aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "dastaar-e-be-anaa"
زوال عظمت انساں کا مرثیہ ہوں میںسر کشیدہ پہ دستار بے انا ہوں میں
کیسی آرائش ہوئی بے شانہ و بے آئنہگیسوؤں کو اس نے بکھرا کر سنور جانے دیا
عالم حیرت میں گزرے ہیں وہاں سے بھی جہاںزندگی اپنی طرح بے عکس و بے آئینہ تھی
روح کو آلائش غم سے کبھی خالی نہ رکھیعنی بے زنگار کس کا آئنا روشن ہوا
جو صاحبان بصیرت تھے بے لباس ہوئےفضیلتوں کی یہ دستار کس کے سر باندھو
تخلیقی ذہن ناسٹلجائی کیفیتوں میں گھرا ہوتا ہے وہ باربار اپنے ماضی کی طرف لوٹتا ہے ، اسے کریدتا ہے ، اپنی بیتی ہوئی زندگی کے اچھے برے لمحوں کی بازیافت کرتا ہے ۔ آپ ان شعروں میں دیکھیں گے کہ ماضی کتنی شدت کے ساتھ عود کرتا ہے اور کس طریقے سے گزری ہوئی زندگی حال کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے لگتی ہے ۔ ہمارے اس انتخاب کو پڑھ کر آپ اپنے ماضی کو ایک نئے طریقے سے دیکھنے ، برتنے ، اور یاد کرنے کے اہل ہوں گے ۔
تخلیق کارکی حساسیت اسے بالآخراداسی سے بھردیتی ہے ۔ یہ اداسی کلاسیکی شاعری میں روایتی عشق کی ناکامی سے بھی آئی ہے اوزندگی کے معاملات پرذرامختلف ڈھنگ سے سوچ بچار کرنے سے بھی ۔ دراصل تخلیق کارنہ صرف کسی فن پارے کی تخلیق کرتا ہے بلکہ دنیا اوراس کی بے ڈھنگ صورتوں کو بھی ازسرنوترتیب دینا چاہتا ہے لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتا ۔ تخلیقی سطح پرناکامی کا یہ احساس ہی اسے ایک گہری اداسی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ عالمی ادب کے بیشتر بڑے فن پارے اداسی کے اسی لمحے کی پیداوار ہیں ۔ ہم اداسی کی ان مختلف شکلوں کو آپ تک پہنچا رہے ہیں ۔
ہجر محبّت کے سفر میں وہ مرحلہ ہے , جہاں درد ایک سمندر سا محسوس ہوتا ہے .. ایک شاعر اس درد کو اور زیادہ محسوس کرتا ہے اور درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو وہ کسی تخلیق کو انجام دیتا ہے . یہاں پر دی ہوئی پانچ نظمیں اسی درد کا سایہ ہے
दस्तार-ए-बे-अनाدستار بے انا
turban of egoless
دفتر بے معنی
نعیم صدیقی
نثر
مسدس مسمیٰ بہ آئینہ اخلاص
میر محبوب علی
گفت و شنید باآقاے نھرو
نامور امریکی خواتین کی داستان حیات
ایڈنا یوسٹ
داستان امیر حمزہ با تصویر
نامعلوم مصنف
داستان
بہ آئینہ جام جہان نما
فغان بے خبر
خواجہ غلام غوث خان
شہر بے مثال
بانو قدسیہ
اصلاحی و اخلاقی
نثر بے نظیر
میر بہادر علی حسینی
آغا حشر اور ان کا فن
اے ۔ بی ۔ اشرف
آئین انگلستان کی الف بے
الیاس احمد
عالمی
طوفان بے تمیزی
پنڈت رتن ناتھ در
حقیقۃ الصلوٰۃ
شیخ برکت علی اینڈ سنز، کشمیری بازار، لاہور
اسلامیات
آئینہ تاریخ
پروفیسر پی این ورما
ہندوستانی تاریخ
سلک گوہر
انشا اللہ خاں انشا
ایک انائے بے چہرہ کے بدلے میںچلیے کچھ مشہوری تو ہو جاتی ہے
میرا چہرہ جیسا تھا ویسا دکھایا اے ضمیرؔسب یقین آئینۂ بے باک پر ہیں آج بھی
فقط میرا عکس تصور ہے یہ شعرکبھی دیکھ اس آئینۂ بے نشاں کو
میری تہذیب کا آئینۂ بے داغ بھی تومیرا کردار مرا حسن عمل بھی تو ہے
کرسئ دل پہ ترے جاتے ہی درد آ بیٹھےجیسے آئینۂ بے کار پہ گرد آ بیٹھے
شکست رنگ رخ آئینۂ بے تابئ دل ہےذرا دیکھو تو کیوں کر غم زدوں کا دم نکلتا ہے
اپنی انا کے گنبد بے در میں بند ہےلیکن بزعم خود وہ فلک تک بلند ہے
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارکمگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے
ناکام تری دید سے ہیں خواب میں بھی ہملائیں کہاں سے طالع بے دار آئینہ
جھک کے ملنے کی ازل ہی سے ہے فطرت شائقؔگرچہ سربستۂ دستار انا ہوں میں بھی
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books