Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آخری موڑ پر

سید محمد اشرف

آخری موڑ پر

سید محمد اشرف

MORE BYسید محمد اشرف

    کہانی کی کہانی

    خودغرضی، مفاد پرستی، سماجی بے حسی اور رشتوں کی ارزانی اس کہانی کا موضوع ہے۔ ایک بے اولاد بوڑھے کی جائداد کی وصیت کا بیع نامہ کرانے کے لئے اس کے تین بھتیجے اور بھتیجی ٹرین سے سفر کرتے ہیں۔ چچا کی دلی خواہش ہے کہ جب ان کا انتقال ہو تو ان کو باعزت طریقے سے ان کے آباء و اجداد کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔ اسی ضمن میں مختلف مسافر جانوروں اور پرندوں کی دردمندی اور دکھ درد میں ان کی باہمی شرکت کا ذکر کرتے ہیں لیکن ان نوجوانوں کو اس قسم کا کوئی واقعہ یاد نہیں آتا۔ ٹرین سے اتر کر جب وہ بس میں سوار ہونے والے ہوتے ہیں تو ایک ٹرک ایک شخص کو روندتا ہوا گزر جاتا ہے۔ اس حادثہ کا بھی نوجوان ذرہ برابر نوٹس نہیں لیتے لیکن بوڑھا بریف کیس اور کمبل فرش پر ڈال کر بری طرح رونے لگتا ہے۔

    ریل رات کے دو بجے آنے والی تھی اور پلیٹ فارم تقریباً سنسان ہو چکا تھا۔ سراج چاروں کا انتظار کرتے کرتے بیزار ہو چکا تھا۔ اس نے چوتھی مرتبہ گھڑی دیکھی۔ ابھی وقت تھا۔

    سردی بہت شدید تھی اور کہرا پلیٹ فارم کے فولادی شیڈ میں سرمئی شامیانے کی طرح تنا ہوا تھا۔ پلیٹ فارم کی بتیاں مومی شمعوں سے زیادہ اجالا نہیں پھیلا رہی تھیں۔ ان کی روشنی سراج تک آتے آتے کہرے میں گھل مل کر اور زیادہ مدھم ہو جاتی تھی۔ برابر سے ایک شخص لمبا کوٹ پہنے ہاتھ میں چورخی لالٹین لیے خاموشی سے نکلا۔ سراج اس کی پشت کی طرف دیر تک دیکھتا رہا، تبھی اسے مال گودام سے تین سایے برآمد ہوتے نظر آئے۔ وہ ڈھاٹے باندھے ہوئے تھے اور اسی کی طرف بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ سخت سردی اور ایک انجانے خوف سے اس کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ ان سایوں نے قریب آکر اپنے اپنے مفلر کھولے اور پھر چاروں ہنسنے لگے۔ وہ تینوں فاتحانہ انداز میں اور سراج شرمندہ ہو کر۔۔۔ اس نے جلدی سے اپنے خوف کو دفع کیا اور نارمل آواز بنا کر بولا، ’’میں دور سے غور کر رہا تھا کہ تم لوگ تو آ رہے ہو لیکن رافعہ تم میں نہیں ہے۔ رافعہ کہاں ہے؟‘‘

    ’’اہا۔۔۔ ہاہا۔۔۔ جیسے تم ہم سے ڈرے ہی نہیں۔ کسی اور کو پاگل بنانا۔‘‘ کسی نے پیچھے سے کندھے پر دھیمے سے ہاتھ رکھا۔ ایک نرم نسوانی آواز سنائی دی، ’’میں یہاں ہوں بہادر ملت۔ بندی مین گیٹ سے داخل ہوئی اور پہلے سیدھے ویٹنگ روم میں گئی جہاں چچا صاحب ایک کوچ پر آرام فرماہیں اور ہم پانچوں کی عافیت و آخرت کے بارے میں فکر مندی اور اضطراب کا بآوازِ بلند اظہار کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’کیوں۔۔۔ کیوں۔ کیا وہ ناراض ہیں۔ تم اتنی مشکل اردو کیوں بولتی ہو؟‘‘ سراج بولا۔

    ’’وہ بیچارے بارہ بجے سے آکر ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ چار پیالی چائے پی چکے ہیں اور اتنی ہی بار باتھ روم جا چکے ہیں اور ہر بار انہیں موٹے کمبل سے نکلنا پڑتا ہے۔ اسٹیشن پر ہم میں سے کسی نے ان کی خیریت تک نہیں معلوم کی۔‘‘

    ’’اسٹیشن پر تھا ہی کون سراج کے علاوہ۔‘‘ تینوں سابق ڈاکوؤں نے توجیہ پیش کی۔ ’’سراج کو جا کر ان کے پاس بیٹھنا چاہیے تھا۔ ہم تو خود ایک ہی رکشے میں بیٹھے، سردی کھاتے، اللہ اللہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔‘‘

    ’’تم لوگوں کے یہی احوال رہے تو۔۔۔‘‘ رافعہ شرارت سے مسکرائی۔

    ’’تو مجھے لگتا ہے چچا صاحب صبح ضلع دفتر میں جا کر سب سے پہلا اعلان یہی کریں گے کہ وہ اپنی وصیت رجسٹرڈ کرانے نہیں، کینسل کرانے آئے ہیں۔‘‘

    ’’بدفال نہ نکالو رافعہ۔ کتنے عرصے بعد تو بڑے میاں راضی ہوئے ہیں۔ یعنی اس وقت جب انہیں یقین کامل ہو گیا کہ ان کا دوسرا پیر بھی قبر کی طرف، ان کی تمام کوششوں کے باوجود، کھسکتا چلا جا رہا ہے۔‘‘ ڈاکوؤں میں کا ایک بولا۔

    ’’چلو مرکری کے نیچے چلیں۔ وہاں روشنی بھی ہے گرمی بھی۔ پھر چچا صاحب کے پاس چل کر بیٹھیں گے۔ ریل میں ابھی بھی آدھا گھنٹہ ہے۔ آج ہی کم بخت کو لیٹ ہونا تھا۔‘‘ سراج نے آخری جملہ بڑبڑاتے ہوئے ادا کیا۔ جب وہ مرکری کے نیچے کھڑے ہوئے تب ان کے چہرے واضح ہوئے۔ سراج دراز قد، کچھ کچھ فربہ نوجوانی میں قدم رکھتا ہوا۔ زبیر، عامر اور سلیمان سرخ و سفید ہنس مکھ چہرے والے نوجوان جو سراج سے کچھ بڑی عمر کے لگ رہے تھے۔ رافعہ کتابی چہرے اور بڑی بڑی آنکھوں والی، ہمہ وقت مسکراتی ہوئی نرم نرم سی لڑکی جو عمر میں شاید ان میں سب سے چھوٹی تھی۔ یہ سب آپس میں چچازاد بھائی بہن تھے۔ ویٹنگ روم میں لیٹے چچا صاحب بے اولاد تھے۔ وہ اپنی جائیداد اپنے بھتیجوں اور بھتیجی کو وصیت کے ذریعہ دینا چاہتے تھے لیکن اس وقت کا انتظار کر رہے تھے جب زیادہ دن جینے کی امید نہ باقی رہے۔

    زبیر، عامر اور سلیمان تینوں مل کر سراج اور رافعہ سے مشورہ کرتے رہے کہ چچا صاحب کا سامنا کیسے کیا جائے۔ دراصل انہوں نے چچا صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹرین کے صحیح وقت یعنی بارہ بجے انہیں ان کے گھر سے لے کر اسٹیشن آ جائیں گے۔ فون پر وقت معلوم کیا تو علم ہوا کہ ٹرین دو گھنٹے تاخیر سے چل رہی ہے۔ وہ مطمئن ہو گئے۔ لیکن چچا ساڑھے گیارہ بجے انتظار کرتے کرتے جب بے چین ہو گئے تو اکیلے ہی اسٹیشن آکر، ٹکٹ خرید کر ویٹنگ روم میں لیٹ گئے۔ اب تینوں چچا کے سامنے کھڑے تھے۔ سراج اور رافعہ ان کے پیچھے شرمندہ شرمندہ سے کھڑے تھے۔ وہ تینوں اب تک ایک شاندار داستان تخلیق کر چکے تھے۔ چچا صاحب کوچ کے سرہانے سے پیٹھ لگائے کمبل لپیٹے سرجھکائے ناراض ناراض سے بیٹھے تھے۔ ان کا بریف کیس ان کی بغل میں دبا ہوا تھا۔

    ’’السلام علیم چچا صاحب!‘‘ تینوں نے بیک وقت سلام کیا۔ چچا صاحب ایک لمحے کو چپ رہے۔ پھر دھیمے سے بولے، ’’وعلیکم السلام۔۔۔‘‘ پھر خاموشی کا اذیت ناک وقفہ۔ انہوں نے خاموشی خود ہی توڑی، ’’آ گئے آپ حضرات۔ بڑی جلدی کی۔‘‘

    ’’ارے چچا صاحب آپ کو معلوم نہیں ہوا شاید۔۔۔‘‘ زبیر نے کمان اپنے ہاتھ میں لی۔

    ’’جیسے ہی ہم تینوں آپ کے گھر کی طرف چلے تو راستے میں اندھیری سڑک پر کچھ شور سا سنائی دیا۔ کچھ دوشیزاؤں کے چلانے کی آوازآرہی تھی۔ ہم لوگ بھاگ کر ادھر گئے تو دیکھا کہ تین چار غنڈوں نے رکشے والے کو باندھ رکھا ہے اور ان ماں بیٹی کے زیور اتروا رہے ہیں۔ ہم تینوں انہیں للکار کر آگے بڑھے۔ بڑی پٹائی کی۔ وہ تینوں ڈر کے مارے بھاگ گئے۔ ہم نے رکشے والے کو آزاد کیا اور ان ماں بیٹی کو ان کے گھر تک چھوڑ کر آئے۔ اس لیے اتنی دیر لگی چچا صاحب۔‘‘

    بوڑھے چچا صاحب نے تینوں کی جانب مشکوک نظروں سے دیکھا۔ پھر پیچھے کھڑے سراج اور رافعہ سے پوچھا، ’’آپ کا اس سنگین معاملے میں کیا تعاون رہا۔‘‘

    ’’چچا صاحب! میں تو پہلے سے اسٹیشن پر آ گیا تھا لیکن ان تینوں کا انتظار کر رہا تھا تاکہ ہم چاروں آپ کے سامنے ایک ساتھ آئیں۔‘‘

    ’’اور آپ؟‘‘ انہوں نے رافعہ کی طرف دیکھا۔

    ’’چچا صاحب! میں نے فون پر ریل کا وقت معلوم کر لیا تھا۔ میں نہ سراج کی طرح پہلے سے آئی، نہ ان تینوں کی طرح مال گودام کے شارٹ کٹ سے آئی۔ مجھے عبدل ڈرائیور چھوڑ گیا تھا۔ میں اطمینان سے مین گیٹ سے آئی۔ کچھ دیر ان سب کا انتظار کیا۔ سراج اندھیرے میں کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ میں نہیں دیکھ سکی۔ یہ تینوں مال گودام کے راستے سے داخل ہوئے۔ میں اس سے پہلے ہی آکر آپ کی خیریت معلوم کر چکی تھی۔ ویٹنگ روم سے باہر نکلی تو ان چاروں کی آوازوں سے اندازہ کیا کہ یہ لوگ آ چکے ہیں۔ باہر بہت کہرا اور سردی ہے چچا صاحب۔‘‘ رافعہ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں بھینچ لیں۔

    ’’ہوں۔۔۔‘‘ چچا ابھی بھی یقین اور گمان کے درمیان کسی اونچی نیچی چٹان پر کھڑے تھے۔

    ’’پہلی بات تو یہ کہ اردو ذرا احتیاط سے بولا کیجیے۔ دوشیزہ کنواری لڑکی کو کہتے ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ غنڈوں کو بھگانے اور خواتین کو گھر پہنچانے میں بمشکل بیس منٹ لگے ہوں گے۔ آپ تینوں تو ٹھیک ڈیڑھ گھنٹے بعد آ رہے ہیں۔‘‘ تینوں نے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا۔ یہ سوال غیرمتوقع تھا لیکن داستان گو اپنے فن کی آبرو تھے۔ اس بار سلیمان کی باری تھی۔ اس نے خاصا تخلیقی ذہن پایا تھا۔

    ’’ہم آپ کو بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ در اصل جب ہم ان دوشیزاؤں۔۔۔ مطلب یہ کہ ان عورتوں کو چھوڑ کو واپس آ رہے تھے تو قبرستان کے قریب ہم نے کسی کو زور زور سے ڈانٹتے ہوئے سنا۔ ہم تینوں خوفزدہ ہوئے بغیر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے پکڑے جھاڑیوں کے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے۔ وہاں ہم نے اک عجیب منظر دیکھا۔ وہ منظر اپنی جزئیات کے ساتھ مدتوں یاد رہےگا۔ ہا۔ کیا منظر تھا۔ نہایت خوف ناک۔ سرجری والے بڑے ڈاکٹر صاحب شیروانی ٹوپی پہنے ہاتھ میں چھڑی لیے کھڑے تھے۔ ان کی سائیکل برابر میں کھڑی تھی اور وہیں ہاتھ میں چاقو لیے دو چور کھڑے تھے۔ خوف ناک چہرے والے۔ درندہ صفت۔۔۔ نقاب پوش۔‘‘

    ’’واللہ؟‘‘ چچا صاحب کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

    ’’جی ہاں چچا صاحب! ہم کوئی آپ سے جھوٹ بولیں گے۔ البتہ اب ان سے واپسی پر کچھ نہ پوچھیےگا۔ وہ شرمندہ ہو جائیں گے۔ نیک انسان ہیں نا۔‘‘

    ’’ہاں۔ ہے تو بات شرمندگی کی۔ مگر آگے کیا ہوا؟‘‘

    ’’آگے کیا ہونا تھا‘‘‘اب سلیمان کی آواز میں اعتماد کھنکھنانے لگا تھا۔ کھرج کے لہجے میں گویا ہوا، ’’ایک چور نے چاقو دکھا کر ان سے ان کی سائیکل چھین لی، حالاں کہ وہ مستقل یہ آرگومنٹ دیتے رہے کہ اگر آپ لوگ سائیکل لے جائیں گے تو اتنی رات اور سردی میں وہ پیدل دومیل دور اپنے گھر تک کیسے پہنچیں گے۔ لیکن چوروں نے ان کی ایک بات نہیں مانی۔ پھر چوروں نے ان کو گالی دے کر پوچھا، جیب میں کتنے روپے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ لوگ شائستگی کا دامن نہ چھوڑیں اور ذرا تمیز سے مخاطب کریں۔ اس پر چوروں نے کہا کہ ”اے ڈاکٹر سیدھی طرح سے روپے نکال کر دے دے، نہیں تو ابھی تیری تمیز اور قمیص دونوں پھاڑ دیں گے۔‘‘

    ’’استغفراللہ۔‘‘ چچا صاحب آنکھیں پھیلائے انہیں دیکھتے ہوئے دھیمے سے بڑبڑائے، ’’پھر؟‘‘ چچا صاحب نے بریف کیس ایک طرف رکھ کر خود کو کمبل میں اچھی طرح لپیٹا۔

    ’’ہوتا کیا چچا صاحب۔ ڈاکٹر صاحب کو شیروانی کی جیب سے ساری نقدی نکال کر دینا پڑی۔ تین سو روپے تھے۔ میں نے اپنی آنکھ سے سو سو کے تین نوٹ دیکھے تھے۔‘‘ سلیمان سانس لینے کو رکا۔ رافعہ اور سراج نے دوسری طرف منہ پھیر لیا تھا۔

    ’’اب چوروں نے ڈنڈے سے اشارہ کر کے کہا کہ ڈاکٹر صاحب تمہارے پاس تو اور بھی شیروانیاں ہوں گی۔ یہ شیروانی اتار کر ہمیں دے دو۔ اس پر ڈاکٹر صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ بولے دیکھیے حضرات۔ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ میں آج تک گھر سے باہر کبھی بغیر شیروانی نہیں نکلا ہوں۔ یہ میرے واسطے بڑا ذلت آمیز معرکہ ہوگا۔ اس بات پر چور ہنسنے لگے۔ اتنی زور سے ہنسے کہ ڈاکٹر صاحب ان کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ پھر ان میں کا ایک بولا کہ رات اندھیری ہے۔ سڑک پر سناٹا ہے۔ دور دور تک کوئی آدمی ہے نہ آدم زاد۔ تم کو ذلت کیوں کر محسوس ہوگی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب بولے کہ ذلت کے لیے اندھیرا اجالا یا تنہائی اور آبادی ضروری نہیں ہیں۔ ذلت ایک احساس کا نام ہے۔ تب وہ چور بولا کہ تم ڈاکٹر ہو یا اردو کے رائٹر۔ شاعروں جیسی باتیں کیوں کرتے ہو۔ شیروانی اتار دو۔‘‘

    ’’چچا صاحب!‘‘ سلیمان ٹھنڈی سانس بھر کر بولا، ’’ناچار ڈاکٹر صاحب کو شیروانی اتار کر دینا پڑی۔‘‘

    ’’پھر۔۔۔؟ چچا صاحب کا منہ رنج کی وجہ سے کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔“

    ’’پھر ایک عجیب بات ہوئی چچا صاحب! ڈاکٹر صاحب نے ان سے کہا، حضرات! آپ نے مجھے تنہا اور بے آسرا دیکھ کر روکا۔ میں رک گیا۔ آپ نے دشنام سے کام لیا۔ میں چپ رہا۔ آپ نے میرے سفر کی رفیق سائیکل کو مجھ سے طلب کیا، میں نے بسر و چشم آپ کے حوالے کردی۔ آپ نے نقد مال کا سوال کیا۔ میں اس سے بھی دست بردار ہوا۔ اس کے بعد بھی آپ کی حسرت ہوا و ہوس پوری نہیں ہوئی اور آپ نے میرا لباس بھی اتروا لیا۔ میں نے بادل ناخواستہ شیروانی بھی آپ کی خدمت میں پیش کردی۔ اب کیا رہ گیا ہے۔ اگر اجازت مرحمت ہو تو میں یہاں سے منہ کالا کروں۔‘‘

    ’’ڈاکٹر صاحب یہ کہہ کر رکے تو چوروں نے کہا۔ جائیے۔ ڈاکٹر السلام علیکم اور خدا حافظ کہہ کر آگے بڑھے ہی تھے کہ پیچھے سے ایک چور نے ان کے دو تین ڈنڈے خوب کس کس کے مارے۔ ڈاکٹر صاحب نے بےحد بےچارگی کے عالم میں ان کی طرف دیکھ کر کہا، جناب والا۔ آپ کی یہ حرکت نہایت نازیبا ہے۔ آپ جیسا جیسا کہتے گئے میں کرتا گیا۔ آپ جو جو چیز مانگتے گئے میں دیتا گیا۔ آخر ڈنڈے مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ تب ان میں کا بڑا چور آگے بڑھا اور ڈاکٹر صاحب کے مقابل جاکے کھڑا ہوکر بولا، ”سنوڈاکٹر صاحب ہم لوگ چور ہیں کوئی بھک منگے نہیں ہیں کہ ہم مانگتے جائیں اور آپ دیتے جائیں۔ آخر ہماری بھی کوئی عزت ہوتی ہے۔ ہم محنت کی کمائی کھانا چاہتے ہیں، بھیک کی نہیں۔ سمجھے؟‘‘

    رافعہ اور سراج منہ پر ہاتھ رکھ کر کھانسی کا بہانہ کرکے کھنکارتے ہوئے باہر پلیٹ فارم پر آئے اور ہنسی کے مارے دوہرے ہو گئے۔ چچا صاحب حیرت اور غم کی تصویر بنے منہ کھولے دیر تک ان تینوں کو دیکھتے رہے اور پھر سر جھکا لیا۔ دیر کے بعد بولے، ’’تم لوگ نوجوان تھے۔ وہیں جھاڑیوں کے پیچھے کھڑے رہے۔ تم ان کم بخت ذلیل چوروں کو مار کر نہیں بھگا سکتے تھے؟‘‘

    اب عامر کی باری تھی، ’’در اصل چچا صاحب! ان لوگوں کے ہاتھوں میں یہ بڑے بڑے چاقو تھے جو چاندنی میں خوب چمک رہے تھے۔ غالباً رام پوری تھے۔ دوسرے ہم لوگوں کو یہ بھی احساس تھا کہ ڈاکٹر صاحب ہم لوگوں کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے۔‘‘ اس جواب سے چچا صاحب کے چہرے پر اطمینان آیا۔ تھوڑے توقف کے بعد چچا صاحب نے پوچھا، ’’رام پوری چاقو چاندنی میں چمک رہے تھے؟ لیکن آج تو اتنا کہرہ ہے کہ چاند تک نظر نہیں آیا۔‘‘ داستان گونے کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں، ’’چچا صاحب! قبرستان کے پاس والا علاقہ خوب کھلا کھلا ہے۔ وہاں خوب ہوا چل رہی تھی اس لیے کہرہ ہٹ گیا تھا کہ رام پوری چاقو خوب۔۔۔‘‘ جملہ کچھ اچھا نہیں بنا تھا اس لیے اس موقع پر اس نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ قدرت بھی داستان گو کے ساتھ تھی کیوں کہ ریل پلیٹ فارم میں داخل ہو چکی تھی۔

    پانچوں نے چچا صاحب کی مدد کی۔ سب کے سب ایک نسبتاً خالی ڈبے میں جاکر بیٹھ گئے جس کی نشستیں برف ہو رہی تھیں۔

    ’’ضلع کے صدر مقام تک کتنے بجے پہنچے گی ٹرین؟‘‘ رافعہ نے گود میں اپنے ہاتھ چھپا کر بدن سکوڑتے ہوئے پوچھا۔

    ’’دو گھنٹے لیٹ ہے تو صبح چار ساڑھے چار بجے تک پہنچے گی‘‘ سراج نے جواب دیا۔

    تینوں داستان گو حضرات آپس میں چپک کر بیٹھ گئے تھے اور سینے پر سر ڈال کر سونے کی تیاری میں مگن تھے۔ چچا صاحب نے رافعہ کو جاڑے میں سکڑتے دیکھا تو اپنے کمبل میں اسے بھی لپیٹ لیا۔ تھوڑی دیر بعد رافعہ ان کے سینے سے اور وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹیک کر اونگھنے لگے۔ سراج کو ایسا لگا جیسے وہ اکیلا رہ گیا ہو۔ ڈبے کی مدھم روشنی میں اسے دیکھنے لائق کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ رافعہ کا آدھا سر، ہاتھ پاؤں سب کمبل میں چھپے ہوئے تھے۔ ویسے بھی رافعہ نے بند جوتے پہن رکھے تھے۔

    ’’صدر مقام ریل کے اسٹیشن سے بہت دور ہے۔‘‘ چچا صاحب جیسے اپنے آپ سے باتیں کر رہے ہوں۔

    ’’نہیں۔ بس آٹھ کلومیٹر ہے۔‘‘ رافعہ نے اونگھتے میں جواب دیا۔

    ’’آٹھ کلو میٹر کیا کم ہوتے ہیں۔ ایں رافعہ؟‘‘ سراج کو لگا جیسے بیزاری کے اندھیرے میں کہیں سے کوئی کرن آ گئی ہو۔ رافعہ کچھ لمحے چپ رہی۔ پھر اس نے ملگجے اندھیرے میں اپنا طباق سا چہرہ نکالا۔ جس نے وہ جملہ کہا تھا اسے کچھ دیر تک دیکھتی رہی۔ پھر بولی، ’’آٹھ کلومیٹر ہوں کہ اسی کلومیٹر۔ پیدل تھوڑے ہی جانا ہے۔ اسیشن سے صدر مقام تک صبح ہی صبح بسیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اسٹیشن پر سیکڑوں مسافر اترتا ہے۔ کوئی کاروبار کے کام میں، کوئی عدالت کے چکر میں، کوئی اسپتال کے لیے۔‘‘ اس کے اتنے لبے جملے پر سراج کا دل خوش ہوا۔ اسے یہ سوچ کر افسوس ہوا کہ ڈبے کے نیم تاریک ماحول میں رافعہ اس کے چہرے کی خوشی نہیں دیکھ سکتی۔

    ’’پہلی بس کتنے بجے جاتی ہے سراج؟‘‘ رافعہ نے پوچھا۔

    ’’پانچ بجے‘‘ سراج بولا۔ پھر یکایک کچھ سوچ کر اس نے بات کو آگے بڑھایا۔ بڑی بھیڑ ہوتی ہے پہلی بس پر۔ سب کو صدر مقام پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔ بس کے اتنے زیادہ اسٹاپ ہیں کہ ایک جگہ سے چلتے ہی دوسرے اسٹاپ پر رک جاتی ہے۔ ہم لوگوں کو بھی پہلی ہی بس پکڑنا ہوگی ورنہ کچہری کے کاتب لوگ بیع ناموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ پانچ پانچ چھے چھے صفحے کا ایک ایک بیعنامہ ہوتا ہے۔ کوئی کوئی تو بیس بیس صفحے کا، اگر زمین میں جھگڑے مقدمے زیادہ ہوں۔ ہم لوگ جلدی سے پہنچ کر اپنا کام اول وقت میں کرا لیں گے تاکہ چچا صاحب آرام سے دوپہر تک گھر واپس آ سکیں۔ کتنے بیمار اور کمزور ہو گئے ہیں۔‘‘ اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ جملہ ختم کرے لیکن مجبوری تھی۔ فی الحال بولنے کے لیے اس سے زیادہ کچھ تھا ہی نہیں۔

    چچا صاحب نے اس کی باتیں سن لی تھیں۔ بولے، ’’خدا کا شکر ہے کہ تم لوگوں کو میرا اتنا خیال ہے۔ ارے میاں! کیا ہمارا آرام اور کیا ہماری تکلیف۔ آج مرے کل دوسرا دن۔ بیٹا اب تو ہم پکا پتہ ہیں۔ اللہ ایمان پر خاتمہ بخیر کرے۔ مر جائیں تو اپنے کاندھوں پر لاد کر بزرگوں کی ہڑواڑ میں گاڑ آنا۔‘‘ اتنے میں گاڑی اگلے اسٹیشن پر رکی۔ یہ نسبتاً بڑا شہر تھا۔ بہت سے مسافر ڈبے میں گھس آئے، جس کا ایک فوری فائدہ یہ ہوا کہ سردی کا احساس کچھ کم ہو گیا۔ زیادہ تر جان پہچان کے لوگ تھے۔ چچا صاحب سے تقریباً ہر آدمی کی سلام دعا ہوئی۔ ہمارے چچا صاحب کتنے مقبول انسان ہیں۔ یہ اپنے مرنے کی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ اس کا دل بھر آیا۔ رافعہ نے چچا صاحب کا ہاتھ پکڑ کر روٹھے روٹھے انداز سے کہا، ’’آپ موت و زیست کی باتیں مت کیا کیجیے چچا صاحب۔ میرے دل پر چوٹ سی لگتی ہے۔‘‘

    اسے منشی نصیر الدین نے اردو اچھی پڑھائی ہے۔ سراج نے سوچا۔ کاش ابا نے ہمارے واسطے بھی ان کی ٹیوشن کرا دی ہوتی، نہیں تو ہم اور رافعہ ساتھ ساتھ بھی پڑھ سکتے تھے۔ چچا صاحب کو اپنی بھتیجی کی شفقت آمیز نصیحت بہت اچھی لگی۔ لیکن نہ جانے انہیں کس بات کا خیال آیا کہ وہ چپ سے ہوگئے۔ دیر تک سر جھکائے بیٹھے رہے۔

    ’’کس کے مرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔‘‘ وکیل رام پرشاد نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ لیجیے۔ ہمارے چچا صاحب کے مرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور یہ مسکرا رہے ہیں۔ سراج نے سوچا۔ گاڑی چل پڑی۔

    ’’نہیں۔ نہیں۔ دراصل اک عام بات کا ذکر ہو رہا تھا کہ اللہ جب سکون و اطمینان کے ساتھ ایمان پر خاتمہ کرے تو گھر کے بچے اپنے بڑوں کو اپنے کاندھے پر لے جا کر بزرگوں کے قبرستان میں دفن کر آئیں۔‘‘ چچا صاحب نے اصل واقعے سے باخبر کیا۔

    ’’ارے میاں صاحب۔ اس بات کا دھیان تو جانور تک رکھتے ہیں۔‘‘ چچا صاحب سے بھی زیادہ بوڑھے پنڈت جی بولے۔ لیکن شیئر بروکر شیام سندر نے ناگواری کے ساتھ پنڈت جی کی طرف دیکھا۔ اس کی ناگواری کا سبب صرف یہ تھا کہ وہ دل ہی دل میں کوئی پیچیدہ حساب لگا رہا تھا جس میں پنڈت جی کی آواز نے رخنہ ڈال دیا تھا۔

    ’’اس بات کے ثبوت میں آپ کوئی مثال دے سکتے ہیں؟‘‘ سراج نے پنڈت جی کی طرف ادب سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ رافعہ کچھ سوچ کر مسکرائی۔

    ’’جتنے بھلے مانس نیک و چار والے لوگ ہیں اگر یاد کریں تو انہیں میری بات کے ثبوت کے طور پر کوئی نہ کوئی واقعہ یاد آ جائےگا۔‘‘ پنڈت جی نے اپنی مشکل آسان کرلی۔ سب لوگ اندر ہی اندر سنبھل کر بیٹھ گئے کیوں کہ اب وہ بھلے مانس نیک و چار والے لوگ تھے۔ ان تینوں کی نیند بھی اس نئے چیلنج کو سن کر ٹوٹ گئی تھی۔ وہ لوگ جلدی جلدی پلکیں مار مار کر نیند کو بھگانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کا ذہن بہت تیزی سے کام کر رہا تھا۔ لیکن جانوروں کے میدان کا انہیں کوئی خاص تجربہ نہیں تھا۔ زبیر، عامر اور سلیمان جان توڑ کوشش کرنے لگے کہ انہیں کوئی ایسا واقعہ یاد آ جائے۔ سچ مچ کا واقعہ نہیں بھی یاد آئے تو کوئی بات نہیں، بس ذرا سا سرا مل جائے۔ آج تو مشق بھی اچھی کی تھی۔ لیکن اس وقت قسمت مہربان نہیں تھی۔ زبیر کو جب کوئی واقعہ یاد نہیں آیا تو اسے کچھ اور یاد آگیا۔ اس نے اپنے پاس بیٹھے عامر سے دھیمے سے پوچھا، ’’چچا صاحب کے پاس کیش کتنا ہوگا؟‘‘

    ’’کیش تو تھوڑا ہی رکھتے ہوں گے۔ بینک میں البتہ ایف ڈی آر کافی ہیں۔‘‘

    ’’اماں اسے بھی کیش ہی سمجھا کرو عامر۔‘‘

    شیام سندر نے صرف ایف ڈی آر کا لفظ سنا۔ ’’بینک میں ایف ڈی آر رکھنے سے کیا فائدہ۔ آج کل تو جو پیسہ ہو، اس کے شیئر خرید لینا چاہیے۔ اس وقت شیئر بازار کا انڈیکس خوب اونچائی پر ہے۔‘‘ تبھی ایک دراز قد آدمی، جو اب تک چپ چاپ بیٹھا تھا، بولا، ’’میں نے تو تنزانیہ میں جتنا پیسہ کمایا اس کا آدھا ہندوستان کے شیئروں میں لگایا۔ پر زیادہ تر شیئر ڈوب گئے۔ نقصان ہی نقصان اٹھایا۔‘‘

    ’’آپ کو۔۔۔‘‘ شیام سندر چہک کر بولے، ’’آپ کو ڈھنگ کا مشورہ دینے والا کوئی نہیں ملا ہوگا۔ بس اخبار میں شیئروں کی خبریں پڑھ پڑھ کر چیک کاٹتے رہے ہوں گے۔‘‘

    ’’ہاں۔ کرتا تو ایسے ہی تھا۔‘‘ دراز قد آدمی ایسی شرمندگی سے بولا جیسےمجرم اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہیں۔ شیام سندر نے اس سے ہاتھ ملا کر اپنا تعارف کراتے اسے اپنا کارڈ پیش کیا۔

    ’’چیونٹیوں والا واقعہ تو میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔‘‘ ایک جوان عمر عورت جو غالباً اپنی ماں یا ساس کے ساتھ سفر کر رہی تھی، بیچ میں بول پڑی۔ اس کی آنکھیں واقعہ سنانے کے شوق میں چمکنے لگی تھیں۔

    ’’بہن جی! ذرا رکیے میں بھائی صاحب کو شیئر بازار کی پوزیشن سمجھا دوں۔‘‘ شیام سندر بہت بے صبری سے بولے۔ سراج اور رافعہ جو چیونٹیوں والے واقعے کا ذکر سن کر بےحد مشتاق ہو گئے تھے، سرد پڑگئے۔ لیکن شیام سندر کی باتوں میں بھی دل لگتا تھا۔ شیام سندر کو افریقہ کی کمائی کا نصف بہتر، جو ابھی تک شیئر بازار میں نہیں لگا تھا، اپنے اکاؤنٹ میں داخل ہوتا ہوا صاف نظر آ رہا تھا۔ اتنے مختصر سے وقت میں وہ ایک طویل تقریر تیار کر چکے تھے۔

    ’’ایسا ہے بندھو کہ اخبار اور میگزین سب تھیوری پر چلتے ہیں۔ اور شیئر بازار کا کھیل ہے تجربے اور عقل کا۔ کمپنی کی پوزیشن اور ہوتی ہے اور شیئر کی قیمت اور مثال کے طور پر ٹاٹا کمپنی بڑی کمپنی ہے پر آج کل اس کے شیئر زمین سے آن لگے ہیں۔‘‘

    ’’ٹاٹا کوئی ایک کمپنی کا نام ہے کیا؟‘‘ رافعہ کو جنرل نالج کی کتاب یاد آئی۔

    ’’تم نے پوری بات تو سنی ہی نہیں اور بیچ میں پٹ سے بول دیں۔ محاورے میں ایسے ہی بولا جاتا ہے۔ ٹاٹا کی کمپنی۔ برلا کی کمپنی۔ میرا مطلب اصل میں ٹیلکو سے تھا۔‘‘

    ’’ٹیلکو۔۔۔ جو ٹرک بناتی ہے۔‘‘ سراج بولا۔

    ’’ہاں بیٹا شاباش۔‘‘ شیام سندر کی آنکھیں چمکیں۔ لیکن سراج کو ان کی شاباشی سے بہت زیادہ خوشی نہیں ہوئی کہ انہوں نے رافعہ کو بہت بری طرح جھڑکا تھا۔ اس نے رافعہ کی طرف دیکھا۔ اسے حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ رافعہ کے چہرے پر اس بات کا کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ توجہ سے سننے کے لیے شیام سندرکی طرف ایک ٹک دیکھ رہی تھی۔

    ’’تو اتنی بڑی کمپنی ہونے کے باوجود اس کے شیئر کے دام کیوں گھٹے۔ اب افریقہ میں بیٹھ کر تو آپ یہی سمجھوگے نا کہ ٹاٹا بہت مہان کمپنی ہے۔ اس کے مالک کو بھارت رتن ملا تھا۔ فولاد کا کتنا بڑا کارخانہ ہے جمشید پور میں۔ پر حقیقت کچھ اور کہتی ہے۔ آج کل کاروبار میں ہر طرف مندا ہے جس کا اثر ہر تجارت پر ہے۔ تو جب تجارت اور لین دین کم ہوگا۔ ایک شہر سے دوسرے شہر مال کم جائےگا تو ٹرانسپورٹ کا کام کرنے والے نقصان اٹھائیں گے۔ وہ نقصان اٹھائیں گے تو نئے ٹرک کیوں خریدیں گے۔ جب نئے ٹرک نہیں خریدیں گے تو ٹیلکو کے بنائے ہوئے ٹرک یارڈ میں کھڑے کھڑے زنگ کھا جائیں گے اور ٹیلکو کے شیئر کا بھاؤ آپ ہی آپ زمین پر آ جائےگا۔‘‘ وہ فاتحانہ نظروں سے سب کی طرف دیکھنے لگا۔ سارے لوگ اس کی معلومات سے متاثر نظر آ رہے تھے۔ چچا صاحب کیوں کہ اونگھ رہے تھے اس لیے بچ گئے۔

    ’’ایک بات اور بتاؤں۔ بہت ہی خاص۔۔۔‘‘ اس نے تجربے کے بعد اب معلومات کا ہتھیار اٹھایا، ’’زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹاٹا ہی سب سے زیادہ اور سب سے اچھے ٹرک بناتا ہے۔ نہیں صاحب بالکل نہیں۔ تھیوری اور ہے اور اصل حقیقت کچھ اور۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ سب سے زیادہ ٹرک اور سب سے اچھے ٹرک کون بناتا ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ اس کمپنی کا نام ہے لی لینڈ۔۔۔ اشوکا لی لینڈ۔ آپ پوچھیں گے کہ ایسا کیوں۔ پوچھئے ایسا کیوں؟‘‘

    ’’ایسا کیوں؟‘‘ دراز قد آدمی کے علاوہ بھی کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ ہپناٹائز ہونے والوں کی تعداد ایک سے زیادہ تھی۔

    ’’ایسا اس لیے کہ ٹاٹا کے پاس بہت سے پراجیکٹ ہیں۔ سب پر برابر کا دھیان دینا مشکل ہے۔ پھر کوئی بال بچہ تو ہے نہیں ان کے۔ پارسی لوگ ایک تو شادی ہی کم کرتے ہیں۔ کر بھی لیں تو بچے بہت کم ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’یہ کمیونٹی بھی دھیرے دھیرے ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ چچا صاحب جو جاگ گئے تھے، دھیمے سے بولے اور پھر کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے، ’’ختم ہوتی جارہی ہے۔‘‘ وہ آہستہ سے پھر بولے جیسے اپنے آپ سے باتیں کر رہے ہوں۔

    ’’ہاں! لیکن ہے بہت ایمان دار قوم۔ پر خالی ایمان دھرم سے کاروبار میں کام نہیں بنتا۔ پریکٹکل وزڈم بھی بہت آوشیک چیز ہے۔ ادھر اشوک لی لینڈ والے پکے مارواڑی۔ دنیا دیکھے ہوئے۔ پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے روپے کا ٹھناکا سنتے ہیں۔ انہوں نے ٹرک بنانے پر خاص زور دیا اور اسے اپنی عزت سے جوڑ دیا۔ سڑکوں پر آدھے سے زیادہ ٹرک اشوکا لی لینڈ کے ہیں بھائی صاحب۔‘‘ وہ شیئر بازار کی اونچ نیچ، موجودہ صورت حال اور مستقبل کے خوش آیند معاملات کےبارے میں گفتگو کرتا رہا۔ سراج اب بیزار ہو چکا تھا اور اس جوان عورت کو دیکھے جارہا تھا جسے چیونٹیوں والا واقعہ سنانا تھا۔ وہ اسے اتنی دیر سے دیکھ رہا تھا کہ جب اس کی نظریں رافعہ سے ملیں تب ڈھنگ سے ہڑبڑا پایا۔ لیکن وکیل صاحب نے اس کی مدد کی جو خود یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ شیئر بروکر کی باتیں قابل برداشت حدود میں ہیں یا حدود سے تجاوز ہو چکا ہے۔

    ’’بہن جی! آپ کچھ چیونٹیوں والی بات بتا رہی تھیں۔‘‘

    ’’جی ہاں!‘‘ جوان عورت نے شال اچھی طرح لپیٹتے ہوئے کہا۔ اس نے اپنے برابر بیٹھی بوڑھی عورت کو اپنے ایک ہاتھ کے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ گاڑی ایک اور اسٹیشن پر رک گئی تھی۔

    ’’پچھلے مہینے ڈائننگ ٹیبل پر میں نے بہت سی چیونٹیاں دیکھیں۔ مجھے اچرج ہوا کہ اتنی چیونٹیاں کیوں جمع ہیں۔ میں نے خوب غور سے دیکھا۔ ایک چیونٹی مری پڑی تھی۔ باقی سب چیونٹیاں اس کے پاس آ رہی تھیں، رک رہی تھیں، آگے بڑھ رہی تھیں۔ پھر واپس ہو رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب چیونٹیاں اس مری ہوئی چیونٹی کو اٹھا کر لائن بنا کر کہیں چلی گئیں۔ سب کی سب اس مری ہوئی چیونٹی کے ساتھ چلی گئیں۔‘‘ وہ خاموش ہو گئی۔ گاڑی چل پڑی۔

    سراج نے دیکھا اس واقعے کے ذکر سے چچا کے چہرے پر شادابی آ گئی ہے۔ کیا انہیں بھی ایسا کوئی واقعہ یاد ہے، لیکن چچا صاحب اپنے جذبوں کا بےمحابہ اظہار کبھی نہیں کرتے، اس نے سوچا۔ شیام سندر اب کمپیوٹر کمپنیوں کے شیئر کا ذکر نہایت سنجیدگی سے کر رہے تھے۔ سراج کو خواہ مخواہ ان کی باتوں میں دلچسپی دکھانی پڑی کیوں کہ رافعہ ان کی باتیں بہت توجہ سے سن رہی تھی۔

    ’’ہم چھوٹے شہروں میں رہنے والےابھی کمپیوٹر کو ٹھیک سے سمجھے نہیں ہیں۔ بڑے شہروں میں رہنے والے مڈل کلاس لوگ جو خود کو بہت انٹلکچول سمجھتے ہیں، کمپیوٹر کے بارے میں بہت کنفیوژڈ ہیں۔ اخباروں پر وہی حاوی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کمپیوٹر نے پڑوس کا رشتہ ختم کر دیا۔ کمپیوٹر نے رشتے ناطے داری کے سمبندھ توڑ دیے۔ بچوں کی آنکھیں خراب کر دیں۔ بہت ساری نالج ایک دم سے دماغ میں بھر دی۔ ارے بھائی کوئی ان سے پوچھے کہ کیا کمپیوٹر آپ کے پاس خوشامد کرنے گیا تھا کہ اس سے کیول یہی کام لیے جائیں۔ کمپیوٹر سے جو فائدے ہوئے ہیں ان کا ذکر لوگ نہیں کرتے۔ میڈیکل سائنس کی ترقی دیکھو، انفارمیشن ٹکنالوجی کی ترقی دیکھو۔ یاتایات کی سودھائیں دیکھو۔ کمپیوٹر نے کتنے کاموں کو ہلکا کر دیا۔ لوگ کچھ بھی سوچیں، کمپیوٹر کی ترقی نہیں رک سکتی کیوں کہ یہ جیون کے ہر میدان میں کام آنے والی چیز ہے۔ آپ تو بھائی صاحب آنکھیں بند کر کے کمپیوٹر کمپنیوں کے شیئر خرید لیجیے۔ میں آپ کو کل ہی فارم بھیجوں گا۔‘‘ دراز قد آدمی نے ہامی بھرلی۔ سراج سوچتا ہی رہ گیا کہ شیام سندر کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن میں کچھ کچھ خود بھی کنفیوژ ہیں۔

    ’’جانوروں والی بات پر مجھے ایک کتے کا واقعہ یاد آ گیا۔‘‘ ایک ادھیڑ عمر آدمی بولا جو اب تک خاموش بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا۔ زبیر، عامر اور سلیمان نے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا۔ لوگ ہیں کہ انہیں واقعے پر واقعے یاد آ رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ خاموش بیٹھے جھک مار رہے ہیں۔

    ’’میں اپنے دوست کی کار میں ہائی وے پر جا رہا تھا۔ سامنے ایک بھورا کتا آ گیا۔ دوست نے ہارن دیا تو وہ چونک کر سیدھے ہاتھ کی طرف بھاگا اور سامنے سے آنے والی کار سے کچل گیا۔ وہیں سڑک پر لیٹے لیٹے پھڑکا اور مر گیا۔ ہم نے دیکھا وہیں کہیں سے ایک کالا کتا آیا۔ اس نے بےچینی سے اس مرتے ہوئے کتے کو بار بار سونگھا۔ ایک طرف کو چلا، پھر واپس لوٹا اور پھر اسے سونگھا، بار بار جاتا تھا اور واپس لوٹ آتا تھا۔ اس بیچ کالے کتے کی دم اکڑ کر بالکل سیدھی ہو گئی تھی۔ جب اسے بالکل یقین ہو گیا کہ بھورا کتا مر چکا ہے تو اس نے دھیرے دھیرے اپنی دم نیچے کی اور دیر تک وہیں سڑک کے کنارے سر جھکائے کھڑا رہا۔‘‘ سراج کو یہ واقعہ بہت اچھا لگا۔ اسے لگا جیسے اس کی آنکھیں کیمرہ بن گئی ہیں جو کلک۔ کلک، کر کے بھورے اور کالے کتے کا فوٹو لے رہی ہیں۔

    رافعہ چچا صاحب کے سینے سے الگ ہوکر اب سیدھی بیٹھ گئی تھی۔ چچا صاحب ساکت بیٹھے رہے۔ گاڑی اب یکساں رفتار سے چل رہی تھی۔ دو اسٹیشنوں کے بعد منزلِ مقصود تھی۔ اب پنڈت جی بہت دیر کے بعد بولے، ’’دیکھا آپ نے بھلے مانس اچھے وچار والے لوگ اگر یاد کرنا چاہیں تو انہیں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ یاد آہی جاتی ہے۔‘‘ وہ تینوں پھر کلبلائے۔ اس سے پیشتر کہ شیام سندر شیئر بازار کی بات پھر شروع کر دیں، عامر گویا ہوا، ’’ہم دسویں کلاس تک چھوٹے چچا کے ساتھ جاڑوں کے شکار میں ضرور جاتے تھے۔ اس سال برسات میں بارش کم ہوئی تھی۔ تالاب خشک تھے۔ کہیں کہیں بیچ میں پانی بھرا ہوتا تھا۔ اس سال سرمائی پرندے بھی کم آئے تھے۔ جوتھے بھی وہ ہمیں آتا دیکھ کر ہوشیار ہو جاتے تھے۔ ’قائیں قائیں‘ کی آوازیں نکال کر ایک ساتھ بھرا مار کر اٹھ جاتے تھے اور تالاب کے گرد دو چکر لگا کر دور کے کسی تالاب کے لیے اڑ جاتے تھے۔ میں نے ہر بار گنا، وہ لمبی اڑان بھرنے سے پہلے تالاب کے دو چکر ضرور لگاتے تھے۔ اس دن ہم جس تالاب پر گئے اس کے چاروں طرف جھاڑیاں تھیں۔ آڑ میں ہم لوگ آگے بڑھے۔ جب چڑیا رینج میں آ گئی تو فایر ہوا۔ تھوڑے سے ہی پرندے تھے۔ ان میں دو چار زخمی ہو کر تالاب کی سطح پر پھڑکنے لگے۔ باقی پرندے بھرا مار کر اٹھے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میں نے خود گنا کہ اس دن اپنے ساتھیوں کو زخمی یا مردہ دیکھ کر ان پرندوں نے دو نہیں پورے تین چکر لگائے تھے۔‘‘

    سراج اور رافعہ نے عامر کی طرف تعریفی نظروں سے دیکھا۔ چچا صاحب نیم تاریکی میں آنکھیں پھاڑے خاموش بیٹھے رہے۔ جوان عورت اور ادھیڑ آدمی بھی مطمئن نظر آئے جیسے عامر کے بتائے ہوئے واقعے سے ان کے واقعے کی بھی تصدیق ہوگئی ہو۔ شیام سندر کو بھی یہ واقعہ دلچسپ لگا۔ وہ دیر تک سرمائی پرندوں کی مختلف اقسام کے بارے میں عامر سے بات کرتے رہے۔ اسی دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ پرندے زیادہ تر روس کی طرف سےآتے ہیں اور روس کے تعاون والی کمپنیوں کے شیئر میں پیسہ لگانا بالکل حماقت کا کام ہے کیوں کہ روس معاشی میدان میں بالکل پٹ چکا ہے۔

    اگلے ہی اسٹیشن پر اترنا تھا۔ تب افریقہ میں کاروبار کرنے والے دراز قد آدمی نے سر اٹھا کر سب کو باری باری دیکھا۔ یہ سردیوں کا زمانہ تھا، اس لیے باہر ابھی بھی اندھیرا تھا۔ دراز قد آدمی کچھ بولنا چاہتا تھا۔ سراج پر بے دلی چھائی ہوئی تھی۔ رافعہ بھی خاموش بیٹھی اپنے عم زادوں کو دیکھتی رہی۔ جوان عورت نے اونگھتی ہوئی بوڑھی عورت کے سر کو پہلے تو کندھے سے لگایا پھر جگہ بناکر اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا اور اسے بچوں کی طرح تھپکیاں دینے لگی۔ چچا صاحب نے ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر آنکھیں بند کر کے سوچا کہ بوڑھی عورت یقیناً اس جوان عورت کی ماں ہے، یا یہ جوان عورت اس بوڑھی عورت کی اولاد ہے۔ مگر ان دونوں باتوں میں فرق کیا ہے۔ چچا صاحب آنکھیں بند کیے دیر تک سوچتے رہے۔ سب باتیں کرتے کرتے اور باتیں سنتے سنتے تھک سے گئے تھے کہ اسی وقت دراز قد آدمی نے کہنا شروع کیا۔ اس کی آواز بھاری اور افسردہ تھی۔

    ’’میں افریقہ کے ساؤتھ کے جنگلوں میں سفاری پر گیا تھا۔ وہاں گھنے لیکن نیچےنیچے درختوں اور جھاڑیوں کے جنگل میں ہم لوگ رکے تھے۔ گائیڈ نے بتایا کہ سامنے جو ہاتھیوں کا جھنڈ آ رہا ہے، یہ موسمی ہجرت کے بعد واپسی کے سفر پر ہے۔ ہم نے دیکھا جھنڈ میں بہت سے ہاتھی تھے۔ ان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے، جو کبھی دوڑ کر آگے نکل جاتے تو بڑی بڑی مادائیں سونڈ سے ان کے کان پکڑ کر کھینچ کر لے آتیں۔ ہاتھیوں نے بدن پر گیلی گیلی مٹی جما رکھی تھی۔ گائیڈ نے ہی ہمیں بتایا کہ گیلی گیلی مٹی جما کر ہاتھی اپنے بدن کا ٹمپریچر درست رکھتے ہیں۔ ہاتھیوں کا راستہ جنگل میں مقرر ہوتا ہے۔ ٹوٹی ہوئی ٹہنیوں اور کچلی ہوئی گھاس کو دیکھ کر وہاں کا بچہ بھی بتا دیتا ہے کہ یہ ہاتھیوں کی گزرگاہ ہے۔

    ہم اس گزرگاہ سے پچاس قدم کے فاصلے پر کھڑے تھے۔ ہم لوگ خاموش تھے اور ہوا کا رخ ہماری ہی جانب تھا، اس لیے ہاتھیوں کو ہماری موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔ وہ ہمیں اتنی دور سے دیکھ بھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ ان کی نگاہ کمزور ہوتی ہے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ گزرگاہ کے پاس ایک ہاتھی کے سر اور ٹانگوں کی بڑی بڑی سفید ہڈیاں پڑی ہیں۔ دو بڑی مادائیں جھنڈ سے الگ ہوکر ان ہڈیوں کے پاس گئیں۔ اپنی اگلی بھاری ٹانگوں سے ان ہڈیوں کو ہولے ہولے چھوا۔ دیر تک ان ہڈیوں پر اپنی سونڈ رکھے رہیں۔ وہ ہمیں نہیں دیکھ سکتی تھیں لیکن ہم نے انہیں دیکھا اور مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ان کی چھوٹی چھوٹی دھندھلی دھندلی آنکھوں سے آنسوؤں کی لکیر سی بہہ رہی تھی۔ جتنے عرصے تک ان ماداؤں کی سونڈ ان ہڈیوں پر رکھی رہی، ان کے بدن اندر کے دکھ کی طاقت سے زور زور سے کانپتے رہے اور وہ منہ سے ایک ایسی آواز نکالتی رہیں جو سنائی تو نہیں دیتی تھی لیکن اس کے ارتعاش سے جنگل کے تمام درخت کانپتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔‘‘

    دراز قد آدمی خاموش ہو گیا۔ رافعہ نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔ جوان عورت نے بوڑھی عورت کو اور زیادہ شدت کے ساتھ اپنے بدن سے لپٹا لیا تھا۔ چچا صاحب نے رافعہ کے شانے پر اپنا کانپتا ہوا ہاتھ رکھ دیا تھا۔ شیام سندر شیئر بروکر کچھ افسردہ افسردہ سے ہوگئے تھے کیوں کہ اب وہ پہلے جیسے بلند لہجے میں نہیں بلکہ دھیمی دھیمی آواز میں سب کو بتا رہے تھے کہ ہاتھیوں کے دانت کی صنعت دنیا بھر میں اب تباہی کی کگار پر ہے۔ افریقی ممالک میں بھی دھیرے دھیرے جنگلی جانوروں کے تحفظ کا شعور عام ہو رہا ہے۔ ہاتھی دانت کی صنعت کے شیئر میں عقلمند آدمی کو پیسہ نیں لگانا چاہیے۔ بوتسوانا میں ہاتھیوں کی تعداد اس تعداد سے کہیں زیادہ ہے جتنی فطری طور پر ہونا چاہئے۔ عام طور پر کسی جنگل کی صحیح نشوونما اور ترقی کا اندازہ ہاتھیوں کی تعداد سے لگایا جاتا ہے لیکن بوتسوانا کے معاملے میں یہ فارمولا غلط ثابت ہو چکا ہے۔ در اصل وہاں کے دیہی عوام اور کاشتکاری کا تعلق۔۔۔ جنگل میں سرمایہ کاری اور حکومت کی پالیسی اور کچھ۔۔۔ سماجی پیچیدگیاں۔۔۔ اور۔۔۔

    گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رکی۔ اسٹیشن آ چکا تھا۔ پانچ بجنے ہی والے تھے۔ سب لوگ تیزی سے نیچے اترے۔ اسٹیشن کے باہر بس کھڑی تھی جو لگ بھگ بھر چکی تھی۔ یہ صبح کاذب کا وقت تھا۔ اسٹیشن کی عمارت، سڑک اور بس اور مسافر سب دھندلے دھندلے نظر آ رہے تھے۔ عامر، سلیمان اور زبیر دوڑ کر بس میں بیٹھ کر جگہ بنا چکے تھے۔ اس ڈبے کے باقی مسافر تیزی سے بس کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اسی وقت مخالف سمت سے آتا ہوا ایک ٹرک سڑک پار کرتے ہوئے ایک شخص کو کچلتا ہوا نکل گیا۔ سڑک پر موٹی موٹی سرخ لکیریں دور تک کھنچتی چلی گئی تھیں۔ خون میں لت پت وہ شخص سڑک پر پھڑکا اور ساکت ہو گیا۔ ٹرک رکا نہیں تھا۔ کنڈکٹر نے سیٹی بجائی۔ بس آگے بڑھی۔ چچا صاحب اندر داخل ہو چکے تھے۔ رافعہ اور سراج بھی بھیڑ کے دھکے سے اندر پہنچ گئے تھے۔ پیچھے شیام سندر تھے اور آگے چچا صاحب۔

    ’’سراج! سراج! وہ کون تھا؟‘‘ رافعہ نے سراج کے کندھے پر ماتھا ٹیک کر پوچھا۔ اسے متلی سی محسوس ہو رہی تھی اورآنکھیں دھندلی ہو گئی تھیں۔

    ’’میں اسے نہیں پہچانتا رافعہ۔‘‘ سراج نے رافعہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر دھیمے سے کہا اور اس کی آنکھوں میں غور سے جھانکا، ’’میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’لیکن میں اسے خوب پہچانتا ہوں‘‘ شیام سندر نے کہنا شروع کیا۔

    ’’حالانکہ اندھیرا تھا۔ میں ٹھیک سے دیکھ نہیں سکا۔ لیکن معلومات اور تجربے سے بھی انسان بہت کچھ جان سکتا ہے۔ میرے لیے یہ بتانا مشکل نہیں ہے کہ وہ ٹرک یا تو اشوک لی لینڈ کمپنی کا تھا یا پھر ٹاٹا کمپنی کا۔‘‘ تب بوڑھے نے کمبل اور بریف کیس فرش پر ڈال کر کانپتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے اور آنکھوں کو چھپا لیا۔ سب مسافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جب انہوں نے بہت واضح انداز میں محسوس کیا کہ بوڑھے کے سینے سے ابلنے والی آوازیں سنائی تو نہیں دیتی تھیں لیکن ان آوازوں کا ارتعاش اتنا زبردست تھا کہ دوڑتی ہوئی بس کا ایک ایک حصہ کانپنے لگا تھا۔

    مأخذ:

    باد صبا کا انتظار (Pg. 90)

    • مصنف: سید محمد اشرف
      • ناشر: اطہر عزیز
      • سن اشاعت: 2000

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے