شہرت پر اشعار
مشہور ہوجانے کی خواہش
ہر کسی کی ہوتی ہے لیکن اس خواہش کو غلط طریقوں سے پورا کرنے کی کوشش بہت سی انسانی قدروں کی پائمالی کا باعث بنتی ہے ۔ یہ شعری انتخاب شہرت کی اچھی بری صورتوں کو سامنے لاتا ہے ۔
کون مصلوب ہوا حسن کا کردار کہ ہم
شہرت عشق میں بدنام ہوا یار کہ ہم
-
موضوع : رسوائی
فرحتؔ ترے نغموں کی وہ شہرت ہے جہاں میں
واللہ ترا رنگ سخن یاد رہے گا
میری شہرت کے پیچھے ہے
ہاتھ بہت رسوائی کا
کیا پوچھتے ہو کون ہے یہ کس کی ہے شہرت
کیا تم نے کبھی داغؔ کا دیواں نہیں دیکھا
بکتا رہتا سر بازار کئی قسطوں میں
شکر ہے میرے خدا نے مجھے شہرت نہیں دی
کھلی نہ مجھ پہ بھی دیوانگی مری برسوں
مرے جنون کی شہرت ترے بیاں سے ہوئی
-
موضوع : دیوانگی
میاں یہ چادر شہرت تم اپنے پاس رکھو
کہ اس سے پاؤں جو ڈھانپیں تو سر نکلتا ہے
شہرت کی فضاؤں میں اتنا نہ اڑو ساغرؔ
پرواز نہ کھو جائے ان اونچی اڑانوں میں
اپنے افسانے کی شہرت اسے منظور نہ تھی
اس نے کردار بدل کر مرا قصہ لکھا
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
-
موضوعات : پارلیمنٹاور 2 مزید
گھر سے اس کا بھی نکلنا ہو گیا آخر محال
میری رسوائی سے شہرت کو بہ کو اس کی بھی تھی
-
موضوع : رسوائی
جو آسماں کی بلندی کو چھونے والا تھا
وہی منارہ زمیں پر دھڑام سے آیا
کھو دیا شہرت نے اپنی شعر خوانی کا مزا
داد مل جاتی ہے ناطقؔ ہر رطب یابس کے بعد
الجھ رہے ہیں بہت لوگ میری شہرت سے
کسی کو یوں تو کوئی مجھ سے اختلاف نہ تھا
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے
مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں مرے احباب عزیزؔ
کیا ملا شہر سخن میں تمہیں شہرت کے سوا
کسی کو بے سبب شہرت نہیں ملتی ہے اے واحدؔ
انہیں کے نام ہیں دنیا میں جن کے کام اچھے ہیں
اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار
لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی گالی ہو گئی
-
موضوع : رسوائی