Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آلھا

پریم چند

آلھا

پریم چند

MORE BYپریم چند

    آلھاکانام کس نے نہ سناہوگا۔ زمانہ قدیم کے چندیل راجپوتوں میں شجاعت، اور سرفروشانہ اطاعت گزاری کے لئے کسی راجہ مہاراجہ کوبھی یہ شہرتِ دوام حاصل نہیں ہے۔ راجپوتوں کے قانونِ اخلاق میں صرف شجاعت ہی نہیں داخل تھی، بلکہ اپنے آقا اوراپنے راجہ کے لئے اپنی جان دے دینابھی اس کا ایک رکن تھا۔ آلھا اور اودل کی زندگی اس کی بہترین مثال ہے۔

    سچا راجپوت کیاہوتا تھا اور اسے کیا ہوناچاہئے۔ اسے جس خوبصورتی سے ان دونوں بھائیوں نے دکھایاہے۔ اس کی نظیر ہندوستان میں کسی بھی دوسرے خطے میں مشکل سے مل سکے گی۔ آلھا اور اودل کے معرکے اوران کے کارنامے ایک چندیلی شاعر نے شاید انہیں کی زمانہ میں گائے اور اس نظم کوعوام میں جومقبولیت اس صوبہ میں حاصل ہے وہ شایدرامائن کوبھی نہ ہو۔

    یہ نظم آلھا ہی کے نام سے مشہور ہے۔ اور باوجود آٹھ نوصدیاں گزرجانے کے اس کی دلچسپی اور ہردلعزیزی میں فرق نہیں آیا۔ آلھا گانے کا اس صوبہ میں بڑا رواج ہے۔ دیہات میں لوگ ہزاروں کی تعدادمیں آلھا سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ شہروں میں بھی کبھی کبھی یہ مجلسیں نظرآجاتی ہیں۔ خاص کی نسبت، عام میں یہ قصہ زیادہ مقبول ہے۔ کسی مجلس میں جائیے ہزاروں آدمی فرش زمین پربیٹھے ہوئے ہیں۔ ساری محفل پر محویت کا عالم طاری ہے اور آلھا گانے والا کسی مونڈھے پربیٹھا ہوا اپنی الاپ سنارہاہے۔ اس کی آواز حسبِ ضرورت کبھی اونچی ہوجاتی ہے کبھی مدھم۔ مگرجب وہ کسی لڑائی اوراس کی تیاریوں کاذکر کرنے لگتا ہے تو الفاظ کی روانی، اس کے ہاتھوں اورابرؤں کے اشارے، ڈھول کی مردانہ لے اور ان دلیرانہ الفاظ کی نشست جوکچھ رزمیہ نظموں ہی کے لئے مخصوص ہیں، سامعین کے دلوں میں مردانہ جوش کی ایک امنگ سی پیدا کردیتے ہیں۔ طرزِبیان ایسا سادہ اور دلچسپ اورزبان ایسی عام فہم ہے کہ اس کے سمجھنے میں ذرابھی دقت نہیں ہوتی۔ بیان اورجذبات کی سادگی حسنِ قبول کی جان ہے۔

    راجہ پرمال دیو، چندیل خاندان کاآخری راجہ تھا۔ تیرہویں صدی کے آغاز نے اس خاندان کا خاتمہ کردیا۔ مہوباجوایک معمولی قصبہ ہے اس زمانہ میں چندیلوں کاپایہ تخت تھا۔ قلمرومہوبا دہلی اور قنوج سے آنکھیں ملاتی تھی۔ آلھا اور اودل اسی راجہ پرمال دیو کے اعیانِ دربارتھے۔ یہ دونوں بھائی ابھی بچے ہی تھے کہ ان کا باپ جراج ایک لڑائی میں ماراگیا۔ راجہ کویتیموں پرترس آیا۔ انہیں راج محل میں لے آئیا اور بیوہ کوبچوں کے ساتھ اپنی رانی ملہناکے سپرد کردیا۔ رانی نے ان دونوں بھائیوں کی پرورش اورپرداخت اپنےلڑکوں کی طرح کی۔ جوان ہوکر یہی دونوں بھائی بہادری میں شہرہ آفاق ہوئے انہیں دلاوروں کے کارناموں نے مہوباکانام روشن کردیاہے،

    بڑے لڑیا مہوبے دارے

    جن کے بل کو وار نہ پار

    آلھا اوراودل راجہ پرمال دیوپرجان قربان کے لئے ہمیشہ تیاررہتے تھے۔ رانی ملہنا نے انہیں پالا۔ ان کی شادیاں کیں۔ انہیں گودمیں کھلایا۔ حق نمک کے ساتھ ان احسانات اورتعلقات نے دونوں بھائیوں کوچندیل راج کاجان نثار محافظ اور راجہ پرمال کاوفادار اوراطاعت گزار خادم بنادیاتھا۔ ان کی جانبازیوں کی بدولت قرب وجوار کے صدہا خودسرفرمانروا چندیلوں کے ہواخواہ بن گئے۔ قلمرومہوباکے حدود دریاکے سیلاب کی طرح بڑھے۔ اورچندیلوں کااقتدار ہال سے بدرہوا۔ یہ دونوں دلاور کبھی چین سے نہ بیٹھتے تھے۔ میدان آرائیوں کی انہیں دھن تھی۔ سکھ سیج پرنیند نہ آتی تھی۔ اوروہ زمانہ بھی ایسا ہی پرآشوب تھا۔ اس زمانے میں چین سے بیٹھنا دنیاکےپردہ سے مٹ جاناتھا۔ بات بات پر تلواریں چلتیں اورخون کی ندیاں بہتی تھیں۔ حتی کہ شادیاں خونریزلڑائیوں کے مترادف ہوگئی تھیں۔ لڑکی پیدا ہوئی اور شامت آگئی۔ ہزاروں سپاہیوں سرداروں اورعزیزوں کے خون جہیزمیں دینے پڑتے تھے۔ آلھا اور اودل اس پرشور زمانہ کی سچی تصویریں ہیں۔ اورگو ایسے حالات وزمانہ کے ساتھ جواخلاقی کمزوریاں اورناہمواریاں مخصوص ہوتی ہیں ان کےاثر سے وہ محفوظ نہیں ہیں۔ مگران کی لغزشیں ان کا تصور نہیں، بلکہ ان کے زمانہ کے قصورہیں۔

    آلھاکامامون ماہل ایک سیہ باطن، کینہ ورآدمی تھا۔ ان دونوں بھائیوں کی حشمت اور ثروت اس کے پیرمیں کانٹے کی طرح کھٹکاکرتی تھی۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی آرزویہ تھی کہ ان کے عروج کوخاک میں ملادے۔ اسی کارِخیر کے لئے اس نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ سیکڑوں وارکئے۔ سیکڑوں بارآگ لگائی۔ یہاں تک کہ بالآخر اس کی نشہ خیزسرگوشیوں نے راجہ پرمال کومتوالاکردیا۔ لوہا بھی پانی سے کٹ جاتاہے۔

    ایک روزراجہ پرمال دریامیں تنہابیٹھے ہوئے تھے کہ ماہل آیا۔ راجہ نے اسے مغموم دیکھ کرپوچھا، ’’بھیاتمہارا چہرہ کچھ اترہواہے خیرت توہے۔‘‘ ماہل کی آنکھیں آبگوں ہوگئیں۔ مکار آدمی کواپنے جذبات پرجوقدرت ہوتی ہے وہ کسی درویش کامل کوبھی مشکل سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کا دل روتا ہے مگرہونٹ ہنستے ہیں۔ دل مسرت کے مزے لیتاہے مگرآنکھیں روتی ہیں۔ دل حسد کی آگ سے جلتاہے، مگر زبان سے قندوشکرکی ندیاں بہتی ہیں۔ ماہل بولا، ’’مہاراج آپ کے زیرِسایہ رہ کرمجھے دنیا میں اب کسی چیزکی تمناباقی نہیں۔ مگرجن لوگوں کو آپ نے خاک سے اٹھاکرآسمان پرپہنچادیا۔ اورجوآپ کی عنایتوں کی بدولت آج صاحبِ جاہ وحشم بن گئے۔ ان کی احسان فراموشی اورفتنہ انگیزی میرے لئے سوہان روح ہورہی ہے۔‘‘

    پرمال نے متعجب ہوکرپوچھا، ’’کیا میرے نمک خواروں میں ایسے لوگ بھی ہیں؟‘‘

    ماہل: ’’مہاراج میں کچھ عرض نہیں کرسکتا، آپ کا دل لطف وکرم کادریاہے مگراس میں ایک خونخوار نہنگ آگھسا ہے۔‘‘

    ’’وہ کون ہے۔‘‘

    ’’میں‘‘

    راجہ نے متحیرہوکرکہا، ’’تم!‘‘

    ماہل: ’’ہاں مہاراج!وہ بدقسمت شخص میں ہی ہوں۔ میں آج خود اپنی فریادلے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہواہوں۔ اپنے عزیزوں کے ساتھ میرا جوفرض ہے۔ وہ اس عقیدت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ جومجھے آپ کی ذات پاک سے ہے۔ آلھا میرالختِ جگرہے۔ اس کا گوشت میراگوشت اوراس کا خون میراخون۔ مگراپنے بدن میں جومرض پیدا ہوجاتا ہے اسے مجبورا حکیم سے کہناپڑتا ہے۔ آلھاثروت کے نشہ میں مخمورہورہاہے۔ اس کے دل میں یہ خیال ِخام پیدا ہوگیا ہے کہ میرے ہی قوتِ بازو سے یہ راج قائم ہے۔‘‘

    راجہ پرمال کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ بولا، ’’آلھا کومیں نے ہمیشہ اپنالڑکا سمجھا ہے۔‘‘

    ماہل: ’’لڑکے سے زیادہ۔‘‘

    پرمال: ’’وہ یتیم تھا۔ بیکس تھا۔ میں نے اس کی پرورش کی، اسے گودمیں کھلایا۔ میں نے اسے جاگیریں دیں۔ اسے اپنی فوج کا سپہ سالار بنایا۔ اس کی شادی میں میں نے بیس ہزار چندیل سورماؤں کاخون بہادیا۔ اس کی ماں اورمیری ملہنا برسوں گلے مل کر سوئی ہیں۔ وہ آلھا کیا میرے احسانات بھول سکتاہے۔ ماہل مجھے تمہاری بات پراعتبار نہیں آتا۔‘‘

    ماہل کا چہرہ زردہوگیا۔ مگرسنبھل کربولا، ’’مہاراج! میری زبان سے کبھی جھوٹ بات نہیں نکلی۔‘‘

    پرمال: ’’مجھے کیوں کریقین آئے۔‘‘

    ماہل نے آہستہ سے راجہ کے کان میں کچھ کہہ دیا۔

    آلھا اور اودل دونوں چوگان بازی کی مشق کررہے تھے۔ وسیع میدان میں ہزاروں آدمی محوِتماشاتھے۔ گیندکسی نامراد قسمت کی طرح ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتاپھرتاتھا۔ چوبدارنے اطلاع کی۔ مہاراج نے یادفرمایاہے۔

    آلھا: ’’مہاراج نے خلافِ معمول اس وقت کیوں یادکیا۔‘‘ کھیل بندہوگیا۔ گیندکولکد بازیوں سے نجات ہوئی۔ فوراً دریامیں چوبدار کے ساتھ حاضرہوااورجھک کرآداب بجالایا۔

    پرمال نے کہا، ’’میں تم سے کچھ مانگوں دوگے؟‘‘

    آلھا نے سادگی سے جواب دیا، ’’فرمائیے؟‘‘

    پرمال: ’’انکارتو نہ کروگے؟‘‘

    آلھا نے کنکھیوں سے ماہل کی طرف دیکھا۔ اورسمجھ گیا کہ اس وقت کچھ نہ کچھ دال میں کالاہے۔ اس کے چہرہ پر یہ مسکراہٹ کیوں؟ گولرمیں یہ پھول کیوں لگے؟ کیا میری وفاداری کاامتحان لیاجارہاہے۔ جوش سے بولا، ’’مہاراج! میں آپ کی زبان سے ایسے سوالات سننے کاعادی نہیں ہوں۔ آپ میرے سرپرست، میرے مربی اورمیرے راجہ ہیں آ پ کے ابروکے اشارہ پرمیں آگ میں کودسکتا ہوں اور موت سے لڑسکتا ہوں آپ کی مرضی پاکر میں محال کوممکن بناسکتا ہوں۔ آپ مجھ سے ایسے سوالات نہ کریں۔‘‘

    پرمال: ’’شاباش! مجھے تم سے ایسی ہی امید ہے۔‘‘

    آَلھا: ’’مجھے کیا حکم ملتا ہے۔‘‘

    پرمال: ’’تمہارے پاس ناہرگھوڑا ہے؟‘‘

    آلھا نے، جی ہاں۔ کہہ کرماہل کی طرف غضب ناک آتشیں نگاہوں سے دیکھا۔

    پرمال: ’’اگرتمہیں ناگوار نہ ہوتو اسے میری سواری کے لئے دے دو۔‘‘

    آلھا کچھ جواب نہ دے سکا۔ سوچنے لگا میں نے ابھی وعدہ کیاہے کہ انکار نہ کروں گا۔ میں نے بات ہاری ہے۔ مجھے انکارنہ کرناچاہئے۔ ضرور اس وقت میری وفاداری کاامتحان لیاجارہاہے۔ میراانکاراس وقت نہایت بے موقع اورخطرناک ہے۔ اس کا توکچھ غم نہیں مگر میں انکارکس منھ سے کروں۔ بے وفانہ کہلاؤں گا۔ راجہ کاتعلق میرے ساتھ محض خادم ومخدوم کانہیں ہے۔ میں ان کی گود میں کھیلا ہوں۔ جب میرے ہاتھ کمزور تھے اور پیروں میں کھڑے ہونے کا بوتانہ تھا تب انہوں نے میرے ظلم سہے ہیں۔ کیا میں انکار کرسکتاہوں۔

    خیالات نے پہلوبدلا۔ ماناکہ راجہ کے احسانات مجھ پر بے شمار ہیں۔ میرے جسم کا ایک ایک رویاں ان کے احسانات کاگرابنارہے۔ مگرچھتری کبھی اپنی سواری کا گھوڑا دوسرے کونہیں دیتا۔ یہ چھتریوں کادھرم نہیں، میں راجہ کاپروردہ اورمنت کش ہوں۔ مجھے اپنے جسم پر اختیارہے۔ اسے میں راجہ پرنثار کرسکتا ہوں۔ مگرراجپوتی دھرم پرمیرا کوئی اختیارنہیں ہے۔ اسے میں نہیں توڑسکتا ہوں۔ جن لوگوں نے دھرم کے کچے دھاگے کولوہے کی دیوارسمجھا ہے انہیں سے راجپوتوں کا نام روشن ہے۔ کیامیں ہمیشہ کے لئے اپنے نام پرداغ لگاؤں۔ آہ! ماہل نے اس وقت مجھے خوب جکڑرکھا ہے۔ سامنے خونخوار شیرہے پیچھے گہرا غارہے، یاتوذلت اٹھاؤں یا احسان فراموش کہلاؤں یا توراجپوتوں کے نام کو ڈبوؤں۔ یاتباہ ہوجاؤں۔ خیرجوایشور کی مرضی۔ مجھے احسان فراموش کہلانامنظور ہے مگر ذلیل بننا منظور نہیں۔ تباہ ہوجانا منظور ہے مگرراجپوتوں کے دھرم میں بٹہ لگانا منظورنہیں۔

    آلھا سرنیچا کئے انہیں خیالات میں غوطے کھارہاتھا یہ اس کے لئےآزمائش کاموقع تھا جس میں کامیاب ہوجانے پراسکے مستقبل کادارومدارتھا۔

    مگرماہل کے لئےیہ موقع کچھ کم صبرآزمانہ تھا۔ وہ دن اب آگیا جس کے انتظار میں کبھی آنکھیں نہیں تھکتیں۔ خوشیوں کایہ سیلاب اب ضبط کی آہنی دیوار کو کاٹتا جاتاتھا۔ درویشِ کامل پرکمزور انسان غالب آتاجاتا تھا۔ یکایک پرمال نے آلھا سے بلندلہجہ میں پوچھا، ’’کس شش وپنج میں ہو؟ کیانہیں دیناچاہتے؟‘‘

    آلھا نے راجہ سے آنکھیں ملاکر کہا، ’’جی نہیں۔‘‘

    پرمال کوطیش آگیا کڑک کربولا، ’’کیوں؟‘‘

    آلھا نے مستقل مزاجی سے جواب دیا، ’’یہ راجپوتوں کادھرم نہیں ہے۔‘‘

    پرمال: ’’کیامیرے احسانات کایہی بدلہ ہے! تم جانتے ہوپہلے تم کیاتھے۔ اوراب کیا ہو؟‘‘

    آلھا: ’’جی ہاں۔ جانتا ہوں۔‘‘

    پرمال: ’’تمہیں میں نے بنایاہے۔ اورمیں ہی بگاڑسکتا ہوں۔‘‘

    آلھاسے اب صبرنہ ہوسکا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ اورتیوروں پر بل پڑگئے۔ تندلہجہ میں بولا۔

    ’’مہاراج!آپ نے میرے اوپرجواحسانات کئے ان کا ہمیشہ مشکوررہوں گا۔ چھتری کبھی احسان نہیں بھولتا مگر آپ نے میرے اوپراحسانات کئے ہیں تومیں نے بھی دل توڑکرآپ کی خدمت کی ہے، محض ملازمت اورحقِ نمک کا فرض مجھ پر وہ عقیدت اورسرگرمی نہیں پیدا کرسکتاتھا جس کا میں بارہا اظہار کرچکاہوں۔ مگر خیر اب مجھے یقین ہوگیا کہ اس دربارمیں میرا گزرنہ ہوگا۔ میراآخری سلام قبول ہو۔ اور اپنی نادانی سے میں نے جوکچھ خطا کی ہو وہ معاف کی جائے۔‘‘

    ماہل کی طرف مخاطب ہوکراس نے کہا، ’’ماموں صاحب!آج سے میرے اورآپ کے درمیان خون کارشتہ ٹوٹتا ہے۔ مگرآپ میرے خون کے پیاسے ہیں تومیں بھی آپ کی جان کا دشمن ہے۔‘‘

    آلھا کی ماں کا نام دیول دیوی تھا۔ اس کاشماران عالی حوصلہ اور بلندخیال عورتوں میں ہے جنہوں نے ہندوستان کے گزشتہ کارناموں کوقابلِ رشک بنادیاہے۔ اس تاریک زمانہ میں بھی جبکہ نفاق اورعنادکا ایک عظیم مہلک سیلاب ملک میں آپہنچاتھا۔ ہندوستان میں ایسی ایسی دیویاں پیداہوئیں جو تاریخ کے سیاہ ترین صفحات کوبھی روشن کرسکتی ہیں۔ دیول دیوی نے آلھا کی آن پروری کاتذکرہ سناتو اس کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے۔ اس نے دونوں بھائیوں کوگلے لگاکرکہا، ’’بیٹا تم نے وہی کیا جوراجپوتوں کادھرم تھا۔ میں بہت خوش نصیب ہوں کہ تم جیسے دوسخن پرور بیٹے پائے ہیں۔‘‘ اسی روز دونوں بھائیوں نے مہوباسے کوچ کردیا۔ اپنے ساتھ بجز اپنی تلوار اور گھوڑوں کے کچھ نہ لیا۔ مال واسباب وہیں چھوڑدیئے۔ سپاہی کی دولت اور عزت سب اس کی ہے جس کےپاس شجاعت کی دولت موجود ہے اسے کسی دوسری دولت کی ضرورت نہیں۔

    برسات کے دن تھے۔ ندی نالے امڈے ہوئے تھے۔ اندرکی فیاضیوں سے مالا مال ہوکر زمین پھولی نہیں سماتی تھی۔ درختوں پرموروں کی رسیلی جھنکاریں سنائی دیتی تھیں۔ اورکھیتوں میں بادہ فراغت سے متوالی کسان ملاّرکی تانیں لگاتے تھے۔ پہاڑیوں کی گھنی ہریالی، پانی کے بلوریں تختے اورجنگلی بیل بوٹوں کے بناؤ سنوار سے قدرت پرایک جوبن برس رہاتھا۔ میدانوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی طرب خیز ہوا۔ جنگلی پھولوں کی میٹھی سہانی روح افزا مہک اورکھیتوں کی لہراتی ہوئی بوقلموں روئیدگی نے دلوں میں آرزوں کاایک طوفان برپاکردیاتھا۔ ایسے مبارک موسم میں آلھا نے مہوبلے کوخیربادکہا۔

    دونوں بھائیوں کی آنکھیں روتے روتے لال ہوگئی تھیں کیونکہ آج ان سے ان کا وطن چھوٹ رہا تھا۔ انہیں گلیوں میں انہوں نے گھٹنوں کے بل چلناسیکھاتھا۔ انہیں تالابوں میں کاغذ کی ناویں چلائی تھیں۔ یہیں شباب کی بے فکر یوں کی بہاریں اڑائیں تھیں۔ ان سے اب ہمیشہ کےلئے ناتا ٹوٹتاتھا۔ دونوں بھائی آگے بڑھتے جاتے تھے۔ مگربہت آہستہ، یہ خیال تھاکہ شاید پرمال نے روٹھنے والوں کومنانے کے لئے اپنا کوئی معتمد آدمی بھیجا ہوگا۔ گھوڑوں کوسنبھالے ہوئے تھے۔ مگر جب صوبے کی پہاڑیوں کا آخری نشان نگاہوں سے اوجھل ہوگیاتو امید کی آخری جھلک بھی عائب ہوگئی۔ بے وطنوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی، اور گھوڑے بڑھادیئے۔ ان کی جلاوطنی کی خبریں بہت جلد چاروں طرف پھیل گئیں۔ ان کےلئے ہرایک دربارمیں جگہ تھی۔ ہرچہارطرف سے راجاؤں کے پیغام آنے لگے۔ قنوج کے راجہ جے چند نے اپنے راج کمار کوان کی ملاقات کے لئے بھیجا۔ پیغاموں سے جوکام نہ نکلا وہ اس ملاقات نے پورا کردیا۔ راج کمار کی خاطر داریاں اورگرمجوشیاں بھائیوں کو قنوج کھینچ لے گئیں۔ جے چندآنکھیں فرشِ راہ کئے بیٹھاتھا۔ آلھا کواپنی فوج کا سپہ سالار بنادیا۔

    آلھا اوراودل کے چلے جانے کے بعد مہوبے میں بے عنوانیوں کا دورشروع ہوا۔ پرمال کمزور فرماں رواتھا۔ باج گزارراجوں نے علم ِبغاوت بلندکیا۔ ایسی کوئی طاقت نہ رہی جو شورش پسندعناصرکوقابو میں نہ رکھے۔ دہلی کے راجہ پرتھی راج کی کچھ فوج مقام سمتا سے ایک کامیاب مہم سرانجام دینے کے بعد واپس آرہی تھی۔ علاقہ مہوبا میں فروکش ہوئی۔ اکھڑسپاہیوں میں تلوار چلتے کتنی دیرلگتی ہے۔ چاہے راجہ پرمال کے ملازموں کی زیادتی ہو چاہے چوہان سپاہیوں کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چندیلوں اور چوہانوں میں ان بن ہوگئی۔ جنگ چھڑگئی۔ چوہان تعدادمیں کم تھے۔ چندیلوں نے آئیںِ مہمان نوازی کوبالائے طاق رکھ کر چوہانوں کے خون سے اپناکلیجہ ٹھنڈا کیا۔ اوریہ نہ سمجھے کہ مٹھی بھرسپاہیوں کے پیچھے سارے ملک پرآفت آجائے گی۔ بے گناہوں کا خون رنگ لائے گا۔ پرتھی راج کویہ دل شکن خبرملی تو اس کے غصہ کی کوئی حدنہ رہی۔ آندھی کی طرح مہوبے پرچڑھ دوڑا۔ اورسرسا کوجوعلاقہ مہوبا کا ایک مشہورقصبہ تھا، مسمار کرکے مہوبے کی طرف بڑھا۔ چندیلوں نے بھی فوج آراستہ کی مگرپہلے ہی مقابلہ میں ان کے حوصلے پست ہوگئے۔

    آلھا، اودل کے بغیر فوج بن دولہے کی بارات تھی۔ ساری تتربترہوگئی۔ ملک میں تہلکہ مچ گیا۔ اب کوئی دم میں پرتھی راج مہوبے میں آپہنچے گا۔ اس خوف سے لوگوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ پرمال اپنے کئے پربہت پچھتایا۔ مگراب پچھتانابے سودتھا۔ کوئی مفر نہ دیکھ کر اس نے پرتھی راج سے ایک ماہ کی مہلتِ جنگ کی التجا کی۔ چوہان راجہ آدابِ جنگ کوکبھی ہاتھ سے نہ دیتاتھا۔ اس کی ہمت عالی اسے کمزور، بے خبراورنامستعد دشمن پروارکرنے کی اجازت نہ دیتی تھی۔ اس معاملہ میں اگروہ حسنِ آئین کا ایسی سختی سے پابندنہ ہوتا تو شہاب الدین کے ہاتھوں اسے روزِ بدنہ دیکھنا پڑتا۔ اس کی عالی ہمتی ہی اس کی جان کاگاہک ہوئی۔ اس نے پرمال کاپیغام منظور کرلیا۔ چندیلوں کی جان میں جان آئی۔

    اب مشورہ ہونے لگا کہ پرتھی راج سے کیوں کر مقابلہ کیاجائے۔ رانی ملہنا بھی اس مشورہ میں شریک تھی۔ کسی نے مہوبے کے گردایک فصیل بنائی جائے، کوئی بولا ہم لوگ مہوبے کوویران کرکے دکن کی طرف چلیں۔ پرمال زبان سے تو کچھ نہ کہتا تھا مگربجزاطاعت گزاری کے اسے اورکوئی چارہ نہ نظرآتا تھا۔ تب رانی ملہنا کھڑی ہوکربولی۔

    ’’چندیل بنس کے راجپوتو! تم کیسی بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ کیا فصیلوں سے تم دشمن کو روک لوگے۔ جھاڑوں سے کہیں آندھی رکتی ہے۔ تم مہوبے کوویران کرکے بھاگنے کی صلاح دیتے ہو۔ ایسی بزدلانہ صلاحیں عورتیں دیا کرتی ہیں۔ تمہاری دلیریاں تمہاری جانبازیاں اب کہاں گئیں؟ ابھی بہت دن نہیں گزرے کہ چندیلوں کے نام سے راجہ تھراتے تھے۔ چندیلوں کی دھاک بندھی ہوئی تھی۔ تم نے چند سالوں کے زمانے میں سیکڑوں میدان جیتے۔ تمہیں کبھی ہارنہیں ہوئی۔ تمہاری تلوار کی دمک کبھی ماندنہیں ہوئی۔ تم اب بھی وہی ہومگر تم میں اب وہ پرشارتھ نہیں ہے۔ وہ پرشارتھ بناپھربنس کے ساتھ مہوبے سے اٹھ گیا۔ دیول دیوی کےروٹھنے سےچاندکادیوی بھی ہم سےروٹھ گئیں۔ اب اگرکوئی یہ ہاری ہوئی بازی سنبھال سکتا ہے تو وہ آلھا ہے۔ وہیں دونوں بھائی اس نازک وقت میں تمہیں بچاسکتےہیں۔ انہیں کومناؤ۔ انہیں کوسمجھاؤ۔ ان پر مہوبے کے بہت حقوق ہیں۔ مہوبے کے آب وگل سے ان کی پرورش ہوئی ہے۔ وہ مہوبے کے حقوق کبھی بھول نہیں سکتے۔ انہیں ایشور نے بل اوردیادی ہے۔ وہی اس وقت بجے کابیڑااٹھاسکتے ہیں۔‘‘

    رانی ملہناکی باتیں لوگوں کے دل میں بیٹھ گئیں۔

    جگنابھاٹ، آلھااوراودل کوقنوج سے لانے کے لئے روانہ ہوا۔ یہ دونوں بھائی راج کنورلاکھن کے ساتھ شکارکھیلنے جارہےتھے کہ جگنا نے پہنچ کر پرنام کیا۔ اس کے چہرہ سے خفت اورپریشانی برس رہی تھی۔ آلھا نے گھبراکرپوچھا، ’’کبیشر! یہاں کیسی بھول پڑی؟مہوبے میں توسب خیریت ہے ہم غریبوں کوکیوں کر یادکیا؟‘‘ جگنا کی آنکھوں میں آنسوبھرآئے۔ بولا، ’’اگرخیریت ہوتی توتمہاری پناہ کیوں لیتا۔ مصیبت پڑنے ہی پردیوتاؤں کی یادآتی ہے۔ مہوبے پراس وقت اندرکاکوپ چھایا ہواہے۔ پرتھی راج چوہان علاقہ مہوبا کوگھیرے پڑا ہوا ہے۔ نرسنگھ اور بیرسنگھ تلواروں کی نذرہوچکے ہیں۔ سرساراکھ کاڈھیرہوگیا۔ چندیلوں کاراج ویران ہواجاتاہے۔ سارے ملک میں کہرام مچاہوا ہے۔ بڑی مشکلوں سے ایک مہینہ کی مہلت لی گئی ہے۔ اورمجھے راجہ پرمال نے تمہارے پاس بھیجاہے۔ اس مصیبت کے وقت ہمارا کوئی مددگارنہیں ہے۔ کوئی ایسا نہیں جوہماری ہمت بڑھائے جب سے تم نے مہوبے سے ناتا توڑاہے تب سے راجہ پرمال کے ہونٹوں پر ہنسی نہیں آئی، جس پرمال کواداس دیکھ کر تم بے چین ہوجاتے تھے اسی پرمال کی آنکھیں مہینوں سے نیندکوترستی ہیں۔ رانی ملہنا جس کی گود میں تم کھیلی ہو رات دن تمہاری یادمیں روتی رہتی ہے۔ وہ اپنے جھروکے سے قنوج کی طرف آنکھیں لگائے تمہاری راہ دیکھا کرتی ہے۔ اے بناپھربنس کے سپوتو! چندیلوں کی ناؤ اب ڈوب رہی ہے۔ چندیلوں کانام اب مٹاجاتاہے۔ اب موقع ہے کہ تم تلواریں ہاتھ میں لو۔ اگر اس موقع پرتم گرتی ہوئی ناؤ کونہ سنبھالا تو تمہیں ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے گا۔ کیونکہ اس دیوار کے ساتھ تمہارااورتمہارے نامور باپ کا نام بھی ڈوب جائے گا۔‘‘

    آلھانے ترش ہوکرجواب دیا، ’’ہمیں اس کی اب کچھ پروانہیں ہے۔ ہمارا اورہمارے باپ کا نام تواسی دن ڈوب گیا جب ہم بے خطا اوربے قصور مہوبے سے نکال دیئے گئے۔ مہوبا مٹی میں مل جائے۔ چندیلوں کا چراغ گل ہوجائے، اب ہمیں ذرا بھی پروانہیں ہے۔ کیا ہماری خدمت کایہی صلہ تھا جوہم کوعطا ہوا ہے؟ ہمارے باپ نے مہوبے پر اپنی جان نثار کردی۔ ہم نے گنڈوں کوشکست دی۔ اور چندیلوں کودیوگڑھ کامالک بنادیا۔ ہم نےجادو قوم سے مقابلہ کیا۔ اورکٹھیار کےمیدان میں چندیلوں کا جھنڈا گاڑدیا۔ میں نے انہیں ہاتھوں سے کھچواہوں کی بڑھتی ہوئی لہرکوروکا۔ گیاکامیدان ہم نے جیتا۔ ریوان کا گھمنڈ ہمیں نے توڑا۔ میں نے ہی میوات سے خراج لیا۔ ہم نے یہ سب کچھ کیا۔ اوراس کا ہم کویہ صلہ عطا ہواہے۔ میرے باپ نے دس راجاؤں کوطوق ِاطاعت پہنایا۔ میں نے پرمال کی خدمت میں سات بارمہلک زخم کھائے۔ تین بار موت کے منہ سے نکل آیا۔ میں نے چالیس لڑایاں لڑیں اورکبھی ہارکرنہ آیا۔ اودل نے سات خونریزمعرکے فتح کئے۔ ہم نے چندیلوں کی دلاوری کاڈنکا بجادیا۔۔ چندیلوں کا نام ہم نے آسمان تک پہنچادیا۔ اوراس کا ہم یہ صلہ عطا ہوا ہے۔ پرمال کیوں اب اسی دغاباز ماہل کواپنی مدد کے لئے نہیں بلاتے جسے خوش کرنے کے لئے میرادیس نکالاگیاتھا۔‘‘

    جگنا نے جواب دیا، ’’آلھا!یہ راجپوتوں کی باتیں نہیں ہیں۔ تمہارے باپ نے جس راج پر جان نچھاور کردی وہی راج اب دشمن کے پیروں تلے رونداجارہاہے۔ اسی باپ کے بیٹے ہوکربھی کیاتمہارے خون میں جوش نہیں آتا۔ وہ راجپوت جواپنی مصیبت میں گرفتار راجہ کوترک کرتا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ کے سوااورکوئی جگہ نہیں ہے۔ تمہارے وطن پر ادبارکی گھٹاچھائی ہوئی ہے۔ تمہاری مائیں اوربہنیں دشمنوں کی آبروریزنگاہوں کانشانہ بن رہی ہیں۔ کیا اب بھی تمہارے خون میں جوش نہیں آتا۔ اپنے وطن کی یہ درگت دیکھ کربھی تم قنوج میں چین کی نیند سوسکتے ہو۔‘‘

    دیول دیوی کوجگناکے آنے کی خبرہوئی۔ اس نے فورا آلھا کو بلاکرکہا، ’’بیٹا پچھلی باتیں بھول جاؤ۔ اورآج ہی مہوبے چلنے کی تیاری کرو۔‘‘

    آلھا کچھ جواب نہ دے سکا۔ مگر اودل جھنجھلاکر بولا، ’’ہم اب مہوبا نہیں جاسکتے۔ کیاتمہیں وہ دن بھول گئے کہ جب ہم کتوں کی طرح مہوبے سے نکال دیئے گئے۔ مہوبا ڈوبے یار ہے، ہمارا جی اس سے بھرگیا۔ اب اس کے دیدار کی آرزو نہیں ہے۔ اب قنوج ہی ہماراوطن ہے۔‘‘

    راجپوتنی بیٹے کی زبان سے یہ کفرنہ سن سکی۔ طیش میں آکربولی، ’’اودل تجھے ایسی باتیں منہ سے نکالتے ہوئے شرم نہیں آتی، کاش ایشور مجھے بانجھ ہی رکھتا کہ ایسے بیٹوں کی ماں نہ بنتی۔ کیا انہیں بناپھربنس کے نام پرکلنک لگانے والوں کے لئے میں نے گربھ کی پیڑاسہی تھی۔ نالائقو! میرے سامنے سے دور ہوجاؤ مجھے اپنا منہ مت دکھاؤ۔ تم جسراج کے بیٹے نہیں ہوتم جس کی ران سے پیدا ہووہ جسراج نہیں ہوسکتا۔‘‘

    یہ زخم کاری تھا۔ شرم سے دونوں بھائیوں کے ماتھے پرپسینہ آگیا۔ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اوربولے، ’’ماتا!اب بس کرو۔ ہم زیادہ نہیں سن سکتے۔ ہم آج ہی مہوبے جائیں گے۔ اورراجہ پرمال کی خدمت میں اپناخون بہائیں گے۔ ہم میدانِ جنگ میں اپنی تلواروں کی چمک سے اپنے باپ کانام روشن کریں گے۔ ہم چوہان کے مقابلے میں اپنی بہادری کے جوہردکھائیں گے۔ اوردیول دیوی کے بیٹوں کا نام امر کردیں گے۔

    دونوں بھائی قنوج سے چلے۔ دیول دیوی بھی ساتھ تھی۔ جب یہ روٹھنےوالے دیار وطن میں پہنچے توسوکھے دھان میں پانی پڑگیا۔ ٹوٹی ہوئی ہمتیں بندھ گئیں۔ ایک لاکھ چندیلے ان دلاوروں کاخیرمقدم کرنے کےلئے کھڑے تھے۔ بہت عرصہ کے بعدغربت زدگانِ وطن پچھڑے ہوؤں سے ملے۔ آنکھوں نے خوشی کے آنسو بہائے۔ راجہ پرمال کی آنکھوں سے پانی برسا اور ساری کدورتیں اوررنجشیں دھوگئیں۔

    دشمن سرپرکھڑا تھا زیادہ مہمان نوازیوں کا موقع نہ تھا۔ وہیں کیرت ساگر کے کنارے رہبرانِ قوم اور اراکین دربار کے مشورہ سے آلھا فوج کاسپہ سالار بنایاگیا۔ وہیں مرنے مارنے کے لئے عہدوپیماں ہوئے۔ وہیں دلاوروں نے قسمیں کھائیں کہ میدان سے ہٹیں گے تومرکرہٹیں گے۔ وہیں لوگ باہم گلے ملے اوراپنی قسمتوں کافیصلہ کرنے کے لئے چلے۔ آج کسی کی آنکھوں میں اورچہرہ پرافسردگی کے آثار نہ تھے عورتیں ہنس ہنس کر اپنی پیاروں کوبداکرتی تھیں۔ مردہنس ہنس کر نازنینوں سے جداہوتے تھے کیونکہ یہ آخری بازی ہے۔ اسے جیتنازندگی اور ہارناموت ہے۔

    اس مقام کے پاس جہاں اب اورئی کاقصبہ آباد ہے، دونوں فوجوں کامقابلہ ہوا۔ اوراٹھارہ دن تک خونریزوں کا بازارگرم رہا۔ خوب گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ پرتھی راج خودجنگ میں شریک تھا۔ دونوں دل کھول کر لڑے۔ ولاوروں نے خوب ارمان نکالے اوردونوں طرف کی فوجیں وہیں کٹ مریں۔

    تین لاکھ آدمیوں میں صرف تین آدمی زندہ بچے۔ ایک پرتھی راج دوسرا چندابھاٹ۔ تیسرا آلھا۔ ایسی خونریزثابت قدم اور انقطاعی لڑائی شاید ہی کسی ملک اور کسی زمانہ میں ہوئی ہو۔ چندیلوں کی ہارہوئی۔ ان کا نام مٹ گیا۔ سلطنت کچھ دنوں اورقائم رہی۔ مگربے جان بے اثر۔ تھانیسر کی لڑائی کافیصلہ بھی اسی میدان میں ہوگیا۔ چوہانوں میں جتنے تجربہ کارسپاہی تھے وہ سب اورئی میں کام آئے۔ شہاب الدین سے مقابلہ پڑا تو نوآموز ناتجربہ کار سپاہی میدان میں لائے گئے اورنتیجہ وہی ہوا جو ہوسکتا تھا۔ آلھا کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کہاں گیا۔ کہیں شرم سے ڈوب مرا۔ یا فقیرہوگیا۔

    عوام میں اب تک عقیدہ ہے کہ وہ زندہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ امرہوگیا۔ یہ سب درست ہے کیونکہ آلھا واقعی امرہے۔ اوراسے کبھی فنانہ ہوگی۔ اس کا نام ہمیشہ برقراررہے گا۔

    مأخذ:

    پریم چند : افسانے (Pg. 128)

      • ناشر: خدا بخش لائبریری،پٹنہ
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے