Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آتما رام

بلراج مینرا

آتما رام

بلراج مینرا

MORE BYبلراج مینرا

    کہانی کی کہانی

    افسانہ زندگی کی بے معنویت پر مبنی ہے۔ ایک بیٹا اپنے پاب کی لاش کے آخری رسومات ادا کرنے شمشان گھاٹ جاتا ہے، باپ کی ناگہانی موت نے اسے ششدر کر دیا ہے۔ اس کا باپ ایک اصول پسند منظم زندگی گزارنے والا، اپنا بوجھ خود اٹھانے والا شخص تھا جس نے مرتے وقت بھی کسی کو زحمت نہیں دی۔ ایسی جگہ پر اس کی موت واقع ہوئی جہاں اس کا کوئی شناسا نہیں تھا ، اس کی لاش کو لاوارث سمجھ کر شمشان گھاٹ پہنچا دیا جاتا ہے آخری رسومات کرتے ہوئے بیٹا سوچتا ہے جس شخص نے اپنی زندگی میں اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دئیے وہ آج اتنی معمولی سطح پر ہے۔ ماضی کی باتیں یاد کر کے اس کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور اس کی سانسیں تھم جاتی ہیں۔

    ’’عمر بھر جینے کے لئے مرتے رہے اور جب مرے تو ایسی ذلت کی موت۔۔۔ آدمی کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو سکتی ہے۔‘‘ انسپکٹر بخشی کی تسلی بھری باتوں کا جواب بلدیو نے اس ایک جملے میں دیا اور کوتوالی سے باہر آ گیا۔

    چاندنی چوک میں وہی ریل پیل تھی، وہی شور و غل تھا جس سے بلدیو مانوس تھا مگر اس وقت اس کے گرد خوفناک سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ اسے اپنے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ دل زور زور سے دھڑکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ اس کے دل پر غم کا بوجھ تھا جس کے دباؤ سے اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ وہ دہاڑیں مار مار کر رونا چاہتا تھا اور اس طرح اپنے گرد پھیلے ہوئے سناٹے کو توڑنا چاہتا تھا، مگر ہمیشہ کی طرح اس کے دل اور ذہن میں جنگ ہو رہی تھی۔ اس کے ذہن میں دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ یہ خیال بھی شدت کے ساتھ گونج رہا تھا، ’’کیوں بن رہے ہو۔ رونا چاہتے ہو! یہ باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں۔‘‘ اس کے آنسو پلکوں میں پھنس کر رہ گئےتھے۔ اس کے سامنے اس کے ذہن نے پلکوں کی دیوار چن دی تھی۔ یہ اس کا ذہن ہی تھا جس نے اتنے بڑے حادثے کی خبر پاکر بھی انسپکٹر بخشی کو متوازن جواب دیا تھا۔

    وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا شمشان بھومی کی جانب بڑھ رہا تھا جیسے وہ ہر قدم سوچ کر اٹھا رہا ہو۔ اسے اپنی رفتار کا احساس بھی تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایک مدت سے اسی طرح چل رہا ہے اور ایک مدت کے بعد وہ شمشان بھومی پہنچےگا جہاں اسے زندگی کا سب سے بڑا تماشہ دیکھنا ہے۔

    شمشان بھومی پہنچتے پہنچتے اس کی حرکت کرنے کی تمام قوت ختم ہو چکی تھی۔ وہ تھکن سے چور شمشان بھومی کے لان میں پیپل کے پیڑ کے سائے میں پتھر کے چبوترے پر بیٹھ گیا اور بجھی بجھی سی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ تھکن سے اس کی رنگت زرد ہو گئی تھی اور غم سے اس کی آنکھیں قریب المرگ مریض کی آنکھوں کی طرح بےچین، اداس اور موت کی منتظر دکھائی دیتی تھیں۔

    شمشان بھومی میں زمین کی سطح سے دو دو فٹ ابھر ہوئے چبوتروں پر کہیں چتائیں ٹھنڈی ہو رہی تھیں، کہیں ان کی لپٹیں لاشوں کے ایندھن سے غیر مطمئن ہوکر آسمان تک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے اٹھ رہی تھیں۔ قریب قریب باقی کے ہر چبوترے پر ٹھنڈی یا گرم راکھ کے بچھونے سے بچھے ہوئے تھے۔۔۔ شمشان بھومی بلدیو کو اپنی طبیعت کے مطابق محسوس نہ ہوئی۔ اس نے سوچا کہ ایک چبوترہ مدتوں سے بنا ہوا ہے، ہر دوسرے دن ایک لاش لائی جاتی ہے اور اس چبوترے پر سپرد آتش کر دی جاتی ہے۔ چبوترہ اہم ہے مگر گوشت پوست سے راکھ میں تبدیل ہونے والوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

    وہ بہت دیر تک اسی طرح گم سم بیٹھا رہا اور آدمی کے آخری نشان کو آگ کی آغوش میں راکھ ہوتے دیکھتا رہا۔ جب اسے وحشت سی ہونے لگی تو اس کے جسم میں کپکپی کی لہر سی دوڑ گئی اور وہ کانپتے ہوئے ان چبوتروں کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا جن پر ٹھنڈی راکھ کے بچھونے بچھے ہوئے تھے۔ اس نے پھر سوچا، ’’ان میں سے کوئی ایک ہوگا۔‘‘

    وہ یہ سوچ نہیں پا رہا تھا کہ کس سے پوچھے اور کیا پوچھے۔ اس کے ذہن میں کئی سوال ابھر رہے تھے، مگر جب وہ انہیں زبان پر لانے کی کوشش کرتا، اسے زندگی کی تذلیل کا کسیلا پن محسوس ہونے لگتا اور وہ سوچنے لگ جاتا۔

    وہ چبوتروں کی قطار کے آخر میں ایک چبوترے کے پاس کھڑا تھا اور اس پر مٹھی بھر پھیلی ہوئی راکھ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ راکھ میں کہیں کہیں کوئی جلی ہوئی ہڈی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے ذہن میں اچانک کوندے کی طرح بیدی کی بات لپکی، ’’آدمی کی جیتے جی تو ہڈیاں ہوتی ہیں مگر مرنے کے بعد پھول!‘‘ اس پر بیدی کی بات نے ملال کی چادر ڈال دی۔ وہ ان پھولوں کو اپنی نگاہوں کا مرکز بنائے دیکھتا رہا۔ اس کے ذہن میں بار بار یہ خیال چکر لگانے لگا، ’’کاش ان پھولوں کو گوندھ کر مرنے والے کی شبیہ بنائی جا سکے۔‘‘

    وہ بہت دیر وہیں بت بنا کھڑا رہا۔ اسے بہت دیر تک اسی حالت میں کھڑا دیکھ کر شمشان بھومی کا ایک پنڈا اس کے قریب آکر کھڑا ہو گیا اور چبوترے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا، ’’بابو جی، کل شام سپاہی رام سنگھ سیوا سمیتی کے ایک آدمی کے ساتھ یہاں ایک لاش لایا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ لاش کسی بہت بڑے آدمی کی دکھائی دیتی ہے مگر اس کے گھر کا پتہ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ بابو جی، وہ شخص، وہ جس کی لاش سپاہی رام سنگھ لایا تھا، صبح کمپنی باغ میں سیر کر رہا تھا۔ اچانک وہ گر گیا۔ لوگوں نے سنبھالا مگر وہ مر چکا تھا۔ پولیس نے چیر پھاڑ کروانے کے بعد لاش کو ریڑھی میں لدوا کر کمپنی باغ کے پاس کے سب محلوں میں گھمایا مگر اس کے گھر والوں کا پتہ ٹھکانہ معلوم نہ ہو سکا۔ شام کو پولیس نے لاش سیوا سمیتی کے حوالے کر دی اور سیوا سمیتی نے لاوارث سمجھ کر انتم سنسکار کیا۔

    میں نے لاش کا منہ دیکھا تھا۔ بابوجی، مرا ہوا بالکل نہیں لگ رہا تھا۔ وہ تو ہنس رہا تھا۔ سپاہی رام سنگھ کہہ رہا تھا کہ ضرور کوئی بڑا آدمی ہے، کیونکہ سیر کرتے وقت اس کے ہاتھ میں سانپ کی طرح کی بڑی قیمتی چھڑی تھی اور اس کی کلائی پر بڑی قیمتی گھڑی بندھی ہوئی تھی۔ اس لیے رام سنگھ کو ترس آ رہا تھا۔ اس نے لاش کا منہ کھول کر اپنی جیب سے تانبے کا پیسہ نکال کر ڈالا اور ہندوؤں کی یہ آخری رسم پوری کی۔ وہ کہتا تھا کہ ’’اگر اس کے گھر والوں کا ٹھکانا معلوم ہو جاتا تو اس کا جنازہ دھوم دھام سے اٹھتا۔ بابو جی، بڑا خوبصورت آدمی تھا۔ شاید پچاس سال کا ہوگا مگر بڑا دبلا تھا۔ اس لیے صرف سات من لکڑیاں ہی کافی ہوئیں۔ دیکھئے، ہڈیاں تک راکھ ہوگئی ہیں۔ جانے بیچارے کے گھر والوں کو پتہ چلا ہے کہ نہیں۔ ابھی تک تو کوئی پھول چننے کے بارے میں پوچھنے نہیں آیا۔‘‘

    بلدیو پنڈے کی باتیں بڑے ضبط سے سن رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد اندھیرا چھا رہا تھا۔ پاؤں لرز رہے تھے۔ اس نے بڑے کرب سے کہا، ’’میں پھول چننے آیا ہوں۔‘‘

    پنڈا حیران ہو گیا۔ اس نے بلدیو کو اس چبوترے کے پاس ساکت دیکھ کر اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر وہ سب باتیں کہی تھیں اور یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی باتیں سننے والا پھول چننے آیا ہے۔ اس نے اداس سی آواز میں کہا، ’’بابو جی، آپ پھول چننے آئے ہیں!‘‘

    ’’ہاں، یہ میرے۔۔۔ میرے والد ہیں۔‘‘ بلدیو نے مٹھی بھر راکھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لرزتی ہوئی، رکتی ہوئی آواز میں کہا۔ کچھ دیر دونوں خاموش رہے پھر پنڈے نے دھیمے سے کہا، ’’بابو جی، پھول تیسرے دن چنتے ہیں، آپ کل سویرے آ جائیں۔‘‘

    پنڈے کی بات سن کر بلدیو تھوڑی دیر خاموش رہا اور چبوترے پر پھیلی ہوئی راکھ کو گھورتا رہا۔ کچھ دیر بعد اس نے نظر اٹھائی اور شمشان بھومی کو اپنی آنکھوں میں بیزاری اور حقارت سے جذب کرتے ہوئے بولا، ’’نہیں، پھول میں آج ہی چننا چاہتا ہوں۔ اس جگہ اب میں جیتے جی دوسری بار آنا نہیں چاہتا اورنہ ہی اب کوئی میرا عزیز، دوست یا رشتہ دار رہا ہے، جس کی موت پر مجھے یہاں آنا پڑےگا۔ یہ بڑی ذلیل جگہ ہے۔‘‘

    ’’بابو جی، جیسا آپ چاہیں مگریہ ہمارے دھرم کے انوسار نہیں ہے۔‘‘

    تھوڑی دیر بعد پنڈا پیتل کی تھالی میں گلاب کی پنکھڑیاں اور پیتل کے لوٹے میں دودھ لے کر آ گیا۔ اس کے ساتھ دس بارہ سال کا ایک لڑکا بھی تھا جس نے خالی بالٹی اٹھائی ہوئی تھی۔ سب سامان چبوترے کے پاس رکھنے کے بعد پنڈے نے بلدیو سے کہا، ’’آپ جوتے اتار دیجئے۔‘‘

    بلدیو نے خاموشی سے جوتے اتار دیے اور پنڈت کے کہنے کے مطابق ہندوؤں کی رسوم ادا کرنے لگا۔ پنڈے کے پیچھے پیچھے اس نے چبوترے کے تین چکر لگائے۔ چکر لگانے کے بعد دونوں مستطیل چبوترے کی دائیں جانب بیٹھ گئے جدھرلاش کا سر لکڑیوں پر چنا جاتا ہے۔ پنڈا شلوک پڑھتا رہا جو بلدیو کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ بلدیو پنڈے کے اشارے پر دودھ کے چھینٹے راکھ پر برساتا رہا۔ جب وہ سات بار دودھ کے چھینٹے راکھ پر برسا چکا تو پنڈے نے شلوک پڑھنے بند کئے اور اس سے مخاطب ہوا، ’’اب آپ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے راکھ کو کریدئے اور جو بھی پھول آپ کو ملے تھالی میں رکھتے جائیے۔‘‘

    بلدیو نے پنڈے کی طرح راکھ کو کریدنا شروع کیا اور جو بھی پھول اسے ملا، وہ زور زور سے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ تھالی میں رکھتا گیا۔ ہندوؤں کی ان رسوم کو ادا کرنے کا عمل اسے ذلت آمیز محسوس ہو رہا تھا اوراس کے باپ کے پھول جو محض ہڈیوں کے چھلکے تھے، اس کی آنکھوں میں چبھنے لگے تھے، مگر وہ ان احساسات کے باوجود غم کی شدت سے، جس نے اس کی آنکھوں کے آنسو بھی خشک کر دیے تھے، پنڈے کی ہدایت کی ڈوری پر پتلی کی طرح ناچ رہا تھا۔ یکایک پنڈے نے کہا، ’’بابوجی‘‘ یہ دیکھئے آتما رام!‘‘

    اس نے پنڈے کی طرف دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی راکھ میں لپٹی ہوئی ہڈی تھی جو ساٹھ کے زاویے میں خم کھائے ہوئے تھی۔ پنڈت نے کہا، ’’یہ آتما رام ہے۔ دیکھئے کیسے سمادھی لگائے بیٹھا ہے۔ بابو جی، آپ کے والد بڑے بھاگیہ وان ہیں۔ مرنے کے بعد ان کی آتما کو شانتی مل گئی ہے۔ جن لوگوں کا آتما رام سمادھی لگا کر بیٹھا ہوتا ہے ان کی آتما کو شانتی ملتی ہے۔ ان کی آتما دکھی نہیں ہوتی۔‘‘

    بلدیونے آتما رام کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور غور سے دیکھا۔۔۔ جیسے گیلی دیوار پر جھینگر مٹی کا گھر بناتے ہیں، ویسا ہی تھا آتما رام۔ اس نے دل میں کہا، ’’مرنے والے کو دکھ ہو سکتا ہے کیا؟‘‘

    تھالی جب راکھ سے آلودہ پھولوں سے بھر گئی تو پنڈے نے بالٹی میں تین بار راکھ بھری اور جمنا میں جا کر بہادی، چبوترے سے راکھ کا بچھونا جیسے کسی نے سمیٹ لیا ہو۔ بلدیو نے محسوس کیا، جیسے اس کا باپ ہوا میں کافور کی مانند تحلیل ہو گیا ہے۔

    پنڈے نے پھولوں سے بھری ہوئی تھالی، لڑکے کو باقی سامان اٹھانے کو کہا اور بلدیو کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ گھاٹ کے پانی سے باہر جو پہلی سیڑھی تھی، وہاں وہ بیٹھ گئے۔ پنڈے نے اسے دودھ میں گلاب کی پنکھڑیاں ڈال کر پھولوں کو دھونے کے لئے کہا اور خود شلوک پڑھنے لگا۔

    پھول دھونے کے بعد بلدیو نے پنڈت کے کہنے کےمطابق پھولوں کو ماتھا ٹیکا اور آنکھیں موند کر دل میں باپ کو یاد کیا۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو پنڈے نے کہا، ’’بابو جی، پھول کو ہری دوار لے جائیں گے یا یہیں جمنا میں بہائیں گے۔‘‘

    بلدیو نے پنڈے کی بات کا جواب دیے بنا دودھ میں دھلے ہوئے پھولوں سے بھری تھالی اٹھائی، پھولوں کو آنکھوں سے لگایا اور پھول جمنا میں بہا دیے۔ پھول جمنا کی نذر کرنے کے بعد اس نے اپنے باپ کی آخری آرام گاہ جمنا کی روانی اور جمنا کے پاٹ پر نگاہ ڈالی۔ جمنا کا مٹیالا سا پانی گھاٹ کے قریب دھیمے دھیمے بہہ رہا تھا۔ دور تک ریت ہی ریت دکھائی دے رہی تھی اور ریت پر دوسرے کنارے کے قریب کوڑے کے بے شمار ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ اس نے دل میں کہا۔ ’’پوتر گٹر!‘‘

    پنڈے کو جو کچھ اس کے ہاتھ میں آیا، اس نے دیا اور شمشان بھومی سے باہر آ گیا۔

    تمام دن بلدیو گم سم بازار میں گھومتا رہا۔ نہ اسے کھانے کا ہوش تھا نہ آرام کا۔ اس کے ذہن میں بہت سے دھاگے الجھ گئے تھے اور وہ کسی ایک بات کے بارے میں سوچ نہیں پا رہا تھا۔ گھومتے گھومتے اس کے پاؤں شل ہو گئے۔ جب اس میں چلنے کی سکت نہیں رہی تو وہ بس اسٹینڈ پر ریلنگ کے سہارے کھڑا ہو گیا۔ اس کے پیٹ میں بھوک کی زبردست لہر اٹھی اور اس کے سکڑے ہوئے جسم کو جھنجھوڑ گئی۔ اس نے اپنے سر پر ہاتھوں سے دو تین ضربیں لگائیں اور خود کو سنبھالا۔ اچانک ہی اس کے ذہن میں الجھے ہوئے دھاگوں کا ایک سرا سامنے آ گیا۔

    ایک آدمی جس نے پچاس سال کشمکش کی زندگی بسر کی ہو، جس نے عمر بھر اپنے گھر، گاؤں اور ملک کی خدمت کی ہو، جس سے ان گنت لوگ پیار کرتے ہوں، جس کے بےشمار دوست، عزیز، رشتے دار اور جس کا ایک بیٹا بھی ہو، کیا وہ لاوارث ہے۔۔۔؟ یا پھر شاید یوں ہو کہ جو آدمی زندگی بھر کسی کا محتاج نہ رہا ہو، وہ مرتے وقت بھی اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور اپنے بیٹے سے کفن، لکڑیوں اور کندھے کے سہارے کا محتاج نہ ہونا چاہتا ہو کیونکہ یہ اس کی کشمکش سے تعمیر کی ہوئی کامیاب زندگی کی تذلیل ہو سکتی ہے، اس لئے وہ صرف سیوا سمیتی کی سات من لکڑیوں اور سپاہی رام سنگھ کے تانبے کے پیسے ہی پر زندگی کے حاصل کے طور پر مطمئن ہو۔۔۔

    بلدیو نے زور سے اپنی آنکھوں کو بھینچا اور دھاگے کے نمایاں سرے کو ذہن کے دوسرے الجھے ہوئے دھاگوں میں الجھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ آنکھوں کو شدت سے بھینچنے سے اس کی کنپٹیوں پر رگیں ابھر آئیں اور ان میں آگ دوڑنے لگی اور اس کے ذہن میں باپ کی پچاس سالہ زندگی کے نقوش واضح ہونے لگے۔

    اس نے دیکھا۔۔۔

    دادا گنگا رام کے یہاں جو اولاد پیدا ہوتی ہے، سال بھر میں مر جاتی ہے۔ گنگا رام کو کوئی کہتا ہے، ’’اب جو بچہ پیدا ہو اس کا کان اور ناک چھید دو۔ بچہ زندہ رہے گا۔‘‘اس کا باپ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ناک اور کان چھید دیے جاتے ہیں اور اسی مناسبت سے اس کا نام نتھو رام۔

    نتھو رام کے بعد چار لڑکے اور گنگا رام کے یہاں پیدا ہوتے ہیں۔ گنگا رام کا دانہ پانی اٹھ جاتا ہے۔ نتھو رام پندرہ برس کا ہے۔ نتھورام ہے اور چار چھوٹے بھائی۔ بیوہ ماں اور کھانے کو کچھ نہیں۔وہ مزدوری کرتا ہے، چھابڑی لگاتا ہے، روکھی سوکھی روٹی پیدا کرتا ہے اور رات رات بھر پڑھتا ہے۔

    پہلی عالم گیر جنگ چھڑ جاتی ہے۔

    میٹرک کا امتحان پاس کرتا ہے۔ گاؤں جھینگڑ کلاں سے پیدل جموں جاکر فوج میں بھرتی ہوتا ہے۔

    پہلی عالم گیر جنگ کا محاذ۔

    عہدے میں ترقی۔

    بھائیوں کی تعلیم۔

    شادی۔

    پہلا بچہ بلدیو۔

    بیوی کی موت۔

    اور

    دوسری عالم گیر جنگ۔

    نتھو رام، ا نتھک زندگی، ان گنت پڑاؤ۔

    قدم بڑھ رہے ہیں۔

    دوسری عالم گیر جنگ اور برما کا محاذ ہے۔

    شدید طور پر زخمی ہوتا ہے۔

    اور اب بہت بڑا عہدہ ہے۔

    آرڈر آف برٹش انڈیا درجہ اول کا تمغہ ہے۔

    بھائی بس جاتے ہیں۔ ماں خوشی سے چل بسی ہے۔

    ۱۹۴۷ء

    آزادی

    پاکستان

    فیروز پور بارڈر سے فوجی ریکارڈ ونگ کی روانگی۔

    بنگلور

    نتھو رام اوربلدیو

    پہلی بار قریب آ رہے ہیں۔

    نتھو رام ایک فوجی شخصیت، مثالی کردار، کم گوئی کی شہرت، مہاتما کا لقب۔

    بلدیو، کمزور، دبلا پتلا بیمار، باپ کی سماجی حیثیت اس کا کامپلیکس اور فرار۔۔۔ مارکس، بدھ، دوستو وسکی، بلزاک، ایک راہ کی تلاش۔

    اور پھر

    دلی

    نتھو رام کو حکومت کی طرف سے ڈیفنس کالونی میں زمین کا نذرانہ۔

    اور۔۔۔

    اور۔۔۔

    اور۔۔۔

    ’’اور۔۔۔ کیا میں رشتہ داروں اور دوستوں کو آگاہ کروں کہ والد رخصت ہو گئے ہیں۔ ’’۔۔۔ نہیں۔۔۔! نہیں۔۔۔ میں یہ مصیبت مول نہیں لے سکتا۔ ہجوم کا تانتا بندھ جائے گا۔ لوگ والد کے مثالی کردار کے گن گائیں گے اور میں آوارہ، بیکار، صفر۔۔۔ صرف ذلت محسوس کروں گا۔۔۔ صرف ذلت۔۔۔ ذلت۔۔۔‘‘

    بلدیو کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ اس کا ذہنی توازن بگڑ چکا تھا۔ عجیب عجیب خیالات اسے گھیرے ہوئے تھے۔

    ’’سماج میں انقلاب آ چکا ہے۔ کھوکھلی قدریں مٹ چکی ہیں۔۔۔ نئی قدریں دل اور دماغ کو ٹھنڈک پہنچا رہی ہیں۔ اب کتے لاوارث لاشیں نہیں کھاتے۔۔۔ اب سیوا سمیتی سات من لکڑیوں میں پچاس سال کی جدوجہد کی زندگی پھونک دیتی ہے۔۔۔ سپاہی رام سنگھ تانبے کا پیسہ منہ میں ڈال کر آخری رسم پوری کرتا ہے۔۔۔ بھکاری ہو یا بڑی شخصیت، انتم سنسکار کے لئے چبوترے بنے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘

    بلدیو کے پیٹ میں بھوک کی زبردست لہر اٹھی۔ اس کے دل کی دھڑکن غیر معمولی طور پر تیز ہو گئی۔ کنپٹیوں پر رگیں بری طرح ابھر آئیں۔ کان کی لویں سرخ ہوگئیں۔ آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا اور اس کے ذہن میں تلوار کی دھار سے تیز یہ خیال ابھرا، ’’اور والد کی آتما سکھی ہے اور۔۔۔ اور میں۔۔۔‘‘

    اور تیز دھار نے اس کے دماغ کی رگوں کو کاٹ دیا۔

    تیسرے دن شمشان بھومی میں پنڈے کو بلدیو کے پھول چنتے ہوئے آتما رام کرب کی حالت میں کھڑا ملا۔ پنڈت نے دل میں کہا، ’’بابو جی کو باپ کے مرنے کا کتنا دکھ تھا۔ مرنے کے بعد بھی ان کی آتما دکھی ہے۔‘‘

    مأخذ:

    سرخ و سیاہ (Pg. 217)

    • مصنف: بلراج مینرا
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے