Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

موت پری

عافیہ حمید

موت پری

عافیہ حمید

MORE BYعافیہ حمید

    ہر طرف ہو کا عالم تھا، گلیاں سنسان تھیں۔ دکانیں، مارکیٹ بند، سڑکیں ویران، ایسا لگتا تھا سارا شہر قبرستان میں بدل گیا ہے۔ ہر طرف صرف ایک ہی ساز سنائی دیتا تھا۔ اور وہ ساز موت پری کے پازیب کا ساز تھا۔ موت کی پریاں ہر طرف رقص کر رہی تھیں۔ کوئی اگر مسرور تھا تو وہ یہ پریاں ہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا ان پریوں کو محبوب چننے کا مکمل اختیار دے دیا گیا ہو۔ اور وہ اس اختیار کا پورا فائدہ اٹھا کر اپنی محفلیں سجارہی تھیں۔ وہاں رنگ تھا، سرور تھا، شراب تھی، شباب تھا۔ ان کے آنگن میں ہر طرف چراغاں تھا مگر ان چراغوں کی روشنی نے دوسری دنیا کے گھروں میں اندھیرا کر دیا تھا۔

    وہ آج بھی خالی ہاتھ لوٹا تھا، بچے نے دروازہ کھولتے ہی سوال دوہرایا۔ پاپا کچھ لائے نہیں؟ بچے کے سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔ بچے دوڑ کر ماں کی گود میں بیٹھ گئے۔ بیوی نے اس کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں شکوہ کیا۔ سرفراز اٹھ کر سیدہ کے پاس آیا اور اس نے مایوسی سے کہا۔ اب ہم لوگوں کو گاؤں لوٹ جانا چاہئے۔ دو دن سے تم لوگوں نے کچھ نہیں کھایا۔ میرا کیا۔۔۔ میں دو چار دن اور بھوکا رہ لوں گا مگر سفیان بچہ ہے کل سے اس کو ہلکا بخار بھی ہے۔

    صبح کے قافلے میں تین مہاجر اور شامل ہو گئے۔ راستے میں تھوڑی راحت تھی۔ جگہ، پانی کی بوتل، کھانے کا پیکٹ مفت مل رہا تھا۔ سیدہ سوچ رہی تھی دو دن پہلے ہی نکل آتی تو سفیان کو بھوکا نہ رہنا پڑتا۔ مگر سیدہ نے سن رکھا تھا کہ باہر موت پریاں پورے جوش میں تاریخ رہی ہیں اور جو ان کو پسند آجائے اسے فورا اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔

    سیدہ نے کلمہ پڑھا اور اپنے بچے اور شوہر پر دم کیا۔ بچے کی پیشانی کو چوما تو سیدہ کو پیشانی کچھ گرم معلوم ہوئی۔ اس نے کہا سرفراز! ذرا دیکھو سفیان کو بخار لگ رہا ہے۔ سرفراز نے دیکھا۔۔۔ کچھ حرارت تھی۔ اس نے کہا دیکھتا ہوں کہیں کیمپ لگا ہے تو دوا لے آؤں۔

    بہت پوچھ تاچھ کے بعد معلوم ہوا کوئی چار پانچ میل کے بعد کوئی شہر ہے جہاں سرکاری کیمپ ہے۔ سیدہ یہ سن کر بہت خوش ہوئی۔ اب اس کے قدموں میں روانی آگئی تھی۔ وہ کہیں رکنا نہیں چاہتی تھی۔ ہر لمحہ قدموں کی رفتار بڑھ رہی تھی۔ مگر سفیان کے قدم اب ڈگمگا رہے تھے۔ سرفراز نے گود سے اس کا سر اٹھایا۔ سفیان نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا پاپا! بسکٹ اور کیلے دلا دو نا۔ سرفراز نے پیار سے سمجھایا۔ بیٹا ابھی آپ کو بخار ہے۔ پہلے ڈاکٹر کو دکھا دیں۔ ڈاکٹر کہے گا تو تم کھا لینا۔ پہلے ڈاکٹر کو دکھا دیں۔ بچہ سمجھدار تھا۔ اس نے باپ کے کندھے پر خاموشی سے اپنا سر ٹکا لیا۔ کچھ دیر بعد سفیان نے کہا: پاپا ! جنت میں کسی کو بھوکا تو نہیں رہنا پڑتا ہے؟ سرفراز نے تڑب کر ایک نظر اپنے سات سالہ معصوم بچے پر ڈالی جس کا بدن بخار کی شدت سے جل رہا تھا۔ اس نے کہا نہیں۔۔۔ آگے اس کی زبان ساتھ نہیں دے سکی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے آستین میں جذب ہو گئے۔ وہ اور تیز قدموں سے کیمپ کی طرف بڑھنے لگا۔

    ڈاکٹر نے بچے کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ آلہ لگایا۔ پھر پوچھا کب سے بخار ہے۔ سیدہ نے کہا، دو دن سے۔ ڈاکٹر نے دوائیاں دے دی۔ سرفراز نے بچے کو گود میں اٹھایا اور کہا ڈاکٹر صاحب! میرا بچہ کھانے کے لیے ضد کر رہا ہے۔ اصل میں جگہ جگہ کیلے اور بسکٹ کے پیکٹ بٹ رہے ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا بچہ جو کہے کھلا دیجیے۔ سفیان نے ڈاکٹر کی بات سن کر آنکھیں کھولیں۔ اور تھوڑا سا مسکرایا۔ ایسا لگا کہ وہ ڈاکٹر کا شکریہ ادا کر رہا ہے۔

    شام ہو گئی۔ سب نے چادریں اور چٹائیاں بچھانا شروع کر دیں۔ رات کی تاریکی نے نہ جانے کتنوں ہی کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ صبح ایک ہنگامہ بر پا تھا۔ کوئی کسی کے لیے آہ و زاری کر رہا تھا تو کوئی کسی کا ماتم کر رہا تھا۔ سرفراز نے گھبرا کر سفیان کو جگایا۔ ایک بار ۔۔۔ دو بار ۔۔۔ مگر بے سود ۔ اس کو معلوم نہیں تھا کہ موت پری نے اس کے آنگن کے چراغ کو اپنی محفل میں روشن کر لیا تھا۔

    سیدہ نے پوچھا کیا ہوا۔ سرفراز نے کہا، نہیں نہیں، سب ٹھیک ہے۔ تم چلنے کی تیاری کرو۔ بس چند گھنٹوں میں ہم گاؤں پہنچ جائیں گے۔ سرفراز نے بچے کو اپنے کندھے پر اٹھا لیا۔ اور سر پر چادر ڈال لی۔ سیدہ نے عجب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ سرفراز نے کہا، ڈاکٹر نے کہا ہے وبا بہت پھیلی ہے اس لیے چادر ۔۔۔

    کچھ دور چل کر سیدہ نے کہا تھک گئے ہو گے ۔ لاؤ کچھ دیر میں بچے کو لے لوں ۔ سرفراز نے کہا نہیں، میں ٹھیک ہوں اور اس نے رفتار بڑھادی۔

    سیدہ کا دل عجیب ہو رہا تھا۔ اس کا گاؤں قریب آرہا تھا۔ مگراس کا دل کہیں کسی انجانے خوف سے لرز رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں دعا کی اور بچے پر دم کیا۔

    یہ اس کے گاؤں کا چیک پوسٹ تھا۔ باہر سے آنے والوں کی چیکنگ ہو رہی تھی۔ اگلا نمبر سرفراز کا تھا۔ افسر نے پوچھا چادر میں کیا ہے۔ سرفراز کی زبان گنگ تھی۔ افسر نے دوبارہ چلا کر پوچھا کیا چھپایا ہے۔ سرفراز کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے قبل اس کے کہ وہ کچھ کہنے کی ہمت کر پاتا۔ افسر نے حکم دیا چیک کرو کیا ہے۔ مگر دوسرے ہی پل سرفراز پھٹ پڑا اس نے کہا لاش ہے۔ لاش۔۔۔ جسے میں دو دن سے سینے سے لگائے ٹہل رہا ہوں۔ اس نے روتے ہوئے کہا جانتے ہو کیوں۔ تاکہ اس کی ماں گاؤں تک زندہ پہنچ سکے۔ اتنا کہہ کر اس نے لاش کو پھر کندھے سے لگا لیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے