خوبصورت شام ہو جائے
-
موضوعات : آسماناور 1 مزید
نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے
-
موضوعات : دوستاور 1 مزید
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
-
موضوعات : انتظاراور 1 مزید
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
-
موضوع : صبح
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
-
موضوعات : الوداعاور 1 مزید
شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے
سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا
-
موضوع : سوشل ڈسٹینسنگ شاعری
میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں
شام سے پہلے تری شام نہ ہونے دوں گا
زندگی میں تجھے ناکام نہ ہونے دوں گا
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوعات : گھراور 1 مزید
کون سی بات نئی اے دل ناکام ہوئی
شام سے صبح ہوئی صبح سے پھر شام ہوئی
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
-
موضوعات : گھراور 1 مزید
شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام
گیسوؤں کو کھول دو سورج چھپانے کے لئے
ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے
-
موضوعات : روماناور 2 مزید
شام سے ان کے تصور کا نشہ تھا اتنا
نیند آئی ہے تو آنکھوں نے برا مانا ہے
شامیں کسی کو مانگتی ہیں آج بھی فراقؔ
گو زندگی میں یوں مجھے کوئی کمی نہیں
گزر گئی ہے مگر روز یاد آتی ہے
وہ ایک شام جسے بھولنے کی حسرت ہے
ہوتے ہی شام جلنے لگا یاد کا الاؤ
آنسو سنانے دکھ کی کہانی نکل پڑے
-
موضوعات : آنسواور 1 مزید
ہوتی ہے شام آنکھ سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوع : گھر
شام ڈھلے یہ سوچ کے بیٹھے ہم اپنی تصویر کے پاس
ساری غزلیں بیٹھی ہوں گی اپنے اپنے میر کے پاس
دن کسی طرح سے کٹ جائے گا سڑکوں پہ شفقؔ
شام پھر آئے گی ہم شام سے گھبرائیں گے
-
موضوعات : اداسیاور 1 مزید
ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے
ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے
کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے
اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں
-
موضوعات : دھوپاور 1 مزید
ہم بھی اک شام بہت الجھے ہوئے تھے خود میں
ایک شام اس کو بھی حالات نے مہلت نہیں دی
جب شام اترتی ہے کیا دل پہ گزرتی ہے
ساحل نے بہت پوچھا خاموش رہا پانی
بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے
ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں
اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوبؔ خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے
-
موضوع : گھر
شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے
-
موضوع : یاد
سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے
لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے
شام ہوتی ہے تو لگتا ہے کوئی روٹھ گیا
اور شب اس کو منانے میں گزر جاتی ہے
آخری بار میں کب اس سے ملا یاد نہیں
بس یہی یاد ہے اک شام بہت بھاری تھی
دلیل تابش ایماں ہے کفر کا احساس
چراغ شام سے پہلے جلا نہیں کرتے
شام ہی سے برس رہی ہے رات
رنگ اپنے سنبھال کر رکھنا
شام ہونے کو ہے جلنے کو ہے شمع محفل
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں پروانے کو
کون سمجھے ہم پہ کیا گزری ہے نقشؔ
دل لرز اٹھتا ہے ذکر شام سے
شام کی شام سے سرگوشی سنی تھی اک بار
بس تبھی سے تجھے امکان میں رکھا ہوا ہے
مجھے ہر شام اک سنسان جنگل کھینچ لیتا ہے
اور اس کے بعد پھر خونی بلائیں رقص کرتی ہیں