aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "shaam-e-aish"
اے عیشؔ ہے فرسودہ اب قیس کا افسانہالفت تو کسی کی بھی جاگیر نہیں ہوتی
ہر روش ان کی قیامت ہے قیامت اے عیشؔجس طرف جاتے ہیں اک حشر بپا ہوتا ہے
اے عیشؔ جب سے بادۂ لا تقنطو ملاباقی رہا نہ ڈر ہمیں روز حساب کا
ہر بزم نشاط اے عیشؔ ہوئی اس شوخ کے جلوؤں سے روشنکاشانۂ غم میں جلوہ فگن لیکن وہ دل آرا ہو نہ سکا
ایک دیوار جسم باقی ہےاب اسے بھی گرا دیا جائے
وزیر علی صبا لکھنؤی تقریباً ۱۸۵۰ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آتش کے شاگرد تھے۔ دو سو روپیہ واجد علی شاہ کی سرکار سے اور تیس روپیہ ماہوار نواب محسن الدولہ کے یہاں سے ملتا تھا۔ افیون کے بہت شوقین تھے۔ جو شخص ان سے ملنے جاتا اس کی تواضع منجملہ دیگر تکلفات افیون سے بھی ضرور کرتے۔ ۱۳؍جون ۱۸۵۵ء کو لکھنؤ میں گھوڑے سے گرکر انتقال ہوا۔ ایک ضخیم دیوان’’غنچۂ آرزو‘‘ ان کی یادگار ہے۔
شام کا تخلیقی استعمال بہت متنوع ہے ۔ اس کا صحیح اندازہ آپ ہمارے اس انتخاب سے لگا سکیں گے کہ جس شام کو ہم اپنی عام زندگی میں صرف دن کے ایک آخری حصے کے طور دیکھتے ہیں وہ کس طور پر معنی اور تصورات کی کثرت کو جنم دیتی ہے ۔ یہ دن کے عروج کے بعد زوال کا استعارہ بھی ہے اور اس کے برعکس سکون ،عافیت اور سلامتی کی علامت بھی ۔ اور بھی کئی دلچسپ پہلو اس سے وابستہ ہیں ۔ یہ اشعار پڑھئے ۔
شمع رات بھر روشی لٹانے کیلئے جلتی رہتی ہے ، سب اس سے فیض اٹھاتے ہیں لیکن اس کے اپنے دکھ اور کرب کو کوئ نہیں سمجھتا ۔ کس طرح سے سیاہ کالی رات اس کے اوپر گزرتی ہے اسے کوئی نہیں جانتا ۔ تخلیق کاروں نے روشنی کے پیچھے کی ان تمام ان کہی باتوں کو زبان دی ہے ۔ خیال رہے کہ شاعری میں شمع اور پروانہ اپنے لفظی معنی اور مادی شکلوں سے بہت آگے نکل کر زندگی کی متنوع صورتوں کی علامت کے طور پر مستعمل ہیں ۔
शाम-ए-ऐशشام عیش
evening of pleasure
تجلیات عشق
شاہ اکبر داناپوری
دیوان
افسانۂ عشق
واجد علی شاہ اختر
مثنوی
السلام اے ہند کے شاہ سہیداں السلام
کمار پانی پتی
تحریک آزادی
دیوان آسی
سید شاہ شاہد علی
تصوف کے مسائل اور مباحث
مرزا صفدر علی بیگ
فلسفہ تصوف
چراغ ایمان
نامعلوم مصنف
مطبوعات منشی نول کشور
حدیث عشق دلریش
سید حامد محمود شاہ
چشتیہ
مظہر عشق
سید شاہ مظہر علی
دیوان اکبر
نقشبندیہ
شام جوانی
جارج ولیم رینالڈ
ناول
نگار عشق
محمد عبدالغنی شاہ
مثنوی مظہر عشق
صحیفہ عشق
سکندر علی شاہ
مجموعہ
تجلیات شہید عشق
مولانا محمد الفاروقی آلہ آبادی
گلشن رحمت (فیضان عشق)
سید محمد جعفر علی (سید شاہ سہارنپوری)
شاعری
اک اک پلک پہ چھائی ہے محرومیوں کی شامضبط سخن کی آگ میں جلتے لبوں کو دیکھ
کچھ تو کہتی ہے سر شام سمندر کی ہواکبھی ساحل کی خنک ریت پہ جائیں تو سہی
اک پل میں ہی بتلا گئیں دم توڑتی کرنیںوہ راز جو اے شامؔ نہ پایا مجھے دن بھر
یادیں کھلے کواڑ یہ مہکی ہوئی فضاکون آ رہا ہے شام یہ ٹھنڈی ہوا کے بعد
کس طرح چھوڑ دوں اس شہر کو اے موج نسیمیہیں جینا ہے مجھے اور یہیں مرنا ہے مجھے
کھوئے ہیں اس کے سحر میں ہی اہل کارواںاس کی نظر جو وقت سفر رنگ بو گئی
کیسی اجڑی ہے یہ محفل عیشؔ ہنگام سحرشمع کشتہ ہے کہیں اور خاک پروانہ کہیں
کچھ ایسے کی ہے ادا رسم بندگی میں نےگزار دی ترے وعدے پہ زندگی میں نے
ہے عیشؔ ساتھ کوئی راہبر نہ ہم راہیکٹے گی دیکھیے تنہا رہ وفا کیسے
نہ ملنے پر بھی اسے عیشؔ پیار کرتا ہوںیوں اونچا کر دیا معیار زندگی میں نے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books