Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آنسو کی مسکراہٹ

للیتامبیکا انترجنم

آنسو کی مسکراہٹ

للیتامبیکا انترجنم

MORE BYللیتامبیکا انترجنم

    آنسو کی زبان جانتے ہو تم۔۔۔؟ دکھ کی تحریر۔۔۔؟ تو لکھ لو۔۔۔ میں کہانی کہوں۔۔۔! کئی دن سے دل میں دبار کھی ہے مگر آج وہ باہر نکلنے کے لیے مچل رہی ہے۔ کئی لوگ تیار ہوئے۔۔۔ مگر اس کے لیے موزوں طریق اظہار کسی کے پاس نہیں ہے۔ نہ اس طرح کا کاغذ ہے۔۔۔ آخرکار تمہارے پاس آیا ہوں۔

    بولو۔۔۔ روشنی کے سایے۔۔۔ اور خوب صورتی کی مسکراہٹ۔۔۔ دونوں کو سمجھ کراس کی تصویرکشی کر سکتے ہو۔۔۔؟

    اب یہ مت پوچھو کہ آنسو کیا ہیں۔۔۔ اس کا زمانہ بیت گیا۔

    اب تو پسینے اور خون کی قیمت ہے۔ لوگ یہی کہتے ہیں۔

    ٹھیک ہے، میں اپنا سارا خون آپ کودے دوں۔۔۔ مگر ایک بوند۔۔۔

    آنسو۔۔۔ اس دن مینی نے بھی یہی کہا تھا۔

    ’’ایک بوند آنسو مجھے دیجیے بھائی۔۔۔ اس کے بدلے میں آپ کو مسکراہٹ دوں گی۔۔۔ صرف ایک بوند آنسو۔۔۔‘‘

    مگر وہ نہیں جانتا تھا۔ اتنا بڑا امیر آدمی ہونے پر بھی اس دن صرف وہ نہیں تھا۔ مینی انتظار کرتی رہی۔۔۔ اس مسکراہٹ کو اس نے مرجھانے نہیں دیا اور انتظار کرتی رہی۔

    اس کے جانے کے بعد۔۔ اس کی پھول جیسی مسکراہٹ کے مرجھانے کے بعد ہی مجھے وہ نشانی ملی۔ اس نے جانے کے بعداسے جنت سے بہا دیا اور میں اس میں بہتا بہتا اس کے پاس جا رہا ہوں، جب میں اس سے ملوں گا تو آنسو کی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کروں گا۔۔۔ مینی حیران ہوگی۔

    اب مینی کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔

    اس کے بارے میں کچھ پوچھوگے تو میں مصیبت میں پڑ جاؤں گا۔۔۔ وہ بیوی ہے۔۔۔ محبوبہ ہے۔۔۔ بیٹی ہے۔۔۔؟ یا بہن ہے۔۔۔؟ ایک مرد کے لیے عورت، ان ہی میں سے ایک روپ میں آتی ہے لیکن مینی میری کوئی نہیں تھی۔ یا پھر سمجھ لو کہ وہ میری سب کچھ تھی۔

    لیکن ایک بات ہے۔ اس نے مجھے پیار کرنا سکھایا تھا۔

    پیار۔۔۔ ایک جرم کے طور پر نہیں۔۔۔ بلکہ زندگی کے ایک تجربہ کے طور پر۔۔۔ اگرچہ تم میرے بیچ میں ٹوک دیے جانے پرجھنجھلانے لگوگے لیکن میں پہلے ایک سوال ضرور کروں گا۔۔۔ عورت ذات کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔۔۔؟ ماں۔۔۔ بہن۔۔۔ محبوبہ۔۔۔ اور اسی طرح کے دوسرے رشتوں کے بارے میں؟

    بچپن میں میراشاعر دوست سوچتا تھا۔

    ’’دونوں آنکھیں کمل کے پھولوں جیسی ہوں۔ ہونٹ گلاب کی پنکھڑیاں۔ پیشانی چاند کی طرح دمکتی ہوئی۔۔۔‘‘ مگر ان سب کے ملنے سے صرف دل میں دھڑکن پیدا ہوتی ہے اور گرم گرم تپتے ہوئے آنسو ملتے ہیں۔ میرے تخیل میں ماں کا کانپتا ہوا گرم دل ابھی تک محفوظ ہے۔۔۔ صرف ایک بار بہن مجھے اداس نظر آئی تھی۔ جب وہ سسرال جا رہی تھی۔ باقی سب ٹھنڈے برف جیسے تھے۔ رنگین کھلونوں کی طرح۔۔۔ صرف ایک پل کی خوشی کی خواہش ہے۔

    اس کے بعد چھوڑ دوں گا۔۔۔ مینی کو دیکھنے کے باوجود بہت دنوں تک یہی خیال رہا۔

    لیکن ایسا ہونے کے بعدرنگین پتنگ کی طرح ہلکورے لیتی پھرنے والی لڑکیوں کو دیکھ کر کوئی منہ موڑ سکتا ہے۔۔۔؟

    لڑکی۔۔۔؟ ہاں لڑکیوں کے بارے میں ہی کہہ رہا ہوں۔

    گیارہ اور پندرہ برس کے درمیان کی عمر، بےدھڑک بچپن اور ابھرتی ہوئی جوانی کاخوبصورت سنگم ہوتی ہے۔ موتی کی طرح چمکدار اس زندگی کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے ایک دھندلی دھندلی سی روشنی کا احساس ہوتا ہے۔ دھند میں چمکنے والے نوخیز پودوں کوتوڑنے کے لیے ایک اجنبی انگلی کافی ہے۔ اس کا ٹوٹنا۔۔۔ اور اس کی ہولناکی۔۔۔ کیا ہم چاروں طرف نہیں دیکھتے ہیں! کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرتا ہے۔ ہم اپنے اوپر بھی اعتبار نہیں کرتے ہیں۔

    مینی نے مجھ سے ایک دن کہا تھا، ’’ایک باریہ کہہ دیجیے کہ آپ کسی پر اعتبار کرتے ہیں۔ کسی کو یقین کے ساتھ چاہتے ہیں۔‘‘ اس دن تو میں نے کچھ نہیں کہا۔۔۔ اس دن تک میں نے اس پر اعتبار نہیں کیا تھا۔۔۔ مگر شاید آج۔۔۔ ابھی آخری پل میں ساری رگیں زور سے چلا اٹھی ہیں، ’’مینی میں ایک آدمی پر اعتبار کرتا ہوں۔ اس سے محبت کرتا ہوں۔۔۔ اس دنیا میں محبت کرنے کے لائق ایک ہی تھی۔۔۔ وہ آنسوؤں کی مسکراہٹ تھی۔۔۔ سایے کی روشنی تھی۔ اسے۔۔۔ صرف اس کو میں نے پیار کیا تھا۔۔۔ اسے خبر کیے بغیر۔۔۔ پھر بھی میں نے اسے ستایا ہے۔ مجھے مجرم سمجھے بغیر ہی معاف کر دو۔‘‘

    میں عورتوں سے کیسے نفرت کرنے لگا، اس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ماں کے مرنے کے بعد۔۔۔ بہن کے سسرال جانے کے بعد۔۔۔ میں اکیلا رہ گیا۔ تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا مگر رشتےداروں کی کمی نے مجھے پھر پڑھائی میں مشغول کر دیا۔ تعلیم ہی سے میری زندگی شروع ہوئی۔ میں ایک لائبریری سے دوسری لائبریری کی طرف جانے لگا۔ لکھنے پڑھنے میں کھو گیا۔ مذہب، شاستر، آرٹ، ویدانت وغیرہ جتنی چیزیں میرے دماغ میں سماسکتی تھیں، اس سے زیادہ بوجھ بڑھتا گیا۔

    کئی لوگ کہتے تھے کہ میں پڑھتے پڑھتے پاگل ہو جاؤں گا مگرمیرا دماغ خرا ب ہونے کی بجائے اور پختہ ہوتا گیا۔ میں نے کیا کیا دیکھا۔۔۔؟ چاندنی کی ٹھنڈک میں۔۔۔ دن کی تیز روشنی میں۔۔۔ کانچ کی سی صاف شفاف روشنی میں۔۔۔ ہر جگہ سایے تھے اور سایے سے مجھے نفرت تھی۔ کیونکہ میں اس سے ڈر گیا تھا۔ اس لیے سایا بنانے والے سے بھی نفرت کرنے لگا۔ کیا سایے کے بغیر کسی وجود کا تصور ممکن ہے؟ میں نے کبھی پیچھے کی طرف مڑکر نہیں دیکھا۔ سب چراغ بجھاکر، گہرے اندھیرے میں لیٹ گیا تو فکریں اور پریشانیاں سر پٹکنے لگیں۔ جہاں سایے کا گزر نہیں ہے وہاں صرف اندھیرا ہے۔۔۔ گہرا اندھیرا۔

    بہت دن ہوئے۔۔۔ سایے کا گہرا احساس رکھنے والی مجھے صرف ایک ہی ملی۔ وہ ہے مینی۔۔۔ مجھے سایے سے جتنی نفرت تھی، وہ اتنے ہی پیار کے ساتھ سایے سے کھیلتی تھی۔ یہ نفرت اور محبت کا کیسا عجیب وغریب امتزاج تھا! ایسے دو آدمیوں کا آپس میں پیار کرنا۔۔۔ تم غلط مت سمجھو۔۔۔ روشنی اور سایے کا ملاپ ایک فطری بات ہے۔

    میرا ایک دوست تھا۔ (میرے بہت سے دوست نہیں تھے) لیکن میں اسے ایک دوست ہی کی طرح سمجھتا تھا۔

    گھر میں کتابوں کی بڑی الماری میری دوست ہے اور جن گھروں میں کتابوں سے بھری الماریاں ہیں میں ان کا بھی دوست ہوں۔ لیکن ہنسنے کھیلنے یا کافی پینے کے لیے نہیں۔ ان گھروں کے رہنے والے ہر شخص سے میرا کبھی تعارف نہیں ہوا۔

    ایک طرح سے مینی نے ہی مجھے دوست بنایا۔ اچانک ایک غلط فہمی نے یہ سب کر ڈالا۔ اس گھر میں پہلی بار گیا تھا۔ ایک جلسے میں گرماگرم بحث مباحثے کے بعدجب ہم گھر لوٹ رہے تھے تو میرے دوست نے کہا، ’’یہ دیکھو۔۔۔ ہرے رنگ کے پھاٹک والا گھر ہمارا ہے۔‘‘ پھر اس نے دعوت دی، ’’آؤ کافی پی کر چلے جانا۔‘‘

    اس پیش کش کو میں نے خاموشی سے قبول کر لیا۔ مجھے لائبریری روم میں بٹھاکر میرا دوست اندر چلا گیا۔ میں ایک موٹی سی کتاب میز پر سے اٹھاکر دیکھنے لگا۔ وہ سائیکلوجی کی کتاب تھی۔ دنیا میں شہرت حاصل کرنے کے لیے ایک بڑے آدمی کی کئی برسوں کی محنت کا پھل۔۔۔ میں کچھ سوچنے لگا۔ پھر سر گھماکر دیکھا تو اچانک پیچھے سے آواز آئی۔

    ’’نہیں بھائی نہیں۔۔۔ ارے ارے۔۔۔ اسے ہلاؤ مت۔۔۔ لو تم نے میری ساری تصویر ہی خراب کر دی۔‘‘

    میں چونک پڑا۔۔۔ کچھ ڈرا بھی۔۔۔ میرے سامنے کمرے میں کوئی نہیں آیا تھا، پھر بھی میں نے کسی کی آواز سنی تھی۔۔۔؟

    اسی وقت میزکی آڑ میں کھڑی ایک چھوٹی سی لڑکی میں نے دیکھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک نیلے رنگ کی پنسل تھی اوراس کی نوک دیوار پر بننے والی ادھوری تصویر پر تھی۔ سر ایک طرف کو جھکائے، بایاں ہاتھ جبڑے پر ٹکائے ہوئے، ایک بھدے سے مرد کا اسکیچ تھا۔ اس میں سر کے علاوہ باقی حصہ میرے جسم کے سایے کے ساتھ کھڑا تھا۔

    میں زور سے ہنس پڑا۔۔۔ ہنستے ہنستے دم گھٹنے لگا۔ میری ہنسی سن کر وہ شرما کے بھاگنے لگی۔ لیکن میں نے اسے پکڑ کے اس کی حوصلہ افزائی کی، ’’آؤآؤ۔۔۔ میں پہلے کی طرح سر جھکاکر بیٹھ جاتا ہوں۔۔۔ دیکھو اسے کھینچ دو۔۔۔ اوہو۔۔۔ کتنی اچھی تصویر تھی۔ میں نے بگاڑ دی۔‘‘ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ شرم سے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے وہیں کھڑی رہی۔

    ’’کیوں منی۔۔۔ اسی طرح کمرے میں بیٹھنے والوں کی تصویر بناتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ پھر۔۔۔ صرف بھائی یہاں بیٹھتے ہیں۔۔۔ بھائی کی تصویر بنانے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ کبھی کبھی گھوڑے کی طرح۔‘‘

    ’’اور کبھی کبھی گدھے جیسی!‘‘

    میں قہقہہ مار کے ہنس پڑا۔ ’’بھائی کا سایہ گھوڑے کی طرح ہے تو میرا گدھے کی طرح ہوگا۔ تجھے سایے سے ڈر نہیں لگتا؟‘‘

    ’’ڈر کس بات کا۔۔۔؟‘‘ اس نے سر اوپر اٹھایا۔۔۔ ’’سایے سے کیا ڈرنا۔۔۔؟ سایا تو ہر ایک کا ہوتا ہے۔ اسے دیکھنے میں کتنا مزہ آتا ہے۔۔۔؟‘‘ اس نے سر ہلایا۔ اب اس کی آنکھوں کی جھجھک دور ہو گئی تھی۔ اپنے پسندیدہ موضوع پر وہ کھل کرباتیں کرنے لگی۔

    ’’سایے سے کیسے کھیل سکتے ہیں؟ میں آپ کو دکھا دوں گی۔ دیکھو ان دیواروں کی طرف دیکھو۔۔۔ میرے منہ کی طرف مت دیکھو۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’دیوار پر دیکھونا۔۔۔ ایک گھوڑا کود رہا ہے۔۔۔ وہ چلا۔۔۔ پھر گھوڑے پر ایک سپاہی آ بیٹھا—‘‘

    وہ انگلیوں کوایک خاص طرح سے حرکت دے رہی تھی۔ اس سایے کو دیکھنے سے ایسا لگتا تھا جیسے سچ مچ گھوڑا کود رہا ہو۔ گھٹنے ٹیک کر۔۔۔ سر جھکاکر اور بالوں کی ایک جھکی ہوئی لٹ کو آگے کی طرف لٹکاکر اس نے ہاتھی دکھایا۔۔۔ پھر بندر نچایا۔ چارپانچ منٹ تک کھیل دکھاکر اس نے ایک کامیاب مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’یہ سب بہت آسان کام ہے مگر اب اور کھیل دکھانے کے لیے بھائی کی ضرورت ہے۔ میں بھائی کے ساتھ سایے میں لڑوں گی۔۔۔ سرکس دکھاؤں گی۔۔۔ تمہاری بہن کو یہ کمال نہیں آتا؟‘‘

    ’’میری کوئی بہن نہیں ہے۔‘‘ میں نے بڑے دکھ سے کہا۔

    ’’ہوتی بھی تو میں اسے یہ کھیل نہیں سکھا سکتا تھا۔ تم میری چھوٹی بہن بنوگی۔۔۔؟‘‘

    اس نے بتایا، ’’گھرمیں سب لوگ مجھے چھوٹی بہن کہتے ہیں مگر میرا نام مینی ہے۔‘‘

    اسے اپنا نام سننا پسند ہے۔ لیکن میں بھی کیا اسے مینی ہی پکاروں گا۔

    ’’مسٹر، آپ اتنی جلدی میری میری چھوٹی بہن سے متعارف ہو گئے؟‘‘ دوست کی آواز آئی۔

    ’’اسے کسی سے ڈر نہیں لگتا۔ یہ تمہیں بھی سایوں کے اوٹ میں ماہر بنا رہی ہوگی۔‘‘

    میں نے کہا، ’’نہیں۔۔۔ مینی بتا رہی ہے کہ سایے سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ اس نے مجھے سمجھایا ہے کہ میرا بھی سایا ہے اور یہ سایہ دوسروں سے ٹکرا سکتا ہے۔۔۔ مینی میں تمہارے بھائی کی طرح گھوڑا یا گدھا نہیں بن سکتا اور تمہاری طرح بندر بننا بھی مشکل ہے۔‘‘

    مینی نے جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں، پھر روہانسی آواز میں بولی، ’’میں بندریا کی بچی نہیں ہوں۔‘‘ اوریہ کہہ کر ایک دم بھاگ گئی۔ اس کے جانے کے بعدبھی آنسوؤں کے موتی بکھرائی ہوئی اس کی ہنسی ایک جنگلی جھرنے کی آواز کی طرح کمرے میں گونجتی رہی۔ میرا دوست ہنسنے لگا۔

    ’’بڑی نٹ کھٹ ہے۔ کسی وجہ کے بغیر روتی ہے۔ کبھی ہنستی ہے، کبھی لڑتی ہے۔ ایک ہی بہن ہے، اس لیے سب اسے بہت چاہتے ہیں۔ وہ گھر میں نہ ہو تو کوئی گھر میں نہ رہے۔ بچہ نہ ہو تو گھر گھر نہیں لگتا نا؟‘‘ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ہم کتابوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ سیاسی حالات پر سوچ بچار کیا اور میں خوش خوش گھر چلا آیا۔

    زندگی میں پہلی بار پیار کی ایک کرن نے مجھے چھوا تھا۔ مینی کا گھر میرا گھر ہو گیا۔ اس کے والدین مجھے اپنا سمجھتے تھے۔ سارے خاندان نے پہلے کبھی مجھے یوں نہیں چاہا تھا۔ نفسیاتی طور پر میرا اپنا جو عقیدہ تھا، اب اس کی اہمیت کم ہونے لگی۔ مینی میری توجہ کا مرکز بن گئی۔ اس کا ایک ایک روپ میں نے دیکھا۔ اس کی ہر تبدیلی پر غور کیا۔ وہ لڑکی۔۔۔ فراک کے بدلے اسکرٹ اور بلاؤز پہننے لگی۔ اس کا سایا لمبا ہونے لگا۔ اس کے خیالات بدلنے لگے۔ پرائمری سے ہائی اسکول کی جانب بڑھنے لگی۔ پھر بھی ہمارے بیچ میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔

    مینی مجھے ’’بڑا بھائی‘‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ وہ مجھ سے ہر طرح کے سوال کرتی ہے۔ ’’اسکول کی ٹیچر کے سمجھائے بغیر کوئی حساب کا سوال غلط ہو جائے تو مارنا ٹھیک ہے کیا۔۔۔؟ مری کوئٹی اور جان کے جھگڑے میں کس کی طرف داری کرنا چاہئے؟‘‘

    ایسی ہی اوربہت سی باتیں۔۔۔ لیکن ایسے سوال جو کتاب میں نہ ہوں ان کا جواب دینا مجھے نہیں آتا تھا لیکن مینی سمجھتی تھی کہ اتنی بڑی بڑی کتابیں پڑھنے کی وجہ سے میں ہر بات جانتا ہوں۔

    مینی میں اور مجھ میں گرماگرم بحث و تکرار ہوتی تھی۔ میں کہتا تھا کہ لڑکیاں بالکل احمق اور ناقابل اعتماد ہوتی ہیں۔ ان میں مردوں کے مقابلے میں آٹھ فیصد بھی عقل نہیں ہوتی۔ ان کے کھوکھلے سروں میں چاند کی روشنی کے سوا اور کیا ہے۔۔۔؟ مینی نے جوش میں آکر کہتی تھی، ’’چاندنی میں کیا کمی ہے بھائی؟ کیا تم نے روشنی کا سایا دیکھا ہے! چاندنی کا سایا۔۔۔‘‘ وہ کہتی، ’’مرد کے دماغ میں روشنی کی بجائے یا تو گہرا اندھیرا ہوتا ہے، یا کڑی دھوپ۔‘‘

    اس طرح کا بحث مباحثہ ہمیشہ چلتا رہتا تھا۔ ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا، ’’آپ کی رائے میں عورت کیا ہے؟‘‘

    ’’چاندنی کا سایا۔‘‘ میں نے بڑے پرسکون لہجہ میں جواب دیا۔ اس نے بڑی نرمی سے مجھے سمجھایا، ’’نہیں بھائی آنسو کی مسکراہٹ۔۔۔ یہ صحیح لفظ ہے۔‘‘

    یہ لڑکیاں بھی کتنی جلدی بڑھتی ہیں۔ ایک مرد ایک برس میں جتنی دور چل سکتا ہے، ایک عورت یہ فاصلہ محض چھ مہینے میں طے کر لیتی ہے۔ میں ایک اخبار کی نوکری کے سلسلے میں دوبرس تک باہر رہا۔ واپس آیا تو الگنی پراسکرٹ کے بدلے ساری پھیلی تھی۔ گھرمیں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے مینی کے لیے جو مٹھائی خریدی تھی اسے دیکھ کر میرا دوست ہنسنے لگا۔

    ’’ایڈیٹر صاحب! آپ بہت بےوقوف ہیں۔ مینی اب کوئی بچی تھوڑی ہے۔ اگر تمہارا دماغ ٹھکانے پر ہوتا تو مٹھائی کے بدلے اس کے لیے کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈ لاتے۔ مگر اس کام میں بھی تم ہار گئے۔ اگلے مہینے کی پندرہ تاریخ کو اس کی شادی ہے۔۔۔ یار تم نے وہاں سے ایک خط نہیں بھیجا!‘‘ میں نے دانتوں تلے انگلی دبالی۔ مٹھائی کا پیکٹ میرے ہاتھ سے گرپڑا۔ آج سے مینی لڑکی نہیں رہی کیا۔۔۔؟ اسے کسی کی بیوی بننا ہے۔ لیکن مجھے چھوٹی بہن کہاں ملےگی؟ مینی کو دیکھے بغیر میں گھر لوٹ آیا۔ کیا میں اسے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔؟

    میں اس گھر میں ایک قریبی رشتہ دار اور دوست کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ میں مینی اور اس کی ماں کو دیکھ سکتا تھا۔

    شاید۔۔۔! اس وقت ہمارے بیچ میں ایک موٹی سی ریشم کی ساری ہوتی۔۔۔ کالے بارڈر والی ریشم کی ساری۔۔۔ میری مینی کبھی نہ بڑھی تو۔۔۔ کبھی۔۔۔

    دعوت نامہ ملنے کے باوجود میں مینی کی شادی میں نہیں گیا۔

    اس کا شوہر پولیس انسپکٹر تھا۔ موٹا اور پیسے والا۔۔۔ مینی سسرال چلی گئی۔

    کیا میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔۔۔؟

    نہیں۔۔ اس عمر میں تو میں نے اسے دیکھا بھی نہیں تھا۔

    خشک اور بےمزہ شاستر پڑھنے کے دن آگے بڑھ رہے تھے۔

    چھ مہینے۔۔۔ ایک سال۔۔۔ یا کتنے۔۔۔؟

    اس طرح کافی عرضہ گزر گیا۔۔۔ مینی کو کبھی نہیں دیکھ سکا۔

    ایک سیاسی جلسے میں فائرنگ ہوئی۔ اس میں میرا دوست مر گیا اور اپنے ہی بہنوئی کی گولی سے مرا۔ مجھے اس کی لاش گھر پہنچانا تھا۔ روز کی طرح مینی گھر پر تھی۔۔۔ ماں باپ۔۔۔! اس دکھ بھرے منظر کا ذکر میں نہیں کروں گا۔

    اس کے ماں باپ کی حالت ایسی تھی جیسے انہیں بجلی کا شاک لگ گیا ہو۔۔۔ ان ماں باپ کے سامنے، بھائی کی لاش کے سامنے۔۔۔ موت کے اس ماحول میں عورت مینی کو میں نے دیکھا۔۔۔ وہ روئی نہیں۔۔۔ بےہوش بھی نہیں ہوئی۔ کسی مورتی کی طرح چپ چاپ، اپنے بھائی کی چھاتی سے بہتے ہوئے خون کو پلک جھپکائے بغیر دیکھ رہی تھی۔ اس کے شوہر کے ہاتھ سے یہ جرم سرزد ہوا تھا۔ اپنے جسم میں پلنے والے بیٹے کے باپ کے ہاتھوں۔

    ’’مینی۔۔۔؟‘‘

    ’’بھیا۔۔۔؟‘‘ وہ چونک پڑی، ’’بھیا۔۔۔ میرے بڑے بھیا۔۔۔ تو ان لوگوں نے مجھ سے جو کچھ کہاہے وہ جھوٹ ہے۔ میرا پیارا بھائی نہیں مرا۔ میرے شوہر نے کسی بھائی کو نہیں مارا۔۔۔ میرا بھائی ہے۔ ہمیشہ کے لیے میرا بھائی۔۔۔ ہے نابھیا۔۔۔؟ ہے نا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘ میں زور سے بولا۔ صرف اس کو مطمئن کرنے کے لیے نہیں۔ مجھے بھی ایک بہن چاہئے، مرجھائی ہوئی زندگی کو جگانے کے لیے۔ دکھ بانٹنے کے لیے۔ مینی کے علاوہ اور کوئی اس قابل نہیں ہے۔

    دوست کی صحت منداور خوبصورت لاش پلنگ پر بےحس و حرکت پڑی تھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا، پھر اس کے بے آنسوؤں والی آنکھوں کی طرف۔۔۔ مینی کی یہ حالت کیا بھائی سہ سکتا تھا؟ میں چھوٹی بہن کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا۔ اس کے بکھرے ہوئے بال ٹھیک کیے۔‘‘ روؤ مت مینی۔۔۔ میری پیاری بہن رو مت۔‘‘ میں نے اسے ڈھارس دی۔

    ’’تمہارا بھائی ہے۔ دو مل کر ایک ہو گئے ہیں۔ یہ بات تم سے بھائی کہہ رہاہے۔۔۔ رو مت۔۔۔‘‘ مینی کا گلا جیسے گھٹ سا گیا۔ وہ میری چھاتی سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔ جیسے موسلادھار بارش میں ننھی سی چڑیا اپنی ماں کے پروں میں دبک جائے۔ آنسوؤں سے بھیگے ہوئے، گلے ہوئے کاغذ کی طرح گالوں پر میں نے پوری آزادی سے پیار کر لیا۔ دکھ سے دکھ کا پیار۔ زندگی اور موت دونوں کی ڈھارس کا بوسہ۔۔۔ کنوارا۔۔۔ بےرحم۔۔۔

    تم چاہے کچھ کہو۔۔۔ لیکن میں اس پر فخر کرتا ہوں۔ بھائی کو مارنے والے اس انسپکٹر نے بھی یہ منظر دیکھا۔

    ’’مینی۔۔۔ میری لاڈلی چھوٹی بہن۔۔۔! تیری زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی ہوگی! اگر میں یہ بات اس دن جانتا تو۔۔۔ تو۔۔۔ تو۔۔۔ تو۔۔۔‘‘

    کہانی ختم ہو گئی۔ اب مینی کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ تمہاری روشنائی ختم ہو جائے۔ خیالات ختم ہو جائیں۔ اس وقت تک لکھتے رہو۔۔۔ میں اس کا چاہنے والاہوں کیا؟ لوگ اسے طوائف سمجھتے ہیں، جو چاہو لکھ ڈالو۔۔۔

    مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ بھی کوئی اعتراض نہیں کرےگی۔

    اس قاتل انسپکٹر نے شک کیا۔۔۔ مارا۔۔۔ قید کیا۔۔۔ مگر اس نے کسی بات کی شکایت نہیں کی۔ اسے قبول بھی نہیں کیا۔ وہ پاکباز اور نیک بیوی کی طرح ایک خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے چلی گئی۔

    پرانے سایوں والی تصویروں سے بھرے کمرے میں، جس پلنگ پر پہلے بھائی لیٹا تھا اسی پر میں نے مینی کو دیکھا۔ پرانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر جھلک رہی تھی۔ ہزار ہزار آنسوؤں کی بوندوں سے پروئی ہوئی مسکراہٹ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے پوچھا، ’’بڑے بھائی۔۔۔ یہ عورت کیا ہے۔۔۔؟‘‘

    میرے گلے میں کپکپی آ گئی۔ میں اس سے متفق ہو گیا۔

    ’’عورت آنسو کی مسکراہٹ ہے!‘‘

    ’’صرف عورت ہی نہیں شاید مرد بھی۔‘‘

    مأخذ:

    ملیالم افسانے (Pg. 73)

      • ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1972

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے