Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آئینہ اور چہرے

ریحان علوی

آئینہ اور چہرے

ریحان علوی

MORE BYریحان علوی

    میں جیل کی چٹائی پر لیٹا اُن سلاخوں کو دیکھ رہا ہوں جس کے باہر ایک آزاد دنیا ہے۔ باہر چاروں طرف پُر ہول سناٹا اورگھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے مگر میرے اندر کی دنیا میں، مَن کی دنیا میں سچائی، محبتوں اور امیدوں کے جگنو جگمگا رہے ہیں۔ کسی قیدی کی بیڑیوں کی آواز کچھ دیر کے لیے سناٹے کو درہم برہم کر کے مجھے سوچوں کی سرسبز وادیوں سے پھر جیل کی کوٹھری میں واپس لے آتی ہے۔ میں قلم ہاتھ میں لیے کب سے اس سوچ میں بیٹھا ہوں کہ اس کہانی کا آغاز کہاں سے کروں۔۔۔ شکور، ہاں وہی شکور، جو میرے سامنے والی کوٹھری میں بیٹھا چھت کی کڑیاں گن رہا ہے۔ کہانی کا آغاز اُسی سے ہونا چاہیے۔

    شکور کا گھر میرے گھر سے ذرا فاصلے پر تھا۔ وہ آغا صاحب کے گھر ملازمت کرتا تھا۔ صبح تڑکے جاتا تو رات گئے لوٹتا۔ اسی لیے وہ محلے میں کم نظر آتا تھا اور محلّے والوں سے اس کی جان پہچان سلام دعا تک ہی محدود تھی۔ اس سے میری پہلی ملاقات ایک اخباری سروے کے دوران میں ہوئی تھی۔ وہ کافی ہنس مکھ اور ملنسار آدمی تھا۔ بالکل بے ضرر سا۔ وہ آغا صاحب کے گھر پہ آٹھ دس سال سے کام کر رہا تھا اور ان کے قابلِ اعتماد آدمیوں میں سے تھا۔ گرمیوں میں آغا صاحب اکثر اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ کسی پُر فضا پہاڑی مقام پر چلے جاتے۔ ایسے میں سارے گھر کی رکھوالی کے ساتھ ساتھ، مالی، جمعدار، باورچی اور دوسرے نوکروں کی نگرانی وہی کرتا۔

    آغا صاحب جتنے بڑے سرمایہ دار تھے، اس سے زیادہ فراخ دل تھے۔ حالانکہ کراچی میں ان کی دو فیکٹریاں تھیں اور کئی دوسرے شہروں میں بھی ان کا بڑا کاروبار تھا۔ پھر بھی وہ بڑے مرنجا مرنج اور خدا ترس انسان تھے۔ ان کا اکلوتا بیٹا فراز ان کے لاڈ پیار کا مرکز تھا اور شاید اسی لاڈ پیار نے اُسے کچھ بگاڑ دیا تھا، کم از کم شکور کا تو یہی خیال تھا۔ کئی بار شکور بھی آغا صاحب کے ساتھ ان پہاڑی مقامات پر گیا تھا، جہاں ان کے ریسٹ ہاؤس اور بنگلے تھے۔ وہاں بھی غریب غربا کے لیے ان کا ہاتھ کبھی تنگ نہیں ہوتا تھا۔ وہ چھوٹے لوگوں کے درمیان اٹھنے بیٹھنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے او رشاید یہی ان کے سرمائے میں برکت کی وجہ بھی تھی۔ بڑے بڑے امرا اور رؤسا سے لے کر محنت مزدوری کرنے والے ہر شخص کی ان تک رسائی تھی اور شکور پر تو وہ بطورِ خاص مہربان تھے۔ شاید اسی لیے اب کی بار پہاڑی بنگلے پر گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے تمام انتظامات شکور کے سپرد کیے گئے تھے۔

    مری اور ایبٹ آباد کے درمیان سرسبز و شاداب وادیوں میں گھر ے چھوٹے سے ایک گاؤں میں آغا صاحب کا وسیع و عریض بنگلہ تھا، جہاں ہر سال موسمِ گرما میں بہاریں ڈیرے ڈالتی تھیں۔ آس پاس کے مقامی لوگوں میں آغا صاحب کی آمد کی خبر سے زندگی کی لہر دوڑ جاتی کیونکہ آغا صاحب کے خاندان کی گاؤں میں آمد سے نہ صرف یہاں کے باسیوں کو روزگا ر میسر آتا بلکہ آغا صاحب چلتے چلتے سب کی مختلف حیلوں بہانوں سے جھولیاں بھی بھر جاتے، کوئی ضرورت مند خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ لرزیدہ ہونٹوں اور نم پلکوں پر ان کے لیے تشکر اور دعاؤں کے چراغ جل اٹھتے۔

    اس بار شکور بھی آغا صاحب کے قافلے میں شامل تھا۔ سب سے آگے آغا صاحب کی گاڑی تھی، اس کے پیچھے آغا صاحب کے بیٹے فراز کی جیپ تھی جس میں اس کے دوست بھی سوار تھے۔ تیسری گاڑی میں شکور اور باقی ملازمین تھے اور یوں یہ قافلہ پُر پیچ وادیوں کی لہراتی سڑکوں پر رواں دواں تھا۔ آغا صاحب کی گاڑی کافی آگے نکل چکی تھی اور فراز کی جیپ ان اترتے چڑھتے راستوں پر لہرا رہی تھی۔

    فراز اپنے دوستوں کو اپنی مہارت کے شعبدے دکھا رہا تھا۔ قہقہے بلند ہو رہے تھے۔ داد دی جا رہی تھی مگر شکور کا دل اندر ہی اندر دہلا جا رہا تھا۔ اچانک اسے یوں لگا کہ فراز کی جیپ اُلٹ جائے گی مگر جیپ پھر دو پہیوں سے چار پہیوں پر چلنے لگی۔ کچھ ملے جُلے قہقہے اس کی سماعت سے ٹکرائے۔ تمام ملازمین دم بخود بیٹھے تھے، اچانک جیپ کے ٹائر چرچرائے زور دار بریک لگے اور کچھ چیخیں شکور کے کانوں سے ٹکرائیں۔ شکور نے اندھیری سڑک پر اپنی حیرت اور خوف میں ڈوبی آنکھوں سے دو بچّوں کو پڑے دیکھا جو بُری طرح کُچلے جا چکے تھے۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس تیسرے وجود پر پڑیں تو ایک جُھریوں زدہ چہرہ روشنیوں میں چمک اٹھا، اس بوڑھے کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ جیپ میں سے انگریزی گالیاں اگلتے ہوئے کچھ سَرباہر نکلے اور پھر جیپ ایک جھٹکے سے آگے بڑھ گئی۔ ملازمین کی گاڑی بھی تیزی سے آگے بڑھنے لگی۔ کسی کے لب نہ کھلے، شکور کے بھی نہیں، کسی کو پتہ بھی نہ چلا حادثہ کیسے ہوا۔

    گاؤں پہنچنے پر فراز کہیں نظر نہیں آیا تو شکور سمجھ گیا کہ وہ گرفتار ہو گیا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ فراز کی گرفتاری پر آغا صاحب سے کس طرح اظہارِ افسوس کرے۔ اس نے سوچا آج شام لان پر چائے دیتے ہوئے وہ آغا صاحب کو سب کچھ بتا دے گا۔ ویسے بھی یہ تو خون کا کیس ہے، اتنی آسانی سے معاملہ تھوڑی ہی دبے گا۔ یہی سب سوچتے سوچتے وہ چائے لے کر لان میں پہنچا تو آغا صاحب فراز کے ساتھ ٹینس کھیل رہے تھے۔وہ فراز کو یہاں دیکھ کر حیران رہ گیا۔

    پھر بھی موقع پا کر اس نے آغا صاحب کو حادثے کے متعلق بتا ہی ڈالا۔

    ’’اچھا راستے میں کوئی حادثہ ہو گیا تھا؟ مجھے تو اس بے وقوف نے کچھ بتایا ہی نہیں۔‘‘ آغا صاحب خود حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھے۔ واقعی انھیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں نے خوامخواہ انھیں پریشان کر دیا۔ ’’میں خود اس سے پوچھوں گا۔۔۔ تم فکر مت کرو۔۔۔‘‘ آغا صاحب نے متفکر لہجے میں کہا۔

    کتنے سادہ لوح باپ تھے۔ آغا صاحب۔۔۔ ساری دنیا کے دُکھ سے واقف مگر اپنی اولاد کے کرتوتوں سے نا واقف۔ شکور نے بے چارگی سے سوچا، حالانکہ وہ خود اس جیپ میں سوار نہیں تھا، مگر نجانے کیوں اس بوڑھے اور بچوں کے خون میں لت پت جسم اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے تھے اور وہ خود کو مجرم سمجھنے لگتا تھا۔ روانگی سے دو روز پہلے آغا صاحب نے خاص طور پر شکور کو بلا بھیجا۔ ان کے ہونٹوں پر شفیق مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔

    ’’شکور! ہم نے کبھی تم سے کچھ نہیں مانگا بلکہ ہمیشہ اپنی اولاد ہی کی طرح تمھارا خیال رکھنے کی کوشش کی ہے اور چاہتے ہیں کہ تمھارا گھر بھی سنور جائے جیسے کسی اولاد کا سنورنا چاہیے۔ ہمیں ویسے تو تم پر صرف اتنا ہی اختیار ہے جتنی تمھیں تنخواہ دیتے ہیں۔ مگر۔۔۔‘‘

    ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، آغا جی!‘‘ وہ آغا صاحب کے سامنے احسان مندی کی گٹھڑی سی بن گیا۔

    میں تو آپ کا حقیر سا ملازم ہوں، آپ حکم کریں۔‘‘

    ’’ایسی باتوں سے ہمیں شرمندہ مت کرو۔ تمھیں معلوم ہے شکور ہم نے تمھیں کبھی حقیر یا اپنا ملازم نہیں سمجھا۔ بس آج ذرا معاملہ مختلف ہے۔ کچھ میرا امتحان ہے، کچھ تمھارا اور کسی کی زندگی کا معاملہ بھی ہے۔ ویسے تو ہمیں نیکیاں کرکے شہرتیں بٹورنے کا کوئی شوق نہیں مگر بعض نیکیاں اسی لیے کی جاتی ہیں کہ ان کی شہرت سے دوسروں کو بھی نیکی کی ترغیب ملے۔ اس گاؤں کا ایک پرانا آباد کار ہے، دین خاں۔ اس کی ایک بیوہ بیٹی، دو چھوٹے چھوٹے بچے کسی حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ گاؤں میں سب ترس تو کھاتے ہیں مگر ہاتھ تھامنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ اگر ہم یا تم اس کے کسی کام آ سکیں تو۔۔۔‘‘

    ’’جی میں۔۔۔ مگر میں کسی کے کیا کام آ سکتا ہوں۔ پھر بھی آپ حکم کریں۔۔۔‘‘

    مگر حکم سنتے ہی شکور کو جیسے کرنٹ سا لگ گیا۔ پھر دو راتوں تک وہ نیکی اور بدی سے لڑتا رہا۔ آغا صاحب کے احسانوں کو یاد کرتا رہا۔ اُن جیسا بن جانے کی حسرت اور تمنّا لیے خوابوں کی تیلیوں سے تعبیروں کے جال بنتا اور اُدھیڑتا رہا اور پھر تیسرے دن شکور کا نکاح دین خاں کی بیٹی مہرگل سے ہو گیا۔ شکور نے دیکھا مہر گل کا بوڑھا باپ شکر و احسان کی پگڑی آغا صاحب کے قدموں میں رکھے جا رہا تھا اور جب اس بوڑھے باپ نے سر اٹھایا تو سڑک کے کنارے پڑے اس بوڑھے کا خون میں تر چہرہ شکور کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ وہ یہ بات کسی کو نہیں بتائے گا، کبھی زبان نہیں کھولے گا اور آغا صاحب کو بھی یہ بتا کر دُکھی نہیں کرے گا کہ ان کے کفارے کا اصل گنہگار ان کا اپنا بیٹا ہے۔ اگر نیکی کرکے جتا ئی جائے تو وہ ضائع ہو جاتی ہے، ریاکاری بن جاتی ہے۔ یہ باتیں تو اس نے آغاجی سے ہی سیکھیں تھیں۔

    مہر گُل اس کے لیے بڑی بھاگوان ثابت ہوئی۔ وہ مہر گل کو بیوی بنا کر گھر کیا لایا، اس کے گھر کے ہر دریچے میں بہاروں نے ڈیرے ڈال دیے۔ پھر آغا صاحب ہی کے اصرار پر وہ اپنی بوڑھی ماں اور بہن کو بھی شہر لے آیا تھا۔ اب گھر کی چوکھٹ پر دو چراغ اس کا انتظار کرتے تھے۔ اس کا اجڑا شکستہ مکان گھر بن گیا۔ ماں اور بہن نے مہر گل کو وہ خلوص دیا کہ وہ اپنے بچوں کا غم بھی بھلا بیٹھی۔ جب محلے میں پانی کی سخت قلّت ہو گئی تو عورتوں اور بچوں کو دور دور سے پانی ڈھو کر لانا پڑتا۔ ایسے وقت میں آغا صاحب نے شکور کے گھر میں ایک کنواں کھدوا دیا اور یوں سارا محلہ اس سے مستفید ہونے لگا۔آغا صاحب کو دعائیں دینے والے اور بڑھ گئے۔ دور دور سے لوگ کنویں سے پانی بھرنے آنے لگے۔ ’’شکور تیرے کنویں کا پانی تو بہت میٹھا ہے‘‘ سب یہی کہتے ہیں۔ اس کی ماں نے اس کی اور آغا جی کی نیک نیتی پر جیسے مہر ثبت کر دی۔ بیٹا ہمارے گاؤں والے مجیدے کے کنویں کا پانی شروع شروع میں خوب میٹھا تھا، پر وہ کسی کو اپنے کنویں سے پانی بھرنے ہی نہیں دیتا تھا۔ سو اوپر والے نے اُسے یوں سزا دی کہ اب اس کے کنویں کا پانی کھارا ہوتا جا رہا ہے۔ ہاں! واقعی اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔ سنا ہے اب بالٹی بھر بھر کر درختوں میں ڈالتا ہے تو درخت بھی سوکھ جاتے ہیں۔ ہاں نیت بڑی چیز ہے۔

    ’’شکور! تیرے یہ آغا صاحب کا م کیا کرتے ہیں؟‘‘

    اچانک اس کی اماں کو نجانے آغا جی کی کمائی کا خیال کیوں آ گیا۔

    ’’ارے امّاں دوسروں کے کام آنا ہی سب سے بڑا کا م ہے، سو وہ یہی کام کرتے ہیں۔‘‘ شکور نے ماں کو تسلی دی۔ ’’پر، یہ مال پیسہ کہاں سے آتا ہے؟‘‘

    ’’بس امّاں ان کا بڑا کاروبار ہے پر تُو۔۔۔ تو آم کھا، پیڑ کیوں گنتی ہے اور آغا جی تو وہ پیڑ ہیں جو خود دھوپ سہہ کر دوسروں کو سایہ دیتے ہیں۔ بس یوں سمجھ اماں میرا تو با ل بال ان کے احسانوں میں جکڑا ہوا ہے۔‘‘

    شکور نے دھیرے سے مسکرا کر مہر گُل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’یہ تو ٹھیک ہے شکورے پر بندے بشر کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ پتہ نہیں ہوتا کہ کب اُسے اپنی شان و شوکت، مال و دولت اور عزت و شہرت پر ناز ہو جائے، غرور ہو جائے اور وہ کسی کو پہچانے بھی نہیں۔‘‘

    ’’نہیں امّاں، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ آغا صاحب تو فرشتہ ہیں اور فرشتے بدلتے نہیں ایک سے رہتے ہیں۔‘‘ اس نے ماں کے وسوسے دور کرتے ہوئے کہا۔

    اس دن فراز نے اسے ڈرائینگ روم میں طلب کیا، تو وہ داخل ہوتے وقت جھجک کر رہ گیا۔ مخملی قالین میں اس کے پاؤں دھنسے جا رہے تھے۔ ابھی وہ اس کی وجہ ان قالینوں کی دبازت ہی کو سمجھ رہا تھا کہ اسے اپنے اٹھتے پاؤں بھی من من کے لگنے لگے۔ فراز کے ساتھ صوفوں پر تمغوں اور ستاروں والے کوٹ پہنے نہ جانے کتنے لوگ بیٹھے تھے۔

    ’’کیوں شکورے کیسی گزر بسر ہو رہی ہے۔ یہ بتا خرچے کی پریشانی تو نہیں؟‘‘ یہ فراز صاحب اتنے لوگوں کے سامنے اس سے کیوں پوچھ رہے ہیں۔ پھر اچانک ہی اس کو اپنے گھر کی چھوٹی بڑی تمام ضرورتیں یاد آنے لگیں۔

    ’’مہر گل کی سونی کلائیاں، بہن کی جہیز کے خالی بکسے، ماں کے پرانے کپڑے، اپنے پھٹے جوتے، گھر کے ٹوٹے مونڈھے، سبھی کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ کل کو کنبہ اور بڑا ہو جائے گا۔ اتنے لوگوں کے سامنے ذرا دیر کو ڈھیٹ بن جانے میں حرج ہی کیا ہے۔ شکور موقع اچھا ہے، دربار سجا ہے جو چاہے مانگ لے۔‘‘ اس نے ذرا دیر کو سوچا۔

    ’’آج کل ذرا تنگی ہے۔ میرا مطلب ہے بس گرم سرد تو چلتا ہی رہتا ہے صاحب!مہنگائی بڑھ گئی ہے۔‘‘ اور بھی نجانے وہ کیا کیا کہتا رہا۔

    ’’اچھا اچھا! دیکھ یہ خاں صاحب بیٹھے ہیں، ان سے میری بات ہو گئی ہے۔‘‘ فراز نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

    شکور نے آنکھ اٹھا کر ستارے لگی وردی پہنے سرخ و سفید چہرے والے آدمی کی طرف دیکھا۔ ’’کل ڈرائیور کے ساتھ جا کر ان سے مل لینا اور کسی سے کوئی غیر ضروری بات مت کرنا۔ باقی باتیں یہ خود تمھیں سمجھا دیں گے۔‘‘ فراز نے فیصلہ سنا کر اسے روانہ کر دیا۔

    ’’پر یہ کیسا انٹرویو ہے، مجھے کہاں جانا ہے۔‘‘ اس نے ڈرائیور سے راستے میں پوچھ ہی لیا۔

    ’’ارے بدھو! تیرے تو عیش ہو جائیں گے۔ آغا صاحب کو تو کچھ پتہ بھی نہیں چلے گا، فراز میاں تیرا سب کام کروا دیں گے۔ ہنگاموں اور بلووں سے نمٹنے کے لیے نئی پولیس فورس بن رہی ہے، وہیں تیری نوکری لگ جائے گی۔ ساری سہولتیں اور تنخواہ پولیس کی اور کام آغا جی کا، کیا سمجھا۔ یعنی کام کچھ نہیں بدلے گا تنخواہ ڈبل ہو جائے گی۔‘‘ ڈرائیور نے قہقہہ لگاتے ہوئے اسے بتایا۔

    شکور بالکل گُم صُم سا انٹرویو دینے پہنچ گیا۔ وہاں پہلے ہی کافی امیدوار موجود تھے۔

    ’’کیوں بھئی تم نے میٹرک کہاں سے پاس کیا ہے؟‘‘

    لائن میں بیٹھے ایک امیدوار کے اچانک سوال پر شکور کچھ گھبرا سا گیا۔ اس نے تو چَھے جماعتیں بھی ٹھیک سے نہیں پڑھی تھیں۔

    ’’ارے بھئی میٹرک کہیں کا بھی ہو، یہ پوچھو پوّا کہاں کا ہے۔ آج کل تو ہر جگہ سفارشی پوّا چلتا ہے۔‘‘ دوسرے امیدوار نے اُسے جھوٹ سے بچا لیا۔

    ’’مگر جناب علم اور تجربہ بھی تو کام آتا ہی ہے نا۔‘‘ ایک جذباتی امیدوار نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔

    ’’میں نے کوہاٹ رینجرز میں دو سال کام کیا ہے۔ اب میٹرک بھی پرائیویٹ کر لیا ہے۔ ایک افسر سے جان پہچان ہے، اس نے کچھ کرانے کا وعدہ بھی کیا ہے، اب آگے اللّٰہ مالک ہے۔‘‘

    ’’کیوں تمھاری کوئی سفارش ہے یا یونہی منہ لٹکائے واپس جاؤ گے۔‘‘ برابر میں بیٹھے دبلے پتلے نوجوان نے مونچھوں والے لڑکے سے پوچھا جو واقعی کافی دیر سے منہ لٹکائے بیٹھا تھا۔

    ’’صاحب! آٹھویں جماعت پاس کی تھی کہ باپ نے مار مار کر آٹے کی چکی پر بٹھا دیا۔ آٹے کی چکی پر کب تک رہتا، سو گاؤں چھوڑ کر یہاں آ گیا۔ صبح اخبار بیچتا ہوں، شام کوچنگ سنٹر میں پڑھتا ہوں، سیکنڈ ڈویژن تو ہے مگر اردو میڈیم کی وجہ سے پھنس گیا ہوں۔ یہاں ایک بار ملازمت ہو جائے تو انگریزی پر زور دوں گا۔‘‘ لڑکے نے چند منٹوں میں اپنی داستان سنا ڈالی۔

    ’’پر تمھارا ڈومیسائل تو گاؤں کا ہے نا۔ تمھارا تو کچھ ہو ہی جائے گا، یہاں فرسٹ ڈویژن لے کر بھی سال بھر سے جوتیاں چٹخا رہے ہیں۔‘‘

    ’’کیوں بھئی! تمھارا ڈومیسائل کہاں کا ہے؟‘‘ اچانک شکور سے سوال ہو گیا۔

    ’’جی! ادھر ہی کا ہے۔‘‘ اِس نے بوکھلاتے ہوئے کہا۔ اس کی مشکل آسان ہوئی اور اندر سے اس کا بلاوا آ گیا۔

    وہ انٹرویو دے کر باہر نکلا تو تین چار امیدواروں نے اُسے گھیر لیا، ’’پولیس فورس کے کوڈ (CODE) پوچھے ہوں گے، جنرل نالج میں کیا پوچھا، کیا آیت الکرسی بھی سن رہے ہیں؟‘‘ وہ سوالات کے گھیرے سے بڑی مشکل سے جان بچا کر باہر نکلا۔گھر آ کر بھی وہ پریشان ہی رہا، ’’آخر فراز صاحب مجھے پولیس میں کیوں گھسائے دے رہے ہیں۔ آغا صاحب خود تو ایسا کچھ بھی نہیں چاہتے۔ میں آغا صاحب سے خود بات کر لوں گا۔ مگر! مگر نہیں۔۔۔ اگر فراز میاں کو پتہ چل گیا تو؟‘‘ اس کے پسینے چھوٹنے لگے۔ ’’مگر مجھے کیا فرق پڑے گا۔ میرا کام تو وہی رہے گا نا۔‘‘ اس نے خود کو تسلّی دیتے ہو ئے سوچا۔

    ’’پر شکور آغا جی تو ہیں نا۔۔۔ کوئی مشکل کوئی پریشانی ہو تو ان سے کھل کر بات کر لینا۔‘‘ مہر گل نے اسے سنبھالا دیا۔

    آغا جی کا سائبان تو ہر چھوٹے بڑے کو اپنے سائے میں جگہ دے دیتا ہے، جبھی تو ان کو دعائیں دینے والے بڑھتے جا رہے ہیں۔ شاید انھی دعاؤں کے باعث وہ اتنے بلند مرتبے پر فائز ہوتے جا رہے تھے۔ دوستوں، چاہنے والوں اور اس کی طرح ہزاروں لوگوں کی خواہش تھی کہ آغا جی انتخابات میں کھڑے ہوں۔ وہ پہلے بھی اس طرح کی اپیلوں کو نظر انداز کرتے رہے تھے مگر شاید اب ان کے لیے انتخابات میں کھڑا ہونا مجبوری بن چکا تھا کیونکہ موقع پرست اور مفادی ٹولوں کے سامنے کسی نہ کسی کو تو جی کڑا کرکے کھڑا ہی ہونا تھا اور آغا جی سے بہتر آدمی اور کون ہو سکتا تھا۔ وہ تھے بھی اسی قابل کہ کسی منظم پلیٹ فارم سے لوگوں کی خدمت کرتے۔ بالآخر انھوں نے انتخابات لڑنے کے لیے اسی گاؤں کا انتخاب کیا۔ جہاں ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں پرجانے کے بعد انھیں اور بھی شدت سے غریبوں اور ضرورت مندوں کی پسماندگی کا احساس ہونے لگتا تھا۔ گاؤں میں ان کی شاندار حویلی ضرور تھی مگر اس کے چاروں طرف عوامی سہولتوں کا فقدان تھا، وہاں سڑکیں نہیں تھیں، پانی بھرنے کے لیے عورتوں کو میلوں پیدل جانا پڑتا تھا۔ متمول لوگ موجود ہیں مگر دیہاتیوں کی فکر کون کرے گا، یہاں روشنی کون پہنچائے گا، کسی کو تو پہل کرنا ہی ہوگی۔ کسی کو تو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر غریب عوام کو جیتنا ہی ہوگا۔ آغا صاحب نے گاؤں سے انتخاب لڑنے کا جواز دیتے ہوئے ملاقاتیوں کو رخصت کیا۔

    ’’میں حقیر سہی، کمزور سہی، ناتواں سہی، میرے وسائل محدود اور آپ کے مسائل لامحدود سہی، مگر اندھیرے میں روشنی کی ہلکی کرن بھی اجالا بن جاتی ہے۔ یہی سوچ کر میں نے شہر چھوڑ کر اسی چھوٹے سے دیہی حلقے کا انتخاب کیا ہے۔ صرف آپ کی خدمت کی خاطر کیونکہ مجھے شہریوں کے کپڑوں سے اٹھتی پرفیوم کی خوشبو سے زیادہ آپ کی محنت کے پسینے کی خوشبو عزیز ہے۔‘‘ آغا صاحب نے تالیوں کے بے پناہ شور میں اپنی تقریر ختم کی، فلیش کے جھماکے ہوئے، پریس والے اسٹیج پر ٹوٹ پڑے، رضا کار حرکت میں آ گئے۔ دن رات الیکشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں، گاؤں میں جنگل میں منگل ہو گیا تھا۔

    ’’آغا صاحب کے مقابلے میں ایک بے وقوف سا مقامی نوجوان بھی امیدوار تھا جو اپنی تقریروں میں کبھی حصولِ علم پر زور دیتا، کبھی ذہنی شعور کی بات کرتا، کبھی عوامی رائے کی آزادی کی دہائیاں دیتا تو کبھی دولت کی غلط تقسیم اور سرمایہ داروں کی سیاست کے خاتمے کی راگنیاں الاپتا۔ کچھ سر پھرے اس کے ساتھ بھی تھے، مگر آغا صاحب اس تنکے کے سامنے سمندری ریلا تھے۔ آخر انھوں نے ہمیشہ اس گاؤں کو اپنا گھر سمجھا تھا، یہاں کے لوگوں کی ہر طرح کی خدمت کی تھی۔ روپے پیسے سے مدد کی تھی، پھر کون ایسا بے وقوف ہوگا جو آغا صاحب کو چھوڑ کر اس بد عقل مفلس امیدوار کو ووٹ دے گا۔‘‘ شکور نے مہر گل کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

    شکور اور مہر گل انتخابی جلوس کے ساتھ ہی آغا صاحب کے ساتھ شہر سے گاؤں آئے تھے۔

    ’’کیا سوچ رہی ہو! مہر گل؟‘‘

    شکور کی آواز نے مہر گل کی سوچ کا تانا بانا توڑ دیا۔

    ’’سوچ رہی ہوں آغا جی جیسے لوگ اتنے کم کیوں ہیں، اگر سب ہی ان جیسے ہوتے تو دنیا اور جنت میں فرق ہی کیا رہ جاتا! واقعی، آغا جی نے تو مجھے اس گاؤں سے نکال کر میری زندگی کو سنوار دیا ورنہ یہاں اپنے بچوں کو گھٹ گھٹ کر یاد کرکے کب کی مر چکی ہوتی۔ پھر بھی جب یہاں آتی ہوں سب کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ شکور! یہ انسان ہی انسان کے لیے درندہ کیوں بن جاتا ہے۔ آخر وہ بھی تو کوئی انسان ہی تھا جس نے میر ے جگر گوشوں کو کچل کر رکھ دیا۔ اگر ایک بلی کا بچہ بھی مرا ہوا دیکھ لو ں تو طبیعت کئی دن تک مکدر رہتی ہے۔ مگر میرے بچوں کی لاشیں دیکھنے والے، کچلنے والے، انھیں کبھی کچھ یاد نہیں آتا؟ ان کا دل، ان کا ضمیر انھیں ملامت نہیں کرتا۔ انسان کو انسان نے روند ڈالا مگر پھر بھی وہ فخر سے اس زمین پر دندناتا پھررہا ہوگا۔ کاش! کسی نے اسے دیکھ لیا ہوتا، کوئی میرے بچوں کے قاتلوں کو جانتا ہوتا تو اُسے انسانیت کے واسطے دے کر، اپنے بچوں کا واسطہ دے کر گواہی دلوا دیتی۔‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہو گئے۔ ’’کم بخت انسان نہیں درندہ تھا۔میں اسے کبھی معاف نہیں کر سکتی۔‘‘

    وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

    ’’ہم سب کتنے بے بس ہیں اپنی اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں۔‘‘ اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ شکور کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ مہر گل کو کیسے تسلی دے! وہ اوپری دل سے مہر گل کو صبر و شکر کی کہانیاں سناتا رہا۔ خود ٹوٹ کر، گر کر، اسے سنبھالتا رہا۔

    دو دن بعد انتخابات تھے۔ گاؤں میں جیسے بارات اتر آئی تھی، میلے ٹھیلے کا سماں تھا۔ رات بھر آغا صاحب کے ملازمین اور پر جوش کارکن بینر لگاتے رہے، پمفلٹ بانٹتے رہے۔ آغا صاحب کی آواز جواب دے چکی تھی۔ انھوں نے اپنے حلقے کے ہر دروازے پر دستک دینے کی کوشش کی تھی۔ صبح و شام ووٹرز کی فہرستیں بن رہی تھیں۔ کارنر میٹنگز ہو رہی تھیں۔ آغا صاحب کی کوٹھی کے سامنے بڑا سا شامیانہ لگا ہوا تھا، جہاں دن رات ایک ہو گئے تھے۔ الیکشن سے ایک دن پہلے آغا صاحب کے گھر پر خاص کارکنوں اور معتبر لوگوں کا خصوصی اجلاس تھا، جس میں ووٹنگ کے سارے پروگرام کو قطعی اور حتمی شکل دی جانا تھی۔ آغا صاحب کے منشور پر بحث ہو رہی تھی۔ نچلے طبقے کے حالات سدھارنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ کارکنوں میں بڑا جوش و خروش پایا جا رہا تھا۔

    ’’مزدوروں اور محنت کشوں کے بارے میں آپ کا منشور کیا کہتا ہے؟‘‘ گاؤں کے کسی معتبر شخص نے آغا صاحب سے پوچھا۔

    ’’بھئی ہم خود عام آدمی تھے، محنت سے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ہم سے زیادہ محنت مزدوری کی قدر اور کون جانے گا۔ مگر پھر بھی ہمارے منشور میں محنت کشوں اور مزدوروں کے لیے خصوصی اسکیم اور حادثاتی حفاظتی اسکیم کا مکمل متن موجود ہے، جو بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے منشور سے غائب ہوتا ہے مگر ہم عمل کے قائل ہیں۔ لکھنے کو تو لوگ بہت بڑی بڑی باتیں لکھ جاتے ہیں مگر عمل کے وقت سب صفرثابت ہوتا ہے۔‘‘

    ’’آغا جی! کراچی سے آپ کے لیے کال ہے۔‘‘ کسی ملازم نے باہر آ کر اطلاع دی۔ کارکنوں کی سرگوشیاں مدھم پڑ گئیں۔

    ’’بھئی تم لوگ اپنا کام جاری رکھو میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ آغا صاحب اندر آئے تو شکور نے ریسور انھیں تھما دیا اور خود آغا صاحب کا اشارہ سمجھتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آیا۔ ابھی وہ صحن تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ آغا صاحب کا تیز لہجہ سن کر وہیں کونے میں سہم کر کھڑا ہو گیا۔ یہ آواز، یہ لہجہ، شکور کے لیے بالکل اجنبی تھا۔

    ’’مجھے نصیحتیں کرنے کی ضرورت نہیں حرام زادو، اگر فیکٹری میں زہریلی گیس خارج ہونے سے آٹھ مزدور مر گئے تو یونین کے پیٹ میں اس قدر درد کیوں ہو رہا ہے؟ لواحقین کو معاوضہ مل جائے گا، مگر میں ہر گز اس وقت کراچی نہیں آ سکتا اور ایسی کون سی قیامت آ گئی ہے؟ بڑ ے شہروں میں ایسے چھوٹے موٹے صنعتی حادثے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ آٹھ دس آدمی تو روز سڑکوں پر مر جاتے ہیں۔ اخبار میں دو سطر کی خبر بھی نہیں لگتی۔ اگر میں اس وقت یہاں سے چلا گیا تو ساری بازی پلٹ جائے گی، لوگ سمجھیں گے۔۔۔ خیر چھوڑو۔ میری طرف سے فوراً ایک تعزیتی پیغام، ہلاک شدگان کے لیے معاوضے کا اعلان اور تحقیقات کے حکم کی خبریں پریس میں بھجوا دو اور وہاں کسی کو اس بات کی بھنک بھی نہ لگنے پائے کہ گیس کے پائپ کی تبدیلی کے لیے ہماری فیکٹری کو سرکاری سپروائزر کی طرف سے کوئی نوٹس ملا تھا۔ سمجھے!۔ پچھلے سارے نوٹس اور متعلقہ کاغذات غائب کر دو یا یہ سمجھ لو پچھلے سال اسٹور روم میں آگ لگ گئی تھی، بس سارا ریکارڈ اس میں جل گیا۔سمجھ رہے ہو نا؟‘‘، انھوں نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔

    ’’ہمیں کوئی نوٹس سرے سے ملا ہی نہیں تھا۔ وہ الّو کا پٹھا سپروائزر بھی تو کچھ لینے دینے پر تیار نہیں ہوا تھا، کم بخت پر ایمانداری کا بھوت سوار تھا۔ خیر! یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘

    فون کھٹ سے بند ہو گیا۔ شکور اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا۔ اسے یوں لگا جیسے نیکی اور سچائی کے بُت کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے ہوں۔

    مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آغا جی نے ٹھیک ہی کیا ہو۔ اب وہ مرنے والوں کو جا کر زندہ تو نہیں کر سکتے تھے۔ یہاں الیکشن میں کامیاب ہو کر وہ غریبوں کے لیے ہزاروں کام کر سکتے تھے۔شاید کوئی اور ان کی جگہ ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا، شکور نے خود کو تسلی دی۔آغا صاحب دوبارہ لان میں آ کر بیٹھ گئے۔ پھر غریب عوام کے مسائل اور منشور کی مناسب تشہیر کی باتیں شروع ہو گئیں۔

    پولنگ کا دن آ گیا۔ آغا صاحب کے کارکن ہرپولنگ اسٹیشن کا خود دورہ کر رہے تھے۔ کچھ پولنگ اسٹیشنوں کے علاوہ ہر جگہ سے اچھی خبریں آ رہی تھیں۔ شکور، فراز کی گاڑی میں تین چار لوگوں کے ساتھ ووٹروں کو لانے لے جانے کے کام پر مامور تھا۔

    ’’اس پولنگ اسٹیشن پر حال خراب ہے، چھوٹے صاحب!‘‘ کسی نے گاڑی میں آگے بیٹھے فراز کو اطلاع دی۔

    ’’یار کسی نے صبح سے اس اسٹیشن کی اچھی خبر نہیں دی۔ سارا موڈ خراب کر دیا، ان حرام خوروں نے۔‘‘ فراز نے دھاڑتے ہوئے کہا۔

    گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھ گئی، شکور سہما ہوابیٹھا رہا۔ اسے ہمیشہ فراز سے خوف محسوس ہوتا تھا، نجانے کب کیا کر گزرے۔ گاڑی کافی دیر تک پولنگ اسٹیشن کے چاروں طرف گھوم گھوم کر پٹرول پھونکتی رہی۔ پولنگ جاری تھی، قطاریں لگی تھیں۔ ان کی گاڑی اچانک پولنگ اسٹیشن کے عقبی حصّے میں جا کر رک گئی۔ اس طرف بالکل سناٹا تھا۔ اچانک پولنگ بوتھ کے اگلے حصے سے زور دار دھماکے کی آواز آئی اور پھر ہر طرف افراتفری پھیل گئی، چاروں طرف دھواں پھیلنے لگا، چیخ پکار مچ گئی۔ ایسے میں دو سائے ان کی گاڑی کے نزدیک آئے او ردوسرے ہی لمحے کئی بیلٹ باکس شکور کے سامنے سیٹ پر پڑے تھے۔ گاڑی وہاں سے نکل کر فراٹے بھرنے لگی۔ اونچی نیچی سڑک کے ساتھ تیز بپھرا ہوا دریا پتھروں سے سر ٹکڑا رہا تھا۔ اچانک گاڑی ایک چڑھائی پر جا کر رک گئی۔ دوسرے آدمی نے شکور سے بیلٹ بکس مانگے اور پھر انھیں اونچے ٹیلے سے تیز دریا کی موجوں کے حوالے کر دیا۔ ایک لمحے کو شکور کو ایسا لگا جیسے کوئی قیمتی چیز کوئی امانت ضائع ہو گئی ہو۔

    اگلی صبح کا سورج آغا صاحب کی کامیابی کی نوید کے ساتھ طلوع ہوا۔ وہ اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے تھے۔ ہارنے والے حسبِ معمول ان پر دھاندلیوں کے الزامات لگا رہے تھے، تحقیقات کے وعدے ہو رہے تھے۔مگر آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو گیا۔ آغا صاحب کی پوزیشن مستحکم ہو تی چلی گئی۔ اُن کے حلقۂ اثر اور حلقۂ احباب میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اب حکومت کے ایوانوں تک ان کی پہنچ ہو گئی۔ ان کا وسیع و عریض ڈرائینگ روم مہمانوں کے لیے چھوٹا پڑنے لگا اور شکور کا گھر بھی خوشیوں سے بھرنے لگا۔ اس کے گھر میں گڈو کی آمد سے جیسے سارا گلشن مہک سا اٹھا۔ اس کا چھوٹا سا گڈو، سارے گھر کی آنکھ کا تارہ بن گیا۔ گھر میں معصوم شرارتیں رقص کرنے لگیں۔ میٹھی اور ٹھنڈی چاندنی میں مہر گل کی آواز ماحول کو مسحور کر دیتی،

    چندا ماموں دور کے

    بڑے پکائیں بور کے

    آپ کھائیں تھالی میں

    منے کو دیں پیالی میں

    پیالی گئی ٹوٹ

    مّنا گیا روٹھ

    گڈو کی آنکھیں کیا چمکتیں پورے گھر میں جگنو جگمگانے لگتے۔ مہر گل اپنے تمام پچھلے غم بھلا کر گھر کو سنوارنے میں لگی ہوئی تھی۔ محبت تو کھنڈر کو بھی جنت بنا دیتی ہے۔ وہ تو پھر بھی اینٹوں کا مکان تھا۔ بہاروں نے خزاں اور خزاں نے پھر بہاروں کا روپ دھارا۔

    آغا جی کے مکان پر آج بڑا کھانا تھا۔ ’’اب تو روز ہی بڑا کھانا ہوتا ہے۔‘‘ ڈرائیور نے شکور کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

    بڑے بڑے افسر، چمکتی ہوئی گاڑیاں، خوشبوؤں اور رنگوں کا میلہ، پریس والوں اور فوٹو گرافرز کا ہجوم۔ انواع و اقسام کے کھانوں سے سجی لمبی لمبی میزیں، تیز روشنیاں، دربانوں اور ملازموں کی فوجِ ظفر موج، جھنڈے والے گاڑیوں کو سلیوٹ مارتے ہوئے دربان، شکور کی تو جیسے نگاہیں چکاچوند ہوئی جا رہی تھیں۔ ’’کچھ معلوم بھی ہے آج کانٹے کا مقابلہ ہے۔‘‘ باورچی نے اسے اطلاع دی۔

    ’’آج آغا جی کی اصلی جیت ہو گی۔ آج وہ نئی کابینہ میں وزیر بننے کی بات پکی کر لیں گے۔ ہاں بھئی! آج تو فیصلے کی رات ہے۔ بڑے وزیر صاحب سے بات پکی کرنے کے لیے ہی تو آج یہ زبردست دعوت ہو رہی ہے۔‘‘

    مگر شکور حیران تھا کہ آج اتنی بڑی تقریب میں اور اتنے عوامی نمائندوں کے درمیان آغا صاحب کا کوئی ووٹر نظر نہیں آ رہا تھا۔ کوئی جاہل، ان پڑھ، میلے کپڑوں والا غریب آدمی، آغا صاحب کی سیاسی زندگی کا مرکزی کردار ’’عام آدمی‘‘ کتنی خاموشی سے پس منظر میں چلا گیا تھا۔ کوئی بے غرض آنکھ، کوئی گاؤں والا، تقریب کا حصّہ نہیں تھا۔ جو تھے بھی وہ شکور کی طرح خدمت گزاری پرمامور تھے، جب کہ آغا صاحب بڑے وزیروں کی خوشنودی کے طلب گار تھے اور بڑے وزیر صاحب کی ہر بات پر آغا صاحب سمیت دس بارہ لوگوں کے قہقہے گونجتے۔ یہ بات تو شکور بھی جانتا تھا کہ بڑے صاحب کی ہر با ت پر ہنسنا ترقی کی ضمانت ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے وہ کب سے ان سب لوگوں پر دل ہی دل میں ہنس رہا تھا۔ محفل اپنے شباب پر تھی، قہقہوں کے ساتھ طولانی باتوں کے قافلے رواں تھے۔ کوئی کسی بات پر ’’نہ‘‘ کرنے والا نہ تھا۔ اب اہم ترین موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی۔ وزارتوں کی باتیں ہو رہی تھیں، وعدوں اور وفاداریوں کے گلے شکوے، مستقبل کے خواب، نئے وعدوں کے سراب، اس لمحے کا تو آغا صاحب کو نجانے کب سے انتظار تھا۔ اچانک کسی نے پیچھے سے آ کر آغا صاحب کے کان میں سرگوشی کی۔ آغا صاحب کچھ بے کل سے ہو گئے۔ کچھ دیر کھوکھلے قہقہے لگانے کے بعد وہ معذرت کرکے اندر گئے۔ اندر آتے ہی انھوں نے کمرے کا دروازہ بولٹ کر لیا۔ شکور شربت کی ٹرالی لیے کمرے سے ملحقہ راہداری کی کھڑکی سے لگا کھڑا ہی رہ گیا۔ آخر آغا جی کی اہم ترین راتوں ہی میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ کیوں ہوتی ہے۔ رنگ میں بھنگ کیوں پڑ جاتا ہے۔ آغا صاحب کی تیز آواز نے اس کو مزید کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ وہ آغا صاحب کو دیکھ نہیں سکتا تھا مگر ان کی آواز اس تک صاف پہنچ رہی تھی۔ وہ PROاور سیکرٹری پر برس رہے تھے،

    ’’تم لوگوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے، حرام کی روٹیاں توڑ رہے ہو ناں، کسی صورتِ حال سے نمٹنے کی ذرا بھی صلاحیت نہیں ہے تم کمینوں میں۔ اب اس وقت مجھے یہ خبر دینے کی کیا ضرورت تھی، خود نمٹ لیتے۔‘‘ آغا صاحب جیسے پھٹ پڑے۔

    شکورکا سارا وجود لرز رہا تھامگر وہ پھر بھی ساکت کھڑا تھا،’’اتنی معمولی خبر دینے احمقوں کی طرح یہاں چلے آ رہے ہیں نواب صاحب۔‘‘

    ’’مگر آغا جی!‘‘ سیکرٹری گھگیا کر بولا۔

    ’’کیا اگر مگر لگا رکھی ہے، حرام کی تنخواہیں بٹورتے رہتے ہو۔ اگر برفانی طوفان سے میرے حلقے کے گاؤں میں چالیس پچاس مکان تباہ ہو گئے، کچھ لوگ مر کھپ گئے تو کونسی قیامت آ گئی۔ کون سا آسمان پھٹ پڑا۔ میں نے تو طوفان برپا نہیں کیا۔‘‘

    ’’مگر آغا جی! وہ آپ کا شکست خوردہ حریف گاؤں میں آپ کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اپنے نمبر بنا رہا ہے، لوگوں کی ہمدردیاں بٹور کر آپ کے خلاف ورغلا رہا ہے، آس پاس کے دیہات سے چندہ لے کر دوائیں کمبل اور امدادی سامان تقسیم کر رہا ہے۔ لوگ آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ سب سے کہتا پھر رہا ہے کہ آ پ وہاں کیسے آ سکتے ہیں، آپ کو تو وزارت کی فکر ہے، لوگ آپ کو اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت انھیں آپ کی تسلی ہمدردی اور تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘ سکریٹری نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

    ’’مجھے لکچر دینے کی ضرورت نہیں! ’’آغا جی دھاڑے۔‘‘ تمھیں معلوم ہے کہ میرے لیے یہ چند روز کتنے اہم ہیں؟ آج کل میں میرے وزیر بننے یا نہ بننے کا فیصلہ ہو جائے گا۔ کتنے ہی لوگ وزارتوں کے لیے منہ کھولے بیٹھے ہیں اور تم مجھے یہ نصیحت کر رہے ہو کہ میں اس وقت گاؤں کے ان بے وقوفوں، جاہلوں اور بھوکوں ننگوں کے درمیان رہوں۔ اب کون سے کل الیکشن ہو رہے ہیں؟ کچھ دنوں بعد لوگ آج کی بات بھول جائیں گے۔ بس مجھے وزیر بن جانے دو، پھر سارے حساب چکا دوں گا۔ سب کے منہ بند کر دوں گا اور اس کم بخت سے بھی فائنل راؤنڈ کر لوں گا، جو میری غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر چیمپیئن بن رہا ہے۔ بس دو دن کی بات اور ہے، سب کو الف کی طرح سیدھا کر دوں گا۔ تم روپے پیسے کی فکر مت کرو۔ سارا زور میرے حلقے پر لگا دو اور یہ خبر بھی بھجوا دو کہ آغا صاحب علالت کے باعث سفر نہیں کر سکتے، اور سنو پریس میں امدادی سامان وغیرہ کے متعلق مناسب کوریج ضرور کروا دینا۔ احمقوں والا کوئی کام مت کرنا۔‘‘ آغا جی نے نرم پڑتے ہوئے کہا۔

    ’’اگر تقریب کی خبر جا بھی چکی ہو تو ساتھ میں یہ بھی لگوا دینا کہ برفانی طوفانی کے باعث بعد میں تقریب ملتوی کر دی گئی یا سادگی سے منائی گئی وغیرہ وغیرہ۔ اور اب جاؤ اور سارے کام ذرا ہوشیاری سے کرنا۔‘‘ شکور کے جسم میں جیسے جان ہی نہیں تھی۔ وہ اوپر سے نیچے تک پسینے میں شرابور ہو رہا تھا۔

    آغا جی! نیکی کا پیکر، حسنِ سلوک اور محبت کا بُت، شکور کو یوں لگا جیسے یہ پیکر آنکھوں کے سامنے لولا لنگڑا اپاہج ہو کر چکنا چور ہو گیا تھا۔

    تین دن بعد آغا صاحب عوامی کچہری لگائے ہوئے لوگوں کی درخواستیں وصول کر رہے تھے۔ ان کے وسیع و عریض محل نما بنگلے کے لان پر شامیانے تنے تھے۔ گھر کا بڑا پھاٹک ہر ایک کے لیے کھلا تھا۔ لوگوں کا ایکہجوم تھا جس میں آغا صاحب گھرے ہوئے تھے۔ ہر طرف آغا صاحب کی خدا ترسی اور رحم دلی کا چرچا تھا۔ وزارت ملنے کے بعد کون کس کو پوچھتا ہے، یہ تو آغا صاحب ہی کی ذات ہے جو وزیر بن کر بھی غریبوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ انھوں نے تو سرکاری بنگلے میں منتقل ہونے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ وہ تو فرشتہ ہیں، فرشتہ۔ تھرتھراتے ہونٹوں سے دعائیں نکل رہی تھیں۔

    تقریبات کی صدارت کرتے سماجی اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے اور ریڈیو، ٹی وی پر آتے آتے آغا صاحب بہت مقبول ہو چکے تھے۔ مگر کام! کام تو کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ غربت، بھوک، جہالت، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر، ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں، سوکھے نل، اندھیری آبادیاں، سب کچھ ویسے ہی تھا۔ اتنے خدا ترس، اتنے نیک دل آدمی کی وزارت میں یہ سب کیا ہو رہا ہے، امن و امان تہ و بالا ہے، ہر چیز پر تنزل ہے، آخر یہ سب کیا ہے؟‘‘ ہاں جی یہ سب بیورو کریسی کا چکر ہے۔ ’’اخباری رپورٹر کے سوالات سے گھبرا کر آغا صاحب کے سیکرٹری نے رٹا رٹایا جواب دہرایا۔

    ’’اجی، یہ بیوروکریسی تو عوامی نمائندوں کو فیل کرنے کے چکر میں ہے۔ اسی لیے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو پاتا۔ آغا جی کیا کریں؟‘‘ PRO نے رپورٹر کو مزید تسلی دیتے ہوئے کہا۔

    ’’مگر جناب یہ بیورکریسی ہے کیا بلا؟ کہاں سے آئی ہے۔ آخر یہ بھی تو انسان ہی ہوں گے۔ کوئی ان پر کنٹرول کیوں نہیں کر پاتا؟‘‘

    ’’بھئی یہ رپورٹر بہت ٹر ٹر کر رہا ہے۔ اسے انٹرویو کا ٹائم دے دیا تو آغا صاحب کی ساری گرمی ہم پر اترے گی۔‘‘ سکریٹری نے PRO سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں جی۔ ابھی تو آغا جی دورے پر ہیں۔ آپ اگلے ہفتے انٹرویو کا وقت لے لیجیے گا۔ اب آغا جی کو عوام میں گھلنے ملنے دیجیے۔ وہ انٹرویوز دینے کے لیے تو وزیر نہیں بنے ہیں ناں، عوام کی خدمت کے لیے وزیر بنے ہیں۔ عوامی نمائندہ عوام ہی میں اچھا لگتا ہے۔ آپ لوگ جو کوریج دے دیتے ہیں آغا جی کو تو اس کی ذرا سی بھی خواہش نہیں ہے اور پھر الگ سے انٹرویو۔ خیر! آپ اگلے ہفتے فون کر لیجیے گا۔‘‘

    بڑی مشکل سے اخباری نمائندے سے جان چھڑائی گئی۔ انٹرویو ٹل گیا مگر برا وقت آ جائے تو ٹلنے کا نام نہیں لیتا۔ رات گئے تک آغا صاحب کے بنگلے پر خفیہ میٹنگ ہوتی رہی۔ ان کی لائبریری میں تین اور سائے بھی ان کے ساتھ تھے۔

    بنگلے کے چاروں طرف مہیب سناٹا تھا۔ لائبریری میں میٹنگ جاری تھی۔

    ’’مگر آغا صاحب یہ چھاپہ پڑ کر ہی رہے گا۔ بڑے صاحب کے علاوہ کچھ خاص لوگوں کو ہی اس کی اطلاع ہے۔ یہ تو اوپر کا حکم ہے، ٹل نہیں سکتا۔‘‘

    ’’مگر میرا اتنا مال، اتنا ذخیرہ صرف تین چار گھنٹوں میں کیسے منتقل ہو سکتا ہے؟‘‘ آغا صاحب جھنجھلائے۔

    ’’آغا صاحب آ پ کو کچھ سوچنا ہی ہوگا۔ ہم تو بے بس ہیں، خبر پہنچانا ہمارا کام تھا۔‘‘ دوسری آواز نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔

    ’’اچھا کتنی فورس حصہ لے رہی ہے؟‘‘

    ’’صحیح تعداد تو معلوم نہیں مگر سارے شہر میں ایک ساتھ چھاپے شروع ہوں گے۔ اسی لیے ساری فورس ہی لگ جائے گی اور ایک ساتھ چھاپہ پڑا تو بہت مال پکڑا جائے گا۔‘‘سہمی ہوئی آواز پھر ابھری۔

    ’’اگر شہر میں کوئی اور ایمرجنسی ہو جائے تو؟‘‘ شیطانی لہجے میں نئی تجویز سامنے آئی۔ بات سرگوشیوں میں ڈوبی، پھر فضا میں ایک مکروہ قہقہہ گونجا۔ پھر دونوں آوازوں نے اس پاٹ دار آواز کی تجویز پر قہقہہ لگا کر اپنی منظوری کا اعلان کیا۔ ’’جاؤ اب آرام کرو، کل کوئی چھاپہ نہیں پڑے گا۔‘‘

    دوسرے دن دومنی بسوں کی ریس کے باعث دو طالب علموں کی ہلاکت کے بعد شہر میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ مشتعل لوگوں نے کئی بسوں کو آگ لگا دی۔ ایک اور علاقے میں ایک بس فٹ پاتھ پر کھڑے مسافروں پر چڑھ گئی۔ کئی افراد ہلاک و زخمی ہو گئے۔ جگہ جگہ پتھراؤ، جلاؤ اور گھیراؤ شروع ہو گیا اور ہنگامے دیکھتے ہی دیکھتے گروہی فسادات میں تبدیل ہو گئے۔ سڑکوں پر ٹائروں کے جلنے سے شروع ہو کر یہ آگ دفاتر، بینکوں اور گھروں تک پہنچنا شروع ہو گئی۔ اس طرح صرف دو منی بسوں کے عوض آغا صاحب کا کروڑوں کا مال صاف بچ گیا۔ اسی دوران میں بلوائیوں سے نمٹنے کے لیے تمام پولیس والوں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں۔ اضافی حفاظتی دستوں کو بھی ملازمت پر طلب کر لیا گیا۔ حاضری کا نوٹس پا کر شکور ہکّا بکّا رہ گیا۔ اسے اب یاد آیا کہ وہ خصوصی پولیس فورس کا ملازم ہے۔ آغا صاحب کا حکم پا کر اسے بادل نخواستہ ڈیوٹی پر جانا ہی پڑا۔ اسے کبھی لاٹھی چارج کرنا پڑتا، کبھی آنسو گیس کے گولے پھینکنا پڑتے۔ اس کے لیے معصوم لوگوں پر بید برسانے کا یہ پہلا موقع تھا۔ گیس سے خود اس کی آنکھوں میں آگ سی لگی ہوئی تھی۔ کتنی بار وہ خود پتھراؤ کی زد میں آیا تھا۔ وہ بدحواس ہو رہا تھا، بالکل بوکھلا کر رہ گیا تھا۔ یہ سب کام اس کے بس کا نہیں تھا۔ اسی لیے وہ آج آغا صاحب کے حضور اپنی درخواست لے کر آ کھڑا ہوا تھا، ’’آغا جی مجھ سے یہ کام نہیں ہوگا۔‘‘ اس نے تقریباً گھگیاتے ہوئے کہا۔

    آغا صاحب نے عجیب سی نظروں سے اُسے اوپر سے نیچے تک دیکھا، ان کی نظریں بدلی ہوئی تھیں۔

    ’’کیوں نہیں ہوگا؟‘‘ آغا صاحب نے غصّے سے پوچھا۔

    ’’اگر یہ کام نہیں کر سکتے تھے تو بھرتی ہی کیوں ہوئے تھے؟‘‘

    ’’وہ جی فراز میاں کا حکم تھا۔‘‘

    ’’فراز کو کیا پڑی تھی حکم دینے کی! اس نے تیری آمدنی بڑھانے کے لیے سفارش کر دی ہوگی۔ مگر تم نیچ لوگ ہمیشہ نیچ ہی رہتے ہو۔ احسان فراموشی تو فطرت ہے تم کمینوں کی۔‘‘

    ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ آغا صاحب!‘‘ شکور کالہجہ بھی تیز ہو گیا۔ ’’میں نیچ اور احسان فراموش نہیں ہوں۔‘‘ شکور کو خود اپنی ہمت پر حیرت ہونے لگی۔

    ’’نمک حرام‘‘، آغا صاحب گرجے۔

    ’’تو مجھ سے ایسے لہجے میں بات کر رہا ہے۔ تیرے تو میں پل بھر میں بخیے ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔ زندگی بھر جیل میں سڑتا رہے گا۔‘‘

    ’’مگر میرا قصور کیا ہے؟ آغا جی جو آپ۔۔۔!‘‘

    ’’بکواس مت کر، تو نے حکومت کو دھوکا دے کر یہ ملازمت حاصل کی اور اب حکومت سے غداری کرنا چاہتا ہے؟‘‘

    ’’میں نے کسی کو دھوکا نہیں دیا، آغا جی! میں تو بہت چھوٹا آدمی ہوں۔ یہ کام تو آپ جیسے بڑے۔۔۔‘‘ ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ آغا صاحب کا زور دار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا۔

    ’’ذلیل کمینے، تو مجھے دھوکے باز کہتا ہے۔ تو سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو، مت بھول کہ تجھ پر مہر گل کے دو بچوں کو سڑک پر روندنے کا الزام لگ سکتا ہے۔ تیری بیوی تجھ سے نفرت کر سکتی ہے۔ تجھ پر الیکشن میں بیلٹ باکس اٹھا کر بھاگنے کا الزام بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ کس کس الزام سے بچائے گا تُو خود کو؟‘‘

    شکور ایک دم سہم گیا۔ اسے یوں لگا جیسے نیکی اور سچائی کا وہ خول جسے آغا صاحب نے اپنے اوپر سجایا ہوا تھا، ٹو ٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گیا ہو۔ ان جیسا معزز اور محترم آدمی اتنا نیچ، اتنا گرا ہوا بھی ہو سکتا ہے؟ آغا جی نے عمر بھر لوگوں کو اپنے احسانوں تلے دبائے رکھا اور پھر انھی احسانات کے بدلے جائز اور ناجائز کام کرواتے رہے۔ کوئی ان کے حواریوں اور خوشامدیوں کو برا سمجھتا رہا اور کوئی ان کی اولاد کو! لیکن خود آغا جی تو نیکی اور پارسائی کے سنگھاسن پر بیٹھے چین کی بنسی بجاتے رہے۔ شکور ہارے ہوئے جواری کی طرح شکستہ دل لیے باہر نکل آیا۔ اس کا اپنا محلّہ فسادیوں میں گھرا ہوا تھا، مگر پولیس کی نوکری کے باعث وہ اپنے گھر بھی نہیں جا سکا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ چیخ چیخ کر آغا صاحب کے کرتوتوں سے، ان کی بد اعمالیوں سے دنیا کو آگاہ کر دے، اس کی آنکھیں جل رہی تھیں اور وہ خود بھی۔ اس کے جسم پر اب بھی وردی تنی ہوئی تھی۔ کبھی کوئی سائرن بجاتی ایمبولینس یا فائر بریگیڈ کی گاڑی چاروں طرف کے پُرہول سناٹے کو تو ڑتی دندناتی ہوئی گزر جاتی یا پولیس کے ٹرک اور گاڑیاں شور مچاتے گزر جاتے اور اس کے بعد پھر اندھیری سڑک پرمہیب سناٹا چھا جاتا۔ فضا میں آنسو گیس اور ٹائروں کے جلنے کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ مائیں بچوں کو کلیجے سے لگائے بیٹھی تھیں۔ گولی کسی رشتے کو کب پہنچانتی ہے۔ جس علاقے سے وہ گزر رہا تھا، وہاں بھی شاید کرفیو لگا ہوا تھا۔ گرچہ اس پر کرفیو کا اطلاق نہیں ہوتا تھا مگر بلوائی اور فسادی وردی والوں کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ وہ تیزی سے اپنے محلے کی طرف بڑھنے لگا۔ آغا صاحب سے تعلق ٹوٹنے پر نجانے گھر والوں کا کیا ردِ عمل ہوگا۔ اس نے سوچ لیا تھا وہ مہر گل کو اعتماد میں لے کر سب کچھ بتا دے گا۔ صبح کے ملگجے اندھیرے میں اس کے محلے کے مکانات بھی سیاہ ہیولے لگ رہے تھے۔ واقعی مکانات سیاہ ہیولے بن گئے تھے۔ سامنے ہی رمجو پان والے کا کیبن الٹا پڑا تھا۔ ایرانی ہوٹل کا فرنیچر باہر جلا پڑا تھا۔ دکانوں کے ٹوٹے شٹر، جلتے سلگتے دروازے اپنے لٹنے کی کہانی سنا رہے تھے۔ شکور بد حواس ہوا جا رہا تھا، اس کا دل بے تحاشا دھڑک رہا تھا۔ و ہ اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے سہما جا رہا تھا، مگر اس کا گھر جیسے خود بخود سامنے آ گیا۔ ماں، بہن، اس کا گڈو، مہر گل کوئی بھی وہاں نہیں تھا۔ اس کا اپنا گھر کھنڈر بن گیا تھا۔ وہ سکتے کے عالم میں کھڑا خالی صحن کو دیکھ رہا تھا جہاں اب بھی اس کا گڈو کلکاریاں مار رہا تھا، جہاں اب بھی مہر گل کی نقرئی آواز گونج رہی تھی۔

    چندا ماموں دور کے

    بڑے پکائیں بُور کے

    آپ کھائیں تھالی میں

    منے کو دیں پیالی میں

    پیالی گئی ٹوٹ۔۔۔

    ہلکا سا چھناکا ہوا تو وہ واپس گھر کے صحن میں لوٹ آیا۔ وہ گڈو کی پیالی تھی جو اس کے پاؤں تلے آ کر ٹوٹ گئی تھی۔ سامنے کنویں کے پاس اس کی چاند جیسی بہن کی چپلیں پڑی تھیں۔ برابر کے بیری کے پیڑ پر اس کی ماں کی اوڑھنی کنویں پر سایہ کیے ہوئی تھی، جیسے کنویں میں ہزاروں امانتیں دفن ہوں۔ گڈو کے ٹوٹے پھوٹے کھلونے، ننھے منے ہاتھوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ سب کیسے ہو گیا، کیوں ہو گیا، کس نے کیا یہ ظلم؟ کس نے اس گھر کو آگ لگائی؟

    ’’شکور! تیری بہن نے اس کنویں میں چھلانگ لگا دی تھی۔‘‘ کسی نے بتایا۔

    ’’اسے خود تیری ماں نے حملے کے وقت کنویں میں دھکا دے دیا تھا۔ تیری بیوی کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ تیری ماں اور گڈو کو انجمن والے دفنا آئے تھے۔‘‘ ایک اور پڑوسی نے اطلاع دی۔

    وہ سکتے کے عالم میں سب کچھ سن رہا تھا۔

    ’’پَر تُو تَو خود پولیس میں تھا، تو نے اپنے محلّے پر پہرہ کیوں نہیں لگوا دیا؟‘‘ مولوی صاحب کی باتوں نے اسے چونکا دیا۔

    ’’اپنے ہی محلّے پر اپنے ہی لوگوں سے پہرہ؟ پر کس لیے؟ کس کا خوف تھا یہاں؟ یہاں تو سب اپنے تھے۔ دور دور سے اسی کنویں سے پانی بھرنے آتے تھے۔ شاید وہ تجھے آغا صاحب کے کرتوتوں میں شریک سمجھتے تھے۔ ان کے خلاف طرح طرح کی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔‘‘

    ’’تو کیا نفرت اور وحشت کے جذبے اتنے تناور ہو گئے تھے کہ وہ سارے سچّے رشتوں کو بہا کرگئے؟ ہاں شاید۔ میں بھی تو برائی اور بدی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا، دل سے برا سمجھتا رہا مگر کسی کو روک نہیں سکا۔ شاید مجھے اسی کی سزا ملی ہے؟‘‘

    اب میر ی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آگے کیا لکھوں؟ میں اس جیل کی کوٹھری میں بیٹھا شکور کی کہانی مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جب آغا صاحب اقتدار میں تھے تو میں نے یہ کہانی اخبار میں چھاپنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بھی اس لیے کہ ایوانِ اقتدار سے آوازیں آ رہی تھیں کہ برائیوں کو بے نقاب کرو، سچ لکھو، مگر میں نے جب ایسا کرنا چاہا تو نہ آغا جی یہ سچی ضربیں سہہ سکے اور نہ ایوانِ اقتدار والے یہ کڑوی گولی نگل سکے۔ اخبار بند ہوتے ہوتے بچا اور مجھے سچ لکھنے کے جرم میں اس کوٹھری کے دن رات دیکھنا پڑے۔ اب آغا صاحب کے پاس وزارت نہیں رہی، اسمبلی کی سیٹ خطرے میں ہے۔ خود مقدموں میں الجھے ہوئے ہیں اور علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے کی درخواستیں دائر کر رہے ہیں۔ ان کی دھاندلیوں کی ایک نئی کہانی روزانہ اخبارات کی زینت بنتی ہے۔ شکور اُن مقدموں کو بھگتا رہا ہے جس کے اصل مجرم آغا صاحب ہیں۔ مگر شاید اُسے برائی کو خاموشی سے دیکھنے کی سزا مل رہی ہے اور آج وہ میرے سامنے والی جیل کوٹھری میں پڑا ہے مگر یہ چادر میں لپٹا کون ملاقاتی آ رہا ہے؟ یہ توشکور کا ملاقاتی ہے، شاید مہر گل۔ خاموش ہونٹوں، کپکپاتے ہاتھوں اور برستی آنکھوں سے شکور نے مہر گل سے سب کچھ کہہ سُن لیا۔

    ’’شکور! تو ہم سب کو بے بسی کی حالت میں چھوڑ کر کہاں چلا گیا تھا؟‘‘

    ’’مہر گل پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ شکور کی بہتی آنکھیں بھی دھندلائی جا رہی تھیں۔

    ’’اگر تُو ہوتا تو شاید یہ سب نہ ہوتا؟ میں تو اس اخبار والے بابو کے گھر سلائی کے کپڑے لینے گئی تھی۔‘‘ اُس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

    ’’پر یہ بابو تو پہلے ہی سے جیل میں تھا۔ اس کی ماں نے مجھے وہیں روک لیا، ہمارے محلے سے فسادات کی خبریں جو آ رہی تھیں۔ کاش میرے لیے بھی کوئی کنواں ہوتا، میرا گڈو! وہ بھی۔۔۔‘‘ الفاظ اس کا ساتھ چھوڑے دے رہے تھے۔ ’’میرا گڈو بھی پتھروں کی زد میں آ گیا۔‘‘ وہ سلاخوں کو پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

    اس کی آہوں اور سسکیوں میں شکور کے آنسو بھی شامل ہو گئے۔ بند سوتے پھوٹ پڑے۔

    ’’چلو بھئی شکور تمھاری ضمانت ہے۔‘‘ سپاہی نے دور سے آواز لگائی۔ ’’پر کس نے؟ کس نے کرائی میری ضمانت؟ کس نے دی ضمانت؟‘‘ سسکیوں کی آواز مدھم پڑ گئی۔

    ’’میں نے، میں نے کرائی ہے تیری ضمانت۔ میں نے شکور۔‘‘ مہر گل نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’پتہ بھی ہے کتنی مشکلوں سے ڈھونڈتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہوں۔‘‘ ’’مہر گل! تونے کرائی ہے میری ضمانت؟۔ تم لائی ہومیری ضمانت کی رقم۔ تمھارے پاس تمھارے پاس اتنی رقم کہاں سے آ گئی جو تونے میری لاکھ کی ضمانت کرا دی؟ تیرا تو گھر بار سب کچھ لُٹ چکا تھا! پھر، پھر تیرے پاس لاکھوں کی رقم کہاں سے آ گئی؟‘‘ شکور کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ مہر گل خاموش کھڑی سسکیاں لے رہی تھی۔ ’’بول مہرگل! کہاں سے آئی اتنی رقم تیرے پاس؟‘‘ شکور ہذیانی کیفیت میں بولے چلا جا رہا تھا۔

    مہر گل کی سسکیاں گھٹی جا رہی تھیں، شکور وحشیوں کی طرح اسے دیکھے جا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں دہک رہی تھیں۔

    ’’بول ناں مہر گل بول دے۔ کس نے بھر دی نوٹوں سے تیری جھولی؟‘‘ شکور پر جنون سا طاری تھا۔

    ’’شکور میں تجھے کیسے بتاؤں؟‘‘ مہر گل کی آواز اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔

    ’’میں پوچھتا ہوں پیسے کہاں سے آئے مہر گل۔ خدا کے لیے بتا دے ورنہ میں اپنا اور تیرا دونوں کا خاتمہ کر لوں گا۔‘‘ وہ پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔

    ’’دیکھ شکور! مجھے لاکھ کا معاوضہ ملا تھا، اپنے گڈو کے مرنے کا۔ بہت رقم تھی، بہت زیادہ۔ سرکار بڑی مہربان ہے شکور۔ بہت انصاف والی، رحم دل اور خدا ترس۔ سارے مرنے والوں کے ورثا کو معاوضہ مل رہا ہے، نقد رقم مل رہی ہے۔ کوئی ہیر پھیر نہیں ہو رہی ہے۔ جلد اور کھرا انصاف ہو رہا ہے۔‘‘ وہ دیوانوں کی طرح بولے چلے جا رہی تھی۔

    ’’بس تو اب میرے ساتھ چل۔۔۔ اور سنو اخبار والے بابو!‘‘ اس نے جاتے جاتے میری طرف اس طرح دیکھا جیسے اس کا ذہنی توازن بگڑ چکا ہو۔

    ’’تیری ماں نے میری جاں بچائی، مجھ پر بڑا احسان کیا۔ پھر بھی میں اس احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔‘‘ وہ ہذیانی آواز میں بولے چلی جا رہی تھی۔ ’’میں تیری ضمانت نہیں کرا سکتی۔ میرے پاس صرف ایک ہی ضمانت کے پیسے تھے، اگر میرے دو گڈو ہوتے اور دونوں یونہی بلوؤں میں مارے جاتے تو مجھے دُگنا معاوضہ ملتا پھر میں تیری بھی ضمانت کرا۔۔۔ دیتی۔ میں بہت شرمندہ ہوں، بہت شرمندہ ہوں۔ میرا ایک ہی گڈو تھا۔ کاش میرے دو گڈو ہوتے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے