Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آتشیں بلاؤز

نعیم بیگ

آتشیں بلاؤز

نعیم بیگ

MORE BYنعیم بیگ

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم چھوٹے سے قصبے کی گندی سی گلی میں کرایے کے ایک کمرے میں اپنی زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہے تھے۔ ابا کی تیزی سے ڈھلتی عمر کو دیکھتے ہوئے اماں کو روز سمجھاتا، کہ اب اِس قصبے میں یوں گزارا نہیں ہو سکے گا۔ دونوں چھوٹے جیسے تیسے کر کے اسکول جا رہے تھے۔ میں انٹر کر کے انھی سوچوں میں گم رہتا، کہ آگے کیا کروں، کیا نہ کروں؟ ابا نے پہلے مجھے فراست چوہدری کے ڈیرے پر بھجوایا۔ اُس نے میری گفتگو اور میرے قد کاٹھ کو دیکھ کر کہا تھا۔ ”یار! تو یہاں کیا کرے گا۔ شہر چلے جا۔ شاید کچھ بن جائے۔ یہاں میرے پاس پرانے وقتوں کے منشی کام کرتے ہیں۔ زمینوں کے کھاتے، فصل کا حساب کرنے والے کئی ایک ریٹائرڈ پٹواری کام کرتے ہیں۔ ان چلتروں میں تم کیا کرو گے؟ رلا دیں گے تجھے۔“ میں اندر ہی اندر مسکرا دیا اور واپس چلا آیا۔

    چوہدری فراست نے اگلے دن ابا سے بھی یہی بات کہی۔ ابانے مجھ سے کہا۔ ”تو ابھی ٹھہر جا۔ کل میں تحصیلدار کے پاس جاؤں گا۔ وہ ہے تو بڑا کائیاں، لیکن کبھی کبھی دنیا کو دِکھانے کے لئے خدا ترسی پر اتر آتا ہے۔ ایک بار مجھے اس سے بات کر لینے دو۔ اگر کام بن گیا تو ٹھیک ہے ورنہ پھر تم میری طرف سے آزاد ہو۔ پھر جیسے تمہاری ماں کہے وہ کر لینا۔“

    تحصیلدار نے کئی مہینے انتظار میں رکھا، کبھی کل‘ کبھی پرسوں؟ یوں میں بیکاری میں سارا دن گھر میں پڑا سوتا رہتا اور رات کو چند ایک دوستوں کے ساتھ باہر نکل جاتا۔ ابا اور اماں کو معلوم تھا کہ میں یہیں قصبے کے چند لڑکوں کے ساتھ ہوں تو وہ بے فکر رہتے۔ آہستہ آہستہ مجھ میں رات کے اندھیرے میں پلنے والی علتیں پیدا ہونے لگیں۔ پہلے میں سگریٹ پیتا تھا نہ شراب، لیکن اب دونوں میں تسلسل آ گیا۔ یہ لڑکے ناجانے کہاں سے لے آتے۔ جو آتا اس کے ہاتھ میں ایک آدھ بوتل ہوتی۔ ہمارا قصبہ چونکہ انڈین باڈر کے قریب تھا، لہذا ہندوستانی شراب کہیں بہتر اور سستی ملتی۔ چھوٹا موٹا جرم اب میرے لئے کوئی اچنبھا نہ رہا تھا۔

    یہ بات صرف رانو جانتی تھی، کیونکہ میں جب بھی نشے میں جھومتا گھر آتا تو اوپر چھت پر چلا جاتا۔ ساتھ والی چھت پر رانو کو مخصوص آواز سے جگاتا اور ہم صبح تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے باتیں کرتے رہتے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی اور میڑک کر رہی تھی۔ وہی میرے پل پل کی ساتھی تھی، مجھے دبے لہجے میں نیک ہونے کی تلقین کرتی رہتی۔

    ایک دن راہ چلتے انہی دوستوں میں سے رازی جو میرا جگری بن چکا تھا، مجھے ملا۔ کہنے لگا، ”قریشی ایک نیا پروجیکٹ ملا ہے۔ کام شہر میں ہے کیا تم کرو گے؟“

    اندھے کو کیا چاہیے، دو آنکھیں۔ میں جھٹ سے تیار ہوگیا۔ اماں سے بات کی تو انھوں نے بے حد مخالفت کی اور صاف منع کر دیا۔ شاید انھیں میرے دوستوں کی بھنک مل چکی تھی۔ انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ میں کسی نوکری کی بجائے جرم کے بازار سے کچھ خریدنے شہر نکل رہا ہوں اور اگر ایک بار اس دنیا میں داخل ہوگیا تو پھر واپسی ناممکن ہوگی۔ جس رات میری اماں سے یہ بات ہوئی، اسی رات ہمارے گھر پر قیامت صغرا برپا ہو گئی۔ ابّا کو کوئی نامعلوم ٹرک کچل گیا۔ ہم سب قصبے کے ہسپتال پہنچے تو ابا کو اللہ نے بچا تو لیا، لیکن ان کی دونوں ٹانگیں کچلے جانے پر کاٹنی پڑیں۔ چند ہی ہفتوں میں وہ صحت یاب ہوگئے، لیکن وہیل چیئر پر آگئے تھے۔

    یہ حادثہ اس قدر اچانک اور جان لیوا ثابت ہوا کہ اماں اَدھ موئی سی ہو گئیں۔ مجھے ذہنی طور پر بہت بڑا جھٹکہ لگا تھا۔ اب بڑے بیٹے ہونے کے ناطے گھر کا سارا بوجھ مجھ پر آگیا۔ ابا جس آڑھتی کے ساتھ کام کرتے تھے اس نے مجھے کئی ایک بار آفر دی کہ میں ابا کا کام سنبھال لوں‘ لیکن میرے لئے اِس کام میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میرے خیال میں سبزی منڈی میں کھڑے ہوکر سبزیوں کی نیلامی کرنے سے بہتر ہے کہ میں ایک بار خود کو ہی نیلام کردوں اور غلام بن کر کسی امیر کبیر کے گھر بغل بچہ بن جاؤں۔ مجھے ہمیشہ اپنے ماسٹر جی کی آواز سنائی دیتی، جنھوں نے ایک بار بھری کلاس میں کہا تھا کہ دیکھ لینا! یہ منشا قریشی ایک دن بلندیوں پر ہوگا۔ کب ہوگا؟ یہ میرے سمیت کسی کو معلوم نہ تھا۔

    ابا اب کبھی کبھار چھوٹے کو ساتھ لے کر سبزی منڈی چلے جاتے اور گزارے کے لئے کچھ لے آتے۔ انھیں میرے رحجانات کا علم ہو چکا تھا۔ وہ اکثر و بیشتر مجھے ڈھکے چھپے انداز میں سمجھاتے۔ ایمان اور محنت کی کمائی پر زور دیتے۔ میں فرماں بردار بیٹے کی طرح ساری باتیں سن لیتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا۔

    پھر ایک دن بیکاری سے تنگ آکر اماں ابا سے لڑ جھگڑ کر میں شہر نکل آیا۔ رانو نے بھی مجھے روکنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ مشکل رستوں پر چلنا دشوار ضرور ہوتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔ نامساعد حالات کی تندی کو عقل و خِرد سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ میرے لئے اب مزید انتظار ناممکن تھا۔ زندگی میں خوشیوں کے خودبخود در آنے کا انتظار انسان کو شکستہ کر دیتا ہے۔ میں اسی عمر میں ٹوٹ جانے کو بزدلی سمجھتا تھا۔

    رازی نے چلتے ہوئے مجھے اپنے دوست فراز کا پتہ دیا تھا۔ جب اس سے رابطہ ہوا تو اس نے پہلے تو فوراً میرے رہنے کا بندوبست کر دیا۔ کچھ پیسے دئے اور مجھے کسی پروجیکٹ کے انتظار کرنے کو کہا۔ چند دنوں بعد اس کے پیغام پر جب میں اسے ملنے گیا تو فراز نے میرا حلیہ بدل دیا اور کھڑے کھڑے مجھے ایک کامیاب کاروباری آدمی کا روپ بخش دیا۔ جیب میں ایک ہزار روپئے کے نوٹوں کا پورا پیکٹ ڈالا اپنے ڈرائیور کے ساتھ ایک فائل دیکر بھجوا دیا اور کہا جیسے بھی ہو یہ کام کروا کر ہی آنا ہے۔ افسر اچھا بھلا مانس آدمی ہے۔ مان جائے گا۔ یہ تمہارا پہلا ٹسٹ کیس ہے۔ میں نے کچھ ایسی عاجزی، رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے اس افسر سے بات کی کہ اس نے آدھے پیسوں میں کام کر دیا۔ واپسی پر جب میں نے فراز کو پچاس ہزار واپس دئے تو اس نے کہا یہ تم رکھ لو۔ اس سے اپنے لئے زندگی کو بہتر بناؤ اور نئے پروجیکٹ کا انتظار کرو۔ سفید جرم کی دنیا میں یہ میری پہلی کامیابی تھی۔ میں کامران ہو گیا تھا۔ یہ اطمینان میرے اندر اعتماد کی مضبوط فضا قائم کرنے کی پہلی نیو تھی۔

    جلد ہی نیا پروجیکٹ آگیا۔ اِس بار پروجیکٹ ڈیلیوری کا تھا۔ زیرِ زمین دنیا میں مال کی ڈیلیوری ہمیشہ خزانوں کے منہ کھول دیتی ہے۔ اس پروجیکٹ کی کامیابی نے مجھے ایک دم آسمان پر پہنچا دیا۔ فراز نے مجھے ایک کلب کی رکنیت لے دی، وہاں میں نے اپنے لئے ایک کمرہ ہمیشہ کے لئے بک کر لیا، اور کئی ایک مہینوں کا ایڈوانس کرایہ بھی دے دیا۔ قصبے میں اماں کا اکاؤنٹ بینک میں کھول دیا اور اسکا اے ٹی ایم کارڈ لیکر چھوٹے کو دے دیا، جب وہ چاہتا پیسے نکال کر اماں کو دے دیتا۔ اماں کو بتا دیا تھا کہ مجھے نوکری مل گئی ہے۔ دو تین بار اماں نے مجھے کہا کہ وہ شہر میں میرے پاس آکر رہنا چاہتی ہے۔ میں کسی بہانے ٹال دیتا، کیونکہ میں جب تک کوئی مناسب سا گھر نہ لے لیتا انھیں شہر لانا نہیں چاہتا تھا۔ یہاں کلب میں میرے پاس کاروباری لوگوں کی ایک دھماچوکڑی رہتی۔ ہر شخص جال لئے کسی بڑی مچھلی کے پھنس جانے کے انتظار میں ہوتا۔

    میں اب شہر سے مانوس ہوتا جا رہا تھا۔ میرے حلقہ احباب میں چھوٹے بڑے سرکاری افسر، کاروباری اور سیاسی لوگ شامل ہوتے جا رہے تھے۔ ایک ماحول بنتا جا رہا تھا۔ جس میں نت نئی کال گرلز کی فراوانی لازم ہوتی۔ کاروبار چل نکلا تھا، میں نے اب پوش علاقے ہزار گز کا بڑا سا گھر لیز پر لے لیا تھا۔ جس میں سوئمنگ پول بھی تھا۔ فراز میرے طریقہ کار اور نتائج سے بالکل مطمین تھا۔ اب ہم مل کر نِت نئے کام سوچتے اور کامیاب ہو جاتے۔ ٹھیکیداروں کو ٹھیکہ دلانا ہو۔ کسی افسر کی کماؤ سیٹ پر پوسٹنگ کروانی ہو۔ پلازے، پل عمارتیں اب ہمارے اشاروں پر تعمیر ہونے لگیں ۔ جہاں کہیں کوئی سرکاری زمین کا نشان ملتا تو ہم چائینہ کٹنگ سے اس پر قابض ہوتے اور چند مہنیوں میں بڑی رقم نکال کر الگ ہوجاتے۔ اب بات لاکھوں سے نکل کر کروڑوں اور اربوں میں ہونے لگی تھی۔ تین سال کے اندر اندر ملک اور ملک سے باہر کئی کمپنیوں کے اکاؤنٹوں میں پیسہ منتقل ہو چکا تھا۔ فراز کو یورپ بہت پسند تھا۔ مجھے فار ایسٹ۔ ہم نے اس کا حل یہ نکالا کہ فراز نے پیرس میں اور میں نے ہانگ کانگ میں ایک ایک بڑا گھر لے لیا تھا۔ اب فرصت میں ہمارے ٹرپ انھی دو شہروں کے گرد رہتے۔ اسی دوران رازی نے بھی ہمیں جائن کر لیا تھا۔ فراز اب سول اور ملیٹری افسروں اور سیاست دانوں کو کلی طور پر میرے حوالے کر چکا تھا۔ جن سے میرے تعلقات اب کنگ میکر کی حیثیت میں بن چکے تھے۔ خفیہ ہاتھوں کے ساتھ مل کر ہم اب بڑے بڑے فلاحی کاموں کے علاوہ چھوٹے سیاستدانوں کو کس طرح پاکستان کی سیاست میں لانا ہے، پر گفتگو کرتے۔ سیاسی منظر نامے اب ہماری مرضی سے بننے لگے۔ میڈیا کا ایک بڑا حصہ ہمارے ساتھ تھا، اور ہماری زندگی ارسٹوکریٹک انداز میں آگے بڑھ رہی تھی۔ ہمارے بیشتر کاروبار شرافت کا لبادہ اوڑھ کر لیگلائز ہو چکے تھے ۔ عام لوگ ہمیں قانون پسند اور ایمان دار کاروباری جانتے ہیں۔ جب میں اور فراز کبھی تنہا ہوتے تو خوب ہنستے۔۔۔ فراز کہنا۔

    ”دیکھا۔۔۔ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم ایک رنڈی کی طرح کامیاب ہیں۔“

    ’’نہیں۔۔۔ نہیں فراز! ہم طوائفوں کے بھڑوے ہیں۔ ہم ان رنڈیوں کی منڈی میں صرف جال پھینکتے ہیں۔ جن میں چھوٹی بڑی رنڈیاں قابو میں آجاتی ہیں۔“

    ہم دونوں کے قہقہے ایک ساتھ دھوئیں اور شراب کی مہک میں گم ہو جاتے۔ ہم دونوں ابھی تک بیچلرز تھے۔ کئی ایک گرل فرینڈز نے مجھ پر ڈورے ڈالے، لیکن میرے بستر کو گرم کرنے کے باوجود مجھ پر ان کا جادو نہ چل سکا۔ رانو میرے دل میں بسی ہوئی تھی۔ اب ایک بڑے پروجیکٹ میں مصروف تھا کہ وہ ختم ہو تو میں قصبے میں جاکر اماں سے بات کروں۔

    زندگی رواں تھی اور درمیان میں ابا کو ایک آدھ بار میں نے دوست کی طرف سے سرمایہ کی پیشکش کی تاکہ وہ قصبے میں ایک بڑا سا پلازہ بنا کر کرایے پر چڑھا دیں اور ساری زندگی اس بات پر خوش رہیں کہ انھوں نے بیٹے کی کمائی نہیں کھائی۔ یہ تجویز انھوں نے کمال بے اعتنائی سے ٹھکرا دی۔ وہ کہتے۔ ”جن رستوں پر تم چل رہے ہو اِن کا اَنت ویرانوں میں ہوتا ہے۔‘‘

    میں کہتا۔ ”ابا! آخر ہم سب نے انھی ویرانوں میں ہی تو جانا ہے۔ لیکن جو رقم میں آپ کو دے رہا ہوں وہ تو فراز کی محنت کی اور جائز کاروباری کمائی ہے۔ اس کا بڑا کاروبار فرانس میں ہے۔ وہ آپ سے مل بھی چکا ہے۔‘‘

    لیکن ابا کے پاس وہی ایمان داری، محنت، جھوٹ اور منافقت سے پاک جائز اور حلال کمائی کا بوسیدہ تصور ہی تھا۔ اسے وہ کائناتِ کل سمجھتے تھے۔

    یوں میں نے چھوٹے کو راضی کر لیا تھا کہ وہ میڑک پاس کرتے ہی کہیں اپنی مرضی کا کاروبار دیکھے میں اسے بینک سے رقم لے دوں گا تاکہ یہ حیلہ بھی نہ رہے کہ میں نے حرام کے پیسے دئے ہیں۔

    ایک دن میں، فراز اور رازی ایک ساتھ مستقبل کے نئے پلان بنا رہے تھے۔ سیاست میں بڑا اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آ رہا تھا۔ نئے الیکشن سامنے آرہے تھے۔ مجھے کچھ قریبی دوستوں سے سن گن مل چکی تھی کہ حکومت کا بسترا گول ہے اور نئی حکومت آ رہی ہے۔ رازی کہنے لگا میرے ایک قریبی دوست ہانگ کانگ مین پاکستانی سفارت خانے میں بڑے افسر لگے ہیں، وہ ممکنہ طور پر نئی حکومت کے قریب ہیں۔ میرے ذہن میں جھماکہ ہوا۔ کیوں نا ہم ایک گرینڈ پارٹی ہانگ کانگ میں رکھیں۔ سب ملکی اور غیر ملکی دوستوں کو وہیں بلاتے ہیں، جس میں اس سفارتی افسر کے چنیدہ جاننے والے پاکستان سے کچھ افسر دوستوں کو بھی بلاتے ہیں، تاکہ آنے والے دنوں میں ہمارے رابطے کامیاب رہیں۔ اِدھر یہ سب طے ہوا، اُدھر رازی کی ذمہ داری لگ گئی کہ وہ اس گرینڈ پارٹی یعنی ایک انٹرنیشنل سیمینار کا انتظام کرے،۔ جو ہانگ کانگ کے ایک گرینڈ ہوٹل میں ہو۔ ہماری لوکل کمپنی اس کی سپانسر تھی۔ شریک سپانسر ایک امریکن کمپنی تھی جو انوسٹمنٹ کے نام پر دنیا بھر سے معصوم لوگوں کو لوٹتی تھی۔ مجھے یقین تھا اس سارے عمل میں ہم ملکی اور غیر ملکی نئے گاہکوں کی تلاش میں کامیاب ہو جائیں گے۔

    جب میں ہانگ کانگ پہنچا تو میں نے فوراً اپنے گھر کے منیجر مسٹر ڈیوڈ کو بلا بھیجا جو چھٹیاں گزارنے سنگاپور گیا ہوا تھا۔ مسٹر ڈیوڈ ادھیڑ عمر کا سمجھدار منیجر تھا۔ واپس آنے سے پہلے اس نے کہا اس کے پاس کچھ نئی لڑکیاں کام کے لئے آئیں ہیں کیا وہ اپنے ساتھ لیتا آئے۔ میں نے حامی بھر لی۔ وہ اپنے ساتھ چار لڑکیاں لیتا آیا۔ باقی تینوں تو بس گزارہ ہی تھیں لیکن ایک لڑکی میرے دل کو بھا گئی۔ لامبا قد، نقش کچھ کچھ ہمارے ملکوں جیسے۔ اس کا نام چاؤ شی تھا۔ بہت عمدہ انگریزی اور چائنیز بولتی تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ ہم لوگ انھیں زرد ریس کیوں کہتے ہیں وہ اچھی خاصی گوری تھی، بلکہ یوں سمجھئے جیسے ہمارے ہاں پنجابی کشمیری لڑکیاں ہو تی ہیں۔ جٹی ٹائپ۔ اس نے بتایا کہ اس کے باپ کے جد امجد چائنیز تھے جو بعد میں سنگاپور میں سیٹل ہوگئے۔ اب ہم سنگاپورین ہیں۔

    چاؤشی کلی طور پر میرے ساتھ بطور سیکرٹری اٹیچ ہو گئی۔ میں نے اس کے جسم کی تعریف کی تو خود ہی کہنے لگی وہ وہاں ڈانسر کے طور پر ایک کلب میں کام کرتی تھی اور قانونی طور پر کلب ڈانسروں اور سیکس ورکروں کو اپنی جسمانی ساخت اور بیماریوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ میں مسکرا دیا۔ چند ہی دنوں میں چاؤشی میرے بہت قریب آگئی۔ مجھے اکثر اس کے اندر پاکستانی لڑکیوں جیسی عادات نظر آتیں، جو مجھے اچھی لگتیں۔

    ہماری گرینڈ پارٹی کامیابی سے گذر گئی۔ رازی اور فراز نے اِس بار یہ انتظام کیا تھا کہ سبھی لوگ تقریباً نئے ہوں۔ اِن میں اکثر ہمیں جانتے تھے، لیکن ہم انھیں کم ہی جانتے تھے۔ لوگ ملکی اور عالمی کمپنیوں سے تعلقات کی وجہ سے ہم سے ملنے میں فخر محسوس کرتے۔ ہمارے لئے یہ سب مستقبل کے شکار تھے، جنھوں نے ایک دن ہمارے جال میں پھنسنا تھا۔ اس تقریب میں رازی نے ہر اہم شخص کے ساتھ ایک نئی لڑکی سیکرٹری لگا دی تھی۔ جو حقیقت میں سب ہی سیکس ورکرز تھیں۔

    پارٹی جو تین روز کے جعلی سیمینار پر مشتمل تھی اپنے اختتام کو پہنچی تو لوگوں نے گروپ فوٹوز کھینچوائے۔ یادگاری سوونیئر تقسیم ہوئے۔ سرٹیفکیٹس تقسیم کئے گئے اور سب نے اپنی اپنی سہولت سے واپسی کی راہ لی۔ کامیاب فری سیمینار کے انعقاد پر سبھی خوش تھے۔ چند سرکردہ لوگوں نے ہمیں پاکستان میں نئی حکومت میں کھلا راستہ دینے کا عندیہ دیا، جسے کمال شفقت سے ہماری کمپنیوں نے قبول کر لیا۔ ہم اِس حد تک سوچ رہے تھے کہ شاید ہمیں نئی حکومت میں کوئی عہدہ بھی مل جائے۔ جس پر فراز اور رازی نے فوراً میرا نام لیا اور کہا یہی ہمارا پڑھا لکھا انگریزی بولنے والا تگڑا بندہ ہے۔ اگر ایسی آفر آئی تو قریشی جائے گا۔ ہم کاروبار سنبھالیں گے۔

    اسی اثنا میں چاؤشی ہمارے لئے شام کی ڈرنکس لیکر آگئی۔

    ہم نے کامیاب سیمینار اور روشن مستقبل لئے ٹوسٹ کیا۔ یوں شام کا جشن ہماری کامیابیوں کا جشن تھا اور جو خوف ہمارے اندر جاگ اٹھا تھا کہ نئی حکومت کے ایجنڈے کے مطابق شاید ہمیں پاکستان ہمیشہ کے لئے چھوڑنا پڑے، وہ غائب ہو چکا تھا۔ فراز کہنے لگا۔

    ”یہاں صرف چہرے بدلتے ہیں ۔ عوام کے نصیبوں کو جگانے کے خواب دیکھائے جاتے ہیں۔ در اصل حقیقت یہی ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے سب کچھ نیا لگے گا۔ پھر وہی راگ، وہی راگنی۔ نظام کا تسلسل جاری رہے گا۔“

    ہمیں اندازہ ہو چکا تھا، کہ پاکستان کا نظام ویسا ہی چل رہا ہے جیسے پہلے چلتا تھا۔ بس جب تک حالات پوری طرح قابو میں نہ آئیں ہماری واپسی کی راہ ٹھیک نہیں۔

    جب پارٹی ختم ہوئی تو میں اپنے کمرے میں آگیا۔

    چاؤشی پہلے سے ہی کمرے میں موجود تھی۔ مجھے دیکھ کر کھِل اٹھی۔

    صوفے پر نیم دراز ہوتے ہی چاؤشی میرے سر کو اپنی گود میں رکھ کر میرے بالوں میں انگلیوں پھیرنے لگی۔ انگلیاں پھیرتے اس کے آتشیں رنگ کے بلاؤز سے جھانکتے پستان مجھے لبھانے لگے۔ یہ اس کے پیار کرنے کا مخصوص انداز تھا۔ وہ میرے بال سہلاتی جاتی اور ہنستی جاتی۔ آج اس کی ہنسی کچھ الگ سی لگی۔ بدلتے حالات میں میرے دل میں نئے خیالات آنے لگے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں اب چاؤشی کو دل سے پسند کرنے لگا ہوں۔ جب انسان کے اندر کسی عورت کے لئے جنسی بھوک کم ہو جائے اور اسے اس عورت کی عادات اور موجودگی سے انس ہونے لگے، تو سمجھ لیں وہ کہیں دور آپ کے اندر سرایت کر چکی ہے۔

    یکایک دروازے کا پٹ کھلا اور پھر بند ہوگیا۔ میں نے چاؤ شی سے پوچھا۔ کون ہے؟ وہ کہنے لگی۔ دیکھتی ہوں اور اٹھ کر دروازے سے باہر جھانکا۔ اور کسی کو اردو میں خدا حافظ کہ دیا۔

    واپس اندر آئی تو میں نے پوچھا کون تھا۔ کہنے لگی۔ بیٹی کو خدا حافظ کہہ رہی تھی۔

    ’’بیٹی؟ تم اردو جانتی ہو۔“ دونوں باتیں میرے لئے تعجب کا باعث تھیں۔

    ’’ہاں۔۔۔ سیما کل سے ہانگ کانگ اپنی کلاس کے ساتھ آئی ہوئی تھی، تو آج مجھے ملنے یہاں چلی آئی۔“ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی ”سیما میری بیٹی سات برس کی ہے۔ شام کو واپس جا رہی ہے۔‘‘

    ’’تم نے یہ سب مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟“ میرے لہجے میں خفیف سا غصہ تھا۔

    ’’کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔“

    وہ مسکرائی۔ سچ پوچھیں، یہ مسکراہٹ مجھے پہلی بار اچھی نہیں لگی۔

    وہ کہنے لگی ’’ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ جو کچھ میں نے سوچا ہو اور تم نے ایسا نہ سوچا ہو۔“ اس نے بڑھ کر میرا بوسہ لیا۔

    ’’اور پھر میری جان! تم جانتے ہو، ہمارے پیشے میں نسل، رنگ، قوم، مذہب، کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کلائنٹ صرف کلائنٹ ہوتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے مقصد کے حصول میں لگے ہوتے ہیں۔ سو کسی کو دوسرے کی نجی زندگی میں داخل ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘

    میں خاموش سا ہو گیا۔ مجھے عجیب لگا کہ آج ایک طوائف مجھے فلسفہ پڑھا رہی ہے۔

    ’’لیکن مجھے یہ بتاؤ۔ تم نے اردو کہاں سے سیکھی؟ کیا تم ابھی میرے ساتھ اردو بول سکتی ہو؟‘‘

    ’’ہاں کیوں نہیں۔ اگر تم ایسا چاہو، اردو میں بھی اچھی سروس دوں گی۔‘‘ اس کا مسکراتا ہوا جواب شستہ اردو میں تھا۔ مجھے بے حد حیرت ہوئی۔

    ”یہ اردو تو سیکھی ہوئی نہیں لگتی؟“

    کہنے لگی میں تمہیں بتاتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ میری بغل میں مزید اندر کو دھنس گئی۔

    ’’میری ماں کا تعلق کراچی سے تھا۔ وہ اکیلی تھی والدین کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔ کسی رشتہ دار نے بینک میں ملازمت دلا دی۔ وہ خوشحال زندگی کی ابتدا کرنا چاہتی تھی۔ ملازمت کے دوران ہی سنگاپور سے آیا ہوا میرا باپ اس سے ملا۔ پھر انھوں نے شادی کر لی۔ چند برسوں میں اس کا دل میری ماں سے بھر گیا، تب اس نے اسے بڑی پارٹیوں میں جسم فروشی کی طرف راغب کیا، شروع میں وہ اِس کی بات مانتی رہی لیکن پھر ایسا نہ کر سکی۔ جب میں تین برس کی تھی کہ اچانک میرا باپ ہمیں چھوڑ کر سنگاپور واپس بھاگ گیا۔ چند ہفتوں کے فاقوں نے ہی میری ماں کے سارے کس بل نکال دئے۔ پورا ایک سال نوکری کی تلاش میں در بدر رہی۔ پھر چار و ناچار اس نے سماج سے سمجھوتا کر لیا کہ ہر نوکری ، ہر قدم پر مرد پہلے جسم ہی مانگتا تھا۔ میں ہی جانتی ہوں کہ ہم نے وہ سخت دن کیسے گزارے۔ جب میں پندرہ برس کی ہوئی تو، وہ مجھے لیکر سنگاپور آگئی تاکہ مجھے اپنے باپ کے حوالے کر سکے۔ شاید اسے معلوم ہو چکا تھا کہ اُسے جان لیوا کینسر ہے۔ وہیں سنگاپور میں چند مہینے کینسر میں مبتلا رہ کر وہ مر گئی۔ فلیٹ کرایے پر تھا، جب آخری رسومات کے لئے ماں کے کاغذات بنے تو میں نے دیکھا، ماں کا پیشہ ’جسم فروش‘ لکھا ہوا تھا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ بے چاری کس قدر مشکل میں تھی۔ اس نے کبھی مجھے اپنے دکھوں میں شامل نہ کیا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکا چلی جاؤں۔ انھی دنوں مجھے تم جیسے ایک پاکستانی سے محبت ہوگئی تھی۔ جس نے پہلی بار میرے جسم کو استعمال کیا۔ سیما اس کی ہی نشانی ہے۔ پھر وہ سالا حرامی چالاکی سے مجھے فلپائنی مافیا والوں پر بیچ کر خود اکیلا امریکا نکل گیا۔ اب دیکھو نا۔ ہر لڑکی خودکشی تو نہیں کر سکتی نا۔ اب میں نے دل پکا کر لیا اور زندہ رہنے کا سوچ لیا ہے۔‘‘

    اس کے زبان سے سالا حرامی سن کر مجھے عجیب سا لگا۔ جیسے بجلی کے جھٹکے لگے ہوں۔ ناجانے میرے منہ سے بے اختیار کیسے نکل گیا۔

    ’’تو تم کراچی کی ہو۔ کراچی کی طوائف، کراچی کی رنڈی کی بیٹی۔۔۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کراچی کی کوئی رنڈی یہاں ہو گی۔‘‘

    اس نے ایک بڑا قہقہہ لگایا۔ مجھے صوفے پر گرا کر میرے اوپر چڑھ گئی۔

    ’’کراچی کی نہیں۔ پاکستانی رنڈی کہو۔۔۔ پاکستانی! پاکستانی طوائف۔‘‘

    اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور قہقہہ لگا کر اپنا آتشیں بلاؤز کھول دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے