aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "سبزی"
برکت اکبر پریس، سبزی منڈی، الہ آباد
ناشر
کراون آفسیٹ سبزی باغ، پٹنہ
کتاب منزل سبزی باغ، پٹنہ
احسان سبز
شاعر
خواجہ امیر حسن سجزی دہلوی
1242 - 1325
مصنف
محبوبیہ کارخانہ جلد سازی، حیدرآباد
مکتبہ سر سبز، دھرم شالہ
سید سجاد علی سبز پوش
فوق سبز واری
1904 - 1953
ملکہ جان ایک دم چونکی۔ اس نے نوچی کو اشارہ کیا، وہ بھی چونک پڑی، سامنے دہلیز میں مرزا نوشہ تھا۔ ملکہ جان فوراً اٹھی اور تسلیمات بجائی، نوچی نے بھی اٹھ کر کھڑے قدم تعظیم دی، یہ جان کر کہ شہر کے کوئی رئیس ہیں، ملکہ استقبال کے لیے آگے بڑھی، ’’آئیے، آئیے، تشریف لائیے، زہے قسمت کہ آپ ایسے رئیس مجھ غریب کو سرفراز فرمائیں۔ آپ کے آنے سے میرا گھر روشن ہوگیا...
ایک رکن نے جو چشمہ لگائے تھے اور ہفتہ وار اخبار کے مدیرِ اعزازی تھے، تقریر کرتے ہوئے کہا، ’’حضرات ہمارے شہر سے روز بروز غیرت، شرافت، مردانگی، نیکو کاری و پرہیز گاری اٹھتی جا رہی ہے اور اس کی بجائے بے غیرتی، نامردی، بزدلی، بدمعاشی، چوری اور جعل سازی کا دور دورہ ہو تا جا رہا ہے۔ منشیات کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ قتل و غارت گری، خودکشی اور دیوالیہ نکلنے ک...
گھوڑا تھا گھمنڈی پہنچا سبزی منڈیسبزی منڈی برف پڑی تھی برف میں لگ گئی ٹھنڈی
ہر اک کوچہ اس کا، تھا رشک بہشتزمیں سبز و سیراب عالم تمام
تو یہ ہے فارس روڈ جہاں میں رہتی ہوں۔ فارس روڈ کے مغربی سرے پر جہاں چینی حجام کی دکان ہے اس کے قریب ایک اندھیری گلی کے موڑ پر میری دکان ہے۔ لوگ تو اسے دکان نہیں کہتے مگر خیر آپ دانا ہیں آپ سے کیا چھپاؤں گی۔ یہی کہوں گی وہاں پر میری دکان ہے اور وہاں پر میں اس طرح بیوپار کرتی ہوں جس طرح بنیا، سبزی والا، پھل والا، ہوٹل والا، موٹر والا، سینیما والا، کپ...
گیان پیٹھ اعزاز حکومتِ ہندوستان کی جانب سے دیا جانے والا سب سے بڑا ادبی انعام ہے، یہ انعام ہندوستانی آئین کے آٹھویں شیڈیول کے تحت شامل کی گئیں 22 زبانوں کی کسی ایک زبان کے شاعر یا ادیب کو ہر سال دیا جاتا ہے، جس میں اردو زبان بھی شامل ہے، اس انعام کا انعقاد ٹائمس آف انڈیا کے ناشر ساہو جین خاندان کے قائم کردہ بھارتیہ گیان ٹرسٹ نے 1961 میں کیا تھا۔ انعام یافتگان میں اردو زبان کے فراق گورکھپوری گل نغمہ 1969، قرت العین حیدر آخری شب کے ہمسفر 1989، علی سردار جعفری نئ دنیا کو سلام 1997 اور شہریار اسم اعظم 2008 بھی شامل ہیں۔ ریختہ پہ سبھی کتابیں آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہے، ملاحظہ کریں۔
شعرپر یا شاعری پرکی جانے والی شاعری کئی معنی میں اہم ہے ۔ یہ شاعری ہمیں شعر سازی کی ترکیبوں اورفن کی باریکیوں سے بھی آگاہ کرتی ہے اوربعض اوقات شاعری کے مقاصد اوراس سےمتعلق بہت سےمعاملات پرروشنی ڈالتی ہے۔
مذہب پر گفتگو ہماری عمومی زندگی کا ایک دلچسپ موضوع ہے ۔ سبھی لوگ مذہب کی حقیقت ، انسانی زندگی میں اس کے کردار ، اس کے اچھے برے اثرات پر سوچتے اور غور وفکر کرتے ہیں ۔ شاعروں نے بھی مذہب کو موضوع بنایا ہے اور اس کے بہت سے پہلوؤں پر اپنی تخلیقی فکر کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ یہ شاعری آپ کو مذہب کے حوالے سے ایک نئے مکالمے سے متعارف کرائے گی ۔
सब्ज़ीسبزی
intoxicating liquor made of hemp
हरापन, हरियालापन, घास, सब्ज़ः, शाक, भाजी, तरकारी, भंग, भाँग।।
یونانی دوا سازی
حکیم محمد مستان علی
1997طب یونانی
فوائد الفواد
2007ملفوظات
تصوف
سبزی ترکاریاں
محبوب عالم
اردو اصطلاحات سازی
ابو سلمان شاہجہانپوری
1984
جدید یونانی دوا سازی
حکیم ظل الرحمٗن
2022طب یونانی
گوپی چند نارنگ اور ادبی نظریہ سازی
مناظر عاشق ہرگانوی
1995تنقید
کتاب عشق
2000تصوف
اردو مخطوطات کی کیٹلاگ سازی اور معیار بندی
نسیم فاطمہ نظر لکھنوی
1992تنقید
عطش درانی
1994
ایران اور مصر میں کتب سوزی
شہید مرتضیٰ مطہری
1981تاریخ
دون کا سبزہ
رسکن بونڈ
2004افسانہ / کہانی
تفہیمات
سید ابوالاعلیٰ مودودی
1971اسلامیات
مکمل رنگ و وارنش سازی
پنڈت وید پرکاش شرما
1958
دولت کے سبھی شکاری
جیمس ہیڈلے چیز
1981ترجمہ
اس کوٹھڑی کا دروازہ بند پاتا تو جا کر کواڑ کھٹکھٹاتا کہ شاید انا اندر چھپی بیٹھی ہو۔ صدر دروازہ کھلتے سنتا تو انا انا کہہ کر دوڑتا۔ سمجھتا کہ انا آگئی۔ اس کا گدرایا ہوا بدن گھل گیا۔ گلاب کے سے رخسار سوکھ گئے۔ ماں اور باپ دونو ں اس کی موہنی ہنسی کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے۔ اگر بہت گد گدانے اور چھیڑنے سے ہنستا بھی تو ایسا معلوم ہوتا دل سے نہیں محض دل...
صبح میں گلی کے دروازے میں کھڑی سبزی والے سے گوبھی کی قیمت پر جھگڑ رہی تھی۔ اوپر باورچی خانے میں دال چاول ابالنے کے لیے چڑھا دیئے تھے۔ ملازم سودا لینے کے لیے بازار جا چکا تھا۔ غسل خانے میں وقار صاحب چینی کی چمچی کے اوپر لگے ہوئے مدھم آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہوئے گنگنا رہے تھے اور شیو کرتے جاتے تھے۔ میں سبزی والے سے بحث کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے می...
اس نے بڑے سوراخ میں سے راجو کی طرف دیکھا تو اس کے بدن پر جھرجھری سی طاری ہوگئی۔ اگر وہ ساری کی ساری ننگی ہوتی تو شاید اس کے صنا عانہ جذبات کو اتنی ٹھیس نہ پہنچتی لیکن اس کے جسم کے وہ حصے ننگے تھے جو دوسرے مستور حصوں کو عریانی کی دعوت دے رہے تھے۔ راجو برقی لالٹین کے نیچے کھڑی تھی۔ سعید کو ایسا محسوس ہوا کہ عورت کے متعلق اس کے تمام جذبات اپنے کپڑے ات...
آج چینی قونصل کے ہاں لنچ پر پھر کسی نے کہا کہ کلکتہ میں سخت قحط پڑا ہوا ہے۔ لیکن وثوق سے کچھ نہ کہہ سکا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ ہم سب لوگ حکومت بنگال کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اعلان کے جاری ہوتے ہی حضور کو مزید حالات سے مطلع کروں گا۔ بیگ میں حضور پر نور کی منجھلی بیٹی ایڈتھ کے لئے ایک جوتی بھی ارسال کر رہا ہوں۔ یہ جوتی سبز رنگ کے سانپ کی جلد سے ب...
’’میرے سپاہیوں میں سے بھی کوئی نہیں جانتا کہ میں گڈیالی کے جنگل میں روز کسی سے ملنے جاتا ہوں۔‘‘وہ دونوں گڈیالی کے جنگل میں جیپ کے کسی کچے راستے پر بیٹھ جاتے۔ دیودار کے ایک ٹوٹے ہوئے تنے پر۔ پیچھے جیپ کھڑی ہوتی۔ سامنے ایک چھوٹی سی ڈھلوان کی گہری اور دبیز گھاس۔ کوئی چشمہ تقریباً بے آواز ہو کر بہتا تھا۔ جنگلی پھلوں پر پانی کے قطرے گر کر سو جاتے اور چاروں طرف بڑے بڑے ستونوں کی طرح اونچے اونچے دیوار اور ان کے گھنے چھتناروں میں سے سبزی مائل روشنی دور اونچے لٹکے ہوئے فانوسوں کی طرح چھن چھن کر آتی ہوتی۔کاشر کو ایسا محسوس ہوتا گویا وہ کسی مغل بادشاہ کے دیوان خاص میں بے اجازت آ نکلا ہے۔ یہاں آ کر وہ دونوں کئی منٹ تک جنگل کے گہرے سناٹے میں کھو جاتے اور آہستہ آہستہ سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگتے۔ کبھی ایسا لگتا جیسے سارا جنگل چپ ہے۔ کبھی ایسا لگتا جیسے سارا جنگل ان کے اردگرد سرگوشیوں میں باتیں کر رہا ہے۔
جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا اور سبھی نہتے تھے اور سبھی آزادی کے پرستار تھے۔ ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں نہ ریوالور، نہ برین گن نہ اسٹین گن۔ ہنڈ گری نیڈ نہ تھے۔ دیسی یا ولایتی ساخت کے بمب بھی نہ تھے مگر پاس کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی نگاہوں کی گرمی کسی بھونچال کے قیامت خیز لاوے کی حدّت کا پتہ دیتی تھی۔ سامراجی فوجوں کے پاس لوہے کے ہتھیار تھے۔ یہاں دل فولاد کے بن کے رہ گئے تھے اور روحوں میں ایسی پاکیزگی سی آگئی تھی جو صرف اعلیٰ و ارفع قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا پانی اور ان کے رومان اور ان کا سچا عشق اور ان کی تاریخی بہادری آج ہر فرد بشر بچے بوڑھے کے ٹمٹماتے ہوئے رخساروں میں تھی۔ ایک ایسا اجلا اجلا غرور جو اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب قوم جوان ہو جاتی ہے اور سویا ہوا ملک بیدار ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے امرتسر کے یہ تیور دیکھے ہیں۔ وہ ان گروؤں کے اس مقدس شہر کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔
کبھی کہتے تھے کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم مجھ سے اچھا نہ لکھنے لگو اور میں نے صرف چند مضمون لکھے تھے اس لیے جی جلتا تھا کہ یہ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد نہ جانے کیوں مرنے والے کی چیزیں پیاری ہو گئیں۔ ان کا ایک ایک لفظ چبھنے لگا اور میں نے عمر میں پہلی دفعہ ان کی کتابیں دل لگا کر پڑھیں۔ دل لگا کر پڑھنے کی بھی خوب رہی۔ گویا دل لگانے کی بھی ضرورت تھی! دل خود بخود کھنچنے لگا۔ افوہ! تو یہ کچھ لکھا ہے ان کی رلنے والی کتابوں میں۔ ایک ایک لفظ پر ان کی تصویر آنکھوں میں کھنچ جاتی اور پل بھر میں وہ غم اور دکھ میں ڈوبی ہوئی مسکرانے کی کوشش کرتی ہوئی آنکھیں وہ اندوہناک سیاہ گھٹاؤں کی طرح مرجھائے ہوئے چہرے پر پڑے ہوئے گھنے بال، وہ پیلی نیلاہٹ لیے ہوئے بلند پیشانی، پژمردہ اودے ہونٹ جن کے اندر قبل از وقت توڑے ہوئے ناہموار دانت اور لاغر سوکھے سوکھے ہاتھ اور عورتوں جیسے نازک، دواؤں میں بسی ہوئی لمبی انگلیوں والے ہاتھ اور پھر ان ہاتھوں پر ورم آ گیا تھا۔ پتلی پتلی کھیچی جیسی ٹانگیں جن کے سر پر ورم جیسے سوجے ہوئے بد وضع پیر جن کے دیکھنے کے ڈر کی وجہ سے ہم لوگ ان کے سرہانے ہی کی طرف جایا کرتے تھے اور سوکھے ہوئے پنجرے جیسے سینے پر دھونکنی کا شبہ ہوتا تھا۔ کلیجے پر ہزاروں، کپڑوں، بنیانوں کی تہیں اور اس سینے میں ایسا پھڑکتا ہوا چلبلا دل! یا اللہ یہ شخص کیوں کر ہنستا تھا، معلوم ہوتا تھا کوئی بھوت ہے یا جن جوہر خدائی طاقت سے کشتی لڑ رہا ہے، نہیں مانتا مسکرائے جاتا ہے خدا جبار و قہار چڑھ چڑھ کر کھانسی اور دمہ کا عذاب نازل کر رہا ہے اور یہ دل قہقہے نہیں چھوڑتا۔ کون سا دنیا و دین کادکھ تھا جو قدرت نے بچا رکھا تھا مگر پھر بھی نہ رلا سکا۔ اس دکھ میں جلن، ہنستے نہیں ہنساتے رہنا، کسی انسان کا کام نہیں۔ ماموں کہتے تھے : زندہ لاش، خدایا اگر لاشیں بھی اس قدر جان دار، بے چیں اور پھڑکنے والی ہوتی ہیں تو پھر دنیا ایک لاش کیوں نہیں بن جاتی۔ میں ایک بہن کی حیثیت سے نہیں ایک عورت بن کر ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی تودل لرز اٹھتا تھا۔ کس قدر ڈھیٹ تھا ان کا دل۔ اس میں کتنی جان تھی۔ منہ پر گوشت نام کو نہ تھا۔ مگر کچھ دن پہلے چہرے پر ورم آ جانے سے چہرہ خوبصورت ہو گیا تھا۔ کنپٹی ابھر گئی تھیں۔ پچکے ہوئے گال دبیز ہو گئے تھے۔ ایک موت کی سی جلا چہرہ پر آئی تھی اور رنگت میں کچھ عجیب طلسمی سبزی سی آگئی تھی۔ جیسے حنوط کی ہوئی ممی، مگر آنکھیں معلوم ہوتا تھا کسی بچے کی شریر آنکھیں جو ذرا سی بات پر ناچ اٹھتی تھیں اور پھر کبھی ان میں نوجوان لڑکوں کی سی شوخی جاگ اٹھتی تھی اور یہی آنکھیں کبھی دورے کی شدت سے گھبرا کر چیخ اٹھتیں۔ ان کی صاف شفاف نیلی سطح گدلی زرد ہو جاتی اور بے کس ہاتھ لرزنے لگتے۔ سینہ پھٹنے پر آ جاتا۔ دورہ ختم ہوا کہ پھر وہی روشنی، پھر وہی رقص پھر وہی چمک۔
’’بکواس ہیں۔۔۔ سبزی کی سب سے بڑی توہین ہیں۔ ان میں کوئی رس ہوتاہے نہ لذت۔۔۔ بس فقط ٹینڈے ہوتے ہیں۔۔۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ پیدا کس غرض کے لیے کیے گئے تھے۔۔۔ نہایت واہیات ہوتے ہیں۔۔۔ میں تو اکثر یہ دعا مانگتا ہوں کہ ان کا وجود سرے ہی سے غائب ہوجائے۔۔۔ بڑے بے جان ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کدّو بدرجہا بہتر ہے، حالانکہ وہ بھی مجھے سخت ناپسند ہے۔...
منشی جی کی قانون دانی میں بھی کوئی شک نہیں مگر’’پاس ‘‘کی منحوس قید نے انھیں مجبور کردیا تھا۔ بہر حال جو کچھ ہو یہ محض اعزاز کے لیے تھا ورنہ ان کی گذر ان کی خاص صورت، قرب و جوار کی بے کس مگر فارغ البال بیواؤں اور سادہ لوح مگر خوش حال بڈھوں کی خوش معاملگی تھی۔ بیوائیں اپنا روپیہ ان کی امانت میں رکھتیں، بوڑھے اپنی پونجی نا خلف لڑکوں کی دست برد سے محفو...
پیر پیمبر کو اب اور نہ زحمت دےچولہا چکی روٹی سبزی یا اللہ
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books