Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آسیب

MORE BYمدرا راکشس

    وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر ان کا مکان گیا کہاں؟ سموچا مکان کیا یکایک غائب ہو سکتا تھا؟ کیا ایسا بھی ممکن تھا کہ سب کچھ وہاں ہو، بس ان کا مکان ہی کہیں غائب ہو گیا ہو؟ گلی، گلی کے چبوترے، مزار، پیپل کا درخت، بدبو پھیلاتی ہوئی موریاں، گلی میں کھلتے کچے پاخانے، گھروں سے پھینکا گیا کوڑا۔۔۔سب کچھ تو تھا۔ گلی کے باہر جاکر تراہے سے وہ گلی میں پھر داخل ہوئے۔ پھر وہی الجھن۔ اس بار وہ بڑی احتیاط سے ہر چیز کو پہچانتے گئے تھے، پر نہیں دکھا تو ان کا اپنا مکان۔ جسے ٹھیک ٹھیک بھرا پرا کہا جا سکتا ہے، ایسا مکان تھا۔ بیوی، بچے، ایک چھوٹے متوسط گھرانے کا سامان۔ کیا ایسا سچ مچ ممکن ہو سکتا تھا کہ باقی سب کچھ وہاں موجود ہو اور ان کا مکان ندارد ہو جائے، بیوی بچوں سمیت؟

    کیا انہیں ہی کوئی دھوکا ہوا تھا یا وہ کسی غلط گلی میں آ گئے؟ کیا ان کی گلی کوئی دوسری ہے؟ کہیں اور ہے؟ دھیرے دھیرے وہ گلی سے باہر آئے۔ گلی میں جس طرح سے وہ داخل ہوئے تھے، اُدھر ایک تراہا تھا اور اس تراہے سے ہٹ کر پانچ گلیوں کا ایک چھوٹا سا چوک تھا۔ وہ تراہے تک ہی نہیں، پانچ گلیوں کے اس تنگ سے چوک تک واپس آ گئے۔ یہاں بیچوں بیچ جھنڈے کے لیے لوہے کی چھڑ گڑی تھی۔ اسے انہوں نے غور سے دیکھا۔ اس پر پندرہ اگست اور چھبیس جنوری کو پرچم لہرایا جاتا تھا۔ چوک کے ایک کونے پر بہت پرانا نیم کا درخت تھا اور درخت کے تنے سے سٹا چھوٹا سا ایک مندر۔ اسے بھی انہوں نے پہچانا۔ اس مندر کو وہ پسند نہیں کرتے تھے، بلکہ اگر ان کا بس چلتا تو وہ اسے توڑ ہی دیتے۔ ان کا تعلق آریہ سماج سے تھا اور وہ بت پرستی کے سخت مخالف تھے۔ انہیں ایک مرتبہ اس بات پر غصہ بھی آیا تھا کہ آریہ سماج کے چیئرمین لالہ دیو کی نندن اس مندر میں ہونے والی بھگوتی جاگرن کی شوبھا بڑھا رہے تھے۔

    اس مندر کے پاس انہوں نے دھیرج سے اندازہ لگایا کہ ان کے مکان کو کون سا راستہ جاتا ہے۔ ویسے تو سب راستے ایک سے ہی تھے۔ سبھی جگہ جگہ سے کھدائی کی وجہ سے اوبڑ کھابڑ ہو گئے تھے۔ سبھی راستوں پر لوگوں نے اپنے چبوترے آگے کھسکا لیے تھے۔ سبھی پر راستہ گھیر کر سودا لگانے والے ٹھیلوں، چارپائیوں اور اینٹوں کے ڈھیر تھے۔ انہی اینٹوں کے ڈھیر سے کبھی کبھی چپ چاپ کوئی چبوترا اور چوڑا ہو جاتا تھا اور نشے کی حالت میں جھگڑتے ہوئے لوگ انہی اینٹوں سے ایک دوسرے کو زخمی بھی کر دیتے تھے۔

    اس بار وہ کوئی بھول نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آخر عمر ہو گئی ہے۔ عمر بڑھنے پر تھوڑا بہت حافظے کی کمزوری کا مسئلہ ہوتا ہی ہے۔ پر اتنا تو نہیں ہو سکتا اور اسے حافظے کی کمزوری بھی کیوں کہا جائے؟ کتنی ہی باتیں وہ اس درمیان سوچتے رہے تھے۔ انہیں تمباکو خریدنا تھا اور وہ اس دکان پر جا کھڑے ہوئے تھے جہاں سے بالوں میں لگانے والا تیل خریدتے رہے ہیں۔ تمباکو خریدتے خریدتے انہوں نے سوچا، وہ کچھ بادام ضرور خرید لیں گے۔ پیسے لائے ہوتے تو خرید بھی لیتے۔ چار پانچ بادام کھانے سے دماغ میں طاقت آتی ہے، انہوں نے سوچا تھا۔ خیر، ادھر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ فی الحال گھر کا راستہ نہ بھٹک جائیں، یہی زیادہ ضروری ہے۔ ادھر ادھر سے دھیان ہٹاکر انہوں نے اپنی گلی کی جانی پہچانی نشانیوں پر مرکوز رکھنا چاہا۔

    جلدی ہی ان کی الجھن بڑھ گئی۔ گلی کی پہچان والی نشانیوں کی جگہ ان کے دماغ میں ایک سنگیت گونج رہا تھا اور سنگیت بھی وہ جس سے وہ نفرت کرتے تھے، بھگوتی جاگرن کا کرخت سنگیت۔ اس چھوٹے سے چوک کے ننھے سے مندر کو دیکھ کر انہیں وہ یاد آیا تھا اور ان کے بھیجے کے اندر بجے جا رہا تھا، گھڑیال، جھانجھ، کھڑتال، ڈھولک، ہارمونیم کے ساتھ۔ انہوں نے بے دلی سے سر جھٹکا، جیسے ماتھے پر بیٹھ رہی کسی ضدی مکھی کو اڑا رہے ہوں۔ پر وہی گانا ایک لمحے کے لیے ان سے الگ ہوکر پھر جیسے ان کے سر سے آ چپکا۔ اس سنگیت کا شور بہت زیادہ تھا، اتنا زیادہ کہ باقی کسی چیز کی جگہ وہ ان کے دماغ میں نہیں چھوڑ رہا تھا۔ کوئی تصویر بھی وہاں ٹک نہیں پارہی تھی۔ اس شور کے چلتے سڑک کو پہچاننے میں دماغ کیسے لگے آخر؟

    اس بار، اس بار تو گھر پہنچنا ہی ہے۔ وہ اپنا گھر کھوج نہیں پا رہے، یہ بات ابھی تک کسی اور کو پتا نہیں تھی۔ انہوں نے آس پاس دیکھا۔ ہلو سبزی والا اپنے ٹھیلے پر رکھی سبزی نالی کے پاس لگے ہینڈ پمپ سے بھگو رہا تھا۔ اس سے وہ خوش نہیں تھے۔ وہ ہری سبزی کا دام زیادہ بولتا تھا اور انہیں لگتا تھا کہ وہ صرف انھی سے زیادہ دام بولتا ہے۔ شاید ان سے چڑتا ہے۔ پر وہ انہیں باقاعدہ نمستے بھی کرتا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی اس نے نمستے کیا اور سبزی پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا۔ اسے مسکراکر جواب دینے کے بعد وہ آگے بڑھ آئے۔

    بہت زور زور سے فلمی گانے بجاتا ہوا مدی تمبو قنات کا سامان سنبھال رہا تھا۔ اس سے ان کا کئی بار جھگڑا ہو چکا تھا۔ آریہ سماج کی تقریبوں کے لیے تمبو قنات وہی لگاتا تھا اور ہر بار کوئی نہ کوئی گھٹیاپن کرتا رہتا تھا۔ چاٹ والا پنالال بھی دکھائی دیا۔ اس کے ایک کمرے کے مکان میں اس کے نہانے دھونے کی جگہ بھی تھی، کھانا بنانے کی بھی اور سات بچوں سمیت سارے کے سارے سوتے بھی وہیں تھے۔ اپنی چاٹ کا سامان وہ چھت پر بناتا تھا۔ اس وقت وہ اپنے ٹھیلے سے دیگچیاں اور مسالے اتار رہا تھا۔

    انہیں لگا کہ ان کے دماغ میں گھومتا سنگیت غائب ہو گیا ہے۔ انہیں خاصا اطمینان ہوا۔ اب وہ یہ بھول جانا چاہتے تھے کہ وہ اپنا مکان بھول گئے ہیں اور پھر سے کھوجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید اس طرح سہج ہو جانے پر وہ حادثہ پھر نہ ہو۔ وہ اب اطمینان سے آگے بڑھے۔ انہیں یقین ہو چکا تھا کہ اس بار اپنے آپ ان کے قدم اپنے گھر کے سامنے ہی پہنچ کر رکیں گے۔

    اب انہیں اپنے آپ پر تھوڑی ہنسی آئی۔ غنیمت ہے کہ انہوں نے گھبراہٹ میں کسی سے کہا نہیں کہ وہ اپنا گھر بھول گئے ہیں۔

    پچھلے کچھ عرصے سے ان کے ساتھ کچھ گڑبڑیاں ہونے لگی تھیں، پر وہ ان کا سامنا ہمت سے کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک بار غور کیا کہ گھر میں جہاں وہ پیشاب کرتے تھے، وہاں چیونٹے لگنے لگے ہیں۔ انہوں نے حکمت اور ویدک کی بہت سی پرانی کتابیں اکٹھی کر رکھی تھیں۔ کئی روز انہیں الٹنے پلٹنے کے بعد معلوم ہوا، یہ ذیابطیس کی بیماری کی نشانی ہے۔ اب انہوں نے اس کا علاج شروع کیا۔ وہ ڈھولک اور ہارمونیم بہت اچھا بجاتے تھے۔ دونوں باجے بہت اچھی حالت میں رکھتے تھے۔ پر ذیابیطس کے لیے انہوں نے اپنے اس طبلے کا دایاں کھول ڈالا، جسے انہوں نے کچھ دن پہلے ہی خریدا تھا۔ چمڑے کی ڈوری اور منڈھی ہوئی کھال کے ساتھ طبلہ ملانے والے لکڑی کے گٹے ایک تھیلے میں باندھ کر حفاظت سے رکھ لیے تھے۔ طبلے میں وہ رات کو پانی بھر لیتے تھے۔ وہی پانی وہ دوسرے دن پیتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ جامن کے پیڑ کی چھال لے آتے تھے۔ اسے وہ چندن کی طرح ہر صبح پیستے تھے اور پی لیتے تھے۔

    یہ سب وہ کرتے رہے اور کسی کسی دن پیشاب میں چیونٹے لگتے نہ دکھائی دیتے تو وہ خوش بھی ہوتے تھے۔ پر دوچار روز بعد چیونٹے پھر لگنے لگتے۔ ایک دن راستے میں انہیں چکر آ گیا۔ سب کچھ بہت تیزی سے گھوما اور وہ بری طرح لڑکھڑائے، پھر ایک کھمبے کا سہارا لے کر پاس کی دکان کے چبوترے پر بیٹھ گئے۔ دکاندار نے انہیں ایک گلاس پانی پلایا۔ سنبھل کر وہ گھر لوٹے اور اپنی کتابیں پھر کھول لیں۔ کتابوں میں دیکھ کر کئی دن تک پالک کا رس پیتے رہے اور دوبارہ چکر نہیں آیا تو خوش ہوئے تھے۔ طبلے کو دوا میں بدل لینے کے بعد وہ اب ڈھولک پر زیادہ انحصار کرتے تھے۔

    وہ پیشہ ور بجانے والے نہیں تھے۔ گاؤں میں ہی انہوں نے ننھکو کہار سے ڈھولک سیکھ لی تھی۔ بعد میں انہیں شہر کے کباڑی بازار میں ایک پرانا ہارمونیم مل گیا تھا جسے وہ سائیکل کے پیچھے باندھ کر لے آئے تھے۔ اس کو بجانے کی بھی اچھی مشق ہو گئی۔ ان کے آس پاس کے لوگ کہتے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں نائی ہوکر بھی سنگیت کے استادوں کا فن ہے۔ انہیں لگتا تھا، وہ جلدی ہی سچ مچ استاد ہو جائیں گے اور استاد ہو جانے کے بعد ان کے وجود میں گھسا ہوا ایک آسیب انہیں آزاد کر دےگا۔ یہ ایک ایسا آسیب تھا جو نسلی ورثے کی طرح انہیں اپنے پتا سے ملا تھا۔

    کبھی کبھی کوئی اَبھاگا ایسا بھی پیدا ہو جاتا ہے جسے اپنے والدین سے ناک، کان، منھ، آنکھ، رنگ روپ کے ہی نہیں، کسی اور چیز کے اَن چاہے جراثیم بھی مل جاتے ہیں، جیسے کسی روگ کے۔ لگ بھگ ویسا ہی ورثہ انہیں بھی ملا تھا۔۔۔ نائی ہونے کا ورثہ۔ جب تک وہ چھوٹے تھے، اس ورثے پر ان کا سیدھا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ ساتھ کھیلنے والے بچے کبھی کبھی مذاق میں اپنی ہتھیلی پر انگلی سے استرا تیز کرنے کی اداکاری کرتے تھے اور وہ بہت جلدی سمجھ جاتے تھے کہ ان کا اشارہ کیا ہوتا ہے۔ تب تک وہ نائی کے بچے بھر ہی تھے۔ پر وہ جلدی ہی بڑے ہو گئے تھے، دوسرے بچوں کے مقابلے میں ان سے پہلے، ان سے کم عمر میں ہی۔ پتا بیمار تھے اور چودہ برس کی عمر میں ہی انہیں پنڈت رادھے شیام کے ساتھ شہر جانا پڑا تھا، ایک شادی کے سلسلے میں۔ نائی کیا ہوتا ہے، اسے کیا کرنا ہوتا ہے، اسے کیسے اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے، یہ سب وہ ایک دن میں سیکھ گئے تھے۔

    غنیمت ہے، پتا جلدی ٹھیک ہو گئے اور گلے میں آپڑا طوق انہوں نے پھر پتا کو ہی سونپ دیا تھا۔ پتا بھی اس بات سے ناخوش نہیں تھے بلکہ انہیں یہ اچھا ہی لگتا تھا کہ آس پاس کے گاوؤں میں بھی ان کا بیٹا ڈھولک یا گاہے بہ گاہے ہارمونیم بجاتا تھا اور اچھا ہی بجاتا تھا۔ اس کاگلا بھی برا نہیں تھا، اس لیے وہ کبھی کبھی گاتا بھی تھا۔۔۔کؤنو البیلے کی نار جھماجھم پانی بھرے۔۔۔

    ان کی شادی ہوئی تو ان کے پتا انہیں بہو کے ساتھ کا میشور پنڈت کی حویلی لے گئے۔ کامیشور پنڈت برہمن تھے، پر کسی لٹھیت ٹھاکر کی ادا سے رہتے تھے۔ کھیتی تو تھی ہی، قصبے میں دال مل بھی لگا رکھی تھی۔ وہ انہیں دیکھ کر زور سے ہنسے۔ اپنا آشیرواد دیا، پھر بولے، ’’بھئی جب آئے ہو تو کچھ ہو جائے۔ وہ کیا گاتے ہو، جھماجھم پانی بھرے۔‘‘

    فرمائش ہوتے ہی پتا دوڑ کران کا باجا لے آئے۔ گانا سن کر کامیشور پنڈت نے گانے کی تعریف کی اور ایک بار پھر آشیرواد دیا۔ پھر پتا سے بولے، ’’اب تو بیٹا جوان ہو گیا ہے۔ تمہارا بوجھ ہلکا کرنا چاہیے۔ کیوں بھئی، ایسا کرو، اس کو لے کر کل ہماری دال مل پر آجاؤ۔ مل کے سامنے سڑک کے کنارے ہماری کافی زمین ہے۔ کئی لوگ دکانیں کھولے ہوئے ہیں۔ تھوڑی سی جگہ یہ بھی لے لے، وہاں ایک سیلون کھول لے۔ حجامت کی دکان وہاں ہے نہیں، خوب چلےگی۔ کل آجانا۔‘‘

    وہ پتا کے پیچھے پیچھے گھر لوٹے۔ پتا بے حد خوش تھے، پر انہیں لگا تھا جیسے یہ ایک سازش ہے، ایک بہتر کام سے دور رکھ کر انہیں استرے کے ساتھ باندھ دینے کی۔

    ان کی دکان کامیشور پنڈت کی دال مل کے پاس خاصی ٹھیک چلی۔ دکان سے انہوں نے سمجھوتہ کر لیا تھا، پر دکان کے ماتھے پر لگا نام پٹا (سائن بورڈ) انہیں کھلتا تھا۔۔۔ہیئر کٹنگ سیلون، ماسٹر نندلال نائی۔ نام پٹا بھی چونکہ کامیشور پنڈت نے ہی بنوا دیا تھا، اس لیے وہ اسے اتار نہیں سکتے تھے، پرنائی ہونے کا ایسا اعلان انہیں تکلیف دیتا تھا۔ ان کے پتا نے ان کا یہ سیلون دیکھا تو بہت خوش ہوئے تھے۔ ان کے خاندان میں پہلی بار کسی کی ایسی دکان کھلی تھی۔ اس خوشی نے نندلال کو اور زیادہ اداس کردیا تھا۔ وہ سنگیت کے گیانی یعنی گائک یا ساز بجانے والے ہو جاتے، اس کا کوئی خاص تصور انہوں نے نہیں کیا تھا، پر جتنی دیر وہ بجاتے یا گاتے تھے، استرے کی دھار ان کی گردن سے دور ہٹ جاتی تھی۔

    یہ استرا عجیب چیز تھا۔ ان کے سامنے کرسی پر بیٹھے آدمی کی حجامت بناتا تھا، پر حجامت بنانے سے پہلے بڑی صفائی سے ان کی اپنی گردن کاٹ کر ان کی اپنی خودداری کو برش، کنگھی، پانی کی پچکاری اور قینچی کے بیچ رکھ دیتا تھا۔ ہر شام انہیں اپنے دھڑ سے الگ ہو گئی خودداری کو دوبارہ اپنے کندھے پر لگانا پڑتا تھا اور تب وہ پاگلوں کی طرح دیر تک ڈھولک بجاتے تھے۔

    ایک دن وہ اپنی دکان سے گھر لوٹے تو دہشت سے بھر گئے۔ اب تک ان کے تین بچے ہو چکے تھے۔ بیچ والی بچی کو بٹھاکر ان کے بڑے بچے نے گلے میں پھٹا سا کپڑا لپیٹ دیا تھا اور کہیں سے آئس کریم کی چپٹی سی لکڑی کی پٹی اٹھا لایا تھا۔ اسے اس نے استرا بنا لیا تھا اور حجامت بنانے کا کھیل کھیل رہا تھا۔

    ’’ابے حجامت ہی بنانی ہے تم سب کو بھی سالو!‘‘ وہ چیخے تھے اور انہوں نے بچوں کو پیٹا تھا۔ بیوی کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس غصے کا مطلب کیا تھا۔ آخر اور کریں گے کیا؟ کیا وہ دال مل بھی کھول سکتے ہیں؟ وہ دہشت ان پر کئی دن سوار رہی تھی۔ آخر ایک دن انہیں موقع مل ہی گیا۔ وہ قصبہ چھوڑ کر وہ شہر آ گئے۔ شہر میں انہیں ایک چھوٹی سی جگہ رہنے کو مل گئی۔ اب وہ اپنا پچھلا سب کچھ چھوڑ دینا چاہتے تھے۔

    موقع انہیں خودبخود ہی ملا۔ کامیشور پنڈت نے اس بیچ دال مل کے سامنے سڑک کے اُس پار ایک مکان بنوا لیا تھا۔ یہیں سے اپنی بیٹی کی شادی کی تھی۔ اس شادی میں انہوں نے سارے باراتیوں کی حجامت بنائی تھی اور یہیں انہیں ان کا چاہا موقع بھی ملا۔ گانے بجانے کے لیے پارٹی شہر سے آئی تھی اور اس گانے بجانے کے بیچ انہوں نے بھی اپنا ہنر دکھایا تھا۔ یہی پارٹی انہیں شہر لے آئی تھی۔ اب وہ گاؤں سے اپنا ہارمونیم بھی لے آئے تھے۔ جھماجھم پانی بھرے کے علاوہ جلدی ہی انہوں نے کچھ فلمی گانے بھی سیکھ لیے تھے۔ مگر اس سنگیت پارٹی میں ان کا زیادہ کام گانا نہیں، بجانا ہوتا تھا، خاص طور سے ڈھولک اور اب ان کا ایک نیا لیکن بیہڑ سفر شروع ہوا۔

    اپنا استرا، قینچی وغیرہ انہوں نے کاغذ میں لپیٹ کر صندوق میں رکھ لیا تھا۔ خود اپنی حجامت کے لیے بھی انہوں نے باقاعدہ سیفٹی ریزر اور بلیڈ خرید لیے تھے۔ اب وہ اس پہچان کا سب کچھ اپنے آپ سے دور کر دینا چاہتے تھے، جس کی وجہ سے ہر پل اپنا سرکندھوں سے اتار کر نیچے رکھنا پڑتا تھا۔ بچوں کو انہوں نے اسکول بھیجا اور جب بچے پڑھنے لگے تو انہوں نے خود بھی کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔

    سنگیت پارٹی کا کام زیادہ دن نہیں چلا، پر انہیں ایک تمبو قنات والے کے یہاں کام مل گیا۔ تمبو قنات والے کے یہاں سبھی مزدور ان پڑھ تھے۔ اکیلے نند لال ہی ایسے تھے جنہوں نے دو حرف سیکھ لیے تھے، اس لیے دوسروں کے مقابلے میں انہیں زیادہ اہمیت مل رہی تھی۔ تمبو قنات والے کا بہت سا سامان لگاتار ایک درزی کے یہاں تیار ہوتا رہتا تھا۔ اس کی دیکھ ریکھ انہی کے ذمے تھی۔

    سردیوں کے موسم میں انہیں ایک بار پھر اپنے کندھوں پر رکھے سر کو بچائے رکھنے کا موقع ملا۔ آریہ سماج کا سالانہ جلسہ تھا۔ وہاں تمبو قنات لگانے کے بعد شام کو شروع ہوئے پروگرام میں وہ بھی بیٹھ گئے۔ انہوں نے دور سے بہت لوگوں کو بہت طرح کے بھاشن کرتے دیکھا تھا، پر کبھی دھیان نہیں دیا تھا کہ وہ کیا اور کیوں بول رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ دھرمی جلسے بھی دیکھے تھے، پر وہ جانتے تھے کہ ان جلسوں کا رشتہ ان سے نہیں ہے۔ وہ جلسے صرف ان کے ہوتے تھے جن کی حجامت وہ بنایا کرتے تھے۔

    آریہ سماج کا یہ جلسہ انہیں پسند آیا۔ بڑے مقرر کا بھاشن تو بہت ہی اچھا لگا۔ مقرر نے بڑے پراثر ڈھنگ سے مندروں، مورتیوں، پرانوں کو ڈھکوسلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہی باتوں سے سماج زوال پذیر ہے۔ ذات پات پر انہوں نے جو کہا وہ سن کر نندلال کو پہلی بار لگا کہ ان کے کندھوں پر رکھا ہوا سر سچ مچ انہی کا ہے اور اسے وہ وہیں رکھ سکتے ہیں۔ مقرر نے کہا کہ ذات تو کرم سے ہوتی ہے، جنم سے نہیں، اگر کوئی پڑھ لکھ کر وِدوان ہو جاتا ہے اور ذات سے شودر ہے تو اسے برہمن ماننا چاہیے۔

    جیون میں پہلی بار کسی کی کہی ہوئی باتیں انہوں نے بڑی ہوشیاری سے یاد کرلی تھی۔ بیوی اور بچوں کے سامنے وہ باتیں انہوں نے کئی بار کئی طرح سے دہرائی تھیں۔ اگلے روز وہ پھر وہ انہی مقرر کو سننے گئے تھے۔ مقرر اپنے بھاشن کے بیچ کچھ بھجن بھی گاتے تھے۔ بھجن کے ساتھ ڈھولک بجانے والا شاید اناڑی تھا۔ بناکسی سے کچھ کہے وہ منچ تک گئے اور ڈھولک خود لے لی تھی۔ بیچ میں مقرر نے انہیں دیکھا اور مسکرائے تھے۔ آریہ سماج نام کی تنظیم سے ان کا رشتہ ایسے ہی بنا تھا۔

    یہیں انہوں نے باقاعدہ اور محنت سے پڑھنا لکھنا سیکھنا شروع کیا۔ آریہ سماج کی عمارت میں شام کے وقت کچھ لوگوں کو درزی کا کام سکھایا جاتا تھا۔ وہ انہوں نے سیکھا تاکہ سلائی کی ایک دکان کھول لیں مگر زیادہ دلچسپی یا تو ڈھولک اور ہارمونیم میں تھی یا پھر پڑھنے میں۔ جلدی ہی انہیں پوجا کے کچھ منتر بھی یاد ہو گئے اور تب انہوں نے سنسکار ودھی نام کی ایک کتاب خریدی۔ انہیں یقین تھا کہ اس کتاب کا اچھی طرح مطالعہ کر لینے کے بعد وہ پوجا یا شادی بیاہ کی رسومات ضرور کرا لیں گے اور ان کے کندھوں پر اگی ان کی خودداری استرے سے کٹے گی نہیں۔

    یہ یقین ہونے کے بعد ان میں ایک نئی تبدیلی آ گئی۔ اپنے چھوٹے سے گھر کی پتائی کرانے کے بعد انہوں نے کباڑی بازار سے ہی خرید کر دو پرانی کرسیاں بھی رکھ لیں۔ وہ کچھ ایسے جملے کسی بہانے ضرور بولتے تھے جن کا سننے والوں پر اثر پڑے، جیسے بچوں کو اچھے سنسکار سکھانے چاہییں یا انسان اپنے کرموں سے ہی اچھا یا برا بنتا ہے، وغیرہ۔ ایسے زیادہ تر جملے وہ آریہ سماج کے جلسوں سے سیکھ لیتے تھے۔ آریہ سماج میں بھی ان کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ وہاں زیادہ تر لوگ آس پاس چھوٹا کاروبار یا چھوٹی نوکری کرنے والے تھے۔ انہیں اتنا وقت تو مل جاتا تھا کہ اتوار کی صبح کی سبھا میں آجائیں یاکسی بڑے جلسے وغیرہ میں شام گزار لیں، مگر وہاں کہی گئی باتوں کو یاد کر لینے کا وقت یا موقع ان کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ ان کے لیے نند لال کی قابلیت خاصی اہمیت رکھتی تھی اور لوگ متاثر بھی ہوتے تھے۔ نندلال کے لیے یہ صورت حال بہت اطمینان بخش تھی۔ وہ پرجوش ہوکر مہذب ہونے پر اور زیادہ محنت کرتے تھے۔

    ایک بڑے مقرر کے بھاشن میں انہوں نے سنا تھا کہ ویدک منتر تین سروں میں گائے جاتے تھے۔ انہوں نے اکیلے میں اس کی بھی کچھ مشق کی۔ ایک اتوار کو آریہ سماج میں ہونے والے ہون میں جس وقت بہت سے لوگ منتر پاٹھ کر رہے تھے، تھوڑا سا پیچھے بیٹھ کر انہوں نے بھی ساتھ ساتھ منتر پڑھے۔ پتا نہیں کسی نے دھیان دیا یا نہیں، پر کچھ اتوار اسی طرح منتروں کو ادا کرنے کے بعد وہ تھوڑا آگے کھسک آئے اور انہوں نے بھی آہوتیاں دیں (چڑھاوے چڑھائے) ۔

    اب انہیں لگا، وہ کامیشور پنڈت سے کہیں، پنڈت جی، دیکھیے، آپ کے آشیرواد سے اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ پر وہ واپس گئے نہیں۔ انہیں لگتا تھا کہ وہاں ان کا جو استرا تھا وہ ان کے ساتھ شاید آج بھی وہی سلوک کرے۔ اس استرے سے اب وہ بڑی ہوشیاری سے دوری بنائے رکھنا چاہتے تھے۔ کبھی کبھی انہیں لگتا تھا کہ استرے کی دھار بہت زیادہ تیز ہوتی ہے۔ کیوں ہوتی ہے اتنی تیز؟ وہ چہرے کے بال ہی نہیں کاٹتی، اس کی دھار سے ان کی گردن کہیں زیادہ صفائی سے کٹتی ہے۔

    ایک دن آریہ سماج میں ہونے والی ایک شادی کے دوران ان کے سُر سے ادا کیے ہوئے منتروں کے بیچ اچانک ان کا وہی استرا ان کی گردن سے آلگا۔ استرے کی ایک خاصیت ہوتی ہے۔ آپ کی انگلی اگر اچانک اس سے کٹ جائے تو ایک لمحے کے لیے آپ کو ہلکی سی گدگدی سی ہی محسوس ہوگی لیکن ایک لمحے کے بیتتے نہ بیتتے ایک زبردست ٹیس اور جلن ابھر آتی ہے۔

    بچپن میں ایک بار پتا کے استرے کو ہتھیلی پر تیز کرنے کا کھیل کرتے ہوئے ان کی ہتھیلی کٹ گئی تھی۔ اس وقت انہیں بالکل ایسا ہی لگا تھا۔ وہ حیران ہوئے تھے کہ کٹنے کے بعد انہیں جو تکلیف ہوئی تھی، وہ اس وقت کیوں نہیں ہوئی جب ہتھیلی کٹ رہی تھی؟

    استرے سے کٹنا وہ پہچانتے تھے۔ ان کا منتر پاٹھ حلق میں ہی کہیں پھنس گیا۔ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ گہری تکلیف نہ ہونے کے باوجود ان کا سر ان کے کندھوں پر ہے یا نہیں۔

    شادی کی جو تقریب اس دن تھی، اس میں لڑکے والوں کی طرف کے ایک شخص کو وہ پہچان گئے تھے، کیونکہ اس شخص نے بھی انہیں پہچان لیا تھا۔ اس شخص کو ’کوتاہ گردنیا‘ کہا جا سکتا تھا بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ ہی کچھ تھا۔ گردن نام کی چیز اس شخص کے جسم میں تھی ہی نہیں۔ اس کا سر اس کے کندھوں پر ایک چھوٹے موٹے ٹیلے کی طرح جما ہوا تھا۔ وہ شخص کامیشور پنڈت کی بیٹی کی شادی میں آیا تھا۔ بارات کے سارے لوگوں کے ساتھ نندلال نے اس کی بھی حجامت بنائی تھی اور چونکہ رات کے منورنجن میں نندلال نے نہ صرف ڈھولک بجائی تھی بلکہ کچھ اچھا گایا بھی تھا، اس لیے اس شحص نے انہیں پہچاننے میں بھول نہیں کی۔

    بیاہ کی رسم پوری ہونے کے بعد اس بنا گردن کے شخص نے بہت خوش ہوتے ہوئے کہا تھا، ’’میں تو دیکھتے ہی پہچان گیا تھا۔ کیسے ہو؟‘‘

    نمسکار کا جواب انہوں نے خاصی سٹپٹاہٹ کے ساتھ دیا تھا۔ وہ خود ایک اندرونی تکلیف سے بھر گئے تھے مگر ابھی تک ظاہر ی طور پر کوئی خاص گڑبڑی نہیں ہوئی تھی، پر کھانے کے وقت وہ ہو گئی۔ آنگن میں کھانے کا انتظام تھا۔ لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ دونوں طرف کے اور آریہ سماج کے لوگوں کو ملاکر کوئی پینتیس لوگ ہوں گے۔ آنگن کے چاروں طرف تہہ کرکے چاندنی بچھا دی گئی تھی۔ یہیں بیٹھ کر وہ بھی کھانا کھا رہے تھے۔ اچانک اس بے گردن شخص نے پوچھا، ’’بھیا، تمہارا نام کیا ہے؟ میں بھول گیا۔‘‘

    انہوں نے نام بتا دیا۔ وہ شخص بولا، ’’بھائی، تم گاتے بہت اچھا ہو۔ ہم نے مگن بابو سے کہا ہے۔ آج شام آ جاؤ۔ پتا لے لینا۔ کیا بات ہے! ایسا سریلا گلا!‘‘ انہوں نے دھیرے سے ہامی بھری۔ تب ہی اس شخص نے پوچھا، ’’وہاں تم نے اپنی دکان بند کر دی ہے کیا؟ میں دوایک بار گیا تو دکان بند ہی تھی۔‘‘

    اس شخص نے ایک گلاب جامن اور منگاتے ہوئے کہا، ’’کامیشور پنڈت کی بیٹی کی شادی میں گیا تھا تب ان کا گانا سنا تھا۔ واہ، کیا گایا تھا! آئے تو تھے یہ ہم لوگوں کی حجامت بنانے۔ تب تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ اتنا عمدہ گاتے ہیں۔ ارے، سماں باندھ دیا تھا۔‘‘

    لوگ کھاتے کھاتے انہیں دیکھنے لگے۔ انہوں نے کسی کی طرف نہیں دیکھا، پر وہ جانتے تھے کہ لوگ انہیں دیکھ رہے ہیں اور ان کے پاس کوئی ایسی جادوئی شکتی نہیں تھی کہ وہ لوگوں کے دیکھتے دیکھتے غائب ہو سکتے۔

    مگر یہ سوچنا بھی شاید صحیح نہیں تھا۔ وہ غائب تو ہوئے تھے۔ دیکھتے دیکھتے منتر پاٹھ کرنے والے اور گانے بجانے کے لیے معروف نندلال اس کوتاہ گر دنیا شخص کی بات ختم ہوتے ہوتے سیٹی بجاتے ہوئے آسمان تک جانے والی آتش بازی کی ڈبی کی طرح اوپر گئے اور خالی ہوکر نیچے گرے۔ اب وہاں صرف نندلال نائی بچ گیا تھا۔

    ان کے منھ میں کھانا بےحد کڑوا اور روکھا ہو گیا تھا۔ اس دن وہ ایک ایسی مشین کی طرح گھر کوٹے تھے جو ٹوٹ پھوٹ کر کباڑ میں تبدیل ہو چکی ہو اور اسی کے بعد انہوں نے محسوس کیا تھا کہ وہ جہاں پیشاب کرتے تھے وہاں چیونٹے لگنے لگتے تھے۔

    بہت کوشش کے باوجود، اب وہ دوبارہ وہ نہیں ہوپائے جو ہونے کے بعد وہ خاصے مطمئن رہنے لگے تھے۔ ایک بار انہوں نے گاؤں کو لوٹنے کا بھی فیصلہ کر لیا تھا۔ بوکھلا کر بچوں نے پوچھا تھا، ’’وہاں کیا کریں گے؟‘‘

    ’’وہی جو پشت درپشت کرتے آئے ہیں۔‘‘ انہوں نے بڑی گمبھیرتا کے ساتھ کہا۔ پر گھر والے ہی نہیں، خود ان کی قوت ارادی نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ اب ان کے اندر کی کوئی چیز ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھی۔ کبھی انہوں نے آئینے میں دیکھ کر بچوں سے کہا تھا، ’’ابھی پچاس سال کی عمر تک میرے بال پکیں گے نہیں۔‘‘ پر انہوں نے دیکھا، بال اچانک پکنے لگے تھے۔ طبلے پر انہوں نے کبھی مشق کی ہی نہیں تھی۔ وہ اس جوش میں خرید لائے تھے کہ آریہ سماج کے بھجن گانے والے کی سنگت وہ ڈھولک نہیں، طبلے سے کریں گے۔ پر ذیابیطس کے لیے طبلے میں رات بھر رکھا پانی پینے کے لیے انہوں نے دایاں بے جھجک کھول ڈالا تھا۔ اب انہیں بہت اتساہ تو نہیں محسوس ہوتا تھا لیکن جامن کے تنے کی چھال وہ لے ہی آتے تھے۔ آج بھی وہ جامن کے درخت کی وہی چھال لے کر لوٹ رہے تھے۔ اسے چندن کی طرح سل پر رگڑنے میں بھی تو وقت لگتا تھا۔ پر کہاں ہے ان کا گھر؟

    اچانک انہیں کچھ یاد آیا۔ اپنے پتا سے جو آسیب ان کے وجود میں نسلی ورثے کی طرح آیا تھا، وہ اتنے دن چپ رہنے کے بعد اس بے گردن شخص کے کچھ جملوں سے ہی جیسے بلبلاکر ان کے اندر دوبارہ جیسے اٹھ پڑا تھا۔ کیا یہ اسی آسیب کی کرتوت تھی کہ وہ اپنا گھر بھول گئے تھے؟ یا سب کچھ چھوڑ کر اپنی آسیبی طاقت سے اس نے صرف ان کا گھر غائب کر دیا تھا؟

    اپنی تمام احتیاط کے باوجود وہ حادثہ پھر ہوا۔ اب تھوڑا اندھیرا بھی ہونے لگا تھا۔ انہیں لگا، ان کی گلی کچھ زیادہ ہی لمبی اور گھماؤدار ہو گئی ہے۔ کچھ پہچان کی چیزیں انہوں نے کھوجنے کی کوشش کی، پر اندھیرے میں صاف کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ پر وہ ہار نہیں ماننا چاہتے تھے۔ کچھ دیر اور چلنے کے بعد وہ رک گئے۔ جہاں وہ رکے تھے وہاں گلی ختم ہوکر ایک بہت چوڑی اور بےحد کشادہ سڑک میں مل گئی تھی۔ اس سڑک پر کافی تیز اجالا تھا۔ جھنڈے والے چھوٹے چوک سے وہ ٹھیک ہی چلے تھے۔ اُدھر سے تو کوئی گلی کسی چوڑی سڑک پر نہیں کھلتی تھی۔

    ٹھیک اسی وقت شاید بتی چلی گئی۔ یاشاید یہ بھی ان کا وہم ہو۔ ان کے اندر ایک گھر گھراہٹ کے ساتھ کوئی چیز گھومی، جیسے کوئی لوہے کا پہیہ اور پھر اس کی رفتار بڑھنے لگی۔ بڑھتی رفتار کے ساتھ ایک تیکھی، بھیجے میں سوراخ کرنے والی آواز بھی بڑھنے لگی۔ اس نپٹ اندھیرے میں تیز گھومتے پہیے پر ٹکے ہوئے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے، پر وہ کہیں کچھ بھی چھو نہیں پا رہے تھے۔

    مأخذ:

    ہندی کہانیاں (Pg. 146)

      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2012

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے