aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آخری صفحہ

رفعت ناہید سجاد

آخری صفحہ

رفعت ناہید سجاد

MORE BYرفعت ناہید سجاد

    چیئرنگ کراس کے طویل گھماؤ والے فٹ پاتھ پر اس نے ’’سالوس‘‘ سے ان کو نکلتے دیکھا۔ چابی کا چھلا انگلی میں انگوٹھی کی طرح گھماتے وہ سڑک کے پار پارکنگ لاٹ کی طرف آ رہے تھے۔

    اس نے آنکھوں پر انگلیوں کے چھجے سے تیز دھوپ کی شعاعوں کو روکا۔ ہاں وہی تو تھے۔

    یہ کب آئے بھلا اور دیکھو تو کسی کو اطلاع ہی نہیں کی۔ وہ منور بھائی کے سر پر بم پھوڑےگی اورانعام کی حق دارہو گی کیوں کہ پہلی افواہ اڑانے والا بڑا سرخرو ہوتا ہے۔

    ’’افتخار بھائی!‘‘

    اس نے تمام لحاظ ملاحظہ بالائے طاق رکھتے ہوئے سڑک کے دوسری طرف چیخ ماری۔ وہ کاروں، رکشاؤں اور بسوں کے سمندر میں سے بےضرر مچھلی کی طرح جگہ نکالتے اسی تن دہی سے سڑک پار کر رہے تھے۔

    ’’افتخار بھائی!‘‘

    اس کی چیخ و پکار سڑک کے شور میں دب گئی یا وہی کسی دھیان میں تھے۔ اس کے پیچھے دوڑتی آوازوں پر بھی انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔

    ’’افتخار بھائی۔ افتخار بھائی۔‘‘

    دوڑتے دوڑتے اس نے ایک تیز قدم بڑھا کر افتخار بھائی کو کہنی سے دبوچ لیا۔

    ’’دیکھا، میں نے آپ کو پہچان لیا!‘‘

    رکشا اور ویگن نے ایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑتے عین اس کے سر پر بریک لگائے اور قریب تھا کہ وہ سامنے سے گزرنے والی مسٹرڈ کار کے پہیے کے نیچے آکر کچلی جاتی کہ انہوں نے اسی دبوچی ہوئی کہنی کے حصار میں لےکر اسے کچومر نکال دینے والی ٹریفک سے بچا لیا۔

    کار والا، ویگن والا، رکشا والا اور جن جن سواریوں کو ناگہانی بریک لگانے پڑے تھے، ان کی گالیوں سے بے نیاز وہ ان کی اجلی آستین کے سہارے بےتحاشا چوڑی سڑک کا باقی ماندہ حصہ عبور کرنے لگی۔

    ’’میں نے اتنی دور سے دیکھا آپ ’’سالوس‘‘ سے نکل رہے تھے۔ میں نے فوراً پہچان لیا۔ اگر میں ذرا دیر کرتی تو آپ نکل جاتے۔ اسی لیے تو میں نے دوڑ لگائی۔‘‘

    ’’واقعی دوڑ تو خوب لگائی آپ نے۔’‘ وہ زور سے ہنس دیئے۔ ’’اگر بروقت مجھ تک نہ پہنچ گئی ہوتیں تو کچلی جاتیں۔’‘

    ’’آپ کب آئے؟ اور ہماری طرف کیوں نہیں آئے؟‘‘ وہ پورے وزن سے ان کے بازو پر لٹکی انہیں جھنجھوڑنے لگی۔

    ’’آیا تو بس ابھی تھا۔ کچھ دیر پہلے یعنی لنچ ٹائم سے ذرا پہلے۔۔۔ لیکن۔۔۔’‘

    ’’لیکن ہمارے گھر کیوں نہیں آئے؟ جناب آپ گھر چلیں۔ انعام کا روپیہ منور بھائی سے مجھے ملےگا۔ سچ وہ کتنا حیران ہوں گے میرے ساتھ آپ کو دیکھ کر۔’‘

    اس نے لمبی زقند بھر کر سڑک سے فٹ پاتھ پر پاؤں رکھا اور اپنا بوجھ ان کے بازو سے ہٹا لیا۔

    ’’پہلے مجھے خیال ہوا کوئی اور نہ ہو۔ خواہ مخواہ کی شرمندگی ہو گی۔ مگر پھر میں نے سوچا اگر آپ ایک دفعہ نکل گئے تو ہم اتنے بڑے شہر میں آپ کو کہاں ڈھونڈیں گے اور آپ کو تو اتنی توفیق نہیں ہوئی۔۔۔’‘

    وہ تمتمائے ہوئے لال چہرے کی خوشی چھپانے کی معمولی جدوجہد نہ کرنے کی کوشش میں سرخ ہو رہی تھی۔

    ’’آپ کو پتا ہے شاہد بھائی جدہ چلے گئے۔ اب وہ بہت خوش ہیں۔ اب ہم بہن بھائیوں کی ناں اتنی لڑائی بھی نہیں ہوتی۔ ہم بڑے ہو گئے ہیں ناں۔ اتنا کچھ بدل گیا ہے، آپ چل کر دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے۔’‘

    ’’واقعی؟‘‘ انہوں نے خوش دلی سے کہا۔

    ’’مجھے اپیا نے بھی بتایا تھا۔ آپ وہاں ان سے ملے جو تھے۔ کتنے افسوس کی بات ہے وہ ہمیشہ مہربانیوں کا بدلہ اسی طرح دیا کرتی ہیں۔ وہ تو بتا رہی تھیں آپ بالکل بدل گئے ہیں۔۔۔ حالاں کہ۔۔۔’‘ اس نے گردن گھما کر ایک مرتبہ غور سے ان کا جائزہ لیا۔ آنکھوں سے لےکر ٹھوڑی تک۔ ’’آپ تو ذرا بھی نہیں بدلے۔ اپیا بہت زیادہ چڑچڑی ہو گئی ہیں۔ ہیں ناں؟‘‘

    کندھوں سے ڈھلکتا دوپٹہ کسی غیرمحسوس سی نصیحت سے اس نے درست کیا۔ فٹ پاتھ پر پارکنگ ایریا کی طرف اس کے ساتھ چلتے چلتے اسے ماضی کی ناگواریوں نے ہلکا سا مرجھا دیا۔

    ’’کتنی بری بات ہے، وہ آپ سے بھی لڑیں اور شاہد بھائی کہتے ہیں ان کا قصور نہیں۔ پردیس میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا کسی کے ساتھ بھی ہوتا تو۔۔۔ آپ نے برا تو نہیں مانا؟‘‘

    ’’ہرگز نہیں۔’‘

    ’’کہیں اسی لیے تو آپ ہمارے گھر سے چھپے نہیں بیٹھے۔ جناب یہ بری بات ہے اور آپ کو پتا ہے افتخار بھائی، ابو کا انتقال ہو گیا ہے۔’‘

    گول گھماؤ کے موڑ پر گردن گھما کر بڑے افسوس سے انہوں نے دیکھا۔

    ’’اوہ۔۔۔’‘

    ’’باجی، نرگس۔۔۔ باجی، نرگس۔۔۔’‘ نرگس کے پھول بیچنے والوں کا ہجوم ان کو گھیرے میں لیے ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ انہی پھول بیچنے والوں میں سے ایک معصوم بچے سے انہوں نے بڑا سا ایک پھولوں کا گچھا خرید کر اس کی طرف بڑھایا۔

    ’’شکریہ۔’‘ وہ خجل سی ہوئی۔

    لمحہ بھر کے لیے انہوں نے رک کر ایک گہری نگاہ اس پر ڈالی اور دروازے کے کی ہول میں چابی گھمانے لگے۔ اس کو ان کے ارادے کچھ اور ہی لگے۔

    ’’آپ چل رہے ہیں ناں اب میرے ساتھ۔ میں منور بھائی کو دکھاؤں گی کہ میں نے کتنی دور سے آپ کو پہچان لیا اور وہ بھی کتنے سال بعد۔ داد دیں میرے حافظے کی۔’‘

    ’’واقعی۔۔۔’‘ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

    ’’داد دیتا ہوں آپ کے حافظے کی۔ کیوں کہ میں وہ نہیں جو آپ سمجھ رہی ہیں۔ ’‘اس نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا اور سیٹ پر بیٹھ کر دھپ سے بند کر لیا۔ شیشہ کھولتے ہوئے اس نے کہنی گاڑی کے دروازے پر اٹکا دی۔ ’’لیکن کاش میں وہ ہوتا۔’‘

    گاڑی ریورس گیئر میں آئی۔ ہلکے سے گھومی اور سڑکوں پر پھرنے والی لاکھوں گاڑیوں کے اژدہام میں جا ملی۔ وہ اپنی جگہ ساکن اور خاموش کھڑی رہ گئی۔

    ہاں، شاید وہ اس سے ملتا جلتا ایک چہرہ تھا لیکن وہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی رو میں دھیان ہی نہیں دیا ورنہ پہچان لیتی۔ وہ اب ایسی بیوقوف بھی تو نہیں تھی ناں۔

    گاڑی واپڈا ہاؤس کے موڑ سے کہیں گم ہو گئی۔ وہ اسی طرح گنگ، گم صم سی پھولوں کا گچھا ہاتھ میں پکڑے اپنی حماقت پر شرمندہ کھڑی رہ گئی۔ وہ کہاں سے اس کے پیچھے چلی تھی اور کتنی بکواس اس نے کی۔ اس نے چور نظروں سے اِدھر ادھر کا جائزہ لیا۔ الفلاح میں شو ختم ہوا تھا۔ لوگ جوق در جوق باہر آ رہے تھے۔ کہیں کسی نے اس کو اس بری طرح خجل ہوتے دیکھا تو نہیں۔ اس کی گاڑی اب تک کہاں پہنچ چکی ہوگی لیکن اس کا بولا آخری فقرہ ابھی تک اس کے کانوں میں تازہ تھا۔ اس کے یہیں کہیں ہونے کا احساس اسے اپنی نظروں میں خوار کر رہا تھا۔ چھوٹی سی سوزوکی نے اس کے نزدیک بریک لگائے اور وہ اچھل پڑی۔

    ’’واہ۔۔۔ کیا تھیٹر کی ہیروئن کی طرح پھول پکڑے اپنے رومیو کا انتظار کر رہی ہو اور یہ غائب کہاں ہو گئی تھیں؟‘‘ راحیلہ نے شیشہ اتار کر ڈرائیونگ سیٹ سے اس کو جھاڑا۔

    ’’بڑی بےوقوف ہو۔ ہمیں اتنا پریشان کیا۔ ہم وہاں تمہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہو رہے تھے۔ وہ تو شکر کرو سعدی نے تمہیں دیکھ لیا۔’‘

    اس نے سرمئی چمکیلی سڑک پر بھاگتے ہزاروں پہیوں کی طرف ایک اچٹتی نظر ڈالی۔ اس کا دل ابھی تک دھڑ دھڑ کر رہا تھا اور چہرے کی رنگت کی سرخی اڑ کر زردی میں ڈھل گئی تھی جیسے شاخ پر اگے پتے کی ساری کلوروفل سوکھ گئی ہو۔

    ’’اب بیٹھ بھی جاؤ۔ چالان کراؤگی کیا؟‘‘ راحیلہ جھنجھلائی۔

    وہ پچھلی سیٹ کے ایک کونے میں ہجوم میں اپنی جگہ بناتی ٹھنس گئی۔

    ہائی کورٹ کی عظیم الشان عمارت کے پیچھے سورج کا رنگ بدلتا گولا پاپلر کے جھاڑ میں نیچے اترتا جا رہا تھا۔ اس کی پسلیوں میں الجھے دل کی طرح۔

    زبان سے کون آئس کریم چاٹتی اس کی دوست دن بھر کے حالات پر اس کا مغز کھاتی رہیں۔ وہ شیشے سے ناک لگائے باہر کے منظر میں الجھی اپنی شرمساری میں جکڑی سڑک ہی دیکھتی رہی۔

    ’’وہ کون ہو گا بھلا۔۔۔ کیا سوچتا ہوگا؟‘‘

    اس سے کتنی بےوقوفی سرزد ہوئی۔ وہ تو شکر ہوا کہ ان چڑیلوں نے نہیں دیکھا، ورنہ جینے کے قابل کہاں چھوڑتیں۔

    راحیلہ مستعد ڈرائیور کی طرح ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی باری باری سواریوں کو منزل پر اتارتی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ سامنے والی سیٹ خالی ہونے پر راحیلہ نے اسے آگے بلا لیا۔

    ’’کیوں دوڑی تھیں تم؟‘‘

    اس نے ایک نظر غور سے راحیلہ کی طرف دیکھا۔ کیا وہ اس کی ٹوہ لے رہی ہے یا برسبیل تذکرہ۔ اس کے چہرے پر سرخ رنگ کثرت سے پھیل گیا۔

    ’’کوئی ملنے والے نظر آ گئے تھے۔ پرانے۔ جلدی چلاؤ ناں، دیر ہو رہی ہے۔’‘ آسمان سے اترنے والے اندھیرے کو دیکھ کر وہ بوکھلا گئی۔

    ’’تو پھر اتنی ڈر کیوں گئیں؟ یہ پھول انہوں نے دئیے ہیں؟‘‘

    ’’ڈری کہاں۔۔۔ اب ڈر رہی ہوں۔ دیر جو ہو رہی ہے۔ اپیا غصہ کر رہی ہوں گی۔’‘

    لان میں بڑے اہتمام سے چائے پیتے منور بھائی کو دیکھ کر اس کو شرمندگی نے پھر لپیٹ لیا۔ وہ تو مرتے دم تک بھی منور بھائی سے کچھ نہیں کہےگی، ورنہ وہ تو ستا ستا کر اس کا اس گھر میں رہنا حرام کر دیں گے اور ہر آئے گئے کے سامنے یہی قصہ نہ لے بیٹھیں تو ان کو زندگی کا مزہ ہی نہیں آئےگا۔ یوں بھی قسمت سے وہ کچھ بےوقوف مشہور ہو گئی تھی۔ بےشک اس پراپیگنڈے میں سب ہی بھائیوں کی مہربانی شامل تھی۔

    اپیا نے فراک کی ترپائی مکمل کر کے دھاگہ دانتوں میں بھینچ کر ٹکڑے کر دیا۔

    ’’ابھی تو چاند نکلا نہیں۔ آپ کی سواری آ گئی۔’‘

    ’’نکل تو آیا ناں چاند۔’‘ منور بھائی نے اخبار دور پھینک دیا۔ ’’لیکن ذرا گہنا گیا ہے۔ کیا کسی عمارت کا افتتاح کر کے آئی ہو؟‘‘ وہ پھولوں کی طرف اشارہ کر کے بولے۔

    ’’مجھے اس قسم کے مذاق ہرگز پسند نہیں۔’‘ اپیا جھنجھلائیں۔ ’’ہمیں تو گھر والوں نے ہمیشہ جوتے کے تلوے کے نیچے رکھا تھا۔ یہاں نہ آؤ۔ وہاں نہ جاؤ۔ چل ردا۔۔۔’‘

    انہوں نے ننھی لڑکی کو کلائی سے پکڑ کر گھسیٹ لیا۔۔۔ ’’اٹھ فراک بدل۔’‘

    ’’عینی خالہ سے۔۔۔ عینی خالہ سے۔۔۔’‘ ردا ،خالہ کی اجاڑ صورت کی پروا کیے بغیر پاؤں مسلے گئی۔

    ’’چل، ورنہ دوں گی جھانپڑ۔’‘ انہوں نے جھنجھلاکر اسے بازو سے گردن تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ روتی ہوئی ردا اندر چلی گئی۔

    ’’اوں ہوں۔۔۔’‘ اماں نے جائے نماز سے ہنکارا بھرا۔ ’’مت رُلایا کرو بچی کو۔’‘

    ردا ،منور کی گردن پر سوار نائیٹ واک کے لیے باہر نکل گئی۔

    ’’اور ان کو دیکھو۔۔۔’‘ اپیا نے لان میں بکھرا اخبار تہ کیا۔ ’’یہ اخبار پڑھنے کا کون سا وقت ہے؟ اس گھر میں ہر کام بےوقت، بےمحل ہوتا ہے۔’‘

    ’’عینی تو مجھ سے پوچھ کر گئی تھی۔’‘ اماں نے بیزاری سے کہا۔ ’’راحیلہ خود آئی تھی لینے۔ کیا حرج ہے۔ سب لڑکیاں لڑکیاں ہی تو جا رہی تھیں۔’‘ وہ پاؤں پٹختی باہر نکل گئیں۔

    وہ نہ جوابی کارروائی کے موڈ میں تھی نہ وضاحتیں دینے کے۔ اپنی ڈریسنگ ٹیبل پر چیزیں پٹخ کر وہ دھپ سے بستر پر جا گری۔

    ’’آ گئیں۔۔۔؟‘‘ راشد نے کتاب میں سے رٹا لگاتے سر اٹھایا۔ ’’لگتاہے خوب کھایا ہے۔ آدھا بل تو تمہارے نام پڑےگا۔’‘

    ٹھیک ہے وہ اس سے کافی مشابہ تھا لیکن ان کی اور اس کی شکل میں فرق زیادہ تھا بہ نسبت مشابہت کے اور اس کو دیکھو، اس نے خوب مزے لے لے کر الو بنایا۔ اگر پہلی دفعہ میں ٹوک دیتا تو اپنی نظروں میں اتنی تو نہ گرتی۔

    ’’اپنا پیٹ سمجھ کر کھاتیں ناں۔’‘ راشد نے اسے اوندھا دیکھ کر ٹوکا۔

    وہ اچھے موڈ میں نہیں تھی، اس نے رضائی سر تک تان لی اور جانے میں نے گھر کی کون کون سی اہم بات اسے بتا ڈالی اور کون سی نہیں بتائی۔ وہ تو یوں الارم لگی گھڑی کی طرح بے سوچے سمجھے چالو ہو گئی تھی۔ کم از کم یہ بات تو اپیا ٹھیک ہی کہتی ہیں، وہ کبھی سوچ سمجھ کر نہیں بولتی۔

    راشد نے اس پر دو تین اٹیک کیے تھے لیکن جوابی کارروائی وصول نہ ہونے پر وہ پریشان ہو گیا۔

    ’’عینی۔۔۔ تم کہیں گند مند تو نہیں کھا آئیں، جو گھر کا پکا چھوڑ کر باہر کھانے کو دوڑتے ہیں ان کو ہمیشہ فوڈ پوائزنگ (Food Poisoning) ہو جاتی ہے۔’‘

    راشد یہ اطلاع لے کر باہر برآمدے میں دوڑا تھا۔ لیکن وہ ہر خوف سے بےنیاز رضائی میں دبکی پلکیں جھپکتی رہی۔ پچھتاوا اس پر زندگی میں کتنی ہی مرتبہ طاری ہوا تھا۔ ایک مرتبہ بچپنے میں سب نے مل کر اپنے کتے کے گھر میں بالٹی بھر پانی ڈال کر باہر سے دروازہ بند کر دیا تھا۔ سخت گرمی کے دن تھے اور اپنی طرف سے انہوں نے کتے کے ننھے بچوں کے ساتھ ہمدردی کی تھی، ورنہ ان کی اماں ان کو لیے اتنی شدید گرمی میں گلی محلے میں پھرتی رہتی تھی۔ صبح پتا چلا ان کو نمونیا یا پتا نہیں کیا ہو گیا تھا۔ وہ مر کھپ گئے۔ غلطی شاہد بھائی کی تھی لیکن روئی رات بھر وہ۔

    ایک مرتبہ ایک بہت بوڑھے فقیر نے اس سے روپیا مانگا تھا۔ وہ عادتاً معاف کرو کہہ کر کالج میں چلی گئی۔ دیر ہو رہی تھی، انگلش ٹیچر کلاس میں گھسنے بھی نہ دیتیں لیکن پتا نہیں کتنے دن اس کی نیند اڑی رہی۔ جانے وہ آج تک بھوکا تھا یا۔۔۔

    اس کی زندگی میں پچھتاؤں کی لمبی فہرست تھی۔ لیکن آج کا پچھتاوا تو اس کے ہر پچھتاوے پر بھاری پڑ رہا تھا۔

    کتنی شدت سے اس کا دل چاہتا رہا، کاش وہ اس کو کہیں پھر مل جائے۔ وہ ایک مرتبہ معذرت کر لے۔ ارے ہاں، سوری مجھ سے غلطی ہو گئی۔ دراصل شام ہو گئی تھی۔ تھوڑا سا اندھیرا تھا اور کچھ میں گھبرائی تھی۔ میں نے آپ کو غلط سمجھا۔

    ورنہ وہ تو اسے احمق لڑکی سمجھ کر مزے لے رہا ہوگا۔

    وہ کلاس میں بیٹھی سر احمد کا لیکچر سنتی، ٹیوٹوریل گروپ میں کوئی آرٹیکل پڑھتی یا لائبریری میں کیٹلاگ کے نمبروں سے کھیلتی ہوتی، اس کا دھیان کہیں اور ہی ہوتا۔ اس کی آنکھیں جیسے ایک ہی منظر کو دہراتے دہراتے تھکی تھکی ہو گئی تھیں۔ راحیلہ، سعدی کی خوشگوار کمپنی، کیمپس کا دلربا موسم اور امتحانوں کے قرب کا زمانہ مل کر بھی اسے دنیا سے قریب نہ لا سکے۔

    راحیلہ، سعدی اس سے پوچھتے پوچھتے بور ہو گئیں۔ اس کو ان کے ٹینکی فل کر کے سڑکوں پر رلتے پھرنے میں کوئی جان نظر نہیں آتی تھی۔

    ٹیچرز اس کو بار بار ٹوکتے۔ راشد منہ پر ہاتھ رکھ رکھ اس کا مذاق اڑاتا رہتا۔

    اور یہ بھی کیسی عجیب ستم ظریفی تھی کہ اسے جلد ہی پتا چل گیا یہ پچھتاوا نہیں تھا۔

    وہ کوئی اتنی اِم میچور، خوابوں میں رہنے والی اور وقت سے بے خبر لڑکی نہیں تھی لیکن وہ ان نئے نئے ابلتے پھوٹتے چشموں سے دہشت زدہ ہو گئی۔

    وہ کیمپس میں لڑکوں کے ساتھ گھومنے والی لڑکیوں پر بہت ہنستی تھی۔ وہ جو پیریڈ چھوڑ کر دور دراز کے ڈیپارٹمنٹ والے لڑکے سے ملنے سو جتن کر کے جاتیں یا وہ عاشق صاحب کلاس کے گرد ستونوں کے پاس منڈلاتے تھے۔

    اسے ان روایتی قسم کے افسانوں میں گم لڑکیوں پر رحم آتا تھا جو عارضی عاشقوں کے فرضی عشق میں گھٹنوں گھٹنوں غرق پاگل ہوئی تھیں۔ محبت کرنا یا کروانا جیسے جذبے اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ وقت کا زیاں اور وقتی تفریح کے سوا یہ تھا ہی کیا۔

    ’’پتا نہیں ان کے گھر کا ماحول کیسا ہوگا۔ بھلا گھر کو چھوڑ کر محبت کی جگہ کوئی اور ہو سکتی ہے۔’‘

    لیکن جب ایکڑوں تک پھیلے کیمپس پر نظریں جمائے وہ مسلسل ایک ہی چہرے کے دھیان میں گم ہوئی تو اسے نہ پیریڈ بدلنے کا پتا چلتا، نہ دوستوں کی قہر آلود بکواس سنائی دیتی جو وقتاً فوقتاً اس کی شان میں پڑھی جاتی تھی۔ وہ تھکا ہوا مایوس، اداس سر اٹھاتی اور جھکا لیتی۔

    وہ کوئی پہلا شخص تو نہیں تھا دنیا کا یا اس سے قبل وہ پردے کی بوبو بنی کمرے میں بند تھی کہ اچانک جس شخص سے اس کا سامنا پڑا، وہ اسی کو اپنا ہیرو سمجھ بیٹھے لیکن پھر بھی وہ چاہتی تھی کاش وہ اسے کہیں اچانک مل جائے، ایک دفعہ اور۔۔۔

    وہ خود کو کوستی تھی اور یہ بھی جانتی تھی کہ یہ اس کی ساری ماضی کی حماقتوں سے اعلیٰ حماقت تھی۔

    پھر بھی اسے کتنی مرتبہ کیمپس کی سیڑھیاں اترتے لگا وہ اس کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر اتر رہا ہے۔ وہ جلدی سے سر اٹھا کر دیکھتی لیکن وہ اجنبی طالب علم کسی نہایت ضروری کام سے کہیں نہایت اہم جگہ جا رہا ہوتا تھا۔ پھر اسے لگتا وہ اس کے بازو سے لٹکی اپنے گھر کی حکایتیں سنا رہی ہے۔ وہ بریک لگاتی گاڑی کے نیچے آکر کچلے جانے کے خوف میں اپنے بازو کے سہارے اسے بے رحم سڑک سے بچا رہاہے۔ وہ بےساختگی میں اپنے بازو کو تھام لیتی۔ پھر سعدی وغیرہ چلانے لگتیں۔ وہ بالکل ہی خبطن ہوتی جا رہی تھی اور اسے اپنی حماقتوں کا بڑی شدت سے افسوس بھی تھا۔

    کتنی مرتبہ وہ اپنی دوستوں کو ضد کر کے وہاں لے کر گئی، اس کی دوستوں کے پسندیدہ سپاٹ گلبرگ، نہر اور آس پاس کی جگہوں پر مشتمل تھے لیکن وہ بہانے کرتی۔

    ’’ارے ہاں مجھے فیروز سنز سے کتاب خریدنی ہے۔’‘

    ’’مجھے کلاسک کا چکر لگانا ہے۔ تازہ شماروں کے لیے۔’‘

    ’’اپیا نے کہا ہے صرف ’’کیتھے‘‘ سے چکن کارن سُوپ پیک کروا کے لانا۔’‘

    اور وہ لیتی کچھ بھی نہیں تھی۔ سوائے ایک چھوٹے سے بچے سے نرگس کے تازہ پھولوں کے۔

    دنیا بہت بڑی ہے اور انسان بہت چھوٹا لیکن یہ ایک شہر ہی تھا ناں اور وہ بھی کوئی سُوئی تو تلاش نہیں کر رہی تھی۔

    کبھی اپیا مسور کی دال سے ہم رنگ پتھر چنتیں، اس کو لگتا وہ کسی ایسے ہی ہم رنگ پتھر کو کھوجتی پاگل ہو رہی ہے۔

    ان دنوں وہ بہت سے اوٹ پٹانگ خواب دیکھنے لگی تھی۔ وہ دیکھتی وہ ایک لمبے برآمدے سے گزر رہی ہے جس کے دونوں اطراف کمرے کے دروازے ہیں۔ وہ ناموں کی تختیاں پڑھتے کچھ ڈھونڈ رہی ہے۔ پھر اسے یاد آتا، اسے تو اس کا نام بھی پتا نہیں۔ پھر اس کی آنکھ کھل جاتی۔ وہ دوبارہ سوتی تو اسے لگتا وہ اچانک کسی موڑ پر اس کے سامنے آ گیا ہے۔ وہ اس سے کہہ رہا ہے، ’’تم کہاں کھو گئی تھیں۔ میں تمہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے پاگل ہو گیا ہوں۔’‘

    ان دِنوں عورتوں کے لکھے ہوئے افسانوں میں اسے خوب مزہ آتا تھا۔ ہر کہانی میں گم ہونے والا آدمی آخری صفحے پر ضرور آ جاتا تھا اور اس کی محبت میں سرتاپا غرق اور بےحال۔ اسے بھی اپنی کہانی کے آخری صفحے کا انتظار تھا لیکن آخری صفحہ اس موٹے سے باب میں کہاں پڑا ہے۔ کون جانے۔

    ’’آخاہ کہانیاں پڑھی جا رہی ہیں عشق و محبت کی۔’‘ راشد اس کے ہاتھ سے رسالہ لے کر چار چھے سطریں بلند آواز میں پڑھتا۔

    ’’یہ ساری کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ تمہارا دل نہیں گھبراتا؟‘‘

    ’’اچھا میرا رسالہ واپس کرو۔’‘ وہ ناراض ہونے کی بجائے سکون سے کہہ کر راشد کو حیران کر دیتی۔ اس کی طبیعت میں یہ کیسا انقلاب آ رہا تھا؟

    کبھی منور بھائی اس کے پاس آتے۔ ’’اچھا، تم کمرے میں بند ہو کر ہر کام سے چھپی ہوئی ہو۔ میں اپیا کو بلاتا ہوں۔’‘

    ’’کام کیا ہے؟‘‘ اس کی تابعدارانہ ٹون ان کو دھمکی سے خوشامد پر لے آتی۔ ’’وہ میرے دوست آئے ہیں۔ پلیز یہ روز روز والے نہیں، پہلی دفعہ آئے ہیں۔’‘

    کتنی شدت سے اس کا جی چاہتا وہ یہ پاگلوں والی دیوانگی چھوڑ دے۔ وہ افسانہ کا صفحہ موڑ کر باورچی خانے میں چلی جاتی۔ یہ سارا ادب ہی انسان کا ناس مارتا آیا ہے۔ اس کے سہارے انسان زندگی میں ہر وقت کسی چراغاں کا منتظر رہتا ہے جیسے کوئی انہونا واقعہ۔ کوئی اچھوتا خوبصورت حادثہ دامن کھولے ہمارا بھی منتظر ہے۔

    وہ ٹرالی سجاتی، نیپکن کے پھول بناتی، لوازمات کا انبار لگا کر ٹرالی دھکیلتی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی اور ٹھٹک کر رک گئی۔

    ایسا ہی ہونا تھا اور ویسا کبھی نہیں ہوتا۔

    لیکن پھر بھی جانے کس امید پر، کس آس پر وہ مایوس ہو کر پلٹ آئی۔ ’’بھائی، چائے۔’‘

    اپیا اماں کے ساتھ پھر محاذ بنا لیتیں۔ ’’دیکھا اماں، دیکھا۔ یہ لڑکی کبھی بڑی نہیں ہونے کی۔ یہ کوئی عمر ہے کہ دندناتی لڑکوں کے کمرے میں گھس گئی۔’‘

    ’’شش شش ،لوگ سنیں گے۔ اندر مرد بیٹھے ہیں۔’‘ اماں چپ کرواتیں۔

    پھر اس نے جدہ میں شاہد بھائی کو بڑا لمبا خط لکھا اور اس کا انہوں نے بہت لمبا جواب دیا۔

    ’’ہاں اپیا کا چڑچڑا پن تکلیف تو دیتا ہے لیکن سوچو وہ لندن جیسے بےرحم شہر میں ایک ننھی سی لڑکی کے ساتھ تنہا رہ گئی تھیں اور ان کے ذلیل شوہر نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا، تم اس سے ناواقف تو نہیں۔ معاف کرنا سیکھو۔ دیکھو ان پر ایک چھوٹی سی لڑکی کا کتنا بوجھ ہے۔ وہ لڑکا ہی ہوتی تو ان کا بوجھ اٹھا لیتا۔ بھلے سے بڑا ہو کر ہی سہی۔ ہاں شکلیں ایک جیسی ہوتی ہیں لوگوں کی۔ کبھی کبھی۔ تم نے کیوں پوچھا ہے؟‘‘

    اس نے ان کا موٹا سا تھبا خط اپنی انہی یادگار چیزوں میں سنبھال کر رکھ دیا جہاں وہ سوکھے ہوئے مرجھائے نرگس کے پھول بھی پڑے تھے جن کو دن بھر میں ایک مرتبہ سونگھنا نہیں بھولتی تھی۔

    پھر ابو کی پہلی برسی کے موقع پر اسے اس حادثے سے بھی دوچار ہونا پڑا۔

    اگر بتیوں کو کونوں کھدروں میں تیلیاں دکھاتی پھونکیں مارتی اور ٹپ ٹپ بہتی ناک رگڑتی وہ لڑکی ان خاتون کو اتنی اچھی لگی کہ اس صدمے والے حادثے کے اثرات دور ہوتے ہی وہ اس کا رشتہ لے آئیں۔ ساے لوگ عینی پر ہنسنے لگے۔ بھائیوں کو تو خدا موقع دے۔ انہوں نے اس کے سر پر دوپٹہ ڈال ڈال کر زچ کر دیا۔ وہ جھنجھلاتی سر سے دوپٹہ نوچ پھینکتی مزید ہنسی کا سبب بن رہی تھی۔ لیکن اس کی عائد کردہ عجیب و غریب شرط نے ہر شخص کو ہراساں کر دیا۔ وہ ہمیشہ سے بکواس کرنے کی عادی نہیں تھی لیکن یہ تو پاگل پن کی انتہا تھی۔

    اپیا نے سنا تو واویلا مچا دیا۔ ’’ارے دنیا سنے گی تو نام دھرےگی۔ لڑکی ذات اور اپنے منہ سے کہے کہ میں پہلے لڑکے سے ملوں گی۔’‘

    ’’ملوں گی کب کہا ہے میں نے؟‘‘ وہ غصہ کرتی ’’میں نے صرف دیکھنے کی بات کی ہے۔’‘

    اماں نے سر پیٹ لیا۔ بھائیوں نے قہقہے لگانے شروع کر دئیے۔

    ہاں وہ کہانیوں پر بھروسہ کرتی ہے لیکن اس انداز سے بھروسے کے سہارے اتنا بڑا جوا نہیں کھیل سکتی۔

    اماں اور اپیا نے لڑکا دکھانے سے صاف انکار کر دیا۔ بھائیوں کو اس کی شرط پر کوئی خاص اعتراض نہیں تھا اور یہ کوئی ایسی معیوب بات بھی نہیں تھی لیکن مشکل یہ آ پڑی کہ لڑکے نے ایسی کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا اور راشد کے بقول، ’’اس کا کیا تھا، سارے شہر میں تو عینی رلتی پھرتی ہے، کہیں بھی دیکھ لےگا۔’‘

    لیکن چوں کہ سوسائٹی پر مرد کا قبضہ ہے لہٰذا کسی عورت کی طرف سے یہ شرط ذرا چبھتی ہے۔

    وہ خاتون دوسری مرتبہ آئیں تو بات ٹال کر ختم کر دی گئی۔

    ’’ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے اور رشتے آ جائیں گے۔ کوئی اور سہی۔’‘ منور بھائی اماں کو دلاسا دیتے۔

    لیکن اس نے دوسرے رشتے کے لیے بھی ایسی ہی کوئی الٹی سیدھی بات کی اور تیسرے کے لیے بھی اور اس کے بعد آنے والے سبھوں کے لیے۔ حتیٰ کہ بہت جلد ہی یہ مسئلہ گھر کا سنگین مسئلہ بن گیا۔ ستمبر میں امتحان تھے اور امی فوراً ہی اس سے فارغ ہونا چاہتی تھیں۔ اس کو پھیلتا دیکھ کر سب کا ماتھا ٹھنکا اور اپیا کو تو سخت شبہ پڑ گیا۔

    جدہ تفصیلی خط روانہ کیا گیا جس میں اس کی نافرمانیوں کی تمام مثالیں ایک ایک کر کے سب گنوا دی تھیں۔

    اماں نے برآمدے میں اپنی مخصوص جگہ پر جائے نماز بچھاکر ابا مرحوم سے براہ راست اس کی جی بھر کر شکایتیں کیں۔

    منور نے اسے محبت سے سمجھایا، تھوڑا سا اصرار بھی کیا۔ لیکن پھر سب کا ماتھا ٹھنکا ،کوئی بات ہے ضرور اور ہماری بلا سے بھاڑ میں جائے۔ کالا منہ کر لے۔ اپیا کی رائے سے کیو لےکر۔ کینٹین میں چائے کے ایک کپ پر راحیلہ نے اس کا گھیرا ؤ کر لیا۔

    ’’کیوں مجھ ہی سے سب کہتے ہیں؟ کوئی اور کیوں نہیں کر لیتا؟ تم کر لو شادی۔’‘

    ’’مجھ سے کہا جائےگا اور کوئی معقول رشتہ ہوگا اور میں انکار کر رہی ہوں گی تو ہر شخص کو حق ہو گا کہ وہ باز پرس کرے لیکن یہ تو تمہارے گھر کا ایسا مسئلہ بن گیا ہے جس پر ہر شخص حواس باختہ ہو چکا ہے۔ سوچو تو سہی، اماں کی بیوگی کا سوچو۔ اپیا کے حالات دیکھو۔ وہ اپیا کے لیے کچھ نہیں کر سکتے لیکن تمہارا بوجھ تو سر سے اتار سکتے ہیں۔ تم ان پر اور کچھ نہیں تو احسان تو کر سکتی ہو اور اعتراض کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تم کس شش و پنج میں مبتلا ہو۔ تم کیوں چاہتی ہو کہ تمہاری شادی یہاں نہ ہو؟ یا تو تم کہو کہ مجھے فلاں شخص سے شادی کرنی ہے تو۔۔۔ اور ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ ظاہر ہے۔’‘

    ’’ایسی بات ہے راحیلہ۔’‘ وہ خاموشی سے اپنی انگلیاں مروڑنے لگی۔

    راحیلہ کا پیالی میں گھومتا چمچ والا ہاتھ وہیں رک گیا۔ ’’ایسی بات ہے؟ اور دن بھر ساتھ رہنے کے باوجود تم نے مجھے کبھی نہیں بتائی۔ کون ہے وہ؟ یہیں کیمپس میں ہے کوئی؟‘‘

    ’’نہیں۔’‘

    ’’نہیں؟ پھر تم کس کو جانتی ہو بھلا؟ کون ہے وہ؟‘‘

    ’’پتا نہیں۔’‘

    ’’پتا نہیں کیا بات ہوئی؟ کیوں چھپا رہی ہو مجھ سے؟‘‘

    ’’چھپا نہیں رہی دراصل میں نے ایک مرتبہ اسے سڑک پر دیکھا تھا راحیلہ!‘‘ پھنسی ہوئی آواز میں بولی۔

    ’’سڑک پر، ہائیں۔ یہ آئیڈیل وائیڈیل کا چکر تو نہیں۔ تم اتنی بےوقوف تو نہیں لگتیں۔ سچ بتاؤ، وہ سچ مچ کوئی ہے بھی یا تم نے فرض ہی کر لیا ہے؟‘‘

    ’’میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں نے اس سے باتیں کی تھیں، اسے دیکھا تھا اور۔۔۔’‘ اس نے نچلا ہونٹ چباتے ایک اضطراری سی کیفیت میں اسے بتا دیا۔ ایک ایک لفظ۔ ایک ایک واقعہ اور ایک لمحہ۔ راحیلہ کو یونہی شبہ ہوا، چائے پھیکی ہے۔ اس نے بہت ساری چینی گھولتے حیرت سے اس کی طرف منہ کھول دیا۔

    ’’اور بس؟ اس کے بعد تمہاری اس سے کہیں کوئی ملاقات نہیں ہوئی؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ اس واقعے کو بھی چار ماہ گزر گئے ہیں۔’‘ اس نے خفیف ہوکر کہا، ’’یہ اس دن کی بات ہے جب تم۔۔۔’‘

    ’’لیکن عینی سوچو یہ تو بڑا معمولی سا واقعہ ہے۔ آج کے دور میں ایسی قرون وسطیٰ کی محبتیں کون کرتا ہے۔ لگتا ہے تم کیلنڈر نہیں دیکھتیں۔ یہ بیسویں صدی ہے یعنی ڈارلنگ ایسی باتیں ہنس ہنس کر سنائی جاتی ہیں۔ دل کا روگ نہیں بنائی جاتیں۔ اس نے بھی دوستوں میں بیٹھ کر تمہاری اس غلط فہمی کو خوب نمک مرچ لگاکر سنایا ہوگا اور بس، اس کے بعد وہ بھی اور اس کے دوست بھی اس بات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھول گئے ہوں گے۔ اس کو تو تمہاری شکل بھی یاد نہیں ہوگی۔ تمہیں چاہیے تھا تم بھی ہنستی ہوئی آتیں اور ہمیں ساری بات سناتیں اور ہم لوگ رات تک وقفوں وقفوں سے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے رہتے اور بس۔۔۔ یہ باتیں بس اتنی ہی اہم ہوتی ہیں۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم اتنی احمق ہوگی۔’‘

    وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی دوست کی حماقت پر ملال کرتی ایک فقرہ بول دیتی۔

    عینی کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس کی بہترین دوست نے بہت محبت سے اس کا تعمیر کیا محل بچوں کی طرح اینٹ اینٹ کر کے بکھیر دیا تھا اور غضب یہ کہ افسوس بھی اس کو نہیں، عینی ہی کو تھا۔

    واقعی، اس طرف اس کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ اس نے کبھی اس موضوع پر اس طرح سوچا ہی نہیں تھا۔ جانے کیوں اس نے خود ہی تصور کر لیا تھا کہ وہ اس کی صورت کا چاند دل میں بسا کر دنیا سے جوگ لے بیٹھا ہوگا۔ ساری دنیا اس کی آنکھوں میں اندھیر ہو گئی۔ جواں محبت کی میت آنکھوں کے پانیوں کے پیچھے بےگور و کفن رہ گئی۔ ہم کتنی بےحسی سے دوسروں کے خواب تک نوچ لیتے ہیں اور اتنے ظالم ہیں کہ تشفی کا ایک لفظ بھی نہیں کہتے۔ وہ ظالم سی راحیلہ سینڈوچ کترتی اس کے آنسوؤں سے کترانے لگی۔

    پھر ایک مدت بعد اس نے وہ تھکا دینے والا خواب نہیں دیکھا اور رات اسے پھیکی پھیکی سی لگی۔ گویا ماضی کا سارا سرمایہ اس سے چھن گیا تھا۔ حتیٰ کہ اس کے خواب بھی۔

    اس کو لگا وہ جو کوئی بھی تھا وہ سرراہ اسے مل کر یہ سب سمجھا گیا تھا کہ میں تو تمہاری شکل بھی نہیں پہچانتا۔ میں تو دوستوں میں ہنس چکنے کے بعد وہ واقعہ بھی بھول گیا ہوں احمق!

    پھر اسے ذوالفقار سے شادی پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ ذوالفقار ہو، وقار ہو یا اس سے ملتا جلتا کوئی اور نام۔ آنسوؤں میں ہر چیز مٹ جاتی ہے۔

    اور لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جتنی جلدی اس نے شادی کی ہامی بھری، اتنی ہی شدت سے اس نے اپنی شرط بھی واپس لے لی۔ اسے لڑکے کی صورت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور سب یہ دیکھ کر حیران ہی رہ گئے کہ راحیلہ نے اسے چائے میں کیا گھول کر پلایا تھا۔ وہ پھر پرانی عینی بن گئی۔ وہی محبت کرنے والی۔ دکھ درد بانٹنے والی۔ ہنسنے بولنے والی۔

    بےشک اس کی آنکھیں خواب بن بن کر توڑ چکی تھیں۔ شکست و ریخت کا ایک ایک ذرہ وہاں بکھرا ہوا تھا، اس کے گالوں پرمسلسل رونے سے سرخی سی جم گئی تھی۔ ہاں اس کا اپنا پلڑا تو نیچے ہی تھا۔ دوسری طرف اس نے بیلنس بھی کر لیا تو کیا۔

    شادی آندھی کی طرح اٹھی اور سارے گھر کو لپیٹ میں لے گئی۔ شاہد بھائی کو تار روانہ کر دیا گیا۔ راشد صبح سے شام تک موٹر سائیکل بھگاتا پھرتا۔ عینی اور اپیا نے بازروں کے چکر لگا کر پاؤں سجا لیے۔ روزانہ پرس میں سے مختلف بازاروں اور دکانوں کی رسیدوں کی لمبی لسٹ نکالتی۔ جیولرز اور کپڑوں کے بازاروں کی خاک چھاننی اور اسی چکر میں مال پر گھومنے اور سوئی تلاش کرنے کی اس کی ساری حسرت نکل گئی۔ وہ کون سا دن تھا جب وہ اس بچے سے پھول خرید کر گھر نہ لائی ہو اور اپیا بڑبڑائی نہ ہوں۔ ’’یہ خرچوں میں اس نے اچھا خرچہ نکالا۔’‘

    ہاں اب وہ سڑکوں پر بےدریغ پھرتی تھی۔ پہلے کی طرح اس کے قدم ڈولتے نہیں تھے۔ نہ وہ پلٹ پلٹ کر سفید کاروں میں بیٹھے ڈرائیوروں کو گھورتی۔ وہ گردن اٹھائے تمکنت سے اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف رہتی۔

    یہ نہیں کہ اس نے سارا واقعہ اپنے دل سے سیاہی مٹانے والے پانی سے دھو ڈالا تھا۔ کوئی اس کے دل میں چپکے چپکے کہتا تھا۔ کیا روایتی واقعات اور اتفاقی حادثات کہانیوں میں ہی ہوتے ہیں۔ کہانیاں بھی ہماری ہی ہوتی ہیں، وہ کسی اور مخلوق کی طرف سے ہمارے لیے تو بھیجی نہیں گئیں۔

    راتوں کی تنہائی میں گرم رضائی میں دبک کر اس نے سینکڑوں مرتبہ صرف ایک ہی یقین طاری رکھا تھا۔ یہ ذوالفقار وہی شخص ہے۔ اس نے اپنی تلاش میں کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ اس کو کھوجتا ہوا منزل تک پہنچ گیا ہے۔ خدا کرے یہ وہی ہو۔ وہی۔ وہ تکیوں میں منہ دے کر دعائیں کرتی۔

    اپیا پیکٹوں سے لدی پھندی باہر نکلیں۔ ریلوے سٹیشن جیسا سارا رش نیلا گنبد پر اکٹھا تھا۔ ابھی رکشہ کی سواریاں ایک طرف سے اترتیں تو دوسری طرف سے چڑھ جاتیں۔ اب وہ پیکٹوں کے انبار میں دبی ساری جھنجلاہٹ عینی پر اتار رہی تھیں۔ وہ تو قسمت کہ رکشا عین ان کے سر پر آن رکا اور وہ چابک دستی سے اندر۔ ایک لمبا سانس لے کر انہوں نے تھیلے رکشا میں گرا دئیے۔

    ’’ایک دو تین۔۔۔ افوہ۔۔۔ عینی! ایک پیکٹ صوفی برادرز پر رہ گیا۔ مجھے پہلے ہی پتا تھا۔ جا دوڑ کے لے کے آ۔ رکشہ سے اترے تو نکل جائےگا۔’‘

    وہ چھلانگ مار کر نیچے اتری تو اپیا احتیاطاً پھر تھیلے گننے لگی۔

    ’’ہمارا ایک پیکٹ رہ گیا ہے صوفی صاحب۔’‘ وہ صبح سے چل چل کر بور ہو چکی تھی۔

    بڑے بڑے شیشوں کی دکان میں انہوں نے مسکراتے ہوئے جھک کر پیکٹ اٹھایا۔ ’’میں سمجھ ہی گیا تھا کہ آپ کا ہوگا۔ میں نے نیچے رکھ دیا تھا۔’‘

    ’’بےحد شکریہ۔’‘ جلدی میں پلٹنے سے پہلے اسے سامنے بلوریں آئینے میں کوئی عکس تیرتا نظر آیا۔ یہ رتجگوں کے دھندلے عکس تھے یا خوابوں کی تعبیر، اس نے پیکٹ کو ہاتھوں میں مضبوطی سے دبوچ لیا۔ وہ گھوم کر پلٹی تو وہ اس کے سامنے تھا۔

    ’’ارے آپ۔۔۔’‘ مخاطب خوشی سے اچھل پڑا۔ ’’تو آپ کو میں نے تلاش کر ہی لیا۔ اب داد مجھے دیجیے۔’‘ وہ بے قابو ہوتی خوشیوں سے چھلک رہا تھا۔

    یہ وہ نہیں تھا؟ تو شادی اس سے نہیں ہو رہی؟ اس نے سر نیچے کر لیا۔ اب کیا رہ گیا تھا!

    ’’میں نے تمہیں کہاں کہاں تلاش نہیں کیا۔ ہر روز اسی چوک پر۔۔۔ اسی سٹاپ پر۔۔۔ تم آخر کہاں کھو گئی تھیں؟‘‘ وہ اس کے ساتھ ساتھ سیڑھیاں اترتا نیچے آیا۔ ’’ایک مرتبہ پلیز۔ ایک مرتبہ مجھے اپنا نام بتا دو۔ میں تمہارے گھر آؤں گا۔ میرے گھر والے۔۔۔ تم۔۔۔ پلیز، پلیز۔’‘

    سامنے پھیلی طویل و عریض سڑکیں جل تھل ہو رہی تھیں۔ پانی کے اسی انبار میں کہیں اپیا کا رکشہ گم ہو گیا تھا۔

    ’’میرے دوست میرا بہت مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ لیکن مجھے پورا یقین تھا، میں تمہیں ایک روز تلاش کر لوں گا۔ دیکھو میں جیت گیا ہوں۔’‘

    وہ رش سے بھری سڑک پر فٹ پاتھ پر چلتا اس کے ساتھ آ ملا۔

    ’’پلیز، ایک منٹ رک کر میری بات سنو۔ تم پھر کھو جاؤگی تو میں تمہیں کہاں ڈھونڈوں گا۔ پلیز، پلیز۔’‘

    ایک رکشہ گھر گھر کرتا اس کے نزدیک آ رکا۔ وہ لمحہ بھر کو چوکنا سا ہوا۔

    ’’کیا تم نے مجھے پہچانا نہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔’‘ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

    ’’چل ناں عینی!‘‘ رکشا میں سے اس تھکے ہوئے اور الجھے ہوئے چہرے والی اپیا کو عینی نے دیکھ ہی لیا۔ وہ پیکٹ سیٹ پر پھینک کر گر سی گئی۔

    ’’رو رہی ہو؟‘‘ اپیا نے اس کی جل تھل برساتی آنکھیں بڑی خوشی سے دیکھیں۔

    ’’چلو دو دن پہلے سہی۔ تم روئیں تو۔۔۔ ہم تو بابا اپنی شادی سے مہینہ بھر پہلے رونا شروع ہو گئے تھے۔’‘

    ’’باجی، نرگس۔۔۔’‘ نرگس کے پھولوں والا بچہ اس کی طرف لپکا۔ رکشا والا بڑ بڑ کرتا ہوا کافی آگے نکل گیا تھا۔

    اس نے پردہ ہٹا کر دیکھا۔ پانی کے سیلاب میں نرگس کے پھول خریدنے والے اس شخص کو پہچاننے میں اس مرتبہ اسے کوئی دھوکا نہیں ہوا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے