Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آخری کمپوزیشن

بلراج مینرا

آخری کمپوزیشن

بلراج مینرا

MORE BYبلراج مینرا

    کہانی کی کہانی

    اس افسانے میں وحشت ناک ماحول اور مناظر علامتی انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی پر خوف و دہشت کے پہرے نے فن کاروں سے الفاظ چھین لیے ہیں۔ ترقی کی طرف گامزن زندگی میں پیش آنے والے مسائل، خوف، دہشت، قتل و غارت گری اور ظلم و جبر کے ماحول کی عکاسی اس افسانے میں کی گئی ہے۔

    (تیسری دنیا کے دانشوروں کے نام)

    اس کے لفظ چھین لو اور اسے چھوڑ دو۔

    یہ مجھے منظور نہ تھا اور نہ ہے۔

    گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل کا یہ درمیانی لمحہ، جسے میرا ایک رفیق آج کہتا ہے، چھ ضرب چھ کا ایک ننگا بچا سرد کمرہ ہے، جس کی تین دیوار یں پتھر کی ہیں اور چوتھی لوہے کی۔

    جگ بیتے، اس آج سے پہلے گزرے ہوئے کل، کھلے آسمان تلے، میں انجانے میں ان گنت لفظ کھو بیٹھا تھا۔۔۔ تاریخ، جغرافیہ، دیومالا، کہاوتیں، خون کے رشتے ناطے اور دل کے معاملات، صبح و شام تھے۔ کبوتروں کا پھڑپھڑانا بھوک تھی اور لغزش پا پیاس۔ ہنستے ہنستے رو دینا شاعری تھی اور روتے روتے ہنس دینا کہانی۔ پو پھٹنے سے پہلے بدھ ملتا، بعد دو پہر خیام اور شام ڈھلے دیوداس۔ کبھی قدّر عنا کو آنکھیں نم کئے غم کی تصویر دیکھتے اور کبھی روکھے سوکھے گھنے لمبے پریشاں سیاہ بالوں میں سورج کے ذرّ ے۔ بازوؤں پر پستانوں کا ہلکا سا دباؤ، موسم سرما کی صبح کی دھوپ، لبو ں کا لمس، الاؤ کی آنچ، بدنوں کا ملاپ، بارش اور بعد بارش کا سکھ۔۔۔ زمان و مکاں کی ایک ایسی سازش کہ جس کا میں شکار تھا، کہ جس میں میں شریک تھا۔

    میں، جو بیک وقت سازش کا شکار اور سازش میں شریک تھا، لفظوں کو معنی نہ دے پایا۔ لفظ جو دن تھے، گرما سرما، خزاں بہار کے گر چکر کاٹتے رہے۔ موسم، جو لفظ تھے، معنی نہ تھے۔۔۔ سازش کا شکار میں یوں تھا کہ لفظوں کے حصار میں تھا اور سازش میں شریک یوں تھا کہ میں نے اس حصار کو توڑنے کی کوشش نہ کی۔۔۔ وہ دن ہوس پر ستوں اور شہرت پسندوں کے دن تھے۔

    گزرے ہوئے کل کی ایک رات، جسے میرا رفیق آج کہتا ہے۔

    اس رات نرم گرم بستر بنے ہوئے بدنوں کے سانسوں کی دھونکنی مدّھم پڑ رہی تھی اور تھپکیاں دے رہی تھی کہ پاس ہی کی کوئی سیڑھیاں، کوئی وزنی، غیر مہذب قدم اترتے سنائی دیے۔ میرا دایاں ہاتھ، جو نرم گداز بھرے بھرے، لعاب لتھڑے، ماند ہوتے ہوئے پستان پر رکھا ہوا تھا جیسے وہیں کا ہو، آپ سے آپ علیحدہ ہو گیا، دھونکنی سرد پڑگئی اور میں ابھی کچھ سوچ بھی نہ پایا تھا کہ مجھے محسوس ہوا، کسی نے سسکی لی ہے۔ ایسی پھیلتی ہوئی سمٹتی ہوئی سسکی جیسے اک پل پھیل جائے، سمٹ جائے۔ ایسی بےچارگی، ایسا ضبط۔ جیسے رات نے سسکی لی ہے۔۔۔ کوئی آئے تھے کسی کو لے گئے تھے کوئی ضبط کر رہا تھا۔

    اس رات کی آج سی اجلی صبح ہوئی۔

    اک چہرہ تھا سانولا سا، اداس، اجلی آنکھوں والا، جسے بار ہا دوست کہنے کو جی چاہا، ہر صبح نظر پڑتا تھا، کہیں نظر نہ آیا۔

    راتیں سسکیاں بن گئیں۔

    دن اجلے ہوگئے۔

    بازاروں میں جوان چہرے کم نظر آنے لگے۔

    طول و عرض میں اک ایسی چپ چھائی کہ ایک دوسرے کے دل کی دھڑ کن سنائی دینے لگی۔

    گھر سے ذرا سے پرے، اس طرف کورے بدن سلگنے لگے۔

    کان سے جو سنا، ناک سے جو سونگھا، سچ تھا اور آنکھ سے جو دیکھا، ابھی جھوٹ تھا۔

    لفظوں کی کھال ادھڑ گئی۔

    کورے بدن جھلس رہے تھے۔۔۔ گلیاں، بازار، یونیور سیٹیاں، کھیت کھلیان، ندی نالے، پہاڑیاں، بادل، سب اک سلگتا نعرہ تھے۔ لفظ معنی۔ آنکھ جو کچھ دیکھ سکتی تھی، معنی تھے۔ ہر حس اک معنی بن گئی۔

    کتابیں حوصلہ، کھوپڑیاں ٹائم بم، ہاتھ رائفلیں، پہاڑیاں پناہ گاہیں۔

    دل لبھانے والے لفظوں سے کھینچی گئی جغرافیائی لکیروں کی بھٹیاں جو اب تک کورے بدنوں سے سلگائی جاتی تھیں، کلفٹن، میرین ڈرائیور اور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کے ایندھن سے دہکنے لگیں۔

    لفظ، جو دن تھے اور بے معنی موسموں کے گرد بےکار چکر کاٹتے تھے، اک معنی اور اک موسم بن گئے۔

    اس رات گھر لوٹتے سمے میں نے دیکھا، دہکتی بھٹی کی تپش سے لرزاں ندی میں دمکتے بدن بہہ رہے ہیں۔

    مجھے محسوس ہوا، میں سازش کا شکار نہیں ہوں، میں سازش میں شریک نہیں ہوں۔

    گھر پہنچا، دیکھا بے معنی کل کے دوست میرے منتظر ہیں۔۔۔ دوستی بے معنی سی شناسائی محسوس ہوئی۔ ان گنت لفظ کھو دینے کا دکھ ہوا۔

    ایک سکوں کے شہر سے لوٹا تھا اور خوش تھا۔ دوسرا تعلقات کی سیڑھیوں کی خرید و فروخت سے مالا مال تھا۔ تیسرا بے حسی کے محکمے میں ترقیاں کر رہا تھا۔

    ’’اک زمانہ ہوا، دل کا خون کیے۔۔۔‘‘

    ’’بھنے ہوئے آلو۔۔۔‘‘

    ’’بہتی آگ۔۔۔‘‘

    میں کیا کہتا؟

    میں نے کہا، ’’دل خون ہو رہے ہیں، بدن بھن رہے ہیں اور ہمارے چاروں اور آگ ہی آگ ہے۔‘‘

    تیسرے نے میری بات کاٹ دی۔

    ’’بند بوتل کی آگ ہی سے آنکھیں چندھیاں گئیں؟ میاں! یار اپنا اس شہر سے لوٹا ہے، جہاں گلیوں میں چاندی بہتی ہے۔۔۔ یار کے آسمانی رنگت کے کرتے نے وہاں جادو جگا دیے ہیں۔۔۔‘‘

    دوسرے نے بات بڑھائی۔

    ’’یار کی باتوں کے ہیرے اسی شہر میں بک سکتے تھے۔۔۔‘‘

    میں نے پہلے کی جانب دیکھا اور پھر تیسرے اور دوسرے کی جانب۔۔۔ وہم و گماں کے کردار۔

    میں نے اسی سمے گھر چھوڑ دیا۔

    گھر چھوڑا۔۔۔ ہر گھر اپنا ہو گیا۔۔۔ سہمے ہوئے گھر، دل والے گھر، بےحس گھر اور پھر اس رات وہ آئے، مجھے لے گئے، ضبط کا کوئی قصہ ہی نہ تھا۔

    تم نے جو سنا ہے، تم نے جو سونگھا ہے، تم نے جو دیکھا ہے، اسے جھوٹ کہہ دو۔۔۔ ہم تمہیں چھوڑ دیں گے۔

    یہ مجھے منظور نہ تھا۔۔۔ میں خاموش رہا۔

    میری خاموشی اک لفظ ’’نہیں‘‘ تھی۔۔۔ میں نے اب تک ان گنت لفظ کھوئے تھے، اب میں نے پہلی بار اک لفظ پایا تھا۔ اگر میں ان کی بات مان لیتا، میں اک لفظ اور کھو دیتا اور پہلا لفظ کبھی نہ پا سکتا۔

    تم اپنا یہ لفظ ہمیں دے دو، ہم تمہیں چھوڑ دیں گے۔

    میرا لفظ میری قوت اور ان کا خوف تھا۔

    میں نے اک لمبا سانس کھینچا۔۔۔ چند لمحوں میں میں نے کئی لفظ پالئے تھے۔

    اس کے لفظ اس کے پاس رہنے دو اور اسے بند کر دو۔

    یہ ان کی بھول تھی کہ ان لفظوں کے ساتھ میں آزاد تھا۔ قید بے معنی تھی۔

    تین ننگی بچی سرد دیوار یں پتھر کی اور چوتھی لوہے کی۔۔۔ انہوں نے مجھے بند کر دیا۔

    آزادی کے وہ دن سکھ کے پہلے دن تھے بھنچی ہوئی مٹھیوں کے پسینے کا نمک اس سے پہلے بھلا کب چکھا تھا!

    ہر حس اک معنی تو کب کی بن چکی تھی، تجربہ اب بنی۔

    قدموں کو چاپ ملی، آنکھوں کو روشنی۔۔۔ ننگے پاؤں ٹھنڈے فرش پر ٹہلتا تو آنکھوں کو بے پناہ سکون ملتا۔ ٹہلنا اک نشہ تھا۔ تھک جاتا تو جی بھر کر سوتا۔ سوچتا تو خوب سوچتا۔ ایک اور دیکھتا تو دیکھتا ہی رہتا۔

    چند ہی دنوں میں میں نے محسوس کیا، میری پتلیوں کی جنبش سے میرے بد ن میں زلزلہ آ جاتا ہے۔

    ایسے ہی ایک دن لوہے کی دیوار سے پشت جوڑے، ٹانگیں پسارے ننگے فرش پر بیٹھا ہوا تھا اور چھ فٹ کے فاصلے پر سامنے کی پتھر کی دیوار پر آنکھیں گاڑے ہوئے تھا۔

    دیوار میں اک بےصدا لہر اٹھی اور ایک ہلکے سے ارتعاش کے ساتھ فرش میں اتر گئی۔ دیکھا، سامنے کوئی بیٹھا ہوا ہے۔

    پہلی نظر میں پہچان نہ پایا۔

    یکا یک محسوس ہوا، فاصلہ کچھ زیادہ ہے۔۔۔ فاصلہ واقعی زیادہ تھا۔ فاصلہ بارہ فٹ تھا۔

    فاصلے کا صحیح اندازہ ہوا تو جان پڑا، دیوار چھ فٹ کے فاصلے پر ہے اور وہ دیوار میں چھ فٹ اندر میری اور رخ کئے ٹانگیں پسارے بیٹھا ہوا ہے اور لوہے کی دیوار سے پشت ٹیکے ہوئے ہے۔

    پہلی نظر میں پہچان نہ پایا تھا، ذرا سوچا تو مسکرا دیا۔۔۔ میرا رفیق ہے۔

    مسکرا کر خیر مقدم کیا۔ مسکراہٹ میں شکریہ ملا۔

    سامنے چھ فٹ کے فاصلے پر پتھر کی دیوار کے چھ فٹ اندر لوہے کی دیوار تھی، میری دیوار جیسی۔ یخ مضبوط، رنگ جیسے زنگ۔

    وہیں اپنی اپنی جگہ بیٹھے ہم نے نہ جانے کتنی ان کہی باتین کیں (وہ سن نہ لیں؟) تھک گئے تو آنکھیں موند لیں۔۔۔ آنکھیں کھولیں، تو پھر وہی تعجب اور پیار بھری آنکھیں۔

    ایسے ہی ایک پل اس کی لوہے کی دیوار کی جانب دیکھ رہا تھا کہ پھر دیوار میں اک بے صدا لہر اٹھی اور ایک ہلکے سے ارتعاش کے ساتھ فرش میں اتر گئی۔

    دیکھا، اس کی پشت کے ساتھ پشت جوڑے کوئی بیٹھا ہے اور ادھر دیکھ رہا ہے۔

    میں کیسے پہچانتا کہ میری جانب تو اس کی پشت تھی اور بارہ فٹ کی دوری۔

    میں نے اس کی جانب دیکھا۔

    وہ بھی حیران تھا۔

    وہ میری جانب دیکھ رہا تھا اور اس کی پشت کے ساتھ کسی اور کی پشت جڑی ہوئی تھی۔

    میں نے پھر ادھر دیکھا اور چونکا۔

    اس کے تھوڑے اور فاصلے پر کوئی اور بیٹھا ہوا تھا اور پتھر کی دیوار کے چھ فٹ اندر لوہے کی دیوار کے اندر لوہے کی دیوار سے پشت جوڑے میری یا شاید اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔

    میرا سر گھوم گیا۔

    میں نے آنکھیں بھینچ کر ہتھیلیوں سے آنکھیں مسلیں۔

    چند لمحوں کے بعد سر کو جھٹکا دے کر آنکھیں کھولیں اور حیرانی سے بڑھ گئی۔

    دیوار کے اندر، دیوار کے اندر دیوار کے سلسلوں میں پشت سے پشت جوڑے، آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ان گنت وہ، جو مجھے دیکھ رہے تھے یا ایک دوسرے کو، دوسرا تیسرے کو، تیسرا چوتھے کو، چوتھا پانچویں کو، پانچواں۔۔۔

    حیرانی کو معنی دیے تو مسکراہٹیں ہی خیر مقدم بنیں اور مسکراہٹیں ہی شکریے بنے۔۔۔ سب رفیق ہیں!

    لفظ بھی یہاں پائے تھے اور لفظوں کو معنی بھی یہیں ملے تھے اب معنوں کو لفظ دینے کا وقت آ گیا تھا۔

    آنکھوں آنکھوں میں وقت بندھ گیا اور جب۔۔۔ جب وہ گھڑی آئی، ایک ساتھ سب ہاتھ اٹھے، ایک ساتھ سب قدم اٹھے، ایک ساتھ سب سرد دیواروں سے ٹکرائے دیواریں کرچی کرچی ہو گئیں۔

    جب مجھے ہوش آیا، میں نے دیکھا، میں سائیں سائیں کرتے جنگل میں پڑا ہوں۔ قطرہ قطرہ خون میری رگوں میں اتر رہا ہے۔

    تھوڑی دیر بعد مجھے خبر دی گئی، ہمارے تین رفیق ہلاک ہوئے ہیں، وہ لاپتہ ہیں اور باقی سب محاذ پر ہیں۔

    مأخذ:

    سرخ و سیاہ (Pg. 46)

    • مصنف: بلراج مینرا
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے