aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آخری خواہش

خالدہ حسین

آخری خواہش

خالدہ حسین

MORE BYخالدہ حسین

    ’’حضور والا! آپ نے میرے استعفیٰ پیش کرنے کی وجہ دریافت کی ہے۔ اگر آپ کی جگہ میں ہوتا تو یہی کرتا۔ ایک ملازم چوبیس سال تک شب و روز نہایت تندہی اور دیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتا رہا ہو۔ اس کی یوں اچانک ملازمت سےعلیحدہ ہونے کی خواہش! مگر فی الحال میں صرف پریشانی خاطر ہی کا عذر پیش کر سکتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ عذر، عذر لنگ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ کیونکہ جسمانی طور پر میں نہایت چاق و چوبند ہوں۔

    جناب والا! اگر میں احوالِ واقعی بیان کردوں تو شاید آپ یقین نہ کریں اور پھر مجھے آپ جبراً بھی ملازمت پر برقرار رکھنے کے مجاز ہیں۔ مگر ان بیس سالوں میں جو کچھ اندازہ میں نے آپ کی افتاد طبع کا لگایا ہے، مجھے اس سے امید واثق ہے کہ آپ میری عرضداشت پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ جیسا کہ آپ کی طرف سے وقتاً فوقتاً لکھی جانے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ میرے کام سے نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ بےحد خوش بھی ہیں۔ ان بیس برسوں میں کبھی کوئی ایک موقعہ بھی ایسا نہ آیا کہ میں آپ کی توقعات پر پورا نہ اترا ہوں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے ان بیس برسوں میں مجھے اپنے سے الگ نہیں ہونے دیا۔ کتنے ہی شہروں میں آپ کا تبادلہ ہوا مگر ہر بار حکام اعلیٰ سے کہہ کر مجھے بھی آپ نے اپنے ساتھ کر لیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آسامی کو پر کرنے کے لیے آپ کو جس قسم کے آدمی کی ضرورت تھی، اس کی تمام صفات مجھ میں موجود تھیں۔ دوسروں کی طرح کبھی آج تک میرا ہاتھ کانپا، نہ ہی عین وقت پر مجھ پر بےہوشی اور متلی کے دورے پڑے، نہ ہی کبھی آپ نے مجھے پسینے میں تربتر دیکھا۔ میرا کام میرے لیے ایک فریضہ تھا۔ جس طرح اور بہت سے کام بہت سوں کے لیے فریضہ ہیں اور ان کو ادا کرنے میں ان کو کوئی باک نہیں، کسی طرح کی شرم ساری نہیں، یہ ان کے لیے عین عبارت ہے۔

    پس جناب عالی! آپ کے ہاتھ سے جاری ہونے والے سیکڑوں موت کے پروانوں پر میں نےعمل درآمد کیا۔ نہایت قوی اور صاف ضمیر کے ساتھ! اس لیے کہ اگر معاشرے کو نقصان پہچانے والوں کو ہم کیفر کردار تک نہ پہنچائیں تو معاشرہ ان سے اٹ جائے۔ ایسے سیاہ کاروں کو تختہ دار تک لے جانا، تمام تیاری کروانا، ان کو خاص لباس پہنانا، ان کے ہاتھ پشت پر باندھنا، پھر منہ پر غلاف چڑھانا میرے فرائض منصبی میں شامل ہے اور ان کو میں نے ہمیشہ نہایت فنکاری اور چابک دستی کے ساتھ سرانجام دیا۔

    جیسا کہ آپ نے خود بھی محسوس کیا ہوگا یہ کوئی آسان کام نہیں۔ اس تختہ دار پر چڑھنے والوں میں مختلف النوع لوگ ہوتے ہیں۔ بہت بہادر، خود تختہ دار تک چل کر جانے والے، بے حد بزدل! موت سے پہلے مرجانے والے، بہت رقیق القلب، رات بھر دہاڑیں مار مار کر رونے والے، بہت گستاخ آخری وقت تک مدافعت اور بدکلامی کرنے والے، بہت نیک، آخری دم تک تسبیح و مناجات کرنے والے۔ ایسے سب کے سب میرے ہاتھوں دار چڑھے اور بخیر و خوبی انجام پائے۔ میرے ہاتھ نے کبھی آج تک لرزش نہیں پائی۔ نہ کبھی آج تک کسی کو انجام تک پہنچاکے مجھے پشیمانی ہوئی۔ یہاں تک کہ کبھی کسی تختہ پر چڑھنے والے نے خواب میں بھی میرا پیچھا نہیں کیا۔

    اس بیس برس کے عرص میں میں نے کتنی بے شمار لوگوں کی آخری خواہشیں سنیں۔ پوری کروائیں۔ وصیتیں دیکھیں۔ ان کے عزیز و اقارب سے ان کی آخری ملاقات دیکھی۔ مگر ہر بار، ہر چیز مجھے بہت سی وجوہات کا منطقی انجام نظر آئی۔ اپنے خاکے میں درست بیٹھنے والی تصویر۔ یاکسی معمے کے خالی چوکور خانے میں بھرا جانے والا واحد، اٹل، حرف۔ اس لیے کبھی آج تک لوگوں کی آہ و بکا اورعورتوں کے بینوں نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ اس سلسلہ میں میں آہنی اعصاب کا مال پایا گیا ہوں۔

    جناب والا! میری مستقل مزاجی اور اعصاب کی مضبوطی سے آپ ضرور اندازہ کر سکتے ہیں کہ میں کبھی اپنے ارادوں اور فیصلوں یہاں تک کہ احساسات اور ان کے ردعمل میں متزلزل ہونے والا شخص نہ تھا۔ ہاں اب تک۔ یعنی دس روز قبل تک اپنے بارے میں میری رائے تھی۔ مگر جس آخری مجرم کو میں نے تختہ دار پر چڑھایا، اس نے ایک ایسا لق و دق میدان میرے سامنے لاکھڑا کیا ہے کہ صدیوں بھی سرگردانی کرے باہر نکلنے کی راہ نہ پائے۔ اس میں بھی کلام کی گنجائش نہیں کہ میں اس حمام باد گرد میں یوں داخل ہوا ہوں کہ جیسے کوئی خواب میں داخل ہو کر پھر واپس جاگتی زندگی میں نہ آ سکے۔ شاید بچپن کی پڑھی سنی داستانیں جیتی جاگتی حقیقت بن کر میرے سامنے آن کھڑی ہوئی ہیں۔ ورنہ مجھ جیسے شخص سے آپ کو اس قسم کی باتوں کا خدشہ کہاں تھا۔

    جناب والا! میں خود اس تمہید کے چکر میں نہ پڑنا چاہتا تھا مگر اس کا تعلق میری عرضداشت کے ساتھ نہایت گہرا ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں اتنی زندگیاں ختم کیں مگر آج تک زندگی کی قدروقیمت، زندگی اور موت، ہونے نہ ہونے، عدم اور وجود کے درمیان فاصلے کے بارے میں کوئی ایک خیال بھی کچھ ذرا سا تردد بھی میرے ذہن میں نہ آ سکا۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید میں یہ ملازمت نہ کر سکتا۔ آج سے دس روز قبل قتل کے ایک مجرم کا فریضہ مجھے انجام دینا تھا۔ میں نے حسب معمول اس کو ایک رات قبل کال کوٹھری میں یوں ایک سرسری نظر دیکھا بھی تھا۔ جیسا کہ آپ نے بھی غور کیا ہوگا، یہاں پر سب کے سب ایک ہی صورت کے ہوتے ہیں۔ شاید یہاں کے مخصوص لباس اور پاؤں میں پڑی بیڑیاں اور بڑھے ہوئے خط کے باعث وہ ایک ہی تصویر کی بہت سی کاپیاں نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ان کاتختہ دار پر چڑھنا مذبح خانے میں بہت سے جانوروں کا مشینی ذبح ہے اور بس۔ ہاں فرق محض ان داستانوں کا ہوتا ہے جو اکثر ہم تک ان لوگوں کے بارے میں پہنچتی ہے۔

    مجھے معلوم ہوا کہ یہ شخص اپنی بیوی کا قاتل ہے۔ جناب والا! اپنی گھریلو زندگی میں میں نہایت ذمہ دار اور خوشگوار شخصیت رکھنے والا فرد ہوں اور مجھے اپنی بیوی سے بےحد محبت ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی اس قسم کا مجرم آتا ہے، مجھے تجسس ضرور ہوتا ہے کہ بیوی ایسی خوبصورت نرم و نازک محبت کرنے والی چیز کو کوئی کس طرح اپنے ہاتھوں قتل کر سکتا ہے اور ایسے مجرموں کو میں نہایت خوشی اور اطمینان کے ساتھ تختہ دار پر چڑھاتا ہوں۔

    میں نے مجرم کی صورت دیکھی وہ کال کوٹھری کے فرش پر دراز تھا۔ اس کے چہرے پر خوف کی پرچھائیں تک نہ تھی۔ جیسے کوئی بے ذہن جانور مذبح خانے میں کھڑا جگالی کرتا ہو۔ لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوا کہ آخری دنوں میں بھی اس کی کوئی ملاقات نہیں آئی تھی۔ وہ خاصا پختہ عمر نظر آتا تھا۔ دبلے پتلے چہرے میں اس کی مطمئن آنکھیں خوب چمکتی تھیں۔ دستور کے مطابق اس کے لباس کی تلاشی لی جاتی تھی اور ہمیشہ ایک ہی تصور برآمد ہوتی، جو اس کے کہنے کے مطابق اس کی بیوی کی تھی۔ میں نے یہ جاننے کی کوشش بھی نہ کی تھی کہ اس نے یہ قتل کیوں کیا؟ مجھے معلوم تھا کہ یہ وہی چال چلن اور وفاداری پر شک کا سلسلہ ہوگا۔

    جب متعلقہ افسر نے اس سے وصیت کے بارے میں پوچھا تو اس نے لاتعلقی سے اس کی طرف دیکھا، ’’وصیت کیسی؟ بس یہ تصویر میرے ساتھ رہےگی۔‘‘ تب حسب دستور اس سے آخری خواہش کے بارے میں سوال کیا گیا۔ اس نے لمحہ بھر کے لیے تامل کیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں عجیب و غریب چمک پیدا ہوئی اور تمام چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

    ’’ہاں ایک خواہش ہے۔‘‘ وہ سیدھا تن کر بیٹھ گیا۔

    ’’بولو!‘‘ ہم کسی خواہش کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو گئے۔

    ’’میں نے بہت چاہا مگر کبھی جی بھر کے گلاب جامن نہیں کھا سکا۔ بس پیٹ بھر کے گلاب جامن کھلا دیں۔‘‘

    اس کی اس خواہش پر ایک بلند بانگ قہقہہ میرے گلے سے نکلا۔ پھر وہ قہقہہ بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ میں چیخیں مار مارکر ہنسنے لگا۔ مگر وہ شخص بےحد سنجیدہ تھا۔ متعلقہ افسر نے ڈانٹ کر مجھے خاموش رہنے کا حکم دیا اور ایک آدمی کو فوراً بازار دوڑایا۔ گلاب جامنوں کے لیے۔ میں ہنسی کے مارے ٹوٹتی پسلیوں کے ساتھ برآمدے میں آن بیٹھا۔ مارے ہنسی کے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر آہستہ آہستہ میری ہنسی سسکیوں میں تبدیل ہو گئی اور میں اپنے آپ پر سخت شرمندہ اور حیران ہوا۔ جب میں نے اپنے آپ کو روتا ہوا پایا۔

    ’’عجب احمق آدمی ہے!‘‘سب یہی محسوس کر رہے تھے۔

    جناب والا۱ یہی وہ لمحہ تھا جب ٹھک سے میرے اندر کوئی کواڑ کھل گیا اور اس کے اندر وہ لق و دق صحرا، گرم گرم خون کے بھبکے میرے کانوں تک لپکتے اترتے رہے۔ دل کا نقارہ کانوں میں گونجتا رہا۔ میرا جی چاہا میں انکار کر دوں۔ اس شخص کو تختہ دار پر لے جانے سے انکار کر دوں۔ جس نے زندگی کی اتنی حقیر قیمت لگائی تھی۔ یقیناً وہ میرے ہاتھوں کے شایان شان نہ تھا۔ مگرمیں یہی دیکھتا رہا کہ وہ کس طرح گلاب جامنوں پرٹوٹ پڑا۔ اس کی حریص انگلیاں دو دو گلاب جامنوں کا ایک ایک نوالہ بناتی چلی گئیں۔ پھر اس نے اپنی انگلیاں چاٹیں، اتنی ہی اور۔ اس نے خالص حرص کی آنکھوں کے ساتھ کہا اور ہتھیلیاں تک چاٹ گیا۔

    جب ڈھائی کا گجر بجا۔ ساتھ ہی اس کے غسل کا گرم پانی بھی آ گیا۔ کچھ دیر بعد مولوی صاحب بھی آن پہنچے۔ وہ کپڑے جھاڑتا اٹھا، ’’خدا آپ کو خوش رکھے، خدا آپ کی تمنائیں پوری کرے۔‘‘ اس نے نہایت آسودگی کے ساتھ انگڑائی لی اور ہنسی خوشی غسل خانے کے لیے چلا گیا۔

    جناب والا! اگر مجھے اپنے فرائض کا خیال نہ ہوتا تو میں اسی وقت وہاں سے بھاگ جاتا مگر مجھے معلوم تھا کہ میرے بغیر تمام کام درہم برہم ہو جائےگا۔ پس میں سر جھکائے گلاب جامنوں کی اس خالی ٹوکری کو دیکھتا رہا۔ وہ پہلا دن تھا کہ پشت پرہاتھوں کو رسی باندھتے ہوئے، پھر پاؤں جکڑتے ہوئے میرے ہاتھ کانپے اور میں نے محسوس کیا کہ اب میں اس نوکری کے لائق نہیں رہا۔ مگر اس کے منہ پر غلاف چڑھاتے ہوئے مجھے ایک آخری منظر اور بھی دیکھنا تھا۔ جب آدھے ڈھنپے چہرے سے مسکرا کر اس نے میری جانب دیکھا تو اس کے دونوں گالوں میں ایک ایک گلاب جامن بھری تھی۔

    حضور عالی! میں نہیں جانتا کہ کب میں نے وہ تختہ کھینچا۔ جو نصف گھنٹہ مجھے سب کے ساتھ وہاں رکنا پڑا، اس کی تفصیلات بھی مجھے یاد نہیں۔ اس لیے عالی حضور، فیض گنجور میں آپ کی خدمت کے لائق نہیں رہا۔ پس یقین رکھتا ہوں کہ آپ اس عرضداشت پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے