Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اب میں کیا کروں

وقار بن الٰہی

اب میں کیا کروں

وقار بن الٰہی

MORE BYوقار بن الٰہی

    گرمی حسب معمول بڑی کڑاکے کی پڑ رہی تھی، پڑنی بھی چاہیے تھی کہ جون کی لاج بھی تو رکھنی تھی۔ شاید اسی موسم کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ان دنوں چیل بھی انڈہ چھوڑ دیتی ہے۔ چیل ضرور انڈہ چھوڑ دیتی ہو گئی لیکن انسان ایسا کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتا، شاید اس لیے کہ ایک تو وہ انڈے نہیں دیتا، اس نے گرمی کا توڑ بھی ڈھونڈھ لیا ہے۔ اتنی بڑی عمارت ساری کی ساری ہی ائیرکنڈیشنڈ تھی۔ بڑے ہال، کمرے، راہ داریاں ہر جگہ ہر کونہ ٹھنڈا تھا ۔چند ایک کمرے تواضافی ائیرکنڈیشنروں کی وجہ سے جیسے برف خانے بنے ہوئے تھے اور ان کمروں میں بیٹھنے والے اور باہر جھلنے والوں کے درمیان بھی اتنی ہی دوری تھی جتنی کہ موسموں میں،عمارت باہر سے سادہ نظر آتی تھی لیکن اندر کروفر اور جاہ و جلال کی تمام ترنمائش موجود تھی۔ فرش پر دبیز قالین، دیواروں پر تازہ روغن، چھتوں کے اندر ایک اور مصنوعی چھت۔۔۔ کمروں کے دروازے بھاری بھرکم اور ان پر لش لش چمکتی ہوئی ناموں کی تختیاں۔ اندر کئی کمرے اور آسائش کے تمام اسباب۔ نیویارک کی وال سٹریٹ پر گھومتے پھرتے یہ راز سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ امریکہ بہادر کو ساری دنیا کی تھانیداری کا شوق کیوں ہے۔ اس ایک سٹریٹ کو بچانے کے لیے تو وہ ساری دنیا کو تباہ کر سکتے ہیں۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک مختصر سا کمرہ یہاں ہر شے مختصر تھی، البتہ ٹیلی فون دو تھے اور ملاقاتیوں کے لی عام اور کھردری کرسیاں تھیں۔ یہ پی اے کے پی اے کا کمرہ تھا اور ملاقاتی سارے کے سارے ہی نچلے طبقے کے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کمرے کی فضا یخ تو تھی لیکن اس میں پسینے کی سڑاند بھی شامل تھی۔

    ایک کونے میں دو چار اہل کار بیٹھے تھے۔ تھے وہ بھی نچلے درجہ کے، لیکن تھے خدمت گار۔ اس لیے لباس اجلا اورر مونچھوں میں ایک چمک تھی۔ دو ایک اخبار پڑھ رہے تھے اور بقیہ ٹیلی فونوں کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ اس کے پیچھے دوسرا کمرا تھا جو قدرے بڑا تھا۔ سامان بھی باہر کے کمرے کی نسبت قدرے بڑا تھا۔ کرسیاں نرم اور تعداد میں زیادہ تھیں۔ یہ پی اے کا کمرہ تھا۔ ٹیلی فون البتہ تین تھے۔ یہ کمرہ بھی ملاقاتیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ چند ایک پی اے صاحب کے دوست تھے، بقیہ ان کے اور وزیر صاحب کے دوستوں کے دوست تھے۔ زیادہ تر دوستوں نے سفاری پہن رکھے تھے جب کہ دو تین نے شلوار قمیض کے ساتھ واسکٹ کو بھی ضروری سمجھا تھا۔ یہ لوگ صبح سے دو بار چائے پی چکے تھے لیکن آنکھوں میں قدرے خمار اب بھی تھا۔ فضا میں یخی تو تھی ہی، پیسنے کی بو نہ تھی۔ یہاں بھی لوگ ٹیلی فونوں سے چپکے ہوئے تھے۔ سارا ملک ان کی ایک انگلی کی ایک پور کے نیچے دبا تھا۔ آگے تیسرا اور آخری کمرہ تھا۔ تین اطراف میں دیواریں اور عقب میں شیشے کی دیوار جو بلائنڈ سے یوں ڈھکی تھی کہ رتی بھر دھوپ بھی اندر نہ آ سکے۔ کمرے کے وسط میں بڑی میز جو ساری ہی شیشے سے ڈھکی ہوئی، شیشہ صاف ستھرا، جس سے سوائے اعمال کے ہر شے جھلک رہی تھی۔ میز کے پیچھے یہ بڑی گھومنے والی کرسی، کرسی کے ساتھ چھوٹی میز جس پر چار ٹیلی فون کے علاوہ ایک چھوٹا سا ڈبہ میں بند سپیکر، جس پر اندر بڑے ہال میں جاری اجلاس کی کاروائی بخوبی سنائی دے رہی تھی، یہاں تک کہ معزز اراکین کی گالی گلوچ بھی سننے والے کو خاصا محظوظ کر رہی تھی۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ صوفہ سیٹ یا کشن والی کرسیاں اور ان کرسیوں پر نفاست کا کم ازکم مظاہرہ کرنے والے بیٹھے تھے جن کے لباس کلف لگے شکن سے قطعی پاک تھے، جن کے چہروں پر رعونت ہی رعونت تھی۔ ہاتھوں میں چھن چھناتی پجیرو، لینڈ کروزر، ٹیوٹاکراؤن، ہونڈا اکارڈ گاڑیوں کی چابیاں تھیں اور چند ایک کے ہاتھوں میں ڈن ہل سگریٹ کے پیکٹ۔ ان کے چہرے، ہاتھ، کپڑے، آفٹر شیو اورکلون میں ڈوبے ہوئے تھے، اسی لیے کمرے میں خوشبو کا جیسے بازار کھلا ہوا تھا۔ چہرے ان کے بھی اکتائے ہوئے تھے لیکن شاید انہیں کوئی اور کام نہیں کہ یہیں نشستوں سے چپکے ہوئے تھے۔

    باہر جب سرو اور یوکلپٹس کے سائے درختوں کے اپنے قد سے بھی لمبے ہونے لگے تو اجلاس کی کاروائی ختم ہوگئی۔ بھونپو کی آواز بند ہوئی توتینوں کمروں میں بیٹھے ملاقاتیوں کے چہروں پر یکدم رونق پھیل گئی، جیسے طویل لوڈ شیڈنگ کے بعد بجلی کے اچانک آجانے پر مکینوں کے چہروں پر آجاتی ہے۔ ملاقاتی قدرے بے صبری سے اپنی اپنی نشستوں پر پہلو بدلنے لگے۔ اجلاس ختم ہو گیا ہے، بس اب وزیر صاحب آ ہی رہے ہوں گے، ہر ایک کی سوچ یہی تھی۔ پی اے دو فائلیں اٹھائے اندر داخل ہوا تو گھومنے والی کرسی کے قریب ترین بیٹھی شخصیت نے تھوڑی گردن گھمائی اور بڑی نخوت سے پوچھا۔ کیوں بھائی! اب کیا خبر ہے۔ پی اے آخر پی۔ اے۔ تھا، اس نے بڑی بے اعتنائی سے اس شخص کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا، ابھی تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ملاقاتی نے پھر پوچھا اب تو اجلاس بھی ختم ہو گیا۔ پی اے نے جواب نہیں دیا۔ اسی بےاعتنائی کو اپنے چہرے پر سجائے وہ اپنے کمرے میں اپنی کرسی میں آ دھنسا تو اس کے پی اے نے اس سے پوچھا۔

    ’’وزیر صاحب تو اجلاس میں بھی موجود نہ تھے، کہاں چلے گئے۔۔۔‘‘

    ’’آہستہ بولو۔ ان مفت خوروں نے سن لیا، تو مصیبت آ جائےگی‘‘۔ ظاہر ہے، وہ صبح سے اجلاس کے بہانے ہی تو اتنے سارے لوگوں کو قابو کئے ہوئے تھے۔

    ’’میں آہستہ ہی بول رہا ہوں لیکن وہ گئے کہاں۔۔۔‘‘ پی اے کے پی اے نے آواز دھیمی کرلی۔

    ’’جانا کہاں ہے۔ ابھی تووہ گھر سے نہیں چلے۔ رات۔۔۔‘‘ اس کے پی اے نے لقمہ دینا چاہا۔

    ’’ہاں رات۔۔۔ ڈرائیور کہہ رہا تھا کہ۔۔۔‘‘ لیکن پی اے نے اسے چپ کرا دیا۔

    ’’بس بس اپنا کام کرو۔۔۔‘‘ اتنے میں فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ پی اے نے پہلی گھنٹی کے ختم ہونے کا بھی انتظار نہ کیا اور ایک آدھ بات سن کر ہی رسیور رکھ دیا۔

    ’’صابر سے کہو، فوراً گیٹ پر جائے۔ وزیر صاحب چل دئیے ہیں‘‘۔ ان کا پی اے باہر کی طرف لپکا تو کئی ایک ملاقاتی ایک ساتھ اٹھ آئے۔۔۔ اور جواب سن کر اپنی اپنی نشستوں پر جا بیٹھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کئی گھنٹے لیٹ گاڑی بس پلیٹ فارم پر پہنچنے ہی والی ہو۔۔۔

    چندہی لمحے گزرے تھے کہ باہر سے صابر نے لپک کر دروازہ کھولا، پہلے وزیر صاحب اندر داخل ہوئے، پھر دو چار درجہ اول قسم کے ملاقاتی، ان کے پیچھے ملازمین اور آخر میں نمبر دو قسم کے بے شمار غرض مند۔ وزیر صاحب ساٹھ پینسٹھ کے پیٹے میں تھے لیکن حواس کے علاوہ بھی دوسری بہت سی چیزیں ان کے قابو میں تھیں۔البتہ پیٹ کچھ کچھ پھول رہا تھا لیکن اسے توند بہرحال نہیں کہا جا سکتا تھا۔ گال بھی قدرے پھول لگ رہے تھے لیکن چہرے پر بلاکی تازگی تھی۔ رہی سہی کسر ان کی آنکھوں نے پوری کر دی تھی۔ تھیں تو جاپانی چینی لیکن ان میں عیاری اور مکاری نے ہی ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ وہ شاید گھر سے نہانے کے فوراً بعد چل پڑے تھے کہ ان کے داخل ہوتے ہی سارے کمرے میں صابن کی خوشبو پھیل گئی۔ وہ باہر کے کمروں میں بیٹھے غرض مندوں سے ہاتھ ملانے کے بعد اپنے کمرے میں آئے تو ملاقاتیوں کو دیکھتے ہی کھل اٹھے۔ تقریباً سبھی کے ساتھ بغل گیر ہوئے یوں کہ بغلیں ملیں نہ ایک دوسرے کے لباس پرشکنیں پڑیں۔ کرسی میں دھنس کے انہوں نے ہر ایک سے ایک بار پھر خیر خیریت پوچھی اور پھر مخاطب ہوئے۔۔۔

    ’’بس ایک منٹ اور معاف کیجئے۔۔۔‘‘ انہوں نے سامنے کھڑے پی۔ اے۔ کی طرف دیکھا۔ پی۔ اے۔ کے سارے سوئچ ایک دم آن ہو گئے۔۔۔

    پیجرو کا یہ ڈرائیور تو بالکل نکما ہے۔ آج پھر اے سی خراب کر لایا ہے۔ اسے ٹھیک کراؤ۔۔۔ ایک گاڑی بیگم صاحب کو بھجوا دو۔ بچوں کو دوسری گاڑی بھجواؤ، انہوں نے شاید پارک میں جانا ہے اور ہاں! ایک گاڑی مہمان خانے بھجواؤ، وہاں چند ایک مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں وہ شاید مری جائیں گے لیکن خیال رہے، ٹینک سب کی فل ہوں۔۔۔‘‘ پی اے نے یہ بات نوٹ کر لی تھی۔۔۔ وہ باہر کی طرف چل پڑا کہ آواز نے روک لیا۔

    ’’وزارت میں اس لقمان کے بچے سے پوچھو، کمروں میں اے۔ سی۔ کس قسم کے ہیں۔ شرم کرو، اتنا شور کرتے ہیں کہ سویا آدمی بھی اٹھ بیٹھے۔ اسے کہو، کم از کم تین تو تبدیل کرا دے۔۔۔۔ مصروفیات کیاہیں۔۔۔؟‘‘ پی اے نے دوسری نوٹ بک نکالی۔

    ’’جناب چار بجے سے اجلاس شروع ہے۔ رات ڈنر پرل میں ہے اور رات۔۔۔‘‘ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے پی۔ اے۔ کو روک دیا ’’بس ٹھیک ہے۔ نلکوں میں پانی نہیں ہے تو کیا چائے بھی نہیں ملےگی‘‘۔ پی اے باہر کی طرف لپکا۔ وزیر صاحب دھلے دھلائے لوگوں کی طرف مڑے تو چہرہ گلنار ہو رہا تھا۔

    ’’جی چوہدری صاحب، اتنے دنوں بعد آپ نے ادھرکا رخ کیا ہے۔ آپ پہلے تو ایسے نہ تھے۔۔۔ ٹھہرے کہاں ہیں۔۔۔‘‘ چوہدری صاحب کے لہجے سے ملاقات کی خوشی ابل رہی تھی۔ ’’اپنے عزیز ہیں یہاں، انہی کے پاس ٹھہرا ہوں۔ بس ایک زحمت دینی تھی۔۔۔‘‘ وزیرصاحب نے انہیں روک دیا۔

    اب اتنا بھی کیا تکلف۔ آپ حکم تو کریں جی۔۔۔‘‘

    ’’آپ تو جانتے ہیں، آپ کی سفارش پر ہی تو مجھے دس کروڑ کا قرضہ ملا تھا۔ میں واپس بھی کررہا تھا لیکن پھر خیال آیا، کیوں نہ ایک آدھ مل اور لگالوں۔ یہ کام ابھی آدھے میں ہے کہ ادارے نے قرضے کی ادائیگی کے لیے تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔۔۔‘‘ ان کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی وزیر صاحب نے رسیور اٹھایا اور پی۔ اے۔ سے نمبر ملانے کو کہہ دیا۔ ادھر چوہدری صاحب کی بات ختم ہوئی ادھر وہ صاحب مل گئے۔ وزیر صاحب نے کچھ پرانے تعلقات کا حوالہ دیا، کچھ آئندہ کی مہربانیوں کی طرف اشارہ کیا اور چند ہی لمحوں میں ان صاحب کو چت کر لیا۔ ریسیور رکھتے ہوئے بولے۔

    ’’لیں چوہدری صاحب، وہ تو مان ہی نہیں رہا تھا۔ بہرحال جب تک میں ہوں وہ پھر تقاضا نہیں کرےگا۔۔۔‘‘ چوہدری صاحب سر سے پاؤں تک شکرئیے کی یہ بن گئے۔ ایسے کہ منہ سے کچھ نکل نہیں رہا تھا۔ بس اتنا کہہ سکے۔

    ’’اللہ آپ کا اقبال اور بلند کرے۔۔۔‘‘ پھر وہ کمرے سے نکل گئے یوں کہ ان کے دونوں ہاتھ سینے پہ ایک دوسرے کے اوپر براجمان تھے اور پشت دروازے کی طرف ہی رہی جیسے کسی مزار پر حاضری دینے کے بعد الٹے قدموں جا رہے ہوں۔ وزیر صاحب کو کچھ یاد آ گیا۔ انہوں نے فون کا ریسیور اٹھایا اور بزر کی گھنٹی دبا دی۔ دوسری طرف پی اے تھا۔

    ’’وہ گھر میں صوفہ سیٹ کس نے بنوائے ہیں۔۔۔ بالکل جاہل ہے، گدھا ہے۔ کپڑے کارنگ نہ تو پردوں سے ملتا ہے نہ قالین سے۔۔۔ تبدیل کراؤ انہیں۔۔۔ اور ہاں! اسٹیشن سے وہ آموں کی پیٹیاں منگوائی ہیں کہ نہیں۔۔۔ گھر پہنچ گئی ہیں۔۔۔!‘‘ ریسیور رکھ کے وہ دوسرے ملاقاتی سے مخاطب ہوئے۔

    ’’جی اوکھرا صاحب۔ کیا حال ہیں۔ یار! پچھلی بار آپ نے شکار کے انتظامات خوب کیے تھے، وہ نشہ تو آج تک نہیں اترا۔۔۔ ‘‘ اوکھرا صاحب اب اتنے بھی کند ذہن نہ تھے کہ اشارہ نہ سمجھتے، بولے۔

    ’’میں تو گرمیوں کے ڈھلنے کا انتظار کر رہا ہوں، اگلا پروگرام اور بھی شاندار ہوگا۔۔۔‘‘ وزیر صاحب نہال ہو گئے۔

    ’’جی جی کیوں نہیں، اس بار برقی صاحب کو بھی لے چلیں گے۔۔۔۔ اچھا تو، کیسے زحمت کی آپ نے؟‘‘

    ’’بس کیا کہوں جی! وہ آپ کا بھتیجا بی۔ اے۔ تو کر گیا ہے، آگے پڑھنے کو تیار نہیں۔ آپ کے محکمے میں گریڈ 18 کی دو آسامیاں ہیں۔ اسے یہیں پھنسا دیں تو۔۔۔‘‘ وزیر صاحب نے درخواست لے لی، اس پر کچھ لکھا اور بولے۔

    ’’گریڈ اٹھارہ کے لیے توایم اے ہونا ضروری ہے اور پانچ سال کاتجربہ بھی۔۔۔ لیکن آ پ کا بچہ تو میرا بچہ ہوا ناں۔ میرے محکمے کے دوسرے افسر بڑی مین میخ نکالتے ہیں، لیکن خیر۔۔۔ آپ سمجھیں، کام ہو گیا۔۔۔‘‘ پھرانہوں نے پی اے کو بلایا، درخواست اسے پکڑائی اور بولے۔۔۔

    ’’مجھے لیکچر مت دینا۔ یہ درخواست ابھی لے جاؤ اور اپنے سیکرٹری صاحب سے کہو، کل دوپہر تک مجھے آرڈر کی کاپی مل جانا چاہیے۔۔۔ ان سے بھی کہنا، مجھے کاپی درکار ہے، قاعدے، قوانین کے وعظ نہیں۔۔۔‘‘ اتنے میں ٹیلی فون بزر بج اٹھا۔ وزیر صاحب نے ریسیور اٹھایا۔ پی اے سے جب سن چکے کہ لائن پر کون ہے تو کرسی میں پھیل گئے اور مسکراہٹ انکی مونچھوں سے بھی ابلی پڑ رہی تھی۔ لائن مل گئی دوسری طرف ایک اور وزیر صاحب تھے۔۔۔

    ’’جی جی۔ بسم اللہ، بسم اللہ۔ کیاحال ہے۔۔۔ ہوں۔۔۔‘‘ پھر انہوں نے چھت پھاڑ قسم کا قہقہہ لگایا۔۔۔ پھر یک لخت سنجیدہ ہو گئے۔ ’’اچھا۔۔۔ کل کتنے لوگ ہیں۔ کیا کہا ستر۔ جانا کہاں کہاں ہے۔۔۔ برازیل اور۔۔۔میکسیکو اور۔۔۔ پرتگال۔۔۔ نہیں وہ تو ٹھیک ہے۔ پر بیگم اور بچے نہیں مانیں گے۔ پچھلی بار بھی میں نے ٹرخا دیا تھا۔ اب پورا جہاز جا رہا ہے تو دو تین سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ ہاں ہاں، یار تم کوشش تو کرو۔۔۔ میری طرف سے تو ہاں سمجھیں لیکن۔۔۔ ہاں ہاں! بچے نہ سہی لیکن بیگم کے بغیر اور ہاں بڑے بچے کو تو بالکل اگنور نہیں کر سکتا، میرے بعد آخر اسی نے تو یہ سارا دھندا سنبھالنا ہے۔۔۔ اوکے، اوکے۔۔۔‘‘ ریسیور رکھتے رکھتے ان کے چہرے کا اطمینان، سنجیدگی میں بدل گیا۔ پھر سے وہ سیدھے ہو بیٹھے۔ کمرے کا جائزہ لیا۔ باقی رہ گئے دو تین لوگوں کی طرف دیکھا اور بولے۔

    ’’میرے لیے کوئی خدمت۔۔۔!‘‘

    ’’ارے نہیں، تکلیف دینے کو جی تو نہیں چاہتا لیکن۔۔۔ بچوں کو چھٹیاں ہو رہی ہیں۔ اگر۔۔۔۔‘‘ وزیر صاحب نے بات نہیں کی، بزر دبا کے پی اے کو ہدایات دینے لگے۔۔۔

    ’’جاتلی صاحب کے بچوں کے لیے ریلوے سے کہو، پورا سیلون بک کردیں۔ یہاں سے دو گاڑیاں انتظام کر رکھو اور مری میں ریسٹ ہاؤس بھی بک کرا دو۔۔۔ ہاں! تو یہ جاتلی صاحب سے پوچھ لو۔۔۔‘‘ جاتلی اشارہ سمجھ گئے۔ اٹھے، بڑے احترام سے سلام کرتے ہوئے باہر نکل گئے۔

    ان کے بعد کسی علاقے کے زمیندار کی باری تھی۔ ان کا کوئی مزارع کسی اور مزارع کی بیٹی کو اغوا کر کے لے گیا تھا لیکن پولیس اب رپورٹ درج نہیں کررہی تھی۔ وزیر صاحب نے تین چار فون کروائے، تھانیدار تو نہیں ملا، حوالدار پر ہی برس پڑے۔ اسے حکم دینے کے بعد اس زمیندار کو تسلی دینے لگے۔۔۔

    ’’آپ فکر نہ کریں۔ رپورٹ درج ہو جائےگی۔ اس مزارع کی یہ مجال کہ لڑکی اغواء کرے۔ آپ مطمئن رہیں، ہم نے ان برائیوں کے خاتمے کا تہیہ کر رکھا ہے۔۔۔‘‘ پھر وہ دوسرے ملاقاتی سے بات کرنے ہی والے تھے کہ پی اے دروازہ کھول کے اندر آیا لیکن وزیر صاحب کے چہرے پر جلا ل دیکھ کر جھجک گیا، بات کرے یا نہ کرے۔۔۔ وزیر صاحب بھی لحظہ بھر چپ رہے جیسے اندر ہی اندر کچھ پی رہے ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ نارمل ہوئے تو انہوں نے مسکرا کے پی۔ اے ۔کی طرف دیکھا اور سر کا اشارہ کر دیا۔۔۔ پی اے کے لیے یہ اشارہ کافی تھا۔

    ’’باہر کچھ ملاقاتی بیٹھے ہیں اور اجلاس کا وقت بھی ہو رہا ہے۔۔۔‘‘ وزیر صاحب نے چونک جانے کی ایکٹنگ کی، اچھا کہہ کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کا اٹھنا تھا کہ باہر برآمدے تک تھرتھلی مچ گئی۔ ہر کسی کی زبان پر یہی تھا۔ وزیر صاحب اٹھ رہے ہیں۔۔۔‘‘ وہ پہلے پی اے کے کمرے میں آئے۔۔۔ پی۔ اے۔ کا کمرہ بس خالی تھا لیکن ایک صاحب جو پی۔ اے۔ کے عین سامنے نہایت ادب سے کھڑے تھے، وزیر صاحب کو دیکھ کر تھوڑا سا آگے بڑھے، ٹھٹھکے پھر پیچھے ہٹ گئے۔ اتنے میں پی اے وزیر صاحب کی پشت سے نکل کر سامنے آ گئے۔

    ’’سریہ مرے پرانے ساتھی ہیں۔ بیچارے سفارش نہ ہونے کی وجہ سے بس کھڈا لائنوں پر ہی چل رہے ہیں‘‘۔ وزیر صاحب نے پرانے ساتھی کاپاؤں سے سر اور سر سے پاؤں تک جائزہ لیا، پھر پوچھا۔

    ’’اچھا تو پھر۔۔۔‘‘

    ’’جی آپ اگر مہربانی کرکے دو لفظ ان کی درخواست پر لکھ دیں تو یہ کسٹم میں۔۔۔‘‘ وزیر صاحب نے معاملہ یہیں روک دیا۔ ’’درخواست لاؤ بھائی۔۔۔۔ اس میں مہربانی کی کیا بات ہے۔ ہم تو بیوروکریٹس کو حکومت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھتے ہیں۔ اس ناطے ہمارے اپنے ہوئے نا‘‘۔ ساتھ ہی ساتھ وہ درخواست پر بھی لکھتے گئے۔

    پھروہ باہر کے کمرے میں آئے تو پیسنے کی سڑاند سے وہ کچھ خوش نہیں ہوئے۔ لیکن ساری فوج ان کے ساتھ تھی، اس لیے کچھ کر بھی نہ سکے۔ یہ کمرہ ملاقاتیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، ان کا جی چاہا، اجلاس کا بہانہ کرکے یہاں سے کھسک لیں۔ لیکن اپنے دوسرے اہل کاروں کو سر پہ سوار دیکھ کے رک گئے اور باری باری ہر ایک سے درخواست لے کے اس پہ کچھ نہ کچھ لکھتے گئے۔ پتہ تو انہیں بھی نہیں تھا کہ کس درخواست پر کیا لکھ رہے ہیں۔ درخواست گزار ساتھ کہانی بھی سناتے تھے لیکن یہاں اتنی فرصت کس کے پاس تھی کہ کہانیاں سنتا رہے اور پھر کہانیوں میں نیا پن تو تھا نہیں، وہی پرانے قصے، لڑکا فیل ہو گیا ہے، پاس کرا دیں۔ میونسپل کمیٹی مان نہیں رہی، نلکا لگوا دیں۔ بیٹی کے بیاہنے کی جہیز نہیں ہے، پیسے دلوا دیں، وغیرہ وغیرہ، جب بھیڑ چھٹ گئی اور وزیر صاحب نے سوچا، بقیہ ایک دو کو نظرانداز کرکے نکل جائیں کہ ایک ورکرنے ترت ان کے کان میں سرگوشی کی۔

    ’’اس بابے کی بات ضرور سن لیں، اس کے خاندان کی سولہ ووٹیں ہیں‘‘۔ وزیر صاحب چونکے۔ بابے کی طرف دیکھا اور حال احوال پوچھا۔

    ’’کیوں بابا جی۔ کوئی خدمت۔۔۔‘‘ بابے نے زندگی بھر اتنی محبت، ہمدردی کہاں پائی ہوگی۔

    ’’پتر، مجھے پولیس نے بڑا تنگ کر رکھا ہے‘‘۔

    ’’باباجی، آپ چنتا نہ کریں، ہم نے ان تمام برائیوں کے خاتمے کا عزم کر رکھا ہے۔ بات کیا ہے؟‘‘

    ’’پتر آج پندرہ روز ہو گئے ہیں، بھاکھڑہ گروپ کے بندے میرامرغ چرا کے لے گئے ہیں۔۔ وزیر صاحب کو جھٹکا لگا۔۔۔ تھوڑرا سا مسکرائے۔۔۔

    ’’کیا کہا بابا جی، مرغ۔۔۔‘‘

    ’’جی پتر، مرغ۔۔۔ بات مرغ کی نہیں ہے۔ بات بھاکھڑوں کی ہے، وہ اتنے منہ زور ہو گئے ہیں۔ میں پولیس کے پاس اتنی بار گیا ہوں وہ رپورٹ ہی درج نہیں کرتے۔ بس آپ پرچہ کٹوا دیں‘‘۔ وزیر صاحب رک گئے، مڑ کے پھر پی اے کے کمرے میں آئے، شہر کانام لیا اور بولے۔۔۔

    ’’آئی جی سے ملاؤ۔۔۔ ان کی اتنی جرات، انہیں معلوم نہیں، عوام کی خدمت ہمارا نصب العین ہے۔۔۔‘‘

    پی۔ اے۔ نے متعلقہ شہر میں نمبر دو چار گھمایا اور نمبر ملا تو کسی سے بات کرکے قدرے مایوسی سے بولا۔

    ’’آئی جی صاحب تو ہیں نہیں، دورے پر ہیں۔۔۔‘‘

    ’’اچھا اچھا۔۔۔ ان کے وورے ہی ختم نہیں ہوتے۔ ایس پی سے ملاؤ۔۔۔‘‘ حکم دینے کے بعد وزیر صاحب نے ادھر ادھر دیکھا، کچھ کہنا چاہا لیکن کمرے کے سناٹے سے خود ہی ڈر گئے۔ ٹیلی فون کے ساتھ دنگل کرتے ہوئے پی۔ اے۔ صاحب کو دیکھنے لگے۔ پی اے نے نمبر ملا لیا، کسی سے بات بھی کی اور پھر ریسیور ہٹاکے بولا۔

    ’’ایس پی صاحب تو کسی میٹنگ میں مصروف ہیں‘‘۔

    ’’ان سب کو۔۔۔ تم ایس ایچ او سے ملاؤ۔۔۔‘‘ نمبر تو مل گیا لیکن وہ شاید ڈرائنگ روم میں کسی کی لترول میں مصروف تھے کہ خاصی دیر بعد فون پر آئے۔ پی۔ اے۔ نے ریسیور وزیر صاحب کو پکڑا دیا۔ وزیر صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ برس پڑے۔

    ’’تھانیدار صاحب‘‘ آپ تھانے میں ہی ہوتے ہیں یا۔۔۔ اپوزیشن کے جلسے کراتے پھرتے ہیں۔ اپوزیشن نے اور تو بیڑہ غرق کر ہی دیا ہے، پولیس کا بھی ستیا ناس ہو گیا ہے۔ ہاں! آپ اس غریب کی شکایت کیوں نہیں سنتے۔ اس لیے کہ یہ میرا ووٹر ہے۔ یاد رکھیں، ہم ساری گندی مچھلیوں کو ختم کر دیں گے۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ آپ کی بات سنوں، کیوں سنوں۔۔۔ آپ بھاکھڑوں کے خلاف پرچہ کیوں نہیں کاٹتے۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ پہلے تو وزیر صاحب کا پارہ اسٹاک ایکسچینج کے بھاؤ کی طرح کبھی اوپر کبھی نیچے ہو ہی رہا تھا لیکن اب یوں لگا جیسے پارہ گر کر جم گیا ہو اور وزیر صاحب کی ساری ہوا نکل گئی ہو۔ یخ کمرے میں بھی ان کی پیشانی پر ہلکا سا پیسنہ آ گیا۔ ریسیور انہوں نے پی اے کے ہاتھ میں پکڑایا اور کسی قدر ٹوٹے ہوئے لہجے میں بابے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔

    ’’باباجی۔۔۔ ہنگرول صاحب مجھ سے بڑے اور طاقتور وزیر ہیں۔ پرچہ وہ آپ کے خلاف پہلے ہی کٹوا چکے ہیں ہتک عزت کا۔۔۔ آپ ہی بتائیں، اب میں کیا کروں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے