aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ہونقوں_سا"
بلند ٹیلے پہ بیٹھے بیٹھے ہونقوں ساکبھی تو روتا تھا اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر کبھی مسلسل میں اونگھتا تھا
یوں تو اپنوں سا کچھ نہیں اس میںپھر بھی غیروں سے وہ الگ سا ہے
تمہارے ہونٹوں سا کہہ دیا ہے کسی نے شایدوگرنہ پھولوں میں یہ نزاکت کبھی نہیں تھی
شازیہ کی ساس کے مطابق جاوید کے دادا بھی بہت سخت مزاج اور ضدی تھے لیکن جب جنسی ضروریات کی تسکین کی بات آتی تو وہ سر پر بٹھانے، پاؤں پکڑنے بلکہ بلک کر معافی مانگنے سے بھی نہ چوکتے۔۔۔ اب شازیہ اپنی ساس کو کیا بتاتی کہ جاوید بھی بہت بدزبان، سخت مزاج اور اڑیل تھا لیکن بستر پر اس کے مطالبات کی فہرست بہت طویل ہوتی جس میں رکاوٹ دور کرنے کے لئے وہ کچھ بھی کر ڈالتا۔ دادا کو عورت پر صرف سرخ کپڑے ہی اچھے لگتے تھے، جبکہ جاوید شازیہ کو سرخ قمیض اور سفید شلوار بہت شوق سے لے کر دیتا تھا۔صبح جاوید جب اس کے ہونٹ چوم کر آفس کے لئے نکلا تو اس نے اسے بتایا تھا کہ آج وہ کچھ دیر کے لئے ممی جی کو ساتھ لے کر مارکیٹ جائے گی۔ جاوید نے مسکرا کر یہ کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر ایک اور بوسہ ثبت کیا، باہر جاؤ گی تو میری زیادہ یاد ساتھ رہنی چاہئے۔
محمدگھر کیا آیا دوستوں کابازار لگ گیا۔ رونق، کھپ، رولا، تاش، رمی اور رمی کے ساتھ لوازمات۔ شمع جیسے رونقوں کے رنگ میں نہا گئی۔شمع جب بھی محمد کو چھوتی یا محمد جب کبھی ماں کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب بٹھاتا تو شمع کو وہ گرم لگتا۔ آخر شمع نے کچھ روز متواتر چیک کیا تو باقاعدہ ہلکا ہلکا بخار نکلنے لگا۔ چھوٹی موٹی دوائی دی گئی، گھڑی دو گھڑی کو بخار اتر جاتا پھر دوبارہ چڑھ جاتا۔ آخر کار بلڈ ٹیسٹ ہوا۔ کلچر ہوا، الٹرا ساؤنڈ ہوا، اور آخر میں سی۔ ٹی سکین سے یہی ظاہر ہوا کہ محمد کی بازی مات ہے۔ محمد کے اندر لگی دیمک یا گھن کو کسی طور بھی کھرچا نہیں جا سکتا کہ یہ مرض کے اس مقام پر ہے جہاں جگر کی ٹرانس پلانٹیشن بھی نہیں ہو سکتی۔ لاہور کے ماہر ڈاکٹروں نے محمد کی زندگی کوچھ ماہ پر پھیلایا اور لندن جانے کو کہا کہ وہاں بھی آپ اپنی تشفی کر لیں۔ لندن والوں نے خود تشخیص کرنے کے بعد لاہور کے ڈاکٹروں کی تشخیص کی تصدیق کی۔ انھوں نے بھی محمد کی زندگی محض چھ ماہ قرار دی۔ زندگی کو یوں آسانی سے کون اپنے ہاتھ سے جانے دیتا ہے۔ علاج شروع ہوا۔ وہی کیمو تھراپی، ریڈی ایشن، تبدیلی خون، اس علاج کاری ایکشن بخار، متلی، الٹیاں اور نہ معلوم کیا کیا کچھ۔ لیکن اس کے باوجود وہ دفتر جاتا رہا کہ بچوں کے لیے کچھ تو چھوڑ کر جانا تھا۔ کوئی بچہ بھی تو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوا تھا۔ محمد کی زندگی جس کہانی میں ڈھلتی جا رہی تھی اس کی تفصیل شمع اور بختیار کو اس وقت بتائی گئی جب فاطمہ محمد کو بیمار دیکھ کر لندن سے واپس آئی۔ فاطمہ نے سوچا کہ یہ بات اب ماما اور ڈیدی سے زیادہ دیر تک چھپائی نہیں جا سکتی۔ مائرہ اور محمد یہ سب پہلے سے جانتے تھے۔ لندن سے واپسی پر تیسرے روز فاطمہ نے اپنی ماما اور ڈیڈی کو اپنے گھر بلایا اور بغیر نظر ملائے محمد کی بڑھتی ہوئی بیماری کا ذکر کیا۔ بیماری کا نام لینے کے لیے اس کی زبان نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور تقریباً ہسٹریائی حالات میں وہ مسلسل بولتی رہی۔ ماما!! ایسے ہی ہو جاتا ہے۔ زندگی میں ایسے بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے ناخن نیلے پڑ گئے ہیں، بال بھی تواتر گئے ہیں نا، پر ڈیڈی اس بیماری میں ایسے ہی ہو جاتا ہے۔ فاطمہ اپنی گفتگو کو بس اسی قدر طول دے سکی اور اپنی کیفیت اور آنسو چھپانے کے لیے اس نے جھک کر چائے بنانی شروع کردی۔ وہ ایک بہادر لڑکی تھی لیکن ماں باپ کے سامنے وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ شمع اور بختیار گنگ تھے۔ ہونقوں کی طرح بیٹھے رہے۔ وہ بولنے کے قابل بھی نہ رہے تھے۔
معصوم نے قاتل کی جانب موبائل بڑھاتے ہوئے کہا۔ ”بھیّا۔۔۔ م۔۔۔ می۔۔۔ میری۔۔۔ ماں سے کہنا۔۔۔ میں مرگیا۔“ یہ الفاظ اداکرتے ہوئے اس نے اپنے جسم کی تمام طاقت کو موبائل پکڑے ایک ہاتھ اور دونوں آنکھوں میں سمیٹ لیاتھا۔ مگر یہ جملہ پورا ہوتے ہوتے اس کی ساری طاقت ختم ہوچکی تھی، البتہ اسکی معصومیت اور زندگی بھر کی محرومی اس کی آنکھوں میں یکجا ہوگئی تھی اور قاتل سے التجا کررہی تھی کہ اس کی موت کی خبر اس کی ماں کو پہنچادے۔ معصوم محض تین برس کی عمر میں ہی باپ کی شفقت سے محروم ہوگیا تھا۔ اس کی ماں سادگی پسند، نہایت شریف عورت تھی۔ شوہر کے اچانک انتقال کے بعد ساس نندوں کے جھگڑوں سے عاجز ہوکر اس نے سسرال کا گھر چھوڑ دیا تھا۔ اپنے اکلوتے غریب بھائی کے یہاں جانا اس کی خودداری کے خلاف تھا۔ تب اس نے ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لیا۔ اپنے بچے کی اچھی پرورش کے لئے اس نے بڑی محنت کی۔ گھر کی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے وہ دوپہرتک ایک مقامی پرائیوٹ اسکول میں ٹیچنگ کرتی، شام کو بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی اور ارات کو آس پاس کے لوگوں کے کپڑے سیتی تھی۔ کوئی دوسری شادی کا مشورہ دیتا تو وہ انکار کردیتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے بچے کو کسی کا سوتیلا پیار ملے۔ اس نے اپنی ساری خوشیاں، ہرطرح کے احساسات و جذبات کو اپنے بیٹے پر قربان کردیاتھا۔ مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے اس نے اپنے بیٹے کو انٹر میڈیٹ تک کی تعلیم کانوینٹ میں دلائی تھی۔
اس کا مطلب یہ شربت تلخ اور بدمزہ نہیں ہے اور ایسے یہ سب لگ رہا ہے تو اس کے دماغ کا فتور ہے اور پھر جب وہ تازہ تازہ ہائی سوسائٹی کا ممبر بن ہی گیا ہے تو پھر اسے ان کے طور طریقے سیکھنے ہوں گے۔اس نے بڑے حوصلے کے ساتھ گلاس کو ہونٹوں سے لگایا، ایک گھونٹ، دو گھونٹ، پھر کوئی تلخ سا گولہ حلق میں پھنسنے لگا جس نے اوپر سے نیچے جانے کا راستہ ہی بند کر دیا۔ اس نے گلاس پاس رکھی تپائی پر رکھ دیا، ابھی اس میں بےشمار گھونٹ مچل رہے تھے، اس نے تلخ گولے سے ذہن ہٹانے کے لئے ادھر ادھر دیکھا۔ سبھی لوگ دو دو چار چار کے ٹولے میں بٹے ہشاش بشاش سے، سرگوشیوں میں مصروف تھے، گلاس سب کے ہاتھوں میں تھے، کوئی ان میں سے پی نہیں رہا تھا، دو ایک گھونٹ لے کر یا تو گلاس ہاتھوں میں تھے یا پھر تپائیوں کی خوبصورتی بڑھا رہے تھے۔
عمریں بتانا ضروری نہیں!جب ہم ملے تھے تو وہ ایک نیم کھلے پھول کی طرح تھا؛ اس کے گال سرخ اور آنکھوں میں مستی بھری شرارت تھی۔ اس کی چال میں وقار بھرا ٹھہراؤ تھا جو عموماً اس عمر میں نہیں ہوا کرتا۔وہ عمر تو ایک باڑھ کی طرح پرشور اور ہنگاموں سے بھری ہوتی ہے لیکن وہ اپنے سبھاؤ میں ایک عجیب طرح کی طمانیت لیے ہوئے تھا جیسے سب کچھ پا گیا ہو۔ مجھے اس کی اس نیند میں ڈوبی لاتعلقی پر حیرت بھی ہوتی لیکن یہ تو گمان ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے اندر ایک طوفان لیے پھر رہا ہے؛ صرف اوپری سطح کا بہاؤ سکون میں ڈوبا ہوا ہے۔
’’درد بڑھتا گیا‘‘ قلمکار اظہر کلیم کی ادارت میں نکلنےوالے رسالے اشارہ کے جون 1986 کے غیر معمولی کہانی نمبر میں شائیع ہوئی۔رسالے نے کہانی کی پیشانی پر مسکراتی چہکتی دلچسپ کہانی کا طغریٰ لگایا۔۔۔ دلچسپ اختتام تک پہنچنے کے لئے دس منٹ پاس رکھئے گا۔۔۔ ’’شرافت کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ اپنے اس قد کاٹھ کی وجہ سے خود بھی بیٹھنے سے گریز کرتے نا کہ اب دوسرے آدمی کو بھی اپنے ساتھ ہی بیٹھنے کی آفر کر دی، لیجیے اب میں ہی اُٹھ جاتا ہوں۔‘‘ ’’مگر جناب یہ تو بچّہ ہے؟‘‘ ’’ارے ہاں صاحب! آپ بھی تو اپنے والدین کے لیے بچہ ہی ہوں گے حالانکہ آپ کا طول و عرض دونوں ہی ماشا اللّٰہ چَھے بائی چَھے کا ہے۔‘‘ ’’دیکھیے جناب! میں بہت برداشت کر رہا ہوں‘‘ ’’جی آپ تو کر رہے ہیں مگر میں اب مزید برداشت نہیں کروں گا کیونکہ آپ ہیں ہی ناقابلِ برداشت! سمجھے۔‘‘ بس میں یہ ہنگامہ کچھ اور طول پکڑ جاتا مگر اس سے پہلے ہی میری برابر والی ایک سیٹ خالی ہو گئی اور تمام مسافروں نے زبردستی انھیں میرے برابر بٹھا کر معاملہ رفع دفع کر ادیا۔ افوہ! کم بخت نے بلڈ پریشر ہائی کر دیا۔ ایک تو خود سانسیں لے لے کر میرے انجر پنجر ڈھیلے کر دیے اور پھر ایک اور کو بھی سر پرسوار کرنے پر مصر ہو گیاتھا۔ یعنی یک نہ شد دو شُد۔ تو یہ تھی نظامی صاحب سے میری پہلی ملاقات۔ اس کے بعد روز ہی اُن کی اور میری بس میں ملاقات ہونے لگی کیونکہ ہم دونوں ہی کو صدر اترنا ہوتا تھا اور یوں انھیں اس طویل سفر میں اپنی طویل ترین تقریر کرنے کی مکمل آزادی ہوتی تھی۔ نظامی صاحب کو بے تکان بولنے، مفت مشورے اور کوسنے دینے اور قرض و ادھار لینے میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کا ذاتی دعویٰ تھا کہ اپنے ذاتی تجربے کے بل بوتے پر آج تک انھوں نے کسی معاملے میں چوٹ نہیں کھائی۔ جوں جوں ان سے ملاقاتیں بڑھتی جاتی تھیں، اُن کے چھپے ہوئے جوہر مجھ پر کھلتے چلے جاتے تھے۔ ایک مہینے کے اندر ہی اندر وہ مجھ سے کافی حد تک فری بلکہ فری اسٹائل ہو چکے تھے اور اپنے تمام ہی چیدہ چیدہ واقعات، تجربات و مشاہداتِ زندگی سے مجھے آگاہ کر چکے تھے چنانچہ اب دو تین دن سے اپنے واقعاتی اسٹاک میں مندی کے باعث وہ مجھے بولنے کا موقع دینے پر کچھ کچھ راضی نظر آتے تھے۔ ’’کیوں میاں کیا اب تک شادی نہیں کی ہے تم نے؟‘‘ انھوں نے اپنی ٹیڑھی کمانیوں والی عینک کے گول گول شیشوں کے اوپر سے میری آنکھوں میں یوں جھانکتے ہوئے پوچھا جیسے میرے ہر دو جواب کی صورت میں کسی نئے مشورے یا تجربے سے آگاہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ’’کیوں میاں بولو۔ یہ سانپ کیوں سونگھ گیا، کیا اب تک کنوارے ہو؟‘‘ انھوں نے مستورات کے کمپارٹمنٹ پر پہلی بار سرسری نظر ڈالتے ہوئے پوچھا؟ پہلی بار سرسری اس لیے کہ اس سے پہلے دوران سفر وہ اس طرف بھرپور نگاہ ہی ڈالتے رہے تھے۔ سرسری نگاہ پہلی بار ہی ڈالی تھی۔ ’’اچھا تو برخوردار آپ غیر شادی شدہ ہیں؟‘‘ انھوں نے میرا یوں مکمل جائزہ لیا جیسے قربانی کے بکرے کا معائنہ کیا جاتا ہے، بلکہ مجھے تو ڈر ہوا کہ کہیں مُنھ کھول کر میرے دانت بھی نہ دیکھنے لگیں، اسی خوف سے میں خود دانت نکال کرہنسنے لگا۔ ’’ارے میاں! رو رہے ہو یا ہنس رہے ہو اور یہ بتاؤ، جب غیر شادی شدہ ہو تو اتنے خاموش خاموش کیوں رہتے ہو۔ بھئی ہنسا بولا کرو، نجانے بعد میں موقع ملے یا نہ ملے۔ ساری حسرتیں نکال لو، بعد میں تو خیر تم جانتے ہی ہو جہاں دو برتن ہوں گے وہاں کھٹ پٹ تو ہوگی ہی۔ خدا غارت کرے ان شادی دفتر والوں کو، کیسی کیسی ہنستی مسکراتی زندگیوں سے کھیلتے ہیں کم بخت۔ بے چارے کنواروں کو خوش دیکھ ہی نہیں سکتے، شادی شدہ لوگوں کی زندگی دیکھ کر بھی عبرت نہیں پکڑتے اور نہ شوہروں کی حالتِ زار دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ مجھے تو یقین ہے کہ یہ شادی دفتر والے کم بخت یا تو غیر شادی شدہ ہوتے ہیں یا پھر، اس دنیا سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم یعنی شادی کا انتقام لینے کے لیے یہ بزنس چلاتے ہیں۔ ارے بھئی اب تو بہت سی شادی شدہ خواتین بھی اس قابلِ مذّمت کاروبار میں ملوث ہو گئی ہیں۔ پہلے تو صرف غیر شادی شدہ خواتین ہی اپنی پسند کا رشتہ نہ ملنے تک ایسے دفاتر چلاتی تھیں مگر اب تو (انھوں نے ٹھنڈی آہ بھر کر اپنی جلال انگیز تقریر میں پہلا وقفہ دیتے ہوئے کہا) ان کے شوہروں نے بھی شاید حالات سے سمجھوتا کر لیا ہے یا پھر آنکھوں پر پردے پڑ گئے ہیں۔‘‘ ’’تو کیا آپ بھی شادی کے سخت مخالف ہیں؟‘‘ میں نے جوش جذبات میں ان کا ہاتھ زور سے دباتے ہوئے کہا۔ ’’ارے میاں! میرا ہاتھ تو چھوڑو۔‘‘ ’’اوہ!‘‘ میں ایک دم سے جھینپ سا گیا مگر ان کا سرخ ہاتھ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اُن کو اتنے دن صبر و ضبط سے سننے کا کچھ نہ کچھ انتقام تو لے ہی لیا۔ ’’خیر شکرہے ہاتھ کی جگہ گردن نہیں تھی۔‘‘ انھوں نے اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ’’شاید آپ برا مان گئے۔‘‘ میں نے پیچھے پلٹ کر ان کی طرف دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، مگر نظامی صاحب تو سیٹ ہی سے غائب تھے۔ شاید ناراض ہو کر ایک اسٹاپ پہلے ہی اُتر گئے تھے۔ خیر کل تک وہ پھر ٹھیک ہو چکے ہوں گے۔ یہی سوچتے سوچتے میں اطمینان سے سیٹی بجاتا اپنے اسٹاپ پر اتر گیا۔ گھر کے قریب پہنچا تو ببو کی دُکان پر ہنگامہ مچا تھا، یقینا وہی ریکارڈنگ کا بلوہ ہوگا۔ نجانے اس ببو کو کون ٹھیک کرے گا۔ جب سے ریکارڈنگ سے منع کرنے پر ببو نے دو تین لوگوں کے سر پھوڑے تھے، محلے والوں نے ڈر کے مارے اس کے منہ لگنا ہی چھوڑ دیا تھا، اگر تمام محلے والوں کا دل ٹٹولا جاتا تو میں بخدا کہہ سکتا ہوں کہ سب سے زیادہ اس کم بخت سے خار کھانے والا میں ہی نکلتا کیونکہ باقی سب تو آپس میں مل بیٹھ کر اس کی غیبتیں کرکے یا آتے جاتے، سبزی گوشت کی دکانوں پر کارنر میٹنگ کرتے وقت صرف ایک دوسرے کے سامنے اسے گالیاں دے دلا کر غیبتیں کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے مگر میں تو کسی کے سامنے بھی اس خوف سے ببو کو کچھ کہتے ہوئے ڈرتا تھا کہ اگر ببو کو کسی طرح پتہ چل گیاتو شاید میرے تو اسپیئر پارٹس بھی کہیں نہ مل پائیں۔ دھوبی کو کپڑے خورد برد کرنے کا، دودھ والے کو دودھ میں پانی ملانے کا اور پوسٹ مین کو منی آرڈر خورد بُرد کرنے کا اتنا شوق نہیں ہوگا جتنا اس ببو کو گلا پھاڑ قسم کی ریکارڈنگ سے شغفِ عظیم تھا۔ دکان کھلنے کے اوقات میں توسکون سے کوئی کام کرنا عذاب بن جاتا اور یوں چھٹی کا دن بھی ’’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں‘‘ اور ’’تیرے میرے لڑ گئے نین‘‘ قسم کے ہوشربا گانے سن سن کر غارت ہو جاتا۔ جس دن کسی کا امتحان ہوتا یا کسی گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو وہ بیچارہ ہمت کرکے ببو کے سامنے اپنی ماضی و حال کی تمام لغتوں کی چیدہ چیدہ گالیاں گفتاریاں انڈیلنے پہنچ جاتا۔ تمام محلہ جمع ہو جاتا اور ٹھٹ کا ٹھٹ لگ جاتا۔ دونوں جانب سے گالیوں کے تبادلے ہوتے۔ تمام محلے والوں کو فریقین کے مکالموں سے پتہ چل جاتا کہ کون کس خاندان سے ہے۔ بچے اپنی اردو درست کرتے، نوجوان سند یافتہ بزرگوں سے گالیوں کے مطالب، ماخذ، مخارج اور تراجم پوچھتے۔ بزرگ توبہ کرتے، کان پکڑتے رخصت ہوتے اور باقی تمام ا ہلِ محلہ اپنے اپنے ذخیرہ الفاظ میں خوب اضافہ کرکے ریکارڈنگ کے شور کے درمیان ہی تتر بتر ہو جاتے۔ شریف لوگ ڈرپوک ہوتے ہیں، اس محاورے کی تشریح کسی کو درکار ہو تو وہ ہمارے محلے میں آ کر دیکھ لے۔ پولیس تھانے کے نام سے ہر ایک بدکتا تھا کہ مبادا پولیس اطلاع کرنے والے ہی کو دھر لے اور پھر نجانے اس دیوہیکل ببو کے ہاتھ کتنے لمبے ہوں، کوئی اُلٹا ہی نہ پھنس جائے۔ میری کیا کسی کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ اس مصیبت سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اچانک مجھے نظامی صاحب کا خیال آیا۔ ہاں خود کو بڑا جہاندیدہ کہتے ہیں۔ اگر انھوں نے بولنے کا موقع دیا تو اُن سے ضرور ذکر کروں گا۔ دوسرے ہی دن میں نے نظامی صاحب سے اس واقعے کا ذکر کیا۔ ’’ار ے میاں یہ کونسی فکر کی بات ہے؟ اس ریکار ڈ پلیئر ہی کو غائب کر وا دو۔‘‘ ’’جی! مگر وہ کیسے؟‘‘ ’’ارے بھئی محلے کے لڑکوں سے کہو۔ ایک ہی دن میں سب کام کر دیں گے۔‘‘ ’’نہیں، نظامی صاحب ہمارے محلے والوں میں سے کسی میں اتنا دم خم نہیں۔‘‘ ’’اچھا! تو کیا تمام شادی شدہ لوگ ہی رہتے ہیں تمھارے محلے میں؟‘‘ انھوں نے خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’نہیں یہ بات نہیں ہے، نظامی صاحب!‘‘ ’’ارے چھوڑو یار، بس یہ سارا زن مریدی کا اثر ہے، پورے معاشرے پر اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔‘‘ (مجھے ان کا کل کا غصّہ یاد آ گیا۔) ’’اوہ! شاید کل آپ نے میری بات کا برا منا لیا۔ دراصل۔۔۔‘‘ ’’ارے نہیں میاں! بس کل کی بات کل ہی ختم ہو گئی۔ اچھا یہ بتاؤ، ٹوٹے ہوئے سو روپے ہوں گے؟‘‘ انھوں نے کچھ خجل سا ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے مدعا بیان کیا۔ ’’یار بات یہ ہے کہ اپنا بٹوہ میز پر ہی بھول آیا۔ بس شادی کا یہی ایک فائدہ ہے کہ دفتر جاتے وقت بیگم ہر بھولی ہوئی چیز یاد دلا دیتی ہے۔‘‘ اور اگر خدا نخواستہ دفتر سے واپسی پر منگوائی گئی کسی فرمائشی چیز کو بھول جانے کا خدشہ ہو تب تو آواز میں شہد گھول کر آپ کو فون پر بھی یاد دلا دیں گی۔ (انھوں نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔) مگر اس ایک فائدے کے ساتھ نقصانات کا اندازہ لگانے بیٹھ جاؤ تو شاید کئی قرطاس ابیض چھپ جائیں۔ وہ اپنی ہی کہے جا رہے تھے اور میں خیالوں ہی خیالوں میں سو روپے ان کو دے چکا تھا۔ ’’اس سے تو بہتر ہے کہ آدمی شادی ہی کر لے، صبح شام پیسے خرچ ہوں تو بھی یہ اطمینان تو رہتا ہے کہ اپنی گھر والی ہی پر خرچ ہو رہے ہیں۔ یہاں تو روز سو کا نوٹ نظامی صاحب پر قربان ہو رہا ہے اور ریٹرن (Return) صفر ہے۔‘‘ میں نے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں میاں! تمھارے تیور کچھ درست معلوم نہیں ہوتے؟ یہ گفتگو کے دوران میں شادی کا خود بخود ذکر چھیڑ دینا، بولتے بولتے چپ ہو جانا، بے خیالی میں بڑبڑانا، سوچوں میں کھو جانا، خود کلامی سے دو چار ہو جانا، اماں یہ سب تو کسی بڑے مرض کی چیدہ بلکہ پیچیدہ نشانیاں ہیں۔ ہمیں بھی تو کچھ پتہ چلے؟ ہم تمھارے ہم عمر نہ سہی مگر ہیں تو تمھارے ہی قبیلے کے۔(انھوں نے ہلکے سے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔) ارے بتا ہی ڈالو کہیں شادی وغیرہ کا چکر تو۔۔۔‘‘ ’’ارے نہیں نظامی صاحب! ’’بھلا میں اور شادی۔‘‘ ’’ہاں ہا ں میاں، تم اور شادی!‘‘ انھوں نے کھلم کھلا طنزیہ لہجے میں کہا اورسو کا نوٹ میرے ہاتھوں سے تقریباً چھینتے ہوئے بس سے اتر گئے۔ نظامی صاحب عمر کی جس منزل میں تھے بقول گوروں کے اس وقت تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور پھرچالیس پینتالیس سال کے کئی لوگ آپ کو غیر شادی شدہ مل جائیں گے مگر ’’آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں۔‘‘ والے معاملے کے ساتھ ہی ملیں گے مگر نظامی صاحب اس عمر کے پہلے دل برداشتہ شخص تھے جو شادی کیے بغیر ہی اس صیغہ یعنی شادی کے سخت مخالف اور شادی دفتر والوں سے سخت نالاں تھے۔ ان کی شخصیت بھی عجیب سی تھی۔ سر کے بال الجھے ہوے، گول شیشوں کی قدیم عینک ناک پر اور پیروں میں پرانی وضع کی سلیپر، یہ سب کچھ ان کی عمر سے کچھ ایسا لگا بھی نہیں کھاتا تھا مگر شاید یہ سب کچھ اب ان کی شخصیت اور مزاج کا حصہ بن چکا تھا اورجس کے بغیر وہ کچھ نا مکمل اور ادھورے ادھورے سے لگتے۔ شادی کے بارے میں ان کا سخت رویہ دیکھ کر بعض دفعہ تو جستجو سی ہونے لگتی کہ اتنے جنجال کے باوجود آخر پھر بھی لوگ دھڑا دھڑا شادیاں کیوں کیے جا رہے ہیں؟ کبھی کبھی تو میرا دل بھی چاہتا کہ اپنے ہم عمروں کی طرح گھر بسا ہی ڈالوں مگر پھر نظامی صاحب کی حکایتیں اور رنج و الم سے بھرپور واقعات یاد آ جاتے اور ایک فلسفی کا مشہور قول ذہن میں گونجنے لگتا کہ شادی ایک ایسا پنجرہ ہے کہ جو اس کے اندر ہیں باہر آنے کے لیے پھڑپھڑا رہے ہیں اور جو باہر ہیں وہ اندر آنے کے لیے بے کل ہیں اور شادی ایک ایسا پھل ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ خیالوں ہی خیالوں میں بچوں کی چیخنے چلانے رونے اورلڑنے بھڑنے کی آواز یں دل و دماغ کو دہلا جاتیں۔ شور شرابا، اٹھک پٹخ، پابندیاں، زن مریدی، وقت پر حاضریاں، سسرال میکے کے جھمیلے، جبر، پابندی۔۔۔ یہ تمام خیالات مجھے بد حواس کر دیتے۔ نہیں بھئی ہم تو خوش و خرم آزاد فضاؤں ہی میں بھلے ہیں لیکن اگر قدم سے قدم ملا کر چلنے والا کوئی ایسا جو بقول شاعر، ’’میری وحشتوں کا ساتھی ہو، میرے خیال کے سب موسموں کا ساتھی ہو۔‘‘ اگر کوئی ایسا اچانک ہی دوڑتی بھاگتی زندگی میں آ ٹکرائے تو؟ پتھریلے راستوں پر چلتے چلتے، اچانک جیسے پاؤں تلے نرم بُھربُھری سی ریت آ جائے بالکل اسی طرح جیسے کوئی خوابوں میں تعبیر کے سچے رنگ بھر دے تو کیا تب بھی؟ اس سے راہیں بدل لینا چاہیے یا؟ افوہ! میں چونک پڑا، یہ میرے خیالات کو کیا ہو گیا ہے؟ شاید نظامی صاحب کے ہر وقت کے پروپیگنڈے کے مجھ پر منفی ہی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ واہ نظامی چچا خود تو اس طوفان سے صاف بچ نکلے اور ہمیں دھکیلے دے رہے ہیں۔ نہ بھائی نہ، ہم یونہی بھلے۔ میں انھی سوچوں میں گم گلی میں داخل ہوا تو تیز گانوں کے اُسی بے ہنگم شور نے میرا استقبال کیا۔ میں نے ایک نظر اپنی صحت کا بنظرِ غائر معائنہ کیا اور پھر غصّے سے ببو کی دکان کے بجائے اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ ’’یا الہٰی محلے سے یہ عذاب کسی طرح ٹال دے!‘‘ میں نے بے بسی سے دُعا مانگی۔ ’’کیا بات ہے میاں! پھر کچھ اداس اداس سے لگ رہے ہو جیسے آنکھ ویران، دل پریشان، لب خموش۔آج بتا ہی دو معاملہ کیا ہے؟‘‘ بس میں چڑھتے ہی نظامی صاحب نے جیسے مجھ پر چڑھائی ہی کر دی۔ ’’ارے اب آپ کو کیا بتاؤں۔‘‘ اور یہ کہہ کر پھر میں نے نظامی صاحب کے سامنے اپنے محلے پر گزرنے والی پوری قیامت کی روداد سنا ڈالی، مگر وہ تو سامنے سے گزرنے والی کسی اور ہی ’’قیامت‘‘ کا ایڑی سے چوٹی تک معائنہ کرنے میں مصروف تھے۔ میرے کھنکھارنے پر ایک دم ہربڑا کر مڑے اور بولے، ’’ہاں بھئی، ان خاتون کی سینڈلیں دیکھ رہا تھا، کافی مضبوط معلوم ہوتی ہیں، شاید باٹا کی ہیں۔‘‘ ’’مضبوطی کا اندازہ تو خیر باآسانی کیا جا سکتا ہے، بس ذرا سر بھی مضبوط ہونا چاہیے۔‘‘ میں نے دل میں سوچا۔ ’’مگر مگر نظامی صاحب! پھر آپ، آپ شادی کے اس قدر مخالف کیوں ہیں آخر؟‘‘ میں نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ ماری۔ میرا سوال سن کر پہلے تو وہ مجھے عقابی نگاہوں سے گھورنے لگے، پھر اچانک پیترا بدل کر پیشانی پر شکنیں ڈالتے ہوئے بولے، ’’پتہ ہے شادی کے بعد ہر اس سوال کا جواب دینا ہوتا ہے جس کے بارے میں شاید تمھیں یہ گمان ہوکہ صرف روزِ حشر ہی جواب دینا ہوگا۔ مثلا، مال کہاں خر چ کیا، نظر کہاں ڈالی، وقت کہاں گزارا وغیرہ وغیرہ۔ اب ان دونوں کو دیکھو، انھوں نے ہماری بس کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہنستے مسکراتے جوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاـ’’شاید نہیں بلکہ یقینا ان کی نئی نئی شادی ہوئی ہے کیونکہ شوہر مستقبل کے خطروں سے بے نیاز بے حد خوش و خرم نظر آ رہا ہے۔ اس بیچارے کو کیا معلوم کہ مستقبل قریب میں اس پر نہ صرف قیامت بلکہ گھر کے سارے برتن بھی ٹوٹنے والے ہیں۔‘‘ ’’بھئی ہمارے بھائی صاحب ہی کی مثال لے لو، بیچارے کو بچپن ہی سے شلجم سے نفرت اور شادی سے رغبت رہی تھی، مگر اب جب بھی ا ن کے گھر جانا ہوتا ہے تو بیٹھے ہوئے شلجم ہی کی کوئی نئی ڈش کھا رہے ہوتے ہیں بلکہ ایک دن تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ شلجم خون بناتا ہے اور شادی خون جلاتی ہے، اس لیے شلجم کو ہر انداز میں کھانا چاہیے۔ پرسوں میں گیا تو بچوں کے ساتھ شلجم کا سوپ پی رہے تھے اور سویٹ ڈش کے طور پر بیگم نے شلجم کا حلوہ تیار کر رکھا تھا۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگے، بس بھائی کیا بتاؤں اب شلجم سے رغبت اور شادی سے نفرت ہو گئی ہے بلکہ بیگم کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر یہ تک کہہ گئے اب تو تمام عمر شادی نہ کرنے کا تہیہ بلکہ عزم صمیم کر لیا ہے۔ ‘‘ شاید نظامی صاحب کی یہ مشاہدات اور تجربات کی طویل داستان ابھی اور طول کھینچتی اگر انھیں یقین نہ ہو جاتا کہ میں ان کی مدلل تقریر سے مکمل طو رپر ہپنا ٹائیز ہو گیا ہوں، چنانچہ اپنے اس تجربے کی کامیابی کا یقین ہوتے ہی انھوں نے مجھ سے پوچھا، ’’کیوں میاں ہل گیا نہ کلیجہ؟‘‘ اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے خوفناک، دہشت ناک اور ہیبت ناک قسم کے واقعات سن کر نہ صرف کلیجہ بلکہ دل، دماغ، جگر سب ہی دہل کر رہ گئے تھے۔ ہماری بس حسبِ معمول پیچھے سے دوسری بس کے آنے کے انتظار میں کافی دیر سے کھڑی تھی۔ ’’کیوں میاں گنے کا رس پیو گے؟‘‘ نظامی صاحب نے موقع سے فائدہ اٹھاکر پوچھا اور پھر میرا انتظار کیے بغیر ہی کھڑکی سے منہ نکال کر دو گلاس کا آرڈر دے ڈالا۔ ’’صاحب پیسے پہلے دے دیں، بس چلی جاتی ہے تو ہمارا پیسہ رہ جاتا ہے۔‘‘ ’’ہاں ہاں میاں ضرور لو۔ یار سنو تمھارے پاس کچھ، میرا مطلب ہے، یہ میرا ہزار کا نوٹ بڑا بھاگوان ہے کئی سالوں سے کھلا ہی نہیں ملتا۔‘‘ اور پھر دوسرے لمحے ہی سو کا نوٹ پھر میری جیب سے جا چکا تھا۔ بلکہ مجھے تو یوں لگا جیسے گنے کا ٹھیلا بس والے ہی کی ملکیت تھا یا پھر دونوں میں کچھ مِلی بھگت تھی، جبھی تو روپے دیتے ہی ڈرائیور نے ایکسی لیٹر پر پاؤں رکھا اور بس دوڑا دی۔ میں اور نظامی صاحب دھپ دھپ کرتے ہی رہ گئے اور نظامی صاحب چلتی بس سے یہ کہتے ہوئے اتر گئے کہ بھائی یہ سو روپے کا قومی نقصان میں برداشت نہیں کر سکتا۔ دوسرے دن نظامی صاحب کی خراشوں اور چوٹوں پر تبصرے کے بعد میں نے انھیں چیلنج دے دیا کہ اگر وہ میرے محلے سے ریکارڈنگ ختم کرا دیں تو میں نہ صرف ان کا مرید بن جاؤں گا، بلکہ عمر بھر شادی نہ کرنے کا عہد بھی کر لوں گا جو کہ ان کی زندگی کا عظیم مشن معلوم ہوتا تھا۔ بعض دفعہ تو مجھے ان پر منصوبہ برائے بہبود آبادی کے خفیہ ایجنٹ ہونے کا شبہ ہوتا۔ میرا چیلنج سن کر نظامی صاحب تھوڑی دیر کے لیے بالکل چپ ہو گئے۔ ’’یقینا تمھارا یہ ببو شادی شدہ ہوگا، اسی لیے گھر کے اندر ہونے والی اٹھک پٹخ کے شور کو دبانے کے لیے یہ ریکارڈنگ کا روگ پالا ہوگابیچارے نے۔‘‘ ’’نہیں نظامی صاحب ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ ’’اچھا۔۔۔ یہ تمھارے ببّو کی عمر کیا ہوگی؟‘‘ ’’ادھیڑ عمر ہے۔۔۔ یہی بس آپ کا ہی ہم عمر ہوگا شاید۔۔۔ میرا مطلب ہے جوان ہی سمجھیے۔سنا ہے دو تین رشتے ٹوٹ چکے ہیں۔۔۔ وجہ نا معلوم۔۔۔ مگر آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘ میری بات سن کر وہ کافی دیر سوچوں میں غلطاں و پیچاں رہے، جیسے میرے چیلنج کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہے ہوں۔۔۔ اور پھر ایک لمبی آہ بھر کر بولے، ’’چلو میاں تمھارا چیلنج منظور، مگر ایک شرط ہے۔۔۔‘‘ ’’وہ کیا؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔ ’’اس شرط کے تکمیلی مراحل کے دوران میں تمھیں میرے کسی منصوبے کے بارے میں جاسوسی کرنے، معاملے کو کریدنے، ٹوہ لینے اور خفیہ کارروائیوں کے بارے میں جاننے کا اس وقت تک کوئی حق نہیں ہوگا، جب تک تمھارا کام پورا نہیں ہو جاتا۔‘‘ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، سو میں جھٹ تیار ہو گیا۔ ’’اب مشن کی تکمیل ہی پر تفصیلی ملاقات ہوگی، سمجھے!‘‘ اور یہ کہہ کر وہ ایسا غائب ہوئے کہ ہفتوں نظر نہیں آئے۔ یا الہٰی انھیں زمین کھا گئی یا آسماں نگل گیا، کئی ہفتوں بعد میرے ہی محلے میں نظر آئے۔ میں سمجھ گیا حالات کا جائزہ لینے آئے ہیں مگر اس بابت کچھ بھی نہیں پوچھا۔ بس سلام دعا کرکے رخصت ہولیا، پھر وہ اکثر محلے میں اور بیشتر ببو کے گھر میں دیکھے جانے لگے۔ اکثر گلی میں ان سے مڈ بھیڑ ہو بھی جاتی تو ریکارڈنگ کے شور میں کچھ بات کرنا محال ہو جاتا۔ میں کچھ پوچھنا بھی چاہتا تو نہ نہ کرکے مجھے معاہدے کی شرائط یاد دلاتے ہوئے کسی گلی میں پر اسرار طور پر رو پوش ہو جاتے۔ دل ہی دل میں ڈر رہا تھا کہ ببو کے گھر ان کی آمدورفت نجانے کیا گل کھلائے؟ اب تو شاید کم بخت نے بڑے اسپیکروں کا انتظام کر لیا تھا۔ پورے محلے میں ہر وقت ایک قیامت برپا رہتی۔ واللّٰہ اعلم! یہ نظامی صاحب کیا گل کھلانے والے ہیں؟ کہیں ساری تدبیریں الٹی نہ ہو جائیں؟ اور مجھے یہ محلہ چھوڑ کر اپنی جان بچانا پڑیمگر اس دن تو میں سناٹے ہی میں آ گیا جب پڑوس والے مرزا صاحب نے میری طرف طنزیہ انداز میں دیکھتے ہوئے فرمایا: ’’کیوں میاں تمھارے کیا ارادے ہیں؟ کیا مہر باندھنے کے لیے رقم نہیں ہے، جو اب تک یونہی گھوم رہے ہو؟ بھئی اب تو اس لنگور ببو کی بھی شادی ہو رہی ہے، تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ’’کیا ببو کی شادی‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا؟ ’’ہاں بھئی کیا اسے شادی کا حق نہیں ہے؟‘‘ میرا گلا خشک ہونے لگا۔ دو گلاس ٹھنڈا پانی چڑھانے کے بعد میرے حواس بحال ہوئے تو۔۔۔ کیا نظامی صاحب اس ببو کی شادی کرا رہے ہیں؟مگر، مگر مجھے تو وہ ہمیشہ شادی کے بیش بہا اور گرانقدر نقصانات ہی گنواتے رہے ہیں، انھیں اچانک یہ کیا ہو گیا۔ میں نے ٹھنڈے دماغ سے حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ شاید مرزا صاحب میری مالی پوزیشن پر کچھ طنز کر رہے تھے۔ حالانکہ میری تنخواہ بری نہ تھی او ر شادی نہ کرنے کی یہ وجہ ہر گز نہ تھی۔ لوگ تو نجانے کیا کیا توجیحات پیش کرتے رہتے ہیں، مگر شاید مرزا صاحب بھی ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔ شادی کے بعد آدمی کا بھرم قائم ہو جاتا ہے۔ لوگ محلے میں مکان دیتے ہوئے گھبراتے نہیں ہیں۔ بازار کے کھانے کھا کھا کر صحت برباد نہیں ہوتی اور اگر اچھا ساتھی مل جائے تو زندگی افسانوی سے انداز میں بھی گزر سکتی ہے۔ مگر نظامی صاحب سے مجھے یہ امید ہر گز نہ تھی اور اس طرح ریکارڈنگ ختم ہونے کی کوئی امید بھی تو نہ تھی۔ ببو کی بیوی بھی موسیقی کی شیدائی نکل سکتی تھی یا پھر دونوں میں واقعی ایسی کھٹ پٹ بھی ہو سکتی تھی کہ اس کو دبانے کے لیے ببو کو اپنی ریکارڈنگ کا والیوم اور بڑھانا پڑتا۔ بہرحال کچھ بھی سہی مگر شادی کے ذریعے ریکارڈنگ بند کرانے کا اگر کوئی طریقہ تھا بھی تو میرے نزدیک سخت غیر شریفانہ اور غیر مستند تھا، جس میں کامیابی کے آثار بھی چند ہی فیصد تھے، مگر میں کیا کر سکتا تھا۔ نظامی صاحب روپوش تھے۔ جیسے جیسے شادی کے دن قریب آ رہے تھے، پورے محلے کے دل کی ہوک اور ریکارڈنگ کا شور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ شادی کے دو تین دن دکان بند رہنے کی وجہ سے ریکارڈنگ کا کچھ زور ٹوٹا، مگر تیسرے دن سے پھر وہی مسلسل طوفانِ بد تمیزی کا آغاز ہو گیا۔ سار ے محلے والوں کے منہ لٹک گئے، ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اُدھر نظامی صاحب تو ایسے غائب ہوئے کہ پلٹ کر شکل بھی نہیں دکھائی اور اب شاید وہ اس قابل بھی نہیں تھے۔شرط پر تو خیر اب خاک پڑ ہی گئی تھی، انھیں غائب ہوئے تقریباً مہینے سے زیادہ ہو گیا تھا مگر اب میں نظامی صاحب سے ملنے کے لیے بے چین تھا۔ اس دن میری آنکھ ذرا دیر سے کھلی تو فضا کچھ غیر مانوس سی لگی، جیسے کسی چیز کی کمی ہو، کچھ کہیں کھو سا گیا ہو۔ اچانک میرے ذہن میں بجلی سی کوندی۔ ببو کی دکان کھلی تھی اور ریکارڈنگ بند تھی۔ شاید میرا وہم تھا۔ میں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی مگر کچھ بھی سنائی نہیں دیا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے باہر نکل کر دیکھا۔ پورا محلہ بھی شاید حیرت و خوشی کے باعث مبہوت سا ہو کر رہ گیا تھا۔ ایک دن، دو دن اور پھر روزانہ ہی کا یہ معمول بن گیا، پورا محلہ جیسے چپکے چپکے جشن منا رہا تھا، سب دل ہی دل میں خوشیاں منا رہے تھے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اہلِ محلہ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے۔ کن انکھیوں سے ببو کی دکان کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور ببو کی بیوی کو دعائیں دیتے، مگر مجھے نظامی صاحب کی تلاش تھی۔ خیر انھوں نے جو کچھ بھی کیا، نتیجتاً محلے پر سے عذاب ِمسلسل تو ٹل گیا تھا۔ مگر مجھے تو یہ جاننے کی بے چینی تھی کہ آخر نظامی صاحب نے اس بوتل کے جن کو قابو کیسے کیا؟ مگر نظامی صاحب کا کہیں سراغ نہیں مل رہا تھا، نجانے انھوں نے کیا چکر چلایا تھا؟ میں انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں بس میں بیٹھا پچھلے دنوں کے پر اسرار واقعات پر غور ہی کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے میرے شانے پر زور دار ہاتھ مارا۔ میں اُچھل کر رہ گیا۔ مگر اس کی وجہ میری کمزور دلی نہیں بلکہ میرے سامنے کھڑا نظامی صاحب کا وہ سراپا تھا جو بالکل ہی بدل چکا تھا۔ اچھا تو نظامی صاحب نے ببو کی شادی کر انے کا خوب کمیشن لیا ہے جبھی تو شکل و صورت سب بدل گئی ہے۔ میں نے غور سے انھیں دیکھا۔ خوبصورت سنہری کمانی کی عینک، قرینے سے سیٹ کیے ہوئے بال، ریڈی میڈ شلوار قمیض اور اس میں سے آتی ہوئی پرفیوم کی ہلکی ہلکی خوشبو۔ ’’نظامی صاحب! آپ۔۔۔بھئی آپ کہاں غائب ہو گئے تھے؟ آپ نے تو کمال ہی کر دیا، مگر آپ نے یہ سب کیسے کیا؟‘‘ میں نے چھوٹتے ہی ان کا گھیراؤ کر لیا۔ ’’ارے میاں ذرا دم تو لینے دو، سانس تودرست کر لوں، ذرا خیر خیریت ہی پوچھ لو۔‘‘ میں بھی ڈھیٹ بن گیا۔ ان کا حال احوال معلوم کر کے پھر وہی سوال پوچھ بیٹھا جو مجھے بے کل کیے دے رہا تھا۔ ’’ارے نظامی صاحب یہ تو بتائیں یہ سب ہوا کیسے؟‘‘ میرا بے چینی کے مارے برا حال تھا۔ ’’ارے بھائی ہم نے کون سا ایسا تیر مارا ہے؟ تم آم کھاؤ پیڑ کیوں گنتے ہو۔‘‘ ان کا روکھا سا جوا ب سن کر میر ا تجسس اور بڑھ گیا۔ ’’مگر نظامی صاحب یہ سب، میرا مطلب ہے!‘‘ ’’ارے بھئی تم اتنے بے تاب ہورہے ہو تو پھر پوری بات سن ہی لو۔‘‘ انھوں نے ایک لمبی سانس بھر کر میرا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ ’’بھئی تمھاری شرط پوری کرنے کے لیے سب سے پہلے تو ہم نے ببو میاں سے راہ و رسم بڑھائے۔ اکثر و بیشتر انھیں شادی کے نقصانات اور ریکارڈنگ کے فوائد پر لیکچر دیے، شروع شروع میں تو انھوں نے ہمیں گھانس نہیں ڈالی، مگر آہستہ آہستہ ان کا تجسس بڑھنے لگا۔ ہم نے انھیں شادی سے ڈرانا شروع کیا اور پھر کچھ ہی دنوں میں ان کی حالت یہ ہو گئی کہ ہم جیسے جیسے انھیں شادی کے نقصانات بتا تے وہ اتنا ہی شادی کے شوق میں مرے جاتے۔ ہم انھیں بتاتے کہ بیوی کو دن رات کا حساب دینا ہوتا ہے تو وہ کسی لیڈر کی طرح فرماتے کہ احتساب تو اچھی چیز ہے، ہم انھیں ڈراتے کہ بچوں کے فیڈر اور ڈائیپر بھی شوہر کی ذمہ داری بن جاتی ہے تو وہ سنجیدگی سے جواب دیتے کہ میاں بیوی تو ہوتے ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ہم انھیں دہلاتے کہ شادی کے بعد زندگی قید بن جاتی ہے تو وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہتے ایسی قید میں تو مر جانے کو دل چاہتا ہے۔۔۔ غرض یوں سمجھو کہ درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔۔‘‘ ’’بس ایک دن ہم انھیں اسی طرح شادی کے خطرات سے آگاہ کر رہے تھے کہ انھوں نے اپنی شادی کے لیے خاتون ڈھونڈنے کی فرمائش ہمارے سامنے دھر دی۔‘‘ ’’یعنی آپ کے مدلل بیانات کے باوجود؟ اوہ! توآپ کا یہ طریقہ کار ہے۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ ’’بہر کیف اُن کے لیے خاتون تلاش کی گئیں اور یوں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔‘‘ ’’مگر پھر یہ ریکارڈنگ رُکی کیسے؟‘‘ شاید وہ زندگی میں پہلی بار نہ چاہتے ہوئے بولنے پر مجبور تھے ورنہ وہ ہمیشہ خود ہی خوب خوب بولنے پر مصر رہتے تھے۔ ’’ٹکٹ جناب!‘‘ کنڈیکٹر نے بیچ میں آکر ہم دونوں کی بات کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ خلافِ توقع نظامی صاحب نے اپنی جیب سے فوراً پیسے نکال کر دیتے ہوئے کہا، ’’میاں کنڈیکٹر، تین ٹکٹ۔‘‘ ’’تین نہیں، دو۔‘‘ میں نے تصحیح کرتے ہوئے کہا۔ نظامی صاحب نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولے، ’’کیوں بھئی! کیا اپنی بھابی کو بغیر ٹکٹ کے سفر کرواؤ گے؟‘‘ ’’کیا!‘‘ میں ایک دم اُچھل ہی پڑا۔ ’’کیا یعنی آپ نے شادی۔۔۔‘‘ میں نے بمشکل تھوک نگلتے ہوئے ہونقوں کی طرح پوچھا۔ ’’ہاں ہاں! بھئی جذبات قابومیں رکھو، ہوتا ہے ہوتا ہے ایسا بھی ہوتا ہے۔ دراصل تم جانتے ہو کہ یہ رشتے وغیرہ طے کروانا ذرا ٹیڑھی کھیرہوتی ہے۔ یہ مردوں کے بس کا روگ نہیں اس لیے ببو میاں کی شادی کرانے اور تمام جھمیلوں سے نمٹنے کے لیے کسی خاتون کی ضرورت تھی۔ سو تمھاری خاطر ہمیں یہ شادی کرنا ہی پڑی۔ بس تمھاری بھابی ہی نے ببو کی شادی کا تمام انتظام کیا، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ہم تو اپنی ہی کر کے بے حال ہو گئے تھے۔ ’’ مگر آپ تو!‘‘ میں نے بات کاٹنے کی کوشش کی۔ ’’ہاں ہاں میاں! بس چپ رہو، اب کچھ نہ پوچھنا۔‘‘ انھوں نے مجھے خاموش ہی کرا دیا۔ ’’اچھا یہ تو بتا دیجیے کہ آخر ببو کی بیوی نے ریکارڈنگ کس طرح بند کروائی؟‘‘ ’’ارے میاں ہم نے بھی کچی گولیاں تو نہیں کھیلی ہیں اور پھر تمھاری شرط کا خیال بھی تو تھا اس لیے ببو کے لیے جس خاتون کا انتخاب عمل میں لایا گیا وہ بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں اور تم تو جانتے ہی ہو کہ شور و غل بلڈ پریشر کے مریضوں کا قاتل ہوتا ہے۔ سو یوں تمھارا مسئلہ بھی حل ہو گیا اور ببو کا بھی!‘‘ ابھی میں نظامی صاحب کی اس تمام ڈرامائی قسم کی اسٹوری پر بھونچکا ہی تھا کہ نظامی صاحب ’’میرا اسٹاپ آ گیا۔۔۔ میرا اسٹاپ آ گیا۔‘‘ کہتے ہوئے اترنے کے لیے لپکے۔ ’’مگر نظامی صاحب سنیے تو سہی!‘‘ میں نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا، مگر وہ کب کا میرا ہاتھ چھڑا کر اب چلتی رکتی بس کی کھڑکی کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔ ’’جلدی بولو کیا بات ہے؟‘‘ انھوں نے بس کے ساتھ بھاگتے بھاگتے پوچھا۔ ’’دراصل۔۔۔ دراصل میں اپنی شرط توڑنے کا ارادہ کر بیٹھا ہوں، میں نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ میری بات سن کر وہ تقریباً اچھل ہی پڑے، ’’اماں! کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ ’’جی بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔‘‘ میں نے کچھ خجل سا ہوتے ہوئے کہا۔ وہ چلتی رکتی بس کے ساتھ ساتھ دوڑ کر ابھی تک اپنی حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔ ’’کیا واقعی میرا مطلب ہے اگر تم نے واقعی ایسا ارادہ کر ہی لیا ہے تو مجھ سے دفتر میں آ کر مل لینا، یہ لو میرا کارڈ۔‘‘ بس روانہ ہو گئی۔ میں نے اس کارڈ کو غور سے دیکھا، جس پر گلاب کے دو چھوٹے پھولوں کے درمیان سرخ رنگ سے لکھا تھا، ’’بہترین رشتوں کے لیے رجوع کیجیے۔ نظامی شادی دفتر۔‘‘
وہ بےحد خوبصورت تھی۔نہیں نہیں، اس کے حسن کی انتہا نہیں تھی۔
نئے زخم ہم کو دیے جا رہے ہو دعائیں ہماری لیے جا رہے ہو یہی وہ غزل تھی جسے آج کل میں دن رات سن رہا تھا کیونکہ ٹیلیفون پر اس کھنکتی ہوئی آواز میں کئی دفعہ یہی غزل سن چکا تھا اور اب غزل کا ایک ایک مصرع میرے لیے ہزار ہزار معنی رکھتا تھا۔ دوستوں، ساتھیوں اور گھر والوں کو چھوڑ کر میں ملازمت کی تلاش میں گاؤں سے کراچی آ گیا تھا۔ موبائل نہ دینے پر قتل تک کے واقعات جیسی خبریں سن سن کر چلتے وقت ابا نے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھاکہ ایک گاؤں سے جانے والے نووارد کو موبائل کے جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہیے اورمیں نے بھی ایک فرمانبردار پینڈو کی طرح ان کی بات کو گرہ سے باندھ لیا تھا۔ مگر اس گھر سب سے بڑی سہولت لینڈ لائين کے فون کی تھی۔ ’’ویسے شہر کی کڑیاں گاؤں کے کڑیل مگر ہونق اور گاؤدی لڑکوں پربھی مرمٹتی ہیں اور تُوتو ویسے بھی لمبا چوڑا، گورا چٹا، سرخ سفید، گبھرو جوان ہے۔‘‘ گاؤں سے چلتے وقت میرے یاروں نے یہی سب دماغ میں ٹھونس دیا تھا۔ دوستوں کے معاشقے اور محبت کی داستانیں سُن سُن کر مجھ پر بھی ہزاروں بار عشق کے بھوت نے سوار ہونے کی کوشش کی۔ مگرکئی کئی گھنٹے آئینے کے سامنے آڑی ترچھی اور درمیانی مانگ نکالنے، تیل، جیل (GEL)اور کریمیں تھوپنے، کلف لگے کالر سیدھے کرنے، دانتوں پر دنداسا، مسواک اور ٹوتھ پاؤڈر کے ساتھ طرح طرح کے منجن ملنے کی تمام مشقوں کے باوجود اب تک کسی لڑکی نے مجھے گھاس تک نہ ڈالی تھی۔ کئی قریبی دوستوں کی مشاورت کے بعد میرے’’گیٹ اَپ‘‘ میں بھی کافی تبدیلی آ چکی تھی۔ ایک مخلص دوست نے میرے سر کے بیچوں بیچ نکلی بالوں کی مانگ کو ’’تلوار سے نکالی گئی‘‘ مانگ قرار دیا، تو میری مانگ ترچھی ہوگئی۔ دوسرے دیرینہ ساتھی نے میری بادامی آنکھوں کے کونوں سے نکلتی سرمہ کی دھاروں پر اعتراض کیا تو بچپن کی یہ سوغات بھی متروک ہوئی۔ ایک اور رازدان نے دراز مونچھوں کے دائیں بائیں آدھے دائرے بناتے گول گول کونوں کو جلیبی سے تشبیہ دی تو میں’’کلین شیو‘‘ ہوکر ’’پالش شدہ گڈا‘‘ بن گیا۔ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ابھی تک میرا نصیب سویا پڑا تھا۔ میرے گھر سے تین گھر چھوڑ کر مرزا صاحب کا گھرتھا جن کا تیرہ چودہ سالہ لڑکا گُلو میرے گھر گرنے والی کٹی پتنگ لوٹنے گیٹ پھلانگ کر آجاتا۔ شروع میں تو میں نے گُلو کو بالکل لفٹ نہیں کرائی، مگر جب کئی بارآتے جاتے اس نے اپنی باجی کی تعریفوں کے پل باندھے تو مجبوراً مجھے گلُو پر مہربان ہونا ہی پڑا، کیونکہ اگر بات بن جاتی تو میں بھی دوستوں میں بیٹھ کر اپنے شہری معاشقے کے قصے سنانے کے قابل ہو سکتا تھا۔ بقول گلُو، اس کی باجی اکثر میرے متعلق پوچھتی رہتی تھیں۔ میں بات آگے بڑھانے کی جستجومیں گُلو پر مہربان ہونے کی کوششیں کر ہی رہا تھا مگر اسی دوران میں فون پر غزل سرا ہونے والی ایک نئی قیامت میرے ہوش و حواس پر سوار ہو گئی۔اس کی ابتدا بھی رانگ نمبر سے ہوئی۔ شروع میں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ادھر میں نے ریسیور اٹھایا اور اُدھردوسری طرف سے فون بند۔۔۔ مگر اب دو چار دن سے رسیور اٹھاتے ہی دوسری جانب سے ایک جلترنگ سی آواز میں غزل چھیڑ دی جاتی اور میرے دل کے تاروں کو جھنجھنا کر کھٹ سے فون بند کر دیا جاتا۔ پہلے پہلے تو میں یہ سمجھا کہ کوئی نفسیاتی مریضہ ہے جسے گانے کا بہت شوق ہے مگر اس کے راگ سننے والا کوئی نہیں، اس لیے وہ احساسِ کمتری کی وجہ سے ایسا کرتی ہے اگرچہ وہ آواز کچھ ایسی اچھی بھی نہ تھی مگر مجھ جیسے بزدل پر بلاجھجک ایک نسوانی آواز کا مائل ہو جانا ہی کچھ کم قیامت نہ تھا۔ چند روز بعد دونوں طرف سے کچھ پیش رفت ہوئی اورغزل کے علاوہ کچھ باتیں بھی ہونے لگیں مگر یک طرفہ۔میں ہونقوں کی طرح گنگ ہوجاتا اور بعد میں خود کو کوستا۔میں نہ چاہتے ہوئے بھی روز فون کی گھنٹی کا منتظر رہتا۔ یہ بات بھی میرے لیے کچھ کم خوشی کی نہیں تھی کہ میں بیک وقت دو عشق شروع کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ گلُو کی باجی سے بھی اور فون والی نٹ کھٹ حسینہ سے بھی۔ میں گھنٹوں خیالوں میں دونو ں کے چہروں کے نقوش اور خدوخال بناتا رہتا۔کبھی میرے دماغ میں لمبی زلفوں اور تیکھے نقوش والی دو شیزہ فون پر راگ الاپ رہی ہوتی تو کبھی برقعے میں لپٹی لپٹائی گلُوکی باجی ذہن کے جھرو کے میں آ کر جھٹ سے نقاب الٹ دیتیں اور اُن کے پھیکے نقوش دیکھ کر مجھے افسوس سا ہوتا مگر یہ سب میرا وہم تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ دونوں کیسی تھیں، رنگ کی گوری یا آنکھ سے بھینگی۔ البتہ گلو کی باجی میرے ذہن کے دریچے کھولتے وقت بھی برقعہ اوڑھ کر آتیں کیونکہ میں نے کئی دفعہ ایک برقعہ پوش لڑکی کو گلو کے گھر میں آتے جاتے دیکھا تھا۔ گلو کی اماں کا تو انتقال ہو چکا تھا اس لیے مجھے پکا یقین تھا کہ وہی برقعے والی گُلّو کی باجی ہیں۔اس دن بھی میں ان ہی دو مورتیوں کے متعلق نئے نئے خیالات کے تانے بانے بن رہا تھا جن سے بیک وقت میرے عشق کا آغاز ہونے والا تھا کہ اتنے میں گُلّو آدھمکا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے جی کڑا کر کے گُلّو سے اس کی باجی کا ذکر چھیڑ دیا۔ ’’تمھاری باجی کا نام کیا ہے؟‘‘ ’’بِلّو۔ ‘‘ اس نے لٹو پر ڈوری لپیٹتے ہوئے کہا۔ ’’بِلّو ؟‘‘ بڑا غیررومانی سا نام ہے۔ میں نے دل میں سوچا، مگر نام میں کیا رکھا ہے۔میں نے خود کو حوصلہ دیا۔ ’’وہ گھر میں کیا کرتی رہتی ہیں؟‘‘ میں نے جی کڑا کے بات آگے بڑھائی۔ اس نے مجھے یوں دیکھا جیسے اپنی باجی کا مجھ سے ذکر کر کے پچھتا رہا ہو۔ ’’آپ میرے لیے پتنگیں کیوں نہیں لائے۔‘‘ اب وہ منہ پھاڑ کر فرمائشیں کرنے لگا تھا۔ عجیب بد تمیز لڑکا ہے، لٹو، پتنگ، مانجھا، ڈور۔۔۔ا کیسے بے ہودہ قسم کے شوق ہیں اس کے۔یہ نہیں کہ مہذب اور شریف بچوں کی طرح بیٹھ کر اپنی باجی کے بارے میں تفصیل سے کچھ بتائے۔ ’’لاد وں گا بھئی۔‘‘ کتنا جی کڑا کر کے تو سوال کیا تھا مگر اس کم بخت نے فرمائشیں شروع کر دیں۔ اب میرے منہ سے بھلا خاک دوبارہ کوئی سوال نکلے گا؟ ’’گُلو تم کوئی چھوٹے بچے تو نہیں، تیرہ چودہ سال کے تو ہو گے، کھیل کود چھوڑو اور پڑھائی پر دھیان دو۔‘‘ میں نے اُسے نصیحت کرنا چاہی مگر آپ جانیں، محبوبہ اور بچے دونوں نصیحت سے چڑتے ہیں اور گُلّو نے تو مجھے ایسے دیکھا جیسے میں نے کوئی احمقانہ بات کہہ دی ہو۔ پھر لمبی سی ھنکار بھرتے ہوئے کچھ اس طرح مقرر کے انداز میں بولا، ’’آپ کو معلوم ہے مانجھا ڈور بیچنے والا صدّو ماما بی اے پاس ہے۔نہ صرف وہ بلکہ محلے کا مانا ہوا کنکوے باز شَیدُو نے آن لائین ڈپلومہ کر رکھا ہے اور تو اور، گلی کے ماہر ترین لٹو باز شیکی بھائی اور ایک ہزار پتنگیں لوٹنے کا ریکارڈ بنانے والا مجو ٹنڈا، دونوں ڈبل میٹرک ہیں۔۔۔ یعنی دو بار میٹرک کیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ پاس نہ ہو سکے، مگر پان والا اسلم کہتا ہے کہ پھر بھی ان دونوں کی ہمت کی داد دینی چاہیے کیونکہ گاؤں والے تو ایک بار کے میٹرک میں ہی ہانپنے کانپنے لگتے ہیں۔اس نے مجھ پراُچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔‘‘ کیا۔۔۔ کیا مطلب ہے تمھارا۔۔۔؟ میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ ’’میں پتنگوں کے لیے یہ نوٹ لے لوں؟‘‘ اس نے میری بوکھلاہٹ نظرانداز کرتے ہوئے میری دراز میں پڑا پچاس کا نوٹ میری آنکھوں کے سامنے لہرایا اور میرے ہر دو جواب سے پہلے ہی نوٹ کو موڑ تروڑ کر اپنی جرسی کی جیب میں ٹھونس اور مجھے ہکا بکا چھوڑ چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا۔ اس بے ہودہ لڑکے نے کتنی آسانی سے چند منٹوں میں سارے پڑھے لکھوں کی عزت خاک میں ملادی۔ یعنی دو بالشت کا چھوکرا اخلاقی اور مالی دونوں ہی طور پر زک پہنچا کر رفوچکر ہو گیا اور میں اس کم بخت کی باتوں پر پیچ و تاب کھانے کے علاوہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ دو تین دن ایسے ہی گزر گئے، مجھے اب اچانک یہ خلجان ستانے لگا کہ گُلّو کی باجی اور فون والی حسینہ دوالگ الگ لڑکیاں ہیں یا ایک ہی لڑکی کے دو روپ ہیں جو مجھے الو بنا رہی ہے مگر مجھے اس سے کیا۔ مجھے تو اپنے لیے ایک حقیقی اسکینڈل چاہیے تھا۔ایک ایسا اسکینڈل جو میں اپنے دوستوں کو سینہ پھلا کر سنا ؤں اور پھر ان کی شکلوں پر برسنے والی حسرت اور احساسِ محرومی سے لطف اندوز ہو سکوں۔ میں نے پھر و ہی سی۔ ڈی لگا دی۔میں نے یہ غزل کئی بار گلو کے سامنے گنگنائی تھی مگر اس کے تاثرات سے کچھ ظاہر نہ ہو سکا تھا کہ اس نے یہ غزل گھر میں بھی کسی کو گاتے سنی ہے یا نہیں۔ شاید وہ پہلی بار سن رہا تھا مگر نہیں وہ تو حسب معمول اپنے بے ہودہ مشغلے یعنی پتنگ کے کنّے باندھنے میں ہی مصروف تھا، میں نے سی۔ ڈی بند کردی۔ ’’آپ نے گانا بند کیوں کر دیا؟‘‘ گُلّو کا یہ پوچھنا مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اسے اس کی پسندیدہ چیز سے محروم کر دیا ہو، میرا سراغرسانی کا جذبہ جاگ اٹھا۔ ’’کیوں کیا تمھیں پسند ہے یہ غزل؟‘‘ میں نے اندھیرے میں تیر چلایا۔ ’’بس ایسی ہی تھی، جب اس سانگ کی میوزک میں ٹن ٹن ٹن کی آواز آتی ہے تو باجی۔۔۔ وہ بات نا مکمل چھوڑ کر بے نیازی سے چرخی پر مانجھا لپیٹنے لگا۔‘‘ ’’با۔۔۔ باجی کیا۔۔۔ توکیا۔‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا اس کے گول مول ادھورے جوابات سن کر میرا دل ہی دل میں اسے کچا چبا جانے کا دل چاہنے لگا۔ ’’بالکل ایسا لگتا ہے جیسے۔۔۔‘‘ کم بخت صاف صاف کیوں نہیں کہتا کہ گھر میں باجی کو گنگناتے سنا ہے۔ میں دل ہی دل میں پیچ و تاب کھارہا تھا۔ ’’ہاں ہاں بولو کیسا لگتا ہے، کیا یہ میوزک سنی ہوئی لگتی ہے۔‘‘ میں نے اپنی بے چینی چھپاتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔ ’’ہاں‘‘ آخر کار اس نے اپنا نو من کا کدّو نما کھوپڑا ہلایا۔ پھرمیری باچھیں کِھلی دیکھ کر بولا، ’’وہ جو گرمیوں میں قلفی والا آتا ہے بالکل اس کی گھنٹی کی آواز لگتی ہے۔‘‘ یہ بے ہودہ جواب دے کر اُس نے میری طرف دیکھے بغیر اپنا لٹو پر ڈوری لپیٹنے کا کام مکمل کیا اور بے نیازی سے چرخی اٹھا کر باہر نکل گیا۔ اس کے اس غیر متوقع اور نا قابلِ برداشت جواب پر میں تلملا کر ہی رہ گیا۔ دل چاہا اس نا معقول اور بے ہودہ لڑکے کو اس کے لٹو، ڈوری، چرخی، مانجھے اور دم لگی پتنگ سمیت بھسم کر ڈالوں۔ سارے رومانس کا بیڑاغرق کر دیا کم بخت نے۔ میں نے دل برداشتہ ہو کر سگریٹ سے دل بہلا نا چاہا مگر حسبِ معمول سگریٹ کی ڈبیا پھر غائب تھی۔نجانے یہ گُلّو میری سگریٹوں کو بیچ کر کتنی پتنگیں اور قلفیاں خریدتا ہوگا؟میں نے دوسری ڈبیہ اٹھاتے ہوئے سوچا۔ دوسرے دن میں دفتر سے واپسی پر یونہی آوارہ گردی کے لیے بازار کی طرف نکل گیا۔ میں سگریٹ کے کش لگاتا ہوا باہر آ ہی رہا تھا کہ اچانک ٹھٹھک کر رہ گیا، سامنے وہی گلو کی باجی برقعے میں لپٹی لپٹائی کچھ خرید رہی تھیں۔ میں بھی دکان کے سامنے کھڑے ہو کر شوکیس میں رکھی ہوئی چیزیں دیکھنے لگا، کوشش کے باوجود میں اُن کی آواز نہ سن سکا۔ ’’کتنے پیسے ہوئے؟‘‘ اچانک نقاب کے پیچھے سے دو لب ہلے۔ یہ موٹی سی نسوانی آواز تھی۔ میں نے لاکھ ذہن پر زور ڈالا مگر اندازہ نہ کر سکا کہ ٹیلی فون والی آواز اور اس آواز میں کتنی مماثلت تھی۔ شاید یہ وہ آواز نہ تھی مگر ٹیلیفون پر اکثر آواز بدل بھی تو جاتی ہے میں کوئی حتمی رائے قائم نہ کر سکا۔ گُلّو کی باجی واپس جا چکی تھیں۔ شاید وہ ٹیلیفون والی ہی گُلّو کی باجی ہوں؟ میرے دماغ نے پھر نقشے بنانے بگاڑنے شروع کر دیے۔ اب ہربے پردہ لڑکی پر مجھے فون والی پری وش کا گمان گزرتا اورہر برقع پوش پر گلو کی باجی کا واہمہ ہوتا۔ ایک دن میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور دوسرے ہی لمحے ریسیور میرے ہاتھ میں تھا۔ ’’جی دیکھیے آپ اپنا خیال رکھا کریں۔‘‘ ’’جی جی۔۔۔‘‘ میرے حلق میں جیسے آواز پھنس رہی تھی۔ ’’آپ سگریٹ تو نہیں پیتے‘‘ ’’جی۔۔۔ جی۔۔۔ نہیں۔ ہاں نہیں تو۔۔۔‘‘ میں نے ہاتھ میں دبی سگریٹ کی نئی ڈبیا کو تقریبا اچھال کر دور پھینکتے ہوئے جواب دیا۔ ’’مگر سنیے آپ۔۔۔سے۔ ملاقات؟‘‘ مگر فون کب کا بند ہو چکا تھا۔ میں نے فوراً مرزا صاحب کا نمبر گھما یا اگر یہ گلو کی باجی تھیں تو یقیناًوہی ٹیلیفون اُٹھائیں گی، اتنے میں کسی نے ریسیور اُٹھایا، ’’ہیلو۔ کون بول رہا ہے؟‘‘ وہی موٹی سی نسوانی آواز، جیسی میں نے گُلّو کی باجی کی شاپنگ کرتے وقت سُنی تھی۔ میں نے بے دلی سے فون بند کر دیا، یعنی فون والی لڑکی اور گُلّوکی باجی دو الگ الگ لڑکیاں ہیں۔ مگر آواز سے کیا ہوتا ہے؟ ممکن ہے گُلّو کی باجی ’’قیامت‘‘ ہوں، میں نے جلد بازی میں سوچے سمجھے بغیر بات کرنے کا سنہری موقع گنوادیا تھا، میں نے خود کو کوسا، دفتر میں بھی میرے کان فون کی گھنٹی پر چونک سے جاتے۔ گھر میں گھنٹی بجتے ہی میرا دل دھڑک اٹھتا، کان گھنٹی پر اور نظر گُلّو کے گھر پر لگی رہتی، عجب بے کلی کا عالم تھا۔ دونوں میں سے کسی کو بھی دیکھا نہ تھا مگر دونوں کی خیالی صورتیں میرے دل و دماغ پرخوبرو دلربا بن کر چھا گئی تھیں۔ مگر شاید یہ میری خوش فہمی ہی ہو ورنہ حقیقت میں وہ دونوں ہی بد شکل ہوں۔ اب بے تابی کی یہ حالت تھی کہ کبھی گلو کی باجی بمع برقع ذہن پر سوار ہو جاتیں، کبھی ٹیلیفون کی گھنٹیاں غزل کی دھن بن کر ذہن پر رقصاں رہتیں، توکبھی تیکھے نقوش، سیاہ زلفیں سریلی اور موٹی آوازکے ساتھ کالا برقع سب آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے اس دن میں کوشش کے باوجود سگریٹ کی طلب پر قابو نہ رکھ سکا اور سڑک پر ٹہلتے ہوئے سگریٹ پینے لگا۔ سامنے سے مرزا صاحب آ رہے تھے۔ مجبوراً مجھے پوری سگریٹ جوتے سے مسلنا پڑی۔ ’’میں تو گھر پر رہتا نہیں ہوں کسی چیز کی ضرورت ہوا کرے تو بلا جھجک گُلّو میاں سے کہہ دیا کرو!ویسے گُلّو تمھیں تنگ تو نہیں کرتا؟‘‘ مرزا صاحب نے باتوں باتوں میں پوچھا۔ ’’جی نہیں، گُلّو مجھے بالکل نہیں ستاتا، بس ذرا شریر ہے۔‘‘ میں چاہنے کے باوجود سچ نہ بول سکا۔ ’’بس میاں ذرا بگڑ گیا ہے۔ دراصل ماں کے انتقال کے بعد اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا اور پھر اکلوتا ہونے کی وجہ سے میں نے بھی اس کے بے جا لاڈ اُٹھائے۔‘‘ ’’اکلوتا؟‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ ’’مگر وہ تو کہہ رہا تھا کہ اُس کی باجی۔۔۔ میرا مطلب ہے پھر وہ برقعے والی خاتون جو اکثر آپ کے گھر آتی ہیں؟‘‘ ’’ارے وہ، وہ تو عبداللہ صاحب کی بیگم ہیں۔ اکثر ٹیلیفون کرنے میرے یہاں آ جاتی ہیں۔ بیچاری جگر کی مریضہ ہیں اور سارے ڈاکٹروں سے فون پر ہی رابطہ رکھتی ہیں۔۔۔ مگرگُلّو کا بڑا خیال کرتی ہیں۔‘‘ میرے کانوں میں سیٹیاں سی بج رہی تھیں۔ میں اس سے آگے کچھ نہ سن سکا اور الٹے قدموں گھر لوٹ آیا۔ میں گُلّو کو اپنے گھر کی چھت پر پتنگ اڑاتا ہوا چھوڑ آیا تھا اور اب تو اس کی خبر لینا بھی ضروری ہو گیا تھا۔ چلو خیر! اچھا ہی ہوا ایک عشق سے تو جان چھوٹی۔ وہ ٹیلیفون والی ہی ٹھیک رہے گی۔ میں اسی فون والی پری وش کے خیالوں میں کھویا ہوا گھر میں داخل ہوا مگر فون والے کمرے کا منظر دیکھ کر میرے ہوش و حواس گم ہو گئے۔۔۔ مگر ٹہرٗیے۔۔۔ گائوں سے آنے والے ہمارے اس سادہ لوح بھولے بھالے نوجوان ہیرو نے کمرے میں داخل ہونے پر کیا ہوش ربا منظر دیکھا یہ جاننے کے لئیے ٓاپ کو کتاب، ایک غزل ایک کہانی پڑھنا ہوگی۔۔۔
کہہ نہ سکنا بھی بہت کچھ ہے ریاضت ہو اگرزخم ہونٹوں کے سر عجز بیاں ہی رکھنا
گندگی کے انباروں کو ٹرک میں منتقل کرتے وقت مزدور بو میں سانس لیتے ہوئے عورتوں اور مردوں کے درمیانی حصوں کا ذکر کر رہے تھے۔ ان کی آوازیں رکے ہوئے ٹرک مگر چلے ہوئے انجن کی گھرر گھرر میں مدغم ہو کر اس کے کانوں پر دستک دینے لگیں۔ موت کا عارضی تجربہ ختم ہوا۔ پھر صبح کی خنک ہوا، بیلچوں سے اتھل پتھل کی جانے والی غلاظت کی بو اس کے نتھنوں کے اندر لے آئی۔ اس نے بچاؤ کی خاطر منہ کے راستے ایک طویل سانس لیا۔۔۔ پھر ایک اور۔۔۔ پھر ایک اور۔۔۔ مگر کب تک؟جب ہر سو بدبو کا راج ہو جائے تو انسان کب تک صرف منہ کے راستے سانس لے کر اس سے فرار حاصل کر سکتا ہے؟ بالآخر اس نے اپنی ناک سے اس ہلکی بدبودار ہوا کو اپنے پھیپھڑوں میں کھینچا اور پورے ماحول کا ایک حصہ بن گیا۔۔۔ کم از کم ایک اور دن کے لیے۔ اس نے بستر پر پڑے پڑے اپنے دونوں پاؤں بلند کر دیے۔ یوں رضائی تھیٹر کے کسی سکڑے ہوئے پردے کی طرح انگلیوں پر سے لٹکی جسے اس نے ایک جھٹکے سے اپنی ٹانگوں کے نیچے سمیٹ لیا۔ اسی طور اس نے اپنے ہاتھ فضا میں بلند کرکے رضائی کو اپنے سر کے نیچے دبا لیا اور پھر روئی کے اس حصار میں مکمل طور پر محفوظ ہوکر آنکھیں جھپکانے لگا۔ شاید میں ایک جائنٹ ہوں جسے للی پٹینز نے جکڑ رکھا ہے۔
وہ ہونقوں کی طرح گھور رہی تھیں۔ ان کا سر چکرانے لگا تھا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا۔۔۔ ڈاکٹر چٹرجی تیزی سے لپکے۔ ڈاکٹر سنگھ بھی ہڑبڑاکر کر سی سے اٹھے اور عمیرہ بانو کی طرف دوڑ پڑے۔
روشنی کتنی ظالم تھی۔ رات کی تاریکیوں میں دیکھے گئے خوابوں کو اس نے ایک پل میں تار تار کر دیا تھا۔ میرا بخار وخار سب اتر گیا تھا اور میں پوری طرح تندرست اور نو بر نو تھی۔ ابا کو کالج میں مضمون نویسی کا مقابلہ جیتنے کی خوشخبری سنائی۔ اس نے ہمیشہ کی طرح اپنی موٹی موٹی ابلتی غصیلی آنکھوں سے مجھے گھورا۔ابا کو لڑکیوں کے ہونٹوں پر پھیلی ہنسی سے چڑ تھی۔ میرے ہونٹوں پر بکھری ہوئی ہنسی تو اس کا چڑھا ہوا پارہ اور بھی چڑھا دیا کرتی تھی۔ صاف بیزاری چھلکتی تھی جب وہ بولا تھا۔
اور خود اس کو کتنی مدّت بعد اس کا ادراک ہوا تھا کہ اب تک وہ کس قدر سطحی سی، غیرمعیاری زندگی گزارتی رہی ہے۔ اس کے نہ غموں میں شدت تھی نہ خوشیوں میں، سب کچھ اوپری اوپری سا۔ اس سے تو بہتر ہے، وہ ڈی جی سے اجازت لے کر عورتوں والے کمرے میں بیٹھ جایا کرے۔’’اندر ہیں عادل نواز؟‘‘ اس نے ڈی جی کے کمرے کے باہر بیٹھی خاتون کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے پوچھا۔ یہ بعد میں یاد آیاکہ نہ سر کہا، نہ ڈی جی، نہ صاحب، افسوس کہ نصیحتیں زیادہ دیر تک یاد نہیں رہتیں۔
حالانکہ ملک میںآئے روز کے خود کش دھماکوں نے کروڑوں شہریوں کے چہروں سے خوشی نوچ لی تھی۔ تفریح قصہ پارینہ ہو چکی تھی۔ ہر شہری راستے میں، بھیڑ کے درمیان، مسجد اور بس میں، ہر جگہ ہراساں تھا۔ وہ بھول گیا کہ وہ کبھی کھل کے ہنسا بھی تھا۔ گاؤں بھی محفوظ نہیں تھے۔ کسی جگہ کسی لمحے آگ برس سکتی تھی۔ پنڈال میں لگے سپیکر علاقائی موسیقی اگل رہے تھے۔ پنڈال بھر چکا تھا۔ گاؤں کے چودھری اکڑے شملوں کے ساتھ پنڈال میں اپنے اپنے صوفوں پر براجمان تھے۔ غلاما پنڈال کی مشرقی سمت ایک کرسی پر زیر لب کوئی ورد کر رہا تھا۔ آس پاس کے گاؤں سے بھی لوگ پہنچ چکے تھے۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ لاہور اور اسلام آباد میں خود کش بمباروں نے پچاسی نوے بے گناہ انسانوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔ خودکش بمبار جنت میں پہنچا، یا نہیں پہنچا، زمین پر کئی گھر اجاڑ گیا۔ پنڈال میں ڈھول اور شہنائی کی سریلی آواز نے سماں باندھ دیا۔ پہلے چند بانکے نوجوان میدان میں اترے اور اپنے جوہر دکھا کر ٹینٹ کے نیچے سانس بحال کرنے کو آ بیٹھے۔ لوگ چہ مگوئیاں کر رہے تھے کہ عورتوں کے ٹینٹ میں گاؤں کے چودھری کی بیٹی جو کالج پڑھتی ہے وہ بھی کبڈی دیکھنے آئی ہے۔ سب سانسیں روکے مٹھو اور توتی لوہار کا پیچ دیکھنے کے منتظر تھے۔ توتی لوہار بھی ایک گٹھے ہوئے بدن والا نوجوان تھا۔ اس کے بازو پر چمڑے میں منڈھا تعویذ بندھا تھا۔
’’وہ کسی سخن ور نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔کنج میں بیٹھے ہیں چپ چاپ طیور۔۔۔برف پگھلے گی تو پَر کھولیں گے!‘‘ میں شہر کے اس پارک میں بینچ پر تنہا بیٹھا نجانے سوچ کی کس بند گلی میں بھٹک رہا تھا کہ اچانک ایک اجنبی آواز اورحیران کن طرزِ تخاطب نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے سر اٹھا کر اس اجنبی کی طرف دیکھا۔ وہ ایک دلچسپ حلیے کا شخص تھا جس کی وضع قطع اور چہرے سے اس کی عمر کا اندازہ لگانا تقریبانا ممکن تھا۔سرما اپنا سرد بستر لپیٹ کرایک ماہ پہلے رخصت ہوچکا تھا مگر وہ صاحب گلے میں اچھا خاصا گرم مفلر یوں لپیٹے ہوئے تھے کہ اگر ذرا سی ڈِھیل دی تو ہَوا گریبان کے راستے جسم کے اندر جانے کا راستہ ڈھونڈ لے گی۔سر پرعجیب الشکل اونی ٹوپی پہن رکھی تھی جس کی نچلی حدود کا تعیّن اس کے باہر کو نکلے ہوئے بڑے بڑے کان کر رہے تھے۔اس کے بڑے سے منہ پرچھوٹے چھوٹے نقوش تھے جنہیں دیکھ کر کسی ایسے گھر کا خیال آتا تھا جس کا رقبہ خواہ مخواہ بڑے رقبے پر پھیلا ہوتا ہے مگر اس کا رہائشی حصہ کافی کم ہوتا ہے۔چھوٹی چھوٹی سی آنکھیں جن کی حفاظت کے لئے موٹے موٹے عینک کے شیشے معمور تھے۔چھوٹی اور نازک سی ستواں ناک جو نجانے کس وجہ سے سرخ تھی اور اس کے عین نیچے باریک باریک ہونٹوں کی جوڑی۔موصوف نے محض گرم مفلر اور اونی ٹوپی پر ہی تکیہ نہیں کیا تھا بلکہ ان دونوں کی موجودگی کو دوام بخشتے ہوئے بدن پر ایک عددکوٹ بھی زیب تن کر رکھا تھا جو نہ تو لانگ تھا اور نہ ہی عام سائز کوٹ اور اسی بنا پر اسے نِیم اوور کوٹ کہنا زیادہ مناسب تھا۔ان سب سے کہیں زیادہ دلچسپ اس کے لباس کی کلر سکیم تھی۔تیکھے نیلے رنگ کی اونی ٹوپی جس پر گلابی رنگ کے پھول تھے، برتقالی اور شوخ سبزرنگوں سے سجامفلر ،نارنجی رنگ کانِیم لانگ کوٹ، فیروزی رنگ کے دستانے،پیلے رنگ کی شرٹ کے نیچے زیب تن کی ہوئی جینز جس کی رنگت کا غالباًکثرت استعمال کے باعث تعیّن کرنا تقریباً ناممکن تھا۔اور تو اور اس کے جوگرز بھی شوخ رنگوں سے مزیّن تھے جس میں سفید،جامنی اور سرخ رنگ قہقہے لگاتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔وہ شخص ہُو بہوکسی وارم کلرز کے دیوانے پینٹر کی کلرپیلٹ تھا اورایسے میں جب میں نے اس کے جملے پر دوبارہ غور کیا تو وہ بھی مجھے کچھ کم رنگین محسوس نہ ہوا! ’’آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟ حالانکہ میں نے اس کا جملہ اور شعرصاف سنا تھا مگر اس کے باوجود میرے لبوں سے اظہارِ لا تعلقی میں لپٹا ایک بے رنگ ساجملہ بے ساختہ نکل گیا۔ ’’ہم نے کہاں کچھ کہا حضرت۔۔۔اپنے ارد گرد دیکھیے۔۔۔سب اشجار،چرند پرند اور منظر آپ کے بارے میں یہی کہہ رہے ہیں۔۔۔قسم لے لیجیے آپ کا چہرہ دیکھ کر آپ پر یہ شعر اتنا ہی فٹ بیٹھتا ہے جتنا سیاست میں آج کل کوئی صنعت کار۔۔۔وہ دیکھیے سامنے ڈال پر بیٹھا تنہانیل کنٹھ۔۔۔وہ بھی اداس ہے مگر قسم لے لیجیے کم از کم آپ سانہیں۔۔۔وہ ایک سخن ور نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔۔یونہی اداس رہا میں تو دیکھنااک دن۔۔۔تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دوں گا۔۔۔ناچیز کونور الٰہی کہتے ہیں۔۔۔لوگ ہمارے نام کا مطلب پوچھتے ہیں تو ہم جواباًایک سخن ور کے شعر کا حوالہ دیا کرتے ہیں۔۔۔سلسلے جو اس سے مل جائیں تو ٹھیک۔۔۔ورنہ جھوٹے ہیںیہ سب نام و نسب۔۔۔ہمیں یقین ہے کہ آپ کو بھی لوگ کسی نہ کسی نام سے تو ضرورپکارتے ہوں گے! یہ کہہ کر جب اس نے اپنا نازک سا ہاتھ آگے بڑھایا تو مجھے بھی شرمندہ انداز میں مروتاً رسم نبھانی پڑی ورنہ سچ تو یہ تھا کہ مجھے اپنی تنہائی میں اس کی موجودگی شدید ناگوار گزر رہی تھی۔ ’’جی مجھے محسن ضیا کہتے ہیں! میں بمشکل منمنایا۔ ’’اجی کیا خوب کہتے ہیں۔۔۔ آپ کے اور ہمارے نام میں جو قدر مشترک ہے وہ روشنی ہے! میری حیرت پر دھیان دئیے بغیرنور الٰہی بہت بے تکلفی کے ساتھ میرے ساتھ بینچ پر براجمان ہو گیا۔ ’’جی میں سمجھا نہیں! نجانے وہ کیا کہے جا رہا تھا۔ ’’بھئی نوراور ضیا دونوں کا مطلب روشنی ہی ہوا کرتا ہے ناں۔۔۔وہ کسی سخن ور نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔بستیاں چاند ستاروں کی بسانے والو۔۔۔کرۂ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ۔۔۔سو محسن میاں۔۔۔اپنے اپنے نام کے مصادق ذمہ داری نبھانا تو بنتا ہے ناں۔۔۔اور یقین کیجیے لالٹین ہاتھ میں اٹھا کرقافلے کے آگے آگے چلنے میں کمال کا لطف ہوا کرتاہے! ‘‘ میں مزید الجھ گیا۔نجانے وہ کیا چاہتا تھا اور یہ سب مجھ سے ہی کیوں کہہ رہاتھا سومجھے اب اس کی دماغی حالت پر شک ہونے لگا۔ ’’جب ہم شہر کی بے رنگینیوں سے مضمحل ہو جاتے ہیں تو اکثر اس جیسے رنگوں اور سبزے سے لدے کسی گلشن کا رخ کرتے ہیں۔۔۔آج مسلسل تیسراموقع ہے کہ آپ کو اسی بینچ پر ،چہرے پر ایک ہی اداس منظر سجائے دیکھا ۔۔۔آپ کو تو پتہ بھی نہیں چلا ہو گا مگر آج آپ کی آنکھوں میں کچھ طغیانی کا زور اتنا نمایاں ہے کہ دلِ مضطرب سے رہا نہ گیا۔۔۔اس بہتے ہوئے دریا کا بندھ کسی نہ کسی کو تو باندھنا چاہئے۔۔۔وہ کسی سخن ور نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔غمِ دنیا تو وہ قلزم ہے کہ دل کا مضمون۔۔۔غرق ہوتا چلا جاتا ہے کنارے کی مثال! ‘‘ نور الٰہی کے اس شعر پر میں نے پہلی بار اسے غور سے دیکھا تواس کی دماغی حالت پر ایک لمحہ پہلے ابھرنے والے اپنے شکوک و شبہات مجھے کسی حد تک رفع ہوتے ہوئے محسوس ہوئے اور اس کے چہرے کے نقوش بھی اس بارمجھے اتنے عجیب و غریب نہیں لگے جتنا کہ پہلی نظر اس پر ڈالنے کے بعد لگے تھے! ’’آپ کون ہیں؟ ‘‘ ’’سمجھ لیجیے ہم آپ کا عکس ہیں۔۔۔آپ کے ہمزاد ہیں۔۔۔اور اگر آزمانا چاہیں تو آپ کے غم خوار ہیں۔۔۔وہ کسی سخن ور نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔۔اپنی دُھن میں رہتا ہوں۔۔۔میں بھی تیرے جیسا ہوں۔۔۔میرا دِیا جلائے کون۔۔۔میں تراا خالی کمرہ ہوں۔۔۔اپنی لہر ہے اپنا روگ۔۔۔دریا ہوں اور پیاسا ہوں! ‘‘ نجانے نور الٰہی کے اندازمیں کیا اسرار پنہاں تھا کہ ایک سنسنی سی مجھے اپنے رگ و پے میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔کچھ دیر پہلے مضحکہ خیز نظر آنے والی آنکھوں میں کمال کی نظر تھی کہ اس نے ایک ہی نظرمیں میرے اندر کے موسم کو ٹھیک ٹھیک پڑھ لیا تھا! ’’یا تو یہ فارغ شخص ہے ۔۔۔یا دیوانہ یا پھریہ یقیناً کوئی فرشتہ ہے جسے اللہ نے بھیس بدل کر میرے پاس بھیجا ہے ورنہ زمانے کی بے ہنگم دَوڑ میں کس کے پاس فالتو وقت ہے اور کون کسی کا چہرہ پڑھنے کی حجت کرتا ہے! ’’جب کبھی ہمارا دل تناولِ بیرونی کے لایعنی تجربے کے لیے کلکاریاں مارنے لگتا ہے تو ہمارے قدم خود بخود اس سامنے والے ریسٹورانٹ کے سامنے آرکتے ہیں۔۔۔اگر ناگوارِ خاطر نہ ہو تو آج اکھٹے کھانا کھا کر اس اوّلین نشست کو مزید یادگار بناتے ہیں! ‘‘اس نے مجھے ٹھیک طرح سے کوئی بہانہ بنانے کا موقع بھی نہ دیا اور بے تکلفی کے ساتھ میرا ہاتھ تھام کرمجھے سامنے والے ریسٹورانٹ میں لے گیا۔اس کی ہتھیلی میں ایک گمنام سا خوشگوارپیغام تھا جسے میں سمجھنے کی ناکام سعی میں لگ گیا۔وہ ایک کافی اچھا اور صاف ستھرا ریسٹورانٹ تھا۔ اس کے بیرے غالباً نور الٰہی کو اچھی طرح پہچانتے تھے سو ان میں سے ایک اسے دیکھ کر مسکراہٹ چہرے پر سجائے لپک کر ہماری ٹیبل کی طرف چلا آیا اور ایسے میں نور الٰہی نے جو آرڈر دیا وہ بھی اتنا ہی دلچسپ تھا۔ ’’بھائی حضرتِ منتظر۔۔۔.طعام کا بندوبست کیجیے۔۔۔ہمیشہ کی طرح آلاتِ تناول ذرا اچھی طرح دھو کر لائیے گا۔۔۔بخدا پچھلی دفعہ لطف آگیا تھا سو آج بھی اگرانگریزی زبان والی صنفِ مخالف کی مخروطی انگلیاں ہو جائیں اور انہیں لحم کی قربت حاصل ہو تو سونے پر سہاگہ ہو گا۔۔۔اور اس کے علاوہ آپ کے ریسٹورانٹ کی وجہِ شہرت یعنی چنوں کا نصف بہتر بھی لے آئیے۔۔۔ذرا لپک کر جائیے کیونکہ ہماری آنتڑیاں مسلسل سورۃ اخلاص کا ورد کیے جا رہی ہیں ورنہ شہنشاہِ سخن وری فیض کا نسخہ ہائے وفا آپ کی خدمت میں پیش کرنا شروع کر دیں گے! ‘‘ بیرا توگھبراہٹ بھری ہنسی دانتوں تلے دبائے ہوئے منظر سے غائب ہو گیا مگر مجھے نور الٰہی کا آرڈر سمجھنے میں کچھ دیر لگ گئی۔ اگر میری اردو اچھی نہ ہوتی تو شاید کبھی نہ سمجھ پاتا کہ موصوف نے بھنڈی گوشت اور دال چنا کا آرڈر دیا تھا۔جونہی سالن کی دونوں پلیٹوں میں میں نے اپنے درست اندازے تیرتے دیکھے،میرے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ امڈ آئی۔ مجھے مسکراتا دیکھ کرنور الٰہی کے چہرے پر انسباط بھرے ایسے تاثرات امڈ آئے جیسے اس نے ڈیڑھ سو امید واروں کو مات دے کر آٹھ سو روپے کو نوکری حاصل کرلی ہو! اور پھرہم اتفاقاً یا قصداًروز اس پارک میں ملنے لگے۔نور الٰہی کا ٹھکانہ تو نجانے کہاں تھا مگرمیرا دفتراس پارک کے عین سامنے ہی تھا۔لنچ کے دوران اکثر مجھے دفتر میں پیلی پلاسٹک کی نوار سے بُنی اورتین جگہ سے ادھڑی اپنی کرسی،فائلوں سے اٹا، قدیم دیار کا بنا ہوا ہُو بہُو میرے جیساپریشان ڈیسک اور سرمئی نما رنگت کی فولادی الماری جو پچھلے برس اپنا ایک پٹ کھونے کے باعث اب قطعاً فولادی نہ رہی تھی، زہر لگنے لگتے سو میں منظر تبدیل کرنے کے لیے ہمیشہ اپنا لنچ ٹفن اٹھا کر یہیں چلا آیا کرتا تھا۔میں جونہی پارک میں قدم دھرتا گویا پارک کے مستقل گھونسلہ نشین پرندے اپنی زبان میں سِیٹی مار کرنور الٰہی کو خبر کر دیتے۔ ادھر میں اس بینچ تک پہنچتا،ادھروہ بھی نجانے کہاں سے آناًفاناًآن ٹپکتا۔چندہی ملاقاتوں میں مجھ سا آدم بیزار، تنہائی پسند اور گوشہ نشیں شخص بھی نجانے کیسے اسے قبول کرنے پر راضی ہوگیا ورنہ ایسی کوئی بھی تبدیلی مجھے دفعہ ۱۴۴ کا بلا وجہ نفاذ لگا کرتی تھی۔ ’’یادوں کے حاشیے بھی بہت اہم ہیں محسنؔ ۔۔۔دِیمک لگی کتاب کو آہستہ کھولیے‘‘۔نور الٰہی نے اس روز مجھے ایک نظر دیکھتے ہی نجانے کیا سوچ کر یہ شعر داغ ڈالا کہ میں چونک کر اس کا چہرہ تکنے لگا۔اس کے شعر میں ایک اظہر من الشمس پیغام تھا۔ میں اس میمنے کی مانند تھا جوہر وقت چاروں طرف سے زندگی سے جڑے مسئلوں ، محبت میں مات اورتلخ یادوں جیسے خونخوار بھیڑیوں میں گھرا ہوتا ہے سو ایساکیونکر ممکن تھا کہ میری ذات دیمک زدہ کتاب سے مختلف نظر آتی۔ میں تو شروع ہی سے اسے برتن جیسا شخص رہا تھا جس کے پیندے میں ذرا سی آنچ سے اس کے اندرونی کنارے نمی سے بھر جاتے ہیں۔ لڑکپن میں جب میرے والد صاحب کی زندگی کا گھومتا ربن ٹائپ رائٹر کا لوہا کُوٹتے کُوٹتے ٹی بی جیسے مرض کی کاری ضرب سے ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا تو میری ماں نے اپنے چاروں بچوں کو اپنے مضبوط پروں تلے چھپانے کے لیے کون سے جتن تھے جو نہیں کیے تھے۔دُور دراز دیہاتوں اور قصبوں میں بطور لیڈی ہیلتھ ورکر ویگنوں اور بسوں کے بے رحم دھکے کھاتی ہوئی جاتی مگر ہم سب کو ایک ہچکولا بھی نہ لگنے دیتی۔ جو مزیدار تر نوالے وہ مسکرا مسکراکر ہمارے منہ میں ڈالتی وہ دراصل اس کے خون اور پسینے سے تر ہوتے تھے، جو صاف ستھری اور شکنوں سے پاک پوشاک وہ ہمیں پہناتی اس کے پیچھے اس کا چاک دامن اور پیشانی پر سجی وہ ان گنت شکنیں تھیں جوبڑا ہونے کے ناطے صرف میں دیکھ سکتا تھا اور میرے چھوٹے بہن بھائی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کی جب انٹر کامرس کا سالانہ امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے باوجود میں نے نوکری کرنے اور پرایؤیٹ بی کام کرنے کا فیصلہ کیا تو میری ماں نوکری سے چھٹی کر کے سہ پہر تک رو رو کرمیری منتیں کرتی رہی مگر میں نے اس کی ایک نہ مانی۔ شام تک اپنے بڑے بیٹے کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنانے کا اس کا دیرینہ خواب اس کے آنسوؤں کے تیز ریلے میں بہہ گیا۔میں اپنی جگہ صحیح تھا کہ اب ماں کو بیل کی طرح زندگی کا بھاری چھکڑا یوں اکیلے کھینچتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھاجس پر اس کے چار جوان بچے سوار تھے جن میں میری دو چھوٹی بہنیں بھی تھیں جودبے پاٍؤں جوانی کی دہلیزپھلانگ چکی تھیں۔میری اچھی قسمت کہ مجھے بغیر کسی سفارش کے میرٹ پر سٹینو گرافر کی نوکری مل گئی ۔ پہلے پہل تو اپنے پنکھ کھلنے کے بعدپہلی آزاد اڑان اور کھلے آسمان نے خوب لطف دیا اور اپنی تنخواہ قارون کے خزانے سے کم محسوس نہ ہوئی مگر جب آٹے دال کا اصل بھاؤ اور زندگی سے جڑے مسائل کے اصل خدو خال نظر آنا شروع ہوئے تو وہی تنخواہ مجھے اپنے ساتھ سراسرسر زیادتی لگنے لگی۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس آگہی کے کچھ ہی عرصے بعد میں صبح سے شام تک بات بات پر ذاتی و ملکی حالات کو دل میں ایسی ایسی فحش گالیاں دیتا کہ اگر ان میں سے ایک بھی محلے کی نکڑ پر بیٹھے وہ آوارہ مزاج لڑکے سن لیتے تو وہ بھی گالیوں کے متعلق میرے حسنِ انتخاب کی داد دئیے بنا نہ رہتے جن کی خرافات و مغلظات سن کر ہر بار میری کان کی لوئیں سرخ ہو جایا کرتی تھیں۔ مجھ سے چھوٹی بہن کے کواڑ پر رشتے کی پہلی دستک ہوئی تو انہیں ہاں کرنے اور شادی کے لیے ایک سال کی مہلت حاصل کرنے کے بعدمیں اور میری ماں اکثر زمین پر دھرے چولہے کے پاس اکیلے بیٹھے رہتے اور بوکھلائے انداز میں کبھی دُور چلتی پھرتی آمنہ کو بے یقینی کے ساتھ دیکھتے اور کبھی آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ اپنی خالی جیبوں میں جھانکتے۔جب اورکچھ سمجھ نہ آیا تو میں اورمیری ماں نے چند قریبی جاننے والوں کے پاس ٹیوشن ڈھونڈنے کی درخواست دائر کی سو میں اور میری بہنیں شام کوگھرمیں سکول کی دوسری شفٹ چلانے لگے۔ انہی دنوں مجھے شام کے وقت ایک بے حد امیر گھرانے کی نوجوان خوبصورت لڑکی کی ٹیوشن مل گئی۔اس سے ہماری آمدنی میں چند ہزار روپے تو بڑھ گئے مگر کچھ ہی عرصے بعدمیرے دل کا انمول قرار لٹ گیا۔نشاط تھی ہی ایسی ، آفاقی حسن کی مالک جس کے چہرے پرنظر جمانا مجھے اتنا ہی مشکل لگتاتھا جتنا بارش کے بعد چکنی مٹی والی گیلی زمین پر پاؤں جمانا، سو اسے نظر بھر کر دیکھنے سے بھی احتراز کیاکرتا تھا۔لڑکی کیا تھی اچھا خاصا نفسیاتی مسئلہ تھی جسے بے پناہ خوبصورتی کے باعث چندحسن پرست چھچھوروں سے لاحق شدیدبیرونی خطرات نے کالج چھوڑنے اورگھر پڑھنے پر مجبور کر دیا تھا۔میری غیر معمولی قابلیت،بے مثال شرافت، انتھک محنت اوربھرپور توجہ نے چندہی مہینوں میں اس کا مسئلہ تو حل کر دیا مگراس کے فوراً بعداس سے کہیں زیادہ گھمبیرمسائل کھڑے ہوگئے جب میں نے ایک روز پڑھاتے ہوئے اسے شرارتی انداز میں پنسل منہ میں جمائے، بامعنی مسکراہٹ اپنے عنابی ہونٹوں پر سجائے اور اپنی وارفتہ نظریں میرے چہرے پر جمائے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔جب تک میں نے اپنا پیشہ وارانہ فرض پورا کیا تب تک وہ بے صبری سے مات کھا کر اپنا حالِ دل ایک عرضی کے ذریعے مجھے عرض کر بیٹھی اور میں تمام زمینی حقیقتوں سے ہار کر اس کی محبت کے قرض تلے بری طرح دھنستا چلا گیا۔عہد و پیمان کے بعد جب محبت کے اگلے عملی مرحلے در پیش آئے تو سب سے پہلے میں کلاس کے فرق،ترجیحات کے خاردار طرق،ماں کی قہر آلود سرزنش اور غیض و غضب سے لبریز اس کی کڑکتی برق میں غرق ہوا۔ نشاط نے اپنی محبت کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی مگرجب ناؤ کھینے والے ملاح کے بازوطوفان کی آمد سے قبل ہی شل ہو جائیں،ناؤ کے بادبان مخالف ہواؤں سے ہار کر کھل جائیں اورناؤ کاپتوارہی اپنی جگہ سے ہِل جائے توکوئی کیا کر سکتا ہے۔ہر روز ٹیوشن سیشن ختم ہوتے ہی وہ ایک چھوٹے سے کاغذ پر ملن کی ایک نئی ترکیب اور ایک پرانی دعا نئی ترتیب کے ساتھ درج کر کے مجھے تھما دیتی اور میں تنہائی کی بند گلی میں بیٹھااپنی کم ہمتی اور درماندگی پر آنسو بہاتا رہتا۔آخر ایک مضمحل شام وہ ڈوبتے ہوئے سورج کی سی شفق آنکھوں میں بھرے ، آنسو بھری آنکھوں اور شکوہ کناں نظروں سے مجھے دیکھتی ہوئی ہمیشہ کے لیے ڈھل کر میرے افق سے غائب ہو گئی۔محبت میں یہ بھرپورمات دراصل میری موجودہ ذہنی کیفیت کی سب سے بڑی وجہ تھی سو میں اپنی ذات سے شروع ہو کراپنے دفترکے چائے والے تک ہر اس شخص سے ناراض تھا جو میری زندگی کا حصہ تھا ۔دنیا، زندگی، محبت،تقدیر،رشتے،نامساعد ملکی حالات اورسماجی عدم توازن سمیت سارے جہان کے متعلق میرے خیالات بے حد عامیانہ اور جارحانہ تھے! اور ایسے میں نور الٰہی کو میرا چہرہ دیمک زدہ کتاب لگ رہا تھا تو اس میں ایسا غلط کیا تھا! ’’آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا محترم۔۔۔میری ذات کو گھن لگ چکی ہے۔۔۔میری سوچ کھوکھلی دہلیز کی طرح ہے جو بظاہرکھڑی نظر آتی ہے لیکن یہ کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتی ہے۔۔۔اگر فنا بھی ہو جاؤں تو انسانوں سے اٹی دنیا کو کیا فرق پڑ جائے گا۔۔۔کتنے ہی لوگ ہر روز یہاں قبل از وقت، مرنے سے کہیں پہلے، خواہ مخواہ زندگی سے منہا ہو جاتے ہیں! ‘‘ میں نے اپنے ذخیرے سے صرف چھٹانک بھر زہر اگلا۔ ’’اجی چھوڑئیے محسن میاں۔۔۔وہ کسی سخنور نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔تُو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر۔۔۔ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں۔۔۔ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں۔۔۔پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں۔۔۔ہم اگر منزلیں نہ بن پائے۔۔۔منزلوں تک کا راستہ ہو جائیں۔۔۔بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ ۔۔۔کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں! ‘‘ نور الٰہی نے کچھ ایسے سرد لہجے میں یہ اشعار پڑھے کہ مجھے عجیب سی سنسنی گردن سے کمر کی زیریں حصے تک سفر کرتی ہوئی صاف محسوس ہوئی کیونکہ اس کے اشعار کی اپنی روح سمیت ترسیل سو فیصد درست اور کارگر ثابت ہوئی تھی ۔میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اوراس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی مگر وہ انگلیاںآسمان کی طرف کر کے کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔میں بجلی کی تاروں پر الجھی ہوئی کسی کٹی پتنگ کی مانندپہلے اس کے ذُومعنی اشعار اورپھر اس ان دیکھی تحریرمیں الجھ گیا۔ ’’آپ نے یہ اشعار کیوں کہے؟۔۔۔اور یہ ۔۔۔یہ آپ ہَوامیں کیا لکھ رہے ہیں؟ ‘‘ ’’ایسے اشعار کی تفسیر بالکل نہیں پوچھا کرتے جنہیں سن کر آپ کا دل گواہی دے کہ یہ تو میرا اپنا افسانہ ہے۔۔۔ اورہَوا میں ہم نے آپ کے لیے ایک دعا لکھی ہے۔۔۔ایسی دعا جوہمارے خیال میں آپ کے لیے بہترین دوا ہے۔۔۔ویسے تودعا سے بہتر کوئی دوا نہیں ہوتی لیکن محسن میاں آج کل تشخیص اور دوا تجویزکرنے کے معاملے میں طبیب حضرات کی پُر کاریاں اورکارستانیاں اس قدر مقبول ہو گئی ہیں کہ اکثر دوا لینے کے بعد اجتماعی دعا کی ضرو رت پڑ جاتی ہے! اس رات میں نے اتنی کروٹیں بدلیں کہ میری چارپائی اور تکیہ تک احتجاج کرنے لگے۔ہر کروٹ پرنور الٰہی کے اشعار اور جملے کئی بند دَر کھولتے رہے۔جن دریچوں پر کچھ عرصے سے بڑے بڑے جالے لگ چکے تھے،وہ سب اترتے ہوئے محسوس ہوئے۔ ’’کیا واقعی میں نے جیتے جی اپنا مجسمہ اپنے ہی ہاتھوں سے تراشنا شروع کر دیا ہے جو نور الٰہی نے مجھے پتھر کہا؟۔۔۔مجھ پر ہوئے ستم کیا واقعی مجبوریوں کا عذر اور ایسے کوہِ گراں ہیں جنہیں میں نے زبردستی اپنے کاندھوں اور اپنی ذات پر لاد رکھا ہے؟۔۔۔ کیا واقعی کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے اپنی منزل کے نشان اپنے ہی پیروں تلے روند ڈالے ہیں؟۔۔۔ کیا میں نے احتجاج اور ناراضی کواپنے تمام مسئلوں کا حل سمجھ کر راہِ فرارکا تنا ہوا رسّے کا پھندا اپنے ہاتھوں سے اپنی گردن میں ڈال رکھا ہے؟۔۔۔ کہیں میں بھی خود ترسی اور خود فریبی کا شکار ایک بزدل نوجوان ہوں؟۔۔۔کیا واقعی میں بندگی کے سب ضابطے بھول بیٹھا ہوں؟۔۔۔یا میں خدا ہونے کی اتنی بھدّی اوور ایکٹنگ میں مصروف ہوں؟ ‘‘ نیند سے مات کھانے تک کوئی شے میرے من میں ببول کی طرح مسلسل چبھتی رہی اور جب صبح بیدار ہوا تو سحر کی ایک کرن میری کھڑکی سے اور دوسری میرے اندر سے پُھوٹ رہی تھی۔ ایک کَسی ہوئی ریشم کی گانٹھ صبح تک ڈِھیلی ہو چکی تھی! اس دوپہر لاکھ چاہتے ہوئے بھی میں اپنی تسلی کے لیے نور الٰہی سے اس موضوع پرچند وضاحتی سوالات پوچھنے کی ہمت جمع نہ کر پایا اور اس کے بجائے سارا غصہ تقدیر پراتار دیا۔جتنی دیر میں تقدیر کے لتّے لیتا رہا ،نور الٰہی کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ رقصاں رہی۔آخر تنگ آکر میں نے اپنے خیالات پر اسے رائے زنی کرنے کو کہا تو اس نے میری دُکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ نہیں بلکہ اپنا پورا بھاری بھر کم پیر ہی رکھ دیا۔ اجی محسن میاں۔۔۔انسان جب اپنی محرومیوں سے تلملا کر اپنی تقدیر کو لتاڑتا ہے تو بخدا ہمیں شک ہونے لگتا ہے کہ ا س کے اندر اپنے اشرف المخلوقات کے بلند عہدے پر فائز ہونے کا ادراک موجودہے بھی یا نہیں۔۔۔انسان کی سب سے بڑی قوت تو اس کا ذہن اور قوتِ تدبیر ہے اورجب باہر تمام منظر تاریک لگنے لگیں تو اسے اپنے اندر نوروضیاء کو تلاش کرنا چاہیے ۔۔۔یاس اور آس میں ایک بہت طاقتور کیمسٹری ہوتی ہے ۔۔۔اسی وجہ سے توکسی سخنور نے ارشاد فرمایا ہے کہ۔۔۔یاس میں جب کبھی آنسو نکلا۔۔۔اک نئی آس کا پہلو نکلا۔۔۔آئیں ساون کی اندھیری راتیں۔۔۔کہیں تارا کہیں جگنو نکلا۔۔۔اورہم انسان کیمسٹری یعنی مادے کی شناخت میں اپنی اس کمزوری کا سارا وزن حساب ، طبیعیات اورحیاتیات کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں! ‘‘ اپنے افکار بیان کرتے ہوئے اور اشعار پڑھتے ہوئے نور الٰہی کے انداز میں کچھ ایسی ناقابلِ بیان پراسراریت، رعب اور اثر عود آتے تھے کہ ہر بار ایک عجیب سا مجرمانہ احساس میرے رگ و پے میں اتر جاتا، میں اس قدر مطیع و مرعوب ہوجاتا کہ مجھے لگتا جیسے میرے پاس اسے چیلنج کرنے کی نہ سکت ہے اور نہ ہی اس سے بحث کرنے کے لئے کوئی منطق۔سو اس بار بھی خشک حلق لیے مجھے اپنے منفی نظرئیے اورمایوس سوچ کا نئے سرے سے تجزیہ کرنا پڑا۔ ’’میں نے زندگی میں مشکل وقت پڑنے پرجسے بھی آواز دی کبھی اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔۔دوست، رشتے داربلکہ ساری دنیا خود غرض ہے! ‘‘ اگلے روز میں نے اپنی پٹاری سے نیا لہرئیے دار پھنکارتا ہوا گِلہ نکال کر نور الٰہی کے سامنے رکھا۔ ’’ دیکھیے محسن میاں۔۔۔جب آپ ہر بار کسی کو کسی غرض سے ہی آواز دیں گے توکون آپ کی صدا سنے گا۔۔۔اصل آواز وہ ہے جو بے غرض ہو کر کسی کو دی جائے اور پھر دیکھیے گا وہ شخص لازماً آپ کو پلٹ کردیکھے گا۔۔۔اجی ہم سے تویہ کوّے ہزار گنا اچھے ہیں،کوئی ایک کوّا بھی تکلیف میں ہو تو کوّں کا پورا قبیلہ ’’کہاں آئیں ‘‘ ، ’’کہاں آئیں ‘‘ کا راگ الاپتے فوراًمصیبت زدہ کوّے کی طرف لپکتاہے۔۔۔ اور ایک ہم ہیں حضرتِ انسان۔۔۔راستے میں کھو جانے والا روتا ہوا بچہ ہو، حادثے کے بعد زخمی حالت میں پڑے لوگ، یا سارے جہان کی یاسیت چہرے پر سجائے کوئی تنہا وجود، مجال ہے کوئی اپنی روٹین توڑ کر چند بے لوث لمحے اورہمدردی بھرے دو جملے کسی کو عطا کر سکے۔۔۔اور تو اور ہم انسانوں نے تو اب ایسے در و دیوارتعمیر کرنا شروع کر دئیے ہیں کہ دم دئیے ہوئے چاولوں ، مصالحہ بگھارنے اور بُھوننے کی اشتہاء انگیزخوشبو بھی ہمسائے کے گھروں تک نہیں پہنچنے دیتے۔۔۔ورنہ وہ ایک سخن ور نے کیا خوب کہا تھا۔۔۔اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے۔۔۔جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے‘‘ جواباً میں ہونقوں کی طرح بِیچ چوراہے یوں کھڑا تھا جیسے کوئی زناٹے دار طمانچہ میرے گال پر رسید کرکے بھرے مجمع میں کہیں غائب ہوگیا ہو! ایک روز میں کلاس سسٹم پر ایسا برسا، ایسا برسا کہ حلق خشک اور آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔جب میں بول بول کرتھک گیا اور باقاعدہ ہانپنے لگا تونور الٰہی نے اپنے بوری نما دستی تھیلے سے ایک پائن ایپل جوس کا ڈبہ نکالا اور اس میں نلکی پھنسا کر مجھے پیش کر دیا۔ میں نے اس جوس کے ڈبے کو یوں حیرت سے دیکھا جیسے کسی عظیم مسئلے کے بہترین حل کے طور پر کسی کو زہر کا پیالہ پیش کر دیا گیاہو۔ ’’پی لیجیے محسن میاں۔۔۔پائن ایپل جوس کا کلاس سسٹم سے کوئی بیر نہیں۔۔۔مشروب ستُّو کا ہو، گنّے اورفالسے کا ،یا پھربدیسی پیشن فروٹ یا پِینا کولاڈا کا، فرحت ایک سی ہی عطا کرتا ہے۔۔۔آپ کے دلچسپ نُوحے پر صرف اتنا کہیں گے کہ پانچوں انگلیوں کا مختلف حجم، سانچہ اورکردار اس عظیم سفال گر نے یقیناًکچھ سوچ کراور کسی حکمت کے تحت ہی ڈیزائن کیاتھا۔۔۔ اسی لیے شہادت کی انگلی اورا نگوٹھا جسے ہم پیار سے ٹھینگا بھی کہا کرتے ہیں دوبالکل مختلف اشکال، معنی اورعلامات رکھنے کے باوجودانگلیوں کے ہی قبیلے میں شمار کیے جاتے ہیں۔۔۔چیونٹی اور ہاتھی جثّے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اپنے متعین کردہ کردار کی بِنا پریکساں اہمیت رکھتے ہیں۔۔۔جب اس دنیا کے سٹیج پرسجی تمثیل کے ہدایت کار اعلی نے ہر کسی کا کردارہی اہم لکھا ہے تو پھر ہم لوگ آخر اس کلاس ٹائپ کے فرق میں ٹانگیں پھنساکراس سکرپٹ کو کیوں چیلنج کرتے ہیں ۔۔۔کیا آدھے انچ کے اگنیشن پوائنٹ کے بغیر دو ٹن کی گاڑی چل سکتی ہے،یا تقریباً دو سو پچاس گرام وزن رکھنے والے دل کے بغیر سو کلو گرام کا انسانی جسم زندہ کہلا سکتا ہے۔۔۔ وہ کسی سخن ور نے اپنی شناخت کے حوالے سے کیا خوب شعر کہا تھا۔۔۔بڑوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا۔۔۔جہاں دریا سمندر سے ملا، دریا نہیں رہتا! ‘‘ نور الٰہی کا مختصر جواب اس وقت تومجھے کسی مشکل پہیلی سے کم نہ لگا لیکن جب اس روز شام کے وقت گھر واپس جاتے ہوئے میں نے سڑک کنارے چاٹ کی ایک ہی ریڑھی سے مہنگی ترین کار میں بیٹھے ہوئے جوڑے اور پرانی سائیکل پر بیٹھے ایک نوجوان کو ایک ہی قسم کی پلیٹوں میں بے فکری کے ساتھ چاٹ کھاتے دیکھا تو تب کہیں جا کرنور الٰہی کی پہیلی مجھے کچھ کچھ سمجھ میں آئی! اسی طرح اس روز میں اورنور الٰہی اپنا اپنا ٹفن کھول کر لنچ کرنے بیٹھے تو میں نے لقموں سے کہیں زیادہ محبت، اس کے مفہوم اور اس سے وابستہ دُکھوں کواپنے دانتوں تلے چبایا۔میں بولتا رہا اورنور الٰہی ہمہ تن گوش میری جارحانہ گفتگوبہت دھیان کے ساتھ سنتا رہا۔ ’’نجانے آپ کیا کہہ رہے ہیں محسن میاں۔۔۔کاسہ ٹُوٹ جائے تو پیاس کو کیا کوسنا۔۔۔ شکستگانِ محبت کو تو سخن وروں اور دانش وروں نے شہنشاہوں کے برابر تولا ہے۔۔۔ان کے خیال میں جو آگہی، تڑپ، درد اور گہری سوچ و فکر کے خزانے انہیں محبت میں مات کے بعد نصیب ہوتے ہیں،اس کے آگے د نیا بھرکے امیر ترین لوگوں کے اثاثے ہیچ ہوتے ہیں۔۔۔ہائے ہائے وہ کسی سخن ور نے محبت میں مات کھانے کے بعد کیا خوب کہا تھا۔۔۔مجھے تجھ سے جدا رکھتا ہے اور دُکھ تک نہیں ہوتا۔۔۔مرے اندر تیرے جیسا یہ آخر کون رہتا ہے۔۔۔محبت میں منزل مل جائے تو کائنات دو اشخاص تک محدود رہتی ہے اور اگر محبت میں منزل نہ ملے تو بخدا ساری کائنات نصیب ہوتی ہے۔۔۔اس بات پر ایک اور سخن ور کا شعر یاد آ گیا۔۔۔اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں۔۔۔فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں۔۔۔محسن میاں جس طرح ہَوا صحرا میں ریت پر اور سطحِ آب پردلکش لکیریں بنا کر اسے دلکش اور دل پزیر بنا دیتی ہے بالکل اسی طرح محبت کسی بھی عام سے وجود پر طاری ہوکر اور اپنے آپ میں مبتلا کر کے اسے کسی برانڈڈ آئٹم کی طرح بے حدخاص بنا دیتی ہے۔۔۔ محبت میں پا لینے یا کھو دینے سے زیادہ اہم آپ کے وجود کے لیے محبت کی زربفت کا منتخب ہونا ہے۔۔۔محبت جیسی خوبصورت مَینا کوخواہش اور ملکیت کے سنہری پنجرے میں قید مت کیجئے ورنہ یہ آپ کو اداس جاز میوزک کی طرز کے ہی گیت سنائے گی۔۔۔اگرچہ ہم اس احساس اور سانحے سے باقاعدہ طور پر گزر چکے ہیں مگر قسم لے لیجیے ہمارے گھر میں اداسی بال کھول کر نہیں سوتی بلکہ جُوڑا باندھ کراٹھلاتی پھرتی ہے اور نہ ہی ہمارے غریب خانے میں موجود واحد آتشدان میں بجھے ہوئے دنوں کی راکھ کا کبھی ڈھیر ملتا ہے بلکہ کئی نوجوان لکڑیاں انگڑائیاں لیتی ہوئی اس آتش میں کُود پڑنے کو بے قرار ملتی ہیں! ‘‘ اور میں اس روز رات گئے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ نور الٰہی کی اس نئی نرالی منطق کی گھتیاں سلجھاتنے کی ناکام کوشش کرتارہا۔ اس تناظر سے تو واقعی میں نے اپنی محبت کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا! نجانے کیا بات ہے، مجھے کسی بات کی خوشی نہیں ہوتی۔۔۔مجھے لگتا ہے میں سکتے کا شکار ہوں یا شاید میرا پورا وجود کسی شدید چوٹ سے سُن اور بے حِس سا ہو گیا ہے۔۔۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے میں ایک گہری کھائی میں جا گرا ہوں اور باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی! ‘‘ ایک روز میں نے بہت بھدّے سے انداز میں نور الٰہی کے سامنے ہتھیار پھینکے۔ ’’اس بیمار ذہنی کیفیت کا تو میرے پاس بہت اسیر نسخہ موجودہے محسن میاں۔۔۔کئی بار اپنے اوپر اس کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں اور بخداہر بار افاقہ ہوتا ہے۔۔۔آپ پہاڑوں، جنگلوں، جِھیلوں اورسبزہ زاروں کا تنہاسفر اختیار کریں۔۔۔پہاڑوں کی رفعت سے نیچے جھانک کر کوہ قامت مناظر دیکھیں اور اپنی سوچ کا قد ناپیں۔۔۔پہاڑوں میں جہاں بھی تنہائی میسرآئے ،زوردار آواز میں چیخ چیخ کراپنی پر آشوب عرضیاں اور نالۂ دل پہاڑوں کی گونج کے حوالے کر آئیں۔۔۔پہلے جنگلوں میں نِیم آشکارپگڈنڈیوں پرجا بجا اپنے نقشِ پا بچھائیں،پھرجنگلی پھولوں کواپنی انگلیوں کی پور سے چُھوکراپنے لمس کی تطہیر کریں اور پھران کی سحر انگیز خوشبو اپنے اندر بھرکرایک لمبا سانس بھریں اور اپنے اندر کی سب کثافتیں وہیں چھوڑ آئیں۔۔۔جنگل کے درخت اور پھول انسانوں کی طرح نہیں ہوتے، وہ ان کی پیدا کردہ کثافتیں لے کر انسانوں کوحیات بخش لطافتیں عطا کرتے ہیں، ان میں امیدکے کاسنی اور گلابی پھول بانٹتے ہیں ۔۔۔اور جب راستے میں نیلے پانیوں والی جھیلیں آئیں تو ان میں پیر لٹکا کر اپنی مسافتیں اور تھکن وہیں چھوڑ آئیں۔۔۔راستے میں کھنڈر آئیں تو کچھ دیر وہاں بھی رکیں اوریہ ضرور سوچیں کہ انہیں بسانے والے آج گمنام ہیں تو یہ ابھی تک کیوں اور کیسے یادگار ، موسوم اور خوش نام ہیں۔۔۔سبزہ زاروں اور پھولوں سے بھری وادیوں میں جائیں تو ان کا حسن دیکھ کر کم از کم ایک دفعہ یہ ضرور سوچیں کہ اگر ان کا اورآپ کا خالق ایک ہے تو آخرآپ نے اپنا دامن کیوں چاک کر رکھا ہے، اپنے سر میں خاک کیوں ڈال رکھی ہے اور کائنات میں اس عظیم خالق کی عظیم اور حسین ترین تخلیق کا اعزاز حاصل ہونے کے باوجوداپنے چہرے پر بدنما خیالات کا اس قدربھدّامیک اپ کیوں کر رکھا ہے!‘‘ میرے سِینے میں اب تک زندگی، عمر، اور تلخ تجربات کے کالے جادو نے جتنے بھی کِیل ٹھونک رکھے تھے ، وہ نور الٰہی نامی پراسرار بابے نے صرف تین ماہ کے قلیل عرصے میں اپنی شگفتہ، مدلل اورسحر انگیز گفتگو سے نکال ڈالے۔ اس نے وہ کر دکھایا تھا جو اب تک میری زندگی میں ناپیدتھا۔ذات کے اندر پھر سے تازہ ہَوا چلی تو اندر کا موسم بھی خود بخود بدلنے لگا ۔ زندگی میں وہ تبدیلیاں بھی آنا شروع ہو گئیں جو بظاہر بہت معمولی تھیں لیکن منفی سوچ کا پوسٹر اپنی ہستی پر چپکائے پھرنے کی وجہ سے اب تک ناپیدتھیں۔ میں نے پھر سے ماں، بہنوں اور چھوٹے بھائی سمیت بہت سے قریبی لوگوں کے چہروں کے نقوش اور ان کی باتوں پر دھیان دینا شروع کر دیا۔ موسموں کے تغیرات اور ان کے اثرات پر میری توجہ نئے سرے سے مرکوز ہونے لگی۔اندرونی حالات بہتر ہوئے تو میری گم شدہ خوش مزاجی بھی ہجرت کرنے والے پرندوں کی طرح اپنے اصل مسکن کی طرف لَوٹنے لگی۔ گھر ، دفتر والے اوردیگراحباب سب نے میرے اندر برپاہونے والی انقلابی اور حیران کن تبدیلیوں کو خوب سراہا۔میں نے تعلیم کا منقطع سلسلہ پھر سے شروع کرنے کا مضبوط ارادہ بھی باندھ لیا۔بہنوں کی شادی کے لیے دو عددکمیٹیاں بھی ڈال لیں۔برسوں بعداپنے گھر کو نئی قلعی کروائی،پرانے صوفوں کا حلیہ نئے کشن اور پوشش کی مدد سے بدلا،پرانے فرنیچر کو پالش کروا کر ان کی ترتیب بدلی توساتھ ساتھ بارہ برس پرانے پردے بھی بدل دئیے۔جب میں اپنے خود ساختہ قید خانے سے باہر نکلا تو پہلی بار مجھے دھیان آیا کہ آج تک نور الٰہی کے بارے میں کبھی کچھ کیونکر نہ پوچھا۔اس دوپہر اپنی زندگی میں تبدیلی کا مؤجب بننے پر پہلی باراسے کھل کر خراجِ تحسین پیش کیا جسے اس نے کسی مشرقی لڑکی کو دی جانے والی شادی کی براہِ راست دعوت کی طرح شرما کراور سر جھکا کر قبول کر لیا لیکن جونہی میں نے اس کی ذات اور ذاتی زندگی کے متعلق استفسار کیا تو وہ بینچ پر بیٹھے بیٹھے اچانک یوں اٹھ کر کھڑا ہو گیا جیسے اسے کسی موٹی سی چیونٹی نے کاٹ لیا ہو۔ ’’اجی چھوڑیں محسن میاں اس قصے کو۔ہماری تعریف، ہمارا پس منظر،ہماراگھر اور ہماراافسانہ تو فقط اس ایک شعر میں پنہاں ہے کہ۔وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے۔مشکیزے سے تِیر کارشتہ بہت پرانا ہے۔۔۔ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ۔۔۔ اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ جب کبھی زمین پر کوئی اہم، خاص اوربھلا شخص کسی وجہ سے اپنی اندر کی طاقت، درست سمت اور اپنی بصیرت و روشنی کوکھو بیٹھے تو اوپر بیٹھا ہوا عظیم منصوبہ سازاہلِ زمین میں سے مجھ جیسے کسی ناچیزکی ڈیوٹی لگا کر اسے اس خاص شخص کے پاس ایک خاص مشن پربھیج دیتا ہے۔۔۔جب پیغام پوری طرح پہنچ جاتا ہے،پوری طرح سمجھ لیا جاتا ہے تویہ مشن پورا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس بندے کا رول بھی ختم ہو جاتا ہے۔۔۔اور پھر اس کا کہیں اور ٹرانسفر ہو جاتا ہے۔ قسم لے لیجیے جو ہم نے شہنشاہ سخن ور اقبالؔ کے اس ایک لازوال شعر کے علاوہ آپ پر کوئی اور دوسرا تجربہ کیا ہو کہ اپنے من میں ڈُوب کر پا جا سراغِ زندگی۔۔۔تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن،اپنا تو بن ! ‘‘ اور پھریہ کہہ کر نامعلوم وجوہات کی بِنا پرنور الٰہی کچھ دیر احمقوں کی طرح ہنستا رہا ۔ مجھے نہ سمجھ آئی اور نہ ہی ہنسی لیکن مروتاً نور الٰہی کے ساتھ مجھے بھی ہنسنا پڑا۔ ’’آپ میں کمال کی برجستگی اور بذلہ سنجی ہے ۔۔۔آپ اپنے ایک شگفتہ جملے سے حبس بھرے موسم کو بادِ صبا میں باآسانی ڈھال سکتے ہیں! ‘‘ ’’اس حسنِ ستائش پر آداب عرض ہے محسن میاں۔۔۔لیکن وہ کسی سخن ور نے کیا سچ کہا ہے۔۔۔اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی رہتی ہے فرازؔ۔۔۔جس کی ہر بات ہوتی ہے اوروں کو ہنسانے کے لیے۔۔۔شادمانی کی خوشنما عمارت کو صرف اداسی کا مضبوط سنگ مرمر ہی جاوداں اورقائم رکھتا ہے۔۔۔رات کا آخری سیاہ پہرہی سحرکے طاقتورمفہوم کی تفہیم کہلاتاہے۔۔۔غم،درد اور تڑپ ہی انسان کوپکاسو، صادقین اور بیتھووین بناتے ہیں۔۔۔زندگی میں جب بہت کچھ جمع ہوجائے تو منہا کی گنجائش، ضرب اور امکان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے! ‘‘ ’’آپ کی ہر بات سر آنکھوں پر لیکن کم از کم میں اپنی زندگی سے اب آپ کو کبھی منہا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔اگر ایسا ہوا تو یہ میرا ناقابلِ تلافی ذاتی نقصان ہو گا۔۔۔اور ہاں میں آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے دفترسے پندرہ دن کی چھٹی لے کر شمالی علاقہ جات کے سفر پر جا رہا ہوں۔۔۔پلیزآپ بھی میرے ساتھ چلیے۔۔۔آپ سے اچھا ہم سفر بھلا اور کون ہوگا۔۔۔آپ کی ناصحانہ اور شگفتہ باتیں میرے سفر کو رنگین بنائے رکھیں گی اور اسی بہانے آپ سے مزید بہت کچھ سیکھنے کو مل جائے گا! ‘‘ ’’محسن میاں۔۔۔ خود شناسی اور آگہی کا یہ فیصلہ کن سفربھی آپ نے عالمِ بے خودی میں اکیلے ہی طے کرنا ہے۔۔۔وہ کسی سخن ورنے کیا خوب کہا ہے۔۔۔عمر جو بے خودی میں گزری ہے۔۔۔بس وہی آگہی میں گزری ہے۔۔۔آپ اپنا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر آگہی کے سفر پر نکلیں گے تو کبھی تنہا نہیں ہوں گے۔۔۔اس کے بعد مروتاً اتنا ہی کہنا کافی ہوگا۔۔۔ یار زندہ صحبت باقی! ‘‘ وہ ہماری آخری ملاقات تھی!!! اس کے بعد میں نور الٰہی سے کبھی نہیں ملا۔ میری اس سے آخری ملاقات کو آج پورے بائیس برس بیت چکے ہیں۔ہر سال میں نور الٰہی سے اپنی اس آخری ملاقات کی یاد تازہ کرنے اس پارک میں تنہا آتا ہوں۔ پچھلے کئی برسوں میں جہدِ مسلسل کے نتیجے میں میں نے ایک سٹینو گرافر سے ملک کے نامور تلقینی و القائی تربیت کار، قابلِ تقلیداستاد اوراپنی تقاریر سے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں اور سوچوں کا رخ تبدیل کر دینے والے بے مثال مقرر کا درجہ کیسے حاصل کیا ،یہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن میں نے اپنے اندر نور الٰہی کی روشن کی ہوئی لَو کو آج تک کبھی مدھم نہیں ہونے دیا ۔نور الٰہی آج بھی میرے اندر چلتا پھرتا، میری آواز میں بولتا رہتا ہے اور اس کا رنگین چولا اب میں نے زیب تن کر رکھا ہے۔میری جتنی بھی مصروفیات یاپیشہ وارانہ ذمہ داریاں ہوں ، مجھے جب کبھی کسی سڑک کنارے سر اور کندھے جھکائے چلتا ہوا، کسی پارک میں تنہا اداس بیٹھا اور خالی نظروں سے خلاؤں میں گھور تا کوئی نوجوان نظر آ جائے تومیں فوراً محسن ضیا سے نور الٰہی کا رُوپ دھار لیتا ہوں اور تب تک اس کی زندگی سے غائب نہیں ہوتا جب تک وہ نوجوان اپنی ذات کے اندر گمشدہ اپنی طاقت اور روشنی کوپھر سے نہیں پا لیتا۔نور الٰہی کی طرح اپنے ہرمشن میں کامیابی اوراپنی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعدمیں اپنا رنگین چولا اتار تا ہوں اور اس نوجوان کو نور الٰہی کا کہا ہوا یہ جملہ آخری دفعہ دہراکر اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتا ہوں۔۔۔’’آپ اپنا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر آگہی کے سفر پر نکلیں گے تو کبھی تنہا نہیں ہوں گے!!! ‘‘ افسانہ ابھی ختم نہیں ہوا اور نہ ہی میں ابہام پر یقین رکھتا ہوں! شمالی علاقہ جات کے یادگار ترین سفرسے واپسی کے بعد اپنی مکمل اوورہالنگ کرکے جب میں پرجوش،ہلکا پھلکا اور خوش و خرم وجود لیے واپس اپنے شہر پہنچاتوسب سے پہلے میں جس شخص کو مل کر اپنے پورے سفر کی رُوداد سنانا چاہتا تھا، وہ نور الٰہی تھا۔کئی روز تک تو میں پارک میں بے چینی کے ساتھ اس کا انتظار کرتا رہا اور اس کے گھر یا دفترکا ایڈریس نہ لینے والی اپنی عظیم حماقت پر اپنے آپ کو جی بھر کر کوستا رہا۔نور الٰہی کو نہ آنا تھا سو نہ آیا۔زندگی میں نور الٰہی کی موجودگی میرے لیے اتنی اہم ہو چکی تھی کہ اس کی غیر موجودگی کو برداشت نہ کر پایا۔ایک ہفتے پارک میں انتظار کے بعدمیں نے اردگرداس کی تلاش شروع کردی اور ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ اپنے ہاتھوں سے اس کے چہرے کا آڑھا ترچھا سکیچ بنا کر سامنے والے ریسٹورانٹ، اردگرد کے دفتروں اور علاقوں میں لوگوں سے اس کا اتا پتا پوچھتا رہا لیکن میری تمام کوششیں مکمل طور پربے سُود ثابت ہوئیں۔ وہ یوں غائب ہوگیا جیسے اس کا کہیں کوئی وجود ہی نہ تھا۔ مہینے بھر کی لاحاصل مشقت کے بعد مجھے لگنے لگا جیسے میں پھر سے اپنی پرانی ذہنی حالت کی طرف لَوٹ رہا ہوں! اس سے پہلے کہ واقعی ایسا ہو جاتا،وہ ایک بار پھر میری مدد کرنے کے لیے لَوٹ آیا! جی نہیں آپ غلط سمجھے۔۔۔حقیقت میں نہیں صرف خوابِ سحری میں! میں نے خواب میں نور الٰہی کو بہت عجیب حلیے میں دیکھا۔مکمل سفید لباس زیب تن کیے اور اپنا مخصوص بیگ بغل میں دبائے وہ ایک پسنجر ٹرین کے دروازے پر کھڑا تھا۔وہ جیسے کہیں کسی سفر پر نکل رہاتھا،میں آنکھوں میں بحرِاوقیانوس بھرے اسے رخصت کرنے ریلوے سٹیشن پر آیا ہواتھا اور ٹرین روانگی کی آخری سیٹی بجنے کے باوجود اس کا ہاتھ چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ ’’آزردہ نہ ہوں محسن میاں۔۔۔میرا ٹرانسفر ہو گیا ہے۔۔۔اورڈیوٹی تو ڈیوٹی ہوتی ہے۔۔۔زندگی میں کبھی ملاقات ہو یا نہ ہو لیکن مجھے یقین ہے آپ مجھے اپنے اندر ہمیشہ زندہ رکھیں گے کہ ہمارے ناموں میں مشترک قدر روشنی ہے۔۔۔جاتے جاتے بھی ہمیں ایک سخنور کا خوبصورت شعر یاد آ رہا ہے۔۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا۔۔۔کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا! ‘‘ اس روزجوآنکھ کھلی تو آج تک بند نہیں ہوئی۔نور و ضیا بلاحساب اور بلاغرض لٹانے کا سفرجاری ہے اورمجھے یقین ہے یہ سفر میرے ٹرانسفر کے بعد بھی جاری رہے گا کہ بجھتے ہوئے چراغ سے ہی نیا چراغ جلتا ہے !!!
فدوی کی گذارش ہے کہ بوجوہ رمضان المبارک از بتاریخ رمضان بمطابق 12 فروری تا 27 رمضان المبارک قمری ہجری بمطابق تاریخ فلاں عیسوی فدوی کو رخصت مکسوبہ عطا فرما دی جائے۔ احقر العباد
پھر اماں صاحب باقاعدہ سودا سلف کرنے لگیں۔ ایک بار کیا نکلیں کہ پھول دلہن نے انہیں برابر بھیجنا شروع کردیا۔ انہیں اماں صاحب کی ایمانداری پر دوسروں سے زیادہ بھروسہ تھا۔ اماں صاحب ایک دن بازار سے لوٹ رہی تھیں کہ ان کی نظر چھدو پر پڑی۔ گھر کے قریب عالم نگر کی چڑھائی پر کچھ ٹٹ پونجیا طوائفیں رہا کرتی تھیں اور کچھ ہجڑے۔ وہ وہیں ہونقوں کی طرح منہ پھاڑے کھڑا تھا۔ ایک ہجڑا اس کے ساتھ کچھ فحش مذاق کر رہاتھا۔ دوتین بھدی صورتوں اور بے ہنگم جسموں والی طوائفیں ٹھی ٹھی ٹھی ٹھی کرکے ہنس رہی تھیں۔ اماں صاحب کو جیسے لرزہ چڑھ گیا۔ سر نیہوڑائے جلدی جلدی لاحول پڑھتی وہاں سے نکل آئیں اور گھر آتے ہی ایک ایک کی خوشامد شروع کی، ’’خدا کا واسطہ کسی کو بھیج کر چھدو کو بلوالو۔ ارے بلاقن تیرے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ تجھے علی کا واسطہ۔۔۔ بچوں کی قسم۔۔۔‘‘ اماں صاحب کا بلبلانا دیکھ کر بلاقن کو ترس آگیا۔ لیکن کہنے لگی، ’’کہیں اور ہوتا تو بلالاتی، وہاں کون جائے شہدوں اور کسبیوں میں۔‘‘ چھدو گھر واپس آیا تو اڑتیس برس کی عمر میں اس نے پہلی بار اماں صاحب سے ڈانٹ سنی۔ وہ بھی ایسی کہ اس کے حواس گم ہوگئے۔ ابھی وہ گرج ہی رہی تھیں کہ وحید میاں کے چھوٹے بیٹے نے کہا، ’’چھدو، نیچے چاٹ والا آیا ہے۔ جاؤ دوڑ کے لے آؤ۔‘‘ وہ بوکھلاکے بھاگا۔ چاٹ لانے میں اسے اپنی عافیت بھی نظر آئی۔ ویسے بھی ذرا ذراسے کاموں کے لیے اوپر نیچے بھاگنے کا عادی تھا۔ اماں صاحب کی سانس پھولنے لگی۔ انھوں نے چاول کی سینی سامنے سرکائی اور چاول چننے شروع کردیے۔ دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھتی جاتی تھیں۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books