Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آٹھواں دروازہ

رومانہ رومی

آٹھواں دروازہ

رومانہ رومی

MORE BYرومانہ رومی

    کہانی اپنے کلا ئمکس کی جانب بڑھ رہی تھی، لکھتے لکھتے میری انگلیوں میں درد ہو نے لگاتھا میں نے ایک ہلکی سی انگڑائی لی کہ اچانک کسی نے میرے ہاتھوں سے قلم لے کر اسے احتیاط سے میز پر رکھے قلم دان میں رکھ دیا۔۔۔ اس سے پہلے کے میں ان ہاتھوں پر اپنی توجہ مبذول کرتی اچانک تیز ہوا کے جھونکے نے میز پر رکھی میری کہانی کے صفحوں کو کمرے میں بکھیر نے کی کوشش کی میں نے جلدی سے اپنا دایاں ہاتھ کاغذ پر رکھا اور کوئی وزنی سی شے ان کاغذوں پر رکھنے کے لیے نظریں دوڑایں کہ اچانک کسی نے کرسٹل کا پیپر ویٹ چپکے سے میری کہانی پر دھر دیا۔۔۔ میں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا مگر کمرے میں سوائے میرے اپنے وجود کے کوئی اور نہ تھا میں عجیب سی شش و پنج میں تھی کہ یکدم اس کرسٹل کے پیپر ویٹ میں سے روشنی سی نکلتی ہوئی محسوس ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میرا پورا کمرا اس صاف شفاف روشنی میں نہا گیا۔۔۔ کچھ دیر بعد جب اس کی چکا چوند تھوڑی ماند پڑی تو مَیں نے غور سے اس پیپر ویٹ کو دیکھا میں حیران تھی کہ آخر اس بےجان سے پیپرویٹ میں روشنی کا یہ سوتا کہاں سے پھوٹا تھا مگر مجھے اس میں کچھ نظر نہیں آیا۔۔۔ اس سے پہلے کہ مَیں کسی نتیجے پر پہنچتی اچانک اس میں کچھ حر کت محسوس ہوئی اور پھر غیر متوقع طور پر اس کے اندر سے ایک نازک اور حسین سا ہاتھ باہر نکلا اور میرا دایاں ہاتھ تھام کر مجھے پیپر ویٹ کے اندر لے جا نے کی کوشش کر نے لگا۔۔۔ میں نے گھبرا کر خود کو اس سے آزاد کر انے کی کوشش کی مگر بظاہر کمزور نظر آنے والے اس نازک سے ہاتھ میں بلا کی طاقت تھی اور پھر مَیں اُس کی اِس طاقت کے آگے ہار تی چلی گئی۔۔۔ پیپر ویٹ کے اندر آنے کے بعد مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ باہر سے وہ جتنا روشن اور شفاف تھا اندر سے بھی وہ ویسا ہی خوبصورت اور لاجواب تھا۔۔۔ میں نے خوف اور حیرانگی سے چاروں طرف نظریں دوڑایں اور اپنے حواس کو مجتمع کر کے وہاں سے باہر جانے کے لیے کوئی راستہ تلاش کر نے لگی۔۔۔ میں نے مدد کے لیے آواز یں لگائیں مگر جواب میں مجھے اپنی ہی آوازوں کی باز گشت سنائی دی۔۔۔ اس پیپر ویٹ کے اندر ایک ہال نما کمرا تھا جو ایک دائرے کی شکل میں تھا اور اس دائرے میں سات دروازے بنے ہو ئے تھے جو سب کے سب ایک جیسے تھے، میں سوچنے لگی کہ آخر اس میں وہ کون سا دروازہ ہے جو مجھے پھر سے میری دنیا میں لے جا ئےگا۔۔۔ سب ہی دروازوں کے سائز اور بناوٹ ایک جیسی تھی اگرچہ وہ سب ہی کر سٹل کے تھے مگر ان کے دوسری جانب دیکھنا ناممکن تھا۔۔۔ میں نے باری باری سب دروازوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور ہمت کر کے ڈرتے ڈرتے پہلا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئی مگر یہاں تو چاروں جانب گھپ اندھیرا تھا اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، اس سے پہلے کہ مَیں کچھ دیکھ یا سمجھ پاتی اچانک گرم اور تیز ہوا کے جھکڑ نے مجھے آ لیا اور تپتے ہو ئے ریت کے باریک ذرات میرے چہر ے سے ٹکرانے لگے میں نے ان سے بچنے کے لیے ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا اور اندازے سے آگے بڑھتی چلی گئی کہ شاید یہی میری نجات کا راستہ ہو، اچانک مجھے ٹھوکر لگی اور مَیں اوندھے منہ جا گری۔۔۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا مَیں نے اپنے ہاتھوں کی مدد سے اِردگرد کا جائزہ لینے کی کوشش کی مگر یہ کیا؟۔۔۔ یہ تو شاید کوئی چھوٹی سی قبر تھی، میں نے مزید تصدیق کر نے کے لیے ہاتھ آگے بڑھا یا افوہ! یہاں تو چاروں

    (۲)

    جانب چھوٹی چھوٹی قبر وں کا ایک پورا قبرستان آباد تھا، میں ڈر گئی اور خوف سے کانپنے لگی۔۔۔ ہوا کے گرم اور ریتیلے طوفان کا شور تھم چکا تھا اور اب اس کی جگہ اِن گنت معصوم بچوں کے رونے کی آوازیں میرے کانوں کے پردے پھاڑ نے لگی۔۔۔گرمی، حبس،آندھی، قبریں اور اِب یہ معصوم بین کرتی ہوئی آوازیں۔۔۔مَیں گھبرا گئی، میرے اندر کی ممتا تڑپ اٹھی مَیں چلائی۔۔۔

    ’کون ہو تم سب؟۔۔خدارا خاموش ہو جاؤ۔۔۔ مجھے بتاؤ۔۔۔کیا دکھ ہے تمھیں ؟۔۔۔

    کیوں مجھے تم سب کی آوازوں میں ایک فر یاد سی سنائی دے رہی ہے ؟‘۔۔۔

    میرا سوال سن کر فضا میں ایک لمحہ کے لیے سناٹا چھا گیا، چند لمحوں کی یہ خاموشی مجھے اندر ہی اندر دہلا رہی تھی اور پھر اس خاموشی کو ایک ننھی سی معصوم آواز نے توڑا ۔۔۔

    ’ہم سب ان ننھی منی قبر وں کے قیدی ہیں‘۔۔۔

    میں نے ہمت کی اورپو چھا۔۔۔

    ’مگر تم سب کو کس ظالم نے اِن قبروں میں بےدردی سے قید کیا ہے ؟‘۔۔۔

    ایک سسکی ابھری۔۔۔

    ’ہمارے اپنوں نے‘۔۔۔

    میں نے حیرت سے کہا۔۔۔

    ’اپنوں نے؟ مَیں سمجھی نہیں‘۔۔۔

    وہ بولی ۔۔۔

    ’ہم سب ان گھرانوں کی بیٹیاں ہیں جہاں لڑکی کی پیدائش گھر والوں کے لیے باعث شرمندگی ہوتی ہے۔۔۔ اور ان سب کا ایک

    ہی فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیں زند ہ درگور کریں۔۔۔ کسی طرح ہمیں اس دنیا میں آنکھیں کھولنے سے پہلے ہی موت کی تاریکیوں

    میں دھکیل دیا جاتا ہے۔۔۔ ہم صدیوں سے یہاں قید ہیں۔۔۔ ہم ہی نے تمھیں اپنی مدد کے لیے یہاں بلوایا ہے۔۔۔ہم

    جانتے ہیں کہ تم ایک قلم کار ہو اور قلم میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔۔۔ تمھیں ہمارے لیے اور ہمارے بعد آنے والی تمام نسلوں کے

    لیے احتجاج کر نا ہوگا تاکہ ظلم کی یہ داستان جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے اس سے آنے والوں کو محفوظ کیا جائے‘۔۔۔

    میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔ اور پھر ہر طرف سے احتجاج۔۔۔ احتجاج کی آوازیں بلند ہو نے لگیں مَیں گھبرا کر پلٹی اور بھاگتی ہوئی دروازے سے باہر نکلتی چلی گئی۔۔۔ باہر آکر میں نے لمبی سی سانس لی اور اپنے حواس درست کیے مَیں اندر سے ابھی تک لرز رہی تھی مگر مجھے یہاں سے باہر نکلنے کا راستہ بھی تلاش کر نا تھا سوپھر سے ہمت کی اور اگلے دروازے کو کھول کر اُس میں داخل ہو گئی۔۔۔ یہاں چاروں

    (۳)

    طرف ہلکی زرد روشنی سی پھیلی ہوئی تھی ابھی میری آنکھیں اس روشنی میں کچھ دیکھنے کے قابل ہو ئی ہی تھیں کہ ایک دل خراش چیخ نے مجھے سہما کر رکھ دیا وہاں کا منظر کسی بھی سخت سے سخت دل انسا ن کو لرزا دینے کے لیے کافی تھا۔۔۔ افوہ۔۔۔ یہاں چاروں جانب بے شمار حاملہ عورتیں زمین پر لیٹی تھیں اور دردزہ سے گزر رہی تھیں جب کہ کچھ بچہ جن کر مر چکی تھیں اور اب ان کے وہ بچے بھی اپنی ز ند گی کی آخر ی سانسیں پوری کر رہے تھے۔۔۔ میں دہشت زدہ کھڑی تھی میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ مجھے کیا کر نا چاہیے، اچانک ان میں سے ایک عورت نے چلا کر مجھے مخاطب کر تے ہو ئے کہا ۔۔۔

    تم آ گئی؟۔۔۔ کتنی دیر کر دی ہے تم نے آنے میں۔۔۔ہم سب کب سے تمھارا انتظار کر رہے تھے‘۔۔۔

    میں نے حوصلہ کیا اور ہمت کر کے پوچھا۔۔۔

    ’کون ہو تم سب۔۔۔اور اس حالت میں بےیار و مددگار کیوں یہ درد جھیل رہی ہو؟‘۔۔۔

    میرا سوال سنتے ہی بیک وقت کئی سسکیاں یوں ابھریں جیسے سب اپنی بے بسی کا ماتم کر رہی ہوں۔

    ’ہم سب وہ بدنصیب عورتیں ہیں جنھیں درندہ صفت مردوں نے عورت ہونے کے جرم میں لوٹ کا مال سمجھ کر بےدرد ی سے لوٹا ہے اور پھر اپنی درندگی کا تحفہ دے کر ہمیں بےیارو مدگار چھوڑ دیا ہے۔۔۔ اور اب ہم دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اپنے جسم اور دل پر اٹھائے پھر رہے ہیں‘۔۔۔

    میں نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا۔۔۔

    ’اپنی بے بسی کا ماتم کرنے سے بہتر نہ ہوتا کہ تم سب معاشرے سے بغاوت کر تیں اور اپنے حق کے لیے احتجاج کرتیں‘۔۔۔

    میری بات سن کروہ سب پھر زور زور سے کراہنے لگیں اوربولیں۔۔۔

    ’احتجاج۔۔۔ کس سے کر تے احتجاج۔۔۔ ان اپنوں سے جن پرہم اعتماد کر تے تھے اور جنھوں نے ہمارے اعتماد کا خون کیا۔۔۔ جب کہ یہ وہ مقدس رشتے تھے جو ہماری سروں پر چادر کی مثال تھے لیکن جب وہ ہی بھوکے بھیڑئے بن جائیں تو احتجاج کس سے؟

    ۔۔۔بولو کس سے؟‘ ۔۔۔

    میں ان سب کی باتیں سن کر کاپننے لگی اور منمناتے ہو ئے بولی۔۔۔

    ’مگر تم‘۔۔۔

    ابھی میرا جملہ شروع ہی ہوا تھا کہ کسی نے میری بات کاٹتے ہو ئے کہا۔۔۔

    ’یہ کیا تم ہمیں نصیحتوں پر نصیحتیں کر رہی ہو، حالانکہ تم وہ پہلی عورت ہو جس نے ہمارے درد کو محسوس کیا ہے تمھارے ہاتھوں میں قلم ہے تمھاری ذمہ داری ہے کہ اب اس کا حق ادا کر و اور ہمارے لیے احتجاج کرو‘۔۔۔

    (۴)

    اور پھر ہر جانب سے درد میں ڈوبی احتجا ج۔۔۔ احتجاج ۔۔۔کی آوازیں بلند ہو نے لگی میں گھبرا گئی اور باہر کی جانب لپکی دروازے سے باہر آکر میں نے سکون کا سانس لیا اور سوچنے لگی کہ آخر میں کس جگہ آ کر پھنس گئی ہوں یہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ مجھے نظر کیوں نہیں آ رہا ہے۔۔۔ میں نے دوبارہ اپنی ہمت کو یک جا کیا اور تیسرے دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔ میں جیسے ہی تیسرے دروازے میں داخل ہوئی مجھے ایک عجیب سے گھٹن کا احساس ہوا، کمرے میں روشنی نہ ہو نے کے برابر تھی میری آنکھیں جب اِس روشنی میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو بےاختیار میرے منہ سے ایک خوف ناک چیخ نکل گئی، کمرے میں چاروں طرف معصوم بچیوں، جوان لڑکیوں، ادھیڑ عمر اور بوڑھی عورتوں کی لاشیں ہی لاشیں تھیں۔۔۔ کوئی رسی سے لٹکی پھانسی کی حالت میں تھی۔۔۔ تو کوئی زمین میں گردن تک دھنسی ہو ئی۔۔۔ کوئی کسی تیز دھار آلے سے کٹی ہوئی تو کوئی آگ سے جلی ہوئی۔۔۔کوئی دم توڑ چکی تھی تو کوئی اپنی زندگی کی آخر ی ہچکی کے انتظار میں تڑپ رہی تھی۔۔۔ یہ دل خراش منظر مجھے پاگل کر دینے کے لیے کافی تھا۔۔۔ اس سے پہلے کے مَیں وہاں سے بھاگتی ایک معصوم سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔

    ’چھوڑ دو۔۔۔ مجھے چھوڑ دو۔۔۔ میں بے گناہ ہو۔۔۔مجھے کاری مت کرو۔۔۔ مجھ پر یقین کرو میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔۔۔ مجھ پر

    یہ ظلم نہ کرو‘۔۔۔

    میں نے آواز کی سمت پلٹ کر دیکھا تو حیران رہ گئی ایک معصوم سی دس بارہ برس کی بچی کو ایک درخت کی اونچی سی شاخ سے لٹکایا ہوا تھا اور ٹھیک اس کے نیچے آگ کا ایک دہکتا الاؤ روشن تھا رسی بہت نازک سی تھی اور کسی بھی لمحہ وہ معصوم لڑکی آگ میں گر کر جلنے والی تھی مَیں دہشت زدہ حالت میں اِس منظر کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک اس نے اپنا رخ میرے جانب کیا اور بولی۔۔۔

    ’تم آ گئی؟۔۔۔ مجھے یقین تھا تم ایک دن ضرور آؤگی اور مجھے بچا لوگی۔۔۔ مجھے بچا لو۔۔۔

    میں بےگناہ ہوں‘۔۔۔

    میں نے ہمت کی اور پوچھا۔۔۔

    ’تم سب کون ہو؟ اوریہ سب کیا ہے؟‘۔۔۔

    وہ بولی۔۔۔

    ’میں ایک بےبس اور مجبور لڑکی ہوں اور یہ سب بھی میرے ہی جیسی لڑکیاں اور عورتیں ہے۔۔۔جو بےقصور اور بے بسی کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں‘۔۔۔

    ’مگر تم سب کے ساتھ یہ کیا ماجرا ہو ا ہے؟‘۔۔۔ مَیں نے سوال کیا۔۔۔

    وہ بولی۔۔۔

    (۵)

    ’ہم سب وہ ہیں جن کے اپنے والدین اور بھائیوں نے اپنی وراثتوں اورجائدادوں میں حصے نہ دینے کی غرض سے ان پر بد چلنی کے جھوٹے الزامات لگا کر اپنی مرضی سے کو ئی بھی سزا تجویز کر تے ہیں، پھر لوگوں کے سامنے غیرت کا جھوٹا مکھوٹا پہن کر معاشرے میں عزت سے سر اٹھا کر چلتے ہیں۔۔۔ ہم سب اسی طرح کے ظلم کا شکار ہوئی ہیں ‘۔۔۔

    ابھی اس کی بات ختم بھی نہیں ہو ئی تھی کہ رسی ٹوٹ گئی اور وہ دہکتے ہوئے الاوَ میں جا گری میں چیخ چیخ کر رونے لگی، میں اُسے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر پائی تھی ابھی مَیں اِس صدمہ میں تھی کہ الاؤ سے اس کی آواز آئی۔۔۔

    ’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ تمھیں ہمارے لیے رونا نہیں ہے۔۔۔ بلکہ ہماری مدد کر نا ہے اٹھو اور ہمارے لیے احتجاج کرو۔۔۔ اِس ظلم کے

    خلاف آواز اٹھاؤ۔۔۔ تم بہت مضبوط اور طاقتور ہو۔۔۔ تمھارے پاس علم کی روشنی ہی نہیں بلکہ قلم کی طاقت بھی ہے۔۔تمھیں ہمارے لیے لڑنا ہوگا۔۔۔احتجا ج کرنا ہوگا‘ ۔۔۔

    اور پھر ہر طرف احتجاج احتجاج کی صدائیں بلند ہونے لگی میں نے دوڑ لگائی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔۔۔ میں نے اپنے منتشر اعصاب کو یکجا کیا اور چوتھے دروازے کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔ اب مَیں ذ ہنی طور پر تیار تھی کہ یہاں بھی مجھے کوئی غیر معمولی صورتِ حال کا سامنا کر نا پڑےگا لیکن چوں کہ مجھے واپسی کے راستے کی تلاش تھی سو مجھے خطرہ تو مول لینا ہی تھا۔۔۔ میں چوتھے دروازے سے جیسے ہی اندر داخل ہوئی، یہ ایک نہایت خوبصورت، روشن اور شاندار کمرہ تھا اس کی سجاوٹ اور آرائش آنکھوں کو خیرہ کئے جا رہی تھی اِبھی میں اس راز کو سمجھ بھی نہ پائی تھی کہ اچانک میری نگاہ کمرے کے کونوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر بنے ان ستونوں پر جا ٹہری جو تھے تو کمرے کی بناوٹ اور سجاوٹ کی طرح خوبصورت مگر ہر ایک ستون میں ایک چھوٹی سی مضبوط سلاخوں والی کھڑی تھی اور ہر کھڑ کی کے پیچھے سے ایک خوبصورت چہرہ مجھے گھور رہا تھا میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔

    ’کون ہو تم سب اور یہاں اس طرح کیوں قید ہو؟‘۔۔۔

    ایک آہ اُبھری۔۔۔

    ’ہم سب محبت کرنے کے جرم میں یہاں قید کئے گئے ہیں‘۔۔۔

    ’کیا؟۔۔۔میں سمجھی نہیں‘۔۔۔مَیں نے حیرت سے پوچھا۔۔۔

    ’تم نہیں سمجھی حیرت ہے!۔۔۔ تم ایک لکھاری ہو اور محبت جیسے لطیف جذبے کو تم نہ سمجھ پاؤ یہ ناممکن ہے‘۔۔۔

    ان سب کے چہروں پر بیک وقت میرے لیے افسوس اور تعجب کے جذبات نظر آنے لگے مَیں گھبرا گئی اور بولی۔۔۔

    ’مجھے معاف کرنا میں تم سب کی باتوں کا مطلب نہیں سمجھ پائی۔۔۔ذرا وضاحت کردو تو نایت ہوگی‘ ۔۔۔

    سب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ان میں سے ایک گویا ہوئی۔۔۔

    (۶)

    ’ہم سب تاریخ کے وہ کردار ہیں جنھوں نے اپنے اپنے دور میں روایات سے بغاوت کی، سماج کی جھوٹی رسم و رواج کو توڑنے کی کوشش کی اور کسی ذات پات کے فرق یا غریب امیر کے امتیاز کو پس پشت ڈال کر اپنے سے کم رتبہ یا مالی لحاظ سے کمزور انسانوں کو زندگی گزارنے کے لیے اپنا ساتھی چنا۔۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔۔ انسانوں کو قبیلوں، ذاتوں اور مذاہب میں بانٹنے والوں اورخود ساختہ معیار زند گی کو دولت کے ترازو میں تولنے والوں نے ہماری خواہشات کا قتل عام کیا اور یوں ہم سب زندہ دیواروں میں چنوا دی گئیں۔۔۔ ہم صدیوں سے اپنی رہائی کے انتظار میں ہیں۔۔۔ کاش کہ کوئی آئے اور ہماری اِس قید کو ختم کرواے‘۔۔۔

    میں تعجب سے ان کی باتیں سن رہی تھی جب وہ خاموش ہوئی تو میں نے پوچھا۔۔۔

    ’کیا تم سب نے مل کر کبھی اپنی رہائی کی خود بھی کوئی کوشش کی؟۔۔۔آخر تم سب یہاں کس کے انتظار میں ہو؟۔۔۔کیوں کہ جو انسان اپنی مدد آپ نہیں کر تا کوئی اور اس کی مدد کیسے کر سکتا ہے ‘۔۔۔

    وہ حسرت سے بولی۔۔۔

    ’تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔ مگر ہم سب مجبور ہیں۔۔۔ اور اسی لیے تم کو بلوایا ہے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ تمھارے ہاتھ ہمارے طرح خالی نہیں بلکہ ان میں قلم کی صورت میں ایک طاقتور ہتھیار ہے جو کسی بھی قوم کی قسمت بدلنے کی صلا حیت رکھتا ہے۔۔۔ تمھیں اب ہم سب کے لیے قلم اُٹھانا ہوگا تمھیں ہمارے حق کے لیے لڑنا ہوگا، ہمارے دکھوں کو سب کے سامنے بیان کرنا ہوگا۔۔۔ اور ہمیں اس زمین پر اپنے حق کے ساتھ اپنی مرضی سے جینے کا حق دلانا ہوگا۔۔۔ ہمارے لیے اب تم ہی روشنی کی وہ کرن ہو جو ہم جیسوں کو ایک زندہ روح و جسم والا انسان ثابت کر نے کا حوصلہ اور ہمت رکھتی ہے۔۔۔ خدا کے لیے ہمیں معاشرے کے خود ساختہ غیرت مندوں کی بھینٹ چڑھنے سے روک لو۔۔۔ احتجاج کرو۔۔۔ دل سے۔۔۔ زبان سے۔۔۔ ارادوں سے اور سب سے زیادہ قلم سے۔۔۔ یہ سب تم کر سکتی ہوں۔۔۔ تم ہی ہم سب کی آخری امید ہو‘۔۔۔

    اس کی بات پوری ہو تے ہی کمرے کی فضا احتجاج احتجاج کے نعروں سے گونج اٹھی۔۔۔ میں عجیب کشمکش میں مبتلا ہو چکی تھی میرے اعصاب تھک چکے تھے میں نے کمرے سے باہر چھلانگ لگائی۔۔۔ میں ایک عجیب و غریب صورتِ حال کا شکار ہو چکی تھی مَیں ہر دروازے کواِس اُمید کے ساتھ کھولتی کہ مجھے باہر کا راستہ دکھائی دےگا مگر ہر بار ایک نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا مجھ میں مزید جھٹکے سہنے کی سکت نہیں رہی تھی۔۔۔ غم۔۔۔ صدمے۔۔۔ غصے۔۔۔ بےبسی۔۔۔ اور لاچاری کی کیفیات اب مجھ پر حاوی ہونے لگی تھی۔۔۔ لیکن یہاں سے جلد از جلد نکل بھاگنے کی خواہش بھی اپنی جگہ مو جود تھی۔۔۔ خود کو نیا حوصلہ دیتے ہو ئے مَیں نے اگلے دروازے کی جانب رخ کیا اور سہمے سہمے قدموں سے اندر داخل ہو گئی۔۔۔ اندر داخل ہوتے ہی میری آنکھیں روشنی کی چکاچوند سے چندھیا گئیں اور جب ذرا دیکھنے کے قابل ہوئیں تو مَیں اور پریشان ہو گئی یہاں تو پہلے چار دروازوں سے زیادہ الگ اور مختلف صورت حال تھی۔۔۔ہر

    (۷)

    طرف رنگ و روشنیوں کا بسیرا تھا اور خوشبوں نے جیسے یہاں اپنا ڈیرا جما یاہو ا تھا۔۔۔ چاروں طرف خوبصورت اور نازک سی تتلیوں جیسی گل بدن لڑکیاں بنی سنوری طبلے کی تھاپ پر ناچ رہی تھی محفل اپنے عروج پر تھی۔۔۔ میں حیران تھی کہ یہاں کس کو میری ضرورت ہے یہاں تو سب خوش باش لوگوں کا میلہ لگا ہوا ہے ابھی مَیں اپنی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اچانک ایک آواز نے مجھے میرے نام سے پکارا مَیں نے پلٹ کر حیرت سے اس سمت دیکھا۔۔۔ آخر میرے نام سے مجھے پکارنے والا اس طلسم کدہ میں کون تھا؟۔۔۔ میرے داہنی طرف ایک بوڑھی سی عورت ایک ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر لیٹی تھی اور کراہ رہی تھی مَیں نے اس کے قر یب پہنچ کر پوچھا۔۔۔

    ’کیا آپ نے مجھے میرے نام سے پکارا ہے؟‘۔۔۔

    ایک کمزور سی آواز آئی۔۔۔

    ’ہاں! مَیں نے ہی تمھیں پکارا ہے اور یہاں بھی مَیں نے ہی تمھیں بلایا ہے‘۔۔۔

    میں نے کھوجتی نظروں سے اس کے چہر ے کو دیکھتے ہو ئے کہا۔۔۔

    ’مجھے! مگر مَیں تو آپ کو جانتی ہی نہیں ۔۔۔پھر آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں ؟‘۔۔۔

    اس کے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔۔۔

    ’ہاں تم مجھے نہیں جانتی لیکن میں تمھیں اچھی طرح پہچانتی ہوں۔۔۔ تمھارے نام اور تمھارے قلم کے چرچے اب زبان زد و عام ہیں، کون ہے جو تمھیں نہیں جانتا۔۔۔ تمھارے قلم کی سچائی نے تمام مظلوموں کو تمھارا گر ویدہ بنا دیا ہے۔۔۔ لٰہذا مَیں بھی تمھیں ایک تلخ حقیقت بتانا چاہتی ہوں‘۔۔۔

    مَیں ابھی اس کی بات سمجھنے سے قاصر تھی سو ہچکچا تے ہو ئے پوچھا۔۔۔

    ’آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟۔۔۔ اور میں آپ کے لیے کیا کر سکتی ہوں؟‘۔۔۔

    چند لمحوں کے لیے خا موشی چھا گئی شاید وہ ذہن میں لفظوں کو ترتیب دے رہی تھی یا سوچ رہی تھی کہ آغاز کہاں سے کرے اس کے چہرے پر یہ دونوں کشمکش پڑ ھی جا سکتی تھی آخر وہ گویا ہوئی۔۔۔

    ’تم نے کمرے میں داخل ہوکر جو منظر دیکھا میں بھی کبھی اسی منظر کا ایک حصہ تھی۔۔۔ میں کون ہوں کہاں سے آئی ہوں یہ مجھے کچھ نہیں معلوم۔۔۔ ہاں جانتی ہوں تو بس اتنا کہ جب ہوش سنبھالا تو پاؤں میں گھنگرو دیکھے اور کانوں تک طبلے کی تھاپ پہنچتی رہی۔۔۔ پھر میں بھی اِس گنا ہ آلود زندگی کا حصہ بن گئی۔۔۔ لڑکپن ختم ہوا تو جوانی اور زیادہ مصیبت بن گئی اور پھر ہر رات میری بولی لگنے لگی اس کے بعد تو مَیں اِس دلدل میں اور گہری اُترتی چلی گئی۔۔۔ زند گی صرف ایک شخص کے نام کر نے اور گھر بسانے کا تصور بھی کبھی ہمارے قر یب آتا تو ہمیں ایسی سزاؤں کا سامنا کر نا پڑتا کہ روح تک کانپ اٹھتی۔۔۔ اور جب دوسروں کی گندگی اپنے اندر اتارتے اتارتے

    (۸)

    ہمارے اپنے جسموں میں کیڑے پڑ گئے اور ہم کسی کام کے نہ رہے تو یہاں پہنچا دئیے گئے جہاں نہ کو ئی پر سان حال ہے اور نہ فریاد سننے والا۔۔۔ ہم نے اپنی پوری زندگی دوسروں کے رحم و کرم پر بسر کی۔۔۔ جذبات۔۔۔ احساسات۔۔۔ محبت۔۔۔ رشتے ناتے۔۔۔

    دوست احباب۔۔۔یہ سب باتیں ہماری زندگی میں کبھی نہیں آئیں۔۔۔ ہمارے جسموں کی کمائی کھانے والوں نے ہم سے ہمارے جینے کا حق چھین لیا۔۔۔ نہ ہم کسی کی بہن کہلائے نہ بیٹی، نہ کسی کی بیوی بنے اور نہ ہی ہمارے قد موں کے نیچے جنت ہی آئی ۔۔۔۔

    ہمیں سماج کے بھوکے بھیڑیوں کی خوراک کے طور پر استعمال کر کے دولت کمانے والوں کے خلاف اب تمھیں ہی قلم اٹھانا ہے۔۔۔ بولو کروگی نا ہم سب کے لیے احتجاج ‘۔۔۔

    اور پھر پورا کمرہ ہی ایسی بے شمار آوازوں سے گونج اٹھا جو احتجاج احتجاج کا نعرہ لگا رہی تھیں۔۔۔ میں نے یہاں سے بھی بھاگ جانے میں ہی میں عافیت جانی اور باہر نکل آئی۔۔۔ میں سر پکڑ کر بیٹھتی چلی گئی کہ اب کیا ہوگا ؟میں باہر کیسے نکل پاؤں گی؟۔۔۔ میں پر یشان ہو چکی تھی اِب دو در وازے ہی باقی بچے تھے میں نے اپنی ساری طاقت کو استعمال کرتے ہو ئے اپنے حواسوں کو یکجاکیا اور چھٹے در وازے کی جانب بڑ ھی۔۔۔ اندر کے گھٹے گھٹے ماحول کی وجہ سے میری سانسیں رکنے لگیں۔۔۔کمرے میں چاروں طرف زردی مائل روشنی پھیلی ہوئی تھی یہاں ہر طرف نقاب پوش خواتین اکڑوں حالت میں بیٹھی ہوئی نظر آ رہی تھیں سب ہی اپنی اپنی جگہ ساکت اور خاموش تھیں۔۔۔ میں کچھ حیران بھی تھی اور کچھ پریشان بھی کہ الہٰی آخر یہاں کیا ماجرا ہے ابھی میں کچھ سمجھنے کی کوشش میں ہی تھی کہ اچانک ایک برقعہ پوش خاتون زمین پرگر کر تڑپنے لگی اور باقی سب اس سے ڈر کر دور بھاگنے لگیں میں نے صورت حال کو دیکھتے ہو ئے اس خاتون کی مدد کا فیصلہ کیا۔۔۔

    اس کے قریب پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ وہ شدید بیمار تھی اسے علاج کر وانے کا مشورہ دینے پر وہ بولی۔۔۔

    ’ہمارے علاقے میں عورتوں کو گھر سے باہر جانے اور کسی بھی طرح کے معاملے میں کسی نامحرم سے بات کر نے کی اجازت نہیں‘۔۔۔

    میں نے حیرت سے کہا۔۔۔۔

    ’مگر تم تو شدید بیمار ہو اور دنیا کا ہر سماج اور ہر مذہب انسان کو اپنی جان کی حفاظت کا پورا حق اور پورا اختیار دیتا ہے۔۔۔ کون ہے وہ جو تم سے تمھاری یہ آزادی چھیننا چاہتے ہیں ‘۔۔۔

    وہ بولی۔۔۔

    ’ایک میں ہی کیا یہاں موجو د ہر برقعہ پوش عورت اسی ظلم کا شکار ہے ہم سب سے مذہب کے نام پر ہماری آزادی، ہمارے حقوق اور ہم سے زند گی کی ساری خوبصورتی کو چھیننے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے لوگ ہیں جو خود کو ہمارے وارث بتاتے ہیں اور اگر ہم میں سے کو ئی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرے تو اس کا انجام نہ صرف بھیانک ہوتا ہے بلکہ وہ دوسروں کے لیے عبرتناک بھی ہوتا ہے۔۔۔ ہم آج بھی انہی پرانی روایتوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔۔۔ ہم نے تمھیں اسی لیے یہاں

    (۹)

    بلوایا ہے تاکہ تم ہم سب کے بارے میں لکھ سکو اور ہمیں اس نام نہاد قید سے رہائی دلوا سکو تمھیں ہم سب کے لیے احتجاج کرنا ہوگا۔۔۔ احتجاج احتجاج‘۔۔۔

    اور پھر مَیں وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔ باہر آکر میں نے آخری دروازے کی جانب دیکھا کیوں کہ یہی میری اُمید کی آخری کرن تھا۔۔۔ مَیں نے آخری دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا۔۔۔ یہاں کوئی نہیں تھا ہر طرف خامشی کا راج تھا لیکن جو بات قابلِ غور تھی وہ یہ کہ یہاں چاروں جانب آئینے ہی آئینے لگے ہوئے تھے۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ معاملہ کیا تھا میں نے ہمت کی اور ایک آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی مگر یہ کیا میرا باقی جسم تو میرا ہی تھا مگر میرے چہرے کی جگہ ایک نوزائیدہ معصوم سی بچی کا چہرہ تھا۔۔۔مجھے یقین نہیں آیا میں گھبرا کر دوسرے آئینے کے سامنے جا کھڑ ی ہوئی مگر یہاں بھی جسم میرا تھا مگر چہرہ اس خاتون کا تھا جو حالت دردزہ میں مجھے ملی تھی میں نے خوف زدہ ہوکر ایک چیخ ماری اور پھر۔۔۔ میری آنکھ کھل گئی۔۔۔ میرا لکھا ہوا افسانہ میر ے ہی آنسوؤ ں سے بھیگ چکا تھا۔۔۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا اور ایک گہری سوچ نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا ’کہ مردوں کے اس معاشرے میں میرا احتجاج کہیں مجھے بھی کسی داستان میں نہ بدل دے۔۔۔ اور کہیں اس عبرت کدہ میں آٹھویں دروازے کا اضافہ نہ ہو جائے‘ ۔۔۔میں نے اپنا افسانہ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے