Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بی بی کی نیاز

ذکیہ مشہدی

بی بی کی نیاز

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    ایک بیوہ کو ایک نوزائیدہ کو دودھ پلانے کے کام پر رکھا جاتا ہے۔ بیوہ کا خود کا دودھ پیتا بچہ ہے لیکن وہ اپنے بچے کو ا پنادودھ نہ پلا کر اسے اوپر کا دودھ پلاتی ہے کہ مالکن کا بچہ بھوکا نہ رہے۔ دونوں بچے بڑے ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ملازمہ کا بیٹا ایب نارمل ہے۔ اپنے بچے کو لےکر اسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی کہانی کا مرکزی خیال ہے۔

    مرزا اسلم بیگ آگے آگے اپنی کھڑکھڑیا سائیکل پر اور پیچھے پیچھے سفید برقعے میں ملفوف وہ خاتون میاں جان محمد کے رکشے میں۔ گود میں آٹھ ماہ کا دبلاپتلا مریل بچہ جو معلوم ہو کہ ابھی پیدا ہوا ہے۔ وہ بھی قبل از وقت۔ ایک گوری چٹی تین سالہ بچی بغل میں دبکی ہوئی۔ تازہ چھدی ناک میں سیاہ ڈورا۔ کانوں میں ننھی ننھی چاندی کی بالیاں۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں ایک صاف چادر میں بندھی چند کپڑوں کی گٹھری۔

    لکھوری اینٹ سے بنے اس جغادری مکان کے نچلے حصے میں صاحب خانہ مرزا نصرت بیگ کا تمباکو کالمبا چوڑا کارخانہ پھیلا ہوا تھا۔ اوپر ان کا کنبہ رہتا تھا۔ اوپر جانے کے لیے گھر کے بغل میں بڑی لمبی اور پتلی راہداری تھی۔ اس کے اختتام پر ایک گھماؤ تھا اور پھر زینہ۔ اسلم بیگ نے سائیکل روک دی۔ رکشے والا بھی رک گیا۔ انھوں نے کثیف شیروانی کی جیب سے نکال کر رکشے والے کو پیسے دیے اور بوکھلائی ہوئی خاتون کو راہداری کے دروازے پر لاکھڑا کیا۔ قدرے توقف کے بعد بولے، ’’بی بی میرا کام ختم۔ اب اوپر جاؤ۔ کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ سب تمہارا انتظار ہی کر رہے ہوں گے۔‘‘

    یہ تھا اماں صاحب کا ’ٹیلے کے بڑے مکان‘ میں پہلاداخلہ۔ اس وقت وہ اماں صاحب نہیں تھیں۔ دبلی پتلی، بڑی بڑی روشن آنکھوں، میانے قد اور گوری رنگت والی پچیس سالہ خیرالنساء بیگم، دختر سید امیر علی مرحوم، زوجہ ذوالفقار علی مرحوم (کہ ذوالفقار علی بھی اٹھائیس برس کی عمر میں دوسرے بچے کی پیدائش کے مہینے بھر بعد ہی مرحوم و مغفور ہوچکے تھے) تھیں۔ چوک میں ان کی سسرال والوں کی بساط خانے کی دوکان تھی۔ شوہر بھی اسی پر بیٹھا کرتے تھے۔ ان کے مرنے کے بعد خیرالنساء بیگم کو ترکے میں کچھ دھنک، کچھ گوٹا، چکن کی بیل کے ایک دو تھان، ایک ڈبہ باریک رنگ برنگے موتی اور ایک جویں نکالنے والی لکڑی کی کنگھی حاصل ہوئے۔ باقی دوکان بڑی نند کے شوہر کے حصے لگی۔ اس کائنات کو انھوں نے ایک چھوٹی سی ٹین کی صندوقچی میں بند کیا اور سوچنے لگیں کہ باقی زندگی کیسے گزرے گی۔ پڑھی لکھی تھیں نہیں۔ میکے میں کوئی سہارا نہیں بچا تھا اور سسرال میں جدھر آنکھ اٹھاتیں میدانِ کربلا نظر آتا۔ ایسے آڑے وقت میں مرزا اسلم بیگ کی بیوی فرشتہ رحمت بن کر سامنے آئیں۔ ان کے ایک دور کے عزیز نصرت بیگ کے یہاں خیرالنساء بیگم کی خدمات کی ضرورت تھی۔ یہ شریفوں کا کھاتا پیتا گھرانہ تھا۔ گھر کی بہو کے یہاں جڑواں بچے پیدا ہوئے تھے لیکن دودھ خشک ہوگیا تھا۔

    اوپر پہنچ کر خیرالنساء بیگم گود کے بچے اور بیٹی کو معہ گٹھری بازوؤں کے گھیرے میں سنبھالے زمین پر بیٹھنے لگیں تو خاتونِ خانہ یعنی مرزا نصرت بیگ کی بیوی نے انہیں ہاتھ پکڑ کر برابر بٹھالیا اور بولیں، ’’بی بی، آلِ رسول ہوکر زمین پر بیٹھوگی تو ہمارے گناہ کیسے بخشے جائیں گے۔ یہاں بیٹھو۔‘‘ خیرالنساء نے چھنگلیاں سے آنسوپھونچھے۔ دوپٹے کے کونے میں ناک سڑکی۔

    ’’دیکھو بی بی۔‘‘ خاتونِ خانہ نے ان کی قمیص کی طرف غور سے دیکھا، ’’دو بچوں کو دودھ پلاسکوگی؟‘‘

    ’’جی، اسلم چچا نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ جڑواں بچے ہیں۔ سوچ سمجھ کر آئی ہوں۔ چھدو میاں کو اوپر کے دودھ پر ڈالنا ہوگا۔‘‘

    ’’پھر کوئی شکایت نہ ہو۔‘‘ خاتونِ خانہ نے ان کی طرف پان بڑھاتے ہوئے کہا،

    ’’آپ کے یہاں عزت آبرو کے ساتھ میرے معصوم یتیم بچوں کی پرورش ہوجائے گی تو رُواں رُواں احسان مند ہوگا۔ شکایت کیسی۔‘‘ انھوں نے بڑے عزم کے ساتھ اپنی ستھری آنکھیں اور لانبی پتلی گردن گھماکر ادھیڑ عمر مہربان خاتون کی طرف دیکھا۔ ’’ہاں ہماری تین شرطیں ہیں۔‘‘

    ’’وہ بھی کہہ ڈالو بی بی۔‘‘

    ’’پہلی بات تو یہ کہ ہم صاحب زادوں کو صرف دودھ پلائیں گے۔ ہم سے گو، موت کرنے کو نہ کہا جائے۔ دوسری یہ کہ ہم پردہ دار ہیں، گھر سے باہر جانے اور سوداسلف لانے کا کام ہم نہیں کریں گے۔ گھر کے اندر آپ جو چاہیں کرالیں۔ ہمیں سب کام آتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ۔۔۔‘‘ ان کی گردن تھوڑی اور بلند ہوگئی۔ ’’ہم پر وقت پڑا ہے تو نکلے ہیں، ہماری سات پشتوں میں بھی کسی عورت نے نوکری نہیں کی تھی۔ ہم دائی یا آیانہیں ہیں ہمارا نام سیدہ خیرالنساء ہے۔‘‘

    ’’بی بی خیرالنساء بیگم۔‘‘ خاتونِ خانہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔ ’’یہ جو بیٹھی ہیں ہماری بہو، خیر سے ہماری بھتیجی بھی ہوتی ہیں۔ اللہ آمین کرکے شادی کے سات برس بعد ان کی گود ہری ہوئی لیکن دودھ پلانے کی سعادت اللہ کو دینا منظور نہ تھی۔ اب اولاد کی اتنی خدمت بھی نہ کریں گی توماں کا درجہ کیسے پائیں گی۔ گوموت ان کے ذمے۔ باقی شرطیں بھی ہمیں منظور ہیں۔ سوداسلف لانے کو ہم یوں بھی نہ کہتے۔ بلاقن عرصے سے کرتی چلی آرہی ہے۔ پھر نیچے کارخانے میں آدمی ہیں۔‘‘

    خیرالنساء بیگم کو ان کی کوٹھری دکھادی گئی۔ یہ دراصل ایک اچھا خاصہ بڑا سا کمرہ تھا جو مکان کی پشت پر مکان کے باقی ماندہ حصے سے الگ تھلگ بنا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گھر کی ملازمہ جو وضع قطع سے بنجر دیہاتی معلوم ہو رہی تھی، ان کے لیے کھانے کی سینی لیے ہوئے آئی۔ پراٹھے، کوفتے، ارہر کی دال، باریک سفید چاول، ایک گلاس بالائی دار دودھ اور گود کے بچے کے لیے گائے کا دودھ مع دودھ کی شیشی کے الگ سے۔ ایسا خوانِ نعمت تو کبھی شوہر کی زندگی میں بھی نہیں سجا تھا۔ لہنگا پھڑکاتی، ناک میں سونے کی چوڑی سی لونگ چمکاتی بلاقن انہیں کینہ توز نظروں سے گھورتی واپس چلی گئی۔ ’’کہہ رہے تھے ہم اپنی بہن کو لے آویں۔ مگر نہ۔ سیدانی کا دودھ پلوادیں گی لڑکوں کو۔ ہونہہ اللہ نے چاہا تو سوکھا ہوجائے گا۔‘‘

    رات کے کھانے پر خاتون خانہ نے دن کی پوری داستان صاحب خانہ کے گوش گزار کی۔ لہجہ مسرور تھا۔ آج دونوں ننھے پوتوں نے پیٹ بھر کر عورت کادودھ پیا تھا۔ اور عورت بھی کیسی کہ کھری سیدانی، ورنہ دن بھر ریں ریں کرتے رہتے تھے۔ پانی جیسے دست چلے آتے تھے اور رات کو نیند بھی نہیں آتی تھی۔ اوپر کا دودھ راس نہیں آرہاتھا۔ آج آرام سے سورہے تھے۔ صاحب خانہ نے کھانا کھاکے ڈکارلی۔ سونے کی خلال سے دانت کریدے اور چاندی کے خاصدان سے گلوری نکالتے ہوئے بڑے سنجیدہ لہجے میں بولے، ’’آپ اماں بیگم کہلاتی ہیں۔ بی بی خیرالنساء سے کہہ دیجیے کہ بچے بڑے ہوں گے تو انہیں اماں صاحب کہیں گے۔‘‘

    خیرالنساء گھر میں یوں رچ بس گئیں جیسے بطخ پانی میں۔ محفوظ مستقبل اور گھروالوں کے اچھے سلوک کی وجہ سے طبیعت مطمئن تھی۔ غذا اچھی مل رہی تھی کہ دودھ اترے۔ دودھ دھاروں دھار اتر رہاتھا۔ بچہ ایک ہی ہوتا تو چھدومیاں (جو کان چھید کر منت کادرپہنائے جانے کے سبب چھدو کہلاتے تھے) کو بھی بھرپیٹ ماں کا دودھ مل جاتا۔ خیر کوئی فکر نہیں تھی۔ انہیں گائے کا خالص دودھ مل رہا تھا اور وافر مقدار میں مل رہا تھا اس لیے وہ بھی پہلے جیسے سوکھے مارے قحط زدہ نظر نہیں آتے تھے۔ خوب موٹے ہوگئے تھے۔ ہاں دس گیارہ ماہ کے ہوجانے کے باوجود بس پڑے رہتے تھے۔ نہ زیادہ روتے، نہ کچھ بولنے کی کوشش کرتے۔ بغیر سہارے کے بیٹھنا تک شروع نہیں کیا تھا۔ ’’غریب کابچہ ہے اس لیے سمجھ دار ہے۔ روئے دھوئے گا، شرارت کرے گا تو ماں دو اور بچوں کو کیسے سنبھالے گی۔‘‘ خیرالنساء ہنس کر بڑی مامتا کے ساتھ کہتیں۔

    بچوں نے بولناشروع کیا تو خیرالنساء کو اماں صاحب کہلوایا گیا۔ میٹھی توتلی آواز میں جب وہ انہیں اماں صاحب کہتے اور ہمک کر ان کی گود میں آتے تو انہیں لگتا کہ جس دیانت داری کے ساتھ انھوں نے اپنے بچے کو اوپر کا دودھ پلاکر غیر کے بچوں کو اپنے جسم کا لہو دیا تھا، اس کا صلہ مل گیا ہے۔ رفتہ رفتہ سیاہ بالوں اور اجلے کپڑوں والی خیرالنساء سبھی کے لیے اماں صاحب بن گئیں۔

    بچے ڈھائی سال کے ہوئے تو دودھ بڑھائی کی رسم دھوم دھام سے کی گئی۔ تیاریاں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک دن بلاقن نے آنکھیں مٹکاکر کہا، ’’اب کھیرالنساء کہاں جئہنین؟ نہ ہو تو کونو گھر میں جھاڑوبرتن کے لیے رکھوادیا جائے۔‘‘

    خاتونِ خانہ ہتھے سے اکھڑ گئیں۔ ’’ضرورت ہو تو انسان کو دوہ لیاجائے اور اس کے بعد ہنکال کر باہر کردیا جائے۔ خیرالنساء یہیں رہیں گی۔ ہاں خود کہیں جانا چاہیں تو اور بات ہے۔‘‘ وہ بھلااور کہاں جاتیں۔ دودھ پلانے کے علاوہ گھر میں بہتیرے کام تھے۔ گھر کی دونوں خواتین کو انھوں نے ساری فکروں سے آزاد کردیا۔ تیج تہوار، آئے دن کے شادی بیاہ، چھٹی چھلے، کارخانے کے عملے کا خیال، کپڑے لتے، باورچی خانہ، دونوں بچوں کی ساری ضروریات، میاں کاحقہ، چھوٹے میاں کے چکن کے کرتے، ساس کا خضاب، بہو کی مہندی۔۔۔ بیٹی فخرالنساء ساتھ ساتھ سائے کی طرح ساتھ لگی رہتی اور کاموں میں ہاتھ بٹاتی۔ دونوں بچوں نے بھاگنا دوڑنا اور گیند سے کھیلنا شروع کردیا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملے بھی بڑی روانی سے ادا کرنے لگے تھے۔ لیکن ان کا ہم عمر چھدو ایک گوشے میں بیٹھا رہتا تھا۔ کبھی کبھی وہ کھڑکی پکڑ کرکھڑا ہوجاتا اور باہر کی دنیا کو اپنی وحشت زدہ ویران آنکھوں سے تکتا رہتا۔

    کچھ اور وقت گزرجانے کے بعد اماں صاحب کو محسوس ہونے لگا کہ چھدو نارمل بچہ نہیں ہے۔ اس عمر میں بھی وہ اماں، بڑی بیگم، چھوٹی بیگم جیسے الفاظ کے علاوہ بہت کم الفاظ روانی کے ساتھ بول سکتا تھا۔ جملوں کی ادائیگی میں اسے دقت ہوتی تھی اور اس کی سمجھ میں بھی کوئی بات جلدی نہیں آتی تھی۔ بڑی بیگم کی تاکید تھی کہ ان کے پوتوں کو جو ماسٹر صاحب پڑھانے آتے ہیں ان کے پاس چھدو بھی بیٹھے لیکن چند ماہ بعد ماسٹر صاحب نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ یہ لڑکا پڑھ نہیں سکے گا یا کم از کم ابھی تو نہیں پڑھ سکے گا۔ اماں صاحب کی درخواست پر مرزا نصرت بیگ نے چھدو کو ڈاکٹر کے پاس بھیجا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق چھدوپیدائشی ذہنی ابطار (Mental Retardation) میں مبتلاتھا۔ اس میں اصطلاح یا بہتری کی گنجائش تقریباً نہیں کے برابر تھی۔ ہاں مناسب ماحول اور خصوصی تربیت کے ذریعے اسے بالکل ناکارہ بننے سے بچایا جاسکتاتھا۔

    بڑے مرزا صاحب نے اماں صاحب کو بلایا اور شفقت آمیز لہجے میں بولے، ’’خبر اچھی نہیں ہے۔ کلیجہ مضبوط کرکے سنیے۔‘‘ پردے کے پیچھے کھڑی خیرالنساء تھر تھر کانپاکیں پھر دھیرے سے بولیں، ’’اللہ تعالیٰ نے بیٹا دیا تھا۔ ہم سمجھے تھے بڑھاپے کا سہارا بنے گا۔ اب ہماری قسمت۔‘‘

    ’’بی بی۔ ہمارے خاندان کے چراغوں کو آپ نے نئی زندگی دی۔ سعید اور وحید نے آپ کا دودھ پیا ہے۔ بڑھاپے کی فکر تو آپ کریں نہیں۔ ہاں عزیزی چھدو کی اس ذہنی حالت کا رنج ہونا فطری ہے۔‘‘ وہ چاندی کے موٹھ والی چھڑی ٹیکتے اٹھ کھڑے ہوئے۔

    اماں صاحب اس گھر میں رچ بس کر بیوگی بھول گئی تھیں۔ خوش و خرم رہا کرتی تھیں لیکن اب چور کی طرح دبے پاؤں ایک رنج دل میں آبسا تھا۔ وہ چھدو کے چاروں طرف منڈلاتی رہتی تھیں۔ ہر کام سے ذرا سا وقت بچاکر اس کے پاس آجاتیں۔ رات کو دیر تک اس سے باتیں کرتیں۔ حدیث و قرآن سناتیں۔ ان کا خیال تھا کہ بچے کا ذہن ان سے روشن ہوگا۔ چھدو سوجاتا تو بھی وہ جاگتی رہتیں اور اس پر دعائیں دم کرتیں۔ ذہن میں بے چینی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا۔ بڑے مرزا نے کہہ تو دیا کہ وحید اور سعید ان کے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے لیکن چھدو خود۔۔۔؟

    خود وہ اپنے لیے کیا کرسکے گا؟ کیا کبھی اس کا اپنا گھر بار ہوگا؟ کیا کبھی وہ اپنی روزی روٹی کماسکے گا؟ اس کے بڑھاپے کا سہارا کون بنے گا؟ اور اماں صاحب۔۔۔ مانا گھر میں دوروٹیاں مل رہی تھیں اور عزت بھی۔ رہنے کو جگہ بھی ہے لیکن دل کا کشکول تو پھر بھی خالی ہی ہے۔ یہ سوچ کر آئی تھیں کہ پرائی چاکری عارضی بات ہوگی۔ اللہ نے بیٹے سے نوازا ہے۔ ایک دن دوبارہ ان کی اپنی مملکت ہوگی جہاں وہ راج کریں گی۔ ایک جھونپڑا سہی مگر اپنا۔ بیٹے بہو کی ہنسی اور پوتے پوتیوں کی کلکاریوں سے گونجتا۔ وہ سارے خواب مٹی میں مل گئے۔ روز رات کو مٹی ملے یہ خواب بستر پر کانٹے بکھیرجاتے۔ لیکن پھر کسی پہر نیند آہی جاتی اور صبح ہونے پر زندگی یوں ہی رواں دواں ہوجاتی۔

    چھدو بڑا ہوا تو نیچے جانے لگا۔ کبھی کبھی اس کے ہاتھ میں پیسے بھی دے دیے جاتے کہ آس پاس کی دوکانوں سے کوئی معمولی سا سودا لے آئے یا ٹھیلے والے سے پھل، سبزی۔ بیگم صاحب کہتی تھیں۔۔۔ پڑھ لکھ نہیں سکتا تو کم از کم دنیا کا علم تو ہونے دو۔ آنچل تلے چھپاکر رکھوگی تو اور باؤلا ہوجائے گا۔ ان کی بات تو صحیح تھی لیکن چھدو نیچے جاتا تو کارخانے کے ملازمین کی تفریح کا سامان بن جاتا۔۔۔ ابے چھدو ذرا زبان تو دکھا۔ چھدو بھاڑ سا منھ کھول دیتا اور لوگ ہنستے۔ کوئی کہتا او میاں چھدو پہلے مرغی ہوئی تھی کہ انڈا ذرا بتاؤ تو سہی۔ چھدو پہلے مرغی ہوئی تھی کہ انڈا کی گردان کرتا اوپر پہنچتا اور اماں صاحب کی جان ضیق میں ڈال دیتا۔ ’بتائیے نہ پہلے مرغی ہوئی تھی کہ انڈا۔ ہم کو نیچے جاکر جواب دینا ہے۔‘ کبھی کبھی تو چھوٹی بیگم بھی منہ پھیر کر مسکرانے لگتی تھیں۔ ایسے میں اماں صاحب کو بہت تکلیف ہوتی۔

    ایک دن چھدو، بلاقن کے ساتھ نیچے اترا تو کسی کارندے کی رگ شرارت پھڑکی۔ اس نے کہہ دیا، ’’اماں یہ تمہاری جورو ہے۔‘‘ جورو کا لفظ نہ جانے کیوں چھدو کو ایسا بھایا کہ وہ اکثر بلاقن کی طرف دیکھتا تو کھیسیں نپور کر کہتا جورو۔ چھدو کی جورو۔ ایک دن بھنا کر بلاقن نے ایک تھپڑ رسید کردیا۔ ٹھنڈے مزاج والی مسکین اماں صاحب آندھی طوفان بن گئیں۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کوثر و تسنیم سے دھلی زبان ایسی آگ بھی اگل سکتی ہے۔ بلقنی ٹھہری گنوار، مغلظات پر اتر آئی تو خاتونِ خانہ کو دخل انداز ہونا پڑا۔ ’’اے ہے بلاقن، کمبخت، چپ ہوجا۔ شرم نہیں آتی تجھے۔ دکھیا باؤلا ہے۔ اسے اتنی عقل کہاں۔ کسی نے سکھادیا ہوگا۔ بے سوچے سمجھے طوطے کی طرح بولتا رہتا ہے۔‘‘

    ’’دکھیا باؤلا ہے۔‘‘ یہ الفاظ اماں صاحب کے دل میں ترازو ہوگئے۔ بلاقن جیسی گنوار، بدزبان، نمک حرام عورت ذی ہوش ہے اور ان کاکم سخن نیک بیٹا باؤلا۔ اس دن انھوں نے کھانا نہیں کھایا۔ رات میں چھدو کو گلے لگاکر خوب روئیں۔

    پھر اتنا زمانہ گزر گیا کہ اماں صاحب پر یہ خطاب پھبنے لگا۔ افسردہ خاطر اور ملول رہا کرتی تھیں۔ اس لیے چہرے پر بڑھاپا جلد ہی آگیا۔ بال بھی وقت سے کچھ پہلے کھچڑی ہوگئے۔ خاتون خانہ اور صاحب خانہ دونوں جنت سدھارے۔ ان کی جگہ بیٹے بہو نے لی۔ سعید اور وحید جوان ہوگئے۔ اماں صاحب کی بیٹی رابعہ کی شادی بڑے مرزا صاحب نے اپنی زندگی میں ہی دیہات کے ایک غریب لیکن شریف نوجوان سے کرادی تھی۔ سعید میاں ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت گئے تو وہیں رہ پڑے۔ شادی بھی اپنی مرضی سے کرلی۔ اس لیے وحید میاں کی شادی میں ان کے والدین نے سارے ارمان پورے کیے۔ جانے کہاں کہاں کی خاک چھانی تب لڑکی پسند آئی۔ چنبیلی جیسی نرم و نازک اور سفید، نازوں کی پالی۔ سسرال میں پھول دلہن خطاب ملا۔

    گھونگھٹ الٹا تو پھول دلہن کو معلوم ہوا کہ اماں صاحب دولہا میاں کی کھلائی رہ چکی ہیں، کوئی عزیز رشتہ دار نہیں ہیں۔ انھوں نے ان کو اماں صاحب کہنے سے صاف انکار کردیا۔ کہا، اماں صاحب تو ہم اپنی نانی محترمہ کو کہتے ہیں۔ کہاں وہ اور کہاں یہ کھلائی۔ نیا نیا معاملہ۔ ساس تو کچھ بول نہ سکیں۔ وحید میاں نے سمجھایا تو اماں کہنے پر راضی ہوئیں۔ وہ بھی بادل نخواستہ۔

    گھر میں دلہن بیگم کا عمل دخل بڑھا تو چھدو میاں کے اندر آنے پر پابندی لگادی گئی۔

    ’’موا خبطی۔۔۔ صبح صبح شکل دیکھ لو تو کھانا نہ ملے۔‘‘ ان کا تبصرہ تھا۔

    ’’ایسے نہ کہو پھول دلہن۔ سیدزادہ ہے بدنصیب۔‘‘

    ’’اجی بہت دیکھے ہیں ایسے بناسپتی سید۔ کس سن میں سید ہوئے تھے؟‘‘

    بلقنی کھلکھلاکر ہنسی۔ گھر کی پرانی منھ لگی ملازمہ تھی۔ بولی۔ اجی دلہن بناسپتی ہوں یا رنخالص۔ رشتے میں تمہارے دیور ہوتے ہیں۔ میاں نے ان کا جھوٹا دودھ پیا ہے۔ پھر وہ گانے لگی، ’سنو ہودیورا ارج ہمار‘ (دیورجی میری عرض سنو)

    ’’دور کمبخت دیور ہوگا تیرا۔ خدانخواستہ شیطان سے دور میرے دیور کیوں دیوانے ہونے لگے۔ اب سے بولی تو مارے چپلوں کے فرش کردوں گی مردار۔‘‘ بلقنی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ شیطنت سے ٹھی ٹھی کرتی رہی۔ اماں صاحب کے کلیجے میں چھلنی جیسے سوراخ بنتے چلے گئے۔

    دلہن بیگم کو اس دن سے چھدو سے خداواسطے کا بیر ہوگیا۔ صورت سے بدکنے لگیں۔ دیور والے رشتے کی طرف ان کا دھیان پہلے کبھی نہیں گیا تھا۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ چھدو زیادہ ہونق ہوگیا تھا۔ کچھ تو قدرت نے اس کے ساتھ ناانصافی کی تھی کچھ حالات کی بے رحمی۔ باوجود اس کے کہ چھوٹے مرزا صاحب اماں صاحب کو گاہے بگاہے معقول رقم دے دیا کرتے تھے اور کپڑوں کی کمی نہیں تھی لیکن چھدو اب صرف ایک جانگئیے اور بنیان میں ملبوس رہا کرتا تھا۔ کبھی اماں صاحب کرتا پہننے پر اصرار کرتیں تو ضد میں بنیان بھی پھاڑ دیتا۔ گردن پر میل کی تہیں بوائی پھٹے ننگے پیر۔ اکڑوں بیٹھا انگلیوں پر کچھ گنا کرتا۔ کارخانے کے کارکن کہتے چھدو پر جن آتے ہیں۔ اور وہ اس کو معمول بناکر پریاں بلاتے رہتے ہیں۔ ریشم میں لپٹی، پھولوں اور عطر میں بسی نئی دلہن کی نظر اس پر پڑتی تو چیں بہ جبیں ہوجاتیں۔ ایک دن وہ ان کے ذاتی کمرے میں گھس گیا تو انگارہ ہی تو بن گئیں جوتی اٹھاکر اس کے منھ پر پھینکی۔

    اماں صاحب کی خاصی کوششیں اب چھدو کو پھول دلہن کی نظروں سے دور رکھنے میں صرف ہونے لگیں۔ اس کو زنان خانے میں دیکھتے ہی چیل کی طرح دوڑتیں اور بہلاپھسلاکر واپس اپنے کمرے میں چھوڑ آتیں۔

    وقت کا ایک اور ریلا گزر گیا۔ پھول دلہن اوپر تلے چار بچوں کی ماں بنیں۔ بچے بڑے ہونے لگے۔ ساری زچگیاں جاپے اماں صاحب نے ہی نمٹائے۔ ہر بچے کی پیدائش پر یوں نہال ہوئیں جیسے ان کے اپنے بیٹے کے یہاں اولاد ہوئی ہو۔ وحید میاں کا بچپن یاد آجاتا۔ ان کا ہمک کر گود میں آنا، چھاتی سے چپک کر دودھ پینا، ماں کے ڈانٹنے پر بھاگ کر ’’اماں چھاب‘‘ کی گود میں دبک جانا۔ رضاعی رشتوں کا تو خود اللہ اور اس کے رسول نے بڑا مان رکھا ہے۔ پھول دلہن اس رشتے سے کیسے انکار کرسکتی تھیں کہ ان کے دولہا اماں صاحب کے رضاعی بیٹے تھے۔ اماں صاحب نے اب گوموت والی شرط بھلادی۔ بھلا اصل سے سود پیارا ہوتا ہے یا نہیں۔ ایک دن بچوں کے لیے کچھ ضرورت پڑی تو سر پر برقعہ ڈال کر بازار بھی نکل گئیں۔ سوچا وہ تو جوان بیوہ کا بھرم رکھنے والی شرط تھی۔ اب کیا۔ اب تو سرچٹا ہوگیا۔ بیٹی کا سسرا ل سے خط آیا ہے۔ اس کی بیٹی جوان ہو رہی ہے۔ لکھا ہے رشتے کی تلاش ہے۔ نانی بن چکیں۔ پرنانی بننے میں کیا دیر لگے گی۔

    پھر اماں صاحب باقاعدہ سودا سلف کرنے لگیں۔ ایک بار کیا نکلیں کہ پھول دلہن نے انہیں برابر بھیجنا شروع کردیا۔ انہیں اماں صاحب کی ایمانداری پر دوسروں سے زیادہ بھروسہ تھا۔ اماں صاحب ایک دن بازار سے لوٹ رہی تھیں کہ ان کی نظر چھدو پر پڑی۔ گھر کے قریب عالم نگر کی چڑھائی پر کچھ ٹٹ پونجیا طوائفیں رہا کرتی تھیں اور کچھ ہجڑے۔ وہ وہیں ہونقوں کی طرح منہ پھاڑے کھڑا تھا۔ ایک ہجڑا اس کے ساتھ کچھ فحش مذاق کر رہاتھا۔ دوتین بھدی صورتوں اور بے ہنگم جسموں والی طوائفیں ٹھی ٹھی ٹھی ٹھی کرکے ہنس رہی تھیں۔ اماں صاحب کو جیسے لرزہ چڑھ گیا۔ سر نیہوڑائے جلدی جلدی لاحول پڑھتی وہاں سے نکل آئیں اور گھر آتے ہی ایک ایک کی خوشامد شروع کی، ’’خدا کا واسطہ کسی کو بھیج کر چھدو کو بلوالو۔ ارے بلاقن تیرے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ تجھے علی کا واسطہ۔۔۔ بچوں کی قسم۔۔۔‘‘ اماں صاحب کا بلبلانا دیکھ کر بلاقن کو ترس آگیا۔ لیکن کہنے لگی، ’’کہیں اور ہوتا تو بلالاتی، وہاں کون جائے شہدوں اور کسبیوں میں۔‘‘

    چھدو گھر واپس آیا تو اڑتیس برس کی عمر میں اس نے پہلی بار اماں صاحب سے ڈانٹ سنی۔ وہ بھی ایسی کہ اس کے حواس گم ہوگئے۔ ابھی وہ گرج ہی رہی تھیں کہ وحید میاں کے چھوٹے بیٹے نے کہا، ’’چھدو، نیچے چاٹ والا آیا ہے۔ جاؤ دوڑ کے لے آؤ۔‘‘ وہ بوکھلاکے بھاگا۔ چاٹ لانے میں اسے اپنی عافیت بھی نظر آئی۔ ویسے بھی ذرا ذراسے کاموں کے لیے اوپر نیچے بھاگنے کا عادی تھا۔ اماں صاحب کی سانس پھولنے لگی۔ انھوں نے چاول کی سینی سامنے سرکائی اور چاول چننے شروع کردیے۔ دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھتی جاتی تھیں۔

    ’’ارے چھدو۔ اس میں مرچیں زیادہ ڈال دی ہیں چاٹ والے نے۔ جاؤ دہی اور ڈلوا لاؤ۔۔۔‘‘

    بڑے صاحب زادے بھی آگئے تھے۔ ’’چھدو۔۔۔ ابے او احمق الذی۔۔۔ مجھے بھی چاٹ کھانی ہے۔ جاؤ ایک پتہ اور بنوالاؤ۔‘‘ چھدو نے حکم کی تعمیل کی۔

    ’’ابے میرے لیے مرچیں کم کیوں ڈلوائیں۔ میں تھوڑی ہی مرچیں کم کھاتا ہوں۔ اب جاؤ اور مرچیں اور کھٹی چٹنی ڈلوا کے لاؤ۔‘‘

    بڑے مرزا اور چھوٹے مرزا چھدو کا ذکر عزیزی چھدو کہہ کر کرتے تھے۔ وحید میاں جنھوں نے اماں صاحب کا دودھ پیا تھا، چھدو میاں یا بھائی چھدو کہتے تھے۔ لہجے میں ہمدردی اور یگانگت کی چاشنی ہوتی تھی۔ لیکن ان کی اولادیں ابے تبے کرتی رہتی تھیں۔ یہ لوگ اور چھوٹے تھے تو چھدو ہر وقت گھوڑا بنا رہتاتھا اور وہ سارے بچے اس کی پشت پر سوار رہتے تھے۔ لیکن کیا بڑے ہوکر بھی انھوں نے چھدو کے منھ سے لگا میں ہٹائی تھیں؟ آنسوؤں سے لبالب آنکھیں اماں صاحب نے اوپر اٹھائیں۔ عین اسی وقت چھدو ہاتھ میں چاٹ کا بھرا پتہ لے کر زینے تک پہنچا تھا۔ وہ آنسو بھری دھندلی آنکھیں جن میں صدیوں کا درد تھا، اس کی بیل جیسی بڑی لیکن تاثر سے خالی آنکھوں سے چار ہوئیں۔ چھدو بوکھلاکر اڑا اڑا دھم کرکے پہلی سیڑھی سے جو گرا تو سیدھے نیچے راہ داری میں پہنچ گیا۔ ساری چاٹ آنکھوں اور حلق میں بھر گئی۔

    ’’پگلا کہیں کا۔ ساری چاٹ گرادی۔‘‘

    ’’ارے میرا چھدو۔ میرا بدنصیب چھدو۔‘‘ اماں صاحب دیوانہ وار چیخیں اور دوڑتی ہوئی نیچے اتریں۔

    سرکا زخم بھرنے میں مہینوں لگ گئے۔ مگر بھر گیا۔ اماں صاحب کے دل میں جو زخم آیاتھا وہ کبھی نہیں بھرا۔ ہمیشہ افسوس کرتی رہیں۔ میری وجہ سے گرا میرا چھدو۔ میں نے کبھی اسے ڈانٹا نہیں تھا۔ اس دن ڈانٹ کھانے سے بوکھلا گیا تھا۔

    اماں صاحب اب دن میں ایک آدھ چکر عالم نگر کی چڑھائی کا لگا آتیں کہ چھدو وہاں کہیں پھر تو نہیں پہنچ گیا۔ جب تک گھر نہ آجاتا، جلے پیر کی بلی کی طرح گھومتی رہتیں۔ جیسے جیسے اس کی عمر بڑھ رہی تھی وہ اپنا زیادہ وقت باہر گزار رہاتھا۔ اس کی کھانے کی مقدار بھی گھٹتی جارہی تھی۔ اکثر اماں صاحب، نوالے بناکر منھ میں دیتیں۔ خوشامدیں کرکرکے کھلاتیں۔ نل پر بٹھا کر رگڑ رگڑ کر نہلاتیں۔ چھدو اپنے بچپن میں لوٹ رہاتھا۔۔۔

    انہیں دنوں سعید میاں نے والدین کے لیے ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھیجے۔ وہ دونوں میاں بیوی ولایت سدھارے۔ پھول دلہن کے میکے میں کوئی شادی تھی۔ سارا گھر اماں صاحب اور بلاقن پر چھوڑ کر وہ بچوں اور وحید میاں سمیت بریلی چلی گئیں۔ جاڑوں کا موسم تھا۔ مہاوٹیں جھماجھم برس رہی تھیں۔ آسمان ہاتھی جیسے سیاہ مہیب بادلوں سے بھرا پڑا تھا۔ چھدو گھر سے غائب ہوا تو تین دن گزر گئے اور اس کی صورت نہیں دکھائی دی۔ گھر سے باہر بھوکا نکل گیا تھا اور روئی کی مرزئی بھی اتار گیا تھا۔ اماں صاحب کے منھ میں بھی کھیل اڑ کر نہیں گئی۔ چوتھے دن کارخانے کے ایک آدمی نے خبر دی کہ چھدو واپس آگیا ہے۔ مگر پڑوس کی مسجد میں بیٹھا ہوا ہے۔

    اماں صاحب بھیگتی ہوئی خود وہاں گئیں۔ لیکن اس نے لال لال آنکھیں نکال کر انہیں گھورا اور گھرآنے سے صاف انکار کردیا۔ بخار میں تپ رہاتھا۔ اماں صاحب روئیں گڑگڑائیں تو دوچار لوگ اور گئے اور زبردستی ڈنڈا ڈولی کرکے گھر واپس لائے۔ دودن کے شدید بخار اور ہذیانی کیفیت کے دوران سید نذر عباس حیدر عرف چھدومیاں نے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ کارخانے کے لوگوں نے آخری منزل پہنچایا۔ اماں صاحب بت بنی بیٹھی رہیں۔ نہ روئیں نہ چلائیں۔ جنازہ اٹھنے لگا تو پاس جاکر سرپر ہاتھ رکھا پیشانی چومی اور بھاری آواز میں بولیں، ’’جابیٹا، جا۔ پیچھے سے آتی ہوں۔ دیر نہیں کروں گی۔‘‘

    چوتھے دن وحید میاں کنبے کے ساتھ واپس لوٹے۔ خبر سن کر بہت رنجیدہ ہوئے۔ اماں صاحب کی کوٹھری میں گئے۔ سمجھ میں نہ آیا کیا کہیں کیا نہ کہیں۔

    ’’اماں صاحب!‘‘

    ’’ہاں بیٹا۔‘‘

    ’’بہت افسوس ہوا۔‘‘ وحید میاں اتنا ہی کہہ سکے۔ آواز رندھ گئی۔

    ’’افسوس کیسا بیٹا۔ میں نے تو بی بی کی نیاز مانی تھی۔ اب تم آگئے ہو تو دلہن سے کہوں گی کروادیں۔ پیسے میرے پاس ہیں۔‘‘

    وحید میاں نے کچھ کہنے کو منھ کھولا تو جلدی سے بولیں، ’’نابیٹا نا، منت کی نیاز، مجلس، میلاد پرائے پیسوں سے نہیں کرتے۔ یہ میری کمائی کے پیسے ہیں۔ منت میں نے مانی تھی۔‘‘

    وحید میاں ہونقوں کی طرح اماں صاحب کو دیکھنے لگے جو ٹین کی صندوقچی میں روپے ٹٹول رہی تھیں۔

    ’’ہاں بیٹا۔ کبھی منت مانی تھی کہ بدنصیب کی مٹی منزل میرے سامنے ہوجائے تو حضرت بی بی کی نیاز دلواؤں گی۔‘‘ ان کا لہجہ انتہائی پرسکون تھا۔ ستھری آنکھیں براہ راست وحید میاں کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔

    پڑوس کی مسجد سے جہاں چند دن پہلے بخار میں تپتا چھدو نہ جانے کہاں سے آکر بیٹھ گیا تھا، مغرب کی اذان کی آواز بلند ہوئی۔ شام کے سائے بلند ہوئے اور بسیرا لیتی چڑیوں کی آوازیں بھی۔

    وحید میاں پتے کی طرح تھر تھر کانپنے لگے۔

    مأخذ:

    صدائے باز گشت (Pg. 67)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2003

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے