وحشت پر شاعری
وحشت پر یہ شاعری آپ کے لئے عاشق کی شخصیت کے ایک دلچسپ پہلو کا حیران کن بیان ثابت ہوگی ۔ آپ دیکھیں گے کہ عاشق جنون اور دیوانگی کی آخری حد پر پہنچ کر کیا کرتا ہے ۔ اور کس طرح وہ وحشت کرنے کے لئے صحراؤں میں نکل پڑتا ہے ۔
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوعات : شاماور 1 مزید
ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے
گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر
بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی
وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے
-
موضوعات : بچپن شاعریاور 1 مزید
لوگ کہتے ہیں کہ تم سے ہی محبت ہے مجھے
تم جو کہتے ہو کہ وحشت ہے تو وحشت ہوگی
اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے
باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے
-
موضوعات : دل لگیاور 1 مزید
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
وہ جس کے نام کی نسبت سے روشنی تھا وجود
کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں
بستی بستی پربت پربت وحشت کی ہے دھوپ ضیاؔ
چاروں جانب ویرانی ہے دل کا اک ویرانہ کیا
-
موضوعات : دھوپاور 1 مزید
عشق پر فائز ہوں اوروں کی طرح لیکن مجھے
وصل کا لپکا نہیں ہے ہجر سے وحشت نہیں
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
نہ ہم وحشت میں اپنے گھر سے نکلے
نہ صحرا اپنی ویرانی سے نکلا
-
موضوعات : صحرااور 1 مزید
سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر بن گئیں
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے
وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا
میری بستی کسی صحرا میں بسا دی گئی کیا
جسم تھکتا نہیں چلنے سے کہ وحشت کا سفر
خواب میں نقل مکانی کی طرح ہوتا ہے
شادؔ اتنی بڑھ گئی ہیں میرے دل کی وحشتیں
اب جنوں میں دشت اور گھر ایک جیسے ہو گئے