Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اعمال

MORE BYبھارت ساسنے

    (۱)

    برہم دیوبنڈوجی ایکدم اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سونا اس کے لئے ناممکن ہو گیا۔ اٹھتے ہوئے اس نے پہلے جسم اکڑایا پھر سمیٹ لیا اور بدن کی گٹھری بنا لی پھر بھی سردی کم نہ ہوئی ہر طرف اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور خاموشی تھی۔ اس کی چارپائی درمیان سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ اسے لگا کہ جیسے وہ کسی گڑھے میں پڑا ہوا ہے۔ ساتھ لائی ہوئی اپنی اکلوتی تھیلی سرکے نیچے دبائے بہت دیر تک اس نے سونے کی کوشش کی مگر نہ سو سکا۔۔۔ پھر سوچا وہ کہاں؟ کس گاؤں میں چلا آیا ہے؟ یہاں آنے کے بارے میں کبھی سوچا تھا؟ پھر کیسے چلا آیا؟ سوالوں سے پریشان وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

    اپنے چاروں طرف پھیلے اندھیرے میں اس نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا، اندھیرے کا ایک سیلاب ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ سامنے کی کھڑکی کے پٹ نہیں تھے۔ ندی کی جانب سے آنے والی سرد جان لیوا ہوائیں سیدھے بدن پر وار کرتی تھیں۔ ہتھیلی پر ہتھیلی رکھ کر ملنے لگا۔ اس سے بھی کچھ نہ ہوا تو خود کلامی کرنے لگا۔ دھرم شالہ کے منتظم کو گالیاں بکنے لگا، ٹھنڈی چادر کو جسم کے گرد لپیٹنے لگا۔ نقشی دار کمانی کی کھڑکی سے دور درخت دکھائی دے رہے تھے۔ آسمان گدلا نظر آ رہا تھا۔ یہاں آنا فضول تو نہیں ہوا؟ اس نے سوچا، تھیلی اس نے ٹھیک سے گود میں رکھی۔ تھیلی میں پڑی کنڈلی کی بیاض اس نے ٹٹولی۔ پھر سگریٹ کا پیکٹ نکالا پر اسے ماچس نہیں ملی۔ سارا کمرہ شدید سردی سے بھر گیا تھا۔ برہم دیو مجبورا بنا سگریٹ سلگائے چپ چاپ ہی بیٹھا رہا۔

    کمر ے کے ایک کونے میں پڑی چارپائی پر کچھ حرکت ہوئی۔ برہم دیو نے دیکھا کوئی چادر لپیٹے اٹھ بیٹھا تھا اپنے ہم سفر کا تو اسے خیال ہی نہ تھا۔ اس نے گہری اندھیری فضا کو تراشنے والے ہیولے کی طرف دیکھا۔ اس نے سوچا، صبح تک سرد ی سے اکڑ کر مر جائیں گے اچھا ہی ہوگا!

    ہم سفر نے حرکت کی۔ پھر اس نے تیلی جلاکر روشن کی اور پھر جلتی ہوئی تیلی ہتھیلی کی آڑ میں اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا، ’’لو، ماچس شاید تمہیں نہیں مل رہی ہے۔‘‘

    برہم دیو نے فوراً سگریٹ جلائی۔ کش پھینکنے لگا، جسم میں کچھ گرمی پیدا ہوئی۔ سامنے ندی تھی۔ وہاں سے ہواکی سرد لہریں آرہی تھیں اس نے اپنا بدن بہت زیادہ سمیٹ لیا۔

    ’’ایک آدھ سگریٹ مجھے کیا۔۔۔‘‘ ہم سفرنے کہا۔

    برہم دیو ہنسا، ’’لو۔ ساری، میں بھول گیا۔‘‘

    ’’تمہیں ماچس نہیں مل رہی تھی۔ میرے پاس سگریٹ نہیں ہے۔ کہاں سے آئے ہوئے؟‘‘

    ’’میں۔۔۔‘‘ برہم دیوپس وپیش میں پڑ گیا۔ پھربولا، دور سے آیا ہوں، ’’ممبئی سے۔‘‘

    ’’یہاں‘‘ اسے محسوس ہوا کہ ہم سفر کو حیرت ہوئی ہے۔ اس نے کش کھینچا پھر بولا، ’’آئے لا۔ دھرم شالہ چلتے ہیں پر ایک بھی کمرہ ٹھیک نہیں۔ کھڑکیوں کے پٹ تو ہیں ہی نہیں، چارپائیاں ٹوٹی ہوئی ہیں اور اوپر سے یہ سردی۔‘‘

    ’’اور یہ مچھر۔۔۔‘‘ بولتے رہنے سے شاید کچھ حرارت پیدا ہو۔ یہ سوچ کر برہم دیو نے گفتگو جاری رکھی۔

    ’’اور کھٹمل۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔‘‘

    پھر برہم دیو اٹھا۔ وہ جیسے ہی کھڑ اہوا۔ سردہوا کی چبھنے والی لہروں سے وہ کانپ گیا اس نے چارپائی کھڑکی سے الگ ذرابغل میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ بیٹھا۔ تھیلی گود میں رکھی اور سارے جسم پر چادر تان لی۔ پھر بولا، ’’اور اندھیرا بھی کتنا ہے۔ ان کے پاس قندیل بھی نہیں۔ اتنا گہرا اور سیاہ اندھیرا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

    ہم سفر ذرا سا ہلا اور پوچھا، ’’کس کا انتقال ہوا؟‘‘

    ’’انتقال۔۔۔ کسی کا نہیں؟‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ نہیں یہاں لوگ استھی وسرجن کے لئے آتے ہیں۔‘‘

    برہم دیو ہنسا، ’’نہیں۔۔۔ بھلا استھی کس کی وسرجت کریں۔ خود کی؟ میں تو دوسرے کام سے آیا ہوں۔‘‘

    دونوں پھر سگریٹ پیتے بیٹھے رہے۔۔۔ برہم دیو کو لگا یہ سردی کی جان لیوا رات کبھی ختم نہ ہوگی۔ پر یہاں آنا بھی ویسے ضروری ہی تھا۔ اس نے سوچا۔ اپنی شروعات غلط تھی۔ یہ احساس جب ہوا تو یہاں آنا پڑا اوراگر یہ پتہ چل جائے کہ شروعات کہاں سے کریں؟ توشاید یہ ’’سیلانی پن‘‘ ختم ہو۔ ہم سفرنے پہلو بدلا، ’’تم جیسے شہری بابو کا اس ہری پور میں کیا کام۔ یہ ایک دم نادار گاؤں ہے۔‘‘

    ’’ہوگا بھئی۔۔۔ آج شام کو میں پہلی بار یہاں آیا سیدھے اس دھرم شالہ میں۔‘‘

    ’’آگ جلائیں کیا؟ کمرہ ہی ذرا گرم ہوگا۔‘‘

    ’’کیا ہے اپنے پاس۔۔۔ نہیں رہنے دو۔‘‘

    دونوں کانپنے لگے۔۔۔ روئیں روئیں سے برف جیسی ٹھنڈ ان کی روح تک میں اتر رہی تھی۔

    ’’یہاں کی خاص بات پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یہاں باہر سے لوگ استھی وسرجن کرنے آتے ہیں۔ باہر سوئے ہوئے لوگ وہی ہیں۔ باقی یہاں کچھ نہیں۔ بھوکا کنگال گاؤں۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔‘‘

    ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    برہم دیو پس وپیش میں پڑ گیا۔ اسے بےمقصد بولنا پسند نہ تھا اور پھر اسے کل کے بارے میں سوچنا بھی تھا۔ لیکن وہ چپ رہا تو پچھلی باتیں یاد آئیں گی۔ اسے یہ بھی پتا تھا کہ چپ رہا تو سردی اس کی شریانوں تک میں سرایت کر جائےگی۔ یہ سوچ کر ڈر سا گیا۔ اس کے دانت کٹکٹانے لگے۔۔۔ کیا مضائقہ ہے۔ یہ اس نے سوچا۔ یہ کون؟ میں کون؟ اس سے میں نے کچھ کہا تو کیا بگڑنے والا ہے۔ دراصل اپن دوسرے کی قدر کرتے رہے اس لئے اپنی یہ حالت ہو گئی۔۔۔ اب اس سے کہیں۔۔۔ سب کہہ ڈالیں۔ ایک موج سی اس کے اندر اٹھی۔

    ’’میرا نام برہم دیو بنڈوجی۔۔۔ سرنیم نہیں بتاؤں گا۔ وہ ایک دم فحش ہے۔ اسکول سے آج تک میراسرنیم مجھے شرمندہ کرتا رہا ہے۔ تب سے ہی، دیوگتی، ہمارے پیچھے لگ گئی۔۔۔ بھوسڑی کی۔‘‘

    ہم سفر بدن بدن ہلا ہلاکر ہنسا اور پھر ایک دم چپ ہو گیا۔ چپ ہوکر ایسے کھانسنے لگا جیسے اچھو لگی ہو۔۔۔ وہ اپنی باتیں سننا چاہتا ہے یا نہیں، یہ فکر کیے بنا برہم دیو آگے کہنے لگا، ’’اسکول میں استاد زور سے سرنیم پکارتے تب لڑکیاں منہ پر رومال رکھے ہنستیں۔ لڑکے چلاتے۔ میں شرمندہ۔ شرم سے نیم مردہ ہو جاتا یہ روز ہوتا۔۔۔ کئی مرتبہ۔۔۔ نام تو ہمارا برہم دیو اس پر جو سوچنا ہے سوچئے۔۔۔‘‘

    ’’اخبار ہے تمہارے پاس تھوڑا تھوڑا جلائیں گے۔‘‘

    ’’دیکھو۔۔۔ کوشش کرکے۔‘‘

    برہم دیو نے اخبار نکالا۔ اسے دیا۔ ہم سفر نے اخبار لیا۔ اس کے ٹکڑے کئے۔ پھر کمرے کے کونوں سے کوڑا کرکٹ جمع کیا۔ اچھا خاصہ ڈھیر ہو گیا۔ کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے نقشی پٹ نیچے ہی پڑے تھے وہ بھی لئے۔ پھر وہ آگ جلانے لگا۔ برہم دیو اس کی ’حرکتیں‘ چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔

    ’’آدھی رات ہو چکی ہوگی۔۔۔ نہیں۔‘‘

    ’’کب کی۔‘‘

    آگ جلی۔ دونوں اس کے آگے بیٹھ گئے۔ ایک ایک ٹکڑا اخبار کا ڈال کر ہم سفر آگ کو بنائے رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

    برہم دیو کو تھوڑی حرارت ملی۔

    آگ کے اجالے میں دونوں کے چہرے نظر آئے۔

    ’’یہاں برہم پور میں کیا کام ہے؟‘‘

    برہم دیو نے دیکھا۔۔۔ اس کے سر پر چھوٹے چھوٹے بال تھے۔ تازہ کٹے ہوئے۔ چہرے تمتما رہا تھا اور آنکھوں میں تجسس تھا۔ روشنی کا چھوٹا سا دائرہ دونوں کو گھیرے میں لئے ہوئے تھا۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ چھوٹے سے کمرے کی دیواریں قریب آ گئی تھیں۔ ہوا بدن کوجیسے ڈس رہی تھی۔ برہم دیو بے چین ہو گیا۔ اس نے تھیلی گود ہی میں رکھ کر گھٹنے ابھارے۔ ان پر چہرہ ٹکایا اور جسم کو گٹھری بناکر آگے پیچھے ہلنے لگا۔ اس نے ہونٹ دانتوں تلے دبائے۔۔۔ کیا بولیں؟ بول ہی دیں؟ کیا نقصان ہے۔ اگر کہہ ڈالیں گے تو ہلکے ہو جائیں گے۔۔۔ اور کیوں چھپائیں اور کیا چھپائیں۔۔۔ بولیں ہی!

    ’’اس نے ہم سفر کی طرف دیکھا اور خاموشی کو توڑا، ‘‘ بتاتا ہوں۔ سب بولتا ہوں۔ یہاں اس ہری پور میں کرشن دیو نام کے ایک جوتشی ہیں انہیں اپنی کنڈلی دکھانے آیا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ وہ اتنے مشہور ہیں یہ ہمیں معلوم نہ تھا۔‘‘

    برہم دیو آگے کہنے لگا، ’’دراصل ہم شروع سے ہی ہرایک بات میں پیسے گئے، بھوسڑی کے! ایک دن اچانک ذہن میں یہ بات آئی کہ اپن نے شروعات ہی غلط جگہ سے کی۔ غلط راستہ چنا تو منزل بھی غلط ملی۔ پر بہت دیر ہو چکی تھی۔۔۔ اپن شروع سے غلطی پر تھے، یہ احساس بڑا خوف زدہ کرنے والا ہوتا ہے۔۔۔ کیا چاہئے تھا؟ کیا ملا۔۔۔؟ جب سے یہ احساس ہوا کہ۔۔۔ کچھ نہیں ملاہے۔۔۔ تب سے بھٹک رہا ہوں۔ رشتے دار سالے سب چور۔۔۔ دل کو لبھانے وال ایسا کوئی نہیں ملا۔ پچیس سالہ مرد کا اپنے آپ سب کچھ ہو جاتا ہے۔ پڑھائی، شادی، نوکری سب کچھ ایک خاص تناسب کے ساتھ اس کی ایک آدھ بیوی بھی ہوتی ہے۔ مگر ہم تیس کے ہو گئے۔ ایک نوکری ٹھیک سے ملی نہیں۔ تمہیں تعجب ہوگا۔ مگر میں اکونومکس میں بی اے ہوں۔ (کیا فائدہ۔۔۔!) آج کل میں ایک انجینئرنگ کمپنی میں کلرک ہوں بمبئی میں جینے والے کیڑے مکوڑوں کی طرح میں بھی ایک کھنڈر اور غلط زندگی جی رہا ہوں۔ شادی کا پوچھئے مت۔۔۔‘‘

    برہم دیو کی سانس پھول گئی وہ ہم سفرکی طرف آرپار نظروں سے دیکھنے لگا۔ ہم سفر کے چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے۔ برہم دیو کو لگا۔۔۔ بولتے رہیں۔ کہتے رہیں۔ کہتے سنتے ہی رات ختم ہو جائےگی۔ یہ واہیات اور نیچ زندگی کٹے گی۔ بولتے بولتے یہ ڈراؤنی اندھیروں سے گھری برف زدہ سردی کو نگل لے گی۔ بولیں۔ اس وقت تک بولتے رہیں۔ بمبئی میں تو سالا کوئی سننے والا نہیں۔۔۔ وہاں سب دوڑتے ہی رہتے ہیں! ’’شادی کے بارے میں کہیں تو۔۔۔‘‘ برہم دیو رکا۔ اس کی آنکھوں کی عجیب سی کیفیت تھی۔ دل میں سارنگی کے ہمیشہ بجنے والے گیلے سر گونج رہے تھے۔ کھڑکی کا نقشی دارپٹ رک رک کر جل رہا تھا۔ دیوار پر روشنی ناچ رہی تھی۔

    ہم سفر جلتی لکڑیوں کو ادھر ادھر ہلاکر آگ پھونکنے لگا۔

    ’’شادی! ہماری زندگی کی ایک مزیدار کہانی ہے۔‘‘

    ’’آں۔۔۔ اچھا۔۔۔‘‘

    ’’ایک اچھی نوکری کرتا تھا۔ آج جو کرتا ہوں اس سے اچھی نوکری۔ اسی وقت کا قصہ سنئے، ایک اونچی ذات کی لڑکی سے مجھے عشق ہوا۔ بعد میں اس نے بھی قبول کیا کہ وہ بھی مجھے چاہتی ہے۔ ہم گھومتے پھرتے۔ ڈرامے دیکھتے فلمیں دیکھتے۔ وہ مجھے خط بھی لکھتی۔ مگرتمہیں حیرت ہوگی کہ وہ خطوط پر دستخط نہیں کرتی تھی۔ اسے اپنی اونچی ذات کا ابھیمان تھا۔ ہماری برہمن سبھا۔ ہم برہمن، اسی طرح بات شروع کرتی۔۔۔ یہ قصہ ڈیڑھ دو سال چلا۔ پھروہ بولی، ’’تمہارا سرنیم ٹھیک نہیں۔ مجھے سوبھاگیہ وتی فلاں فلاں سن کر کتنی شرم آئےگی۔۔۔ اس لئے اپنا سرنیم بدلو۔ میں نام تبدیل کرنے کورٹ گیا۔۔۔ مگر اس کے بعد معاملہ آگے نہیں بڑھا۔ کچھ بھی تو ہوا نہیں۔ بھوسڑی کا!‘‘

    برہم دیو نے زور زور سے سانس کھینچی۔ پھربولا، ’’اس وقت مجھے لگتا اپن قسمت سے جیت گئے۔ قسمت نے ہمیشہ اپن کو نیچا دکھایا۔ مگر آج اپن نے اس کی گردن پکڑلی۔۔۔ مگر وہ لڑکی چلی گئی۔ اس نے اپنی برادری میں شادی کی۔۔۔ ایک مرتبہ ٹیکسی میں نظر آئی تھی۔ میں نے اس کے لئے ساڑیاں خریدی تھیں وہ میں نے پھاڑ ڈالیں۔ زندگی میں ایک قیمتی موقع گنوا دیا۔ عمر نے بھی فا نہیں کی۔ اس دوران میرے سر کے بال سفید ہونے لگے۔ محسوس ہونے لگا کہ اپن ہار گئے۔ اب کچھ ہونے والا نہیں۔ مالک نے بھی لات مارکر کام سے نکال دیا کہ لڑکی کے چکر میں پڑا ہے۔۔۔ رشتہ داروں کی بدصورت اور کالی رنگت کی لڑکیوں سے بھی شادی نہیں کی۔

    سو انہوں نے مشہور کر دیا کہ میں نامرد ہوں اس لئے اپنی شادی ٹال رہا ہوں۔ وہ بھی دروازہ بند ہو گیا۔۔۔ اچھا گھر نہیں۔۔۔ مناسب نوکری نہیں۔۔۔ شادی نہیں۔ ایسے قسمت کی چکی میں پیسا گیا ہوں۔ پھر کوئی جوتشی بولا، بھاگیہ اودے بھی نہیں۔ تب سے بھٹک رہا ہوں کنڈلی لے کر۔ جب پریشان ہو گیا تو ایک معتبر شخص نے یہاں کاپتہ دیا کہا کہ بڑے مشہور جوتشی ہیں۔ میں نے سوچا جاکر کنڈلی دکھانی چاہئے۔ شاید کوئی روشنی نظر آ جائے۔۔۔ جانے دو بہت کہہ دیا۔ میرا روناسن کر بور ہو گئے ہوں گے۔‘‘

    برہم دیور کا۔ دھیرے دھیرے اسے احساس ہوا کہ دل میں بجنے والے سارنگی کے سرگم ہو گئے۔ سردی کا احساس بڑھنے لگا تب وہ دل ہی دل میں ہنسا۔ دونوں ہاتھ آگ پر رکھے اور سردی سے کانپنے لگا۔

    اکثر لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح زندہ رہتے ہیں اور مر جاتے ہیں ایسا ہی انجام اپنا تو نہیں ہوگا۔ اپنی قسمت میں شادی کی لکیر ہے کہ نہیں۔۔۔ ہے تو کب؟ اور کیا اس کے بعد ’بھاگیہ اودے‘ ہے۔۔۔؟ کتنے جوتشیوں سے ملا مگر اطمینان نہ ہوا۔ دل میں جیسے ہمیشہ کے لئے ایک ڈرسا بیٹھ گیا ہے۔۔۔ ہمارا فسانہ تو ختم ہوا۔۔۔ آپ نے اپنا نام کیا بتایا تھا؟‘‘

    ہم سفر نے اخبار کا آخری ٹکڑا آگ میں ڈالا اور گال پھلاکر پھونک ماری۔ دونوں ہاتھ آگ پر رکھے۔ پھر برہم دیو کی طرف دیکھ کر ہنسا۔

    ’’میرے نام کا مطلب آج تک مجھے پتہ نہیں۔ میرا نام مراری ہے۔ تمہیں اس کے معنی معلوم ہیں؟‘‘

    برہم دیو نے انکار میں سر ہلایا۔

    وہ ہنسا۔ پھر اس نے سگریٹ جلائی۔

    ’’مراری سے مجھے مرمرے یاد آتے ہیں۔‘‘ مراری نے آگے کہا اور ہنسنے لگا۔ برہم دیو بھی ہنسا۔ اس نے سگریٹ کا گہرا کش لیا اور پوچھا، ’’یہاں ہری پور میں کیوں آئے؟‘‘

    ’’مجھے بھی کسی کی استھی وسرجت نہیں کرنی۔ میری کہانی بڑی عجیب ہے سنیں گے تو ہنسیں گے آپ۔‘‘

    ’’ایسا۔۔۔ کیا ہے سنائیے تو۔۔۔؟‘‘

    مراری رکا۔ ذرا سوچ میں پڑ گیا۔ برہم دیو اس کی طرف دیکھتا رہا۔ مراری کے چہرے پر سائے سے ناچ رہے تھے۔ اس نے چادر اچھی طرح سے لپیٹ لی۔ کھڑکی کا آخری ٹکڑا رہ گیا تھا اس کی طرف دیکھ کر مراری بولا، ’’کھڑکی کا ٹکڑاجلا دیا۔ کل منیجر خفا ہوگا؟‘‘

    برہم دیو خاموش رہا۔ اسے اچھالگ رہا تھا۔ چلوکچھ دیر کے لئے تو جی ہلکا ہوا۔ جسم کی گٹھری آگے پیچھے ہلاتے ہوئے وہ مراری کی باتیں سننے لگا۔ زیادہ تجسس نہیں تھا۔ پھر بھی وہ دھیان سے سننے لگا۔

    ’’تم یہاں اپنی قسمت جاننے آئے ہو۔ اپنا نصیب ڈھونڈنے آئے ہو مگر میں یہاں ایک کتے کو ڈھونڈنے آیا ہوں!‘‘

    برہم دیو کو دھچکا سا لگا۔

    ’’کیا۔۔۔‘‘

    برہم دیو حیرت زدہ مراری کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مگر مراری اپنی ہی دنیا میں گم تھا اس کی آنکھیں خوابیدہ سی ہو گئیں وہ ایک تاریک گوشے کی طرف دیکھتا رہا۔ گم سم۔ پھر داہنا ہاتھ سر پر پھیرتا ہوا بولا، ’’اس کتے کے پیچھے۔۔۔ اس کی تلاش میں پار سال ہری پور کا جانے کتنا علاقہ چھان مارا۔‘‘

    ’’کتے کے پیچھے۔۔۔ میں سمجھا نہیں۔‘‘ برہم دیو حیرت زدہ تھا۔

    ’’بتاتا ہوں۔‘‘

    مراری دوبارہ اندھیرے میں گھورنے لگا، ’’ہم اسی گاؤں کے رہنے والے۔ میں آخری’’کل دیپک۔‘‘ وہ ہنسنے لگا۔ برہم دیو نہیں ہنسا۔ اسے مراری کی ہنسی عجیب لگی۔ وہ ٹھڈی کے نیچے ہاتھ رکھے سننے لگا۔

    ’’اب اس گاؤں میں میرا کچھ نہیں۔ گھر نہیں۔ دار نہیں۔ آدمی بھی اب پہچانتے نہیں۔ میں یہاں رہتا تھا۔ اکیلا۔ کھیتی باڑی تھی۔۔۔ میں اسکول میں ٹیچرتھا۔ میں بھی پڑھا لکھا ہوں۔ ڈی ایڈ ہو۔ خوب شان وشوکت سے رہا۔ زیادہ تفصیل میں نہ جاکر، صرف اتنا کہتا ہوں کہ آس پاس کے لوگوں کے سوچنے کے مطابق میں ایک دم ناکارہ ثابت ہوا ہوں۔۔۔ ہاں تو ایک کتا پالا تھا۔ کتا یعنی کتا! بہت اچھا۔ جمبو اس کا نام رکھا تھا۔ اس کا خوب لاڈ کیا میں نے۔ اس کے گلے میں انگوٹھے جتنی موٹی زنجیر ڈالی۔۔۔ چاندی کی زنجیر۔۔۔ بعد میں جمبو کو پتہ نہیں کون سا روگ لگا۔ خارش ہوئی۔ زخم ہوئے، زخموں میں کیڑے کلبلانے لگے۔ وہ بھاگ گیا۔ پھر نظر نہ آیا۔ میں پڑوس کے گاؤں میں، جو یہاں سے اکیس کلومیٹر دور ہے ٹیچر ہوں۔۔۔ اب یہاں جمبو کو ڈھونڈتا ہوا آیا ہوں۔‘‘

    ’’ایک سال بعداس کی تحقیق کیوں؟ اور وہ کہاں ملےگا؟‘‘

    ’’ایسی خبریں ملتی رہیں درمیان میں کہ فلاں جگہ جمبو دکھائی دیا۔ فلاں جگہ نظر آیا۔ یہا ں کے لوگوں سے خبریں ملتی رہتی ہیں۔ تب میں آکر تلاش کرتا ہوں۔۔۔ وہ اب تک زندہ ہے مگر بہت ابتر حالت میں۔ کسی کو پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔ پاگل ہو گیا ہے۔‘‘

    برہم دیو سرد ہوتی آگ کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر ایک دم بولا، ’’لگتا ہے اس سے تمہیں بہت محبت ہے۔‘‘ پھر اس نے مراری کی طرف دیکھا۔ مراری کی آنکھوں میں پیار تھا اور نرمی تھی۔ مراری جذباتی ہوکر بولا، ’’صاحب آپ نے مجھ سے کچھ نہیں چھپایا پھر میں کیوں چھپاؤں۔۔۔ آپ میرے کمینے پن کو بھانپ گئے ہوں گے۔ دراصل میں اس چاندی کی زنجیر کی ٹوہ میں ہوں جو اس کے گلے میں ہے اس کا جسم سڑنے لگاہے۔ جسم پربال نہیں وہ جلد ہی مرےگا۔ مگر اب بھی اس کے گلے میں وہ چاندی کی زنجیر موجود ہے۔‘‘

    برہم دیو بڑے دھیان سے سن رہا تھا۔ مراری کی کہانی نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسے لگا اسے عجیب سی کہانی نے اس کے اندر ایک تناؤ سا پیدا کر دیا ہے۔ مراری نے بانہہ سے آنکھیں پونچھیں۔ گرمی کم ہو رہی تھی۔ سردی اب ان دونوں کے گرد چکر لگانے لگی تھی۔ مراری سردی سے کانپنے لگا۔ پھر بولا، ’’پہلے میں نے رنڈیوں کے کان میں چاندی کے جھمکے پہنائے۔۔۔ جب اچھے دن تھے۔ مگر اب ان کے پاس میں جاؤ ں تو وہ چپل دکھاتی ہیں۔ یہ جمبو۔ گونگا جانور ہے۔۔۔ مجھے پہچانے گا، اسے پھنساکر، اگر مارنا پڑا تو مارکر، وہ زنجیر حاصل کرنی ہے کسی طرح۔۔۔ بس اسی لئے یہ آوارگی جاری ہے۔‘‘

    اس نے پھر آنکھیں پونچھیں۔

    دونوں خاموش بیٹھے رہے۔

    آخری لکڑی جلی اور بجھ گئی۔ اندھیرا پھر قابض ہو گیا۔ بجھتی ہوئی آگ کے نارنجی رنگ کی طرف دیکھتے ہوئے مراری بولا، ’’آج اس زنجیرکی قیمت کتنی ہوگی؟ چاہے جتنی ہو۔ انگوٹھے جتنی موٹائی ہے اس کی۔ ساتھ میں ہک اور پٹی بھی ہے۔ میرے کام آئےگی۔‘‘

    ’’لوگوں نے اس کے گلے میں زنجیر سلامت کیسے رہنے دی؟‘‘

    ’’لوگوں نے خوب کوشش کی۔۔۔ پر صاحب وہ ہاتھ نہیں آتا بھاگ جاتا ہے۔ کسی کو پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔۔۔ خبر ہے کہ کل صبح دکھائی دیا تھا۔‘‘

    ’’ہنھ۔۔۔ پھر کل صبح سے ہی کھوج شروع۔‘‘

    ’’وہی دھندا۔۔۔‘‘

    ’’کہاں کہاں ڈھونڈوگے۔‘‘

    ’’اس کے ٹھکانے فکس ہیں صاحب! وہاں پہلے دیکھوں گا۔ کل سے یہی کام۔۔۔ تم کل۔۔۔؟‘‘

    ’’میں کرشن دیو شاستری سے ملنے جاؤں گا۔ کنڈلی لے کر۔‘‘

    ’’میں دکھاؤں گا تم کو۔۔۔ ان کا گھر۔‘‘

    برہم دیو بے چین ہو گیا۔

    ’’کل وہ کیا کہیں کچھ پتہ نہیں۔ ہو سکتا ہے کنڈلی پڑھنے میں کچھ وقت لگے۔۔۔ اس وقت تک میں کیا کروں گا۔ اس گاؤں میں کیا ہے دیکھنے لائق۔‘‘

    ’’دیکھنے لائق۔۔۔ خاک!‘‘ وہ ہنسا پھر ایک دم جوش میں آکر بولا، ’’سب سے بہتر صاحب میرے ساتھ کیوں نہیں آتے۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’جمبو کو ڈھونڈنے۔۔۔ وقت کٹے گا۔‘‘

    برہم دیو اس کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسے سوجھا نہیں کہ کیا کہنا ہے۔

    ’’کیوں پاپ کے کام میں ہاتھ بٹانا نہیں چاہئے۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ ایسا کچھ نہیں، میں یہاں اپنے کام سے آیا ہوں۔ اگرکل وقت ملا تو آؤں گا۔۔۔ وقت گزاری کے لئے۔۔۔ پر کاٹا تو۔۔۔؟‘‘

    ’’وہ ذمہ داری میری۔ آپ قریب آنا نہیں۔۔۔ تو طے۔ آئیں گے نا آپ۔۔۔ ایک سے دو بھلے۔‘‘

    ’’ہنھ۔‘‘

    آگ بجھ گئی۔۔۔ رات کا آخری پہر ہے۔۔۔ صبح کاذب کی ٹھنڈی ہوا جسم کو چبھنے لگی ہے۔۔۔ برہم دیونے باہر پھیلے اندھیرے کی طرف دیکھا۔ پھر جسم کی گٹھری بناکر آنکھیں میچ لیں۔ چادر تان کر لپیٹ لی۔ وہ بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگا اور اسے ڈراؤنے خواب دکھائی دینے لگے۔

    (۲)

    نالے میں پنڈلیوں تک پانی تھا اور پانی میں آسمان دکھائی دے رہا تھا۔ نالے کی دونوں جانب وادیوں میں گھنی گھاس تھی۔ اس کے بیچوں بیچ پگڈنڈی تھی۔ کیچڑ میں چلتے برہم دیو کو داہنی طرف دور دھندلا نارنجی رنگ کا گاؤں نظر آیا۔ گھر اور ان کی چھتیں۔ چھتوں سے آسمان تک دھوئیں کے مرغولے تھے۔۔۔ چاروں طرف کھیت تھے۔ جھاڑ جھنکاڑ تھے۔ برہم دیو کو لگا۔۔۔ کہاں آ گئے؟ کیوں آ گئے؟ کہاں جا رہے ہیں؟ کہاں کاٹی کل کی سرد رات؟ پرسوں تو اپن بمبئی میں بھاگ رہے تھے؟ کیا یہ سب اچھی کنڈلی میں لکھا ہے۔

    اس کی آنکھیں زرد سی تھیں اور چہرہ اترا ہوا۔ اس نے سامنے دیکھا۔ کچھ دور ہی مراری چلا جا رہا تھا۔ اس کے داہنے ہاتھ میں بیدکی چھڑی تھی۔۔۔ وہ جھک کر ٹوہ لیتا اور پھر کھڑا ہوکر کچھ سنتا۔۔۔ برہم دیو چوکس مگر بے ارادہ اس کے پیچھے چلتا رہا۔

    چاروں طرف خاموشی تھی۔

    قدموں کی دھمک سن کر مینڈک پانی میں کوتے پھاندتے۔ دور کوئی پرندہ کک کک چلا رہا تھا۔ اب تک انہوں نے دو ایک جگہیں دیکھ ڈالی تھیں جہاں جمبو کے ہونے کا گمان تھا۔ ادھر ادھر آتے جاتے لوگوں کی چبھتی نظروں سے اپنے آپ کو بچاتا برہم دیو، مراری کے ساتھ گھومتا رہا۔

    اب وہ نالے پر کھڑے تھے۔ برہم دیو سوچ رہا تھا کیا مراری کے ساتھ اپنا بھٹکنا بھی طے شدہ ہے۔

    مراری ایک دم رک گیا۔ نیچے جھک کر غور سے دیکھنے لگا۔ برہم دیو بھی ٹھٹک گیا۔ اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ دائیں طرف گہرے کیچڑ میں کسی جانور کے لوٹنے کی وجہ سے گھاس دب گئی تھی اور ایک گڑھا سا پیدا ہو گیا تھا۔ مراری بڑی مستعدی کے ساتھ وہاں اترا۔

    برہم دیو نے سانس روک لیا۔ مراری نیچے نالے میں اترا۔ مراری جھکا اس کی پنڈلیوں تک کیچڑ تھا۔ مراری نے بیدکی چھڑی گھاس میں کھبائی اور آگے جھک کر دیکھنے لگا۔ دو چار لمحے یوں ہی ہی بیت گئے۔ پھر ایک دم مسنڈی مار کر ایک کتا جان بچاکر دوڑنے لگا اور چڑھائی پر چڑھ گیا اور وہاں رک کر اس نے برہم دیو کی طرف دیکھا اور نالے کو پار کرکے بڑھے ہوئے گھنی جھاڑیوں کے بیچ وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ برہم دیو کے اوسان درست ہوئے۔ دل قابو میں نہیں تھا۔ وہ اندر سے کانپ رہا تھا۔

    کتا کیا تھا۔۔۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا، جسم پر جگہ جگہ زخم۔ چمڑی جھڑ گئی تھی۔ آنکھیں وحشت زدہ، لپلپاتی زبان! بڑا عجیب لگا۔ برہم دیو نے سوچا۔ اگر مجھ پر حملہ آور ہوتا تو۔۔۔ گلے میں ایک زنجیر تھی۔ چمکتی، لٹکتی، گھاؤ اور چاندی کی زنجیر۔۔۔!

    برہم دیونے دیکھا۔ مراری جمبو کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ پھر وہ گھٹنوں کے برابر کیچڑ میں جاکر رکا۔ بید کی چھڑی سر پر گر کر تھمانے لگا۔ چلانے لگا، ’’جائے گاکہاں۔ ایک وقت کا آدھا کلو گوشت کھلایا ہے تجھے۔ ہاں ایسے چھوڑوں گا نہیں۔‘‘

    تھوڑی دیر بعد۔۔۔ وہ برہم دیوکی طرف واپس آیا۔ اس کی سانس پھول گئی تھی۔ آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ تھوڑا رک کر بولا، ’’تی چامائے لا۔۔۔ بھاگ گیا۔‘‘

    ’’کیا اب ملےگا؟‘‘

    ’’ملےگا جائےگا کہاں؟ دیکھاے نا کتنا چوکس ہے وہ اور ہے نا زنجیر اس کے گلے میں؟‘‘

    ’’ہاں ہے نا۔۔۔ اچھی۔۔۔ مو۔ و۔ و۔ و۔ ٹی ہے۔‘‘

    مراری ہنسا۔

    ’’گھبرا گئے؟‘‘

    ’’میں۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ ایسے ہی ذرا۔۔۔ چلو جائیں گے۔‘‘ دونوں گاؤں کی طرف چلنے لگے۔ آگے دھول بھرا راستہ تھا۔ دھول اڑ رہی تھی۔ پانچ منٹ چلنے پر مراری رک گیا۔ ویسے اس کا سارا دھیان پیچھے کی طرف تھا۔ پھر انگلی دکھا کر بولا، ’’وہ پیپل کادرخت اس کے نیچے جو گھر ہے وہ جوتشی کا ہے۔ وہیں ایس ٹی کا اسٹاپ بھی ہے۔ برہم دیو ششدر رہ گیا۔ کل یہیں تو اسے بس نے چھوڑا تھا۔ پھر وہ اتنی دور دھرم شالہ گیا۔۔۔ اب کل جہاں اترا تھا وہیں واپس جا رہاہے۔۔۔ ہنس کر وہ بولا، ’’ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے!‘‘

    مراری کا دھیان نہیں تھا۔ وہ چونکا۔

    ’’کام نہیں ہوا تو دوپہر کو واپس آئیے صاحب۔ دو تین تک میں کمرہ نہیں چھوڑنے والا۔ دوپہر میں ہم جگدمبا ہوٹل میں مٹن کھائیں گے۔‘‘

    ’’دوپہر کمر ے پر تم نہ ملو تو۔‘‘

    ’’تو بھٹک رہا ہوں گا ایسے ہی ندی نالوں میں۔۔۔ پر میں لوٹوں گا تمہارے لئے۔‘‘

    برہم دیو فقط ہنسا۔۔۔ بولا، ’’اچھا۔۔۔‘‘ مراری چلا گیا۔

    تھیلی کندھے پر ڈالے سنبھل کر چلتے ہوئے برہم دیو پیپل کے درخت کے نیچے پہنچا۔ پیپل کے درخت کا جالی دار سایہ زمین پر تھا اور اندراوٹے پر بھی۔۔۔ گھر اندھیارا تھا۔ چھوٹا تھا۔ آس پاس کے لوگ اسے گھورنے لگے۔ وہ زینہ چڑھا۔ کھڑا رہا۔ اس نے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ جگہ کوئی دوسری تو نہیں ہے نا؟ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر کسے آواز دے۔ اس نے تھیلی کاندھے سے اتاری اور اوپرکی طرف دیکھا۔ آگے پیچھے دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد اندھیرے میں ایک بڑی بڑی آنکھوں والی ذراموٹی سی لڑکی باہ رآئی اور اس کی طرف ایک ٹک دیکھنے لگی۔

    ’’کرشن دیو شاستری یہیں رہتے ہیں نا؟‘‘

    لڑکی نے اس کی طرف کھوئی نظروں سے دیکھا پھر بولی، ’’ہاں آئیے۔۔۔ اندر آئیے۔‘‘

    اس کی آواز برہم دیو کو پسند آئی۔ لڑکی اندر گئی۔ برہم دیو نے چپلیں اتاریں۔ پاؤں کیچڑ میں سنے تھے۔ دہلیز پر پونچھنے کی کوشش کی۔ پھر اندر کمرے میں چلا آیا۔ اندر اندھیرا تھا۔ پہلے اسے کچھ نظر نہ آیا۔ ٹٹولتے ہوئے وہ نیچے بچھی شطرنجی پر بیٹھا۔ دیوار پر ایک دیوی کی تصویر ٹنگی تھی جو پورے جلال میں تھی۔ دیوار کا پلاسٹر ادھڑا ہوا تھا۔

    ایک بڑی تختی لگی تھی۔

    خصوصی سوال کے ۲۵ روپے۔

    کنڈلی دیکھنے کے ۲۰ روپے۔

    اس نے فوراً حساب لگایا۔۔۔ پچاس روپئے گئے تو گئے۔ تھوڑا بےفکر ہوکر وہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔ کسی جوتشی کے پاس پہنچے کہ اسے لگتا اپنی قسمت کی لکیریں یہاں اجاگر ہوں گی۔ پڑھی جائیں گی۔ اس لئے یہ خرچ کوئی فضول خرچ نہیں یہ اٹل واقعہ ہے۔ ایسا ہی کچھ اسے محسوس ہوا۔ اس نے تھیلی سے کنڈلی نکال کر سامنے رکھی۔۔۔ پھر انتظار کرنے لگا۔

    بائیں طرف دروازے پر آہٹ ہوئی اور اس لڑکی نے اندھیرے میں کسی کو سہارا دے کر اندر لایا اور دیوی کی تصویر کے سامنے شطرنجی پر برہم دیو کی طرف منہ کرکے بٹھا دیا۔ وہ آدمی بوڑھا تھا۔ وہ آدمی دونوں ہاتھ ٹیکے اپنے آپ کو سنبھالتا یوں بیٹھا جیسے گر پڑا ہو۔ لڑکی دیوار سے پیٹھ لگائے اندھیرے میں کھڑی رہی۔ برہم دیو کی بےچینی بڑھ گئی۔ لڑکی برہم دیو کو گھورنے لگی۔

    کرشن دیو شاستری نیچے سر کئے بیٹھے تھے۔ کوئی حرکت نہ تھی۔ ابھی تک جتنے جوتشیوں سے ملا وہ سب باتونی تھے مگر کرشن دیو بول نہیں رہے تھے۔

    وہ گھبرا گیا۔ ان کے بال داڑھی، مونچھ سب سفید تھے۔ انہوں نے ایک ہنکارہ بھرا۔ پھر بولے، ’’کہاں سے آئے۔‘‘

    ’’ممبئی سے۔۔۔ وہاں کے وہ چوہان ہیں ناریلوے میں۔ انہوں نے بتایا آپ کے بارے میں۔‘‘

    ’’چوہان۔۔۔ ہوں گے! وہاں ہمارے بہت سے جاننے والے ہیں۔‘‘ پھر ذرا ٹھہر کر کرشن دیو اچانک بولے، ’’یہ اوپر لگی تختی دیکھی ہے نا۔‘‘

    برہم دیو نے تختی پھر ایک مرتبہ دیکھی۔

    ’’ہاں۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔ تو بولو اب آپ کا سوال کیا ہے۔۔۔؟ کنڈلی لائے ہو؟‘‘ جوتشی کرشن دیو نے سر اوپر اٹھایا۔ منہ کھلا رکھے وہ چھت کو گھورنے لگے۔ برہم دیو کے جسم میں جھرجھری سی آئی۔ وہ شش وپنج میں پڑ گیا۔ کرشن دیو شاستری کی آنکھیں نقلی تھیں، ان کی آنکھیں چھت کے آرپار جانے کہاں دیکھ رہی تھیں۔

    ’’میں۔۔۔ مجھے۔۔۔‘‘ اسے سوجھا نہیں کہ کیا کہنا چاہئے۔ جھٹ اس نے لڑکی کی طرف دیکھا وہ چپ کھڑ ی تھی۔ کرشن دیو شاستری کا چہرہ تمتماتا ہوا تھا۔ بھاری آواز میں بولے، ’’گھبرا گئے کیا۔۔۔ مجھے پہلی مرتبہ دیکھنے والوں کی یہی حالت ہوتی ہے۔ تمہیں لگتا ہے جوتشی کنڈلی کیسے دیکھیں گے۔۔۔ میں تمہیں بتاؤں، یہ ہے ہماری سکھو۔۔۔‘‘ انہوں نے لڑکی کی طرف اشارہ کیا، وہ اس کام میں ہماری مدد کرتی ہے۔۔۔ میں کنڈلی کو دل کی آنکھوں سے پڑھتا ہوں۔ تمہیں شک گزرا ہوگا۔ مگر مجھے شہرت ملی اسی اندھے پن کی وجہ سے۔۔۔ میں پیدائشی اندھا ہوں!‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ شک نہیں ہوا مجھے۔‘‘

    ’’رہنے دیجئے۔۔۔ ہاں بولئے۔‘‘

    وہ پھر چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ آرپار۔۔۔ شاستری سننے کے لئے بے تاب۔ برہم دیو نے کہنے کی تیاری کی، لفظ ادھر ادھر سے جمع کئے سانس کھینچا۔ کہہ ڈالیں۔ اب صاف صاف کہہ ڈالیں۔ یہی وقت ہے۔ اس نے ایک مرتبہ اس لڑکی کی طرف دیکھا اور پھر نیچے دیکھتے ہوئے بولا، ’’میرا نام برہم دیو بنڈوجی۔۔۔ سر نیم کنڈلی پر لکھا ہے۔ میں نے اپنی راہ غلط چنی۔ مجھے ہمیشہ یہ لگا کہ میری شروعات غلط تھی۔۔۔ میں ایک دم پیسا گیا ہوں زندگی کے دو پاٹوں کے بیچ۔‘‘

    ’’پیدائش اور موت کے پاٹوں کے بیچ سبھی پیسے جاتے ہیں۔ آپ کا سوال کیا ہے۔۔۔ نوکری؟‘‘

    ’’بتاتا ہوں نا۔‘‘ اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ پھر ذرا آگے جھک کر بولا، ’’مناسب سرکاری نوکری نہیں ملی۔ بزنس کرنا چاہا مگر نہ کر سکا۔ مختصراً مجھ سے کچھ ہوا نہیں۔ ایک جوتشی نے بتایا’’ بھاگیہ اودے ہے۔ مگر شادی کے بعد۔۔۔ پر شادی کا موقع ابھی تک آیا نہیں۔ تیس سال کی عمر ہو گئی۔ بال سفید ہونے لگے۔ ایک مرتبہ خود کوشش کی۔۔۔ ہنسی ٹھٹھہ ہوا۔ لوگ کہنے لگے۔ یہ تو محلوں کے خواب دیکھنے لگا ہے۔ ایسی ہنسی ہونے پرمیں پریشان ہو گیا۔ رشتہ دار دور تھے اور دور ہو گئے۔۔۔‘‘ برہم دیو نے محسوس کیا اس کی آواز مدھم اور رونی رونی سی ہو گئی ہے۔ وہ چپ ہو گیا۔

    ’’تم شادی سے خوفزدہ تو نہیں ہو؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’جوتشی سے صاف صاف بولو۔‘‘

    برہم دیو کو لگا اپنی اس آوارگی اور کشمکش کا کیا اتنا آسان علاج ہے؟ لڑکی کا چہرہ تنا ہوا تھا اور ہونٹ بھنچے ہوئے۔ نظر اسی طرح سیدھی اور ایک ٹک۔۔۔ برہم دیو کو اچانک تعجب ہوا کہ لڑکی پر تناؤ کیسا؟ کیا چل رہا ہوگا اس کے دل میں؟

    کرشن دیو شاستری کا چہرہ۔۔۔

    ’’تو شادی کا یوگ۔۔۔ یہ تمہارا سوال ہے۔‘‘

    برہم دیو کچھ نہ بولا۔ وہ پاؤں کا انگوٹھا ہلانے لگا۔

    ’’کنڈلی لائے۔۔۔ دو۔‘‘

    اس نے کنڈلی ان کے سامنے پھیلائی۔ انہوں نے کنڈلی انگلیوں سے ٹٹولی۔ پھرلگ بھگ جیسے پڑھ لی۔ اپنی گود میں رکھی اور چھت کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’گھر میں کون کون ہیں؟‘‘

    ’’میرا۔۔۔؟ کوئی نہیں۔۔۔ میں ایک دم اکیلا ہوں۔‘‘

    ’’رشےدار‘‘

    ’’وہ سب چور نکلے، بھوکے۔۔۔ میں مروں گا تو بھی نہیں آئیں گے۔‘‘ پھر وہ لڑکی کو دیکھنے لگا۔ وہ اسی طرح دیوار سے پیٹھ لگائے کھڑی تھی۔

    ’’رہتے کہاں ہو؟‘‘

    ’’گرگاؤں میں۔۔۔ چال میں رہتا ہوں۔۔۔ اندھیرا۔۔۔‘‘

    ’’بمبئی میں سب ویسے ہی رہتے ہیں۔۔۔ خیر۔۔۔ رکنے کی تیاری سے آئے نا۔‘‘

    ’’ممکن ہو سکا تو آج جاؤں گا۔۔۔ یا زیادہ سے زیادہ کل۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ کل دوپہر ایک ڈیڑھ بجے آئیے۔ آج ہو گیا توآج ورنہ کل سکھو۔ سب لکھ کر رکھےگی۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔‘‘ اس نے جلدی جلدی پچاس روپئے کی نوٹ نکالی۔

    ’’لیجئے۔‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘ جوتشی بوکھلائے۔

    سکھو آگے آئی۔

    ’’پچاس روپئے دے رہے ہیں!‘‘ ایسا کہتے ہوئے اس نے نوٹ لے لی اور اندر چلی گئی۔۔۔ کرشن شاستری پتہ نہیں کیا سوچتے ہوئے سر کو ہاتھ سے لگائے بیٹھے رہے۔ سکھو باہر آئی اور اس نے سڑی تڑی نوٹیں واپس کیں۔ برہم دیو نے گنی نہیں۔ جیب میں ڈال لیں۔ بولا، ’’اچھا۔ آتا ہوں پھر۔۔۔ ڈیڑھ بجے۔‘‘ وہ اٹھنے لگا۔

    ’’کھیر کھاکر جائیے۔‘‘

    ’’کھیر۔۔۔‘‘

    ’’پرساد ہے دیوی کا۔۔۔ سکھوان کو دے۔‘‘

    پھر شاستری گہری فکر میں ڈوبے منہ کھلا چھوڑ کر چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ سکھو نے ان کی طرف غصہ سے دیکھا۔

    پھر وہ جرمن کی کالی کٹوری لائی۔ اس میں ویسا ہی کالا چمچہ بھی تھا۔ وہ اندر گئی۔۔۔ اور ایک میلے سے گلاس میں پانی لے کر آئی۔۔۔ کچھ فاصلے پر کھڑی رہی۔ برہم دیو کھانے لگا دھیرے دھیرے۔ مزہ لے کر۔ بیچ بیچ میں وہ اس کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ گلاس کبھی دائیں کبھی بائیں ہاتھ میں پکڑتی۔۔۔ پیپل کے پتے جھڑ رہے تھے۔ دہلیز پر۔۔۔ اوٹے پر۔۔۔ زینہ پر۔۔۔ ہوا چل رہی تھی۔۔۔ اسے لگا عورتیں کتنی پیاری ہوتی ہیں۔ عورت کی ذرا سی حرکت پر چوڑیوں کے میٹھی کھن کھن ہوتی ہے۔ وہ یونہی کھڑی رہے تو اس میں ایک بات ہوتی ہے۔۔۔ کیا عورت اس کے لئے ایک خواب ہے۔

    عورت کے سکھ سے وہ محروم رہا۔ پرعورت کو کیا اس طرح ہونا چاہئے۔ بڑی بڑی آنکھیں۔۔۔ میٹھی آواز۔۔۔ ذرا موٹی۔۔۔ نیچے کا ہونٹ ایسے ہی موٹا ہونا چاہئے۔ اس کے اندر پتہ نہیں دھیرے دھیرے کیسی لہریں اٹھنے لگیں۔ اس نے فوراً کٹوری نیچے رکھ دی۔ لڑکی نے فوراً پانی کا گلاس دیا۔ پانی پی کر وہ اٹھا اور تھیلی لے کر باہر نکل گیا۔

    پیچھے نہ دیکھتے ہوئے چلتا رہا۔ جب اس نے دل کو ٹٹولا تو پتہ چلا کہ لڑکی اچھی لگی ہے۔۔۔ پسند آئی ہے۔۔۔ وہ شرما گیا۔ اس کے کان کی لویں گرم ہونے لگیں۔

    دھول اڑ رہی تھی۔ دھوپ تھی۔ تھیلی کندھے سے لٹکائے چلتا ہو اوہ ندی پر آیا۔ لوگوں کا آنا جانا شروع تھا۔ دوسر ی طرف بلندی پر دھرم شالا تھی۔

    برہم دیو پل پر جاکر کھڑا ہو گیا وہ ابھی دھرم شالا نہیں جانا چاہتا تھا۔ ویسے مراری نے کہا تھا کہ وہ رکے گا۔ پر لگتا ہے مراری جمبو کو تلاش کر رہا ہوگا۔ دو تین گھنٹے کاٹنے تھے۔۔۔ بھوک لگنے تک، ندی کنارے، نالے کے پاس، پاؤں جہاں لے جائیں وہاں، بے مطلب گھومنے کا اس نے طے کیا۔۔۔ ایک دم اسے بےفکری کااحساس ہوا۔ اس لمحہ اپنی کنڈلی پڑھی جا رہی ہوگی۔ سوالوں کو جواب مل رہے ہوں گے اور سکھو۔۔۔ وہ سب لکھ رہی ہوگی۔ وہ خوش ہوا۔

    ایک چڑھائی پر درخت کے نیچے ایک پتھر تھا۔ سیندور سے اٹا ہوا۔ وہاں چھاؤں میں بیٹھ کر وہ ندی کی سمت دیکھنے لگا۔ دوسری طرف استھی وسرجن جل رہا تھا۔ لوگ ندی میں نہا رہے تھے۔

    بھوک لگی۔۔۔ وہ اٹھا۔

    مگر اسی لمحہ خوف سے سرد آگیا۔

    داہنی طرف گھنی جھاڑیوں کی چھاؤں میں جمبو کھڑا تھا اور اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چاروں طرف اکیری ہوئی مٹی تھی اور جمبو کی آنکھوں میں وحشت تھی جسم خون میں سنا تھا اور زبان لپلپا رہی تھی۔ گلے میں زنجیر تھی وہ غرغرانے لگا تھا۔ دہشت زدہ غراہٹ۔۔۔ کسی بھی وقت وہ حملہ آور ہو سکتا تھا۔ برہم دیو ساکت کھڑا اس کی طرف دیکھتا رہا۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ برہم دیو کسی بت کی طرح کھڑا رہا۔ چندلمحوں بعد جب خوف دور ہوا تو اس نے جمبو کی آنکھوں میں دیکھا اس کادل بھر آیا۔ وہ دل ہی دل میں بولا،

    ’’دوست۔۔۔ تو میری طرح ہی نظر آتا ہے۔ جہاں تو جانا چاہتا ہے وہاں نہیں جاتا۔ تیری آوارگی جاری ہے۔ دراصل تجھے مراری کے پاس جانا چاہئے۔ وہ تجھے آن کی آن میں نجات دلائےگا اس سڑے گلے جسم سے مکتی پائےگا۔ یہ گلے کاطوق نکل جائےگا۔۔۔ پر تو اس سے دور بھاگتا ہے۔۔۔ تو مجھے ملا مگر مجھے اس چاندی کی زنجیر کالا لچ نہیں۔۔۔ یہاں وہاں گرتا پڑتا میں بھی بھٹک رہا ہوں۔۔۔ تجھے بھی کیا لوگ ایک جگہ بیٹھنے دیتے ہیں۔۔۔ ‘‘

    دونوں ایک دوسرے کی طرف بہت دیر تک دیکھتے رہے۔

    (۳)

    برہم دیو۔۔۔ کرشن دیو شاستری کی طرف کھوئی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ وہ دیوی کی تصویر کے نیچے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے آنکھیں چھت پر لگی تھیں اور انگلیاں زمین ٹٹول رہی تھیں!

    وہ کچھ کہیں گے۔۔۔ کوئی اہم بات! اپنے مستقبل سے متعلق بتائیں گے اپنے بلند مستقبل کی چابیاں دیں گے! یہ سوچ کر اس نے سانس روکے رکھا اور چوکس بیٹھا رہا۔

    داہنی طرف کے دروازے سے دھوپ اندر آ رہی تھی اور اوٹے پر جالی دار سائے کانپ رہے تھے۔۔۔ پیپل کے پتے مسلسل گر رہے تھے۔ وہ ان کی طرف سے دھیان ہٹاتا اور اپنے آپ کو تیار کرتا تب پھر دوسرا پتہ گرتا۔۔۔ پھر آواز ہوتی۔ ویسے چاروں طرف خاموشی تھی۔ اس نے پھر شاستری کی طرف دیکھا۔ پھر وہ کھنکارا اور خاموش بیٹھ گیا۔ ایک دم کرشن دیو شاستری بولنے لگے، ’’آپ کی کنڈلی۔۔۔ آپ کے مستقبل کا لکھان ابھی تک شروع ہے۔ سکھو لکھ رہی ہے۔ شام تک پورا ہو جائے گا غالباً۔‘‘

    ’’تو۔۔۔ آج رکنا پڑےگا۔‘‘

    اس کی آنکھوں کے سامنے دھرم شالہ کاوہ کمرہ گھوم گیا۔۔۔ اور وہ سردی۔

    ’’کنڈلی دیکھی آپ نے؟‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، اسے لگا کہ یہ الفاظ اس نے استعمال نہیں کرنے چاہئے تھے۔

    ’’دیکھی۔۔۔ پوری طرح سے دیکھی۔۔۔ تھوڑا سا سنو۔‘‘ وہ رکے۔ برہم دیو آگے جھکا۔

    ’’ویسے آپ کی زندگی عامیانہ طور پر ہوگی۔ زندگی سے آپ نے بڑی بڑی توقعات بھی وابستہ نہیں کی ہیں۔‘‘

    برہم دیونے سر ہلایا۔

    ’’پر کہنا جو ہے وہ یہ نہیں ہے۔۔۔ خاص بات یہ ہے کہ آپ کو جو دوسرے جوتشیوں نے کہا وہ ایک دم صحیح ہے آپ کا بھاگیہ اودے ایک دم نزدیک آ گیا ہے۔ چونتیس ختم ہوتے ہوتے۔۔۔‘‘

    ہر ایک لفظ سنتے سنتے برہم دیو کے بدن پر پھول گرنے لگے۔ آنکھیں خوشی سے چمکنے لگی۔ آواز بھرانے لگی۔

    ’’پر چونتیس ختم ہونے کو دو مہینے رہ گئے۔‘‘

    ’’وہی میں کہہ رہا ہوں۔۔۔‘‘ کرشن دیو شاستری چھت کے آٓرپار دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔ برہم دیو چپ ہو گیا۔

    ’’شادی کا یوگ ہے۔ نزدیک آ گیا ہے۔ دو تین مہینوں کے فاصلے پر ہے۔ بس شادی کا یوگ آواز دے کر بلالیں، اتنی دور رہ گیا ہے‘‘

    ’’پھر۔۔۔ کب۔۔۔ کہاں؟‘‘

    ’’سنئے۔۔۔‘‘

    برہم دیونے کان کھڑے کر لئے۔ وہ ہمہ تن گوش بن گیا۔

    خاموشی تھی۔ بس دہلیز پر پتے جھڑ رہے تھے۔ باہر دھوپ۔

    ’’سنئے۔۔۔ آس پاس کون ہے؟‘‘ اس نے ایک بار تعجب سے دیکھا اور بولا، ’’کوئی نہیں۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ یہاں آئیے۔‘‘

    وہ آکے سرکا۔ دراصل وہ خوف زدہ تھا۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ کیا ہوگا؟ کر شن دیو شاستری نے ایک جھپٹا مارا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ برہم دیو بےچین ہو گیا۔ پھر اس نے دیکھا۔ کرشن دیو کا چہرہ نرم اور پیار بھرا تھا۔ چہرے کا کٹھورپن چلا گیا۔ ہونٹوں پر مسکان تھی۔ آنکھیں سفید مگر حرکت سی کرتی نظر آ رہی تھیں۔ کل جمع ان کا چہرہ یوں نظر آ رہا تھا جیسے گھنگھور برسات کے بعد نرم سنہری دھوپ پڑے۔۔۔ برہم دیو تعجب اور خوف کے ملے جلے جذبوں سے مغلوب ان کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے۔ ان کے ہونٹ تھرتھرا رہے تھے۔ ہاتھ کی پکڑ مضبوط ہو گئی تھی۔

    ’’بھاگیہ اودے۔ پرشادی کے بعد! شادی کا یوگ ایک دم نزدیک آ گیا ہے وہ ٹلےگا نہیں اور اگر ٹلا تو دوبارہ شادی کا یوگ آنا ناممکن ہے!‘‘

    برہم دیو خاموش۔ ا س کا سارا بدن لرز رہا تھا۔

    اگر ٹلا تو۔۔۔؟ شک بھی سر ابھار رہا تھا۔

    نرم آواز میں وہ بولے، ’’ہماری سکھو کو تم نے دیکھا ہے۔ اس سے شادی کرو۔‘‘ پھرچھت کی طرف گھورنے لگے۔ ان کا منہ کھلا تھا۔ نوجوان درخت جس طرح بھرپور ہوا سے جھوم جھوم جاتا ہے وہ مسرت سے جھوم رہا تھا۔۔۔ وہ کچھ نہ کہہ پایا۔ شاستری نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا۔ تھرتھراہٹ شروع ہو گئی۔

    ’’پر میں براہمن نہیں۔‘‘

    کرشن دیو فوراً بولے، ’’ہم تیار ہیں۔ پھر کس بات کی فکر۔ تمہارے رشتہ دار۔۔۔‘‘

    ’’ان کو کون پوچھتا ہے۔۔۔ حرام خور۔۔۔ بھو۔۔۔‘‘

    ’’میں نے سکھو کی کنڈلی دیکھی ہے۔ اس کا بھی یوگ نزدیک آ گیا ہے۔ تمہارے گن ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ہاں تو میں کیا سمجھوں، تمہاری قبولیت۔۔۔‘‘

    ’’قبولیت۔۔۔! قبولیت تو ہے انکار کب تھا۔‘‘ جہاں میں رہتا ہوں وہاں کی اندھیری دیواروں نے بھی چوڑیوں کی کھنک سننے کی قبولیت دی تھی کہ جب لوٹوں تو اپنے گھر ایک عورت کا وجود ہو۔ اپنے ہنسنے میں، اپنے جینے میں، رونے اور پیسے جانے میں اس وجود کا رنگ آئے۔ اکیلے رہنے کی سزا ختم ہوگی۔۔۔ پھر سکھ ہی سکھ۔ یہی چاہئے تھا۔۔۔ اسے توقع سے زیادہ خوشی کا احساس ہوا۔ وہ بولا اور خود ہی چونک گیا۔ وہ بولا، ’’اس وقت ہاں کیسے کہوں، تھوڑا سوچتا ہوں۔‘‘

    پھر ایک دم خاموشی چھا گئی۔۔۔ اتنی کہ اسے بھی محسوس ہوئی اور چبھنے لگی۔ دھیرے دھیرے کرشن دیو شاستری کا ولولہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ انہوں نے دھیرے دھیرے ہاتھ کی پکڑ ڈھیلی کی۔ پھر ہاتھ چھوڑ دیا۔ اب ان کا جوش ختم ہو گیا تھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ کٹھور دکھائی دینے لگے۔

    ’’سوچیں گے؟ کیا سوچیں گے۔۔۔ میں نے خود تمہارے آگے تجویز رکھی پھر بھی سوچیں گے؟ میں تو تم کو دیکھ بھی نہیں سکتا۔ کیسے دکھائی دیتے ہو۔۔۔ کالے یا گورے مجھے معلوم نہیں۔ میں نے بھروسہ کیا تمہاری کنڈلی پر اور تم ہو کہ سوچیں گے۔۔۔ سوچئے۔۔۔ سوچئے!‘‘

    دھیرے دھیرے ان کی آواز کرخت ہو گئی۔ جیسے وہ زخمی ہو گئے ہوں۔

    ’’میں کچھ غلط تو نہیں بول گیا۔۔۔‘‘ برہم دیو ایک دم ڈر گیا۔

    موقع ٹل تونہیں گیا؟ وہ سنبھل کر بولا، ’’میرا مطلب یہ نہیں تھا برائے مہربانی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں صبح آکر آپ سے بات کرتا ہوں۔‘‘

    ’’ہنھ۔۔۔‘‘ سسکاری چھوڑکر کرشن دیو شاستری چھت کے آرپار دیکھنے لگے۔۔۔ اور پھر کھسیانی ہنسی ہنس کر بولے، ’’ٹھیک ہے۔ آئیے صبح۔ اپنا فیصلہ سنائیے۔ میں انتظار کروں گا۔‘‘

    پھر وہ خاموش ہو گئے۔۔۔ خاموشی اتنی گہری ہوئی کہ لگا دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے وہ گہری نیند میں سو گئے ہوں!

    برہم دیو شاستری کے گھر سے باہر نکلا توجیسے اسے پنکھ لگے تھے۔ اس نے اندر جھانک کر دیکھا کہ کہیں آ س پاس سکھو تو نہیں؟ مگر وہ کہیں نہیں تھی۔ اسے سکھو کی میٹھی آواز یاد آئی۔ آنکھیں یاد آئیں۔۔۔ ہوگی وہ تھوڑی بڑی اور موٹی۔۔۔ مگر اپن کہاں چھوٹے ہیں۔۔۔ اور دیکھنے میں بھی معمولی! مگر وہ تو خوبصورت ہے۔

    برہم دیو تیز تیز چلنے لگا۔ درخت کو نہارنے لگا۔ پرندوں کو بغور دیکھنے لگا۔ ایک دو پتھر اٹھاکر گھنی جھاڑیوں میں پھینکے۔ آس پاس کوئی نہ تھا۔ دو تین لوگ اس کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔ اسے محسوس ہوا جتنی شاخیں اس درخت سے نکلی ہیں کاش خوشی ومسر ت کی اتنی ہی ڈالیاں اپنے جسم سے بھی اگیں۔ پھوٹیں، بڑھیں۔۔۔ اسے خود پر ہنسی آ گئی اور وہ شرما بھی گیا۔

    اب جانا چاہئے۔۔۔ مراری سے ملنا چاہئے۔۔۔ اسے کہنا چاہئے۔۔۔ کہ میں نے نصیب کو گردن سے پکڑ لیا ہے!

    وہ ندی پر پہنچا۔ تختوں سے بنا پل پار کیا۔ پھرا کیلا ہی دھرم شالہ کی طرف چلنے لگا۔ دھرم شالہ کے قریب ہی اسے مراری دوڑتا ہوا دکھائی دیا۔ پیچھے بچوں کا جمگھٹا تھا۔ وہ بیدکی چھڑی سر کے اوپر گول گول گھما رہا تھا۔ برہم دیو کو دور سے ہی دیکھ کر وہ رک گیا۔ سانس پھول گئی تھی۔ نزدیک آیا۔ ہنسا۔

    ’’انتظار کیا ہوگا تم نے میرا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ پھر کھانا کھا لیا۔‘‘

    ’’میرا سات جنموں کا نصیب مجھے چین لینے دےگا۔ اس کے پیچھے دوڑ رہا ہوں۔ پرآج میں اس کا پیچھا چھوڑوں گا نہیں۔‘‘

    بے وجہ ہنستے ہوئے برہم دیو بولا، ’’پھر ادھر کہاں سے آئے۔‘‘

    ’’یہاں دھرم شالہ میں دکھائی دیا۔ ایسا فون آیا تھا۔ اپنے پاس کیاسی آئی ڈی کم ہیں۔‘‘ ایسا کہہ کراس نے بچوں کی طرف دیکھا۔ بچے ہنسنے لگے۔ پھر وہ بچوں پر چلایا، ’’بھاگورے۔۔۔ صاحب آئے۔۔۔ بات کرنے دو۔‘‘

    بچے تتر بتر ہو گئے۔

    ’’ہش۔۔۔‘‘ سسکاری چھوڑتے ہوئے وہ دونوں درخت کی چھاؤں میں آ گئے۔۔۔ ندی کنارے گھنی جھاڑیاں تھیں۔ درخت تھے۔ چھاؤں تھی۔ وہاں سے دھرم شالہ کی کسی بھی وقت گرنے والی عمارت نظر آ رہی تھی۔ وہ دنوں درخت سے ٹیک لگائے بیٹھ گئے۔

    ’’کل رات بڑی تکلیف ہوئی مگر کسر نکل گئی بھوسڑی کے۔‘‘ پھروہ ہنسا۔ مراری نے اس کی طرف تعجب سے دیکھا۔

    ’’کیا۔۔۔ لگتا ہے۔۔۔ کوئی خوشخبری ملی ہے۔‘‘

    ’’ہاں ہے ایسی ہی بات ہے۔‘‘

    ’’کیا کہا اس نے؟‘‘

    ’’بولے بھاگیہ اودے ہے شادی کے بعد اور شادی کا یوگ ہے دو مہینوں میں اور پھر انہوں نے کیا کہا پتہ ہے۔۔۔‘‘ وہ پھر ہنسنے لگا۔

    ’’کیا کہا۔۔۔؟‘‘ مراری اب اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور غور سے سن رہا تھا۔

    ’’انہوں نے اپنی لڑکی کی تجویز میرے سامنے رکھی اور بولے اس سے شادی کرو۔‘‘

    ’’سکھو کے بارے میں کہا۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ابھی میں نے منظوری دی نہیں۔۔۔ کہابعد میں بتاؤں گا۔‘‘

    چند لمحے خاموش گزرے۔ پھر مراری نے برہم دیوکے کندھے پر ہاتھ رکھا اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ بڑی قربت اور اپنائیت کے ساتھ بولا، ’’صاحب منظوری مت دو۔۔۔ منظوری مت دو۔‘‘

    برہم دیو خاموش ہو گیا۔۔۔ ساکت۔۔۔ چہرہ لٹک گیا۔ آنکھوں میں اترے چہچہاتے پرندے اڑ گئے۔

    ’’منظوری مت دو۔۔۔ یعنی۔۔۔‘‘

    ’’نہیں صاحب۔‘‘

    ’’ارے پر کیوں؟ کیوں۔۔۔‘‘ وہ چڑ کر بولا۔ اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’صاحب! وہ دوسرے کی ہے۔ وہ اس کے ساتھ۔۔۔‘‘ اس نے عجیب سے ہاؤ بھاؤ کئے۔ برہم دیو کو کچھ سوجھا نہیں۔ وہ تنی ہوئی آنکھوں سے مراری کی طرف دیکھتا رہا۔

    ’’وہ جس کی ہے۔ وہ شخص شادی شدہ ہے۔ کالا ہے۔ پراسے کچھ نہیں۔ جنتر منتر کیا ہے اس شخص نے سکھوپر—سکھو اس پر مرتی ہے۔ سب کو معلوم ہے یہ، چھپتی نہیں ہے ایسی بات۔‘‘

    ارے پر کرشن شاستری۔

    ’’وہ بھی کیا کریں گے۔ اس کی شادی ہوئی نہیں۔ ادھر ادھر بات چلانے کی کوشش وہ کرتے ہیں۔ اس کی کنڈلی میں دوش ہے۔۔۔ اور پھر وہ جنم سے اندھے۔ کیا کریں گے۔‘‘

    ’’سکھو۔۔۔‘‘ برہم دیو بول نہ سکا۔ لفظ آڑے آئے۔

    ’’پہلے وہ ایسی نہ تھی۔ گھر میں کوئی دوسری عورت نہیں۔ وہ والدہ کی مددگار ہے اس لئے آدمیوں سے تعلق پیدا ہوگا ہی۔ جانے دو۔ وہ ناکارہ ہے۔‘‘ پھر وہ اداس ہوکر بولا، ’’چھوڑیئے۔۔۔ جانے دیجئے صاحب۔ اپنے آپ کو کسی پریکشا میں مت ڈالئے۔ اسے جس شخص نے پہلی دفعہ خراب کیا اس کا کبھی بھلا نہیں ہوا۔ مقدر ہی تو ہی ہے!‘‘

    اس نے سسکاری بھری۔ اس نے دوبارہ برہم دیو کی آنکھوں میں دیکھا۔ دونوں ہاتھ اس نے برہم دیو کے کندھے پر رکھے۔ برہم دیو دور افق میں دیکھنے لگا۔ دھیرے دھیرے اس کی آنکھیں گیلی ہو گئیں، ’’برامت مانئے صاحب۔ وہ آپ کی جوڑ نہیں۔ جانے دو۔‘‘

    برہم دیو سر نیچے جھکائے بیٹھا رہا۔ بہت دیر تک۔ اسے لگا مراری اس کی طرف بڑی فکرمندی سے دیکھ رہا تھا۔ برہم دیونے سر اٹھایا اور رونی آواز میں بولا، ’’تم جمبو کو ڈھونڈنے جاؤ۔ میں آرام کرتا ہوں کمرے میں۔ تالا ہے کیا؟‘‘

    ’’نہیں صاحب۔ وہاں ایسا کیا ہے تالا لگانے کے لئے۔‘‘

    ’’اچھا تو میں چلتا ہوں۔ شام کو واپس آؤ مٹن کھائیں گے جگدمبا ہوٹل میں۔۔۔‘‘ برہم دیو عجیب انداز میں ہنسنے لگا۔ مراری نہیں ہنسا۔ اس نے چھڑی اٹھائی اور گھنی جھاڑیوں میں چلا گیا۔

    برہم دیو اٹھا۔ لگ بھگ دوڑتا ہوا دھرم شالہ کی طرف چلا۔ دوڑتے ہوئے زینہ چڑھا۔ دروازہ کی کڑی نکالی۔ دروازہ دھکیلا اور چارپائی پر چت سو گیا۔۔۔ چھت کی طرف خالی نظروں سے دیکھنے لگا۔ دل کا درد اب آنسوؤں میں بدل گیا۔ اسے مراری پر غصہ آیا۔ کس بات سے یہ ثابت ہوکہ وہ سچ کہہ رہا ہے؟ وہ اپنا کون؟ اس نے یہ سب کیو ں کہہ دیا؟ اس نے ایک تخیلی کہانی سنائی مجھے بھگانے کے لئے۔ منہ کا نوالہ چھیننے کے لئے۔ یہ پلان تو نصیب نے ترتیب دیا۔ وہ حرام خور ہے۔ نالائق ہے۔ اسے خوب مارنا چاہئے۔۔۔ مار ڈالنا چاہئے۔

    برہم دیو غصے میں مراری کی چارپائی کو لات مارتا رہا۔

    دھوپ اترنے لگی۔ اوٹے پر جالی دار سائے غائب ہو گئے۔ برہم دیو نے اندر جھانکا۔ مگر اندھیرے کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہمت کرکے وہ زینہ چڑھا پر رک گیا۔ دروازے کے ذرا باہر دیوار سے ٹیک لگائے سکھو کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ کا گول بنڈل تھا۔ وہ اس کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ چندلمحہ وہ بھی۔

    اس نے اندر کی آہٹ پائی۔۔۔ باہر راستہ کی طرف دیکھا۔ پھر دبی ہوئی آواز میں بولی، ’’آپ آئیں گے اس کا یقین تھا۔ اسی لئے میں انتظار کر رہی تھی۔‘‘

    برہم دیو خاموش کھڑا رہا۔

    ’’گاؤں کے لوگوں نے آپ کو جو کچھ بھی بتایا ہوگا وہ سچ ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ میں نے سنی وہ باتیں۔ پر میں اس پر بھروسہ۔۔۔‘‘

    ’’کیجئے۔۔۔ بھروسہ کیجئے۔۔۔ وہ سچ ہے۔ میں عورت ہوں۔ زیادہ وضاحت نہیں کر سکتی۔۔۔‘‘ اس نے پھر اندر کی طرف دیکھا اور بولی، ’’میں ایسی ہی ہوں۔ میں زیادہ بول نہ سکوں گی۔ لوگ دیکھیں گے۔ آپ منظوری نہ دیں۔ یہ لیجئے آپ کا مستقبل۔‘‘ اس نے کاغذ کا بنڈل برہم دیو کے ہاتھ میں دے دیا۔

    ’’پر۔۔۔ پر کرشن دیو شاستری؟‘‘

    ’’ان سے ملنے کی ضرورت نہیں۔ نہ ملیں تو بہتر ہے۔ کوئی مطلب نہیں۔‘‘ پھر آہستہ سے بولی۔ ’’میری شادی نہیں ہوئی۔ اسی لئے ان کے دل و دماغ پر اثر ہو گیا ہے۔ باہر سے آنے والوں کو وہ ایسا ہی کہتے ہیں غلط سلط مستقبل لکھ کر دیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کوئی تو ہاں کہےگا۔ پر آپ کو دیکھ کر مجھے ڈر لگ رہا تھا—‘‘ وہ رکی۔ اس نے ہونٹ دبا لئے تھے دانتوں کے بیچ۔ چہرہ تن گیا تھا پر اس نے آنسو آنکھوں کی آڑ میں ہی روک رکھے ہوں گے۔

    ’’آپ لوٹ جائیے۔‘‘

    وہ بہرہ ہو گیا۔ وہ ذرا اونچی آواز میں بولی، ’’میرا ارادہ نہیں، یہ پکا سمجھئے۔‘‘ اس نے راستے کی جانب دیکھا۔ پھر دو قدم نیچے کی طرف سرکی۔ اندھیرے میں کھڑی رہی۔ برہم دیو نے سسکاری بھری۔ پھر ایک زینہ اترکر بولا، ’’آپ کہتی ہیں اس لئے۔ ورنہ میں منظوری دینے آیا تھا۔ اب تو سوال ہی ختم ہو گیا۔‘‘

    وہ خاموش رہی۔

    برہم دیو بھاری قدموں سے زینہ اترا۔ ادھرادھر نہ دیکھتے ہوئے چلتا رہا۔ کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ درخت خوشی سے جھوم نہیں رہے تھے۔ کچھ دور جاکر اس نے پلٹ کر دیکھا۔ سکھو ابھی تک ا س کی طرف ہی دیکھتی کھڑی تھی۔ اس نے بانہہ سے آنکھیں پونچھیں اور ندی کی سمت چل پڑا۔

    (۴)

    پل پار کرکے وہ دھرم شالہ میں آیا۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ اس نے اندر دیکھا مراری اپنی چارپائی پر سر پکڑے بیٹھا تھا۔ گود میں بیڈکی چھڑی آڑی رکھی تھی۔ برہم دیو اندر آیا۔ چارپائی پر پھینکی ہوئی تھیلی ویسے ہی پڑی تھی۔ اسے اٹھایا۔ اس میں کاغذ کا بنڈل کھونسا۔ پھر جانے کی تیاری میں، تھیلی گود میں لئے مودب انداز میں، مراری کے سامنے بیٹھا۔ مراری نے سر اٹھایا۔ اس کا چہرہ تھکا ہوا لگا۔

    ’’کیا۔۔۔ ملا کیا جمبو؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ تی چاآئے لا۔۔۔ سب جگہ ڈھونڈ ڈھونڈکر تھک تھکاکر ابھی آیا ہوں۔‘‘

    ’’آج جائیں گے۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ اب کس لئے رکیں۔۔۔ جانے کے لئے ایس ٹی ملےگی نا۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ رات کو ہے آٹھ بجے۔‘‘

    ’’ہنھ۔۔۔‘‘ برہم دیو خاموش رہا۔ رات کی ادھ جلی لکڑی کی طرف دیکھنے لگا۔ آنکھیں چیزوں کی تفصیل نوٹ کر رہی تھی۔ مگر دل خوش نہ تھا۔ اسی لئے تفصیلات کے معنی د ل تک نہیں پہنچتے تھے۔ مراری نے کہا، ’’آپ کو مجھ پر غصہ آیا ہوگا۔‘‘

    ’’نہیں نہیں۔۔۔ غصہ کیسا۔۔۔ چلتا ہے۔‘‘

    مراری ہونٹ تھرتھرانے لگے۔ کیا کہنا چاہئے اسے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا دبی گھٹی آواز میں بولا، ’’میں نے تم جیسے نیک آدمی کادل دکھایا۔ مجھے معاف کر دو۔‘‘ پھر وہ برہم دیو کے پاؤں پر سر ٹیکنے کی کوشش کرنے لگا۔ برہم دیو شش وپنج میں تھا۔ اس نے مراری کے کندھے پکڑے۔ اسے اوپر اٹھایا۔ پھر چارپائی پر دھکیلا۔

    ’’ایسا مت کرو اور میں کون سانیک آدمی۔ نیکی بدی کچھ نہیں ہوتی بھوسڑی کے نصیب ہوتے ہیں سب کچھ۔‘‘ دونوں چپ رہے۔ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ پھر برہم دیو بولا، ’’تم آؤگے بمبئی۔۔۔ پتہ لکھ کر دیتاہوں۔۔۔ میں ملوں گا۔‘‘

    ایک سیال جذبہ مراری کے چہرے پرامڑا۔ اس کا اندرون بھر آیا۔

    ’’میں کیوں آنے لگا ممبئی صاحب اوراب آپ پھر کیوں ہری پور آئیں گے! یہ آخری ملاقات اپنی کبھی پوچھ تاچھ کریں گے تولوگ کہیں گے وہ مراری ایسے ہی کہیں مر گیا اور اسے ہری پور ندی میں پھینک دیا۔ بس یہی انجام میرا۔‘‘

    دھیرے دھیرے مراری رونے لگا۔ اس کے دل میں کیا تھا برہم دیو کو پتہ نہ چلا۔ مراری نے آنکھیں پونچھیں اور بولا، ’’سچ کہتا ہوں صاحب۔ میرا انجام بہت برا ہوگا۔ جمبو زندہ رہےگا پر میں زندہ نہیں رہوں گا۔ جمبو پاس نہیں آئےگا۔۔۔ آپ جیسے نیک لوگ ملے۔۔۔ بس ہو گیا اور کیا چاہئے۔

    برہم دیو ہنسا۔ مراری کی طرف دیکھنے لگا۔

    ’’اتفاقات کہنا چاہئے اور کیا۔۔۔‘‘

    برہم دیونے سارے کمرے میں نظر ڈالی۔ ایک بوجھ سا دل پر محسوس کیا۔ سسکاری بھرکر بولا، ’’ہنھ۔۔۔ چلیں۔۔۔ اپنا بھی اب جانے کا وقت ہو گیا۔ اب ہم کبھی یہاں نہیں آئیں گے۔ ہمارا فائنل نتیجہ نکلا ہے۔‘‘

    ’’برے اعمال کا برا نتیجہ۔۔۔ کوڑا کرکٹ ڈھونڈتے ہوئے گھومنے کاوقت آ پڑا۔۔۔ جانے دو۔‘‘

    برہم دیو دیوار کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کے ذہن میں ابھی تک وہی اندھیارا گھر تھا۔

    ’’دیکھئے صاحب۔ آپ نے نصیب کہا تھا۔ یوں ہوتا ہے کہ نصیب ڈھونڈنے کے لئے دنیا بھر میں بھٹکو اور وہ رہتا ہے بغل میں۔‘‘ ایسا کہہ کر اس نے اپنی چارپائی کی گادی لپیٹی۔ چارپائی کے نیچے جمبو بیٹھا تھا۔ چپ چاپ۔ ادھ مراسا۔

    برہم دیو پہلے واقعے سے سنورا نہیں تھا۔ مشینی انداز میں اس نے پاؤں اوپر اٹھا لئے اور جمبو کی طرف دیکھنے لگا۔ مراری جمبو کو پچکارنے لگا، ’’چک چک۔۔۔ یو۔۔۔ یو۔۔۔ ‘‘

    مراری چارپائی کے نیچے گھٹنوں کے بل گھسا اور زنجیر کو ہاتھ لگایا۔ مراری نے زنجیر کے ہک کو ہاتھ لگایا، اسی لمحہ جیسے جمبو کو ہوش آیا۔ اس نے مراری کے ہاتھ کو زور سے کاٹ کھایا۔ پھر بہت زور سے مسٹنڈی مارکر دوڑتا ہوا باہر گیا۔۔۔ مراری زور سے چلا اٹھا۔ دروازے میں گرا۔۔۔ جمبو اس پر حملہ آور ہوا اس کی پنڈلی پکڑ لی۔ اگلے ہی لمحے پھر اپنی جان بچاکر ندی کی طرف جنگلوں میں بھاگ کھڑا ہوا۔

    سورج کی آخری کرنوں میں گلے میں بندھا چمکتا ہوا پٹا برہم دیو نے کھڑکی سے دیکھا۔۔۔ مراری اٹھا۔۔۔ پاجامہ لال ہو گیا تھا۔۔۔ خون ٹپک رہا تھا۔

    اس نے بیدکی چھڑی اٹھائی اور جمبو کو گالیاں دیتا۔ سر پر چھڑی گول گول گھماتا ایک پرجوش سپاہی کی طرح جمبو کے پیچھے دوڑا اور غائب ہو گیا۔

    اسے اسی طرح جی جان سے دوڑتے ہوئے برہم دیو نے آخری بار دیکھا اور پھر اس نے آنکھیں موندلیں۔۔۔ اس پیپل کے درخت تلے اندھیرے گھر کے سامنے ایس ٹی اسٹاپ پر جانے سے پہلے ہی لوٹنے والی بس میں وہ جا بیٹھا تھا۔

    آنکھیں موندلیں تب اسے لگا کہ آفتاب غروب ہو گیا ہے۔

    مأخذ:

    Imkan (Pg. 95)

      • ناشر: مہاراشٹرا اردو، اکادمی
      • سن اشاعت: 1988

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے