aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادھا

گلزار

ادھا

گلزار

MORE BYگلزار

    سب اسے ’’ادھا‘‘ کہہ کے بلاتے تھے۔ پورا کیا، پونا کیا، بس ادھا۔ قد کا بونا جو تھا۔ پتا نہیں کس نے نام رکھا تھا۔ ماں باپ ہوتے تو ان سے پوچھتا۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا، یہی نام سنا تھا اور یہ بھی نہیں کہ کبھی کوئی تکلیف ہوئی ہو۔ دل دُ کھا ہو۔ کچھ نہیں۔ ہر وقت اپنی مستی میں رہتا تھا۔ خربوزے والے نے کہا ادھے ذرا دکان دیکھیو، میں کھانا کھا کے آیا۔‘‘ اور ادھا بڑے مزے سے ڈنڈی ہاتھ میں لے کر بیٹھ جاتا اور ہانک لگاتے۔‘‘ آجا مصری کے ڈلے ہیں۔وہ کبھی خربوزے بیچتا، کبھی کھجوریں، نانی کو وید جی سے ہاضمے کی دوا لا کر دیتا۔ تیسری منزل والے کیشوانی کی بچی کو سکول چھوڑ کے آتا اور مادھو مستری کو کبھی مزدور نہ ملتا تو وہ اینٹیں دھونے کا کام بھی کر لیتا۔

    مگر سب سے زیادہ مزا آتا تھا اسے بارات کے آگے ناچنے میں۔ بارات چاہے کسی کی بھی ہو، بھولے بھٹکے بھی ادھر سے گزر جاتی تو وہ اپنے اس ایک میل کے علاقے میں آگے آگے چھوٹے چھوٹے ہاتھ جھلاتا چھوٹی چھوٹی ٹانگوں پر تھرکتا ناچتا چلا جاتا۔ اس روز وہاں سے ورق کوٹنے والے الیاس کی بارات نکلی تو وہ حسب عادت آگے آگے ناچتا ہوا چلنے لگا، پنڈت نے ٹوکا بھی۔ ابے ادھے، مسلمان کی بارات میں ناچ رہا ہے؟ ‘‘ہوا میں ہاتھ جھلاتے ہوئے ادھا بولا، ڈھول تو دونوں ہی کے بجتا ہے اور ایسے ہی بجتا ہے۔‘‘ادھا بارہ سال کے بچّوں میں کھیلتا تو انہی جیسا لگتا۔ جب بچّے سکول چلے جاتے تو وہ سوسائٹی کے بیچ والے باغ میں بوڑھے مالی کے ساتھ مل کر نیم کی سوکھی پتیاں جمع کرتا اور رات کو پروفیسر صاحب کی بیٹھک سے ماچس لاکر اس میں آگ لگا دیتا۔ ایک بار پروفیسر صاحب نے اسے ایک پرانا کوٹ دیا۔ ادھے نے باہر آکر دیکھا اور اسے مالی چاچا کے حوالے کر دیا۔ بوری کی بوری دے دی پہننے کو، اس میں تو میرے جیسے تین آ جائیں۔‘‘چھترپور سوسائٹی کی پانچ بلڈنگوں میں رہنے والے 80 کنبوں کے لگ بھگ ساڑھے تین سو آدمی تھے۔ اور ادھا، ج، خ کے نقطے کی طرح ان سب میں گھومتا رہتا۔ کسی کا کام اس کے بغیر رکتا نہیں تھا مگر اس کے بغیر چلتا بھی نہیں تھا۔ ادھا نہیں تھا تو جیسے وہ پورے نہیں تھے۔ جیسے بھرے پرے گھر کو پالتو بلی کچھ اور بھر دیتی ہے۔ ایسے ہی اس نے چھترپور سوسائٹی کو کچھ اور بھر دیا تھا۔

    لیکن کل وہ ان سب کو خالی کر گیا۔ غریب کر گیا۔ کمپاونڈ میں جمع بھیڑ کو پروفیسر نے چلاکر کہا تھا تم سب ادھورے ہو، آدھے ہو اور جسے تم ادّھا کہتے ہو، دیکھو، دیکھو، وہ کتنا پورا ہے، کتنا مکمل! ‘‘یہ بات چاہے کل کی ہے۔ مگر اصل بات شروع ہوئی تھی دو سال پہلے۔ اصل بات سے پہلے بھی ایک بات ہوئی تھی اور وہ بھی کچھ کم اصل نہیں تھی۔ مگر اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے۔ چھتر پور سوسائٹی کی سب سے خوبصورت لڑکی رادھا کملانی اس دن ہیر گنج کے علاقے سے آ رہی تھی کہ تین غنڈوں نے اسے گھیر لیا۔ ایک نے آنکھ ماری، دوسرے نے سیٹی بجائی اور تیسرا کندھے کا گھسہ دے کر آگے نکل گیا۔ لڑکی سہم گئی۔ دور گلی کے سرے پر اسے ایک سایہ سا نظر آیا اور وہ زور سے چلّائی ادھے۔!‘‘ اس نے آواز سُنی تو بھاگا آیا۔ رادھا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، ادھے ذرا مجھے گھر تک پہنچادے۔ ‘‘ادھے کو بات سمجھتے دیر نہیں لگی۔ شیر ہو گیا۔ رادھا کی بانہہ پکڑ کے بولا، چلیے۔ میں ہوں نا۔‘‘ اور وہ ان تین غنڈوں کے بیچ میں سے رادھا کو یوں نکال کر لے گیا، جیسے ہوا کا جھونکا نکل جائے۔ مگر اس رات ادھے کو نیند نہیں آئی۔ پہلی بار اسے لگا کہ اس کی عمر اٹھائیس برس کی ہے۔ اگلے دن اس نے سکول کے بچوں کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیا اور کپڑے استری کروا کر پہننے لگا۔ تبدیلی لوگوں نے بھی دیکھی اور رادھا نے بھی! وہ صرف ہنس دی۔ ’’ہاوکیوٹ۔‘‘ ادھے کو جیسے زندگی میں نیا کام مل گیا باڈی گارڈ کا، محافظ کا، رادھا کو اچھا لگتا۔ وہ صبح اسے کالج تک چھوڑ کر آتا۔ کبھی کبھی کچھ کتابیں بھی اٹھا لیتا۔ کبھی شام کو پہنچ جاتا، واپسی میں ساتھ لے کر آتا لیکن ایک دن رادھا نے اس کا دل توڑ دیا۔ وہ جگدیش سے ملنے جایا کرتی تھی جہاں ادّھا اسے چھوڑ کر آتا تھا۔۔۔ مگر جگدیش کو یہ اچھا نہیں لگا۔ اس نے اعتراض کیا تو رادھا نے ڈانٹ دیا۔ ’’چھی چھی۔۔۔ اس پر شک کرتے ہو؟ اس آدھے سے مرد پر!!!‘‘ بس اس سے آگے ادھے نے نہیں سنا۔ الٹے پاوں لوٹ آیا۔ آتے ہی گلی میں اس نے لیٹے ہوئے ایک کتے کو پیٹنا شروع کر دیا۔ بہت مارا اور جیسے خود ہی زخمی ہوکر اپنی کھولی میں جاکر لیٹ گیا۔ اگلے دن سے اس کا رویہ بدلا ہوا تھا۔ لوگوں کو بہت حیرت ہوئی۔ جس نے بھی اس سے کوئی کام کہا، ادھے نے پوچھا: پیسے دوگے؟ ’’پیسے؟ تمہیں پیسے کیا کرنے ہیں؟‘‘ ’’کچھ بھی کروں۔۔۔!‘‘ دھیرے دھیرے ادھے کے صندوق میں کئی طرح کے نوٹ اور سکے جمع ہونے لگے۔

    یہ اصل بات سے پہلے کی بات ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ چھ مہینے بعد رادھا کی شادی ہو گئی۔۔۔ زور زور سے ریکارڈ بج رہے تھے اور موڑ سے بینڈ بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ ادھے کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ اس کے تھرکنے والے ہاتھ پاوں کانپنے لگے۔ وہ تیزی سے اٹھا، صندوق کے سارے پیسے نکالے اور چھتّر پور سوسائٹی کی سی بلڈنگ کے تیرہ نمبر فلیٹ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ تیرہ نمبر فلیٹ میں ستّیہ رہتی تھی۔ اکیلی اور بدنام۔ چھتّر پور سوسائٹی کے بیشتر لوگ چاہتے تھے کہ وہ وہاں سے چلی جائے کیونکہ بیشتر لوگ رات کو وقت بےوقت اس کے فلیٹ سے نکلتے ہوئے یا اندر جاتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ ادھے نے وہ سب دیکھا تھا، سمجھا بھی تھا مگر خاموش رہا اور آج معلوم نہیں فلیٹ کے اندر کیا ہوا، مگر ادھا پورے سات گھنٹے بعد ستیہ کے گھر سے نکلا جب رادھا کی ڈولی جا چکی تھی۔اس کے بعد ادھا اکثر وہاں جانے لگا لوگوں کو بہت برا لگا کہ ستّیہ نے ادّھے کے ساتھ بھی سمبندھ بنانے میں گریز نہ کیا اور یہ بات انہیں برداشت نہیں ہوئی کہ جس عورت کے ساتھ ان کے سمبندھ ہوں، اس کے ساتھ اس بونے کے بھی تعلقات ہوں۔ وہ چاہے ویشیا ہی کیوں نہ ہو۔ بس ستّیہ کے خلاف پوری سوسائٹی گرم ہو گئی۔۔۔ ایک دو نوجوانوں نے ادھے کو پیٹ بھی دیا۔۔۔ ادھا تلملا اٹھا۔۔۔ مار کھا کے وہ پھر ستیہ کے یہاں پہنچا۔ وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ شاید کچھ بیمار تھی۔ادھے نے سیدھے سپاٹ لفظوں میں کہا: ’’ستیہ میں تجھ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ستیہ نے اس کی طرف دیکھا اور ’’ہوں‘‘ کہہ کے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔ ادھے نے اسے بازو سے پکڑ کے اپنی طرف کیا۔ ’’کیوں؟ مجھ سے شادی نہیں کر سکتی؟ میں آدمی نہیں ہوں؟ کیا تو بھی مجھےادھا سمجھتی ہے؟‘‘ ستیہ نے اس کی طرف آنکھ بھر کے دیکھا اور کہا: ’’مجھے سونے دے ادھے! میری طبیعت ٹھیک نہیں!‘‘ ادھے کے ہاتھ سے ستّیہ کی بانہہ چھوٹ گئی۔ ’’ٹھیک ہے، پھر مر! جہنم میں جا۔‘‘ یہ کہہ کے وہ گھوما، دھڑاک سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور سیڑھیاں اتر گیا۔

    اصل بات یہ بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد بھی سال بھر تک ادھا چھتر پور سوسائٹی میں ہی رہا۔۔۔ اڑتی اڑتی خبریں اسے ستّیہ کے بارے میں ملتی رہتی تھیں۔ سی، بلڈنگ سے گزرنا اس نے قصداً کم کر دیا تھا۔۔۔ کسی نے اسے بتایا ستیہ کے بیٹا ہوا ہے اور یہ بات چھتر پور سوسائٹی کے لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ستّیہ کے جان کے پیچھے پڑ گئے۔ اسے نکالو، فلیٹ چھوڑو۔‘‘ پھر بھی کسی طرح ستیہ نے چھ مہینے نکال لیے اور یہ ابھی کل کی بات ہے کہ ادھا اپنے راشن کا تھیلا پیٹھ پر لادے کمپاونڈ میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا سی۔ بلڈنگ کے نیچے بہت ساری بھیڑ جمع ہے۔ اس نے پوچھا بھی نہیں، مگر کسی نے بتایا: ’’ستیہ نے زہر کھا لیا ہے۔‘‘ادھا تیزی کے ساتھ اوپر کی طرف بھاگا۔ وہ بھول گیا کہ اس کی پیٹھ پر راشن کا تھیلا ہے اور وہ اسے چھوڑ بھی سکتا ہے۔۔۔ جانے کیوں لوگ اسے راستہ بھی دیتے رہے۔۔۔ اور آخر وہ تیرہ نمبر فلیٹ کے دروازے پر پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا ستیہ کی لاش ابھی پلنگ پر ہی پڑی تھی اور چھ مہینے کا بچہ لاش سے کھیل رہا تھا۔ سارے کمپاونڈ میں پروفیسر کی آواز گونج رہی تھی ’’یہ بچہ تم میں سے کون قبول کرےگا؟ تم میں اتنی انسانیت تو ہے کہ چندہ کرکے لاش کو جلا دو گے۔۔۔ مگر اس بچے کو۔۔۔ میں پوچھتا ہوں کون قبول کرےگا؟‘‘ سب کے سب بت بنے کھڑے رہے۔ اچانک ادھے کے ہاتھ سے راشن کا تھیلا نیچے پھسل گیا۔ سب اس کی طرف دیکھتے رہ گئے۔۔۔ اس نے دھیرے دھیرے قدموں سے جاکر بچے کو اٹھایا اور بنا کسی طرف دیکھے اسے کندھے سے لگائے، بھیڑ میں سے گزرتا ہوا، سوسائٹی کے کمپاونڈ سے باہر چلا گیا۔ پروفیسر کی آواز ابھی تک گونج رہی تھی۔’’تم سب ادھورے ہو، آدھے ہو، اور جسے تم ادّھا کہتے ہو، دیکھو دیکھو وہ،کتنا پورا ہے، کتنا مکمل۔۔۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے