Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آغا وِلا

MORE BYمحمد امین الدین

    آغا ولا میں زندگی خوشیوں کے تمام حسین رنگوں سے بھری ہوئی تھی۔ چاروں سمت قہقہے، رنگارنگی، محبتوں کا امڈتا ہوا طوفان، جس میں تمام رشتے، تمام حوالے صرف محبتوں کے تھے۔ عیش و عشرت کی فراوانی میں ڈوبے شاداب چہرے، ہر چہرہ مطمئن و مسرور ،دکھ درد کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ ہر شخص ایک دوسرے کا مددگار اور معاون۔ محفلیں، ملاقاتیں، دعوتیں عروج پر رہتی تھیں۔ ہر شخص دعوتیں کرنے میں پہل کرتا۔ ایک دوسرے کو اطلاع کرتے۔ مل بیٹھنے کا بہانہ تلاش کرتے۔ ان سارے مل بیٹھنے کے بہانوں کے پیچھے جو شخصیت کارفرما تھی، وہ آغا بشارت کی شخصیت تھی۔ درمیانہ قد، بھاری جسامت، چوڑی پیشانی، سر کی پشت اور کانوں پر سفید بال، سفید گھنی مونچھیں۔ اکثر سفاری سوٹ میں ملبوس، جس کے اوپر گردن میں دھاری دھارمفلر پڑا ہوا ہوتا۔ یہ آغا بشارت تھے، جن کے دم سے پورے خاندان میں رونق لگی رہتی تھی۔

    شادیوں میں تقریبات کا سلسلہ ہفتوں چلتا۔ مایوں میں بیٹھنا ہے تو دعوتیں۔ مہندیاں آ اور جا رہی ہیں تب دعوتیں۔ شادی ،ولیمہ اور پھر اس کے بعد بھی چالہ چوتھی کی دعوتیں۔ سلسہ یہاں پر بھی نہیں رکتا تھا، بلکہ اس کے بعد دولہا دلہن کی دعوتیں اور اس میں پورا گھرانا اکھٹا ہو رہا ہوتا۔ جب شادیوں کا سلسلہ رکا ہوا ہوتا تو بچوں کی سالگرہ کا بہانہ بن جاتا۔ کبھی کسی کے پروموشن کا بہانہ بنا لیا جاتا۔ کسی کو بڑا ٹھیکہ مل گیا تو دعوت ہو گئی۔ کسی کو کاروبار سے اچھا منافع حاصل ہو گیا تو دعوت ہو گئی۔

    زندگی کو یہ لوگ بھرپور طریقے سے گزار رہے تھے کہ اچانک ایک دن آغا صاحب انتقال کر گئے۔

    خاندان جو ایک لڑی کی شکل میں جڑا ہوا تھا اچانک بکھر کر رہ گیا۔ پہلے پہل تو دعوتوں کا سلسلہ بند ہوا، پھر ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بھی کم ہو کر رہ گیا۔ رفتہ رفتہ لوگ ایک دوسرے سے کترانے لگے۔ اخوت اور محبتوں کی جگہ نااتفاقی اور نفرت نے جنم لینا شروع کر دیا۔ ایک دوسرے سے کاروباری رقابت پیدا ہونے لگی۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جانے لگی۔

    زندگی کا باہمی رویہ یکایک تبدیل ہو گیا۔ جہاں فضا میں کبھی نغمے گونجتے تھے، اب وہاں خاموشی نے ڈیرے ڈال دیئے تھے۔

    ہر وہ شخص جو اس خاندان سے واقف تھا اور مثا لیں دیا کرتا تھا، اب حیران تھا کہ یہ کیا ہو گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ صرف آغا صاحب کی شکل میں محبت زندہ تھی۔ جیسے ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے خاندان بھر سے محبت اٹھ گئی۔ یہ بات سچ بھی تھی۔ آغا بشارت صاحب کی شخصیت میں اس خاندان کا بھرم زندہ تھا۔ وہ جو کہتے سب مانتے۔ جو فیصلہ کرتے تمام لوگ اس پر عمل کرتے۔ خاندان کے لڑکے لڑکیاں اپنے والدین سے فرمائشیں پوری کروانے کے لیے اکثر آغا صاحب کا سہارا لیتے۔ اس طرح ان کا کام ہو بھی جاتا تھا، کیونکہ آغا صاحب کا کہا کوئی ٹالتا نہیں تھا۔ آغا صاحب خاندان بھر کے بچوں سے محبت بھی بہت کیا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ وہ صاحب اولاد نہیں تھے۔

    آغا صاحب کا اپنی بیگم کے ساتھ ازدواجی سفر پینتیس برس کا ہونے کے باوجود قسمت میں اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس کمی کو انہوں نے شادی کے دس برس بعد یتیم خانے سے ایک بچی کو گود لے کر پورا کر لیا تھا۔ یہ حمیرا تھی۔

    خوبصورت، معصوم اور ذہین۔حمیرا گریجویشن کرچکی تھی۔ اب وہ فائن آرٹ کی طالبہ تھی۔ مناظر قدرت کی تصویر کشی میں اسے کمال حاصل تھا۔ آغا ولا میں جگہ جگہ اس کی بنائی ہوئی تصویریں آویزاں تھیں۔ آغا ولا کے ہال نما لاؤنج کی ایک دیوار پر بڑے سائز کا میورل لگا ہوا تھا، جس میں چاند کی روشنی میں آغا ولا کا اپنا منظر پیش کیا گیا تھا۔ لوگ اس تصویر کو دیکھ کر حیران ہوتے تو آغا صاحب اور بیگم آغا فخر سے بتاتے کہ یہ تصویر ہماری بیٹی کی بنائی ہوئی ہے۔

    حمیرا آغا صاحب اور بیگم آغا دونوں کی خوشیوں کا محور تھی۔ انہوں نے اپنی ساری خوشیاں حمیرا سے جوڑ رکھی تھیں۔ وہ اکثر یہ کہا کرتے کہ ہمارا سب کچھ حمیرا کا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ خاندان کے کئی نوجوان حمیرا سے شادی کے امیدوار تھے۔ آغا صاحب کی بہن شائستہ احسان کا بیٹا فیضان، ان کے کزن احتشام کا بڑا بیٹا شکیل اور ان کے بھائی آغا کرامت کا بیٹا ایاز تو خاص امیدوار تھے، بلکہ جب آغا صاحب نے حمیرا کی شادی کا فیصلہ اپنی بہن کے بیٹے فیضان سے کیا تو ان کے کزن کا بیٹا شکیل دلبرداشتہ ہوکر ہمیشہ کے لیے کینیڈا چلا گیا۔

    شکیل حمیرا سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا۔ اس بات سے حمیرا بھی واقف تھی۔ گو کہ اس نے اپنی محبت کا اظہار کبھی نہیں کیا تھا، لیکن جب آغا صاحب نے اپنی بہن کو زبان دے دی تو حمیرا نے خاموشی سے آغا صاحب کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔

    آغا صاحب کیا گئے کہ اس گھر کی رونق ہی ختم ہو گئی۔ رقابتوں کا آغاز تو آغا صاحب کے چہلم والے دن ہی سے ہو گیا ۔تمام مہمانوں کے جانے کے بعد گھر کے افراد اور چند قریبی رشتہ دار ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ گئے تو آغا کرامت نے اپنی بیوی کو آنکھوں سے اشارہ کیا۔ وہ ان کا اشارہ سمجھتے ہوئے اندر چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد واپس لوٹیں تو ان کے ہمراہ بیگم آغا بھی تھیں۔ تھکے چہرے پر غم کی پرچھائیوں نے گھر کر لیا تھا۔ آنکھوں میں غم کی دھند سے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ خوب رو کر آ رہی ہیں۔

    بیگم آغا خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئیں۔ آغا کرامت نے ایک لمحے کے توقف کے بعد کہا ’’بھابی آپ ہمارے ساتھ کب چل رہی ہیں‘‘۔

    ’’کیا مطلب؟‘‘ بیگم آغا نے حیرت سے پوچھا اور پھر کہا۔ ’’میں بھلا کہیں بھی کیسے جاسکتی ہوں‘‘ ۔

    آغا کرامت گویا ہوئے ’’دراصل اب آپ اکیلی یہاں کیسے پڑی رہیں گی۔ آپ ہمارے ساتھ چلیں اور اب ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہیں۔ کچھ دنوں بعد جب حمیرا کی شادی بھی ہو جائے گی تب آپ بالکل اکیلی رہ جائیں گی اور کم از کم میں آپ کو یہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔ رہا سوال عدت کا تو وہ آپ وہاں بھی پوری کر سکتی ہیں‘‘۔

    آغا صاحب کی بہن شائستہ احسان اب تک خاموش تھیں فوراً بولیں۔ ’’سب سے پہلا مسئلہ تو وراثت کی تقسیم کا ہے۔ بھابی جان کہاں رہتی ہیں یہ ان کی صوابدید پر چھوڑ دیں‘‘۔

    آغا کرامت نے بہن کو دیھا اور برا سا منہ بناتے ہوئے بولے۔ ’’وراثت کی تقسیم ہم میں سے کسی کی مرضی سے نہیں ہوگی، بلکہ یہ اسلام کے شرعی اصولوں کی بنیاد پر ہوگی۔ میں نے مولوی صاحب سے کہہ دیا ہے۔ وہ مفتی صاحبان سے فتویٰ مجھے لادیں گے۔ ابھی تو مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنی بھابی اور حمیرا کو یہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔

    ’’تمہیں بہت زیادہ فکر ہو رہی ہے۔ یہاں بھابی اور حمیرا کی دیکھ بھال کے لیے شبنم موجود ہے‘‘۔ شائستہ احسان جو آغا کرامت سے ایک سال بڑی تھیں نے ملازمہ شبنم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غصے سے جواب دیا۔ یہ سن کر آغا کرامت غصے میں پیر پٹختے ہوئے باہر چلے گئے۔

    کمرے کی فضا کشیدہ ہو چلی تھی۔ سب خاموش بیٹھے تھے۔ بیگم آغا جو اب تک بالکل خاموش بیٹھی تھیں، کہنے لگیں۔ ’’تم لوگ میری اور حمیرا کی طرف سے پریشان مت ہو۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ میں تو بس اب اس گھر سے مر کر ہی نکلوں گی‘‘۔

    چند روز بعد آغا کرامت کو مفتی صاحبان کی طرف سے جاری کردہ فتویٰ مل گیا جس کی رو سے وراثت میں بیگم آغا کا کل جائیداد کی مالیت کا چوتھائی حصہ بنتا تھا۔ باقی حصہ بھائی، بہن، بھتیجے اور بھتیجوں یعنی آغا کرامت کے بچوں کا حق تھا۔ وراثت کی تقسیم میں حمیرا کا کوئی حصہ نہیں تھا، کیونکہ وہ منہ بولی بیٹی تھی۔ اگر آغا صاحب اپنی زندگی میں وصیت کر جاتے یا وہ حمیرا کے نام کچھ کرجاتے تو بات علیحدہ ہوتی۔

    حمیرا کے لیے یہ ایک معمولی سی بات تھی۔ پیسہ اس کی ضرورت کبھی نہیں بنا تھا۔ اسے آغا صاحب کی طرف سے ضرورت سے زیادہ جیب خرچ ملا کرتا تھا۔ جسے وہ اپنی سہیلیوں، کیسٹوں، پارٹیوں پر یا پھر برش اور رنگوں کی خریداری پر خرچ کر دیا کرتی۔ جب حمیرا سوچنے سمجھنے کی عمر میں داخل ہوئی تو وہ اس بات سے واقف ہو چکی تھی کہ وہ آغا صاحب کی حقیقی بیٹی نہیں ہے۔ یہ بات آغا صاحب نے اس سے چھپائی بھی نہیں تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر حمیرا کو زندگی میں کبھی کسی اور شخص سے یہ پتا چلا کہ وہ ہماری بیٹی نہیں ہے تو شاید اسے تکلیف ہوگی۔ جبکہ میں اسے بہادر اور حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال دیکھنا چاہتا ہوں۔ پھر وقت نے یہ ثابت کر دکھایا۔ حمیرا آغا صاحب سے بےپناہ محبت کرتی تھی۔ لیکن اس بات کے علم میں آنے کے بعد کہ وہ آغا صاحب کی اپنی اولاد نہیں ہے وہ ان سے اور زیادہ محبت کرنے لگی۔ اب وہ ہر وقت آغا صاحب کا خیال رکھتی۔ اگر وہ بیمار پڑ جاتے تو راتوں میں جاگ جاگ کر ان کی تیمارداری کرتی۔ آغا صاحب کو کب کیا کرنا ہے یا انہیں کیا چاہیے، وہ سب حمیرا کو معلوم ہوتا تھا۔ آغا صاحب کے کہنے سے پہلے ان کا کام ہو جایا کرتا تھا۔ باپ بیٹی کی یہ محبت خاندان بھر میں مثالی محبت تھی۔

    اس گھمبیر صورت حال میں حالات کے بدل جانے پر اور آغا صاحب کی وراثت میں سے کچھ نہ ملنے پر اسے کوئی دکھ نہیں تھا۔ اسے دکھ تھا تو آغا صاحب کے مرنے کا، اپنی امی یعنی بیگم آغا کے بیوہ ہو جانے کا یا پھر اسے دکھ تھا تو اس بات کا کہ لوگوں کے چہروں سے نقاب اترتے ہی ان کے اندر کے مکروہ اور غلیظ گدھ باہر آ گئے تھے۔ وہ گدھ جو نہ جانے کب سے آغا صاحب کے مرنے کا انتظار کر رہے تھے۔

    چند دنوں بعد ہی حمیرا کو اس وقت شدید دھچکہ لگا جب آغا صاحب کی بہن شائستہ احسان نے منگنی کی انگوٹھی اور دیگر اشیاء یہ کہہ کر واپس بھجوا دیں کہ فیضان ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔

    بیگم آغا کو جیسے ہی پتا چلا انہوں نے فون پر شائستہ احسان سے گفتگو کرنا چاہی، لیکن حمیرا نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ ’’امی یہ سب تو ہونا ہے‘‘۔

    ’’لیکن مجھے پوچھنے دو‘‘ بیگم آغا نے غصے میں کہا۔

    ’’آپ جانتی ہیں۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے پھر ان لوگوں سے پوچھنے کا کیا فائدہ اور پھر ہمیں اندازہ بھی ہے کہ وہ لوگ سچ نہیں بولیں گے‘‘۔ درد کی ہلکی سی چبپھن اور آنکھوں میں نمی کی موجودگی میں چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ حمیرا نے مزید کہا ’’امی یہ ایک یتیم اور لاوارث لڑکی کی قسمت ہے‘‘۔

    ’’تم نہ تو یتیم ہو اور نہ ہی لاوارث۔ تم میری بیٹی ہو آغا صاحب کی بیٹی ہو اور میں ابھی زندہ ہوں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے بیگم آغا نے حمیرا کو سینے سے لگالیا اور پھر دونوں ماں بیٹی آغا صاحب کو یاد کرکے رونے لگیں۔

    وراثت کی تقسیم کا فتویٰ ملتے ہی بیگم شائستہ احسان نے حمیرا کو اپنی بہو نہ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آغا صاحب کی زندگی میں حمیرا کا بہو بننا اور بات تھی۔ آغا صاحب کا سب کچھ حمیرا کا تھا اور یقینی طور پر آغا صاحب حمیرا کو شادی میں بہت کچھ دیتے، لیکن آج جب آغا صاحب زندہ نہیں تھے اور چاروں طرف سے آغا صاحب کی دولت اور قیمتی مکان آغا ولا پر لوگوں کی نگاہ پڑنا شروع ہو گئی تھی اور بیگم آغا کے اپنے حصے میں کچھ زیادہ نہیں آ رہا تھا، وہ کیسے حمیرا کو بہت کچھ دے سکتی تھیں۔ خاندان کے کچھ لوگوں نے یہ رائے دی کہ پہلے حمیرا کی شادی کی جائے اور بعد میں جائیداد کو تقسیم کر لیا جائے، لیکن فتویٰ کے لحاظ سے جن لوگوں کو کچھ نہ کچھ ملنے والا تھا وہ اس کے لیے قطعی تیار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیگم شائستہ احسان اپنے بیٹے فیضان کی شادی سادگی سے کرکے حمیرا کو اپنے گھر لے جائیں۔ رہا سوال بیگم آغا کا، تو انہیں آغا کرامت اپنے گھر میں رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

    اس سارے معاملے میں فیضان کی خاموشی بڑی حیرت انگیز تھی۔ وہ دولت پر مرنے والا نوجوان نہیں تھا۔ یوں بھی وہ حمیرا سے محبت کرتا تھا۔ لیکن اس گھر میں ایک ہی شخص کی حکمرانی تھی۔ وہ تھیں بیگم شائستہ احسان۔ ان کے آگے تو احسان صاحب کی بھی مرضی نہیں چلتی تھی۔ بھلا فیضان اپنی امی کے آگے کیسے یہ کہہ سکتا تھا کہ وہ ہر حالت میں حمیرا سے شادی کرےگا، خواہ اسے کچھ ملتا ہے یا نہیں۔

    ایک دن احسان صاحب نے اپنی بیگم سے یہ بات کہنے کی جسارت کی تھی، تب بیگم شائستہ احسان نے فوراً بات کو ایک نیا رخ دے دیا اور کہا۔

    ’’ہم جانتے ہی نہیں کہ حمیرا کے ماں باپ کون تھے۔ کس ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ میں کس طرح سے اسے اپنی بہو بنا کر لے آؤں۔ آغا صاحب کی زندگی میں بات دوسری تھی۔ وہ میرے بڑے تھے، میں ان کے آگے کچھ کہہ نہیں سکتی تھی، اسی لیے میں خاموشی سے رضا مند ہو گئی تھی، لیکن اب نہیں ہوں‘‘۔

    احسان صاحب اپنی بیوی کی طبیعت سے واقف تھے لہذا خاموش ہو گئے اور فیضان میں تو اپنے ابو جتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان سے کچھ کہہ سکے۔

    آغا صاحب کی جائیداد کا بیشتر حصہ آغا کرامت کے بچوں کے حصے میں آیا تھا۔ آغا صاحب کی تمام جائیداد پر بہت پہلے ہی سے آغا کرامت کی نگاہ تھی۔ وہ یہ بات پہلے سے جانتے تھے کہ آغا صاحب کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہے، لہذا جب کبھی ان کی جائیداد تقسیم ہوگی تو اس کا بڑا حصہ ان کے بچوں کے حصے میں آئےگا۔

    حمیرا کو گود لینے سے پہلے جب آغا صاحب اور بیگم آغا نے کسی یتیم بچے کو گود لینے کا فیصلہ کیا تو آغا کرامت نے اپنے بڑے بھائی سے کہا تھا کہ وہ چاہیں تو میرے کسی بچے کو گود لے لیں۔ آغا صاحب تو شاید مان بھی جاتے لیکن بیگم آغا نے منع کر دیا۔ جواز پیش کیا کہ کم از کم یتیم خانے سے بچی گود لینے کی صورت میں ایک بے سہارا بچی کو سہارا مل جائےگا۔ ہم ایک نیکی سے محروم ہونا نہیں چاہتے۔

    اس دلیل کے آگے تو آغا صاحب بھی کچھ نہ بول سکے۔ یوں انہوں نے حمیرا کو گود لے لیا، جس کے ماں باپ ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔اس حادثے میں حمیرا معجزاتی طورپر بچ گئی تھی۔ مرنے والوں کا کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھا۔ جب یہ خبر اخبار میں شائع ہوئی تو آغا صاحب نے فوراً متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا اور بچی کو گود لے لیا۔ اس طرح حمیرا آغا صاحب کے گھر کا حصہ بن گئی۔

    اب آغا صاحب کے انتقال کے بعد کچھ لوگ حمیرا کو اس گھر کا حصہ نہیں مان رہے تھے۔ جب فیضان سے حمیرا کی منگنی ٹوٹی تو بیگم آغا نے اپنے دیور آغا کرامت کو اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ اس سے پہلے کہ بیگم آغا کچھ اور کہتیں، آغا کرامت نے کہا۔ ’’منگنی پر یاد آیا کہ میں ایاز کی بھی جلد ہی منگنی کرنے والا ہوں۔ ایک لڑکی دیکھی ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ تاریخ طے کرنا باقی ہے‘‘۔ بیگم آغا فوراً سمجھ گئیں کہ اس بات کے کہنے کا مقصد کیا ہے۔ انہوں نے کوئی اور بات کیے بغیر فون بند کر دیا۔

    جس دن بیگم آغا کی عدت پوری ہوئی۔ اس کے دو روز بعد انہیں ایک عدالتی نوٹس موصول ہوا، جس میں آغا صاحب کی جائیداد کی قانونی تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔

    بیگم آغا اور حمیرا ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے کچھ کہنا چاہتی تھیں، لیکن انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت تلف ہو کر رہ گئی ہو۔ فرش پر پڑا ہوا عدالتی نوٹس ان کا منہ چڑا رہا تھا۔ کمرے میں ہر طرف نوٹس ہی نوٹس دکھائی دے رہا تھے اور جسم یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سفید نوٹسوں کے کفن میں لپٹا ہوا زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہو۔

    آغا صاحب کا مرنا، حمیرا کا وراثت میں حصہ نہ ہونا، خاندانی رقابتوں کا پیدا ہو جانا اور حمیرا کی منگنی کا ٹوٹنا جیسے سنگین واقعات بھی اس بات کے آگے معمولی دکھائی دے رہے تھے۔ شام تک گھر میں خاموشی چھائی رہی۔ دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے سے باتیں کرنا چاہتی تھیں لیکن الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ شام کے وقت معمول کے مطابق جب شبنم چائے بناکر لائی تو گھر میں چھایا ہوا سکوت ٹوٹا۔ حمیرا نے پرعزم لہجے میں کہا۔ ’’امی اگر یہ جنگ ہے تو پھر میں آپ کے لیے یہ جنگ لڑنا چاہتی ہوں‘‘۔ بیگم آغا نے جواب دیا۔ ’’تم آغا صاحب کی بیٹی ہو۔ انہوں نے کبھی گھر کی بات باہر نہیں جانے دی۔ صبر سے کام لو‘‘۔

    ’’امی جسے آپ صبر کہہ رہی ہیں میں اسے بزدلی سمجھتی ہوں‘‘۔

    ’’اور جسے تم جنگ کہہ رہی ہو وہ بھی تو جنگ نہیں ہے۔ آغا صاحب کی سادگی اور شرافت کا ان لوگوں نے ہمیشہ ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ لوگ اب بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بلکہ یہ سب ان لوگوں کے لیے اب تو بہت ہی آسان ہو گیا ہے‘‘۔بیگم آغا بولیں۔

    ’’تو کیا آپ چاہتی ہیں کہ یہ سب لوگ ان لوگوں کے لیے مزید آسان کر دیا جائے؟‘‘ حمیرا نے کہا۔

    ’’نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے۔ دراصل شرعی لحاظ سے جو میرا حق بنتا ہے وہ مجھے ملےگا اور جو کچھ مجھے ملے گا وہ تمہارا ہوگا‘‘۔ بیگم آغا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

    ’’امی مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ میرے لیے تو سب کچھ ابو اور آپ تھے۔ ابو اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب میری اپنے رب سے یہی دعا ہے کہ آپ ہمیشہ سلامت رہیں۔ مجھے آپ بہت عزیز ہیں۔ میں ایک بار پھر یتیم اور بے سہارا نہیں ہونا چاہتی‘‘۔

    یہ کہتے ہوئے حمیرا کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ اس نے اپنا سر بیگم آغا کے پیروں میں رکھ دیا۔ بیگم آغا حمیرا کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہنے لگیں۔ ’’بیٹا ہم جیسا چاہتے ہیں سب کچھ ویسا نہیں ہوتا۔ کہیں کم یا زیادہ، کہیں اونچ نیچ۔ یہ سب چلتا ہے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔ صبر اور استقامت بہت اچھی چیز ہے۔ ہمیں اپنی خواہشات کو دبانا چاہیے اور ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے‘‘۔

    ’’امی مجھے میرے نصیب سے زیادہ ملا ہے۔ میں ہمیشہ رب العزت کا شکر ادا کرتی ہوں۔ میری تو بس اتنی خواہش تھی کہ یہ گھر جسے ابو نے آغا ولا کا نام دیا ہے۔ ہمیشہ آپ کے پاس رہے۔ میں یہ دیکھ رہی ہوں اور محسوس بھی کر رہی ہوں کہ لوگوں کی لالچی نگاہیں آغا ولا پر قبضے کا خواب دیکھ رہی ہیں‘‘۔

    ’’بیٹا گھر تو انسانوں کی موجودگی سے گھر کہلاتا ہے۔ جب آغا صاحب ہی نہیں رہے تو بھلا میں آغا ولا کا کیا کروں گی۔ تمہارے اور میرے لیے تو دو کمروں کا فلیٹ بھی بہت ہوگا‘‘۔

    حمیرا نے حیرت سے پوچھا۔ ’’کیا مطلب ۔۔۔آپ کسی فلیٹ میں جا کر رہیں گی۔ وہ بھی اتنا بڑا گھر چھوڑ کر؟ ‘‘۔ حمیرا نے یہ کہہ کر بیگم آغا کو دیکھا بیگم آغا نے آہستہ سے آنکھیں بند کرکے اپنا سر صوفے کی پشت سے ٹکا دیا۔ دونوں ماں بیٹی دیر تک اسی حالت میں گم سم بیٹھی رہیں۔

    بیگم آغا نے چند روز میں اپنے ایک جاننے والوں کے توسط سے آغا ولا سے دور علاقے میں تین کمروں کا فلیٹ کرائے پر لے لیا اور اس میں منتقل ہونے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس دوران انہوں نے حمیرا کو قائل کر لیا تھا کہ لوگوں کو پہچان جانے کے بعد ضروری نہیں کہ انہیں مزید شرمندہ بھی کیا جائے۔ اپنے گھر کے معاملات کو عدالتوں میں چھوٹے لوگ لے کر جاتے ہیں۔ یوں بھی ایک عدالت اپنے ضمیر کی بھی ہوتی ہے۔ جہاں پر اعلیٰ قدریں اور اخلاقیات سچ اور جھوٹ کے درمیان فیصلے کرتی ہیں اور میرے ضمیر کے اندر ان اعلیٰ قدروں کی طاقت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ مجھے سب کچھ اپنے خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔

    بیگم آغا نے واقعی سب کچھ خدا پر چھوڑ دیا تھا۔ فلیٹ میں منتقل ہونے کے بعد حمیرا نے ایک اسکول میں ڈرائنگ ٹیچر کی ملازمت کر لی۔ کچھ دنوں بعد انہیں پتا چلا کہ آغا کرامت نے آغا ولا میں منتقل ہونے کی کوشش کی تو ان کے بیٹے ایاز نے اپنے ابو کی سخت مخالفت کی اور گھر چھوڑ جانے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ آغا کرامت نے جب اپنے بیٹے کو اس حد تک جاتے ہوئے دیکھا تو خاموشی اختیار کرلی اور پھر آغا ولا کو بیچنے کی تدبیر کرنے لگے۔ آغا ولا اب بھی آغا صاحب کے نام تھا، لیکن آغاکرامت کے شاطرانہ دماغ نے اس کی تدبیر بھی سوچ لی اور آخرکار اپنے نام ایک جعلی پاور آف اٹارنی بنوانے کے بعد آغا ولا کو ایک تاجر کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔

    وقت گزرتا جا رہا تھا۔ اب بیگم آغا کو حمیرا کی شادی کی فکر ستانے لگی تھی۔ وہ جب بھی حمیرا سے شادی کا ذکر کرتیں تو حمیرا صاف منع کر دیتی اور کہتی کہ وہ شادی نہیں کرےگی۔ انہوں نے کئی بار اسے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن ان کی ہر کوشش رائیگاں جا رہی تھی۔

    ایک رات انہوں نے حمیرا سے کہا۔ ’’بیٹا کل اسکول کی چھٹی کر لینا‘‘۔

    ’’وہ کیوں؟‘‘ حمیرا نے پوچھا۔

    بیگم آغا نے جواب دیا۔ ’’کل شام کچھ مہمان آ رہے ہیں‘‘۔ پھر انہوں نے خود ہی کہا ’’احتشام بھائی کا فون آیا تھا۔ کل وہ خود بھابی اور بچے سب آئیں گے‘‘۔

    ’’کیا کوئی خاص انتظام کرنا ہے؟‘‘

    ’’نہیں کوئی خاص نہیں۔ وہ تو مجھے کہہ رہے تھے کہ چائے پینے آئیں گے۔ میں نے کہا کہ اتنے دن بعد تو آرہے ہیں کھانا ہمارے ساتھ کھائیےگا‘‘۔

    دوسرے دن شام کے وقت فلیٹ کی بیل بجی۔ حمیرا نے جاکر دروازہ کھولا۔ سامنے انکل احتشام اور ان کی بیگم کھڑے تھے۔ حمیرا نے سلام کیا اور انہیں اندر آنے کے لیے راستہ دیا۔ وہ لوگ اندر داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے انکل احتشام کی دونوں بیٹیاں سائرہ اور مائرہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھیں اور حمیرا سے گلے ملنے لگیں۔ ان دونوں کے پیچھے انکل احتشام کا سب سے چھوٹا بیٹا عقیل زور زور سے حمیرا کو سلام کرنے لگا۔ حمیرا نے ہنستے ہوئے عقیل کے سلام کا جواب دیا۔ لیکن جیسے ہی اس کی نگاہ عقیل کے برابر کھڑے ہوئے شخص پر پڑی اس کی ہنسی رک گئی۔۔۔یہ شکیل تھا۔

    شکیل دو روز پہلے ہی پاکستان آیا تھا۔ کینیڈا میں رہتے ہوئے اسے فون اور خطوط کے ذریعے پاکستان میں تمام رشتہ داروں کے بارے میں اطلاع ملتی رہتی تھی۔ آغا صاحب کے مرنے کی خبر اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کے بارے میں شکیل کو تمام علم ہو چلا تھا۔ اس نے اپنی جانب سے چند فیصلے کیے اور اپنے امی ابو کو آگاہ کیا۔ جس میں پاکستان واپسی کا بھی ذکر تھا۔ احتشام صاحب اور بیگم احتشام دونوں ہی شکیل کے کینیڈا چلے جانے سے خوش نہیں تھے۔ وہ شکیل کو ہمیشہ اپنے سامنے دیکھنا چاہتے تھے۔ جب شکیل نے از خود پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا تو انہوں نے شکیل کی ہر بات مان لی اور پھر بیگم آغا سے فون پر بات کی۔ فون سنتے ہی بیگم آغا کے سر سے بھاری بوجھ اتر گیا تھا۔ بیگم آغا نے فون اور شکیل کی آمد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ حمیرا کو سرپرائز دینا چاہتی تھیں۔

    آج ان لوگوں کی آمد اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ تمام لوگ ڈرائنگ روم میں جاکر بیٹھ گئے۔ صرف حمیرا، سائرہ اور مائرہ کچن میں گھسی ہوئی تھیں۔ حمیرا کو ان لوگوں کی آمد سے کچھ شک ہوا تھا۔ جب اس نے شکیل کو دیکھا تو اس کے شک میں اضافہ ہوا، جو کہ کچن میں سائرہ اور مائرہ سے گفتگو کے بعد یقین میں بدل گیا۔

    تھوڑی دیر بعد بیگم آغا کچن میں داخل ہوئیں۔ سائرہ اور مائرہ دونوں ڈرائنگ روم میں چلی گئیں۔ بیگم آغا نے حمیرا سے کہا۔’’بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے‘‘۔

    حمیرا نے جواب دیا’’’ امی مجھے معلوم ہے آپ مجھ سے کیا بات کرنا چاہتی ہیں‘‘۔

    بیگم آغا نے کہا۔ ’’تو پھر میں ہاں کہہ دوں؟‘‘

    حمیرا نے سر جھکا دیا۔ بیگم آغا نے آگے بڑھ کر اپنی دونوں ہتھیلیوں سے حمیرا کا چہرہ اٹھایا اور ماتھے پر پیار کیا اور کہا ’’سدا خوش رہو‘‘۔

    چند ہفتوں بعد شہر کے ایک بڑے ہوٹل میں حمیرا اور شکیل کی شادی کی تقریب منعقد ہورہی تھی۔ ہوٹل کا خوبصورت ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ نکاح کی تقریب آج صبح پہلے ہی ادا کی جاچکی تھی۔ یہا ں تو صرف ایک پر تکلف ضیافت کا اہتمام تھا۔ ضیافت کے بعد رخصتی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ حمیرا اور شکیل دونوں ہی آج بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ ہلکے بادامی رنگ کے شرارہ سوٹ میں حمیرا دلہن بنی ہوئی بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔ دوسری طرف شکیل نے کریم کلر کی شیروانی زیب تن کر رکھی تھی۔ دونوں ہی آج بہت خوش بھی دکھائی دے رہے تھے۔ آہستہ آہستہ مہمان رخصت ہونا شروع ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد بیگم آغا نے بڑے ہی پروقار انداز میں حمیرا کو رخصت کر دیا۔

    حمیرا اور شکیل چار خوبصورت گھوڑوں کی سجی ہوئی بگھی میں بیٹھ کر اپنی نئی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ شہر کی سڑکوں پر خراماں خراماں دوڑتی ہوئی بگھی آخر کار ایک جگہ پہنچ کر رک گئی۔ سر جھکائے بیٹھی ہوئی حمیرا کے کانوں میں شکیل کی آواز آئی۔ ’’حمیرا ذرا اوپر دیکھو‘‘۔

    حمیرا نے نظریں اٹھاکر دیکھا۔ بگھی آغا ولا کے صدر دروازے کے باہر کھڑی ہوئی تھی۔ آغا ولا روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ صدر دروازے کے باہر بیگم احتشام، انکل احتشام ان کے بچے، رشتہ دار، خواتین، لڑکیاں، لڑکے اور بیگم آغا دولہا اور دلہن کا استقبال کرنے کے لیے پہلے سے موجود تھے۔

    حمیرا خوشی اور حیرت کے عالم میں دیوانہ وار بگھی سے اتر کر دوڑی اور صدر دروازے کی جالیاں پکڑ کر رونے لگی۔ قریب ہی قطار میں کھڑی ہوئی لڑکیاں، دولہا اور دلہن پر گلاب کی پتیاں نچھاور کر رہی تھیں۔ شکیل نے جو آہستہ آہستہ چلتا ہوا حمیرا کے بالکل قریب آکر کھڑا ہو گیا تھا، سرگوشی کے انداز میں حمیرا سے کہا۔

    ’’میری طرف سے شادی کا یہ تحفہ مبارک ہو‘‘۔

    (۱۹۹۶ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے