aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "jhang"
رضیہ حلیم جنگ
born.1922
شاعر
ہوش بلگرامی
مصنف
ادارۃ المصنفین، جھنگ
ناشر
مولوی چراغ علی
1844/1846 - 1895
نواب عزیز جنگ بہادر ولا
نثار یار جنگ مزاج
died.1951
خان بہادر شمس العلماء عزیز جنگ بہادر
جامعہ محمدی شریف
جنگ بہادر جلیل
نواب سر نظامت جنگ
1871 - 1955
نواب سر امین جنگ
مرزا یار بہادر جنگ
نواب حسن یار جنگ
مدیر
شہید یار جنگ
نواب صادق جنگ حلم
اپنا جھنگ بھلا ہے پیارے جہاں ہماری ہیرروئے بھگت کبیر
The story of Heer and Ranjha is about six centuries old now. Ranjha was the son of a landlord and lived in Takht Hazara by the river Chenab. Heer was the daughter of another prosperous person from Jhang. Both were young and beautiful but they were destined to suffer immeasurably. Ranjha did not have much of the worldly skills but he was a good shep...
جگ بھر سے خزانے لیتا ہےجگ بھر کو کو خزانے دیتا ہے
ارم کے پھول ازل کا نکھار طور کی لوسخی چناب کی وادی میں آ کے جھنگ ہوئے
میں آندھیوں میں ہاتھ بھی پکڑوں ترا تو کیااک شاخ بے سپر ہوں ہواؤں کی جنگ میں
شاعر،ادیب ،صحافی،نغمہ نگار، غلام بیگم بادشاہ اور جھانسی کی رانی جیسی فلموں کے مکالمہ نگار
झंगجھنگ
name of a city
enjoyment, satiated
تاریخ جھنگ
بلال زبیری
تذکرہ اولیائے جھنگ
تذکرہ
جنگ اور امن
لیو ٹالسٹائی
ناول
ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا حصہ
محمد مظفرالدین فاروقی
ہندوستانی تاریخ
خانہ جنگی
محمد مجیب
تاریخی
اردو صحافت اور جنگ آزادی 1857
معصوم مرادآبادی
صحافت
اٹھارہ سو ستاون پہلی جنگ آزادی
محمد شفیع
سیاسی تحریکیں
قلعہ جنگی
مستنصر حسین تارڑ
جنگ نامہ حضرت علی
تاریخ
اردو کاعروض
علم عروض / عروض
ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ
عابدہ سمیع الدین
جنگ آزادی میں اردو صحافت کا کردار
بہادر شاہ ظفر
کالا پانی
وسیم احمد سعید
سوانح حیات
جنگ آزادی 1857
تارا چند
ہاں وہی جھنگ جہاں ونگ کے چرچے ہیں بہتپر میرے دل میں نہاں رہتا ہے اک ہیر کا دکھ
ٹہنیاں پھولوں کو ترسیں گی یہاں تیرے بعدوادیٔ جھنگ سے اٹھے گا دھواں تیرے بعد
اے نسیم زاد جھونکوں کی حسیں حسیں کلیلو!ذرا جھنگ رنگ ٹیلوں کی طرف بھی ایک پھیرا
جھنگ تک کا سفربانسری ہے
وہ کافی دیر سےجھنگ روڈ کے ایک لاری اڈے پر بیٹھی تھی۔ دور حدنظر تک لیٹی سُرمئی سڑک پر نظریں جمائے ہوئے۔۔۔ لاری اڈے پر کافی رونق تھی۔ گرم چائے، نان پکوڑے، آلو ٹکی، سموسے، رنگ برنگی مٹھائیاں، کھانے پینے کا بازار گرم تھا۔ مہکتی خوشبوئیں ہوا میں رچی بسی تھیں۔ ٹھیلے، سٹال جگہ جگہ لگےتھے۔ مسافروں کا آنا جانا لگا تھا۔ لڑکے کنو، مالٹے، نان کباب، برفی، پیڑے کے بڑے بڑے تھال کندھے پر رکھے ہر آنے والی بس کے ساتھ بھاگ کھڑے ہوتے اور پھرتی سےہر کھڑکی کے آگے آوازیں لگا کر مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے۔ کچھ مسافر سامان خوردونوش خرید لیتے باقی یونہی نظروں کو سیر کرتے ہوئے رُخ موڑ لیتے۔ بس چلنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے سٹال، دکانوں کی جانب مڑ جاتے۔ وہ ایک سٹول پر بیٹھی شارٹ مووی کی طرح یہ ہنگامہ دیکھتی اور پھر دوسری طرف سڑک کی اورنظریں موڑ لیتی۔ قریب کا منظر دور ہوتا ہوا دھندلاجاتا۔ پھردھند کی دیوار کے پار جب کوئی بس نمودار ہوتی تو وہ چونک کر سیدھی ہو جاتی۔ بس کے ماتھے پہ جھومر کی طرح ٹکی اس کے نام و نموکی شیلڈ پڑھنے کی کوشش کرتی۔ مطلوبہ بس نہ پا کر بتول پھر ڈھیلی پڑ جاتی اوربڑبڑاتی، ’’نہ جانے کب آئے گی میری بس۔۔اور کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔‘‘ دو چار بسیں مزید گزرنے کے بعد اس کو منزل مقصود تک پہنچانے والی بس نمودار ہوئی۔ جس کے ماتھے پہ واضح طور پر۔۔۔ پینسرا۔۔۔ لکھا ہوا تھا۔ وہ جوش سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ انتظار ختم ہو چکا تھا۔ بس آہستہ آہستہ چلتی لاری اڈے پر آ کر رک گئی۔ ڈرائیور سمیت کچھ مسافر نیچے اترے اور چائے کے ہوٹل کی طرف چل دئیے۔۔۔ وہ اپنا چھوٹا سا بیگ سنبھالتی بس کے اندر چلی آئی۔ پچھلی سیٹوں میں اسے ایک خالی سیٹ مل گئی۔ سیٹ پر بیٹھ کر اس نے ایک اطمینان بھری سانس لی۔ دس منٹ بعد مسافر دوبارہ بس میں آ بیٹھے اور بس چلنے لگی۔ وہ کھڑکی سے باہردیکھنے لگی۔۔ ہرے بھرے سرسبز کھیت۔۔۔ کھِلا کھِلا دن۔۔ نکھری نکھری فضا، موسم معتدل تھا۔ دیدہ زیب رنگوں بھری بس اندر باہر سے چمچماتی ہوئی لگ رہی تھی نئی نئی سی، جو بات سب سے متاثر کن لگی وہ مسافر تھے۔ کلف لگے صاف ستھرے لباس۔۔ سنورے بال۔۔۔ معطر خوشبوئیں ہر سو پھیلی تھیں۔ عورتیں اور بچے بھی نظر آ رہے تھے۔ ایک خاموشی کا عالم تھا جس سے سب گزر رہے تھے۔ ایک گھنٹہ گزر گیا۔ جب پیچھے بیٹھے ایک مسافر نے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے نوجوان کو مخاطب کیا، ’’او بابر، اب ہم قریب آ گئے ہیں۔ سپیکر کھول دو اور کوئی اچھا سا گون (گانا) لگا دو۔۔۔‘‘ دو تین منٹ کے اندر گانے کی آواز سپیکروں کے ذریعے دور دور تک کھیت کھلیانوں اور ماحول میں پھیل گئی، لے جائیں گے لے جائیں گے دل والےدلہنیا لے جائیں گے لے جائیں گے لے جائیں گے تیرے باغ کی بُلبل لے جائیں گے تبھی بتول بی بی پہ آشکارہ ہوا کہ وہ کسی بارات والی بس میں بیٹھ گئی تھی۔
اپنے ہر ایک عشق میں صادق رہوں گا میںآغاز یوںہی جھنگ سے میں نے نہیں کیا
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھےپاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہےجاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہیجھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
سو گئے پیڑ جاگ اٹھی خوشبوزندگی خواب کیوں دکھاتی ہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books