Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جو نگری نگری بھٹکائے

رفعت ناہید سجاد

جو نگری نگری بھٹکائے

رفعت ناہید سجاد

MORE BYرفعت ناہید سجاد

    صائمہ نے تیسری منزل سے نیچے جھانک کر دیکھا۔ کیمپس سے ہوسٹل تک کی خالی سڑک پر نہر کے کنارے کنارے اکیلے چلنا نہایت بور کام ہے۔ اگر کہیں سے وہ کم بخت طوبیٰ مل جائے جس کی زندگی مصروفیات سے پر اور وقت کمیاب تھا۔

    لیکن وہ نیچے نہیں تھی۔ وہ کیفے ٹیریا بھی نہیں تھی۔ وہ ڈاکٹر غزنوی کے کمرے میں بھی اسے جھانک آئی۔ اگر اتنی دیر اسے تلاشنے کی بجائے وہ ہوسٹل کی طرف چل پڑی ہوتی تو اب تک دو دفعہ ہوسٹل پہنچ چکی ہوتی۔ آخر وہ گئی کہاں؟ وہ اس کے لیے تھوڑی سی فکر مند ہو گئی۔ وہ صبح بھی اداس تھی۔ مگر اس نے اپنی اداسی کا اعتراف نہیں کیا۔ لیکن اب اسے اعترافوں کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ جس شخص کے ساتھ آپ دن رات رہتے ہوں اور آپ اسے اتنا پسند بھی کرتے ہوں، اس سے سوال جواب کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ تم خوش ہو۔ تم اداس ہو۔ یہ بہت رسمی سی باتیں ہیں۔ منافقت سے پر۔

    ایک آخری چکر بینک کا لگانے کی نیت سے وہ الٹے قدموں پلٹی ہی تھی کہ اسے شیریں نے پل کے دوسری طرف سے پکار لیا،’’ہوسٹل نہیں جانا آج؟‘‘

    ’’جانا تو تھا۔ طوبیٰ کو دیکھا ہے؟‘‘

    ’’صبح تو دیکھا تھا۔ کیوں کام تھا کوئی؟‘‘

    پھر پیچھے سے آنے والے ریلے کے ساتھ جیسے وہ دھکا کھاتی ہوسٹل کی طرف گھسٹتی چلی گئی۔ ہر چند منٹ کے بعد ایک قافلہ ہوسٹل کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ وہ کھلکھلا کر ہنستی، بےسری لے سے سر اٹھاتی لڑکیوں کے درمیان چلتی چلتی پلٹ کر دیکھتی رہی۔

    ’’کہیں وہ اکیلی نہ رہ جائے۔‘‘ اس نے ثنا کے ٹہوکا مارنے پر شرمندہ ہو کر کہا تھا۔

    ’’اس دنیا میں سب اکیلے ہیں۔ کوئی کسی کا نہیں۔‘‘ اس نے بڑی رقّت سے اعلان کیا تھا۔

    ’’اور اگر کھانا نہ مل سکا تو پھر؟‘‘

    وہ ایس ٹی سی کے پاس کچھ دیر کے لیے رُکی۔ کوئی پیانو بجا رہا تھا یا شاید اپنا غصہ اتار رہا تھا۔ لیکن وہ بہرکیف طوبیٰ نہیں تھی اور جب وہ میس سے کھانا کھاکر اور اس کا حصہ پلیٹ میں بھر کر کمرے میں آئی تو غصے کے مارے بھنا گئی۔ وہ سکون سے پاؤں دیوار سے ٹیکے Comics Double Digest پڑھ رہی تھی۔ وہ اتنی محو تھی جیسے فلسفے کے کسی ادق باب میں کھو سی گئی ہو۔

    ’’حد ہوتی ہے طوبیٰ!‘‘ اس نے مارے غصے کے پلیٹ میز پر پٹخی اور کتابیں اس کے منہ پر دے ماریں،’’اور میں تمہارے لیے وہاں پریشان ہوتی پھر رہی ہوں۔ تم کہہ کر بھی نہیں آ سکتی تھیں؟‘‘

    کبھی کبھی جب ہمارے بےبنیاد واہمے ہوا ہوتے ہیں تو ہم بجائے پرسکون ہونے کے زیادہ جھنجلا جاتے ہیں۔ حالاں کہ ہم جو کچھ سوچ رہے تھے، وہ ہوا نہیں ہوتا۔ اس نے بیٹی اور ویرونیکا (Betty or Veronica) کی تصویر والی کتاب ایک طرف ڈال کر غور سے اس کی طرف دیکھا۔

    وہ غالباً اس کے پیچھے خوب ہی روتی رہی ہے۔

    ’’میں بور ہو رہی تھی اور تم بہت پڑھاکو ہو۔ کیا ہے اس پلیٹ میں؟‘‘

    ’’میں نے تم سے کہا تھا؟ میں پڑھاکو ہوں، میں ضرور جاؤں گی کلاس میں؟‘‘

    ’’میراجی نہیں چاہ رہا تھا دراصل۔‘‘ وہ چھلانگ مار کر خیرات کے مزے والے چنے چاول بڑی رغبت سے کھانے لگی۔

    ’’میں بہت بور ہو رہی تھی اور سر شفیق کے لیکچر سلا ڈالتے ہیں۔‘‘

    صائمہ کرسی پر گر سی گئی۔ کتنی دیر تک اسے ڈھونڈنے کے لیے ٹانگوں کی مارچ پاسٹ جاری رہی تھی اور وہ اسی طرح کھڑے کھڑے پلیٹ میں ہاتھ ڈال ڈال کر چاول منہ میں بھر رہی تھی اور چہرے سے ایسے دکھائی دیتی تھی جیسے اسے زمانے بھر کی پروا نہ ہو۔ اس کو کیا ضرورت پڑی تھی اس کی خاطر خوار ہونے کی۔ صائمہ نے جھنجلاکر بستر پر بکھری اس کی چیزیں سمیٹتے سوچا۔

    ’’طغرل بھائی! دراصل یہ محبت بڑی ذلیل چیز ہے۔‘‘ کولڈ کافی کے گلاس سے ٹپکتے یخ برفیلے قطرے اس نے ٹشو پیپر سے صاف کیے۔ پھر اس نے اسٹرا (Straw) منہ میں دبالی۔

    اگلی سیٹ پر بیٹھی طوبیٰ کچھ دیر اس کے اگلے فقروں کی منتظر رہی۔ پھر وہ کھلکھلا کر ہنس دی، ’’یہ کس قسم کی فلاسفی ہے۔ اس قدر بودی۔ نہ تم نے دلائل دئیے نہ بحث کی، بس فیصلہ سنا دیا۔‘‘

    ’’اس سلسلے میں دلائل کی ضرورت بھی نہیں۔‘‘ طغرل نے پوری طرح متفق ہوتے ہوئے کہا تھا، ’’دراصل یہ سٹیٹمنٹ ہر طرح سے مکمل ہے۔ وہ جو انگریزی کا محاورہ ہے نا۔ سورج ساکن ہے۔ اس کی طرح۔‘‘

    ’’پتا نہیں کیوں لیکن مجھے پورا یقین ہے، محبت ذلیل و خوار کرتی ہے۔ اب دیکھیے اگر طغرل بھائی کی امی کو پتا چل جائے کہ فوٹریس سٹیڈیم کی ان سڑکوں پر ان کا راج دلارا کس کس طرح خوار نہیں ہوتا تو وہ محبت کے بارے میں کیا نظریہ پیش کریں گی؟‘‘

    سائیڈ مرر سے صائمہ نے طوبیٰ کا رنگ اڑتے دیکھا۔ شاید اس نے خود کو تھوڑی دیر کے لیے تحقیر کی زد میں محسوس کیا ہو۔ لیکن وہ اس کی دوست تھی اور اس کو اتنا یقین ہونا چاہیے کہ وہ کبھی اس کا مذاق نہیں اڑا سکتی۔ طغرل اپنی ہتک کے احساس سے تپ سا گیا۔ ذرا دیر کو اس کو احساس ہوا، صائمہ نے کبھی طنزیہ گفتگو سے ہٹ کر اس کے ساتھ کوئی بات کی بھی نہیں تھی پھر وہ کیوں اس کے کسی نظریے سے سو فیصدی متفق ہونے پر آمادہ ہو گیا تھا۔ اس نے انہیں یونیورسٹی کے پارکنگ لاٹ میں ڈراپ کیا تو صائمہ کے ایک احمقانہ سے نظریے سے ساری فضا بوجھل بوجھل ہو گئی۔

    صائمہ کا خیال تھا۔ اسے دونوں منزلوں تک طوبیٰ کے کسی لمبے لیکچر کا سامنا کرنا پڑےگا۔ لیکن کار سے اترتے ہی وہ جس دھن کے سر پکڑنے کی کوشش میں فکر مند تھی، ڈاکٹر غزنوی کے آفس تک اسی سے جھگڑتی رہی۔ یوں تو دنیا بسےگی۔ تنہائی پھر بھی ڈسےگی۔ آخری لفظوں سے اس کی تسلی نہ ہوتی تو پھر پورا سر پکڑ کر شروع کر دیتی۔

    ’’میں بھی طالب علمی کے زمانے میں بڑا زبردست ٹریڈ یونیسٹ تھا۔ تم لوگوں کی طرح تقریریں کرنا، نعرے لگوانا۔ ایک مرتبہ جب میرے چاروں طرف سے سن سن کر کرتی گولیاں گزر رہی تھیں۔‘‘

    صائمہ نے کن اکھیوں سے دیکھا۔ جانے کیوں طوبیٰ کے اردگرد ایسے لوگوں کا مجمع رہتا ہے جو اس کو پرسکون رکھنے کی بجائے اشتعال دلائے رکھتے ہیں۔ اس کی رنگت شدت جذبات سے سرخ سی ہو رہی تھی۔ وہ پوری محویت سے ڈاکٹر غزنوی کے قصے میں گم ہو گئی تھی۔

    صائمہ کو سرے سے طوبیٰ کی جذباتیت پسند ہی نہیں تھی۔ فائنل کے امتحان سر پر تھے۔ مزدوروں کی خیر خواہی کے لیے کچھ کرنا بھی تھا تو امتحانوں کے بعد سہی اور خوامخواہ میں وہ فیل ہو گئی تو صائمہ کو ساتھ دینا پڑےگا اور اس کے سرمایہ دار باپ کے علم میں بھی آ گیا کہ اس کی بیٹی مزدور لیڈر بنی سرخ جھنڈا اٹھائے دنیا کا مقدر بدلنے نکلی ہے تو۔ تو؟ (اس کی سوچ کی روانی رک گئی۔) ان کی بلا سے۔ وہ اسے بھی کسی باغی مزدور لیڈر کی طرح مسل کر رکھ دیں گے۔

    ’’کسی بھی چیز کو باہر سے نہیں دیکھتے۔ کوڑا چننے والے بھی کوڑے کے ڈھیر میں اترتے ہیں۔‘‘

    ڈاکٹر غزنوی اپنے گھر کے سرسبز لان میں اسے دلچسپ قصے سنا کر اکساتے رہتے۔

    ’’جناب مارشل لاء کا دَور تھا اور مارشل لاء بھی کون سا، اصلی والا مارشل لاء۔ سارے ٹریڈ یونیسٹ انڈر گراؤنڈ تھے۔ سرمایہ داروں کی چاندی تھی۔ میں نے ایک لیبر لیڈر کے ساتھ مل کر کمپنی کی اہم دستاویزات چرا لیں۔ راتوں رات ہم نے اس کے نوٹس بنائے۔ صبح خاموشی سے واپس رکھ دئیے۔ رکھنے میں غلطی یہ ہوئی کہ، چوں کہ ریکارڈ رکھنے کے کام کا تو تجربہ تھا نہیں، پتا نہیں رکھنے میں کیسے سب الٹ پلٹ ہو گیا۔ صبح صبح کمپنی میں سائرن بچ گئے۔ پولیس آ گئی۔ سب سے پہلے طاہر علی گرفتار ہوا۔ میں نے بھی خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیا۔ وہ بے چارہ تو بے گناہ تھا۔ انکوائری ہوئی تو پتا چلا، کوئی نقصان نہیں ہوا۔ بس میرا تعلیمی سال ضائع ہو گیا۔ ہاں فائدہ یہ ہوا کہ ایک کی بجائے میں نے دو کتابیں لکھیں۔ ایک ٹریڈ یونین کی ہسٹری پر اور ایک جیل پر۔‘‘

    ’’آپ اسے کس طرف لے جا رہے ہیں؟ یہ لڑکی ہے، یہ کام کسی لڑکے کو کہیں۔‘‘ مسز غزنوی چائے کی پیالی پر جھکی ناگواری سے اپنے انٹی لیکچوئیل شوہر سے بولی تھیں۔

    ’’مصیبت یہ ہے کہ لڑکے جلد باز ہوتے ہیں۔ وہ دیانت داری سے کام نہیں کرتے اور لڑکی ہونے میں کیا حرج ہے، اس کے پاس کم دماغ تو نہیں۔

    مجھے یقین ہے طوبیٰ مراد! ہم دونوں کے تعاون سے لکھی یہ کتاب اس سے پہلے اردو زبان نے نہیں دیکھی ہوگی۔‘‘

    وہ رات تک تکیے پرسر رکھے چھت کو گھورتی اپنی کتاب کے ایک ایک باب کو تحریر ہوتے دیکھتی رہی۔ اس نے صائمہ کی ہر دلیل ٹھکرا دی تھی۔ ہر بات رَد کر دی تھی۔ حتیٰ کہ اس کی محبت پر شک کا کھلم کھلا اظہار کر دیا تھا۔

    ’’تم مجھے خوش دیکھنا نہیں چاہتیں صائمہ۔ مجھ سے زیادہ بھی کسی نے زمانے کو ننگی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ کیا ہوگا زیادہ سے زیادہ، جو کچھ میرے ساتھ ہو چکا ہے اس سے زیادہ؟ جب میرے ماں باپ میں علیحدگی ہوئی تو میری عمر چار سال تھی۔ عمر بھر ان دونوں نے میری بدتر بیتی کا الزام ایک دوسرے پر لگایا اور جب ان کی طلاق ہو گئی تو فاتحوں کی طرح مجھے رسہ سمجھ کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔ اب مجھے کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا۔ میرے ساتھ جو زیادہ سے زیادہ ہو سکتا تھا، وہ زیادہ سے زیادہ ہو چکا ہے۔‘‘

    صائمہ جھنجلا کر پلٹ گئی۔

    ’’تم آخر معاف کرنا کیوں نہیں سیکھ لیتیں؟ تم اتنی ابنارمل کیوں ہو؟‘‘

    ’’اس لیے صائمہ جان۔‘‘ اس نے زور سے سانس پھیپھڑوں میں کھینچا، ’’کیوں کہ میرا ماضی ابنارمل رہا ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ پھر بھرو ٹھنڈی آہیں۔‘‘

    طغرل ان دنوں اس کی اس غیرفانی کتاب سے قطعی بے پروا ہو رہا تھا۔ اس کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ڈاکٹر غزنوی اور طوبیٰ مراد، ٹریڈ یونین ازم کی دنیا میں کون سا تیر مارنے جا رہے ہیں۔ اسے صرف طوبیٰ مراد سے دلچسپی تھی اور اس کی دوست کے بقول وہ بہت معصوم تھی۔ زمانہ بڑی آسانی سے اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کر سکتا تھا۔ لیکن پتا نہیں ممی کو وہ کیوں سخت ناپسند تھی۔ وہ اس کے ساتھ منگنی پر بھی آمادہ نہ ہوتیں اگر اس کے باپ کا سوشل سٹیٹس ان کی کمزوری نہ بن گیا ہوتا۔ رشتے ناتے اپنے برابر کے لوگوں سے جوڑنے چاہئیں۔ (اور اپنے برابر ہی کا تو کوئی نظر نہیں آتا)۔

    ’’بروکن فیملی کی لڑکیاں اچھی نہیں ہوتیں۔ دبو سی، سہمی سہمی یا بالکل باغی، اصول و روایت توڑتی۔ اب طوبیٰ کو دیکھ لو۔ ساری دنیا کہتی ہے، طوبیٰ کو نسبت روڈ پر دیکھا تھا۔ طوبیٰ کو گوالمنڈی میں دیکھا تھا۔ یہ جگہیں ہیں جہاں اس گھرانے کی بہو کو مارے مارے پھرنا چاہیے؟‘‘

    ’’وہ دراصل غریبوں کے مسائل پر کتاب لکھ رہی ہے، اپنے پروفیسر کے ساتھ مل کر۔‘‘

    ’’طغرل! اپنے لہجے کی مرعوبیت پر قابو پاؤ۔‘‘ ممی نے ناگواری سے کہا، ’’وہ پہلے ہی تمہیں جوتے کی نوک پر رکھتی ہے اور برائے کرم جب تم اس سے کہیں ملتے ہو یا وہ کہیں جاتی ہے تو مجھے اطلاع دے دیا کرو۔ مجھے لوگوں کا سامنا کرتے سخت خجالت ہوتی ہے۔‘‘

    اور اگلی ہی میٹنگ میں طوبیٰ کو اس نے بہت پیار سے سمجھایا تھا:

    ’’کون سی ایسی معلومات ہیں جن کی خاطر تم سڑکوں پر دربدر پھر رہی ہو۔ چلو میں تمہیں اپنی کمپنی لے چلتا ہوں۔ تمہیں جی ایم سے لے کر چپڑاسی تک جو کچھ پوچھنا ہے، تفصیل سے پتا چل جائےگا۔ ہمارا پی آر ڈیپارٹمنٹ بھی تمہیں مکمل معلومات دے سکتا ہے۔ ہاں طوبیٰ تم یوں لور لور کرتی سڑکوں پر پھرتی اچھی لگوگی؟ جو سہولتیں تمہیں گھر بیٹھ کر حاصل ہیں، کیا ضروری ہے تم جوتیاں چٹخا کر حاصل کرو۔ مڈل کلاس لوگوں کی طرح اور جب تمہیں کہیں جانا ہوتا ہے، گاڑی منگوا لیا کرو۔ ممی کو رکشاؤں کے انتظار میں فٹ پاتھ پر کھڑے رہنا پسند نہیں۔‘‘

    طوبیٰ برا نہیں مانتی تھی۔ وہ جانتی تھی وہ بےچارہ تو دو طرف کی فرمانبرداری میں مارا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ دونوں طرف بحث کرتے ا س کے منہ میں زبان بھی اپنی نہیں ہوتی۔ پھر اس دن وہ ممی کو فون کر کے اسے زبردستی اپنے آفس لے گیا۔

    ’’یہ لو۔ اب جوکچھ پوچھنا ہے، سب یہیں سے پوچھ ڈالو۔‘‘

    اس کے آفس کے یخ کمرے میں آرام دہ کرسی میں دھنسی وہ باری باری لوگوں کو آتے اور اپنے دکھ بیان کرتے سنتی رہی۔

    ’’مینجمنٹ بہت اچھی ہے۔ یہاں کا ماحول بالکل گھر کا ماحول ہے۔ ہمیں ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔‘‘

    ’’ہاؤس رینٹ ہے۔ طبی سہولتیں ہیں۔ بیمہ سکیم ہے۔ پینشن سکیم ہے۔‘‘

    ’’ہمیں ورکرز کی بہتری کا ہر طرح خیال رہتا ہے۔ سالانہ بونس ہے۔ ہیلتھ الاؤنس۔ ایجوکیشن الاؤنس۔ یہ الاؤنس۔ وہ الاؤنس۔‘‘

    طغرل کرسی پر اپنا بوجھ پیچھے کی طرف گرائے نیم دراز دھیمے دھیمے مسکراتا رہا۔ لوگ نصابی کتابوں کی باتیں کر کے سبق سنا کر چلے گئے تھے۔ اسے لگا کہ وہ ایک جنت میں بیٹھی تھی، جہاں ہر شخص کو مکمل خوشی حاصل ہے۔

    لوگ ہمیشہ وہ کہانی سناتے ہیں جو دراصل ہونی چاہیے، وہ نہیں جو ہوتی ہے۔ لوگ سچ بولنے سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں۔

    وہ ویک اینڈ پر اپنی ہونے والی سسرال گئی۔ یہ فرض اس کو اپنی ساری ذمہ داریوں میں سے ڈھونڈ کر نبھانا پڑتا تھا۔ طغرل ان دنوں کسی بزنس ٹور پر مانچسٹر میں تھا۔ اس کی بہنیں کسی ضروری کام سے ادھر ادھر تھیں۔ ممی نے کچھ دیر اس کی اور صائمہ کی کمپنی نبھائی، حالات سے ڈرایا اور چند سبق آموز کہانیاں سنائیں۔ پھر لنچ پر ملنے کا وعدہ کرکے آرام کرنے چلی گئیں۔

    صائمہ ڈر سی گئی۔ گو وہ اس کو ڈرانا نہیں چاہتی تھی۔ اس کو ڈرا کر وہ لے جاتی بھی کہاں۔ یونہی صائمہ نے لائف کی فوٹو گرافی کے کمالات دیکھنے شروع کر دئیے اور طوبیٰ سیاسی اخباروں کے لرزا دینے والے قصے پڑھتی رہی۔ چھٹی کا یہ دن صبح سے ر ات تک یوم سزا ہوتا۔ ہوسٹل آ کر لگا، گھر واپس آ گئے ہیں۔

    کتنی رات تک جاگنے کے بعد طوبیٰ نے جیسے کوئی اہم فیصلہ کر لیا۔

    ’’تم سے ایک بات کہنی ہے، صائمہ۔‘‘

    صائمہ نے لیمپ کی روشنی میں اسے کاغذوں کے ڈھیر میں گم دیکھا تھا۔ اب پتا نہیں فیصلے کی نوعیت کیا ہو۔ اس کے گھر والے کیسے ہی کیوں نہ ہوں، طغرل برا نہیں ہے۔ وہ سانس روک کر بستر پر منتظر سی بیٹھ رہی۔

    ’’میں کل سے نوکری کر رہی ہوں۔‘‘

    ’’نوکری؟ کیا مطلب؟‘‘

    ’’یہ میں نے اخبار میں ایک اشتہار دیکھا تھا۔‘‘ اس نے کٹا ہوا تراشا اس کے سامنے ڈال دیا۔ ’’ڈسپیچ کلرک کی عارضی آسامی۔ بنیادی درجہ تقرری مساوی درجہ ہشتم۔ تعلیمی قابلیت میٹرک یا اس کے مساوی۔‘‘

    ’’تم نوکری کیوں کر رہی ہو اور وہ بھی ایسی نوکری؟ طغرل کو کیا کہوگی؟‘‘

    اس کو سمجھانا فضول تھا، اسی لیے اس نے بعد کے حالات پر نظر ڈالی تھی۔ بحث کرنا، حالات سے مطابقت کرتی دلیلیں دینا، اس کو کچھ بھی سنائی نہ دیتا۔

    ’’اور ہوسٹل والے۔ ان سے کون اجازت لےگا؟‘‘

    ’’میں نے سوچا ہے صائمہ۔‘‘ اس نے چھلانگ مارکر بستر پر آتے ہوئے کہا،’’ کتاب لکھنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے کہ آپ جن پر لکھیں، ان کا ایک حصہ ہوں۔ ان کے درمیان اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے ہوں۔‘‘

    صائمہ کی باقی رات کی نیند اڑا کر وہ سکھ سے سو گئی تھی۔

    جیل روڈ پر کسی دو منزلہ بڑے سے مکان پر بنی یہ عمارت دفاتر کے کام آتی تھی۔ اس کا پروڈکشن یونٹ کہیں بھائی پھیرو کے پاس تھا۔ یہ معلومات اس نے انٹرویو کے لیے آئی باقی لڑکیوں سے بیٹھتے ہی حاصل کر لی تھیں۔

    پہلی مرتبہ اس کو احساس ہوا، اس کا دل دھک دھک کر رہا ہے۔ اگر یہ نوکری نہ ملی (اور اگر مل گئی؟) سامنے بیٹھی لڑکی سے خوشبو کی لپیٹیں پھوٹ رہی تھیں۔ اس کی لپ اسٹک کا رنگ تازہ اور جان دار تھا۔ رخساروں کی ابھری ہڈیوں پر خون کی طرح چمک مارتا بلشر۔

    بےساختگی میں اس کاہاتھ اپنے گالوں پر چلا گیا۔ صبح اٹھ کر نہائی تھی، کپڑے بھی بدلے تھے اور صائمہ کو بھی توفیق نہ ہو ئی کہ سج سنور کر جانے کی روزانہ والی نصیحت آج بھی دہرا ڈالتی۔ لڑکیاں باری باری اندر جارہی تھیں۔ جانے سے پہلے وہ رک کر لپ اسٹک کی نئی تازہ تہ جماتیں۔ افسوس! اس نے بے سبب پرس میں جھانکا۔ اس کا پرس اس قسم کے تمام لوازمات سے ہمیشہ عاری رہا تھا۔ وہی صائمہ کے بقول ’’ابنارمل ازم۔‘‘

    اس نے اپنی باری پر کمرے میں قدم رکھا تو اسے لگا، ہاں شاید یہاں پر ہی تلاش کا خاتمہ ہو جائے۔ لمبی سی مستطیل میز کے گرد اپنی اپنی لیاقتوں اور عہدوں کے گمان میں ڈوبے افسران اعلیٰ۔ موٹی موٹی توندیں۔ سرے اڑتے بال۔ چشموں کے پیچھے سے جھانکتی، تحقیر سے گھورتی آنکھیں اور ان کے بیچ بیٹھی وہ۔ مجبور۔ مؤدب۔ محکوم۔ (تضاد کی اعلیٰ مثال)۔

    اس نے ایک نظر اپنے دائیں بائیں بیٹھے پینل پر ڈالی۔ یہ اس قدر معمولی آسامی کے لیے کیل کانٹوں سے لیس اس قدر مسلح ہوکر آنے کی کیا ضرورت تھی بھلا۔ اسے ہنسی آ گئی۔ پہلے ہنستے پھر ہنسی روکنے کی کوشش کرتے، اس کو ٹیبل کے مرکز پر بیٹھے جس شخص نے دیکھا۔ اتفاق سے اس کی نظر اس سے پہلے اس پر نہیں پڑی تھی۔

    معاملے کی تہ تک پہنچتی نظریں۔ سوچتی اور پرکھتی آنکھیں۔ مخاطب کے اندر تک کھب جانے والی۔ اس نے جلدی سے دائیں طرف رخ پھیر لیا۔ وہاں رسمی سوالوں کی یلغار تھی۔ حالاں کہ وہ سب کچھ درخواست پر لکھا ہوا تھا۔

    آپ کا نام۔ والد کا نام۔ میٹرک کس سن میں کیا۔ دیگر تعلیمی قابلیت۔

    ’’میٹرک تو آپ نے چھے سال پہلے کیا تھا۔ آگے کیوں نہیں پڑھا؟‘‘

    پہلا سوال وہاں سے آیا، جہاں سے اسے توقع بھی نہیں تھی۔ اس نے سر اٹھاکر اس کی طرف دیکھا۔ بات کریدنے کا کوئی خاص مقصد تو لگتا نہیں تھا اور آدمی بھی اپنے حلیے سے مختلف لگتا ہے۔ پتا نہیں باس یہ ہوگا یا کوئی اور؟

    ’’ہاں جی۔ جواب دیجئے۔ آپ نے چھے سال کے خالی عرصے میں آگے کیوں نہیں پڑھا؟‘‘

    اس کے نزدیک بیٹھے کسی گنجے نے توتے کی طرح مالک کا فقرہ دہرایا تھا۔

    ’’چھے سال تک میں نے۔‘‘ وہ گڑبڑا گئی۔ اس سوال کے بارے میں تو اس نے کچھ سوچا بھی نہیں تھا۔’’ وہ دراصل حالات۔۔۔‘‘

    اس نے حلق کے پیچھے اٹکتے بڑے سے گولے کو گھونٹ کے ساتھ نگل لیا۔ جھوٹ بولنے کے لیے غیر معمولی مہارت چاہیے اور وہ ابھی نوآموز تھی اور اسے یقین ہو چلا تھا، سامنے بیٹھا شخص مخاطب کو بلا جھجک اس کے آرپار دیکھ لیتا ہے۔

    ’’حالات۔ کیسے حالات؟‘‘ اسے گردن بائیں طرف گھمانی پڑی۔ اب کے سوال اس طرف سے آیا تھا۔

    ’’والد حیات ہیں؟‘‘

    ’’والدہ کو کہیں ملازمت ملی ہے؟‘‘

    ’’بہن بھائی کتنے ہیں؟‘‘

    ’’کتنوں کو نوکری مل چکی ہے؟‘‘

    ’’کتنے بھائی بہن آپ کے زیر کفیل ہیں؟‘‘

    اس کی گردن سوالوں کی یلغار میں اس طرح گھوم رہی تھی جیسے وہ گھر سے ٹیبل ٹینس کا میچ دیکھنے آئی ہو۔

    ’’آپ ہمارے ساتھ کام کریں گی تو آپ کو ان سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔‘‘ سب سے موٹے شخص نے زور دے کر کہا تھا، ’’آپ اس دفتر میں ملازمت کر رہی ہیں تو آپ کو اعتماد بھی کرنا پڑےگا۔‘‘

    ’’اس کا مطلب ہے، مجھے ملازمت مل گئی ہے؟‘‘ اس نے کسی بھی سوال کا جواب دئیے بغیر اعتماد سے موٹے کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا تھا۔

    مرکزی کرسی پر ری لیکس کے لیے بیٹھا شخص قطعی اطمینان سے سوالوں کے ڈبے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے دیکھ کر مزے لے رہا تھا۔ اس کے فقرے کے کسی حصے پر وہ چونک کر سیدھا ہو گیا۔ اس نے کتنی دیر تک حیرت سے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ حماقت یہ ہوئی کہ وہ اس کی آنکھوں میں سیدھی جھانکتی اس کے ارادے پڑھنے کی کوشش کرتی رہی۔ کتنی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ آنکھ جیسی چیز بہت سارے راز کھولتی ہے، اس کی پردہ داری ضروری ہے۔ جب تک طوبیٰ نے آنکھیں نیچی کیں، بہت دیر ہو چکی تھی۔ طوبیٰ نے سنا، وہ کہہ رہا تھا:

    ’’ہمیں چالاک لوگوں کی ضرورت نہیں۔ چالاک لوگ خطرناک ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’حالاں کہ بےوقوف لوگ خطرناک ہوتے ہیں۔‘‘ وہ انجام کی پروا کیے بغیر دھم سے بحث میں کود پڑی۔

    مخاطب اس کے دوستوں کے حلقے میں سے نہیں تھا۔ نہ ڈاکٹر غزنوی کی طرح مہربان۔ نہ طغرل کی طرح نازاں۔ نہ صائمہ کی طرح جان نچھاور کرنے والا۔

    اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں الجھائیں اور ذرا سا جھک کر ا س کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس نے اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی ماری تھی۔ اس نے تاسف سے سوچا۔ وہ تو اس سے مخاطب تھا، نہ اس طرف متوجہ۔ لیکن اب وہ کہنیوں کے زور پر میز پرجھک آیا تھا۔

    ’’حالاں کہ میرے تجربے کے مطابق۔۔۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی، ’’زیادہ خطرناک وہ لوگ ہوتے ہیں جو بےوقوف دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

    ’’آہ۔ آپ کا تجربہ؟ میٹرک کرنے کے بعد کے خالی سال آپ خود پر تجربات کرتی رہی ہیں؟‘‘

    وہ مذاق کرتا تو نہیں لگ رہا تھا اور اس کا اس سے مذاق والا کوئی رشتہ بھی نہیں تھا۔

    ’’علاوہ تجربوں کے، ان چھے سالوں میں آپ نے کیا کیا، کیا؟‘‘

    ’’میں نے بےشمار کتابوں پڑھی ہیں۔‘‘ یہ غنیمت ہوا کہ کوئی جواب تو اس کو اپنے دفاع میں سوجھا تھا۔

    ’’کہیں نوکری کی؟ کسی جگہ، کسی بھی قسم کی؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’امید ہے، آپ غلط بیانی سے کا م نہیں لے رہی ہوں گی۔‘‘

    ’’ہرگز نہیں۔‘‘ اس نے بغیر پلک جھپکے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا، ’’اب بداعتمادی کی فضا آپ پیدا کر رہے ہیں۔‘‘

    اسے محسوس ہوا دائیں اور بائیں کچھ سرسراہٹ سی ہوئی تھی۔ بےچینی کی لہر جیسے گستاخ کو ٹکٹکی سے باندھ دیا جائےگا۔ وہ تو غنیمت ہوا کہ ہیڈ ہنس دیا۔اس کے ہنستے ہی لوگ وقفوں وقفوں سے ہنسنے لگے۔ محفل زعفران زار ہو گئی۔

    چشموں میں قید آنکھوں نے سکڑ کر مرکزی کرسی والے کے ارادوں کو دیکھنا چاہا۔ کسی ہوئی مٹھیاں ڈھیلی ہو گئیں، تنی ہوئی پشت کرسی سے جا ٹکی۔ ابھی کیا جلدی تھی۔ باہر بہت سے لوگ بیٹھے تھے اور ان کے مقدروں سے کھیل کر مزہ آ رہا تھا۔

    وہ ہوسٹل واپس آئی تو تکان سے چور چور تھی۔ اس کے باوجود اسے ڈاکٹر غزنوی کی رپورٹ کرنی تھی۔ کم از کم اس نے پہلی اینٹ تو لگا دی تھی۔

    انہوں نے جشن مسرت منانے کے لیے گوگو سے کافی پی، پان کھائے اور جب پھٹ پھٹ کرتے رکشا سے وہ ہوسٹل کے دروازے پر رکی تو اسی طرح اداس تھی۔

    صائمہ انٹرویو کی تفصیل جاننے کے لیے مارے تھرل کے پاگل ہو رہی تھی۔ وہ ہوسٹل کے ٹیرس سے اپنے اور اس کے دھلے ہوئے کپڑوں کا ڈھیر اٹھا کر لائی تو وہ جوگرز سمیت بستر پر اوندھی پڑی تھی۔

    ’’نہیں ملی نا نوکری؟ میں نے تمہیں کہا بھی تھا، ہیل پہن لو، جوڑا بنالو۔ انٹرویو دینے سب اسی طرح جاتے ہیں۔ اچھا اب یہ گندے جوگرز تو اٹھاؤ دھلے کپڑوں سے۔‘‘ اس نے تسمہ کھینچ کر جوگرز والی ٹانگ نیچے گرا دی۔

    ’’کیا مصیبت ہے۔ اب کاہے کا ڈپریشن ہے۔ نہیں ملی نوکری تو کیا ہوا۔ آج چولہا نہیں جلےگا؟ روٹی نہیں پکےگی؟‘‘

    ’’کبھی کبھی بڑا عجیب احساس ہوتا ہے صائمہ۔ تم نے کبھی سوچا ہے پھر کیا ہوگا؟‘‘ وہ تکیہ گود میں رکھ کر بستر سے پاؤں لٹکاکر سخت فلسفی بنی بیٹھی رہی۔

    ’’آپ ایک چیز کو منزل سمجھ لیتے ہیں۔ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اب یہ نوکری مل گئی تو پھر کیا ہو گا۔ کتاب چھپ گئی تو پھر کیا ہوگا۔ تمہیں ’’پھر کیا ہوگا‘‘ کے پیچھے نہیں بھاگنا پڑتا۔ تمہارا ’’پھر کیا ہوگا‘‘ سوچنے کے لیے تمہارے پاس بہت سے لوگ ہیں۔ ماں باپ ہیں۔ بہن بھائی ہیں۔‘‘

    ’’تم بھی خود کو ڈھیلا چھوڑ دو۔‘‘ اس نے رسان سے کہا، ’’جب پانی میں ڈوبنے لگیں تو ہاتھ پاؤں مارنے کی بجائے خود کو چھوڑ دینا چاہیے۔ پانی کا دھارا آپ کنارے پر لے آتا ہے۔‘‘

    ’’تمہارا مطلب ہے اگر زندہ نہ لا سکے تو لاش کو تو لے ہی آئےگا۔‘‘ طوبیٰ کے کھل کر ہنسنے کے باوجود صائمہ کو ہنسی نہیں آئی۔

    ’’بےجوڑ شادیاں اسی طرح ہوتی ہیں طوبیٰ۔ اگر ساتھ نبھائے جاتے تو تم آج ان سے کہتیں کہ تمہیں علیحدہ ہو جانا چاہیے تھا۔ وہ علیحدہ ہو گئے ہیں تو تم کہتی ہو، میرے بارے میں کون سوچےگا۔ جتنی دکھی تم ہو، وہ بھی اپنی اپنی جگہ اتنے ہی دکھی ہوں گے۔‘‘

    ’’ڈاکٹر غزنوی کے بقول Vicarious Living کا حصہ ہے۔ ہوتا کچھ نہیں۔ بس ہم سوچ لیتے ہیں۔ ہمارے بغیر دنیا تباہ ہو گئی ہے۔

    تم کبھی سوچ سکتی ہو صائمہ کہ آپ بھرے ہوئے پرس سے بھی کوئی ایسی چیز نہیں خرید سکتے جو آپ کو خوش کر دے۔‘‘

    ’’پل پر بخشی کھڑا ہے۔ چلتی ہو دہی بھلے کھانے؟‘‘ نومیہ نے سر اندر ڈال کر اعلان کیا۔

    ’’چلو۔‘‘ اس نے ایک جھپا کے سے چھلانگ ماری۔ نہ سہی بڑی بڑی خوشیاں، چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی بھی کمی تو نہیں۔

    صبح جب کھڑکیوں سے سورج کی پہلی کرن اس کے بستر تک آئی تو وہ خوش باش اٹھ بیٹھی۔ صائمہ، پیسٹ برش اٹھائے تولیا کندھے پر لٹکائے غسل خانے کی طرف جا رہی تھی۔

    ’’کل میں خوامخواہ ہی اتنی قنوطی ہو گئی تھی۔ تم بالکل ملال نہ کرنا صائمہ۔ افوہ بابا! مجھے اپنی کتاب لکھنی ہے۔ کتاب۔ میری زندگی کا سب سے اہم حصہ۔‘‘

    ’’میں نے ہرگز ملال نہیں کیا۔ بےفکر رہو۔‘‘ وہ دھپ سے دروازہ بند کر کے باہر نکل گئی۔

    ’’فی الحال تو نوکری کے بارے میں پتا کرنا ہے۔‘‘ وہ میس کے ہال میں جلدی جلدی انڈا ٹھونستی بولی، ’’اور نوکری مل جائے تو پورے ہاسٹل میں کسی کو ہوا نہ لگے۔ یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ مسز بشیر کو تو ہرگز نہیں۔‘‘

    ری سیپشن پر بیٹھے سکیورٹی آفیسر نے فائل کھولی۔ عینک کے اوپر خالی حصوں سے جھانکا۔ ’’کل آئی تھیں آپ انٹرویو دینے۔ نام طوبیٰ مراد اور ڈی جی صاحب مجھ پر چلا رہے تھے۔ آپ نے اپنے اوریجنل سر ٹیفیکیٹ لینے میرے پاس آنا ہے کہ نہیں۔ ڈی جی صاحب الگ ناراض کہ تمہیں روکنے کو کہا تھا، روکا کیوں نہیں۔ جائیں آپ اندر جی۔ آپ کی نوکریاں سلامت رہیں۔ ہماری بے شک ختم ہو جائیں۔‘‘ اس نے عینک کو پھر پڑھنے کے زاویے پر رکھا اور خشمگیں نگاہوں سے فائل پر غصہ اتارنے لگا۔

    ’’کہاں جاؤں اب میں؟‘‘

    ’’ڈائری سیکشن میں جائیں جی۔ بائی ہینڈ اپنا اپائنٹمنٹ لیٹر لیں۔ آپ کی فائل وہیں ہے۔‘‘

    اس نے گھوم کر عمارت کی طرف دیکھا۔ باہر سے تو یہ کسی طغرل و غرل قسم کے آدمی کا گھر لگتا تھا۔ یہاں بیڈ روم، لونگ روم، ٹی وی لاؤنج تو وہ تلاش کر سکتی تھی، لیکن ڈائری سیکشن؟ وہ اس کی اٹھی انگلی کے تعاقب میں اندازے سے ہی چلی گئی۔ یہ ایک لمبا سا شور بھرا کمرا تھا۔ ڈسپیچ سیکشن کے کوئی کلرک صاحب اس کو اس کمرے میں چھوڑ کر انچارج کمرا کے حوالے کر کے چلے گئے۔ اس کمرے میں عجیب سی باس تھی۔ پرانے اخبار، گتے، فائلیں، کاغذ قسم کی تقریباً ہر چیز یہیں تھی۔

    اس نے خاموشی سے اپنی کرسی سنبھالی۔ میز پر چیزیں رکھیں اور بیٹھ گئی۔

    فائل اٹھا کر اس نے سب سے پہلے آج کے نوٹس اتارے۔

    ’’میری آمد پر ہال میں سناٹا چھا گیا۔ ان کے خیال میں، میں سفارشی ہوں۔‘‘

    اس قسم کی چٹیں یادداشتوں کے طور پر استعمال کی جائیں گی اور تھیسس کا آخری باب لکھنے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔ اس نے پہلے دن کی تاریخ ڈالی اور ایک سرسری سی نظر سے ہال کی طرف دیکھا۔ جیسے کمرے میں اس کی بجائے سانپ داخل ہوا تھا، وہ سب کو سونگھ کر کرسی پر جا بیٹھا تھا۔ سب سے پہلے ہیڈ کلرک صاحب میں جان آئی۔ وہ ایک چھوٹی پیالی لےکر اس کی طرف آئے، جو شیرے والی چائے سے لبالب بھری تھی۔

    اس نے مسکراتے ہوئے دو گھونٹ بھرے۔ یہ چینی اور دودھ کا ملغوبہ بھی ٹریڈ یونین کا ایک حصہ ہے۔ اس نے تیسرا گھونٹ بھرا اور پیالی خالی ہو گئی۔

    ہیڈ کلرک صاحب مسکرائے۔ ’’اس چائے کو پینے کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ پہلے آپ سڑپے بھر کر پرچ خالی کریں اس طرح۔‘‘ انہوں نے اپنی پرچ سے منہ لگاکر ایک سانس میں خالی کر دی، ’’اور اب پیالی کی چائے پئیں۔ دراصل اچھا اورخالص والا چائے کا حصہ تو پرچ میں ہوتا ہے اور نام کیا ہے بیٹی کا؟‘‘

    ’’میرا نام۔‘‘ وہ پرچ پیالی کے پریکٹیکل سے چونکی، ’’میرا نام طوبیٰ مراد۔‘‘

    ’’ماشاء اللہ۔ ماشاء اللہ۔‘‘ وہ اس کی میز کے سامنے والی کرسی گھسیٹتے بولے، ’’پہلے بھی نوکری کی کہیں؟‘‘

    ’’نہیں جی۔‘‘

    ’’اور اب بیٹی نے نوکری کا کیوں سوچا؟‘‘

    ’’حالات۔‘‘ اس نے سکون سے کہا۔ یہ لفظ بہت موزوں تھا اور روزگار دلانے کا سبب بھی یہی بنا تھا۔

    ’’اللہ رحم کرے۔ اللہ۔‘‘ ہیڈ کلرک صاحب دفعتاً مایوس ہو کر کرسی پر چلے گئے۔ کوئی فائدہ نہیں۔ ایک اور ان کے جیسی حالات کی کھائی۔ وہ تو ذرا دیر کو خوش ہوئے تھے۔ ایک تازہ دم، ہنستا مسکراتا چہرہ اس بوسیدہ تھکے ہوئے ماحول میں داخل ہوا تھا۔

    ’’کس گریڈ میں آپ کی تقرری ہوئی ہے؟‘‘

    ’’گریڈ۔‘‘ اس نے تھوک نگلا۔ اس قسم کی باتوں کی تو اسے اے بی سی نہیں آتی۔

    ’’آپ کی جاب فیکٹری آرڈیننس کے تحت ہے یا لیبر رولز کے؟‘‘

    ’’جی؟‘‘ اس نے چاروں طرف بوکھلا بوکھلا کر دیکھا۔

    وہی فائل والے کلرک صاحب شیشے میں سے دور کہیں اپنی نشست سے اٹھتے نظر آئے اور عملہ چوکس ہو گیا۔ وہ کمرے میں پہنچے۔ ایک طائرانہ سی نظر ڈالی۔

    اس کے ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھے اس کے کسی ہمدرد ساتھی نے کلرک صاحب کی آنکھ بچاکر اسے کچھ اشارے سے سمجھایا تھا اور وہ سمجھ گئی، یہ یقیناً کسی کا چمچہ تھا اور اس کو اس سے محتاط رہنا تھا۔ اس نے فائل بغل میں دبائے دبائے میزوں اور آدمیوں کو گن کر آپس کا میزان برابر کیا۔ لوگ کام میں شدت سے محو ہو گئے۔ کیا یہ کلرک اس قدر اہم ہے۔ اس نے پرچی پر نوٹ بنایا اور دراز میں ڈال دیا۔

    ’’شش۔ ڈی جی۔‘‘ وہ نئی نئی آئی تھی، مہمان نوازی نبھانا اس کا حق تھا۔ اس نے اردگرد دیکھا۔ ہولناک خاموشی میں اپنی اپنی فائلوں میں غرق لوگ۔ وہ کس چیز میں غرق ہوتی۔ اس کے پاس کوئی کام بھی نہیں تھا۔

    ’’کلاس سٹینڈ‘‘ جیسے عمل کے ساتھ اس نے دیکھا لوگ اچانک کھڑے ہو گئے۔ آہستہ رفتار سے چھت پر لٹکتا پنکھا کاغذوں کو چھیڑتا ان میں سرسراہٹ پیدا کرتا رہا۔ ورنہ ہال میں سناٹا تھا۔ کیا ہوا؟ کوئی جگا ڈاکو آ گیا ہے؟

    ’’سب ٹھیک ہے۔‘‘ ڈی جی نے ہال میں اچٹتی سی نظر ڈالی۔ یہاں سے وہاں تک۔

    وہ بڑی دلچسپی سے کلرک کی حرکات و سکنات کا جائزہ لینے لگی۔ اچانک اس کی نظر اس نئی والی پر پڑی۔ پھر وہ ایک دم رک گیا۔ اس ہال میں ایک نیا چہرہ بھی تھا اور شاید وہ اس چہرے کو وہاں ڈال کر بھول ہی گیا تھا۔

    ’’جوائن کر لیا آپ نے؟‘‘

    وہ سب کی دیکھا دیکھی بڑی محویت سے کاغذ میں سر چھپانے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ یہ اندازہ بھی نہیں کر سکی کہ ڈی جی کا مخاطب ان سب میں کون ہوگا۔ اس نے کوئی جواب دینے کی بجائے پنسل اور کاغذ کا کوئی بےتکا ساکھیل جاری رکھا اور اندازے کی یہی غلطی اس کا ناقابل معافی جرم بن گئی۔ اسے لگا ڈی جی اس کی میز کے پاس غالباً اسی کے جواب کا منتظر تھا۔ اس نے منہ اٹھایا تو وہ اس سے مایوس ہو کر پلٹ رہا تھا۔

    ’’آپ انچارج ڈائری سیکشن کے ساتھ میرے کمرے میں آئیے۔‘‘ اس نے سنا وہ جاتے جاتے کہہ رہا تھا۔

    ’’آپ نے ان کی بات کا جواب کیوں نہیں دیا؟‘‘

    ’’مجھے کیا پتا، انہوں نے مجھ سے پوچھا ہے۔ انہوں نے میرا نام تو نہیں لیا۔‘‘

    ’’آپ کو الرٹ (Alert) ہونا چاہیے۔ یہ کوئی کلاس روم نہیں، جہاں نام پکارے جائیں۔‘‘

    ’’چلئے، اب۔‘‘ پان کھائے دانتوں والے صاحب نے اپنی نوکری کے چلے جانے کے خوف سے لرزاں کہا۔ پتا نہیں یہاں سب کی سب نوکریاں لطیفہ کیوں ہیں اور عجیب لطیفہ ہیں کہ ہنسی بھی نہیں آتی۔

    ’’ایک تو صبح آپ آئیں دیر سے۔ پھر نہ جوائن کیا نہ رپورٹ لکھی۔ کرسی سنبھال لی۔ میرے پاس آئیں آپ؟ میں کہہ دوں گا ڈی جی سے میرا کوئی قصور نہیں۔‘‘

    وہ اس سے آگے آگے قدم اٹھاتے جو باتیں صاحب کو کہنی تھیں، اسی کو کہتے دوڑتے جا رہے تھے۔ وہ سکون سے اٹھی ،اپنی کرسی پیچھے کی اور ان کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کرنے لگی۔

    وہ ڈی جی کے آفس میں آگے پیچھے داخل ہوئے۔ حالاں کہ اس افراتفری کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ ڈی جی صاحب راؤنڈ سے پلٹے ہی نہیں تھے۔

    ’’بیٹھ جائیں آپ۔‘‘ انہوں نے جھنجلاکر کہا،’’ یہ کل کی لڑکیاں سر میں خاک ڈلوائیں گی۔ یہ جو چھت تک رجسٹر تنے ہوئے ہیں۔ کیا سمجھتی ہیں آپ۔ یہ میرے لکھے ہوئے ہیں۔ آپ لکھ سکتی ہیں؟‘‘

    ’’کیا کروں صوفی صاحب۔‘‘ اس نے لوگوں کی دیکھا دیکھی آہستگی سے ان کا نام پکارا، ’’یہ میری پہلی نوکری ہے اور میں مجبور نہ ہوتی تو کبھی۔‘‘

    صوفی صاحب کی ساری بدمزاجی ہوا ہو گئی۔ وہ یک لخت خاموش ہو کر اپنے ہاتھوں کی پشت پر مکڑی کے جال کی طرح تنی ہوئی جھریوں کو گننے لگے۔

    اچانک طوبیٰ کو احساس ہوا، علاوہ حالات کے دوسرا لفظ مجبوری بھی تیر کی طرح جا کر گڑتا ہے۔ حالاں کہ اس نے ہرگز بھی اس لفظ کو ان معنوں میں استعمال نہیں کیا تھا۔

    ’’آجائےگا۔ آجائےگا۔ آتے آتے ہی آئےگا ناں کام۔ آخر آپ کو ایک دن ہماری جگہ لینی ہے۔ پچیس سال بعدآپ بھی کسی کو فخر سے بتائیں گی کہ یہ سارے رجسٹر آپ نے لکھے ہیں۔‘‘

    ڈی جی اپنے خوشامدیوں کے ساتھ راؤنڈ لیتا اندر آیا تو بہت تیزی میں تھا۔ وہ اپنی سیکریٹری کو ہدایت دینے کے ساتھ ساتھ فضا میں کسی نامعلوم دشمن کے خلاف صف آراء بھی تھا۔

    ’’کون ہے۔ آخر ہے تو ہم میں سے۔ کیا یہاں بھوت آ گئے ہیں۔ نوٹ کر لیجیے میرے دستخط کے بغیر ڈاک کا ایک لفافہ نہیں کھلےگا۔ آپ لوگ تشریف رکھیے۔‘‘ اس نے پہلی نظر اپنے گینگ کی طرف اور دوسری صوفی صاحب کی طرف پھینکی۔

    ’’ہمیں ایک ایمرجینسی میٹنگ کال کرنی ہے۔ یہ میٹنگ لنچ تک چلےگی۔‘‘

    صوفی صاحب کے دماغ میں جیسے کوئی تار برقی جڑا تھا۔ وہ جھپاک سے اٹھے اور باہر نکل گئے۔ وہ آرام دہ کرسی کے پیڈڈ بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے کمرے کی خنکی کا مزہ لے رہی تھی۔

    ’’ہاں جی تو تیار ہیں آپ لوگ؟‘‘ ڈی جی نے اپنی کرسی سنبھال کر میٹنگ میں شامل ممبران کی طرف دیکھا۔

    ’’مسٹر خان آپ کو۔۔۔‘‘ سخت جھنجلا کر اس نے کرسی پر پھیلی آرام کرتی اس لڑکی کی طرف دیکھا۔ باوجود غصے کے فوری طور پر اس کے ذہن میں نئی لڑکی کا نام ہی نہیں آیا۔

    ’’میں نے آپ سے تشریف لے جانے کے لیے درخواست کی تھی۔‘‘

    ’’کب؟‘‘ طوبیٰ کو غصہ آ گیا، ’’بلکہ آپ نے تو مجھے اس کمرے میں آنے کے لیے کہا تھا۔‘‘

    جواباً ڈی جی سے زیادہ ڈی جی کے چمچے نے غصہ دکھایا تھا۔ ’’ابھی آپ کو بتایا نہیں میٹنگ ہو رہی ہے، کونفیڈنشیل۔۔۔ اس میں آپ کا کیا کام؟‘‘

    اس نے ڈی جی کے چمچے کی کر نجی آنکھوں کو براہِ راست دیکھا، ’’مجھے پزل حل کرنے نہیں آتے۔ جو بات کہنی ہے، سیدھی طرح کہا کریں۔‘‘

    اس نے کرسی پیچھے کھسکائی۔ ٹیبل سے اپنا پرس اٹھایا اور کھڑی ہو گئی۔

    ’’سمجھنا سیکھو۔ سمجھنا سیکھو۔ بولتی زیادہ ہو اور نئی نوکری ہے۔‘‘ اس نے فخر سے داد کے لیے ڈی جی کی طرف دیکھا۔ غالباً اس فقرے کی داد کی توقع اسی طرف سے کی جا سکتی تھی۔

    ’’اگر عقل استعمال نہیں کرو گی تو کام کیسے کروگی؟‘‘

    ’’خوشامد سے۔‘‘ طوبیٰ نے چاہا بھی نہیں اور اس کے منہ سے پھسل گیا۔ طغرل ٹھیک کہتا تھا۔ اس نے کبھی منہ کھولنے سے پہلے عقل استعمال نہیں کی اور یہ صرف وہی تھا جو اسے برداشت کیے جا رہا تھا۔

    طوبیٰ کا رنگ اڑ گیا۔

    اس ساری بحث سے بےنیاز ڈی جی اپنی درازیں کھولے جیسے کسی کاغذ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اس نے اپنا جھکا ہوا سر چونک کر اٹھایا۔ حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

    اب گئی نوکری بچہ اور ڈاکٹر غزنوی جو شرمندہ ہوں گے۔ علاوہ ازیں اس کی اپنی شدید ترین خواہش، بہر کیف اپنی جلد بازی کے ہاتھوں بہت کچھ گنوانا پڑتا ہے۔

    کتنا اس کا جی چاہا وہ ایک بے مقصد سا آئی ایم سوری کر دے۔ کتنے گرتے مینار یہ کمزور سا لفظ سہار لیتا ہے لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا۔ ڈرتے ڈرتے باس کی طرف دیکھا۔

    اس نے پہلی مرتبہ اس تنے ہوئے چہرے کو آہستگی سے نرم پڑتے دیکھا۔ اسے شبہ ہوا، وہ لمحہ بھر کو مسکرایا بھی تھا لیکن پھر خشمگی اور سنجیدگی اس کی مکمل مسکراہٹ کے درمیان حائل ہو گئی۔

    ’’آپ اپنی سیٹ پر بیٹھیں۔ لنچ بریک ڈیڑھ بجے ختم ہوگا۔ میں ڈیڑھ بجے آپ کو دوبارہ بلواؤں گا۔‘‘ وہ لفظ لفظ کی مکمل وضاحت کرتا پھر سر کی طرف متوجہ ہوا۔

    ’’ڈیڑھ بجے اچھا۔‘‘ حالاں کہ وہ بالکل ہی کند ذہن ہوتی تو بھی اس واضح فقرے کو تو سمجھ لیتی۔ لیکن چمچہ اپنا فرض بجا لانا نہیں بھولا۔

    وہ اپنے کمرے میں واپس آئی تو کام پر بہار آ گئی تھی۔ سب سنجیدہ تھے۔ رجسٹر ڈی جی کے آفس میں دوڑتے پہنچائے جا رہے تھے اور دوڑتے واپس۔

    معلوم نہیں صوفی صاحب نے کس مہارت سے فقرے کے بریکٹ ڈی کوڈ کیے اور پلک جھپکتے میں باہر۔ اصل داد تو ان کو ملنی چاہیے۔ واقعی عمر کا تجربہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

    ’’گنجا خوشامدی ہے بلکہ بورڈ کے سب ہی لوگ۔‘‘ اس نے فل سکیپ پیپر کے اوپر سے باریک سی چھال اتاری، تحریر گھسیٹی اور دراز میں گھسیڑ دی۔

    ’’یونین بکی ہوئی ہے جی۔ یونین کے لوگ کون ہیں۔ کمپنی کے اپنے کرتا دھرتا۔ ادھر ووٹ لیے، ادھر مکان بن گیا۔ گاڑی آ گئی۔ اطوار ہی بدل جاتے ہیں۔ رنگ ڈھنگ بدل جاتے ہیں۔ ہم تو کسی کا نام نہیں لیتے۔ آپ خود دیکھ لیں ،سمجھ دار ہیں۔‘‘

    ’’ٹیکس کے ادا کرنے کا وقت آئے تو یونین ہڑتال کر دیتی ہے۔ مطالبات کی منظوری کے لیے۔ یونین اور اونرز (مالکین) کے مذاکرات شروع۔ کمپنی گھاٹا ظاہر کرتی رہتی ہے۔ ادھر ہمیں کہتے ہیں کہ الاؤنس بڑھوا رہے ہیں۔ رینٹ بڑھ جائےگا۔ کمپنی نقصان میں جائے تو کمپنی کو ٹیکس سے چھوٹ مل جاتی ہے۔ ہمارا تھوڑا سا الاؤنس بڑھ جاتا ہے۔ کمپنی بھی خوش۔ ہم بھی خوش۔‘‘

    اگر اس کمرے میں ہفتہ بھر یونین اور ورکروں کا جھگڑا ہوتا ہے تو لمبی چوڑی ریسرچ کی ضرورت نہیں پڑےگی، سارا کچا چٹھا نکل کر سامنے آ جائےگا۔

    ’’ورکرز کے مفاد کے لیے۔۔۔‘‘ بحث جاری تھی اور پوائنٹس کاڈھیر لگ گیا تھا۔

    لنچ ٹائم پون سے ڈیڑھ تک رہا اور لوگوں نے کام ایسے چھوڑا جیسے وہ بہت ہی مصروف تھے۔ سڑک کے پار ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا، جہاں لوگ کھانا خریدتے بھی تھے اور ساتھ لایا گرم بھی کرواتے۔ لوگ اپنے ٹفن اٹھا کر کوہ ندا کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ایسی کوئی علت نہیں تھی ایک تو کام اچانک شروع ہو گیا اور نہ بھی ہوتا تو اس کو ٹفن بناکر دینے والا کون تھا۔

    ’’کیا آپ پہلے بھی یہاں ہوتی تھیں؟ میں نے آپ کو نہیں دیکھا۔‘‘ کسی لڑکی نے بڑے اشتیاق سے پوچھا تھا۔

    ایک ہی جگہ کام کرنے کا آرام یہ رہتا ہے کہ آپ کو رسمی تعارف کی ضرورت نہیں رہتی اور آپ باہمی دلچسپیوں اور عدم دلچسپیوں کے باجود ایک دوسرے کے نزدیک آ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں۔ خواہ قدیم کلیے کے مطابق، آپ ندی کے دوکنارے ہی کیوں نہ ہوں۔

    ’’میں نے آج ہی، بلکہ ابھی جوائن بھی نہیں کیا۔‘‘

    ’’اچھا۔ کون سے سیکشن میں؟‘‘

    ’’ڈس پیچ۔‘‘

    ’’عو۔‘‘ اس نے ناگواری کے اظہار کے لیے لپ اسٹک سے سجے ہونٹ سکیڑے۔’’ وہاں تو زیادہ تر آدمی ہیں۔‘‘ پھر اس کے کان پر جھکی،’’ بلکہ بابے ہیں۔‘‘

    ’’تم ڈیپارٹمنٹ سے کہو۔ تمہیں ادھر ٹرانسفر کر دے ہماری طرف۔‘‘

    ’’تمہاری ایجوکیشن کیا ہے؟‘‘

    ’’ایم۔۔۔‘‘ اس نے اچانک خود کو چیک کیا، ’’میٹرک۔‘‘

    ’’عو۔‘‘ پھر مایوسی مخاطب کا مقدر بنی، ’’پھر ٹرانسفر نہیں ہو سکتا۔ اگر تم ایف اے ہوتیں۔ انڈر ایف اے تو صرف ڈائری سیکشن کی طرف ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’واقعی!‘‘ طوبیٰ کو بھی دلی ملال ہوا۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے کرتے بال برابر رہ گئی تھی اور اب اس کی ہمراہیوں کے بقول کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔

    کیفے ٹیریا کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لڑکیوں کی میز پر جس قسم کے مذاق ہو رہے تھے، وہ سینسر کیے بغیر چٹوں پر لکھے بھی نہیں جا سکتے تھے۔ وہ سب اس کی طرف تنقید اور دلچسپی سے دیکھ رہی تھیں۔ اسے معلومات فراہم کر رہی تھیں۔ نوکری کے گُر سکھا رہی تھیں۔ صرف پون گھنٹے میں ہی طوبیٰ کو پتا چل گیا کہ کون لڑکی کس افسر پر مر رہی ہے، کون دل ہی دل میں مرتی ہے اور کس خوش قسمت کو اظہار کے مواقع نصیب ہو چکے ہیں۔ کوئی سیلز والے پر مر رہی ہے کسی کو اکاؤنٹس والے میں دلچسپی ہے اور وہ جو کمپیوٹر سیکشن میں داڑھی والا لڑکا ہے۔

    ہاں البتہ ایک شخص ایسا تھا جس پر سب اجتماعی طور پر مر رہی تھی۔ باوجود اپنے اپنے انفرادی عشق کے۔ وہ تھا کمپنی کا ڈی جی۔ عادل نواز۔مگر انہیں اس کا نصیب پسند تھا، طبیعت نہیں۔

    اس کے ذکر پر ان سب کے چہرے بدل جاتے۔ وہ ساتھ والی کو کہنی مارتیں اور ہنستی رہتیں۔

    ’’جتنا بھی بدمزاج ہے ڈی جی۔ عارفہ کو ہنس ہنس کر دیکھتا ہے۔‘‘

    ’’اور کیوں تجھے جو اس دن کہہ رہا تھا۔ آپ کا کوئی مسئلہ تو نہیں؟‘‘ اس نے پنجابی بولتے بولتے بڑے ٹھہرے لہجے میں اردو بول کر نقل اتاری۔

    وہ سب بہت معصوم تھیں اور بےضرر سی۔ ان کو صرف وقت کاٹنا تھا۔ یہ محبت کرنا اور مرنا تو انہوں نے ٹھس سی بورسی روٹین میں اپنے ہنسنے کے سامان پیدا کرنے کو کیا تھا۔

    ’’کوئی پریشانی ہو۔ کوئی کام ہو۔ ہمیں بتانا۔‘‘ ان سب نے فرداً فرداً کہا تھا۔

    ’’بہت شکریہ۔‘‘ اس نے خلوص سے کہا تھا۔

    بریک ختم ہو گئی تھی۔ قاعدے کے مطابق اسے پھر ڈی جی کی خدمت میں پیش ہونا تھا۔ لیکن بہتر یہ تھا کہ صوفی صاحب کے ساتھ ساتھ رہا جائے۔ وہ عقل مند آدمی ہیں، معاملے کی نزاکت کو سنبھال لیتے ہیں۔

    وہ ان کے قدموں کے پیچھے قدم رکھتی آفس میں داخل ہوئی تو اس نے شکر کیا، چمچوں کا گروپ جا چکا تھا۔ ڈی جی نے اپنی ریوالونگ کرسی کا رخ میز سے پلٹ کر اس دیوار کی طرف کر لیا تھا جہاں ایک ان ڈور گملے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ اس کے موٹے نوکیلے پتوں پر نظر جمائے غالباً اس سے مخاطب ہونے کو اب بھی آمادہ نہیں تھا۔ صوفی صاحب بیٹھے نہیں تھے۔ وہ بھی کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے بیٹھتے رک گئی۔

    اس نے دروازے سے ان کے اندر داخل ہونے اور اجازت چاہنے کی آواز پر اثبات میں سر ہلایا تھا۔ یہ عجیب جگہ ہے یہاں زیادہ تر احکامات بریکٹس میں دئیے جاتے ہیں۔ اس پر افسرانہ خوبو اپنی جگہ کہ میرے پاس تو وقت نہیں ہے اور دنیا جیسے فارغ پھر رہی ہے۔ (پتا نہیں کبھی کبھی بدمزاجی کا حملہ سا کیوں ہو جاتا ہے۔ صائمہ سے پوچھنا پڑےگا)۔

    وہ کانٹےدار کیکٹس پر نظریں جمائے وقفے وقفے سے پلکیں بھی جھپک رہا تھا۔ غالباً کوئی ایسا مسئلہ جس کے حتمی نتیجے پر اب وہ پہنچنے ہی والا ہے۔ اس کی پیشانی پر ایک موٹی سی رگ پھڑپھڑا رہی تھی۔

    ’’باس خوش رہنے کا عادی نہیں۔ آج صائمہ کو یہ بھی بتانا ہے۔‘‘

    اس نے بغیر گردن گھمائے محسو س کیا، وہ کھڑے ہیں۔ کیوں کہ اس نے اسی رخ پورا ہاتھ پھیلا کر میز کے سامنے ترتیب سے رکھی کرسیوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اسے تو یوں بھی صاحب کے آگے کھڑے ہونے سے کوفت سی ہو رہی تھی۔ اب تو باس نے جتا ہی دیا تھا کہ اندھے تو نہیں ہو، بیٹھ جاؤ۔ اس نے بیٹھنے سے پہلے صوفی صاحب کے اشاروں کا انتظار نہیں کیا اور چوں کہ اس کی ساری توجہ دیوار کی طرف تھی۔ اس لیے طوبیٰ کو فرصت سے اس کا تفصیلی جائزہ لینے کا موقع مل گیا۔ سرمایہ دار بحیثیت سرمایہ دار کس قدر مختلف ہوتا ہے۔ اس وقت جب وہ کسی اپنے سے مخاطب ہو اور اس وقت جب اس کے سامنے اس کا ایک ادنیٰ سا ملازم بیٹھا ہو۔ یا اس وقت بھی وہ کسی گھاٹے کے سودے میں مبتلا ہے کیوں کہ اس کی آنکھوں میں ذہانت کی سی تیز چمک جو ا س نے کل سے آج تک دو تین مرتبہ دیکھی، وہ اب ماند تھی اور اس کے بال بھی بکھر کر۔۔۔

    اس نے اچانک ہی کرسی گھما کر رخ ان دونوں کی طرف پھیرا۔ پتوں سے نگاہ ہٹی تھی تو اس سے جا ٹکرائی۔ وہ گڑبڑا گئی۔ ماہرنفسیات بننے کا یہ نقصان تو ہوتا ہے، آدمی پکڑا جاتا ہے۔

    اور جتنی دیر اس نے اس کا نفسیاتی تجزیہ کیا تھا کم از کم اتنی دیر تو وہ بھی لگائےگا۔ (مجھے تو کتاب لکھنی ہے بھائی!)

    ’’ڈائری کے کام کے بارے میں جانتی ہیں آپ؟‘‘

    مری کے اداس دنوں میں اس کو ڈائری لکھنے کا خبط سا تھا۔ ان دنوں سکول میں سب ہی لکھا کرتے تھے۔ کہیں اداس کر دینے والے شعر۔ ہارڈی کے آخری باب کی سطریں۔چپکائے ہوئے سوکھے پھول اور پتّے۔ قبروں کے ہینڈ سکیچ۔

    لیکن اس ڈائری سے ڈی جی کو کیا سروکار ہو سکتا ہے!

    ’’میں سکھا دوں گا جی۔‘‘ صوفی صاحب نے اپنے ہونے کا ثبوت پیش کیا۔

    ’’بالکل ٹھیک ہے صوفی صاحب۔ وہ کیا کہتے ہیں شاگرد سے استاد پہچانا جاتا ہے۔ آپ نے کیا بتایا تھا، کیا تعلیم ہے آپ کی؟‘‘

    ’’میں نے بی اے کیا تھا جی۔ ورنیکلر۔‘‘ صوفی صاحب رواں ہو گئے۔

    ’’عو۔‘‘ عادل نواز نے رک کر کہا، ’’میں نے خاتون سے پوچھا تھا۔‘‘

    ’’میٹرک۔‘‘ اس نے روانی سے کہا۔

    ’’گھر دور تو نہیں؟‘‘ّ (گھر بہت دور ہے۔ کہیں حد نظر میں بھی نہیں)۔

    ’’جی نہیں۔ زیادہ دور تو نہیں۔‘‘

    ’’آپ کو معلوم ہے آپ کے کام میں رازداری کی کتنی اہمیت ہے۔ یہ سارا معاملہ ٹینڈر اور کوٹیشن کا ہوتا ہے۔ تھوڑی سی بات باہر جانے کا مطلب کروڑوں کا نقصان۔‘‘

    ’’کمپنی کا ہر معاملہ رازداری کا معاملہ ہوتا ہے۔‘‘ صوفی صاحب نے صاد کیا۔

    ’’مجھے بےکار میں باتیں کرنے کی عادت نہیں۔‘‘ اس نے دھیمے سے کہا۔

    ’’گڈ۔‘‘ عادل نواز نے کہا تھا،’’ مجھے ایسا لگتا ہے آپ پر اعتمادکیا جا سکتا ہے۔ جب میں نے بہت سے لوگوں میں سے آپ کا انتخاب کیا ،اس وقت بھی مجھے اندازہ تھا کہ میں غلط نہیں۔ اس تقرری کے سلسلے میں۔ اسی لیے میں نے اپنے سوا کسی پر بھروسا کرنے کا رسک نہیں لیا۔

    میرے اعتبار کو ٹھیس پہنچانے والا بہت نقصان اٹھاتا ہے۔ میں معاف کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘

    طوبیٰ لمحے بھر کر لرز سی گئی۔ وہ بہت دھیان سے اس کی بات سن رہی تھی۔ سردی کی ایک لہر جیسے اس کی ریڑھ کی ہڈی سے گزری۔ وہ کپکپا گئی۔ اسے لگا وہ یہ ساری باتیں اسے سنانے کو کہہ رہا تھا۔ اس نے آہستگی سے پلکیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ پتھر کے قلم دان پر نظریں جمائے جیسے دشمن کو حقیر کیڑے مکوڑے کی طرح مسلتا دیکھ رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں انتقام کی خواہش مچل رہی تھی۔

    لیکن بالکل بے بس اور بے ضرر سی خواہش۔

    جیسے خرگوش نے تہیہ کر لیا ہو کہ آج وہ بھیڑیے سے بدلہ لے کر دم لےگا۔

    خوف زدہ بچے کی طرح بےریا اور مخلص۔ اپنے خطرناک عزائم سب کو آگاہ کرتا۔

    (’’کمپنی کا افسر اعلیٰ بالکل بے بس اور بےاختیار ہے۔‘‘) اگلی چِٹ اس کو اس حوالے سے تیار کرنی تھی۔

    ’’آئی ایم سوری۔‘‘ اس نے سگریٹ کی راکھ کی طرح ایک جھٹکے سے ماحول کا سارا تناؤ جھاڑ دیا۔

    ’’آپ کو بلانے سے میرا مطلب تھا۔ آپ کا کوئی مسئلہ ہو، کوئی ضرورت ہو، مجھ سے کہیں۔ ایک دوسرے کو سمجھ لیا جائے تو کام سہولت سے ہو جاتا ہے۔ انگریزی اچھی ہے آپ کی؟‘‘

    ’’میرا خیال ہے، ٹھیک ہی ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہونا بھی بڑی بات ہے۔ ہمارے ہاں کتنی میٹرک پاس لڑکیاں ہیں، جو ٹھیک ہونے کا دعویٰ ہی کر لیں۔‘‘

    ’’مجھے کتابیں پڑھنے کی عادت ہے۔‘‘ (حالات۔ مجبوری اور اب کتابیں۔ یہاں قدم قدم پر سہارے موجود ہیں)۔

    ’’آپ نے بتایا تھا کل۔ گو میں سمجھتا ہوں۔ یہ کوئی اچھی عادت نہیں۔‘‘

    ’’وہ کیوں؟‘‘ اسے جھنجلاہٹ سی ہوئی۔ ایک اور طغرل کی ممی۔

    ’’اس میں کیا برائی ہے؟‘‘

    دلیری سے اس کو جھٹلا کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے کی جرأت نے صوفی صاحب کو بھی لرزا دیا۔ انہوں نے اس کو چونکا نے کے لیے جوتے کی ٹوکو کرسی کی ٹانگ سے ٹکرایا۔

    عادل نواز نے ان کو کرسی پر ٹھڈا مارتے محسوس کیا اور پھر بھی اس لڑکی کو نہایت سکون سے کرسی سے ٹیک لگائے وضاحت کا منتظر پایا۔

    ’’اس لیے۔‘‘ اس نے قطعی برا مانے بغیر کہا، ’’کیوں کہ یہ کوئی نارمل حرکت نہیں۔ کیوں کہ جب چند لوگ وہ کام کرتے ہوں جو باقی اکثریت میں لوگ نہ کرتے ہوں تو وہ بہت دکھ اٹھاتے ہیں۔ کتابیں، انسان کو پہلے دیکھنے، پھر سوچنے ،پھر پرکھنے کی عادت ڈال دیتی ہیں۔ اس کے بعد انسان نازک بن جاتا ہے۔ ابھی دل دُکھ گیا۔ ابھی دل ٹوٹ گیا۔ عام آدمی کے ساتھ اتنی آسانی سے یہ سب نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’اور کیا یہ بری عادتیں ہیں؟‘‘ اس نے بغیر جھجکے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔

    ’’پتا نہیں۔ لیکن مختلف تو ہیں۔‘‘

    ’’آپ کا مطلب ہے، لوگوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں سے برتر بھی ہو جاتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے اونچی چوٹی پر کھڑے ہونے کا واحد نقصان کیا ہوتا ہے؟ کہ وہاں آپ بالکل اکیلے کھڑے ہوتے ہیں۔

    میرا نہیں خیال کسی ابنارمل سی عادت پر ہم خود کو ہیرو بنا ڈالیں۔‘‘

    صوفی صاحب نے تیسری مرتبہ لرز کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ اب اپنے اعمال کی یہ خود ذمے دار ہے۔ پھر انہوں نے ڈی جی کی طرف ڈرتے ڈرتے نگاہ اٹھائی۔

    لیکن اس کے چہرے پر وہی سکون بھرا اطمینان تھا۔ نہ وہ چیخا، نہ چلایا دھاڑا۔۔۔. اس نے آنکھوں میں پھیلتی مسکراہٹ کو کچھ دیر روکنے کی جدوجہد کی۔ پھر وہ کھل کر ہنسنے لگا۔

    ’’کیا حرج ہے؟ اگر اتنی سی بات کو بنیاد بنا کر خود کو ذرا سا بدتر کر لیا جائے۔ لوگوں کے پاس دیکھیے برتری کے کیا کیا معیار ہیں۔ اس میں ایک میری یا آپ کی ذات کی حقیر سی برتری کسی کا کیا نقصان کر سکتی ہے بی۔ بی۔ کیا نام بتایا تھا آپ نے؟‘‘

    ’’طوبیٰ۔ طوبیٰ مراد۔‘‘

    ’’تو بی بی طوبیٰ۔ فی الوقت آپ چارج لیجئے۔ حلف نامے پر دستخط کیجئے۔ پھر کسی اچھے موقع پر آپ سے بات چیت بھی ہوگی۔‘‘

    صوفی صاحب ایک جھٹکے سے اٹھے۔

    طوبیٰ کو احساس ہو اجیسے اس نے جان بوجھ کر گفتگو بند کر دی تھی۔ جیسے وہ ہر اس چیز سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہو، جو اسے اپنی طرف کھینچتی ہو۔ خواہ وہ اچھی بات چیت ہی کیوں نہ ہو۔ کیا یہ آدمی درویش ہے کہ فقیر؟

    صوفی صاحب نے بلاوجہ جوتے کی ٹو کھٹکھٹائی۔ اسے پتا ہی تھا، اٹھنا ہے اور جانا ہے۔

    ’’آپ بحث بہت زیادہ کرتی ہیں اور ہر بات کو جھٹلاتی ہیں۔‘‘ صوفی صاحب برآمدے میں اس کی غلطیاں گنوا رہے تھے، ’’ڈی جی کو سرنہیں کہتیں، ایسے ہی بات کر دیتی ہیں۔ بلکہ بات کیا کرتی ہیں، لٹھ مارتی ہیں۔ لگتا ہے آپ کو نوکری سے کوئی دلچسپی نہیں اور اس ماہ کی تنخواہ بھی نہیں چاہیے آپ کو؟‘‘

    یہ تھی اصلی اور خوف ناک غلطی۔ اس نے اپنی اصلاح کی۔ چوریاں اس طرح پکڑی جاتی ہیں اور یہ بھی غنیمت تھا کہ دل کے ساتھ ساتھ پاسبان عقل بھی تھا۔ آئندہ بہت محتاط ہونا پڑےگا۔ اس نے فائل میں لگے تہ در تہ کاغذات پر اپنے نام کے حروف گھسیٹتے سوچا۔

    طغرل، مانچسٹر سے پلٹا تو اسے پہلی مرتبہ اتنی شدت سے احساس ہوا کہ وہ طوبیٰ کو کس قدر یاد کرتا رہا تھا۔ لیکن جب وہ اس کے ساتھ بوفے کرنے وقت نکال کر اور ممی سے اجازت لے کر پہنچا تو بیشتر وقت اسے صائمہ سے گفتگو کرنی پڑی یا چپ ہوکر وہ میوزک بجانے والوں کو دیکھنے لگتا۔ طوبیٰ نے اس کی دی ہوئی انگوٹھی بےپروائی سے انگلی میں ڈال لی تھی۔ صائمہ کو اس کی بدتمیزی کا احساس ہو رہا تھا لیکن طوبیٰ بےوقوف کو سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہ خفت مٹانے کے لیے ایک کے بعد دوسرا موضوع شروع کرتی۔ لیکن طوبیٰ انگلی کے نگ سے نکلنے والی روشنیوں سے بےنیاز سوچتی رہی۔ کیا عادل نواز کسی موقع پر بات چیت کے لیے اسے واقعی بلائیں گے یا اس بات کو رسمِ جہاں کی طرح ادا کیا گیا تھا؟

    طغرل، لندن کی بابت بتا رہا تھا۔ وہ اس کے لیے وافر وقت نکال کر اس کے پاپا سے ملنے گیا تھا جہاں اس کی نئی انگلش ممی بڑے تپاک سے ملیں۔ وہ لوگ کسی ڈنر پر جانے والے تھے لیکن اس قدر مہذب کہ انہوں نے خاص طور پر طغرل کے لیے دس منٹ نکالے کیوں کہ وہ بہرکیف ان کا داماد ہونے جا رہا تھا۔

    (بڑی مہربانی جی، اس سے زیادہ اور سوچے بھی کیا!)

    ممی نے اس کے لیے پرس بھیجا تھا اور پاپا نے علاوہ بےشمار پیسوں کے کچھ نصیحتیں بھیجی تھیں۔

    سسرال والوں کا خیال رکھنا، آنٹی کا دل نہ دکھانا، طغرل سے محبت کرنا۔

    ہر وہ بات جو اس کے فرائض میں شامل ہے اور بھری دنیا میں کسی کے لیے یہ نصیحت نہ تھی کہ کچھ جواباً اس کے حقوق بھی ہوں گے۔

    وہ جھنجلا سی گئی۔ طغرل بطور خاص پاپا کی نصیحتیں چبا چباکر دہرا رہا تھا۔ گویا وہ اس کے پاپا سے سوفیصد متفق تھا۔ کتنی دفعہ صائمہ نے نیا موضوع چھیڑا، لیکن طغرل بل دینے تک پاپا سے متاثر ہوتا رہا۔

    ’’دراصل پاپا کی ساری باتیں جو بریکٹ میں تھیں، وہ میں نے سمجھ لی ہیں۔‘‘ اس نے چادر میں منہ گھسا کر دیوار کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا، ’’ان کا مطلب ہے، اب تمہاری منگنی کر دی ہے، اپنی نادانی سے اس کو تباہ کر کے دوبارہ میری زندگی میں دخل دینے مت آ جانا، یہ لو سنبھالو پیسے اور عمر بھر ان سے عیش کیا کرو۔‘‘

    صائمہ لیمپ کے کور سے گرد جھاڑتی ٹھٹک کر رہ گئی۔ یہ والے بریکٹس تو خود صائمہ کو نظر آ گئے تھے۔ طوبیٰ تو پھر ان کی اپنی بیٹی رہی تھی، اس نے پریشانی سے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔

    ’’اب یہ تو پھر ہونا ہوتا ہے طوبیٰ۔‘‘ اس نے سنگ دلی سے کہا، ’’ہر شخص کو اپنی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔‘‘

    پھر اسے ہر روز آفس میں کتنی نئی چیزوں کے تجربے ہوئے۔ علاوہ پاپا کی بے حسی کے، دکھوں کی اور بہت قسمیں ہیں۔ فرزانہ وحید نے اس ماہ پیسے جوڑکر بخشی مارکیٹ سے نئی چپل خریدی تھی۔ یہ چپل خریدنے کی خواہش اس نے کئی ماہ دبا کر پوری کی تھی۔

    رضوانہ آپا کی سب سے چھوٹی اور پانچویں نمبر کی بہن اس سال تیس برس کی ہو گئی تھی اور ابھی ان کے باپ کو پانچوں کے لیے رشتے تلاش کرنے تھے۔

    عفت کے گھر مہمان آئے ہوئے تھے۔ پورے تین دن وہ ان کے گھر ٹھہرے تھے۔ لہٰذا آج کل وہ دوپہر کا کھانا وہ لہسن اور ہری مرچ کی چٹنی رگڑ کر کھاتے ہیں۔

    بشریٰ کی ساس ہمیشہ ان لوگوں سے ملنے دوپہر کے کھانے پر آ جاتی ہیں اور بشریٰ کے میاں نے اسے سمجھایا تھا، تم بھی کہہ دیا کرو، آپ اس وقت آئی ہیں، میں تو میکے جانے والی تھی۔

    صوفی صاحب کی بیٹی کی منگنی پچھلے تین سال سے اٹکی ہوئی تھی۔ سسرال والے اس کوشش میں تھے کہ جہیز لانے والی کوئی لڑکی مل گئی تو منگنی توڑ دیں گے، ورنہ بہ حالت مجبوری یہاں ہی سہی۔

    ان سب لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔ وہ کوئی ایسی بات کیوں نہیں کہتی۔ وہ ان سے اپنے دکھ سکھ چھپاتی کیوں ہے؟

    ’’دراصل اس کی سیٹ ہی غلط ہے۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا، ’’تم ڈی جی سے کہو، وہ تمہیں ہمارے کمرے میں بیٹھنے کی اجازت دے دیں، کام جہاں مرضی کرو۔‘‘

    اور جب وہ ان سب کے مسائل بڑے جوش و خروش سے ڈاکٹر غزنوی کو سنا رہی تھی تو مسز غزنوی جزبز ہونے لگیں،’’دیکھا، میں نے کہا تھا۔ منع کیا تھا۔‘‘

    ’’بیٹا!‘‘ ڈاکٹر غزنوی نے بڑی دیر کی خاموشی کے بعد کہا تھا، ’’مسائل میں الجھ جانا اور مسائل کی نشاندہی کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔‘‘

    طغرل کتنی ملاقاتوں سے یہ اندازے لگا رہا تھا کہ ہاسٹل جاؤ تو وہ کیمپس گئی ہوتی ہے۔ کیمپس میں پتا کرو تو لائبریری میں ہے، شام میں جاؤ تو وہ تھکی ماندہ دھول سے اٹے پیروں کے ساتھ ایسے داخل ہوتی ہے، جیسے وہ میلوں پیدل چلتی رہی ہے۔ بات کرتے ہوئے اس کا دماغ بھی غیرحاضر سا ہوتا ہے اور اس کی ہمزاد اس کا ذکر کرتے ہی تواتر سے موضوع بدلنا شروع کر دیتی ہے۔

    اور خود اس کو کتنی مدّت بعد اس کا ادراک ہوا تھا کہ اب تک وہ کس قدر سطحی سی، غیرمعیاری زندگی گزارتی رہی ہے۔ اس کے نہ غموں میں شدت تھی نہ خوشیوں میں، سب کچھ اوپری اوپری سا۔ اس سے تو بہتر ہے، وہ ڈی جی سے اجازت لے کر عورتوں والے کمرے میں بیٹھ جایا کرے۔

    ’’اندر ہیں عادل نواز؟‘‘ اس نے ڈی جی کے کمرے کے باہر بیٹھی خاتون کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے پوچھا۔ یہ بعد میں یاد آیاکہ نہ سر کہا، نہ ڈی جی، نہ صاحب، افسوس کہ نصیحتیں زیادہ دیر تک یاد نہیں رہتیں۔

    پی اے نے اس کے طنطنے پر سر اٹھا کر حیرت سے دیکھا۔

    ’’کیا انہوں نے اس وقت آپ کو بلوایا ہے؟‘‘

    ’’نہیں بلوایا تو نہیں لیکن مجھے ذاتی کام ہے۔‘‘

    ’’آپ کی اس وقت کی اپائنٹمنٹ ہے، ان کے ساتھ؟‘‘

    ’’نہیں، اپائنٹمنٹ بھی نہیں، لیکن مجھے۔۔۔‘‘

    وہ چیں بہ چیں ہو گئی۔ درجہ ہشتم کی ملازمہ کی گفتگو کا انداز ایسا ہے جیسے محترمہ، ڈی جی کی باس ہیں۔ خدا معلوم ان کو حسبِ مراتب سکھائے کیوں نہیں جاتے۔

    ’’کیا آپ یہ کمپنی خریدنا چاہتی ہیں؟‘‘ اس نے طنز بھرے لہجے میں اپنے کام میں مصروف ہوتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’خرید بھی سکتی ہوں، لیکن سردست مجھے ان سے کام ہے۔‘‘ اس نے رسان سے کہا، ’’آپ اندر بھیجنے کا کچھ بندوبست کرتی ہیں یا خود چلی جاؤں؟‘‘

    اس نے جھنجلا کر ریسیور کانوں پر رکھا اور دونوں ہاتھوں کی شدت سے رنگ برنگے بٹنوں پر جھنجلاہٹ اتارنے لگی۔

    ’’مذاق نہیں ہوتا یہ سب، ڈی جی سے ملنے کے لیے سٹاف انچارج سے پوچھنا چاہیے، وہ آپ کا مسئلہ لے کر ادھر آئےگا یا آپ کو مجھ سے ٹائم لے کر دےگا۔ اسے کہتے ہیں کہ Through Proper Channel۔ انگریزی سمجھتی ہو؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ اس نے طبیعت کے اسی رسان کو ہاتھ سے نہ چھوڑتے کہا، ’’میں ماسٹرز کر رہی ہوں۔ بزنس ایڈمنسٹریشن میں۔‘‘

    ’’ہونہہ! شیخ چلی۔‘‘ اس نے ریسیور میں بڑبڑا کر اس کی طرف دیکھا، ’’ جائیں اندر، وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔ ایم اے صاحبہ!‘‘

    اندر کا دروازہ کھولنے سے ایک لمحہ پہلے اس کو سکون کا گہرا احساس ہوا۔ مذاق مذاق میں ہی سہی، اس نے اپنے بارے میں کم از کم دو عدد سچ تو آج بول ہی دئیے۔ روح کا بوجھ بھی کچھ ہلکا ہوا۔

    اس کے بالکل سامنے عادل نواز کی کرسی تھی۔ میز پر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں الجھائے وہ غالباً کسی چیز کے انتظار میں بیٹھا تھا۔

    ’’کیا اندر بہت ضروری کام ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے روادارانہ خوش خلقی سے پوچھا تھا۔

    ’’یہ فقرہ یقیناً میری پی اے نے کہا ہوگا۔‘‘ و ہ ہنس دیا، ’’مجھے ان کے خلوص پر کبھی شک نہیں ہوا۔‘‘

    ’’نہیں خیر، بالکل یہی تو نہیں کہا، یہ تو میں نے مفہوم اخذ کیا تھا۔‘‘

    ’’تشریف رکھیے اور برائے کرم میری یہ الجھن حل کر دیجئے کہ آپ وہ لگتی کیوں نہیں، جو آپ ہیں؟‘‘

    وہ کرسی پر بیٹھتی بیٹھتی دم بخود سی ہو گئی۔ ابھی کمرے کے باہر جو اس نے تڑ تڑ بکواس کی تھی، اگر اس کا کچھ حصہ بھی کھلے ریسور سے یہاں تک پہنچا ہو تو؟

    ’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے تھوک نگلا، ’’مجھے کس طرح لگنا چاہیے؟‘‘

    ’’یہ تو مجھے پتا نہیں، لیکن آپ سے مل کر ایک خوشگوار سی مسرت کا احساس ہوتا ہے، جیسے کڑی دھوپ میں اچانک بہت سے بادل آ جائیں۔‘‘

    اچھا! اس نے افسوس سے سوچا، تو باس صاحب اب روایتی انداز میں اپنے ماتحتوں سے فلرٹ فرما رہے ہیں۔

    اور اب کیا کرنا چاہیے۔ افسانوں کے سے انداز میں پرس اٹھاکر اس کے منہ پر مارنا چاہیے۔ یا کوئی روایتی سا بھاری بھرکم فقرہ۔ ’’آپ نے مجھے سمجھا ہی نہیں، مجھے جانا ہی نہیں۔ میں یہ تحقیر برداشت نہ کر پاؤں گی۔‘‘ اتنا لمبا فقرہ، جو یوں غصے کی حالت میں ادا بھی نہ ہو سکے۔

    ’’اچھا ٹھہرئیے۔‘‘ اس نے اسی سکون سے اپنے سامنے کے کاغذات سمیٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے کہا، ’’مجھے اندازے لگانے دیجئے، اگر میرا اندازہ درست ہو تو آپ ہاں کہیں گی، غلط ہوگا تو صرف نہیں۔ ہر صحیح جواب کے دو نمبر ہوں گے۔‘‘

    وہ ساری رنجشیں، سارے منصوبے بھلاکر کھیل میں شریک ہو گئی۔

    ’’آپ کے بہت سارے بہن بھائی ہیں؟‘‘ وہ جوش سے اس کے نمبر کاٹتی جھجک گئی۔

    ’’درست۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا تھا۔

    ’’سب سے بڑی آپ ہیں۔ آپ کا تعلق بہت غریب گھر سے نہیں ہے، تقریباً درمیانے۔ آپ کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں کا حصہ نہیں، ان میں سے ایک آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔ غالباً آپ کے والد۔ آپ کو علم حاصل کرنے کا بےحد شوق تھا، لیکن اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تربیت کی خاطر آپ نے پڑھائی ادھوری چھوڑ دی ہے، لیکن آپ خالی وقت میں اگلے درجے کے امتحان کی تیاری کرتی رہتی ہیں۔‘‘

    ’’یہ کتنی عجیب بات ہے۔‘‘ اس نے دکھ سے دل میں سوچا، ’’کس قدر ترتیب سے ایک کہانی اس کے لیے مرتب کی گئی ہے۔‘‘ وہ ہونقوں کی طرح منہ کھولے نہ تائید میں سر ہلا سکی تھی نہ تردید میں۔ یہاں تک جانے کا تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ دل لگی نہیں۔ یہ دل لگی نہیں۔ وہ دہشت سے کھڑی ہو گئی۔

    ’’آئی ایم سوری۔‘‘ وہ گھبرا کر اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوا بولا تھا، ’’میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ میں آپ کی باہمتی اور ثابت قدمی کی باتیں کر رہا تھا۔ آئی ایم رئیلی سوری۔‘‘ وہ تاسف سے بولا۔

    ’’چلئے آپ مجھے ایک بھی نمبر نہ دیجئے، تشریف رکھیے۔‘‘

    جس تیزی سے وہ اٹھی تھی ،اسی روانی سے وہ بیٹھ رہی۔ اس نے بڑی حماقت کی۔ اس نے میز پر رکھے اپنے دونوں ہاتھوں کی لکیروں میں الجھتے ہوئے سوچا تھا۔ اسے ڈاکٹر غزنوی سے قطعی معذرت کر لینی چاہیے تھی۔ اسے کیا حق پہنچتا ہے کسی شخص کے ساتھ کھیلنے کا۔ اس نے آہستگی سے نگاہ اس کی طرف اٹھائی۔ عادل نواز کی آنکھوں میں ابھی تک معذرت کے ہلکے ہلکے رنگ تھے۔ وہ طوبیٰ کی طرف دیکھ کر دھیمے سے مسکرا دیا تھا۔ انسان شناسی کے اس زعم میں کہ غالباً طوبیٰ نے اس کی خطائیں معاف کر کے اس کی معذرت قبول کر لی تھی اور گویا یہ فراخ دلی، اس کی اضافی خوبی ثابت ہوئی۔

    ’’آؤ، آج میں تمہیں بتاتا ہوں۔‘‘ اس نے طویل خاموشی کے بعد جیسے مصمم ارادے سے طوبیٰ کی طرف دیکھا تھا۔

    ’’کسی اچھے انسان کو تلاش کرنے کی خاطر میں نے علاوہ زندگی کے دولت کا بھی کتنا زیادہ حصہ ضائع کیا ہے۔ میں جس ماحول میں پیدا ہوا وہاں بےحسی کلچر کا حصہ ہے۔ معلوم نہیں مجھے کیوں کسی حساس انسان کی تلاش تھی۔ میرے والدین کی آپس میں کبھی نہیں بنی، لیکن انہوں نے اس بات کی پروا کیے بغیر اپنی اپنی عمریں بھی کاٹ لی تھیں۔ میرے باپ کی زندگی میں ٹینڈرز، کوٹیشن اور کنٹریکٹ سب سے اہم تھے اور اس کے لیے وہ بے دریغ کسی کی لاش سے بھی گزرتے چلے جاتے تھے۔ اسی لیے میرے بھائی کی شادی ایسے ہی ایک کنٹریکٹ سے ہوئی۔ اس نے بھی سکون سے تاریخ کو دہرانا شروع کر دیا۔ یہی قصہ میری بہن کے ساتھ ہوا۔ جب میری باری آئی تو میں شہزادہ جارج ہشتم کی طرح سلطنت سے انکاری تو نہ ہو سکا البتہ میں نے بورژوا طبقے کی گھن کھائی کسی امیر زادی سے شادی کرنے سے قطعی انکار کر دیا۔ بردکن فیملی کی یہ امیر لڑکیاں میرے جیسے۔۔۔ نیوروٹک آدمی کے ساتھ اچھی زندگی نہیں گزار سکتی تھیں۔ ہاں ذہانت پر میرا کمپرومائز نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے چاہیے تھی ایک سیلف میڈ لڑکی، جس کی بیک پر اس کے باپ کے سٹیٹس کی کوئی دھمکی نہ ہو، جس کو میرے ساتھ گارے مٹی کے کچے مکان میں رہنے پر صرف اس لیے اعتراض نہ ہو کہ وہاں میں ہوں گا۔

    تم اس بات کو سمجھ نہیں سکوگی طوبیٰ! کیوں کہ تمہارا تعلق اس معاشی گروپ سے نہیں ہے۔ تم نے وہ ماحول نہیں دیکھا۔ تم میں ریاکاری کی بو نہیں ہے، اسی لیے تم ہم لوگوں کو کبھی جان نہیں سکتیں۔ شیئرز ہمارا مذہب ہے، شیئرز ہمارا معاشرہ اور اور جادۂ حق کہاں ہے؟ وہ راستہ جو سچائی کی طرف لے جاتا ہے، کس موڑ پر پڑا ہے، خود ہمیں بھی علم نہیں۔ ہمیں صرف مقابلے کا سامنا ہے۔ ہمیں مقابل کو کچل کر، روند کر آگے بڑھنا ہے۔ میرے گھر والے میری اس چیپ رومانٹسزم والی سوچ پر خوب ہنستے تھے۔ وہ کہتے تھے، ایسا مطلوبہ معیار پر پورا اترنے والا تمہیں کوئی ملا تو ہمیں بھی دکھانا اور میں نے ورثے میں ملا باپ کا سرمایہ صرف اس آزمائش میں کس طرح لٹایا ہے کہ ترازو کے ایک پلڑے میں اگر میں اور میرا خلوصِ نیت ہو اور دوسری طرف میرے شیئرز ہوں تو میرے عزیز کس کی طرف جھکیں گے۔ تو طوبیٰ بی بی آپ نے کتنی ہی ایسی راتیں کاٹی ہوں گی جب آپ بھوکی سو گئی ہوں، لیکن آپ کے راستے میں کوئی ایسی رات نہیں آئےگی جس میں گھٹن اور خوف کی وجہ سے آپ سو ہی نہ سکی ہوں۔‘‘

    رات کو اس نے ہوسٹل کی چھت تکتے تکتے خوف زدہ ہو کر سوچا، اسے نیند کیوں نہیں آ رہی۔ صائمہ نے رات گئے تک اپنے تھیسس پر مغز ماری کی تھی اور وہ سر شام ہی منہ دیوار کی طرف پھیر کر لیٹ رہی تھی۔ کتنے دنوں بعد وہ اس قدر سکون سے سوتی نظر آئی تھی۔ صائمہ نے مرکزی لائٹ آف کر کے لیمپ کا رخ پھیر لیا تھا۔

    دیوار کی طرف منہ کیے کیے اس نے محسوس کیا۔ صائمہ، بےآواز پڑھتی بھی رہی ہے اور اب اس کے ڈسٹرب ہونے کے ڈر سے سو بھی گئی تھی۔

    اس نے رخ پھیرا اور چھت کی طرف تکتے سوچا، چلو اب لمبے چوڑے سوال و جواب کے خوف سے نجات ملی۔ وہ اس کو سوتا جان کر بالکل مطمئن ہو چکی تھی لیکن پتا نہیں اسے نیند آئی کیوں نہیں تھی، جیسے کوئی ٹکٹکی سے باندھ کر آپ کے ضمیر پر کوڑے برسا رہا ہو۔ بات کرنے کے لیے عادل نواز نے جس لڑکی کا انتخاب کیا، قسمت سے آپ وہ نہیں ہیں۔ جاگنے والوں کا ایک تیسرا گروپ بھی ہوتا ہے، خوف اور بھوک کے علاوہ۔ لیکن عادل نواز اس راستے کا مسافر نہیں اور خود اس کو بھی زیب نہیں دیتا، وہ اس کٹھن راہ پر چل کر اپنے پاؤں تھکا ڈالے۔ نیند کا کیا ہے۔ آج نہ آئی تو کل آجائےگی۔

    ’’تم رات سوئی کیوں نہیں؟‘‘

    صائمہ نے بغیر اس کی طرف مڑ کر دیکھے، پرس میں جلدی جلدی چیزیں گھسیڑتے پوچھا تھا۔ طوبیٰ کتنی دیر کے لیے ساکت رہ گئی، لیکن غنیمت یہ ہوا کہ وہ اس کے ہر تاثر سے بےفکر اپنی چیزیں اٹھاکر کیمپس کی طرف بھاگ نکلی۔ کتنی دیر اس نے کوریڈور کے باہر وقفوں وقفوں سے لوگوں کے بھاگنے کی آوازیں سنیں۔ پھر برآمدوں کو چپ سی لگ گئی۔

    بڑی آلکسی سے خود کو گھسیٹ کر اس نے دیوار سے ٹیک لگائی۔ جیسے وہ ایک مدّت سے کوئی بیماری جھیلتی چلی آ رہی تھی۔

    جادۂ حق کہاں ہے؟ اور وہ کون سا راستہ ہے جو اس کو سیدھا کسی منزل پر جا کر روک دےگا کیوں کہ بعض اوقات راستے اپنی یکسانیت کی وجہ سے دھوکا بھی دے ڈالتے ہیں۔ افسوس کہ وہ، وہ نہیں تھی۔ غریب سی لاچار لڑکی، بہن بھائیوں کو پالتی، ماں باپ کے دُکھ بٹاتی، کمزور لیکن باہمت۔

    پتا نہیں کیوں ہمیں لاچار بس وہی لگتا ہے جو لاچار نظر بھی آتا ہو۔ رحم اور ہمدردی کا مستحق۔ بےچارہ۔ اسے کبھی بے چارہ بننا اچھا نہیں لگا۔ لیکن درحقیقت مجھ سے بےچارہ اور کون ہو سکتا ہے۔ (اس نے اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو روکا)۔ صرف پیسے کی کمی ہی تو آپ کو لاچار نہیں کرتی۔ آپ کے اِردگرد ایک دیوار ہے اور اس پر ایک چھت۔ یہاں نہ دیواریں ہیں نہ سائبان لیکن چوں کہ آپ کے پاس ویزا کارڈ ہے تو آپ کو ہمدردی کے بول نہیں ملیں گے۔ کیا بےچارگی ہے۔ اس نے اپنی آنکھیں رگڑ لیں۔ بے کس نظر نہ آنے کے لیے زندگی کی ساری جدوجہد جاری ہے۔ اس کو اپنے حصے کی شاباش نہیں ملی۔ عادل نواز نے اس کی ہمتوں کو سراہنے کے لیے جو کچھ کہا، وہ کسی اور کے لیے تھا۔ یہ خدا واسطے کا خطاب تھا۔

    جب صائمہ واپس آئی تو اس پر سخت قسم کی قنوطیت طاری تھی اور وہ اپنی طبع کے خلاف ’’پنچھی بانورا‘‘ قسم کے گانے گا رہی تھی۔

    لمحہ بھر کے لیے صائمہ نے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے خود کو کبھی بھی خود ترسی کا شکار نہیں ہونے دیا۔ وہ ایسی تو نہیں تھی، ضرور کوئی بات ہوئی ہے۔ اس نے دراز کھینچ کر اپنی چیزیں لڑھکا دیں۔ کوئی بڑی بات!

    اس نے کن اکھیوں سے طوبیٰ کی طرف دیکھا، ’’ تم آج گئیں نہیں پاگل خانے؟‘‘

    ’’نہیں!‘‘ اس نے سکون سے کہا، ’’اور اب شاید میں کبھی نہ جاؤں۔‘‘

    صائمہ تھوڑی دیر کے لیے چپ سی ہو گئی۔ وہ اتنی آسانی سے کھلتی نہیں تھی۔ اس کے بارے میں تو اس کے قریب ترین کھڑے شخص کو بھی بس اندازے ہی لگانے پڑتے تھے اور اس کا یہ فیصلہ کن انداز بتاتا ہے کہ کسی بڑی بات نے ہی اسے اس بیان تک پہنچایا ہے۔ حالاں کہ وہ تو اپنے طور پر کئی مرتبہ اعلان کر ہی بیٹھی تھی کہ ہر بڑی سے بڑی اذّیت وہ سہہ بیٹھی ہے۔

    ’’اچھا ہے۔‘‘ اس نے لاپروائی سے کہنا شروع کیا، ’’پہلے تمہیں اپنا ماسٹرز مکمل کرنا چاہیے۔ تم ڈاکٹر غزنوی کو بتا دینا، وہ اس قدر غیرذمےدار بھی نہیں کہ ایک کتاب کی خاطر تمہیں ڈگری سے محروم کر دیں۔‘‘

    طوبیٰ جانتی تھی ایک اسی کتاب کی وجہ سے وہ ڈاکٹر غزنوی کے بھی کس قدر خلاف ہو چکی تھی۔ غیرذمےداری سے بڑی کسی گالی کی اس کی زبان عادی ہوتی تو اس نے وہی دے ڈالی ہوتی۔

    پھر کتنے دن بعد جیسے طغرل کے بھی دن پھر گئے۔ بڑی تابعداری سے وہ ہر ویک اینڈ پر بور ہونے کے لیے سسرال آتی تھی۔ اس کی نندوں کے پاس تازہ ترین سکینڈل ہوتے، نئی نئی ریلیز ہونے والی کیسٹیں، ہائی فائی کے غل مچاتے گانے۔ وہ اپنے صبر و برداشت کا امتحان لیتی۔ ضبط کے مراحل سے گزرتی کڑے کوس طے کر پھر ہوسٹل واپس آ جاتی اور صائمہ ڈر ڈر کے سوچتی رہتی اب۔۔۔ اب پتا نہیں اس نے کیا سوچا ہوگا؟

    طغرل اسے کھانے پر لے جاتا تو بڑی بڑی ڈراؤنی باتیں کرتا۔ سٹاک ایکس چینج، امپورٹ ایکسپورٹ، واشنگٹن ڈی سی۔ ’’ہراہ! اس مرتبہ بھی ٹینڈر میرے نام کھلا ہے۔ چلو تمہیں اس خوشی میں ڈنر کھلاتا ہوں۔‘‘

    وہ تابعداری سے اس کے تمام احکامات بجا لانے پر آمادہ رہتی۔ جی کھول کر ہنستی۔ دل بھر کر خوش ہوتی۔ ہاں خوشی خوشی کے اس کھیل میں طغرل کے ساتھ دھوکا کرکے اسے وہ رنج نہیں پہنچ سکتا تھا، جو اسے عادل نواز کے ساتھ اسی سطحی سے ڈرامے میں مسلسل وصول ہو رہا تھا۔

    ہر کاروباری کے اپنے اصول ہوتے ہیں لہٰذا طوبیٰ مراد نے بھی اپنے اصول وضع کر لیے تھے، اگر خوشی کے اس جھوٹے اظہار میں طغرل کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے تو وہ اس جھوٹ سے بہتر رہےگا جو کسی سبب کے بغیر عادل نواز کو دکھ دے۔

    لیکن پھر سکون کیوں نہیں ملتا؟وہ چھت پر نظریں گاڑے بڑے دکھ سے سوچتی۔

    حیف ہے طوبیٰ مراد! تم سے ایک معمولی سا سچ نہ بولا گیا۔ کیا تھا اگر بزدلوں کی طرح دم دبا کر بھاگنے سے پہلے عادل نواز کو بتا دیتیں۔ میں وہ نہیں جسے تم تلاش کرتے پھر رہے ہو، لیکن کبھی کبھی خود سے کیے گئے بےنام سے دھوکے بھی زندگی گزارنے میں کس قدر مددگار ہو سکتے ہیں۔ ہاں وہ خطاب مجھ سے نہیں تھا، لیکن میں بلا شرکت غیرے اس اعتماد کی مالک رہی ہوں، جو وہ دنیا بھر میں اور کسی کو نہیں دے سکا۔ سرمایہ کی ایک قسم یہ بھی ہے جو اس کے اردگرد کے کاروباریوں میں سے کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا تھا۔

    پھر جیسے دل ہر جگہ سے اکتا سا گیا تھا۔ وہ ڈاکٹر غزنوی کے سامنے بیٹھی تابعدار شاگردوں کی طرح جھاڑ کھاتی اور اٹھ کر چل دیتی، وہ جھلاتے رہ جاتے۔

    ’’یہ کیا بات ہوئی، وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں۔ ڈنڈے بھی کھائے اور گنڈے بھی۔ پڑھائی کا بھی حرج ہوا، کتاب بھی مکمل نہ ہو پائی۔‘‘

    ’’بس کرو اب، ختم کرو اب، بہت ہو لیا۔‘‘ ڈاکٹر غزنوی کی بیوی بڑا بڑا کر کہتیں، ’’جب تک اس کے والد نہیں آ جاتے ہمیں کوئی ذمّے داری نہیں لینی چاہیے، لڑکی ذات کامعاملہ ہے۔‘‘

    ’’اف فوہ!!! لڑکی۔۔۔ لڑکی۔۔۔ وہ ویسی لڑکی ہوتی تو میں اس کے ذمے یہ کام کبھی نہ لگاتا۔‘‘

    پھر وہ وحشت سے ان کا سرسبز لان چھوڑ کر اٹھ آتی۔

    طغرل اس کی مدارات میں بچھا جاتا۔ ’’یہ سی فوڈ لو، پر ان لو، بھاپ میں بنے ہیں۔ اچھا برگر منگوا لو، کوئی سینڈوچ لے لو۔‘‘

    کاش میں وہی ناکار ہ سی لڑکی ہوتی۔ آج بہ ظاہر جس کی کسی کو بھی ضرورت نہ تھی۔ وہ جو دور سے دیکھیں تو ہر پہاڑ نزدیک لگتا ہے۔ اس نے گہرا سا سانس لیا۔

    ’’کبھی تمہارا جی چاہا طغرل؟ تم بہت غریب ہوتے اور میں بھی۔ میرے چھے سات بہن بھائی ہوتے۔ میں ان سب کے لیے روٹی کمانے نکلتی، ان کا بوجھ بانٹتی۔ رات پڑے واپسی ہوتی تو ایک ٹوٹے سے گھر میں، لیکن وہاں کم از کم چھے سات لوگ ایسے تو ہوتے ناں جو میرے منتظر ہوتے، جو میرے آنے سے ایک دم خوش ہو جاتے۔‘‘

    طغرل نے اکتاکر اس کی طرف دیکھا۔ اس کو یہ شاعری میں الجھتی لڑکیاں زہر لگتی تھیں۔ ان کو ہر روز ایک دیوان چاہیے، جو ان کی شان میں پڑھا جاتا رہے۔

    طغرل نے اسے کچھ بھی نہیں کہا، لیکن ایک میز کے آمنے سامنے جو میلوں کا فاصلہ ان دونوں کے درمیان تھا، اس سے ان دونوں میں کوئی بھی ناواقف نہیں تھا لیکن جیسے پہلے طغرل کے لیے یہ فاصلہ قطعی غیر اہم تھا، اب اس نے بھی اس کے بےمعنی پن سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اسی طرح ہونا ہے اور یونہی ہو گا۔

    شادی کے دن قریب آرہے تھے اور طغرل کی فہمائشیں بڑھتی جا رہی تھیں۔

    ’’جس طرح ممی پسند کرتی ہیں ،تم زندگی اسی طرح گزارنے کی عادت ڈالو۔‘‘ وہ کوشش کرنے لگتی۔

    ’’انہیں تمہارے دوست پسند نہیں ہیں، انہیں بدل ڈالو۔‘‘ اس نے پہلی فرصت میں دوستوں کی چھانٹی کر لی۔ صائمہ کو طغرل کی اجازت لے کر شادی والے دن تک ادھار رکھ لیا۔

    ’’تم سوسائٹی میں موو کیا کرو، نئے لوگوں سے ملو، پارٹیز میں جاؤ۔ تم میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ جہاں جاؤ گی لوگ حسد کر یں گے۔ میرے بزنس کمیونٹی کے لوگ جانتے ہیں۔ یہ میں ہی ہوں، جس نے تمہیں ڈھونڈا ہے۔‘‘

    وہ غیرجذباتی میں انداز میں کہتا جاتا۔ ہاں طوبیٰ کے سارے ہنر بھی دراصل طغرل کے کمالات تھے۔ جیسے وہ بزنس میں ہیرے چن لیتا ہے، اس نے ایک لڑکی بھی چن لی ہے، جسے وہ نئے کنٹریکٹ کی طرح دوستوں میں فخر سے دکھاتا پھرتا۔ فلاں نہر کی ایکسٹینشن کا کام مجھے ملا ہے اور یہ لڑکی بھی میری کاروباری کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

    اب روشنیوں سے جھلملاتے بوفے ہوں یا کینڈل لائٹ کے ڈنر۔ وہ ساری روشنیوں کو ماند کرتی، جھلملاتا چہرہ لیے، زیورات سے آراستہ۔ ’’میٹ مائی فیانسی۔ یہ ایمرلڈ میں نے ہوائی سے لیا تھا۔ یہ والا ڈائمنڈ ممی، بلجیم سے لائی تھیں، یہ شال اس کی سٹیپ مدر نے لندن سے بھیجی ہے۔‘‘

    (اور وہ خود؟ وہ کون ہے؟ کہاں سے لائی گئی ہے؟ اگر اس سے یہ اعزازات چھین لیے جائیں تو وہ کیا ہے؟ روڑی کا ڈھیر، کوڑا کرکٹ؟)

    وہ شفاف دانتوں سے جھلملاتی سی مسکراہٹ دیتی رہتی۔ اب زندگی تو اسی طرح گزرنی ہے۔ اس نے کلب کے لان میں شادی کے لیے اکٹھے ہوئے لوگوں کو ایک نظر دیکھا۔ میں ان کے مقابلے میں فاتح ہوں۔ میں نے زندگی کو چند دن برتا تھا، اس کی اصلی حالت میں۔ یہاں تو محض سرکس ہوتا ہے۔ یہ ڈریگن ہے۔ چار آدمیوں نے صرف چہرہ لگا لیا ہے۔ یہ جو کر ہے۔ لوگوں کو ہنساتا ہے۔ شیر بھی جعلی ہے اور آگ بھی۔ میرا ہاتھ ان مصنوعی لوگوں کے درمیان فاتحوں کی طرح بلند ہے۔ کیا ہوا؟ اگر پیدا ہونے میں اس کی مرضی کا کوئی دخل نہیں بھی تھا۔ لان میں زندگی کلائمکس پر تھی۔ لڑکے پیر تھرکا رہے تھے۔ لڑکیاں ہم رقص تھیں۔ بہترین ڈانس پر سلور پیپر میں لپٹا کوئی انعام ان کا منتظر تھا۔ دائرے کی صورت میں بیٹھے کھڑے مہمان، طغرل کے بقول صرف طوبیٰ ہی کو دیکھ رہے تھے۔ (کہ واہ طغرل۔ فاتح تو طغرل ہی ہے صرف!)

    ’’وہ دیکھو، تم اس عورت کو جانتی ہو، ممی کی دوست ہے، یہ فلاں سیاست دان کی بیوی رہی ہے، بڑی امیر ہے اور اس کو دیکھو جو پائپ پی رہا ہے، پلٹ کرمت دیکھنا، زبردست فراڈ ہے۔ تم سے بڑی اس کی بیٹیاں ہیں لیکن بڑا شوقین مزاج ہے اور وہ جو ادھر کھڑا ہے، میرا دوست ہے، ہم ایک دوسرے کے زبردست رقیب ہیں۔ میرا کوئی کانٹریکٹ یہ برداشت نہیں کر سکتا۔ پچھلے دنوں اس نے میرے لیے ٹیکس پرابلم کھڑا کر دیا۔ میں نے بھی ایسی پٹخی دی، آدھے شیئرز اس کو سیل کرنے پڑے۔ ویسے ہم بہت اچھے دوست ہیں۔ آؤ تمہیں ملواؤں۔‘‘

    اس نے سر نیچے جھکا لیا۔ ہاں اسے کیا پڑی ہے کسی کی اصلاح کرنے کی۔ اصلاح کا وقت گزر چکا۔ اب سمجھوتے کا وقت ہے۔ یہاں کوئی شارٹ کٹ نہیں، اس کا کوئی بائی پاس نہیں۔ اپنے اپنے مقدر کو بھگتنے پر آمادہ اور تیار کہ اس کے لیے یہی لکھا گیا تھا۔ بہتیرے اس نے مور کے پر لگوائے تھے اور کووّں سے ٹھونگیں کھائی تھیں۔

    ’’میں سب سے ملوں گی طغرل۔‘‘ اس نے خوش دلی سے کہا، ’’پتا نہیں میں ان سب سے پہلے کیوں نہیں ملی۔‘‘ (تب شاید تکلیف بھی کم ہوتی!)

    ’’تمہارے ڈیڈی نے تو تمہیں بھی پچھلے فون پر یہی کہا تھا۔ لوگوں میں اٹھو بیٹھو، ان سے ملو۔ یہ جو فرسٹریشن، ڈیپریشن ہے ناں، مڈل کلاس کا فیشن ہے۔‘‘

    پھر ممی اپنی ہونے والی بہو لوگوں کو دکھانے لے گئیں۔ حقے کی طرح ساری محفل میں گھوم کر جب ایک نسبتاً خاموش کرسی پر بیٹھی تو اس نے شکر کیا کہ وہ اپنی نندوں کے لیے سرمایۂ افتخار نہیں تھی، ورنہ اسے پھر گھومنا تھا۔

    جیوری انعام کا اعلان کر رہی تھی۔ مجمع سمیٹ کرنا چنے اور گانے والوں کی طرف چلا گیا۔ کلب کے اندر اندھیرا اترتے آسمان کے نیچے روشنیوں سے بہت دور اس نے ایک نسبتاً تاریک سی کرسی پر بیٹھتے ایک گہرا سا سانس لیا۔

    جب کل بھی یہاں آنا ہے تو آج ہی کیوں نہیں۔ یہاں پر ہی زندگی کا دی اینڈ لکھا ہے۔

    اسے بزدلی سے نفرت تھی۔ ریاکاری اور جھوٹ کے بارے میں سنڈے سکول میں کچھ اور سکھایا گیا تھا اور اب یہ وہی تھی۔ اس نے آنکھوں میں اچانک بھر آئے آنسوؤں کو پوری شدت سے آنکھیں میچ کر روک لینا چاہا۔

    ’’ارے رے۔ بہنے دیجئے، کیا حرج ہے؟‘‘

    وہ ساکت سی رہ گئی۔ یہ آواز، یہ لہجہ!

    ’’آنسوؤں جیسی بے ضرر چیز پر اتنے پہرے، اتنے بند؟‘‘ دائرے میں بچھی دو تین کرسیاں چھوڑ کر بیٹھتے شخص کو پہچان لینے میں اس نے وقت نہیں لیا۔ اس کی آنکھوں میں تو صرف دھندلاہٹ تھی، اگر بصارت بھی نہ رہتی تو شاید اس کو پہچان لینے میں اسے عمر کے آخری حصے میں بھی کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

    ’’کیسی ہیں آپ؟‘‘

    اسے لگا وہ ’’عمر اور دولت کا طویل حصہ ضائع کر کے‘‘ اب اسے ڈھونڈتا یہاں تک آ پہنچا ہے۔ حالاں کہ یہ اس کی برادری تھی۔ یہ بزنس کی دنیا تھی۔ اسے یہیں ہونا تھا، آج نہ ہوتا تو کل آ جاتا۔ کتنی شدت سے اس کا جی چاہا وہ پھر جھوٹ سنے۔

    ’’یہ تم ہو طوبیٰ مراد، جس کی تلاش میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘

    اس کی آنکھیں لبالب بھر گئی تھیں۔ کتنی شدت سے اس کا جی چاہا وہ کچھ بول دے۔ دو لفظ یا چار لفظ، مجھے بچا لو۔۔۔مجھے ان سے نجات دلا دو۔ بےشک میں سو سال سے سو رہی تھی لیکن اب تو میرا ماتھا چھو کر یہ طلسم توڑ دو۔ لیکن گولہ سا اس کے حلق میں آ کر اٹک گیا۔ وہ کوشش کے باوجود کہہ ہی نہ سکی اور کہنے کو تھا بھی کیا۔ جھوٹ، سازش، منافقت، اس کا تو اپنا پلڑا بےوزن تھا۔ وہ تہمت دھرتی بھی تو کس پر۔

    ’’مجھے طغرل نے کہا ہے، آپ اس کی فیانسی ہیں اور وہاں اکیلی بیٹھی ہیں، میں آپ کو کمپنی دوں۔‘‘ وہ سادہ سے بے اثر لہجے میں مخاطب تھا۔

    ’’وہ آپ کی بے حد تعریف بھی کر رہا تھا کہ آپ نے شاید ایم اے، ویم اے کچھ کر رکھا ہے اور آپ بہت قابل ہیں اور یہ کہ آپ کا تعلق کسی بہت دولت مند خاندان سے ہے۔ بےحد متاثر لگتے ہیں آپ سے۔‘‘

    اس کے زہر میں بجھے فقرے جیسے اس کی دھجیاں اڑا رہے تھے اور وہ کس قدر پرسکون سا بیٹھا تھا، جیسے اس کے کہے فقروں کا اندرونی مطلب بھی وہی تھا، جو اوپر سے نظر آتا تھا۔

    ’’آپ کے فیانسی میرے زبردست دوست ہیں۔ کیا اس ناتے میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ یوں تاریک کونوں میں بیٹھ کر کیوں آنسو بہا رہی تھیں؟‘‘

    بھل بھل بہتے آنسو جیسے اچانک خشک ہو گئے۔ اس نے بیٹھتے ہی اسے ہر طرح جتا دیا تھا کہ اس کا اس سے ایسا کوئی ناتا نہیں جو اس کے سامنے یوں ٹسوے بہائے جائیں۔ اس نے گردن کو آہستگی سے کندھے کے رخ لٹکا کر گیلا چہرہ آستین سے صاف کر لیا۔ اپنی طرف سے تو اس نے بڑی چابک دستی سے آنسو پونچھے تھے کہ وہ آنسوؤں کی رفتار اور ان کی شدت سے لاعلم ہی رہے، اسی لیے اس نے ہاتھ اٹھا کر پلکیں خشک کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا۔ وہ پورے دھیان سے اس کی طرف متوجہ تھا۔ کسی چوکیدار کی طرح مستعد اور چوکس۔ جواب کا سنجیدگی سے منتظر۔

    ’’اچھا تو آپ یہ نہیں بتانا چاہتیں، تو چلئے اپنا نام ہی بتا دیجئے۔‘‘

    ’’میرے فیانسی نے آپ کو میرا نام نہیں بتایا؟‘‘ اس نے بہت دیر بعد آہستگی سے نگاہیں اس کی طرف اٹھائیں۔ کتنی شدّت سے اس کا جی چاہا، وہ بھی اس پروار کرے، زہر میں بجھے، ترچھے، نوکیلے سنگلاخ۔

    لیکن اس کے چہرے کے اطمینان میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اس کے تکلم پر چونکا بھی نہیں۔

    ’’میں کہی سنی پر اعتبار نہیں کرتا۔‘‘ عادل نواز نے اس کی اٹھی ہوئی پلکوں کے پیچھے غور سے دیکھ کر کہا تھا، ’’بلکہ بعض اوقات آنکھوں دیکھی پر بھی نہیں کرتا کیوں کہ یہ دنیا بہت بڑا دھوکا ہے جو ہوتا ہے، وہ نظر نہیں آتا اور جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ۔۔۔ آپ کو کبھی ایسا تجربہ ہوا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ اس نے تلخی سے کہا، ’’میں دھوکا بھی اپنی مرضی سے کھاتی ہوں۔‘‘

    ’’اچھا یہ آپ کی مرغوب غذا ہے۔ صرف کھاتی ہیں یا دے بھی دیتی ہیں؟ یا اس کا جواب بھی آپ کے منگیتر صاحب دیں گے؟ یہ لیجئے۔‘‘ وہ اس کے پیچھے کھڑے شخص سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا، ’’میں نے تو تمہارے کہنے کے مطابق حتی الامکان کمپنی دینے کی کوشش کر لی ہے، لیکن تمہاری جگہ تو نہیں لے سکتا۔ لہٰذا اپنی ڈیوٹی خود سنبھالو۔‘‘

    طغرل نے زور سے قہقہہ لگایا تھے، جیسے خوش باش آدمی صحت مند قہقہے لگاتا ہی ہے۔ زندگی سے بھر پور معنی اور لفظوں سے لاعلم۔ وہ طوبیٰ کے بالکل برابر والی کرسی پر پھیل کر بیٹھ رہا۔ جیسے وہ جانتا ہی تھا، یہ حق صرف اسی کو حاصل ہے اور وہی اپنی مرضی سے کسی اور کو یہ حق عاریتاً دے سکتا ہے۔

    ’’یہ میرے دوست ہیں عادل نواز، اگر دنیا میں، میں کسی پر بھروسا کرتا ہوں تو صرف ایک اس شخص پر۔‘‘

    وہ چپ رہی اور منتظر رہی کہ اب دوسری طرف سے ایسا ہی منافقت سے بھرپور جواب وصول کر لے تو اپنے حصے کی منافقتیں بکھیر سکے، لیکن کتنی دیر کے وقفے کے بعد بھی عادل نواز نے اپنے دوست کی مدح سرائی میں ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔

    ’’آئی ایم سوری! تم وہاں جیوری کے فیصلے کر رہے تھے، میں نے ادھر بھیج دیا۔‘‘

    ’’کوئی حرج نہیں۔ میں یوں بھی اچھے فیصلے نہیں کر سکتا۔‘‘

    طغرل بےمقصد ہنس دیا۔ وہ شاید ہنسنا ہی چاہتا تھا، یا ہنس ہنس کر وہ یونہی طوبیٰ کی بداخلاقیوں پر پردے ڈال سکتا تھا۔

    ’’طوبیٰ بڑی اچھی لڑکی ہے۔‘‘ طغرل نے لمحہ بھر کے لیے مایوسی سے طوبیٰ کی طرف دیکھا۔ اس سے کوئی امید نہیں تھی۔ وہ اپنی خوبیوں کے اظہار میں بڑی تنگ دل رہی ہے اور ممی ٹھیک کہتی ہیں۔ اسے کبھی پتا نہیں چل سکا، کہیں کہیں شیخی مارنا کس قدر ضروری بھی ہو جاتا ہے۔ وہ دبو سی جھینپو لڑکی طرح سر جھکائے، بجائے کسی اور کو متاثر کرنے کے جیسے خود ہی امپریس ہوئی چلی جا رہی تھی۔

    ’’اچھا؟‘‘ عادل نے بڑے دھیان سے اس کی منگیتر کی طرف دیکھا تھا، ’’مثال دے کر بتاؤ۔‘‘

    یہ گاتی بہت اچھا ہیں۔ انہوں نے ڈانس فقیر حسین ساگا سے سیکھا ہے۔ یہ اپنی شاپنگ کے لیے ہمیشہ شانزلے لیزے جاتی ہیں۔ ساری گرمیاں جنیوا میں۔

    لیکن نہیں، اس میں کوئی خوبی بھی نہیں جس کو فخر سے عوام کے سامنے پیش کیا جائے سوائے اس کے کہ یہ ایک عام سی یونیورسٹی پڑھتی ہیں، جس کی ڈگری پر باقی دنیا میں اعتبار بھی نہیں کیا جاتا یا یہ کہ یہ ایک بے ہودہ سی ٹریڈ یونین ازم والی کتاب کی مصنف ہونے والی ہیں۔ وہ بھی کوئی ایسی خوبی والی چیز نہیں۔ ممی کو اسی لیے کتابوں والے لوگوں سے نفرت رہی ہے۔

    طوبیٰ نے سر اٹھاکر دیکھا۔ طغرل خاموش تھا اور اس کا دوست ابھی تک آنکھیں اس پر مرکوز کیے اس کی طرف سے جاری ہونے والے تعریفی سرٹیفکیٹ کا منتظر تھا۔ بڑی دلچسپ صورت حال تھی۔

    طوبیٰ ایک مدت کے بعد کھلکھلا کر ہنس دی۔

    طغرل جس لڑکی سے محبت کرتا تھا اور اب شادی کرنے جا رہا تھا، اس کی مدح میں گنوانے کے لیے اس کے پاس ایک بھی اچھا لفظ نہیں تھا۔ اب وہ بے چارہ کہے بھی تو کیا، یہ کہ میری ماں نے اس کے باپ کی چیک بک کو پسند کیا ہے، ورنہ میں کیا اور میری مجال کیا۔

    عادل بیٹھے سے یکایک کھڑا ہو گیا۔

    ’’تو نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی خوبیاں محتاج بیان نہیں۔ تم لوگ آپس میں باتیں کرو۔ میں ذرا ادھر دیکھتا ہوں۔‘‘

    طبلے پر تھاپ پڑی اور زرینہ علی محمد ،کتھا کلی پر پاؤں گھمانے لگیں۔ وہ اجازت کا انتظار کیے بغیر غائب ہو گیا۔

    ان دونوں کے درمیان ایک طویل خاموشی چھا گئی۔ میلوں لمبی اور برسوں کی مسافت پر پھیلی۔ کون ختم کر سکتا ہے ان فاصلوں کو؟

    ’’اس طرح ڈس موڈ ہوکر بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لوگوں میں آؤ۔‘‘

    طغرل نے زندگی میں پہلی مرتبہ ایک حکم سنایا تھا اور ہنستا ہوا ہجوم میں شامل ہو گیا۔ ابھی وہ فیصلہ مان لینے یا نہ ماننے کے سلسلے میں گومگو ہی میں مبتلا تھی کہ ممی اس کے عین سامنے آ گئیں۔ ہشاش بشاش، ہنستی مسکراتی، تازہ دم۔ وہ عمر میں جتنی بھی بڑی تھیں، لباس، بالوں کے سٹائل اور زندگی کو برتنے کے سلیقے میں بہر کیف اس کو بہت پیچھے چھوڑ آئی تھیں۔

    ’’یہ بزنس گید رنگ ہے۔ یہاں نخرہ نہیں کرتے۔‘‘ انہوں نے سخت آواز میں کہا۔ طوبیٰ نے فوری تعمیلِ حکم کی بجائے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔ لوگ کس طرح دو طرح کے تاثر چہرے پر رکھ سکتے ہیں۔

    ’’تم نے طغرل کو پریشان کر ڈالا ہے۔ تم اس کی منگیتر ہو، تمہیں اس کے جذبات کا دھیان رکھنا چاہیے۔ فوراً اٹھو اور جہاں وہ جاتا ہے، اس کے پیچھے پیچھے جاؤ۔‘‘

    وہ فوراً اٹھی۔ ساتھ والی کرسی سے اپنے پرس کا فیتا کھینچا اور اس سے قبل کہ وہ اس کی تابعداری پر کوئی اچھے کلمات کہتیں، انہوں نے دیکھا، اس کا رخ طغرل کی بجائے اس آرک کی طرف تھا جو اس لان کو باہر کی سڑک سے ملاتی تھی اور افسوس! بجائے اس کے کہ وہ ان کے بیٹے کے پیچھے پیچھے جاتی، ان کے بیٹے نے دوڑ کر اس کو جا لیا۔

    وہ سن رہی تھیں۔ یہ ان ہی کا بیٹا تھا۔

    ’’طبیعت ٹھیک نہیں۔ ہاں! تم عادی نہیں ہو۔ سوری۔ نہیں میری ہی غلطی تھی۔ تم ڈرائیور کو کہنا۔ واپس یہیں آجائے۔ اپنا دھیان رکھنا۔‘‘ ان کا چہرہ غصہ کی شدت سے نیلا ہو گیا۔

    ’’ہاں۔ ہاں۔‘‘ وہ مسکراتی ہوئی اپنی کسی دوست کی طرف پلٹیں،’’ میری بہو کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ میں نے اس سے کہا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ کوئی تکلف والی بات تو ہے نہیں، چلی جاؤ تم۔ میں نے بھیجا ہے طغرل کو۔ اس کو کار تک چھوڑ آئے۔‘‘ رات کا اندھیرا ابتدائے موسم کے سبزے کو کاہی بنائے ہوئے تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ میوزک اور روشنیاں۔ ہنگامہ اور زندگی۔ ہم ہر چیز کے لیے بنے بھی نہیں ہوتے اور آپ اپنی برداشت بڑھاتے جائیں تو آپ پر تکلیفیں بھی بڑھتی جائیں گی۔ پارکنگ لاٹ میں ترچھی قطاروں میں کھڑی کون سی کار اسے ہوسٹل تک لے جائےگی۔ اس نے غائب دماغی سے چلتے چلتے سوچا اور کیا اس کو طغرل کی کار کا انتخاب کرنا بھی چاہیے؟

    وہ بےدھیانی میں دور دور پھیلی کھمبوں کی روشنی میں اپنے سائے کو کبھی آگے کبھی پیچھے ہونے کا کھیل دیکھتی دُور تک نکل آئی۔ پہاڑی کے اوپر سے گرنے والی مصنوعی آبشار اس وقت خاموش تھی۔ فضا میں مینڈکوں کے ٹرانے کی آواز اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر چیخ مار کر لٹک جانے والی چمگادڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

    کیا وہ دکھی ہو گئی ہے؟ کیا اسے ہرٹ کیا گیا ہے؟ اس نے خود لاتعداد مرتبہ سوال کرتے سوچا۔ حالاں کہ اس نے دکھی نہ ہونے کا تہیہ کر لیا تھا اور ہرٹ تو انسان صرف ان سے ہوتا ہے، جن سے کبھی کچھ اچھی امیدیں وابستہ بھی کی ہوں۔ یہ سودا تو اسی حال میں ہوا تھا، جو ہے اور جیسے ہے۔ اس نے تو اب خوشی کے لیے کھلنے والے ہر دروازے کو مضبوطی سے بند ہی کر دیا تھا۔ پھر اس پاگل پن کا کیا فائدہ؟ اس نے دل میں اٹھنے والی بہت سی خواہشوں کو زور سے جھڑکا۔

    سامنے آرٹس کونسل والے تھیٹر پر روشنی کا گول دائرہ بنا۔ غالباً کوئی کار پیچھے سے آرہی تھی۔ اس کے قدم سست ہو گئے۔ یہ طغرل نہیں ہو سکتا۔ ہاں ڈرائیور ہو سکتا ہے۔ طغرل کبھی بھی اس کی خاطر اپنی دلچسپیوں سے منہ موڑکر نہیں آ سکتا اور اس کی اس نے کبھی خواہش بھی نہیں کی۔ کار ہارن دیتی تیزی سے اس کے نزدیک آ کر رک گئی۔

    ’’اوہ۔۔۔؟‘‘ وہ بےساختگی میں الٹے قدم فٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔ اس کی طرف کا دروازہ کھلا تھا۔ روشنی کی ایک لکیر دروازے سے باہر نکل کر اس کو نور میں نہلا گئی۔ دروازہ کھلنے سے اندر جلنے والی روشنی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کو دیکھنے کی جرأت کتنی دیر وہ اپنے اندر پیدا کرتی رہی۔

    ’’آپ پیدل نکل آئیں، اتنی رات میں۔ آئیے بیٹھیے۔‘‘

    اپنے عمل کے برعکس اس کے انداز میں قطعی لاتعلقی سی تھی۔ یہ دوسری دفعہ تھی کہ طوبیٰ کی آنکھیں بھر آئیں، وہ روشنیوں کے گھیرے میں تھی اور دو کیمرے جیسی نظریں اس کو مسلسل فوکس کیے ہوئے تھیں۔

    اس نے خاموشی سے دروازے پر ہاتھ رکھا اور اندر بیٹھ گئی۔ کاش! اس وقت کسی اور چیز کی تمنّا کی ہوتی، اس نے رقّت سے سوچا۔ پتا نہیں آج اسے ہر جگہ سے ڈانٹ ہی کیوں پڑ رہی ہے۔ اس نے کار کی روشنیوں میں خاموش سڑک کو دور تک دیکھا۔ وہ اسی طرح بے حس و حرکت ہاتھ گود میں ہی دھرے چپ چاپ بیٹھی رہ گئی تھی۔

    عادل نے ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ گاڑی گئیر میں ڈالنے سے پہلے اس نے توقف کیا، ’’معاف کیجئے۔‘‘ اس نے ہاتھ پھیلاکر اس کی سمت کا دروازہ دھپ سے بند کر دیا۔ بند ہو جا سم سم۔ کار میں تاریکی پھیل گئی اور چپ کا طلسم۔ گاڑی کچھ دیر آہستہ رینگی، پھر معمول کی رفتار پر آ گئی۔

    کتنی دیر طوبیٰ کا جی چاہا وہ اس سے اپنی تمام تر غلط بیانیوں کی و جہ سے بیان کر دے۔ معافی مانگ لے۔ معذرت کر لے۔ اب جب کہ ناجائز قسم کی معذرتوں کے انبار میں اس کوروز بہ روز دبنا ہی ہے تو ایک استحقاق بھری معافی کیوں نہیں۔ لیکن اس کی آنکھیں بوجھل تھیں، سر بھاری تھا اور حلق بھرا ہوا۔

    وہ خواہش کے باوجود کوئی لفظ زبان سے ادا نہیں کر سکی۔ پھر اس نے اس کشمکش سے بھی خود کو آزاد کر دیا۔

    وہ پورے دھیان سے گاڑی چلا رہا تھا اور اس کی طرف توجہ دینے کا اس کا کوئی ارادہ بھی نہ تھا۔ وہ چپ چاپ مال روڈ پر پیچھے رہ جانے والے درختوں کی گنتی کرتی غائب دماغی سے بیٹھی رہی۔ گاڑی نے کئی موڑ کاٹے تھے،کئی چوکوں سے گزری تھی اور تیز تیز چلنے والے فلیش بیک کی طرح وہ تیز رفتار گاڑی میں ماضی قریب کے بہت سے اچھے دنوں کو گنتی رہی تھی۔ گاڑی کسی گیٹ سے داخل ہو کر پورچ میں رُکی تو وہ چونک سی گئی۔

    اس نے کچھ کہنے کی بجائے حیرت سے پلٹ کر عادل کی طرف دیکھا تھا۔

    جواباً اس نے اس کی بجائے استقبال کے لیے بڑھنے والے شخص کی طرف توجہ کی تھی۔

    ’’کھانا کھا لیا تھا لال دین؟ آئیے۔‘‘ اس نے دوسری طرف سے اس کا دروازہ کھول کر چابی لال دین کی طرف اچھال دی۔

    وہ ریموٹ سے چلنے والے کھلونے کی طرح اس کے ساتھ ساتھ تھی۔

    ’’یہ کس کا گھر ہے؟‘‘ اس نے اتنی دیر بعد سوال بھی کیا تو کیا؟ اس نے جواب دینے کی بجائے اسے کہنی سے تھام لیا تھا۔ پھر وہ آہستگی سے سیڑھیاں اترتا تہ خانے میں آ گیا۔

    اس نے ایک ایک کر کے تہ خانے کے سارے بلب روشن کر دئیے۔ شینڈ لیئرز کی تیز روشنی کے نیچے کھڑے شخص کی آنکھوں میں اس نے پہلی مرتبہ دیکھا اور ہلکے سے لرز گئی۔ اس کی خود فراموشی کی کیفیت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا تھا اور یہ فائدہ اٹھایا بھی کس نے تھا؟ وہ جو آنکھوں میں غصے کی ہلکی روشنی لیے ایک ٹک اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دوسری طرف آنکھوں کی حیرت بھری بےاعتباری کے رنگوں سے بے پروا تہ خانے کا دروازہ لاک کر چکا تھا اور چابی عادل کی پتلون کی جیب میں تھی۔ وہ ساکت رہ گئی۔

    ’’یہ بدلہ میں تم سے نہیں لے رہا، طغرل سے لے رہا ہوں۔‘‘ وہ اس سارے عرصے میں پہلی مرتبہ اس سے مخاطب ہوا تھا،’’ میں چاہتا تو یہ انتقام تم سے بھی لے سکتا تھا۔ لیکن پتا نہیں میں ایسا کیوں نہیں چاہ سکا۔ آؤ آج میں تمہیں تمہاری کامیابیوں کی مبارک باد دوں۔ تم نہ ہوتیں تو آج میں کنگال نہ ہوتا۔ اگر تم نے طغرل کے عشق میں میری کوٹیشن لیک آؤٹ نہ کی ہوتی تو اس سال کے سارے ٹینڈر اس کے نام کبھی نہ کھلتے۔ آج جو میرا بال بال مقروض ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ تمہارے سر جاتا ہے۔

    اس کے باوجود طوبیٰ مراد میں تمہیں ایک موقع ضرور دوں گا۔ اگر تمہیں کوئی سچ بولنا ہے تو۔ حالاں کہ اب مجھے سچ جاننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہی۔‘‘

    وہ اپنے دونوں ہاتھ سینے پر لپیٹے اس کے ان جرائم کی رُوداد بھی سنا رہا تھا، جو اس کے سر تھے ہی نہیں۔

    وہ چھت سے برستی تیز روشنیوں کے ہالے میں دم بخود کھڑی تھی۔ سزائے موت کی منتظر۔ بس اب صرف ایک آخری خواہش سنانا باقی تھا اور اب وہ سنا کر کرےگی بھی کیا؟

    ’’میں کسی ایسے شخص کو معاف نہیں کر سکتا، جو اعتماد سے کھیلتا ہو، جو لوگوں کے اعتبار کو دھوکا دیتا ہو۔ اگر تمہارے پاس وضاحت کے لیے کوئی کہانی ہے تو کہہ ڈالو۔ میں صرف دس تک گنوں گا۔ اس سے زیادہ میں انتظار نہیں کروں گا۔‘‘

    طوبیٰ نے صرف ایک قدم بڑھایا اور غصے میں بپھرے اس شخص کے سامنے رک گئی۔

    ’’کون سا سچ سننا چاہتے ہیں آپ؟‘‘

    ’’کہ تم کون ہو؟ میرے آفس میں کس کے کہنے پر آئیں؟ ٹی اینڈ جے کمپنیز سے کیا تعلق ہے تمہارا؟ تمہارے ماں باپ کہاں ہیں؟ اور ہیں بھی کہ ہیں ہی نہیں؟‘‘

    وہ بولتے بولتے ساکت ہو گئی۔ یہ بڑا نازک موضوع تھا اور بہت تلخ۔ یہ تو اس نے اپنے کسی عزیز ترین دوست کے سامنے بھی نہیں کھولا تھا۔ اس نے ہچکچا کر دیوار پر لگی پینٹنگ کی طرف دیکھا۔ ہمتیں مجتمع کیں۔

    ’’ایک۔ دو۔ تین۔‘‘ وہ جارحانہ انداز میں گویا تھا۔

    ’’مجھے دھمکیاں مت دو عادل نواز!‘‘ اس نے رسان سے کہا۔

    ’’میں یہ سب کچھ خود ہی سنانا چاہتی تھی۔ دھمکیوں سے مرعوب ہوکر نہیں بلکہ اسی ناتے جس سے آپ نے اپنے دکھ مجھے سنائے تھے۔ نمبر ایک طوبیٰ مراد ہوں۔‘‘ اس نے اپنی شہادت کی انگلی سے گننا شروع کیا۔

    ’’بہت بچپن میں میرے ماں باپ میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ میں ایسی ہی ایک بروکن فیملی کی فرد ہوں، جن کے بچوں سے عموماً نفرت کی جاتی ہے۔’’ بوژروا طبقہ کی گھن کھائی امیرزادی۔‘‘ لیکن آپ نے یہ جانا ہی نہیں۔ گھر کی خاطر صرف میں ہی کچے مکان میں جا سکتی ہوں کیوں کہ صرف مجھے ہی پتا ہے کہ گھر کیا ہوتا ہے۔

    طغرل سے میری منگنی ہو چکی ہے۔ بہت جلدی شادی ہو جائےگی۔ اس کی کمپنی سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ آفس میں نے ایک کتاب لکھنے کے لیے جوائن کیا تھا، جس کی گواہی بہت سے لوگ دے سکتے ہیں۔ لیکن میں اپنی گواہی کے لیے آپ کو کسی کے پاس لے کر نہیں جاؤں گی۔‘‘

    ’’میں تمہیں صرف ایک موقع اور دوں گا۔‘‘ وہ جل کر بھڑک اٹھنے سے پہلے جیسے برداشت کرتے ہوئے بولا تھا۔

    طوبیٰ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔

    جب اس کے ماں باپ اسے درمیان میں کسی بے حس اینٹ پتھر کی طرح رکھ کر آگ بگولا ہوتے تھے تو وہ ایسی ہی قانع، ایسی ہی پرسکون دکھائی دیتی تھی اور شاید عادل نواز اپنے آپ کو کوڑے مار کر سدھانے میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔

    ’’ایک موقع سنا تم نے!‘‘ اس نے جھنجلاکر کہا تھا، ’’سچ بتاؤ تم نے طغرل کے سامنے آئی بیز کے ٹینڈر لیک آؤٹ نہیں کیے ۔پھر کیسے اس مرتبہ طغرل کا ٹینڈر صرف ایک پیسہ کم ہے؟‘‘

    وہ چیخ کر بولا تھا۔ پرسکون رہنے کی صورت میں جو اعزاز اسے مل سکتا تھا، وہ بھی چھن گیا۔

    وہ بولا تو اس کی آواز رندھی ہوئی اور پھٹی ہوئی تھی۔

    ہاں۔ طوبیٰ نے سوچا۔ یہاں بھی اس کے نمبر مجھ سے کم ہوتے ہیں۔

    ’’اور۔ اگر وہ سچ ہے تو یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے دراز گھسیٹ کر چھوٹی بڑی پرچیوں کا ایک ڈھیر اس کے سامنے بکھیر دیا۔

    ’’گنجا خوشامدی ہے۔ بلکہ بورڈ کے سب ہی لوگ۔‘‘

    ’’کمپنی کا افسر اعلیٰ بالکل بے بس اور بےاختیار ہے۔‘‘

    ’’یونین بکی ہوئی ہے۔‘‘

    ’’کمپنی ٹیکس نہیں دیتی۔‘‘

    ’’میری آمد پر ہال میں سناٹا چھا گیا۔‘‘

    پھٹے ہوئے کاغذوں کی کترنیں اس کے گرد بکھری پڑی تھیں۔ طوبیٰ نے کاغذ کے ان ٹکڑوں پر نظر ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنی تحریر پہچانتی تھی اور مکرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔

    طوبیٰ نے لمحہ بھر کے لیے اس کی لو دیتی آنکھوں کی طرف ایک نظر دیکھا۔

    اور یہ بھی اچھا ہوا۔ ع ایک تم بھی سہی۔ اسے بت بنانے اور پوجنے کی عادت نہیں تھی اور جب یہ قد آور مجسمہ منہ کے بل نیچے آگرا تو اسے بہت اچھا لگا کہ وہ خود کو پھر کوڑا مار کر سدھا سکتی ہے۔ بھڑکتی آگ کے چھلے میں سے چھلانگ مار کر ثابت سالم واپس آ سکتی ہے۔

    اس نے اس کی سانپ کی طرح بغیر پلک جھپکتی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ پھر وہ چپ چاپ سیاہ صوفے کے کنارے پر بیٹھ رہی۔ ’’اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں کہنا۔‘‘

    ’’تو تم اپنے جرم کا اعتراف کرتی ہو۔‘‘ اس کی آواز کے اتھاہ اطمینان نے اسے جیسے مزید بھڑکا ڈالا تھا۔

    ’’اور تم جانتی ہو، اس کا کیا نتیجہ ہو گا۔ غلط بیانی کر کے نوکری حاصل کرنا۔ ایفی ڈیوٹ پر دستخط کر کے مکر جانا۔ کمپنی کے رازوں کی زبانی اور تحریری حفاظت کا وعدہ کرکے اسے نقصان پہنچانا۔ان سب جرائم کا مطلب ہے جیل۔‘‘

    ’’افسوس! میں کتنی بڑی مجرم نکلی۔ حالاں کہ آپ نے تو انسان شناسی کے دعووں کے بعد مجھے چنا تھا۔‘‘

    عادل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ آواز کی یہ ملامت پتا نہیں کس کے لیے تھی۔

    وہ کتنی دیر اس کی طرف دیکھتا رہا، جس کی آنکھیں خشک اور بےتاثر تھیں۔ نہ وہ روئی دھوئی، نہ چیخی چلائی، نہ اس نے مدد طلب کی۔ جم خانہ کے کونے میں بیٹھ کر رونے والی لڑکی اتنے بڑے حادثے کو جیسے لطیفہ ہی سمجھ رہی تھی۔

    ’’اور پارسا تو تم بھی نہیں ہو عادل نواز۔‘‘ اس نے بے دھڑک اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔

    ’’دھوکا تو تم نے بھی دیا ہے۔ ایک عورت سے اپنی شکست کا انتقام لینے کے لیے تازہ دم ہو کر آئے ہو۔ اس لیے کہ جس جس نے تمہیں دھوکا دیا تھا، اس کو تم پکڑ نہیں سکے اور جو کچھ تمہارے ہاتھ آ گیا ہے، اب اس سے ہی چوہے بلی کا کھیل کھیل رہے ہو۔ لیکن افسوس تمہیں یہاں بھی ناکامی ہوگی۔ مجھے زندگی کا کوئی لالچ نہیں اور جتنے برے وقت میں نے کاٹ لیے ہیں، اس سے زیادہ برا وقت مجھے ڈراتا بھی نہیں ہے۔ اس لیے عادل نواز کہ میری زندگی میں نہ شیئرز ہیں۔ نہ فیکٹری۔ نہ ٹینڈر۔ نہ کوئی گلیمر۔ نہ محبت۔ نہ نفرت۔

    مجھے یہ دنیا چھوڑتے وقت آخری بار پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی حسرت بھی نہیں ہو گی کیوں کہ میرے پاس گنوانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ میں ہر طرح سے تیار ہوں۔ جو بھی سزا تم میرے لیے سوچ آئے ہو، جو بھی فردِ جرم تم مجھ پر عائد کرتے ہو۔‘‘

    اس کی آواز پرسکون اور ہموار تھی اور وہ اسی اطمینان سے صوفے سے ٹیک لگائے جیسے منتظر ہی تھی۔

    ’’ہر مجرم کا جیل تک پہنچنا ضروری نہیں ہوتا کیوں کہ عدالتیں سست اور انصاف مہنگا ہے۔ ہاں صبح جب اس کمرے کا دروازہ کھلےگا تو آزاد دنیا میں ایک فوری انصاف تمہارا منتظر ہوگا۔ تب گواہیاں، جرم، فیصلے، سزائیں ،سب آناً فاناً ہو چکا ہوگا۔‘‘

    وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل گیا اور آزاد دنیا کی ایک صبح؟ ہاں وہ کبھی تو آئےگی؟ وہ چپ چاپ کرسی پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔

    جب صبح اس کے لیے دروازہ کھولا گیا تو وہ اسی جگہ بیٹھی تھی، جہاں اسے رات کو چھوڑا گیا تھا۔ جیسے وہ یوں ہی لمحہ بھر کو سستانے بیٹھ گئی ہو۔

    کتنی دیر طوبیٰ پورے کھلے دروازے کی طرف دیکھتی رہی۔ یہ خیرات کے طور پر اس کے لیے کھول دیا گیا تھا یا بزدلوں کی طرح دم دباکر بھاگنے کا ایک نادر موقع مہیا کیا گیا تھا تاکہ بھاگتے بھاگتے بھی چوہے بلی کے اس کھیل کو جاری رکھا جا سکے۔ چوہا بھاگ، بلی آئی۔ چوہا بھاگ، بلی آئی۔

    اسے دوڑ لگانے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ اب وہ دوڑ میں اول بھی آئے تو وہ فاتح نہیں ہو سکتی۔ کسی جگہ کہیں کوئی وکٹری اسٹینڈ اس کا منتظر نہیں۔ کتنی دیر کے انتظار کے بعد اس نے کھلے دروازے سے باہر قدم رکھا۔

    سیڑھیاں ایک سیدھی قطار میں اوپر جا رہی تھیں اور عین سیڑھیوں کے خاتمے پر کوئی شخص ٹرے ہاتھ میں تھامے نیچے اتر رہا تھا۔ جیسے کسی مجسمے کے پاس سے گزرا جاتا ہے، وہ خاموشی سے اس کے پاس سے گزر گئی۔

    ’’ناشتا؟‘‘ اس نے پلٹ کر مؤدب لہجے میں کہا تھا، ’’صاحب نے فرمایا ہے۔‘‘

    وہ ستون سے موڑ کاٹ کر گراؤنڈ فلور میں داخل ہوئی اور خاموشی سے چاروں طرف دیکھنے لگی۔ عمارت کے مرکزی دروازے کی ناب گھما کر وہ ڈرائیو وے پر آ گئی۔ سورج کی تیز روشنی نے اسے تھوڑی دیر کے لیے چندھیا دیا۔ کھل جا سم سم۔ لیکن وہ علی بابا کے مقدر والی نہیں تھی۔

    اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔ نہ ماضی میں کچھ بچا تھا، نہ مستقبل کے لیے کوئی سرمایہ تھا۔ کہاں سے لائے وہ ایسا ترازو، جس میں اشرفیاں تولے۔

    کسی شخص نے ٹوپی اتار کر اسے سیلوٹ کیا۔

    ’’صاحب کا حکم ہے، جہاں آپ کو جانا ہے، پہنچا دیا جائے۔‘‘ اس نے چابی ہاتھ میں لیے شخص کی طرف دیکھا۔ جیسے وہ کسی ایسے سیارے سے آئی تھی، جہاں اپنی یادداشت کھو بیٹھی تھی۔ وہ چپ چاپ چلتی رہی۔ پھر اس نے ایک مستقل چپ اختیار کر لی۔

    اس وقت بھی جب مسز بشیر نے ساری رات بغیر اطلاع باہر رہنے کے بعد علی الصبح اسے آتے دیکھا۔ اس وقت بھی جب ساری رات کی جاگی صائمہ اسے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور لڑکیاں بڑی دلچسپی سے ریلنگ سے لٹک لٹک کر تماشے دیکھتی رہیں۔ پھر اس کے اردگرد وارڈن اور سپرنٹنڈنٹ نے منڈلانا شروع کر دیا۔

    ’’طغرل رات گئے تک یہاں بیٹھا رہا۔‘‘ صائمہ اسے چپکے چپکے بتا رہی تھی، ’’وہ کہتا تھا۔ تم اس کے ڈرائیور کی بجائے کسی اور کے ساتھ کہیں چلی گئی ہو۔ صبح سے ذرا ہی پہلے اٹھا ہے اور وارڈن پر خوب گرج برس کر گیا ہے۔ اس کی امی بھی ساتھ تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں، انتظامیہ ایسی لڑکیوں کے ساتھ مل کر کاروبار کر رہی ہے۔‘‘

    صائمہ کی آنکھیں پھر سے بھر آئیں، ’’تم کہاں چلی گئی تھیں طوبیٰ؟ کیا ہوا تھا؟‘‘

    لیکن وہ چپ ہی رہی۔

    بورڈ کے ممبرز کے سامنے بھی وہ گنگ بیٹھی رہی۔ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین نے بہتیرا اس کو کورکرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر غزنوی اس کے حق میں بولے لیکن چوکیدار، وارڈن، سپریٹنڈنٹ، ہوسٹل کی طالبات حتیٰ کہ خود اس کے گارجین کی گواہی اس کے خلاف تھی۔

    اور وہ دم بخود تھی۔

    وقت بہتر فیصلہ کرتا ہے۔ اس نے خاموشی سے سوچا تھا اور خاموشی ہی خاموشی میں اس کو مجرم قرار دے کر ہوسٹل سے نکال دیا گیا۔ ثبوت کے طور پر صفائی والے بورڈ کے سامنے ایسی بےشمار وارننگ کی آفس کاپیاں پیش کی گئیں، جو اسے ہر روز دروازہ کھولنے پر فرش پر پڑی ملتی تھیں۔ عام حالات میں ان کو نظر انداز کر دیا جاتا۔ لیکن اب تو وہ جرم کا ثبوت تھیں۔ صائمہ کو بھی اس کی پشت پناہی کرنے پر سخت قسم کی وارننگ ملی اور اس کے گھر والوں کو آگاہ کر دیا گیا۔

    یونیورسٹی سے اس کو نکالنا ڈاکٹر غزنوی کے شوروغل کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا۔ یونین نے بھی کوئی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ الیکشن دور تھے اور انہیں کسی خاص سٹنٹ کا انتظار نہیں تھا۔

    وہ بزدل نہیں تھی۔ لیکن وہ پلٹ کر یونیورسٹی میں بھی نہیں گئی۔ وہ چپ چاپ ڈاکٹر غزنوی کی بیوی کی طرف دیکھتی رہتی۔ وہ بڑی بامروّت خاتون تھیں۔ لیکن شوہر کی لاڈلی طالبہ کو ایک مدت تک کے لیے اپنے گھر میں برداشت کر نا ان کا ہی حوصلہ تھا۔

    پھر بھی وہ دن بھر میں کتنی مرتبہ کیلنڈر کی طرف دیکھتیں کہ شاید تاریخ بدل گئی ہو۔ شاید اس کے باپ کا خط آ جائے، یا اس کے گارجین واپس آ کر اس سے شادی پر آمادہ ہو جائیں یا وہ کم از کم ایک مرتبہ منہ ہی کھول دے کہ اگر وہ مجرم نہیں تھی تورات بھر کہاں رہی۔ ایسی کون سی افتاد آ پڑی تھی اس پر۔ اس کے عزیز و اقارب ایک ایک کر کے چھوڑ گئے تھے۔ منگیتر اور اس کی ماں نے قطع تعلقی کا اعلان کر دیا تھا۔ دوست احباب منہ پھیر جائیں تو کیا ہم ہی۔۔۔؟ وہ جھنجلاکر اپنے شوہر کا منہ دیکھتیں، جوہر وقت اس کی دل جوئی پر آمادہ رہتا۔

    ’’پتا نہیں لڑکیاں اس قسم کی کیوں ہوتی ہیں؟ وہ اپنے آپ کو گنی پگ کیوں بنوا لیتی ہیں۔ اس میں کون سی شیخی ہے کہ آؤ ہم پر تجربے کرو۔‘‘ انہیں زیادہ غصہ اپنی بہن پر آتا تھا جس نے کھڑے کھڑے طوبیٰ مراد کو آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیا تھا۔

    ’’تمہیں نہیں پتا۔‘‘ وہ ان سے کہتی، ’’مجھے ایسے لگتا ہے جیسے کسی پہاڑ کے دہانے پر آپ پکنک منانے آئیں اور وہ اچانک پھٹ پڑے۔ تب آپ کو پتا چلتا ہے، یہ آتش فشاں ہے۔ اوپر سے حسین اور پرسکون، اندر سے بھڑکتی آگ۔‘‘

    انہوں نے گرد جھاڑتے، ہاتھ روک کر ناگواری سے اپنی بہن کی طرف دیکھا۔

    ’’مجھے اس قسم کے فقروں سے کوفت ہوتی ہے اور میرے گھر میں، میرے اردگرد، اسی قسم کی باتیں کی جاتی ہیں۔

    یہ سب جھوٹ ہے۔ ان باتوں کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔

    یہ باتیں کتابوں میں لکھی ہوتی ہیں اور کتابیں پڑھنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے، بتاؤ۔‘‘

    پھر جب یونیورسٹی کا وہ گروپ اس سے ملنے آتا جن کے خیال میں اس نے بد تہذیبی کی انتہا کرکے، سارے اصول توڑ کر، بہادری کا اعلیٰ اعزاز حاصل کر لیا تھا۔ مظلوموں کی صف میں اول کھڑا کرنے کے لیے انہیں طوبیٰ مراد نہایت مناسب لگتی۔ وہ جوق در جوق اس سے ملنے آتے اور انہیں منٹ منٹ پر چائے بنانی اور پیالیاں دھونی اور توڑنی پڑتیں۔ اس پر وہ بار بار کیلنڈر بھی دیکھتیں۔

    لیکن پھر یہ طوفان تھم گیا۔ اس نے ہونٹوں پر سکتہ طاری کر لیا تھا۔ لوگ چٹ پٹی سی کہانی سننے کے لیے بڑی دلچسپی سے آتے تھے۔ ممکنہ سکینڈل بھی اسے سنا ڈالتے۔ افواہوں کے بہانے دل میں ابھرتے شکوک کو زبان دیتے۔

    ’’وہاں کیمپس میں تو یہ افواہ ہے کہ تم اس رات۔۔۔‘‘ وہ ایک کہانی سناتے۔

    ’’وہاں تو یہ سکینڈل چل رہا ہے کہ اس رات۔۔۔‘‘

    ایک پر ایک قصہ، کہ شاید وہ تلملا کر افواہوں کی تردید کرتے ہوئے سچ بات بتائےگی یا شرمسار ہوکر گردن جھکا لےگی۔ لیکن تائید ،نہ تردید۔ وہ خالی خالی آنکھوں سے شال لپیٹے، دونوں پاؤں صوفے پر رکھے جیسے کہیں ایک ہی جگہ رک سی گئی تھی۔ (ہاں اس واقعے کی وضاحت اسی کو کرنی ہے جس نے یہ کہانی لکھی ہے)۔ پھر وہ پرانا قصہ بن گئی۔ کیمپس کی زندگی بھی تازہ اخبار کی طرح ہے۔ ہر روز نئے سکینڈل، ہر روز ایک نئی چٹپٹی کہانی۔ پھر کسی نئی کہانی نے پچھلی کہانی کی جگہ لے لی اور لوگ اسے کسی پرانے اداریے کی طرح پڑھ کر پھینک بیٹھے تھے۔

    صائمہ کو اس کے والدین واپس لے گئے۔ مسز غزنوی کی بہن کے ایڈمیشن کا زمانہ تھا۔ وہ پشاور چلی گئی۔ ڈاکٹر غزنوی کیمپس کی سیاست میں گم ہو گئے۔ مسز غزنوی نے شکر کا کلمہ ادا کیا۔

    طغرل وغیرہ کبھی ڈاکٹر غزنوی کے گھر نہیں آئے۔ ہاں ان کی ممی کا فون آیا تھا۔ مسز غزنوی کے لیے کہ انہوں نے سارے حالات لندن لکھ دئیے ہیں اور وہ اگلے فیصلے کے لیے اس کے ڈیڈی کے خط کی منتظر ہیں۔ اس کے باپ نے نہ کبھی اسے خط لکھا تھا، نہ انہیں فون کی فرصت تھی۔

    ایک ہی جگہ گڑی تصویر کی طرح وہ بھی خود کو دیکھتے دیکھتے اکتا گئی تھی۔ آپ کسی کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کرنے نکلیں یا اپنی بدقسمتیوں کا بہتان ایک کے یا دوسرے کے سر باندھیں، اس سے کوئی فائدہ نہیں۔ سابقہ سب تحریروں پر سیاہی پھیر کر اسے ازسرنو اٹھنا ہے۔

    اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہے۔ اس نے کئی مرتبہ گرنے سے پہلے خود کو اسی طرح سنبھالا ہے۔ وہ تازہ دم ہو کر کھڑی ہو گئی۔

    پہلے بسوں، پھر ٹرین، پھر بس اور لاریوں سے سفر کرتے وہ جس علاقے کے گڈے میں ہچکولے کھاتی یہاں تک پہنچی تھی، وہ اس کے شہر سے دنوں کی مسافت پر تھا۔ حالاں کہ اس کو اتنی دُور آنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔

    اس نے ریت کے بلند ٹیلے میں پاؤں دھنسا کر دور سڑک کی طرف دیکھا جو ٹوٹی ہوئی باریک لال لال اینٹوں سے غالباً شیر شاہ سوری نے بنوائی تھی۔ پھر وہ اس کی مرمت کروائے بغیر مر گیا۔ اس پر گڈے چلتے تھے یا اونٹ گاڑیاں۔ آسمان پر تنی ہوئی سرخ ریت اور کھجوروں کے جھنڈ کے نیچے کہیں کہیں ڈول اور رسی والے کنویں تھے۔ پس منظر میں صرف آندھی اور ریت تھی۔

    وہ بھلا کس سے بھاگ کر اتنی دور آئی ہے۔ اس کے تعاقب میں کون آ رہا تھا۔ کوئی بھی نہیں اور کیوں صبح اٹھ کر وہ اس ٹوٹی ہوئی سڑک کو منتظر نظروں سے دیکھنا نہیں بھولتی، جس پر نرسری کے بچوں کی طرح رسی تھامے ایک قطار سے اونٹ گھنٹیاں بجاتے گزرتے جاتے ہیں۔ پھر سڑک کے پیچھے سے کھجوروں کے جھنڈ میں ایک سرخ گولا نمودار ہوتا ہے، جو آہستہ آہستہ دہکتا ہوا سورج بن جاتا ہے۔ زمین تپ جاتی ہے اور ریت بھٹیارن کے تنور کی طرح چنے بھوننے کے کام آتی ہے۔ وہ بھاگتی بھاگتی یہاں تک پہنچی تھی حالاں کہ اسے پیچھے سے کسی نے آواز بھی نہیں دی۔ کسی نے روکنے کی کوشش کی، نہ پکارا۔

    ’’اماں!‘‘ (سرائیکی زبان میں لڑکی یا عورت دونوں کو اماں بلاتے ہیں)۔

    اس نے آواز کی سمت پلٹ کر دیکھا۔ ’’اماں ناشتا تیار ہے۔‘‘

    وہ مرے مرے قدموں سے اترتی اس کے پیچھے چل پڑی۔ وہ ان سب مقامی لوگوں میں ابھی تک امتیاز نہیں کر پائی تھی۔ سب کی زبان ایک سی تھی، میٹھی اور مخلص۔ سب کے چہرے ایک جیسے تھے۔ دھوپ اور محنت کی تمازت سے تانبے کی طرح تپے ہوئے۔ دھل دھل بہتی کپسی (چھوٹی نہر) کو اس نے ایک چھلانگ سے عبور کیا۔ گنے کے کھیتوں میں بچے باتھ روم کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ ہلکی ہلکی ہوا میں اسے روز کی طرح یہ سب بہت اچھا لگا۔ ابھی تھوڑی دیر میں لو چلنے لگےگی اور پھوپھی جان اسے گھر میں چھپا دیں گی۔

    حالاں کہ وہ بھاگتی دوڑتی یہاں چھپنے ہی تو آئی تھی کہ کوئی اسے ڈھونڈے، تلاش کرے، کھوجے اور آبلہ پا ریت میں دوڑتے دوڑتے اس تک آ پہنچے۔ لیکن کون؟

    اسے ڈھونڈنے کون نکلےگا۔ کون اسے دریافت کر لےگا۔ وہ کہاں کی امریکہ تھی۔

    سامنے بغیر کسی ترتیب کے بنے کچے مکانوں کی بہتات تھی۔ وہ تو شکر ہے بارش نہیں ہوتی، ورنہ مکان کیچڑ کا ڈھیر بن جائیں۔ اس نے نالی کے کنارے بنے اپنے مکان میں قدم رکھا۔ نیم کی گھنی چھاؤں نے اسے بھی گھر بنا ڈالا تھا۔ پھپھی صبح سے پلنگ پر دستر خوان بچھائے، ناشتا سجائے اس کی منتظر تھیں۔ کچھ دیر یونہی انتظار کرتے انہوں نے دوپٹے کی اینڈوی سی بنا کر رنگین پائے پر رکھ لی۔ اس پر اپنا سفید بالوں سے بھرا بوڑھا سر رکھے وہ آرام کر رہی تھیں۔

    ’’آ گئی بیٹی؟ ناشتا کر لے۔‘‘

    وہ اس کو منع کرنا چاہتی تھیں کہ وہ صبح صبح باہر نہ نکلا کرے۔ لیکن پھر وہ اس کے معاملات میں دخل بھی نہ دیتیں۔ وہ شہری لڑکی تھی اور سب کے اپنے اپنے معاملات ہوتے ہیں۔ گھی سے چپڑی روٹی پر ٹھنڈی ملائی کی موٹی تہ گراتے انہوں نے اس کی پلیٹ اس کے آگے سرکا دی۔ وہ آ گئی تھی، یہ ہی غنیمت تھا۔

    ’’یہاں تو شہر سے بھی خط مہینے مہینے بعد آتے ہیں۔ رضی بھی بہاول نگر سے خط بھیجتا ہے تو بیس پچیس دن لگ جاتے ہیں۔‘‘

    ان کے خیال میں وہ شاید اپنے باپ کے خط کاانتظار کرتی رہتی تھی۔

    ’’اور لندن سے خط آنے میں تو چھے ماہ چاہئیں، چھے ماہ۔‘‘ اور شاید اس طرح وہ چھے ماہ ان کے پاس ہی ٹھہر جائے۔ ان کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، ان کے بھائی نے لندن میں نئی زندگی شروع کر کے سگی ماں جائی سے آنکھیں کیوں پھیر لی تھیں۔ نہ اس بات سے دلچسپی تھی کہ جب انہوں نے ساری زندگی اپنی اکلوتی بھتیجی سے انہیں دور رکھا تھا تو اب بھی اسے یہاں بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔

    وصی، فورٹ عباس میں فیملی پلاننگ میں کوئی ملازمت کر رہا تھا۔ وہ جمعرات کی شام کو آتا اور ہفتے کی صبح کو واپس فورٹ عباس چلا جاتا۔ پھپھی تو پڑھی لکھی نہیں تھیں، وہ تو تھا۔ وہ کرید کرید کر سوال کرتا۔

    ’’اچھا تو تم لندن رہنے نہیں گئیں؟‘‘

    ’’ماموں نے ایک دفعہ لکھا تھا انہوں نے تمہاری منگنی لاہور میں کہیں کر دی ہے۔ ہیں؟‘‘

    ’’ماموں تو آتے تھے کبھی۔ تم ان کے ساتھ کیوں نہیں آئیں؟‘‘

    یہ ڈاکٹر غزنوی کا گھر نہیں تھا، اس کے دادا کا گھر تھا ،جس پر حق اور حصے جتا کر نہیں مانگے جاتے۔ دیواریں خود بتاتی ہیں ہم پر تمہارا حق ہے۔ تم ہم میں سے ہی ہو۔ وہ نیم کی گھنی ٹھنڈی چھاؤں میں پاؤں پسار لیتی۔ جی چاہتا تو جواب دیتی۔ نہ جی چاہتا تو منہ بھی نہ کھولتی۔

    صبح سویرے مکھیوں کی یلغار حملہ آور ہوتی۔ لوگ سویرے ہی کمروں میں چقیں گراکر بند ہو جاتے۔ مکھیاں، گرد، مٹی، ریت دھول، گرمی، جیسے چیزوں کی شدت اس پر اثر انداز بھی نہ ہوتی۔ وصی کہتا رہتا:

    ’’فلاں کمرا ہو اکے رخ ہے، وہ بہتر ہے۔ وہاں گرمی کم پڑتی ہے۔‘‘

    ’’تم فلاں عورتوں کو بلا لیا کرو۔ وہ پنکھا جھلانا جانتی ہیں۔‘‘

    لیکن وہ پسینے میں ڈوبی ایک کمرے سے دوسرے کمرے، دوسرے کمرے سے برآمدے میں مزے مزے میں پھرتی رہتی۔ وہ ایک مفرور مجرم تھی۔ اس کے باپ نے اس کے لیے بڑی اچھی سزا تجویز کی تھی۔ اسے یہ جگہ پسند آئی۔ دن بھر سوتے اور رات کو آسمان پر لاکھوں کروڑوں رنگ برنگے ستاروں کو دیکھتی، وہ پاگل ہو جاتی۔ دن بھر جھلسنے والی ریت رات کو ٹھنڈی ہو جاتی۔ وہ کتنی دیر ریت میں پاؤں دے کر مزے لیتی۔

    لوگ اس کے بارے میں پھپھی کو ڈراتے تھے، ’’رات کو باگھ بولتا ہے۔ نہر کے کنارے گیدڑ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اتنی رات تک باہر نہ رہنے دو۔ پردیسی لڑکی ہے۔‘‘

    ’’صرف افسوس یہ ہے۔‘‘ وہ وصی سے کہتی، ’’ تم چھے بجے کو رات گئے کہتے ہو۔‘‘

    ’’مجھے پھرنے دو وصی۔‘‘ وہ رقّت سے کہتی، ’’میں نے اتنا خالص پن، اتنی سچائی، اتنی فطرت، کہیں نہیں دیکھی اور تمہیں پتا ہے آئندہ کی بھی کوئی امید نہیں۔‘‘

    پھر وہ چلا جاتا اور وہ عام طور پر ٹیلوں کے آس پاس اس لال اینٹوں والی دھول میں اٹی سڑک کے آس پاس منڈلاتی رہتی۔ وہ بالوں میں ریت چمکائے گڈے سے اترتا تو اس کو زمانے بھر کی دولت مل جاتی۔

    وہ ایک مرتبہ اس کو فورٹ عباس لے کر گیا۔

    اور ایک مرتبہ وہ رضی کے گھر بہاول نگر بھی گئی۔ رضی کی بیوی بڑی اچھی تھی۔ اس نے اس کی خاطر بھی بہت کی اور اس خواہش پر اصرار بھی کیا کہ ’’یہاں بجلی پانی ہے۔ تم وہاں کی عادی نہیں۔ جب تک تمہارے ابانہیں آتے، ہمارے پاس ٹھہرو۔‘‘

    لیکن اس کا ذرا بھی دل نہیں لگا۔ وہ واپس آئی تو دوڑتی ہوئی ٹیلوں پر چڑھ گئی۔ جیسے وہ اس کے بغیر اداس ہی تو ہو رہے تھے۔

    ’’میرے پیچھے کوئی آیا تو نہیں پھپھو؟ کوئی خط یا کوئی میسج؟‘‘

    ’’کس کا؟‘‘ پھپھی گھر داری میں مصروف اس کی طرف سر اٹھاتیں۔

    پھر وہ گھڑے سے کٹورا بھر کر پانی پیتی۔

    واقعی، کس کا؟ کون لکھےگا؟ کون پوچھےگا؟ وہ کون سا اپتا پتا نشان چھوڑ کر آئی تھی۔

    پھر جب ہفتہ ہفتہ بھرو صی، فورٹ عباس رہتا اور وہ بور ہوتی تو اس نے آس پاس کے بچوں کو اکٹھا کرکے پڑھانا شروع کر دیا۔ گاؤں کا اپنا پرائمری سکول تو تھا ہی لیکن بچوں کو سکول بھیجنے کا رواج نہ تھا اور بچیوں کی بےپردگی بھی ہوتی تھی۔ وہاں بچیاں عورتیں سب کثرت سے سفید ٹوپی والے برقعے پہنے گھومتی پھرتیں وہ گھر گھر پھر کر بچیاں اکٹھی کرتی اور ان کو زبردستی پڑھانے بیٹھ جاتی تھی۔ پھپھی کی علاقے میں عزت بھی بہت تھی اور ان کے گھر میں کوئی ایسا تھا بھی نہیں ،جس سے پردہ تھا۔

    پھر اس نے دوپہروں کی مصروفیت کا حل ڈھونڈ لیا۔ کھجور کے خشک پتوں سے ٹوکریاں اور چھاج بنانے والے گروپ کو اس نے جوائن کر لیا۔ پتے سکھانا، رنگوں میں بھگونا، پھر ان کو چوٹی کی طرح گوندھ گوندھ کر مختلف شکلیں دینا، سکول سے بھی زیادہ دلچسپ تھا۔

    پھر اس دن وصی ٹٹار گرمی میں لو میں جھلستا بغیر ویک اینڈ کے گھر واپس آ گیا۔ وہ چہرے سے بہت سنجیدہ لگ رہا تھا۔ پہلے وہ گھر گیا۔ پھر اس کو لینے اس گھر میں آ گیا، جہاں محلے بھر کی لڑکیاں اکٹھی ہو کر ہنر دکھا رہی تھیں۔

    ’’تم اس موسم کی عادی نہیں ہو۔ اس طرح بھری دوپہر میں لو میں پھرنے سے سر سام ہو جاتا ہے۔‘‘

    وہ کچھ دیر چپ رہا۔ ’’کیوں سیکھ رہی ہو تم یہ سب کچھ؟ کیا ہو آخر تم۔ تم اس مکان میں کیسے رہ لیتی ہو؟‘‘

    ’’سنا ہے بڑا منافع بخش کاروبار ہے۔‘‘ اس نے بے پروائی سے کہا، ’’اور ایسے مکانوں میں، میں ہی رہ سکتی ہوں۔ ایک دفعہ پہلے بھی یہ دعویٰ میں نے کیا تھا۔ لیکن کسی نے میرا اعتبار نہیں کیا۔‘‘

    وصی نے بےاعتباری سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’منافع کی تمہیں کیا ضرورت ہے؟ اچھا۔‘‘

    ’’منافع کی کسے ضرورت نہیں میرے بھائی۔‘‘ اس نے فلسفیانہ انداز اختیار کیا، ’’پیسہ بہت بڑی ضرورت ہے۔‘‘

    ’’تمہارے لیے بھی کیا یہ ضرورت ہے؟‘‘

    اس نے ایک مدت سے اس کے معاملے سے چشم پوشی اختیار کر رکھی تھی۔ بے ضرورت سوال، جرح، معلومات، اسے پھپھی نے منع کر دیا تھا۔

    طوبیٰ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔

    ’’ماموں کا خط آیا ہے لندن سے۔‘‘

    ’’میرے نام ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔ میرے نام۔‘‘

    ’’یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ وہ میرے نام کے خط ہمیشہ کسی اور کے نام بھیجتے رہے ہیں۔‘‘

    ’’کیا انہوں نے تمہیں عاق کر دیا ہے؟‘‘

    ’’ہاں شاید۔ ہمیشہ سے۔ بہ وجہ نافرمانی۔ کیا انہوں نے تمہیں لکھا ہے یہ؟‘‘

    ’’بدگمانی اچھی چیز نہیں ہوتی۔‘‘ اس نے چڑ کر کہا، ’’ماں باپ دشمن نہیں ہوتے۔‘‘

    ’’کلیشے۔‘‘

    ’’اور تم جتنی Morbid ہو، ان کے لیے ہی یہ کلیشے تیار ہوتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ تمہارے بینک میں انہوں نے کچھ پیسے ٹرانسفر کیے ہیں اور ان کا یہ احساس ذمہ داری ہے۔ چوں کہ تمہارا ایڈریس تبدیل ہو گیا ہے، اس لیے انہوں نے یہاں بھی لکھ بھیجا ہے۔‘‘

    اس نے دس پندرہ قدم چل کر کہا تھا، ’’انہوں نے کچھ اور بھی لکھا ہے!‘‘

    پھر وہ اٹک سا گیا، ’’انہوں نے تمہیں بتانے سے منع تو نہیں کیا۔ اس لیے بتائے دیتا ہوں اور مجھے تم سے بددیانتی کرنا اچھا بھی نہیں لگےگا۔ دراصل انہوں نے مجھے ایک فرض بھی سونپا ہے کہ میں تمہاری منگنی کے ٹوٹ جانے کی تحقیقات کروں۔‘‘

    ’’یہ عجیب بات ہے۔ انہوں نے میری منگنی کے بارے میں میرے منگیتر سے لے کر تم تک ہر ایک سے پوچھ لیا۔ لیکن مجھ سے نہیں پوچھا۔‘‘

    ’’تمہیں بھی چاہیے تھا تم ان کو آگاہ کرتیں۔ خود لکھ دیتیں۔‘‘ وہ ڈپٹ کر بولا۔ اس پر ایک ناگہانی ذمے داری آن پڑی تھی اور وہ غریب بہت تابعدار تھا۔

    وہ ہنس پڑی۔ ’’چلو تم اپنی تحقیقات کا آغاز مجھ سے کرو۔‘‘

    ’’تم سے ہی کروں گا۔‘‘ وہ دانت پیس کر بولا تھا۔

    ماشکی، چمڑے کی مشک میں پانی بھرکر صحن کا چھڑکاؤ کر رہا تھا۔ پھپھی پردے میں تھیں اور وہ چق سے ناک لگائے مٹی کی خوشبو اپنے پھیپھڑوں میں اتار رہی تھی۔

    یہ دوسرا ہفتہ تھا اور پتا نہیں وصی کیوں نہیں آیا؟ اس نے کسی حد تک دل لگا ہی لیا تھا۔ لیکن اس کے نہ آنے سے دل پھر اٹھنے لگتا۔ وہ بے چارہ ذمے داری سے بھاگنا چاہتا ہے اور اس کو کہہ بھی نہیں سکتا۔ شاید اسی لیے آنکھیں پھیر کر بیٹھ گیا ہے۔

    ’’پھپھی، وصی کیوں نہیں آیا؟‘‘ وہ اناج کی کوٹھری سے تخت تک ان کے پیچھے پیچھے پھرتی۔

    ’’وہ تو پہلے بھی کئی مرتبہ نہیں آتا تھا۔ اب تو تو آئی ہوئی ہے۔ ورنہ تو میں نے اسے آنے سے منع کر رکھا ہے۔‘‘

    ’’وہ مجھ سے ناراض نہ ہو گیا ہو۔‘‘

    ’’ناراضگی کا ہے کی؟‘‘ انہوں نے حد درجہ سکون سے نماز کی نیت باند ھ لی، گویا بحث ختم ہو گئی تھی۔ کاش پھپھی کے دل کا یہ گہرا اطمینان اسے بھی مل جائے۔ وہ کسی چیز سے نہ جھنجلاتی ہیں، نہ چونکتی ہیں، نہ ہی چڑتی ہیں۔

    حسد۔ جلن۔ نفرت۔ غصہ۔ کاہے کو؟ انہیں ان حقیقتوں کا ہونا ہی سمجھ نہیں آتا اور وصی اس سے پوچھتا رہتا ہے۔

    ’’تمہاری زندگی اتنی بے معنی سی کیوں ہے۔ بس گزارتی جا رہی ہو۔ ایسے لگتا ہے تمہاری زندگی میں گرمی کی چھٹیاں آئی ہوئی ہیں۔‘‘

    ’’آج کا دن خاص طور پر بےحد اداس دن ہے۔‘‘ اس نے خود سے حتمی فیصلہ کیا۔ ’’اور اس کا گزرنا محال ہو رہا ہے۔‘‘ اس نے گہرا سانس لیا۔

    بالٹی میں کنویں کا یخ پانی بھرا ہوا تھا۔ صاف ستھرا جگر جگر کرتا غسل خانہ۔ اس نے اپنے دماغ کو بالٹی بھر پانی سے ٹھنڈا کیا۔ شام ختم ہونے کے قریب آئی تھی اور دن بھر کی تپتی چیزیں آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی تھیں۔ اس نے چپل بدلے۔ ململ کا دوپٹہ اوڑھا۔

    ’’پھپھی میں ٹیلوں کی طرف جا رہی ہوں۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ انہوں نے اسی سکون سے کہا تھا۔ وہ دادا پڑ دادا کے وقت سے یہاں آباد تھے اور کہیں کوئی خطرہ نہیں، انہیں اچھی طرح پتا تھا۔

    ریت کے یہ چھوٹے چھوٹے قطار در قطار ٹیلے (جنہیں مقامی لوگ ’’ٹبّے‘‘ کہتے ہیں) اپنے گھر کی طرح خوب صورت تھے۔ کہیں کہیں ہیروں کی طرح دمکتے ریت کے ذرے۔ مشکل سے چوٹی تک پہنچو اور بےوقوفوں کی طرح سلائیڈ لیتے نیچے۔ گاؤں کا آسمان بہت پھیلا ہوا تھا۔ تاحد نظر وسیع، غبار آلود اور درمیان میں چھوٹے چھوٹے بگولے اور گاؤں کے کنارے اینٹوں والی کچی پکی ٹوٹی پھوٹی سڑک۔ ابھی ایک اونٹ گاڑی گزری تھی اور دُور سے اس نے دیکھا کوئی کار ہچکولے کھاتی اینٹوں پر چھلکتی چھلکتی اس سڑک پر آرہی تھی۔ یہ سڑک اگلے گاؤں بھی جاتی تھی۔ اس گاؤں یا اس گاؤں میں کسی سے کوئی ملنے آیا ہے؟ رضی بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی اور بھی۔

    گاڑی کے مسلسل چلتے رہنے سے ریت آندھی کی طرح اڑتی پھر رہی تھی۔ وہ آہستہ روی سے اترتی ٹبّوں کو چھوڑکر کھجوروں کے جھنڈ کے نیچے آ گئی۔ پکی پکی گہری سرخ کھجوریں دور دور تک زمین پر گری پڑی ہوئی تھیں۔ اس نے سانپ کی طرح سرسراتی ریت پر چوکڑی مار کر بیٹھتے سوچا۔ گاڑی گزر جائے تو پھر سب کچھ اسی طرح پرسکون ہو جائےگا۔ فضا، سڑک، ریت اور کھجوروں کے درخت۔ وہ آلتی پالتی مارے ٹھٹک سی گئی۔ کبھی ایسے لگتا ہے جیسے یہ اندیشے نہیں تھے، ہماری دیرینہ تمنائیں تھیں اور جب غبار چھٹےگا تو سب سے پسندیدہ منظر ہمارا منتظر ہوگا۔

    گاڑی کے بریک اس کے سامنے جام ہو گئے۔ لیکن غبار ابھی چھٹا نہیں تھا شاید۔

    اور جیسے ایک ریت کا طوفان اس کے اندر سے اٹھا تھا۔ وہ اس بگولے کے ساتھ چکراتی بل کھاتی بے ارمان ہو گئی۔ وہ کسی جوگن کی طرح آلتی پالتی مارے ریت کے طوفان میں دھونی رما رہی تھی۔

    اور وہ کھڑے قد اس کے عین سامنے تھا۔ دھوپ کے رخ میں اس کا پھیلتا سایہ، کھجوروں کی چھاؤں کی طرح اپنے تنے سے بہت دُور تھا۔ راستے کی طویل مسافت نے اسے گرد آلود کر دیا تھا۔ اس کے سر کے بال، بھنویں اور پلکیں، مٹی میں اَٹ کر سفید ہو گئی تھیں۔

    طوبیٰ نے دھیرے سے نگاہیں اٹھاکر اس کی طرف دیکھا۔ ا س کی آنکھیں چندھیا گئیں۔

    عادل نواز کے پیچھے پھیلا ہوا روشن سورج۔

    اور تازہ دم شفاف مسکراہٹ کے ساتھ اجلا چہرہ۔

    وہ گرد آلود پتھر پر اس کے نزدیک بیٹھ گیا جیسے ابھی یہیں سے تو گیا تھا۔ خاموش لیکن پرسکون۔ سفر کی تکان سے چور۔ وہ اس کے برابر ہی تو بیٹھی تھی۔ کسی پھوہڑ عورت کے ڈرائنگ روم میں رکھے دو مجسموں کی طرح گرد آلود، ان جھڑے، ان پونچھے۔

    لیکن وہ یہاں تھے تو سہی۔ اب کوئی جھاڑ بھی لےگا اور پونچھ بھی دےگا۔ عادل نے گردن گھماکر اس کی طرف دیکھا۔

    ’’تم نے دیکھا مجھ سے چھپنا کس قدر مشکل ہے۔‘‘ اس نے طوبیٰ سے زیادہ خود سے کہا تھا، ’’صرف اگلے دن صائمہ سے ڈاکٹر غزنوی اور ڈاکٹر غزنوی سے تمہارا پتا میں نے ڈھونڈ لیا تھا۔‘‘

    طوبیٰ نے آنکھیں اٹھا کر لمحہ بھر کے لیے اس کی گرد آلود پلکوں کے پیچھے تھکی ہوئی آنکھوں میں دیکھا۔پھر سر جھکا لیا۔

    ’’ہاں پھر دیر کس لیے ہوئی؟‘‘ اس نے طوبیٰ کے بغیر ادا کیے سوال کو سنتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’دیر اس لیے ہوئی کہ کچھ قرض میرے ذمے تھے، جنہیں چکانے ٹھہر گیا تھا۔ میں نے طغرل کو ایکسپوز کر دیا۔ تم نے دیکھ لیا۔ وہ اور اس کا خاندان تمہارے اہل نہیں تھے، جس کا اعتبار تم نے تجربے سے کیا۔ بتانے سے نہ کرتیں۔

    تمہارے والد سے مل کر آیا ہوں اور ان سے وعدہ لے آیا ہوں کہ وہ فوری طور پر پاکستان آئیں گے اور تمہیں ان سب لوگوں کے سامنے سرخرو کر کے جائیں گے، جن جن کے ہاتھوں تمہارے ذہن کو اذیت ملی ہے۔‘‘

    وہ بیٹھے سے یک لخت کھڑی ہو گئی۔ پتا نہیں کیوں وہ اس موضوع سے بھاگتی رہی تھی۔

    ’’ایک کام اور بھی کیا ہے۔‘‘ وہ اس کے برابر کھڑے ہوتے ہوئے بولا تھا، ’’حالاں کہ اس کے لیے مجھے تم سے پیشگی اجازت لے لینی چاہیے تھی۔‘‘

    ’’کیا؟ ‘‘بےساختگی میں اس نے پوچھا تھا۔

    ’’طغرل کے منہ پر تھپڑ مار آیا ہوں۔‘‘

    وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بےتحاشا ہنس پڑی۔

    ’’میں کسی ایسے شخص کو معاف نہیں کر سکتا جو تمہارا اعتبار نہ کرے اور تم نے وصی سے یہ بھی غلط کہا کہ میں نے ہی تمہارا اعتبار نہیں کیا۔‘‘ اس نے اسی روانی سے کہا تھا۔

    ’’مجھے تمہارا اعتبار ہے طوبیٰ۔ اسی لیے میں تمہیں کچے مکانوں میں لے جانے کے لیے آیا ہوں۔ کیوں کہ اب اس کے سوا تمہیں دینے کو اور میرے پاس کچھ بچا بھی نہیں۔‘‘

    ’’وصی؟‘‘ وہ دو قدم پیچھے ہٹتی استعجاب سے بولی تھی۔

    ’’وہ سب جو ہمارے درمیان آئے، اب ہم میں ہیں ہی نہیں۔‘‘ اس نے اس کی حیرت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا تھا، ’’فیکٹری۔ ٹینڈر۔ شیئرز۔ گلیمر۔‘‘

    ’’لیکن وصی؟‘‘ اس نے اپنا احتجاج جاری رکھا تھا۔

    ’’وصی ڈیوٹی پر ہے۔ کسی انکوائری کے سلسلے میں۔ وہ ڈاکٹر غزنوی کے گھر مجھے ملا تھا۔‘‘

    وہ اس کی کلائی تھام کر بستی کی طرف ایسے چلا، جیسے راستوں سے خوب باخبر ہو۔

    ’’تو آپ وصی کے کہنے پر آئے ہیں۔‘‘ اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ عادل نے دیکھا، وہ ریت کے گرم ڈھیر میں پاؤں دھنسائے اونٹ کی طرح ضدی بنی کھڑی تھی۔

    ’’دیکھو۔‘‘ اس نے رسان سے کہا،’’ اگر یہ تھپڑ پہلے طغرل پر نہ اٹھ چکا ہوتا تو میں تمہیں دے مارتا۔ مجھے بہرکیف تمہارے گھر میں داخل ہونے کی اجازت حاصل ہے۔ نہ وصی کی طرف سے۔ نہ تمہاری طرف سے۔ یہ اپنے والد کی لکھائی پہچانتی ہو۔ مجھے بہرکیف اس کو پہنچانے کے لیے تمہاری پھپھی کے گھر جانا ہے۔‘‘

    اس کے پیچھے پھیلا ریت کا صحرا پانی کی طرح جھلمل کر رہا تھا۔ چاروں طرف روشنی ہی روشنی تھی۔ وہ خاموشی سے اس کے ریت میں دھنستے قدموں کے پیچھے چلتی رہی۔ اب اسے سڑک پرکسی کا انتظار تھا بھی نہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے