Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آدم اور خدا

محمد امین الدین

آدم اور خدا

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    اس نے پوری طرح آنکھیں نہیں کھولی تھیں اور نہ ہی اس کے دماغ نے پوری توانائی سے کام شروع کیا تھا، مگر نامانوس اور غیر محسوس طریقے سے اس نے یہ جان لیا کہ وہ کسی نئی جگہ پر قید کر دیا گیا ہے۔

    ٹیلے سے واپسی پر وہ جان چکا تھا کہ اسے ریاست کا قانون توڑنے والوں میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اسے ریاست سے بغاوت کا مطلب معلوم تھا۔ مگر یہ بھی جانتا تھا کہ یہاں کے لوگ اس کے خیالات اور نظریات سے آگاہ ہیں اور اسے اپنی بات کہنے کی آزادی بھی حاصل ہے۔ مگر پھر بھی وہ باغی قرار پایا تھا۔ کیوں کہ۔۔۔

    وہ اتنا ہی سوچ پایا تھا کہ اس کا سر دُکھنے لگا۔ اس نے اپنی سوچوں کو آزاد چھوڑ دیا۔ جوں ہی سوچیں اس کے دماغ سے نکلیں، درد بھی جاتا رہا اور وہ پرسکون ہو گیا۔

    بے انت سوچوں سے جوں ہی نجات ملی، اسے لگا کہ وہ جہاں لیٹا ہوا ہے وہ اینٹوں کا فرش نہیں ہے، بلکہ چکنا اور سرد ہے، جس کی ٹھنڈک اس کی کمر کے مساموں سے گزر کر اس کے وجود میں دھیرے دھیرے اتر رہی ہے۔ یہ سوچتے ہی وہ چونک پڑا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟۔۔۔

    اس کا جی چاہا کہ آنکھیں کھولے اور اپنے اردگرد کا جائزہ لے۔ مگر اس کی حساس فطرت اشارہ کر رہی تھی کہ جب تک وہ آنکھیں بند کیے لیٹا ہے، محفوظ ہے۔ جوں ہی وہ آنکھیں کھولےگا اس کو دھچکا لگےگا۔ مگر آخر کب تک؟ اس نے سوچا۔ بھلا میں ایسے ہی کب تک آنکھیں بند کیے پڑا رہ سکتا ہوں۔ مجھے اٹھنا ہوگا۔ اپنے اردگرد کا جائزہ لینا ہوگا۔ آخر میرے نیچے زمین چکنی اور سخت کیوں ہے۔ ہمارے قید خانوں کی زمین ایسی تو نہیں ہو سکتی۔ لیکن میں نے اپنے ریاست کے قید خانوں کو دیکھا ہی کب ہے۔ بلکہ میں تو کبھی ان رستوں سے بھی نہیں گزرا جہاں ریاست کا قید خانہ ہے۔ کیا ہماری ریاست کے حکمرانوں نے قید خانے کے فرش ٹھنڈے، چکنے اور سخت بنوائے ہیں تاکہ کھردری اینٹوں پر رہنے اور چلنے والوں کو دشواری پیش آئے اور جینا دوبھر ہو جائے۔ شاید یہ سزا کا ہی کوئی طریقہ ہے۔ مگر وہ اپنے خیال سے خود بھی مطمئن نہیں تھا۔

    اچانک اسے یاد آیا کہ وہ غیر محسوس طریقے سے ایک بار پھر سوچنے لگا ہے۔ وہ خود ہی حیران بھی ہوا کہ اب اس کے سر میں کوئی بوجھل پن نہیں ہے۔ اس نے سکون کا سانس لیا۔ اس نے آزاد کردہ سوچوں کو دوبارہ گرفت میں لانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ بات ماضی سے حال کی طرف آنکلی تھی۔ ٹیلے سے دھکا دیئے جانے سے زیادہ اہم بات چکنے فرش کی تھی جو کہ پوری ریاست میں کہیں نہیں تھا۔

    کہیں مجھے زندگی سے آزاد تو نہیں کر دیا گیا؟ اس نے سوچا۔ مگر پھر خود ہی اس خیال کو مسترد کر دیا کہ اگر ایسا ہوتا تو اس کی قبر بھی پختہ اینٹوں کی ہوتی اور اس کا فرش بھی ان ہی اینٹوں کا بنا ہوتا۔ کھردرا، سخت اور بے آرام جب کہ یہاں کیفیت بہت مختلف تھی۔

    اسے یہ بتایا گیا تھا کہ بے آرام اور کھردرے فرش پر رہنے سے انسان زندگی کی تکالیف کو برداشت کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ ورنہ اینٹوں کو چکنا کرنے والے ہاتھ اور پتھریلے اوزار دونوں موجود تھے۔ اسے اپنی اور بستی کے لوگوں کی ذہانت اور صلاحیت پر پیار آیا اور وہ اسی کے بارے میں سوچنے لگا۔ سوچتے سوچتے اس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ اس نے خود کو جگائے رکھنے کی کوشش کی مگر بند آنکھوں کی ہم راہی میں خود کو جگائے رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ تب اس نے آنکھیں کھولنے کا ایک بار پھر ارادہ کیا۔

    تم ایک اجنبی دنیا میں ہو۔ اسے اپنے اندر سے کسی نے آواز دے کر یاد دلایا، مگر اسے لگا کہ آنکھیں کھول کر باہر کی دنیا کا سامنا کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

    تب اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔

    تیز چمکدار روشنی اس کی منتظر تھی۔ اس نے گھبرا کر فوراً آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے جسم کے رگ و پے میں ٹھنڈی لہر دوڑ گئی۔ رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ ایسا لگا جیسے سرد ہوا کا جھونکا اس کے بدن میں سرائیت کر گیا ہو۔ وہ حیران تھا۔ میں نے کیا دیکھا ہے؟ ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہوئی چمکیلی کرنیں۔۔۔شاید نہیں۔۔۔ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے چمکیلے گولے۔۔۔ایک سے دوسری میں گم ہوتی ہوئی روشنی۔۔۔یا پھر ہزاروں ٹکڑوں میں بٹی ہوئی میری زندگی۔۔۔میرا جسم۔

    وہ یہ سوچتے ہوئے اور الجھ گیا۔ اسے یاد آیا کہ صرف ایک معمولی ساعت کے لیے کھلنے والی آنکھ یہ سب کیسے دیکھ سکتی ہے۔ سوئی ہوئی آنکھیں اور مردہ ہو جانے والے کان بیدار ہونے اور مقررہ رفتار پر واپس لوٹنے میں چند گھڑیاں صرف کرتے ہیں، تب کہیں جا کر زندگی اپنی ترتیب میں ایک بار پھر شروع ہوتی ہے۔ مگر ابھی جو اس نے برق رفتاری سے دوڑتی ساعت کے ایک معمولی حصے میں دیکھا وہ اس کی الجھنوں کو بڑھاوا دینے کے لیے کافی تھا۔ اس کے رونگھٹے اب تک کھڑے ہوئے تھے۔ بدن میں ٹھنڈک کا احساس بھی ہنوز باقی تھا۔

    تم ایک اجنبی دنیا میں ہو۔ اسے ایک بار پھر اپنے وجود کی پکار سنائی دی۔ اب اس کا گمان تھوڑ اتھوڑا یقین میں بدلنے لگا۔ وہ واقعی کسی اجنبی دنیا میں ہے۔ ایسی دنیا جس کا اسے پچھلا کوئی تجربہ نہیں۔ تجربہ تو زندگی کی بصیرت عطا کرتا ہے اور وہ تجربے سے محروم ہے۔ تو کیا وہ بصیرت سے بھی محروم ہے؟ ہو سکتا ہے، مگر وہ زندگی سے محروم نہیں ہے۔ یہ طمانیت اسے آنکھیں کھولنے کے ارادے اور عمل سے حاصل ہو گئی تھی کہ وہ زندہ ہے اور ٹھنڈا اور چکنا فرش کسی قبر کا نہیں ہے۔ اس نے سکون کا سانس لیا۔ بستی کے اونچے ٹیلے سے دھکا دینے والے اسے مارنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سوچ کر خوشی کی لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔ اس طرح رونگھٹوں اور بدن کا تناؤ کم ہونے لگا۔ وجود میں اتر آنے والی سرد ہوا کا جھونکا بھی آہستہ آہستہ گم ہو گیا۔

    اس نے لیٹے لیٹے یوں گہری سانس لی جیسے وہ سمندر کی تہہ میں اترنے جا رہا ہو اور پھر آنکھیں کھول دیں۔

    وہ دائیں سے بائیں جھکی ہوئی آئینہ نمابلند دیوار کے سائے میں لیٹا ہوا تھا۔ دیوار کی انتہا دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ آئینہ نما دیوار جھکی ہوئی حالت میں بہت دور تک چلی گئی تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں کے گول دیدوں کو دائیں سمت میں جنبش دی۔ اسے اپنا فرش پر پڑا ہوا وجود دکھائی دیا۔

    برہنہ۔۔۔بےلباس وجود۔۔۔

    وہ چونکا۔۔۔اس نے ایک بار پھر آنکھوں کو ادھر سے ادھر جنبش دی۔ مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ شیشے کا فرش دور دور تک خالی تھا۔ وہ فوراً اٹھ بیٹھا۔ آئینے میں دکھائی دینے والا وجود بھی اٹھ بیٹھا، مگر ترچھے زاویے کی وجہ سے اٹھ بیٹھنے کے عمل سے سر چکرا گیا۔ اس نے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کی، مگر پپوٹوں نے بند ہونے سے انکار کر دیا۔

    اس نے دوبارہ کوشش کی۔۔۔مگر ناکام رہا۔ وہ پریشان ہو گیا۔ وہ ذرا دیر کے لیے اپنے اردگرد کی اجنبی اور حیرت زدہ کردینے والی فضا کو فراموش کر بیٹھا۔ اس کی آنکھیں بند نہیں ہو رہی تھیں۔

    یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے سوچا۔ ابھی چند ساعت پہلے آنکھیں بند کی تھیں، تب سب کچھ درست تھا۔ مگر اب کچھ غیر معمولی سا ہو رہا ہے۔ بار بار کی کوشش کے بعد اسے یقین آ گیا کہ اس کا اپنے ہی وجود پر پہلے جیسا اختیار نہیں ہے۔ تو کیا میں کسی دوسری طاقت کے زیر اثر ہوں؟ اسے خیال سوجھا۔ شاید۔۔۔یہ سوچتے ہوئے اسے جھرجھری سی آ گئی۔ اس نے بےبسی سے سر کو جھکا دیا۔ تھوڑی دیر وہ یوں ہی بیٹھا رہا۔ اردگرد کی فضا اور صورت حال سے بے خبر ہو جانے کی لاحاصل کوشش کرتے ہوئے، مگر ذہن کو سوچنے سے روک دینا اس کے بس میں نہیں تھا۔

    جسم ڈھانپنے کے لیے کوئی کپڑا مل جائے۔ یہ سوچتے ہوئے اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ فرش پر دور دور تک کچھ نہیں تھا۔ نیلے سمندر اور نیلے آسمان کی وسعتوں کی طرح حد نگاہ تک سیدھا فرش اور جھکی ہوئی شیشے کی دیوار نما چھت تھی جس میں سے نیلی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ یہ سلسلہ کہاں تک گیا ہوگا؟ اس نے ایک بار پھر سوچا۔

    خدا معلوم۔۔۔اس نے خود ہی جواباً سوچا۔

    خدا کا خیال آتے ہی وہ چونکا۔ ذہن کے پردے پر یادوں کے منظر حرکت کرنے لگے۔ ٹیلے پر سے دھکا دینے والوں نے آخری بار اسے کچھ کہا تھا۔ کیا کہا تھا۔۔۔وہ سوچنے لگا۔۔۔یکایک نامانوس سماعتوں میں وہ آخری جملہ گونج اٹھا۔

    جاؤ اپنے خدا کے پاس۔۔۔

    ہاں۔۔۔ہاں یہی کہا تھا، انہوں نے۔۔۔توکیا میں خدا کے پاس آ گیا ہوں؟ خدا کے پاس تو مر کر جاتے ہیں۔

    تو کیا میں مر گیا ہوں۔۔۔؟

    مگر میرے احساسات زندہ ہیں۔

    وہ خود ہی سوال کر رہا تھا اور خود ہی جواب بھی دے رہا تھا۔

    میں دیکھ سکتا ہوں۔۔۔

    مگر میرے پپوٹے حرکت نہیں کر رہے۔

    میں آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔

    میں سن سکتا ہوں۔۔۔

    مگر یہاں تو کوئی آواز ہی نہیں ہے۔ شاید میری اپنی آواز بھی۔

    اسے یاد آیا کہ وہ اب تک ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے۔ اس کا جی چاہا کہ وہ بولے۔ کم از کم اپنی آواز تو سن سکے۔ مگر یکایک ایک خوف در آیا۔

    جیسے دیکھنے کی پاداش میں آنکھوں نے جھپکنا چھوڑ دیا ہے، کہیں بولنے کی خواہش میں کچھ اور نہ گنوا بیٹھوں۔

    یہ سوچ کر اس نے اپنے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ لیا اور خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔

    اکیلے دیکھا تو بہت کچھ جا سکتا ہے، اکیلے بولنے کا کیا مطلب؟ یہ تو خود کلامی ہوگی۔

    تو کیا جو تم مسلسل اکیلے خود سوچ اور خود ہی جواب دے رہے ہو، کیا یہ خود کلامی نہیں ہے؟

    میں نہیں جانتا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی الجھی سوچوں کو جواب دیا۔

    اگر میں سوچوں گا نہیں تو وقت کو کیسے گزاروں گا۔ وقت۔۔۔؟

    وقت۔۔۔وقت۔۔۔یہ سوچتے ہوئے وہ ادھر ادھر کسی شے کی طرح وقت کو تلاش کرنے لگا، مگر وہاں تو حد نظر تک کچھ موجود نہیں تھا۔

    اب اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ وہ گھبرا گیا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے کسی غیرفطری، غیرحقیقی اور غیرمعمولی بات کو جان لیا ہو۔

    ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔ یہاں کچھ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ وقت بھی۔ جس کے بغیر کوئی شے حرکت نہیں کر سکتی۔ جیسے میرے پپوٹے بھی۔

    میں کسی ٹہری ہوئی جگہ پر ہوں۔ جہاں سب کچھ منجمد ہے۔۔۔وقت۔۔۔آنکھیں۔۔۔روشنی۔۔۔زمین۔۔۔آسمان۔۔۔جسم۔

    جسم کا سوچے ہی اسے یاد آیا کہ اس کا جسم منجمد نہیں ہے۔ پہلے وہ لیٹا ہوا تھا مگر اب بیٹھا ہوا ہے۔ اگر منجمد ہوتا تو بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ پپوٹوں کے سوا آنکھیں بھی منجمد نہیں ہیں۔ میں ادھر ادھر گھما کر دیکھ سکتا ہوں۔

    یہ سوچ کر اس نے گہرا سانس لیا۔ سانس لیتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ آسانی سے سانس بھی لے سکتا ہے۔ یہاں ہوا موجود ہے۔ اگر ہوا موجود ہے تو وقت بھی موجود ہوگا اور اگر ہوا، وقت، روشنی، زندگی، سب کچھ موجود ہے تو پھر میرے علاوہ اور بھی کچھ موجود ہوگا۔ جس طرح میں بہت کچھ چیزوں کو موجود ہونے کے باوجود محسوس نہیں کر پا رہا ہوں۔ وہ بھی شاید میرے احساسات سے ماورا ہیں۔

    یکایک اسے ایسا لگا کہ جیسے اس نے کسی نئی دنیا کو دریافت کر لیا ہو۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس نے اپنی پچھلی دنیا میں خدا کو دریافت کر لیا تھا۔

    اس نے اپنے خیالات کو ادھر ادھر یا پچھلی دنیا کے بارے میں سوچنے سے روک دیا۔ وہ اس لمحے جس حیرت انگیز صورت حال سے دوچار تھا، اس کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے پورے وجود، احساسات، فکر اور بصیرت کے ساتھ یہاں موجود رہے۔

    اگر یہ سب اسی طرح موجود ہے، جیسا میں اس لمحے دیکھ رہا ہوں، تو میں بہت کچھ کھوج سکتا ہوں، جان سکتا ہوں، سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہوں۔ لیکن اگر یہ سب دھوکہ یا فریب نظر ہے تو شاید کسی بھی لمحے یہ سب غائب ہو جائےگا۔ ممکن ہے کہ میں اپنی پختہ اینٹوں والی بستی میں لوٹ جاؤں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہیں درمیان میں پھنس کر رہ جاؤں۔

    اس کا دماغ تیزی سے سوچنے لگا۔ اگر یہ اجنبی دنیا کوئی قید خانہ ہے تو مجھے اس سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈنا چاہیے اور اگر یہ اجنبی دنیا کوئی نئی دریافت ہے، تب بھی مجھے اس کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

    تو کیا میں یوں ہی بے لباس کھوج کے لیے چل دوں؟ اس نے خود سے سوال کیا۔

    ہاں۔۔۔آئینے کا کیا ہے۔ یہ تو ہمیشہ سچ ہی بولتے ہیں۔ جب تک کوئی دوسرا مجھے ننگا نہ کہے، مجھے خود کو ننگا نہیں سمجھنا چاہیے۔

    اس نے اپنی ہی سوچوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔ بائیں بازو سے فرش کا سہارا لیتے ہوئے اس نے اٹھنے کی کوشش کی اور دھیرے دھیرے کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اپنے پیروں کو جنبش دی اور سکون کی ٹھنڈی سانس لی۔ اس کے چہرے پر طمانیت کا احساس نمایاں تھا۔

    وہ اٹھا اور حد نگاہ تک پھیلے ہوئے فرش پر جھکی دیوار نما چھت کی طرف سے رخ پھیر کر چل پڑا۔ جوں جوں فرش اور دیوار کے ملاپ والی جگہ سے وہ دور ہوتا جا رہا تھا، ویسے ہی آنکھوں کے سامنے خالی منظر بھی بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ وہ چلتا رہا۔ مجھے چلتے ہوئے تھکن کا احساس نہیں ہونا چاہیے؟ اس نے سوچا۔

    اس نے فرش کے آئینے میں اپنے ہی وجود کو پہلی بار دیکھا جو اس کے پیروں سے جڑا ہوا اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ فرش پر چلتے ہوئے نیچے بھی خود کو چلتا ہوا دیکھ کر اسے چکر سے آنے لگے۔ اس نے گھبراکر اپنی آنکھیں اس طرف سے ہٹا لیں۔ اس نے اپنی رفتار بڑھا دی۔ اب وہ تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔ چلنے کی رفتار غیر محسوس طریقے سے بڑھتی جا رہی تھی۔ اگر اس نے اینٹوں والی ریاست میں زندگی نہ گزاری ہوتی تو شاید وہ بھوک اور پیاس سے ناآشنا ہی ہوتا۔ مگر وہ ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کر آیا تھا جہاں زندہ رہنے کے لیے پانی اور بھوک مٹانے کے لیے خوراک کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن اسے یہاں بھوک اور پیاس کا ذرہ بھر احساس نہیں تھا اور نہ وہ ایسی طلب محسوس کر رہا تھا۔

    اچانک چلتے چلتے وہ رک گیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ جھکی دیوار سے بہت دور نکل آیا تھا۔ اس نے گھڑیال کی سوئی کی طرح گھوم کر چاروں سمت نظر دوڑائی۔

    تھکے وجود کی طرح دور دور تک سب خالی تھا۔

    وہ نچلے دھڑ کے سہارے فرش پر بیٹھ گیا۔ اس نے سراٹھا کر دیکھا۔ ترچھی بلند ہوتی ہوئی دیوار ایک مرحلے پر جا کر ختم ہوگئی تھی۔ انتہا پر جاکر اونچی ہوتی ہوئی دیوار سے دو دیواریں برآ مد ہو رہی تھیں۔ جو کہ مخالف سمت میں جھکتی چلی جا رہی تھیں۔

    اس نے غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں دھوکہ نہیں کھا رہی تھیں۔ نقطہ عروج پر آئینہ نما دیواریں ایک دوسرے کا عکس اچھال رہی تھیں۔ اچھالنے کے عمل کے دوران وہی دیواریں اپنی ہی پشت پر دیواروں کو بڑھاوا دیتے ہوئے قوس و قزح یا تراشے ہوئے ہیرے کا منظر پیش کر رہی تھیں۔

    اس کا مطلب میں ایک بہت بڑی تکون کے اندر ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے بہت اہم سراغ ڈھونڈ نکالا ہو۔ اوپر سے اترتی ہوئی تین تکون نیچے والے فرش سے آکر کہیں بہت دور جڑ گئی ہوں گی۔ اس نے سوچا۔

    ہر سمت سے ایک مخصوص زاویے پر کٹے ہوئے بڑے بڑے آئینے آپس میں جڑ کر ایک بہت بڑا تکونی خلا بنا رہے تھے۔ اس تکونی خلا میں جب سے وہ آیا اکیلا ہی تھا۔

    وہ حیرت کے پر فریب خلا میں چکنے فرش پر سوچوں میں ڈوبا ادھر ادھر بے دھیانی سے دیکھنے لگا۔ اسے اپنے سامنے دور ایک باریک سی لکیر حرکت کرتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ یہاں آنے کے بعد یہ پہلی کوئی شے تھی جو اسے دکھائی دی تھی۔

    وہ کیا ہے؟ یہ سمجھنا ابھی مشکل تھا۔ وہ تیزی سے اس سمت دوڑ پڑا جہاں وہ لکیر دکھائی دے رہی تھی۔

    شیشے کے دیو ہیکل قید خانے میں دوڑتے ہوئے اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت معمولی سا زرہ ہے، جو ریگستان کے بے انت پھیلاؤ میں ادھر سے ادھر پھسل رہا ہو یا پھر پانی کا ایک معمولی قطرہ ہے جو سمندر کے نیلے پانی کے اوپر تیرتا ہوا جارہا ہو۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ فرش اور اوپر تنی ہوئی دیوار کے شیشے میں وہ دوڑتا ہوا کیسا لگ رہا ہے۔

    وہ یہ سب جاننا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اسے پتا تھا کہ اس کا جواب بھی اسے حیران اور پریشان کر دینے والا ملےگا۔ کیوں کہ وہ جہاں تھا وہاں کچھ نہیں تھا اور کچھ نہیں ہونے کے باوجودجو کچھ تھا وہ پریشان کر دینے والا تھا۔

    وہ شدید ہیجانی انداز سے دوڑرہا تھا، کیوں کہ ذہن کو ماؤف کر دینے والی ساعتوں میں یہ واحد لمحہ تھا جب اسے اپنے سوا کسی اور کی موجودگی کا احساس ہونے جا رہا تھا۔ مگر تیز رفتاری کے باوجود فاصلہ ہنوز ویسا ہی تھا۔ دکھائی دینے والی شے کا حجم اتنا ہی تھا جتنا اس نے پہلے لمحے دیکھا تھا۔ اس نے اپنی رفتار بڑھانے کی کوشش کی، مگر اس کے ننگے پیر فرش پر پھسلتے ہوئے محسوس ہوئے اور پھر یکایک ایسا لگا جیسے تکون گھومنے لگا ہو۔ اس کا سر چکرانے لگا۔ شیشے کی دیواریں ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگیں۔ فرش سمندر کے پانی پر تیرتے تختے کی طرح ہچکولے کھانے لگا۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر سہارا لینا چاہا، مگر اس کے ہاتھ خلا میں تیرتے رہ گئے۔ اس کے پیروں تلے فرش دو سمتوں میں پھیل رہا تھا۔ اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر بےسود۔

    وہ اوندھے منہ گرتا چلا گیا۔

    اس نے آنکھیں کھولیں۔ دونوں سمتوں کا جائزہ لیا اور اسے دیکھ کر ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ بہت دور دکھائی دینے والی لکیر اس کے قریب بیٹھی اسی کو دیکھ رہی تھی۔ یہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ موٹے جوٹ کا لباس پہنی ہوئی لڑکی کے چہرے پر اسے جاگتا ہوا دیکھ کر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لڑکی کو لباس میں دیکھ کر اسے اپنی برہنگی پر شرمندگی ہونے لگی۔ اس نے اپنے جسم کے بعض حصوں کو اپنی ہتھیلیوں سے ڈھانپنے کی ناکام کوشش کی۔ لڑکی نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

    بے انت تنہائی کے بعد کسی ہم جنس کو پانے پر وہ کچھ حیران اور پریشان اور کسی حد تک خوش بھی تھا۔ آسودگی کا یہ احساس بھی اس میں پیدا ہو رہا تھا کہ وہ شیشے کے اس لامتناہی قید خانے میں اکیلا نہیں ہے۔ جسم کو ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ لڑکی کو گھور بھی رہا تھا جو اب تک خاموش تھی۔ خاموش تو وہ بھی تھا۔ اس نے لڑکی کو غور سے دیکھا۔ تو اسے احساس ہوا کہ وہ غیر معمولی حسین لڑکی ہے۔

    بےداغ چہرے پر خط و خال متناسب اور بےحد متوازن تھے۔ آنکھیں بہت گہری مگر اداس تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آنکھوں کی چمک پر کسی بادل نے سایہ کر رکھا ہو اور اس پر کمان دار بھنویں پہرہ دے رہی ہوں۔ ناک ستواں، نازک ہونٹ، خم دار ٹھوڑی۔ لمبے گھنگھریالے سیاہ ریشمی بال کندھوں پر جھول رہے تھے۔ ستواں چہرے پر تمام نقوش یوں لگ رہے تھے جیسے صحرا کی چمکیلی ریت پر کہیں کہیں اونچے نیچے ٹیلے لرزاں ہوں۔ موٹے جوٹ کے ڈھیلے لباس میں اس کا جسم بھی متناسب تھا۔ مگر وہ ان تمام باتوں سے بے پرواہ بھی تھی اور شاید یہی چیز اس کے حسن کو اور بڑھاوا بھی دے رہی تھی۔

    اسے لگا کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ مگر اس نے خود ہی اپنے خیال کو رد کر دیا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ لڑکی سے بات کرے، مگر کیا؟ اس سوال نے اسے الجھن میں ڈال دیا۔

    وہ خاموشی سے لڑکی تو تکتا رہا۔ اسے لگا جیسے لڑکی اس کی ہر بات جانتی ہے۔ اسی لیے اسے سوال کرنے کی کوئی حاجت نہیں اور وہ بھی اس کے بارے میں ہر بات جانتا ہے۔

    مگر کیا جانتا ہے ،یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ لڑکی کی موجودگی کے احساس سے اسے یہ تقویت تو ملی تھی کہ وہ یہاں اکیلا نہیں ہے اور لڑکی کو دیکھتے ہوئے اس کا خیال کامل یقین میں بدل رہا تھا کہ وہ بھی یہاں اکیلی نہیں ہے بلکہ وہ پہلے سے کچھ اور لوگوں کے ساتھ ہے۔ اس کا لباس پہننا ہی اس با ت کی سب سے اہم علامت تھا کہ اسے دوسروں سے اپنی برہنگی کو چھپانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مگر یہ دوسرے کون ہیں؟ اس بارے میں اس کے دھیان میں کچھ نہیں تھا۔

    ’سنیے‘ دور تک پھیلے ہوئے بے انت خلا پر چھائے ہوئے سناٹے کو لڑکی کی نفیس آواز نے توڑ ڈالا۔ وہ بولی۔

    ’’آپ کو ڈھونڈ نکالنے کا اعزاز میں نے حاصل کیا ہے‘‘۔

    آواز اس کے وجود میں اترتی چلی گئی۔ لڑکی نے جو کچھ کہا وہ کسی اجنبی زبان میں نہیں تھا اور نہ ہی آواز میں کوئی اجنبی پن تھا۔ مگر اسے تھوڑی سی الجھن محسوس ہوئی۔ کیا میں گم ہو گیا تھا؟ اور اگر میں گم شدہ بھی شمار کیا جاؤں گا تو اپنی بستی میں، نہ کہ یہاں، جہاں کے بارے میں میرے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔ پھر بھلا لڑکی کی ڈھونڈ نکالنے اور اعزاز حاصل کرنے والی بات کا مجھ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔

    لڑکی اسے غور سے دیکھ اور اس کی الجھنوں کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ چاہتی تو اسے اور بھی بہت کچھ بتا سکتی تھی مگر شاید اسے یہاں سے جانے کی جلدی تھی، اسی لیے اس نے اردگرد دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’میں آپ کو اپنے لوگوں میں لے چلوں‘‘۔

    ’’میں کہاں ہوں؟‘‘ آخر کار اس نے اپنی خاموشی کو توڑا اور لڑکی سے پہلا سوال کر ڈالا۔ لفظوں کو ادا کرتے ہوئے اسے کوئی الجھن نہیں ہوئی۔ اس نے اپنی بستی میں بہت پہلے سے یہ سن رکھا تھا کہ اجنبی دنیاؤں میں اجنبی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مگر یہاں تو اجنبیت کے باوجو دزبان، لفظوں کی بنت اور سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی۔

    ’’کچھ سوال بابا سے پوچھ لینا‘‘۔ لڑکی نے چند ساعتوں کے بعد جواب دیا۔

    ’’یہ بابا کون ہیں؟‘‘ اس نے ایک اور سوال کر ڈالا۔

    اپنی الجھنوں کو سلجھانے کے لیے اس کے پاس سوالوں کے سوا تھا ہی کیا۔ وہ منتظر تھا کہ لڑکی کوئی جواب دے مگر وہ کچھ کہے بنا کھڑی ہو گئی اور خلا میں دوسری طرف پشت کرتے ہوئے صرف اتنا کہا۔

    ’چلیے‘۔

    زمین پر بیٹھے ہوئے اس نے گردن اٹھا کر لڑکی کی طرف دیکھا اس کے سامنے دراز قد لڑکی کا عقبی سراپا تھا۔ جوٹ کا موٹا لباس اس کے بدن پر تھا، جس کی بناوٹ میں کوئی ہنرمندی موجود نہیں تھی۔ اس کی بستی کی عورتیں اس سے بہتر لباس پہنتی تھیں۔ اسے اپنی تہذیب پر فخر محسوس ہوا۔ جہاں صرف لباس ہی نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے سارے طور طریقوں میں مسلسل تبدیل ہونے اور آگے بڑھنے کا عمل نہایت رواں اور مضبوطی کے ساتھ موجود تھا۔ جہاں ٹیلے پر موجود دانش گاہ میں فیصلے ہمیشہ آنے والے کل کو سامنے رکھ کر کیے جاتے تھے۔

    مگر افتخار سے بھرے یادوں کے اس سفر میں جب اسے یہ بھی یاد آیا کہ اسی دانش گاہ میں آنے والے کل کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے کی بصیرت کے باوجود خدا کے وجود سے انکار کیا گیا۔ وہ اپنے نئے اور انوکھے خیالات کی بنا پر بستی والوں کی نگاہ میں مجرم قرار پایا تھا۔ ایسے میں افتخار کی چمک مانند پڑنے لگی۔ لڑکی نے اپنے قدم آگے بڑھادیئے تھے، لہذا مجبوراً اسے بھی اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے ہوئے اس کے ساتھ چلنا پڑا۔ اسے ایک بار پھر خیال آیا کہ اس کے جسم پر لباس نہیں ہے۔ یکایک وہ لڑکی سے دو چار قدم پیچھے ہو گیا۔ لڑکی نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

    ’تم نے ابھی کہا تھا کہ تم نے مجھے ڈھونڈ نکالنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔۔۔کیوں؟‘ پیچھے چلتے ہوئے اس نے لڑکی سے سوال کر ڈالا۔

    ’اس لیے کہ ڈھونڈ نکالنے کے لیے دور دور کی تکونوں تک میں بہت سارے لوگ گئے ہوئے ہیں۔ لڑکی نے مسلسل قدم آگے بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’تو کیا ایسی اور بہت ساری تکونیں ہیں؟‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

    ’ان گنت‘ لڑکی نے مختصر سا جواب دیا۔

    وہ حیران رہ گیا۔ وہ ایک ہی تکون کے دوسرے سروں کو دیکھ نہیں پا رہا تھا جس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ تکون غیرمعمولی بڑی ہے ،جب کہ لڑکی جواب دے رہی تھی کہ بہت سارے لوگ مختلف تکونوں میں اسے تلاش کرنے گئے ہوئے ہیں اور یہاں لامحدود تکون موجود ہیں۔ اس نے چلتے ہوئے حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی مگر آس پاس تھا ہی کیا جسے وہ دیکھ سکتا۔ اسے تو بس ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ آسمان کی وسعتوں میں سفر کر رہا ہو۔ جہاں چھونے اور لمس کا تجربہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔اسے لڑکی کا خیال آیا کہ وہ اس کے پاس ہی موجود ہے اور وہ اسے چھو سکتا ہے۔ یکایک اس کے اندر یہ خواہش ابھری کہ وہ اس لڑکی کو چھو کر دیکھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ فریب نظر ہو اور دور تک پھیلے ہوئے خلا میں اس لڑکی کا وجود بھی محض دھوکا ہو۔ اس کی خواہش شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔

    اس نے جوں ہی لڑکی کی طرف ہاتھ بڑھا یا، وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولی۔

    ’’خواہشوں کو اپنے قابو میں رکھیں‘‘۔

    وہ سن کر پریشان ہو گیا۔ کیا لڑکی ان کہی جاننے یا لوگوں کے اندر جھانکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ یہ بھی جانتی ہوگی کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں۔ یہ بات تو لڑکی بتا چکی ہے کہ وہ اسے ہی ڈھونڈنے نکلی تھی۔ اس کا مطلب میرے بارے میں اسے کچھ نہ کچھ ضرور معلوم ہے۔ وہ یہ سوچتے ہوئے اس کے پیچھے چلتا رہا۔ قدم بہت تیز اٹھ رہے تھے یا پھر زمین نما شیشے کا فرش تیزی سے پیچھے کی طرف پھسل رہا تھا۔ حقیقت میں سچ کیا تھا، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

    آخرکار چلتے چلتے اسے ایسا لگا جیسے تکون کی دو دیواریں اب قریب آتی جا رہی ہیں۔ ترچھی دیواروں کے قریب آنے کا زاویہ بھی ترچھا ہی تھا۔ لہذا ان کے قریب آنے سے ایک عجیب سا احساس بھی پیدا ہو رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے پہلے سے ڈھلکا ہوا شیشے کا آدھا بکس اس کے اوپر گرنے والا ہو۔ مگر وہ چلنے سے گریز نہیں کر سکتا تھا۔ خواہ دیواروں کے گرنے کا احساس کتنا بھی یقینی ہو، اسے لڑکی کی معیت میں آگے بڑھنا ہی تھا۔ اپنی قسمت جاننے کے لیے اسے قدم آگے بڑھانا ضروری تھے۔ چنانچہ وہ آگے کی سمت بڑھتا جا رہا تھا۔

    اسے لگا کہ وہ فرش اور جھکی ہوئی دیوار کے جوڑ کے بالکل نزدیک آ گیا ہے، یا وہ خود ہی اس کی طرف بڑھ آئی ہیں۔ اب اسے آئینہ نما دیوار میں اپنا سراپا بھی دکھائی دے رہا تھا۔ مگر یکایک وہ خود کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کیوں کہ وہ وہاں بےلباس نہیں تھا۔ اس نے بھی لڑکی کی طرح ڈھیلا ڈھالا خاکی رنگت کا موٹا سا لباس پہن رکھا تھا۔ مگر جب اس نے شیشے سے نظر ہٹا کر خود کو دیکھا تو اسے وہ لباس کہیں دکھائی نہیں دیا۔ وہ حیران رہ گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ حیرت میں اس کے قدم بھی رک گئے تھے۔ وہ پریشان ہو گیا۔ آئینہ اسے برہنہ نہیں دکھا رہا تھا۔ اسے یاد آیا کہ لڑکی سے ملاقات سے قبل یہی آئینہ اسے برہنہ دکھا رہا تھا۔ وہ واقعی برہنہ بھی تھا مگر اب وہ حقیقتاََ برہنہ ہونے کے باوجود آئینے کی نظر میں برہنہ نہیں تھا۔ وہ اس انہونی کو سلجھا نہیں پایا تھا۔ اس نے لڑکی کی طرف دیکھا جو کہ اس سے بہت آگے جا کر رک گئی تھی اور اب پلٹ کر اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ وہ تقریبا دوڑتا ہوا لڑکی کے نزدیک پہنچا۔ لڑکی آگے بڑھتے ہے بولی۔

    ’’آئینے میں خود کو دیکھ کر جو حیرت میں مبتلا ہو، وہ حیرت میری زندگی کا بھی حصہ ہے۔ میں جب خود کو دیکھتی ہوں تو بےلباس ہی دیکھتی ہوں۔ مگر میں دوسروں کی نگاہ میں بےلباس نہیں ہوں۔ اسی طرح آپ بھی میری نظر میں بےلباس نہیں ہیں۔ آئینہ بھی ہمیں دوسروں کے سامنے برہنہ نہیں دکھاتا۔ البتہ جب ہم تنہا ہوتے ہیں تو آئینہ ہمیں ویسا ہی دکھاتا ہے جیسے ہم ہیں۔ یہ لباس ہم پہنتے نہیں اور نہ ہی یہ ہم اتارتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی شے ہے جو لوگوں کے درمیان آنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔‘‘

    لڑکی نے اسے دیکھتے ہی پوری تفصیل بتاتے ہوئے اس کی الجھن دور کر دی۔ مگر وہ تو کچھ زیادہ ہی الجھا ہوا تھا۔ اس لیے وہ بولا۔

    ’’پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ بغیر سوال سنے تم سب کچھ جان کیسے لیتی ہو‘‘؟

    ’’ہم سب ایک نازک احساس سے جڑے ہوئے ہیں‘‘ لڑکی نے مختصر سا جواب دیا۔

    ’’اگر ایسا ہے تو، تم جو سوچ رہی ہو، وہ مجھے کیوں نہیں معلوم؟‘‘ اس نے ایک اور سوال کر ڈالا۔

    شاید اس لیے کہ آپ ابھی بابا سے نہیں ملے ہیں اور نہ ہی قبیلے کا حصہ بنے ہیں۔‘ لڑکی نے پھر مختصر سا جواب دیا۔

    لڑکی چلتے چلتے رک گئی۔ وہ جہاں رکی وہاں شیشہ نما دیوار میں ایک بند دریچہ تھا۔ ایک بڑی سی کھڑکی جس کی چوکھٹ اور دروازے کسی چمک دار دھات کے بنے ہوئے تھے۔ دریچے کے پلڑوں میں کوئی کنڈی یا تالا نہیں تھا، مگر صاف محسوس ہو رہا تھا کہ انہیں کھولنا آسان نہ ہوگا۔ تاہم لڑکی نے اسے کھولنے کی کوشش بھی نہیں کی اور نہ وہ دریچے کی طرف بڑھی بلکہ وہ دیوار کے ساتھ ساتھ اپنے قدم بڑھانے لگی۔ وہ بھی اس کے پیچھے چل دیا۔ ایک بار پھر دیوار خود بخود دور ہونے لگی۔

    وہ سمجھ گیا کہ دیوار کا یہ کونا دراصل آگے کی طرف نکلا ہوا ہے اور دریچے کی بناوٹ کے فوراً بعد وہ پیچھے کی جانب ایک بار پھر گھوم رہا ہے۔ اسے اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ وہ تکون کے ایسے کونے کی طرف آ گئے ہیں جو دو دیواروں کو ایک ساتھ ملاتے ہوئے اپنے زاویے پر لوٹ رہا ہے اور اب دریچے کو پار کرتے ہوئے وہ دونوں کسی دوسری تکون میں داخل ہو گئے ہیں۔

    دونوں کے قدم شیشے پر آگے بڑھ رہے تھے۔ دیوار جس طرح قریب آئی تھی اس طرح دور ہوتی جارہی تھی۔ یکایک لڑکی کے سامنے کوئی آ گیا۔ وہ چلتے چلتے رک گئی۔ سینکڑوں باریک شیشے کے چھلوں سے بنی ہوئی لمبی لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے وہ بوڑھا اچانک ان دونوں کے سامنے آگیا تھا۔ عمیق تجربوں سے روشن اور سینکڑوں برسوں کی ریاضت سے معمور آنکھیں، حوادث زمانہ اور بصیرت کے بوجھ سے جھکے ہوئے کاندھے، بزرگی کے احسا س سے جھکی ہوئی خمیدہ کمر اور ہونٹوں پر کسی دیرینہ خواہش کی تکمیل شدہ مسکراہٹ لیے وہ بوڑھا اسی کو دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ بولا۔

    ’’مجھے پتا تھا کہ آپ ضرور یہاں مل جائیں گے‘‘۔

    ’’کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟‘‘ اس نے سوال کر ڈالا۔

    ’’مجھ سے زیادہ آپ کو کون جان سکتا ہے‘‘۔ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’لیکن آپ مجھے پہچان نہیں پارہے ہیں‘‘۔

    ’ہم پہلے کبھی ملے ہی نہیں۔‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔

    ’’آپ کو جب ٹیلے سے دھکا دیا گیا، میں ماں کی پیٹ میں تھا‘‘۔ بوڑھے کے چہرے پر اب بھی مسکراہٹ تھی۔

    ’’کیا مطلب؟‘‘ وہ حیرت سے بولا ’’آپ کون ہیں؟‘‘

    ’’میں آپ کا بیٹا ہوں‘‘۔ بوڑھے نے پھر کہا۔

    ’’میں پاگل ہو جاؤں گا‘‘۔ اس نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے بھینچتے ہوئے کہا۔ ’’میں کہاں ہوں؟ مجھے سمجھ میں نہیں آتا، عظیم الشان تکون اور عکس اچھالتی دیواروں کی اس دنیا میں سب کچھ عجیب و غریب اور حیرت انگیز ہے۔ شیشے کبھی مجھے ویسا دکھاتے ہیں جیسا میں ہوں اور کبھی ویسا جیسا میں خود کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں کھردری اینٹوں والی زمین کا باشندہ ہوں۔ چکنے شیشے کے فرش پر چلنے کی مجھے عادت نہیں ہے۔ جب پہلی بار میں اس فرش پر چلا تو چلا ہی نہیں گیا اور جب دوڑ نے کی کوشش کی تو چکراکر گر پڑا اور پھر مجھے یہ مل گئیں‘۔ اس نے لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا۔ ’ان کا گیان اور ان کی سمجھ نے مجھے حیران کر دیا اور اب آپ مجھے پاگل کر دینا چاہتے ہیں‘‘۔

    ’’آپ میرے ساتھ آئیے‘‘۔ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا اور مڑکر دوسری سمت چلنے لگا۔ وہ اور لڑکی بھی بوڑھے کے پیچھے چل پڑے۔ چلتے چلتے وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں اور بہت سارے لوگ موجود تھے۔ کچھ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، کچھ ان کی طرف دیکھ رہے تھے اورجو لوگ ان کے قریب ہی تھے، انہوں نے ان کو جھک کر تعظیم کی اور اپنے رستوں پر ہو لیے۔ تینوں چلتے ہوئے ایک بڑے شیشے کے اہرام نما گھر کے قریب پہنچ گئے۔ لڑکی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور پھر وہ تینوں اندر داخل ہوگئے۔ وہ حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ اندر سے باہر کا سارا منظر دکھائی دے رہا تھا، دوسرے لفظوں میں یہ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ شیشے کی دیواروں کے اندر کسی گھر میں ہیں۔ اسے ایک بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ یہاں طلسمات کا بےانت سلسلہ ہے، جسے سمجھنے کے لیے لمبی مدت درکار ہوگی۔ بوڑھے نے لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے آگے بڑھ کر آنے والے کے لیے کرسی پیش کی۔ وہ بیٹھ گیا۔ یہ پہلی چیز تھی جسے اس نے یہاں آنے کے بعد چھوا تھا۔ اب تک اسے کوئی چیز ایسی نہیں ملی تھی جسے وہ دیکھ یا چھو سکتا۔

    ’’مجھے آپ الجھنوں سے نکالیے‘‘۔ اس نے بیٹھتے ہوئے پہلا سوال کر ڈالا۔

    ’’آپ تو خود بہت کچھ جانتے اور جاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ دریچوں تک نہ پہنچے ہوتے‘‘۔ بابا نے معنی خیز مسکراہٹ سے جواب دیا۔

    ’’مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں یہاں پہنچا کیسے ہوں۔ اینٹوں کی بستی سے یہاں تک کا سفرکیسے طے کیا ہے‘‘۔ اس نے اپنے ذہن پر جہاں پُر ہول سناٹے کے سوا کچھ نا تھا، زور دینے کی کوشش کی اور اپنی ہتھیلیوں کو بےقراری سے رگڑتے ہوئے کہا۔ ’مجھے ایک بات بہت اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے مجھے ٹیلے سے دھکا دیتے ہوئے کہا تھا کہ جاؤ اپنے خدا کے پاس۔ تو کیا میرا اور ان کا خدا الگ الگ تھا؟‘‘

    ’’وہ تمام لوگ جو خدا کو مانتے ہیں ان کا خدا ایک ہی ہے۔ صرف سمجھنے کا فرق ہے۔‘‘ بابا نے جواب دیا۔ ’’دنیا میں صرف دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جو خدا کو مانتے ہیں اور دوسرے جو اس کے ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ آپ نا ماننے والوں کے درمیان ایک اکیلے ماننے والے تھے، اسی لیے سزا وار ٹھہرے، مگر بعد میں آپ کے نقش قدم پر بہت سارے لوگ چلے اور اب تک چل رہے ہیں‘۔

    ’’آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟‘ اس نے بوڑھے سے سوال کر ڈالا۔

    ’’آپ بھول گئے۔ میں نے بتایا تھا کہ میں آپ کا بیٹا ہوں‘‘ بوڑھے نے جواب دیا تو وہ چونکا۔

    ’’ناممکن۔۔۔‘‘ اس نے انکار کیا۔

    ’’بظاہر ناممکن۔۔۔ مگر سچ یہی ہے۔ آپ جب ہم سے جدا ہوئے تو میں ماں کے پیٹ میں تھا۔ آپ کے اور میرے درمیان میں جو فرق ہے، وہ وقت ہے۔ آپ زمین اور ہم سے جوں جوں دور ہوتے گئے وقت کی دائرے سے باہر نکلتے چلے گئے۔ جب کہ میں اپنے وقت پر پیدا ہوا، اپنے وقت کے ساتھ ساتھ بڑا ہوا، علم حاصل کیا، سماجی رشتوں کو نبھایا، طاقت اور اقتدار حاصل کیا، نسل میں اضافہ کیا اور پھر اپنی ذمہ داریاں اپنے بچوں کو منتقل کیں۔ جس لڑکی سے آپ ملے ہیں وہ میرے پوتے کی بھی نواسی ہے۔ یعنی آپ کی چھٹی نسل، جو بظاہر آپ کے برابر دکھائی دیتی ہے مگر اس کی اور آپ کی پیدائش میں صدی سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ وقت تو زمین کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جس کی مٹی سے آپ بنے ہیں اور جہاں آٰپ کو واپس جانا ہے۔ کیوں کہ یہی مقدر ہے‘‘۔

    ’’مگر میرے مقدر میں تو موت لکھی تھی۔ گہری کھائی میں گر کر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جانے والی موت‘۔

    اس نے اپنی سوئی ہوئی یادوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔

    ’’ہم اپنے گمان میں کئی کئی بار مرتے ہیں، مگر حقیقت میں نہیں مرتے۔ جب حقیقت میں مرتے ہیں تو ہمیں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ زندگی میں ایسا ہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘ بوڑھے نے ایک لمحہ توقف کے بعد کہا۔ ’’ہم باپ اور بیٹے اپنی عمروں کے فرق کے ساتھ حقیقت اور گمان کی بہترین مثال ہیں‘‘۔

    ’’میرا ذہن اب بھی آپ کو بیٹے کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے‘‘۔ اس نے بے بسی سے کہا۔

    ’’وقت کے دائرے سے باہر آپ کے ماضی اور مستقل نے اپنا وجود کھو دیا ہے۔ آپ صرف حال میں موجود ہیں اور وہ بھی صرف اس یاد کے سہارے جس کی وجہ سے آپ ٹیلے سے دھکا دے کر زمین سے جدا کیے گئے تھے۔ یہ میرا اپنا خیال ہے کہ خدا کی تلاش نے آپ کو زندہ رکھا ہوا ہے‘‘۔ بوڑھے نے جواب دیا۔

    وہ خاموشی سے بوڑھے کو بولتا ہوا دیکھ اور سن رہا تھا۔ اس نے بوڑھے کے خط وخال میں خود کو تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر وہاں امتداد زمانہ نے نقو ش بہت تبدیل کر دیئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ بوڑھا اپنی جوانی میں اس کے جیسا رہا ہو۔ اس نے اپنا بڑھاپا دیکھا ہی کب تھا جو کہ وہ اس بوڑھے کے نقوش سے ملاپاتا۔ اسے تو اپنا بچپن بھی صحیح طرح یاد نہیں تھا۔

    بوڑھا شخص بتا رہا ہے کہ میری عمر صدی سے بھی زیادہ ہے اور زمین کے دائرے سے باہر نکل کر ماہ و سال اور وقت کی قدر کے پیمانے کام نہیں کرتے۔ اس نے سوچا۔ یکایک وہ چونکا کہ وہ سوچ سکتا ہے اور پھر اس نے اپنی آنکھوں کو جھپکا تو وہ بھی کام کرنے لگیں۔ اس نے پھر سوچا کہ شاید اس فضا سے مانوس ہو گیا ہوں۔ مگر یہ فضا ہے کون سی۔ اسے خیال آیا، چنانچہ اس نے بوڑھے سے سوال کر ڈالا۔

    ’’آپ نے ابھی کہا کہ مجھے زمین پر واپس جانا ہے۔ تو کیا میں زمین پر نہیں ہوں؟‘‘

    ’’خدا کو تلاش کرنے کے لیے ذہنوں کو بلند کرنا پڑتا ہے۔ مگر آپ ذہن کے ساتھ اپنے مادی وجود کے ہمراہ زمین سے بلند ہو گئے ہیں۔‘‘

    ’’مگر کیسے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’شاید اس سچ کا سراغ بھی زمین پر ہی کہیں موجود ہوگا‘‘۔ بوڑھے نے خیال ظاہر کیا۔

    اس نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی۔ ہر شے ہلکی نیلی روشنی اور شیشے کے چمکتے ہوئے سانچوں پر مشتمل تھی۔ آر پار دکھائی دینے والے شیشوں میں کوئی جوڑ نہیں تھا۔ مگر جہاں جہاں آئینے نصب تھے وہاں دو شیشوں کے درمیان جوڑ بھی تھے اور ان جوڑوں کی وجہ سے تصویریں دہری، تہری اور کہیں لاتعداد وجود کی صورت میں ڈھلتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ کہیں کہیں وہ خود کو بھی بے شمار حصو ں میں بٹا ہو دیکھ رہا تھا۔

    اچانک اسے ایسا لگا کہ جسم کے تمام رونگھٹے کھڑے ہو رہے ہوں۔ کوئی بات اسے بےچین کر رہی تھی۔ کچھ ایسا تھا جو اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور پھر ادھر سے ادھر ٹہلنے لگا۔ بوڑھا خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ ٹہلتے ہوئے کبھی شیشوں کی دیواروں کے نزدیک چلا جاتا اور وہاں سے باہر کی سمت دیکھنے لگتا، جہاں بہت سارے لوگ ادھر ادھر پھر رہے تھے اور کبھی اہرام نما گھر کے درمیان میں آ کھڑا ہوتا اور سر اوپر کی سمت اٹھا کر اہرام کی بلند نوک کو دیکھنے لگتا۔

    اپنے بدن پر طاری ہونے والی اس عجیب کیفیت کو وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے اپنی یادوں کو کھنگالنے کی کوشش کی۔ یادیں تو ماضی کا حصہ ہوتی ہیں اور وہ اپنے ماضی کو فراموش کیے ہوئے تھا۔ جب اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا تو وہ اہرام نما گھر سے باہر نکل آیا۔ وہاں نہ کوئی راستہ تھا اور نہ راہ داریاں۔ بس دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا اور ادھر ادھر پھرتے ہوئے کچھ لوگ جو اس کے لیے اجنبی تھے۔ اسے لگا کہ لوگ غیر محسوس طریقے سے اس کے گرد ایک دائرے کی شکل میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ قید خانے کا احساس ایک بار پھر اس میں بیدار ہو گیا۔ اس کی گھبراہٹ بڑھنے لگی۔ وہ پلٹ آیا۔ بوڑھے نے اسے دوبارہ کرسی پیش کی۔ وہ بیٹھ گیا۔ مگر یک بارگی کچھ سوچتے ہوے اٹھ کھرا ہوا اور الٹے قدموں اہرام نما گھر سے باہر نکل گیا۔ اب وہ تیزی سے ایک سمت جا رہا تھا۔ اسے پریشان دیکھ کر بوڑھا بھی اس کے پیچھے لپکا۔ لوگوں نے اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر کچھ سوچ کر بوڑھے نے سب کو روک دیا اور خود بھی اسے جاتا ہوا دیکھنے لگا۔

    اس کے چہرے پر وحشت پھیلی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں الجھنوں کے سرخ ریشے صاف دیکھے جا سکتے تھے۔ جسم کے رونگھٹے پہلے ہی بار بار کھڑے ہو کر اس کی بےچینی کو بڑھاوا دینے پر معمور تھے۔ بےدھیانی میں اس کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی۔ دور دور تک پھیلے ہوئے چکنے آئینہ نما خالی فرش پر چلتے ہوئے اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ صحیح سمت جا بھی رہا ہے یا نہیں۔ جس خیال نے اس کے وجود میں کھلبلی مچا رکھی تھی، پورا نہ ہو پایا تو یکایک وہ رک گیا اور یوں پلٹا جیسے کوئی اس کے ساتھ ساتھ چلا آیا ہو اور بولا۔

    ’’ان دریچوں کے پار ‘‘۔۔۔

    وہ کہتے کہتے رک گیا اور چاروں سمت دور دور تک دیکھنے لگا۔ وہ اکیلا تھا۔ اس کے سوال کا جواب دینے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ اپنی بے دھیانی میں یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید بوڑھا شخص اس کے ساتھ ساتھ چلا آیا ہے، مگر اسے وہاں نہ پا کر اس پر مایوسی طاری ہونے لگی۔ اس نے گہری سانس لی اور دور کی مسافت کے بعد والی تھکن کو ساتھ لیے فرش پر بیٹھتا چلا گیا۔

    اس کا سوال ادھورا رہ گیا تھا۔ شاید جواب کی طلب نے ہی اسے بےچین کر رکھا تھا۔ یقیناً یہ دریچے اپنے اندر بہت سی معنویت رکھتے ہیں۔ ان کے پیچھے ضرور ایسا کچھ پوشیدہ ہے جسے جاننے کی خواہش ہر انسان کو ہو سکتی ہے اور وہ تو یوں بھی کچھ انجانے سوالوں کے حتمی جوابوں کی تلاش میں نہ جانے کب سے ادھر ادھر بھٹک رہا ہے۔ زاویہ در زاویہ بنے ہوئے یہ دریچے کہاں کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے پیچھے کیا ہے، شاید یہ جاننا ہی مقصد حیات ہے۔ اس نے سوچا۔

    مجھے دریچے کے اس پار جانا چاہیے۔ یہ خیال اسے ایک تیز روشنی کے جھپاکے کی طرح آیا تھا۔

    ہاں مجھے دریچے کے اس پار ضرور جانا چاہیے۔ اس کے وجود میں یہی پکار ایک بار پھر ابھری اور پھر ایسا لگا جیسے اس کے وجود میں اس تجسّس بھرے خیال کی بازگشت بھر گئی ہو۔ تب اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔ اس نے آس پاس دیکھا۔ اسے دورسے لڑکی آتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ اسی کی سمت آ رہی تھی۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ چند ساعتوں کے بعد لڑکی اس کے نزدیک پہنچ چکی تھی۔

    ’’آپ کیوں بھٹکتے پھر رہے ہیں؟‘‘ وہ بولی۔

    ’’تمہیں وہ دریچہ یاد ہے۔۔۔ہم جہاں سے گزرے تھے‘‘۔ اس نے لڑکی سے سوال کر ڈالا۔

    ’’آپ اس کے پار جانا چاہتے ہیں؟‘‘ لڑکی نے جواب دیا اسے یاد آیا کہ لڑکی کچھ سنے بغیر ہی بہت کچھ جان لیتی ہے۔ اب بھی وہ اس کے احساسات کو سمجھ چکی تھی۔ وہ پہلے کی طرح حیران نہیں ہوا۔ وہ بولا۔

    ’’شاید میری تلاش وہاں جا کر ختم ہو جائے‘‘۔

    ’’بابا آپ کو یہاں سے واپس لے کر جانا چاہتے ہیں، تاکہ آپ کی زندگی کا سفر تمام ہو، جب کہ آپ مزید آگے بڑھنے کے خواہش مند ہیں‘‘۔

    ’’کیا تم مجھے وہاں تک پہنچانے میں میری مدد کروگی؟‘‘ اس نے لڑکی سے پوچھا تو وہ بولی۔

    ’’یہ بابا کی مرضی کے خلاف ہوگا۔۔۔ مگر میں انہیں منالوں گی‘‘۔

    یہ کہتے ہوئے لڑکی آگے بڑھ گئی۔ وہ بھی اس کے پیچھے چل دیا۔ دور تک پھیلے ہوئے خلا کے باوجود لڑکی کو سمتوں کا اندازہ تھا۔ دونوں کچھ ہی دیر میں ایک تکون کے سامنے پہنچ گئے، جہاں اونچائی پر بنا ہوا دریچہ دور سے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تیز قدموں سے دوڑنے لگا۔ لڑکی اپنی مخصوص چال سے آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ بھاگے چلا جارہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ دریچہ اسے اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔ جوں جو ں دریچہ قریب آ رہا تھا دریچے کا حجم بڑھتا جارہا تھا اور ساتھ ہی اس کا اضطراب بھی۔ یکایک اسے لگا کہ اس کے ذہن کے بند دروازوں پر یاد نے دستک دی ہے۔ اس کے سامنے ٹیلے پر بنا ہوا ایک بہت بڑا ہال نما کمرا تھا جہاں بہت سارے لوگوں کے درمیان وہ خود بھی موجود تھا۔

    ’’تم پر یہ بستی جتنا بھی فخر کرے کم ہے‘‘۔

    ’’مجھ پر اس بستی کے رہنے والوں کے بہت احسانات ہیں‘‘۔

    ’’یہ بستی خود بھی تمہاری احسان مند ہے۔ بھربھری مٹی کو سخت اور مضبوط اینٹ میں بدلنے کا تمہارا لازوال ہنر اس بستی کے چپے چپے پر نمایاں ہے۔ ہمیں وہ دن بھی یاد ہے جب تم نے کہا تھا کہ تم ایسی دھات بنانے والے ہو جس میں لوگ اپنا عکس ایسے دیکھ سکیں گے جیسے کوئی پانی کی جھیل میں خود کو دیکھتا ہے۔

    ’’مگر آج مجھے آپ سے ایک اعتراف کرنا ہے‘‘۔

    ’’وہ کیا؟‘‘

    ’’کھردری اینٹوں کو چکنا بنانے کی سعی لاحاصل کے دوران مجھے یہ خیال سوجھا تھا کہ شاید میں ایسی دھات بنانے میں کامیاب ہو جاؤں گا جو انتہائی چکنی اور پانی کی طرح شفاف ہوگی اور جس میں ہمیں اپنا عکس دکھائی دےگا‘‘۔

    ’’پھر کیا ہو گیا۔ کیا تم ایسا کرنے سے گریز کر رہے ہو؟‘‘

    ’’کوئی میرے خوابوں میں آکر مجھے ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ مجھے منع کرتا ہے‘‘۔

    ’’کون؟‘‘

    ’’شاید کوئی انتہائی بزرگ‘‘۔

    ’’کہیں تم سابقہ بزرگوں کی طرح الہام کا دعویٰ تو نہیں کر رہے ہو‘‘؟

    ’’مجھے اپنے کمزور اور گناہگار ہونے کا احساس ہے‘‘۔

    ُ’لوگ اگر اعتبار کر لیں تو یہی کمزوری طاقت بن جاتی ہے اور گناہ گار ہونے کا احساس بھی جاتا رہتا ہے۔ شاید تمہیں یہ معلوم نہیں کہ ہم اس سچائی سے آگاہ ہیں کہ تم نے وہ چیز بنا لی تھی، مگر ہمیں دکھانے سے پہلے ہی تم نے اسے آگ پر پگھلا کر ضائع کر دیا۔ کیوں کیا تم نے ایسا؟‘‘

    ’’جناب یہ جھوٹ ہے۔ میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ وہ چیز مکمل نہیں بنی تھی‘‘۔

    ’’تم ہمارے خداؤں کی قسم کھاؤ‘‘۔

    ’’میرا جس پر یقین ہے میں اس خدا کی قسم کھا رہا ہوں‘‘۔

    ’’جسے تم نے دیکھا نہیں اس پر یقین کرتے ہو؟‘‘

    ’’جنہیں میں دیکھتا ہوں، وہ میری دسترس میں ہیں اور جو میری دسترس میں ہو، وہ میرا خدا کیسے ہو سکتا ہے‘‘۔

    ’’تم ریاست کے قانون سے غداری کر رہے ہو‘‘۔

    ’’ریاست کو میرے ایمان سے سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاست میرے بارے میں صرف یہ دیکھے کہ میں اس کے لیے بہتر کام کر رہا ہوں یا نہیں‘‘۔

    شفاف فرش پر دریچے کی سمت دوڑتے ہوئے اسے وہ سب کچھ یاد آتا جا رہا تھا جب وہ اپنی بستی میں ٹیلے پر بنے ہوئی دانش گاہ میں، ریاست کے سربراہ کے سامنے اپنی سوچ اور فکر کا اظہار کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے خیالات انوکھے اور ناقابل قبول ہیں۔ مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دریچوں سے ہوا کو آنے سے اب کوئی روک نہیں سکتا۔ سربراہ نے اس پر جو الزام لگایا تھا، وہ اس حد تک درست تھا کہ اس نے عکس دکھانے والی دھات بنانے کے تجربے کے دوران ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ خود کو ویسا ہی دیکھنا جیسا کہ وہ ہے، کتنا مشکل ہوتا ہے، اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے لوگوں کو لمبی ریاضت سے گزرنا ہوگا۔ شاید وہ وقت ابھی نہیں آیا۔ اسی لیے اس نے اپنے تجربے کو ادھورا چھوڑ کر اس کے تمام نشانات اور امکانات کو مٹا دیا تھا۔ اس نے بھربھری مٹی کو پکا کر اینٹ بنانے کا فن ایجاد کیا تھا۔ لوگوں کو اس کے انوکھے فن پر فخر بھی بہت تھا۔ مگر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اپنا ہی عکس دکھانے والی دھات سخت اینٹ کی ضد تھی۔ اس سے قطعی مختلف۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اینٹ کی ایجاد پر فخر سے کاندھوں پر بٹھانے والے لوگ دھات میں اپنا اصل چہرہ دیکھنے پر اس کے خلاف ہو جائیں۔ مگر ریاست کے سربراہ کے سامنے پیش ہو کر اسے انداز ہ ہو گیا کہ اسے یہ بات پسند نہیں آئی ہے۔

    اسے دریچہ جتنا قریب محسوس ہوا تھا وہ اتنا قریب نہیں تھا۔ دوڑتے ہوئے اس کے پیر دُکھنے لگے۔ اس کے دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ اسے وہ ساری باتیں یاد آ رہی تھیں، جنہیں وہ طویل مدت سے بھلائے ہوئے تھا۔ مگر ان تمام بھولی ہوئی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اس کا اضطراب کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا تھا۔

    ترچھے جھکے ہوئے شیشوں کی ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی اور تکون بنانتی ہوئی دیوار قریب آرہی تھی۔ دیواروں اور فرش میں اسے اپنا بے قراری سے دوڑتا ہوا عکس بھی دکھائی دے رہا تھا۔ تب اسے یاد آیا کہ، اس نے جس دھات کو ایجاد کرنے سے گریز کیا تھا، یہ شیشے اس تجربے کی بڑی اور حیرت انگیز نشانی ہیں۔

    اس خیال نے اسے چونکا دیا ۔جوں ہی ذہن کے پردے پر اس بات نے یقین کا اشارہ دیا، اس کے قدم یکایک رک گئے۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس کے دماغ میں چھپے ہوئے کسی راز کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ یا پھر اس کے راز کو چرا کر اسے حقیقت کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔اس نے بےاختیار چاروں طرف گھوم کرا پنے ارد گرد ترچھی جھکتی اور بہت اونچائی پر جاکر ایک دوسرے میں پیوست ہونے والی چکنی اور عکس لوٹاتی ہوئی دیواروں کو دیکھا۔

    ’’ہاں یہ وہی ہے‘‘۔

    اس کے منہ سے بےاختیار نکلا۔

    ’’کس نے بنایا ہے اسے؟‘‘

    اس نے خود سے سوال کیا۔ مگر اس کے الجھے سوالوں کے جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔

    ’’انسان کے ہاتھ ایسی تنی ہوئی دیواروں کو نہیں بنا سکتے‘‘۔

    اس نے خود ہی جواب دیا، مگر پھر خود ہی ایک اور سوال کر ڈالا۔

    ’’پھر کون خلق کر سکتا ہے۔۔۔ کیا خدا؟‘‘

    ’’شاید‘‘۔۔۔

    وہ اب تک بے یقینی کے حصار میں قید تھا۔ اس نے گہری سانس لی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے تمام اعضا صحیح حالت میں کام کر رہے ہیں۔ اسے یہ سوچ کر طمانیت محسوس ہوئی۔ تکون کی دو دیواروں کے جوڑوں کے درمیان بنا ہوا دریچہ اس کے سامنے ہی تھا۔ اسے نہ جانے کیوں یقین تھا کہ بند دریچے کے پیچھے اس کے سوالوں کے جوابات موجود ہیں۔ شاید دوسری طرف خدا بھی موجود ہو۔

    بستی کے ٹیلے سے دھکا دیئے جانے والے وقت سے اب تک اس کی سوچوں اور پورے وجود کو مضطرب کیے رکھنے والا سوال ایک بار پھر ابھر آیا۔ اسے جھرجھری آ گئی۔ خوف کی اچانک در آنے والی لہر نے اس کے پورے بدن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یکایک اس کا جی چاہا کہ وہ اسی وقت یہاں سے واپس لوٹ جائے۔ اسے پلٹنے میں عافیت محسوس ہوئی۔ وہ جوں ہی پلٹا تو اپنے پیچھے لڑکی کو کھڑا ہوا پایا۔ وہ چونکا۔ لڑکی اسے کپکپاتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہو گئی۔

    ’’میں واپس جانا چاہتا ہوں‘‘۔ وہ بولا۔

    ’’کیوں؟‘‘ لڑکی نے سوال کیا۔ ’’منزل کے اتنا قریب آکر آپ ناکام لوٹنا چاہتے ہیں‘‘؟

    ’’مجھے ڈر لگ رہا ہے‘‘۔

    ’’یہ چند قدم پار کرنے کی آپ کو ہمت کرنا ہوگی‘‘۔

    ’’میں تمہاری باتوں میں نہیں آؤں گا۔‘‘ وہ بولا۔ ’’وہ تم ہی تھیں جس نے آدم کو جنت سے نکلوایا تھا۔‘‘

    ’’آدم جس مٹی سے بنے تھے وہ جنت کے لیے تھی ہی نہیں۔ خدا کو اسے صحیح جگہ پہنچانے کے لیے ایک بہانہ درکار تھا۔ وہ بہانہ ایک عورت نے فراہم کر دیا۔ آج حقیقت تلاش کرنے کے لیے آپ کو کسی کی مدد کی ضرورت تھی، وہ میں نے کردی۔۔۔بس۔ اگر پہلی عورت قصور وار تھی تو میں بھی یہ الزام اپنے سر لینے کو بخوشی تیار ہوں‘‘۔

    یہ کہتے ہوئے لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے قدم دریچے کی طرف بڑھا دیئے۔ لڑکی تقریباً اسے کھینچتے ہوئے لے جارہی تھی اور وہ اس کا ساتھ دینے پر مجبور تھا۔جوں جوں اس نے قدم اٹھائے، خیالات کے جھکڑ بھی اس کے ساتھ چلنا شروع ہو گئے۔

    اسے پورا یقین تھا کہ لوگ اس کی حمایت میں ضرور بولیں گے، مگر جب فیصلہ سنایا جا رہا تھا، تب شور اس قدر بلند تھا کہ یہ جاننا ناممکن ہوگیا کہ لوگ فیصلے کے حق میں نعرے بلند کر رہے ہیں یا اس کی حمایت میں۔ اسے اپنی بیوی اور ہونے والے بچے کا خیال آیا، ایک ہم درد نے سرگوشی میں اسے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ تمہاری بیوی کو قید کر دیا گیا ہے۔ یکایک محافظوں کے ایک دستے نے اسے گھیر لیا اور بازوؤں سے پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوئے اونچی چھت والے کمرے سے باہر لے گئے۔اس کی آنکھوں کے گرد اندھیرا چھا گیا تھا۔

    دماغ میں شور کی آوازوں کے باوجود خوف کا سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ محافظ اسے بےدردی سے گھیسٹ رہے تھے۔ کھینچا تانی میں اس کا لباس تار تار ہو چکا تھا۔ وہ تقریباً برہنہ تھا۔ برہنگی کا احساس ہوتے ہی اس میں یکایک طاقت عود آئی۔ اس نے محافظوں کو زور سے دھکا دیا اور جلدی سے چھیتڑے ہوئے لباس سے خود کو ڈھانپنے کی ناکام کوشش کی۔ اسی اثناء میں سرعت کے ساتھ اسے احساس ہوا کہ وہ ٹیلے کے کنارے پہنچ چکا ہے۔ ابھی اس کے حواس پوری طرح قابو میں نہیں آئے تھے کہ اس کی پشت پر موجود محافظوں نے یکایک اسے ٹیلے سے یہ کہتے ہوئے دھکا دے دیا کہ جاؤ اپنے خدا کے پاس۔ لمحوں کے درمیان تبدیل ہوتے ہوئے منظر میں اس نے خود کو تیرتا ہوا محسوس کیا۔ پھر اس نے صرف اتنا دیکھا کہ تیزی سے قریب آتی ہوئی زمین اور اس کے درمیان میں کوئی بادل کی طرح کی شے آ گئی ہے۔

    دریچہ اب صرف ایک قدم کے فاصلے پر تھا۔ لڑکی نے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا۔

    ’’مجھے اپنا خون جمتاہوا محسوس ہو رہا ہے‘‘ اس نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے مزید کہا۔ ’’میں آپ کا یہیں انتظار کروں گی‘‘۔

    اس نے ایک نظر لڑکی کو دیکھا اور پھر دریچے کے بند کواڑوں کو اور پھر اپنی تمام قوتوں کو یکجا کرتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا کر بند کواڑوں پر ہلکا سا دباؤ دیا۔ دروازے میں ہلکی سی جھری پیدا ہوئی جس میں سے روشنی کی دودھیا کرنوں کی باریک سی لکیر ابھر آئی۔ دھیرے دھیرے جھری اور روشنی دونوں پھیلتے چلے گئے۔ اس نے اپنا قدم آگے بڑھادیا۔ جوں ہی دوسرا قدم دروازے کے پار پہنچا، دروازہ بند ہو گیا۔

    وہ ایک بہت بڑے دائرے کے اندر پہنچ گیا تھا، جس کا قطر بےجوڑ آئینے میں ڈھلا ہوا تھا۔وہ جہاں تھا وہیں رک گیا۔ اس کے پیروں تلے کوئی فرش نہیں تھا۔ مگر وہ تیر بھی نہیں رہا تھا۔ اس نے گردن گھما کر اس دریچے کی طرف دیکھا، جہاں سے وہ آیا تھا، مگر اب وہ دریچہ بہت ہی باریک سے نقطے میں چھپ گیا تھا اور وہ نقطہ بھی معدوم ہو رہا تھا۔ دور دور تک پھیلے ہوے بےانت خلا اور اس خلا سے بھی بہت دور گھیرے ہوے بےجوڑ گول آئینے میں سے قوس و قزح سے کہیں زیادہ دلکش اور ایک دوسرے میں مدغم ہوتے عجیب و غریب رنگوں کی لہریں نکل رہی تھیں۔

    وہ سکتے کی حالت میں تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو ہلکی سی جنبش دی، تو شیشے سے ابھرتی رنگوں کی دھنک میں ارتعاش پیدا ہو گیا۔ وہ چونک اٹھا، کہ اس کی آنکھوں کی ہلکی سی جنبش سے بھی رنگ متعرش ہو رہے ہیں۔ اس نے اپنے خیال کو مزید تقویت دینے کے لئے بازو کی لٹکی ہوئی انگلیوں کو زرا سا ہلایا۔ رنگ ایک بار پھر منتشر ہو کر نئے روپ میں ڈھل گئے۔ اسے اندازہ لگانے میں زرا دیر نہیں لگی کہ اس کے وجود اور شیشے سے ابھرتی دھنک میں کوئی باہمی تعلق ہے۔وہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ آئینہ اسی کو منعکس کرتا ہے جو اس کے سامنے ہوتا ہے۔

    تو کیا آئینے میں، میں خود ہوں؟ اس نے خود سے سوال کیا۔

    خدا جانے۔۔۔ اس نے پھر خود ہی جواب دیا۔

    یہ سوچ کر اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔ گول بے جوڑ آئینے میں اس کا اپنا وجود بے ہنگم انداز میں پھیلتے ہوے غائب ہو گیا تھا۔ لا محدود خلا کے باریک سے باریک حصے میں کوئی غیرمعمولی نادیدہ طاقت سمائی ہوئی تھی۔ اس کے وجود کو منعکس کرنے والے سرد رنگ دور تک پھیلے ہوے خلا میں کہاں جا کر گم ہو رہے ہیں، کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ بس معدومیت نمایاں تھی۔ بے انت خلا میں گم ہوتا ہوا دیکھ کر اسے اپنے وجود کے نا ہونے کا احساس شدت کے ساتھ ابھر آیا۔ اسے اپنی نادیدہ روح، بہتا لہو اور دیدہ بدن منجمد ہوتا محسوس ہوا۔ وہاں جو کچھ تھا اس کے حواس سے ماوراء تھا۔ گول دائرے کی کوئی متعین سمت نہیں تھی، مگر ہر سمت میں خدا کے ہونے کا احساس موجود تھا۔ وہ خدا کو دیکھنا چاہتا تھا، مگر بصارت نے انکار کر دیا۔ وہ خدا کو چھونا چاہتا تھا، مگر انگلیوں کے پور یخ برف کی طرح ٹوٹتے ہوے محسوس ہوے۔ یکایک ایک خیال تیزی سے ابھرا۔ اس سے پہلے کہ سب کچھ منجمد ہو، وہ سجدہ ریز ہو جائے۔ اسے سجدہ کرنے کے لئے زمین درکار تھی، مگر وہاں زمین نہیں تھی۔

    تب اس نے اپنا سر جھکا دیا۔

    (۲۰۱۰ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے