Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اے کاش جانتا نہ تری

شنکر نارائن نورے

اے کاش جانتا نہ تری

شنکر نارائن نورے

MORE BYشنکر نارائن نورے

    ماماکاہاتھ تھامے رتنامیلہ گھوم رہی تھی اورمیلے والوں کی نظریں اس پرمنڈلارہی تھیں۔ حاملہ ناگن جیسی چمکدار اورچکنی جلدوالی رتناکاانگ انگ کھلاپڑرہاتھا۔ اس کے جوان سینے سے چمٹی ہوئی پھولدارسرخ چولی اوررانوں سے لپٹی ہوئی ہری ساڑی نے اسے بلاکاپرکشش بنادیاتھا۔ ابلتے ہوئے سینے پر گلے کے بٹن کے بعد کھلے رہنے والی چولی کے دونوں نچلے حصوں کواس نے مضبوطی سے آپس میں کس رکھاتھا۔ بٹن اور گرہ کے درمیان کی کھڑکی سے روشنیاں ابل رہی تھیں۔ ہری ساڑی سے باہرنکلی ہوئی گوری گوری پنڈلیاں چمکیلے ٹخنے اور بھرے بھرے پیربڑے دلکش لگ رہے تھے۔

    چکرکھاتے ہوئے ہنڈولے کی طرف گردن اٹھاکردیکھنے والی رتناآس پاس کی نظریں جھیل کرچولی کی کھڑکی سے اندرپھینک رہی تھی۔ جادوکے کرتب والے خیمے سے باہرکھڑے مسخرے کودیکھ کرمنہ پرہاتھ رکھ کرہنسنے والی رتنا کی طرف ٹکٹکی باند ھ کر دیکھنے والا دل ہی دل میں کہہ اٹھتا، ’’اے کاش یہ اسی طرح ہنستی رہے اورہنسی کے جھونکوں سے اس کاپلواڑجائے اوراس کے پیچھے چھپاہوا توتوں کاجوڑا جھولتا ہی رہے۔‘‘

    رتناماما کاہاتھ تھامے گھوم رہی تھی۔ چائے خانے میں بیٹھ کربھجیاکھارہی تھی، حلوائی کی دکان سے شکرپارے خریدرہی تھی۔ گھنٹیوں کے تال پرگھومنے والے رس کے کولہوپرجاکرگنے کارس پی رہی تھی۔

    میلا۔۔۔ میلے جیسا سکھ کہاں ہے؟ہرطرف بھیڑتھی، شورتھا، دھول تھی اوراجالابھی۔ رنگارنگ بھیڑ بڑی دلچسپ لگ رہی تھی۔ گیس کے ہنڈوں اور بجلی کے قمقموں کی روشنی میں ہرطرف اڑنے والی دھول سونے کے دھوئیں جیسی لگ رہی تھی۔ بھیڑ، ہنگامہ اور دھول۔۔۔ لیکن کسی کو اس کا احساس نہ تھا۔ سب کے چہرے بس ہنس رہے تھے۔

    ماماکاہاتھ تھامے چکراتی پھرنے والی رتنا من ہی من میں ہنس رہی تھی۔ میلادکھانے کے لیے ماما اسے میکے لائے تھے۔ اورآج میلے میں لے آئے تھے۔ میلے میں خرچ کرنے کے لیے انہوں نے اسے دوروپئے کانوٹ بھی دیاتھا۔ رتناننھی بچی بنی ہوئی میلے کے مزے لوٹ رہی تھی۔ ماما نے اچانک بڑے پیارسے پوچھا، ’’رتنا!یادآرہی ہے، سسرال کی۔۔۔ گوپال کی؟‘‘ رتنا شرماگئی۔ گھرکی یاد۔ گوپال۔۔۔ اسے اس وقت گوپال کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہورہی تھی۔ سرپرزرتاصافہ اوربائیں ہاتھ پر اس پراس سے لگ کرچلنے والی رتنا سے مل کربننے والی گوپال کی تصویر اسے چاہئے تھی۔ میلے میں آدمی ایسے ہی توگھومتاہے۔ جسم سے جسم لگائے بھیڑ میں بھی تنہائی کالمحہ چراتے ہوئے۔

    ’’جسم سے جسم لگائے بھیڑ میں تنہا؟‘‘

    یہ بات تووشرام نے اس سے کہی تھی۔ آج سے تقریبا دس سال پہلے۔ اسی میلے میں۔ اس وقت وہ کُبنی کا شتکار کی ایک الھڑاوربھولی لڑکی تھی۔ ان سب باتوں کامطلب نہیں سمجھتی تھی اور۔۔۔ اب دس سال بعدوشرام کے بجائے ماما کاہاتھ تھامے بچی بنی گھوم رہی تھی۔ ’’اب وشرام کہاں ہوگا۔‘‘ اس رات رتنا کے باپ نے مارمار کر اس کی کھال ادھیڑڈالی تھی اورصبح کو وشرام گھر سے غائب ہوچکاتھا۔ چندروز اس کی یادبے طرح ستاتی رہی اورپھروہ اسے بھول گئی۔ پھراس کا بیاہ ہوگیا۔ گوپا ل سے۔ اوروہ اپنے چھوٹے سے نئے سنسار میں کھوسی گئی۔ آج دس سال بعد اسی میلے میں اسے وشرام یادآگیا۔ وشرام کہاں ہے، کیاکرتاہے، اس سے رتنا بے خبرتھی۔ دس سال قبل وہ گوبرسے لپی دیوار پرگیرو اور چونے سے تصویریں کھینچاکرتاتھا اورکہا کرتاتھا کہ شہرجاکر اورتصویریں بنابناکر بہت ساپیسہ کمائے گا۔

    ’’وشرام۔۔۔ وشرام!‘‘

    اس باپ کی اوٹی پرچارگھروں کے باسی ٹکڑے کھاکھاکرپلنے والی ننھی سی جان کوباباہی نے رہنے کے لیے جگہ دی۔ پھرکام دیااورپھر آہستہ آہستہ بیٹا بنالیا۔ وشرام بڑا تیز لڑکانکلا۔ وہ ہرفن میں طا ق تھا، کھیتوں پرمزدوری کرنے والے ہاتھ دیوارلیپتے ہوئے تصویریں کھینچتے ہوئے بڑے سبک ونازک بن جاتے۔۔۔ باہر مردانگی جتانے والی بھاری بھرکم آواز رتنا سے بولتے وقت ہلکی اور شیریں ہوجاتی۔ وہ لکھنا پڑھنا بھی سیکھ گیاتھا۔ کہانیاں سنایاکرتا۔ دلچسپ شرارتیں کرتا۔ رتنا کا باپ کہتا، ’’میرے بیٹا نہیں تھا۔ بھگوان نے وشرام مجھے دے دیا۔‘‘

    جوں جوں رتنابڑی ہوتی گئی، اس کی بوا اسے خبردارکرنے لگی، ’’وشرام سے دوررہا کرو۔ وہ مرد ہے۔ تجھ سے بڑاہے۔‘‘ لیکن اس کی سمجھ میں نہ تو یہ باتیں آتیں اورنہ ہی وہ ان پریقین کرتی تھی۔ بوا کے منع کرنے پر اسے وشرام کے ساتھ رہنے میں اورمزاآتا۔ بوا کس چیز سے ڈرتی ہے، یہی بات وہ معلوم کرناچاہتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے رتنا کلی سے پھول بنتی گئی، وشرام بھی ہوش کھوتا چلا گیا۔ اب رتنا سے بات کرتے وقت نظریں ملانا اس کے بس میں نہ رہا۔

    اس کے جسم سے ہاتھ چھوجانے پر وشرام کے بدن میں چنگاریاں سی دوڑنے لگتیں اوریہ تبدیلی محسوس کرنے والی رتنا کو اس کے قریب جانے میں لطف آنے لگا۔ وہ جان بوجھ کر اس سے سٹ کر بیٹھتی اور گھنٹوں باتیں کرتی رہتی۔ ایک مرتبہ تواوٹی کے اندھیرے میں وشرام کوچڑانے کے لیے وہ اس سے لپٹ ہی پڑ ی تھی۔ اس وقت تک اس کے جسم کی تلیا میں نسیم شباب جوپھول کھلاچکی تھی، ان سے وہ بے خبرتھی لیکن جب وشرام نے بھی اسے قریب کرلیااور اپنے لمس کی تتلیوں کے ذریعہ ان پھولوں کی موجودگی کا احساس دلایاتووہ چونک پڑی۔

    اس کے بعد اسے وشرام کے پاس رہنے میں لذت کا احساس ہونے لگا۔ اس کے لمس، اس کے الفاظ میں اس جادو کا سااثر معلوم ہونے لگا۔ اسے پرمسرت آمیز حیرت ہوتی تھی کہ اس کے اندرچھپا ہوا خزانہ وشرام تلاش کردکھاتاتھا۔ رات کا کھانا کھاتے ہی وشرام سے گپ شپ کرنے کے لیے اوٹی میں جانا۔ پہلے زورزور سے باتیں کرنا اورباتیں کرتے کرتے ہاتھوں میں ہاتھ پھنسانا اورپھردلچسپ آنکھ مچولی۔ یہ روز کا معمول بن گیاتھا۔ کبھی کبھی وہ سبھوں کوسوتا دیکھ کروشرام کے لحاف میں گھس جاتی اوراس سے لپٹ کر اپنے تپتے ہوئے دماغ کوایک ٹھنڈک سی پہنچایا کرتی۔

    لیکن پیاس بجھنے کے بجائے اور بڑھتی چلی گئی۔ دن میں جب بھی موقع ملتا، وہ ایک دوسرے سے لپٹ جاتے۔ اس کے جسم کی گولائیوں پروشرام کی انگلیاں ستار کی طرح دوڑتیں اوراس کے جسم میں سرور کی کلیاں کھل جاتیں، جن کی مہک اسے اتنامست کردیتی کہ اس کے اعضاٹوٹنے لگتے لیکن چوری چھپے کھیلی جانے والی یہ بازی اب تک نامکمل ہی رہی تھی۔ آخری چال چلنے کے لیے مکمل تنہائی کی ضرورت تھی۔

    پھردیوی کے میلے کا دن آگیا۔ وشرام کے ساتھ رتنا بھی ہولی۔ وشرام کوبیٹاسمجھنے والے رتنا کے باپ نے اسے اجازت دے دی۔ میلے میں وشرام کا ہاتھ تھامے رتنا گھومتی پھری۔ اس سے لپٹ کروہ ہنڈولے پرسوارہوئی۔ اس سے چمٹ کر اس نے جادو کے زور سے بولنے والے سردیکھے اورگھر لوٹتے وقت انہیں کھیتوں کی تنہائی مل گئی۔ کرنوں کے رتھ پرسوار۔ وہیں وشرا م نے اس سے شادی کے لیے کہا۔ بولا، ’’ہم دونوں بمبئی بھاگ چلیں گے اورراجارانی کی طرح ٹھاٹ سے رہیں گے۔‘‘ رتنا کوسب منظورتھا۔ بمبئی میں وہ ہرلمحہ اس نئی لذت سے ہمکنار ہونے والی تھی۔ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی لیکن وشرام اسے سکھادے گا۔ اورپھر وشرام کی سنائی ہوئی نٹ کھٹ کہانیاں خودبھی پڑھا کرے گی۔

    پر نہ جانے کس نے رتنا کے باپ سے چغلی کھائی۔ چاندنی میں لوٹے ہوئے کلیوں کے ہارجسم پرسجائے ہوئے جب وہ دونوں گھرمیں گھسے تورتنا کا باپ گرجا، ’’حرام زادے!تیرے ساتھ بچی کوروانہ کیا تویہ دھندے۔‘‘ اوروشرام کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس کے گالوں پر مسلسل تھپڑوں اورگھونسوں کی بارش ہوگئی۔ پھر کونے میں کھڑی لاٹھی سے اس کے انجرپنجرڈھیلے کردیے گئے۔ ڈری ہوئی رتنا دروازے میں کھڑی وشرام کوپٹتا ہوادیکھتی رہی۔ اس کا سارا جسم اینٹھتا ہوا معلوم ہونے لگا۔ وہ چکراکرگرنے ہی والی تھی کہ اس کی بوا اسے سنبھال کراندرلے گئی۔ کوئی کڑوا کسیلا عرق اس نے رتنا کو پلایا، جس کے اثرسے رتنا رات بھر دردکے بغیرکراہتی رہی۔ پھردوچاردن تک وہ بستر سے لگی رہی۔ جب طبیعت سنبھلی تو پتہ چلا کہ وشرام غائب ہوچکاتھا۔

    سال بھر کے اندررتنا کا بیاہ ہوگیا۔ سسرال دور تھی لیکن محبت کرنے والے خوش حال لوگ تھے۔ ایکڑوں زمین، بیسیوں مویشی، بڑاساکھپریل کی چھت والا مکان اوردل دارگوپال۔ آہستہ آہستہ رتنا پچھلی تما م باتیں بھول گئی۔ گوپال نے وشرام کے لمس کوہٹاکراپنے لمس کاسکہ بٹھادیا۔ وہ بھی پڑھا لکھا تھا۔ اس کی بات چیت اور اس کا سلوک دل کوموہ لیتا۔ بس صرف ایک بات کی کمی تھی۔ رتنا کے ہاں کچی پیدائش ہوتی اوربچہ ضائع ہوجاتا۔ بوا کاپلا یاہواعرق پیچھا نہیں چھوڑرہاتھا۔

    لیکن اس مرتبہ تعلقہ کی ڈاکٹرنی نے حتی الامکان کوشش کرکے سب ٹھیک ٹھاک کردیاتھا۔ دیوی کے آشیرواد سے لڑکا ہونے والا تھا۔ اوروہ سکھ ساگر میں ڈوب جانے والی تھی، دیوی سے اس نے منت مانی تھی۔ چنانچہ میلے کے لیے ماماکا بلاواآنے پرگوپال نے اسے فوراً روانہ کردیا۔۔۔ اور اس وقت ماما کا ہاتھ تھامے ہوئے رتنا میلے میں گھومتے ہوئے کچھ دیر کے لیے سپنوں کی دنیا میں کھوگئی تھی۔ بچے کا خیال آتے ہی جسم سے لپٹی ہوئی چولی رتنا کواوربھی تنگ محسوس ہونے لگی۔ سینے میں اینٹھن سی ہونے لگی۔ میلے کا شورشرابہ دماغ میں بگولے اٹھانے لگا۔ اڑتی ہوئی سنہری دھول میں سوندھی سوندھی مہک کا احساس ہونے لگا اورجسم تھرتھرااٹھا۔

    پھراسے چونک جانا پڑا۔ مندر کے گھنٹے زورزور سے بج رہے تھے۔ آرتی کاوقت ہوگیاتھا۔ نقارے بجنے لگے۔ مشعلیں جل اٹھیں۔ پجاریوں کی دوڑبھاگ شروع ہوگئی تھی۔ اب پالکی اٹھنے سے پہلے دیوی کے درشن نہیں ہوسکتے تھے۔ جولوگ مندر سے باہرتھے، وہ خریداری میں لگ گئے۔ دکانوں پربھیڑبڑھ گئی۔ ہنڈولوں کے پاس قطاریں لگ گئیں۔ شور کی آوازتیز ہوگئی۔ بھیڑ کا بھنور تیزی سے گردش کرنے لگا۔ رنگ تیزی سے اپنی جگہیں تبدیل کرنے لگے۔ تمام خیمے اوردکانیں انسانوں سے بھرگئیں۔ رتنا ماما کے ہمراہ فوٹوگرافر کے پاس جاکھڑی ہوئی۔ فوٹوگرافرنے سرپرجمائی ہوئی فرکیپ کوترچھا کیا اور آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑدیں۔

    ’’پھوٹو چے کورے پیشے؟‘‘ رتنا نے پوچھا۔

    ’’آپ کے لیے ایک دم سستا۔ اندرآجاؤ۔‘‘

    ’’کورے پیشے؟‘‘

    ’’دوروپیا۔۔۔ تین فوٹو۔۔۔‘‘

    ’’دو روپئے۔۔۔! نکو۔۔۔‘‘

    فوٹوگرافربدذوق نہ تھا، اس لیے دا م کم کردیے، ’’ایک روپے کے دو۔۔۔ آجاؤ!‘‘

    ’’نکو۔۔۔ چارآنے؟‘‘

    ’’نہیں جی۔۔۔ مفت میں کھنچوالو۔۔۔ آجاتے ہیں۔۔۔‘‘

    رتنا آگے بڑھ گئی۔ فوٹووالے کی دکان سے لگی ہوئی چوڑیوں والے کی دکان تھی۔ مٹی کے تیل کے چراغ کی روشنی میں رنگ برنگی چوڑیاں چمک رہی تھیں۔

    ’’چوڑیاں پہنوگی؟‘‘

    ’’اوں ہوں۔۔۔ ابھی تو پہنی ہیں۔‘‘

    ہاتھوں میں پڑی ہوئی چوڑیاں گھماتے ہوئے رتنا نے جواب دیا۔ اس کے گورے ہاتھوں میں ماما کی پہنائی ہوئی ہری چوڑیاں بہت سج رہی تھیں۔

    ’’ماما۔۔۔‘‘ اچانک یادآنے پر اس نے آوازدی۔ جواب نہ آنے پر وہ چونک پڑی۔ ماما کاپتانہ تھا۔ وہ اب تک فوٹوگرافر کی دکان کے پاس کھڑاتصویریں دیکھ رہا تھا۔ تماشا اورناٹک میں کام کرنے والیوں کی تصویریں۔

    ’’رتنا۔۔۔‘‘ اس نے پکارااور اسے پاکرچھوٹی بچی کی طرح مسرور ہواٹھی۔

    ’’رتنا میں اس دکان کے پاس ہوں۔ توگھوم پھرکرآجایہیں۔ دور مت نکل جانا۔۔۔‘‘ رتناسرہلاکر آگے بڑھ گئی۔ تھوڑی دورگدناکرانے والا بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے کاغذ پرتصویریں بنی ہوئی تھیں۔ تلسی برندابن، میری کرشن گلاب، ماروتی تیرنے والی لڑکی۔ گدنا کرانے والی عورتیں اسے گھیرے تھیں۔ ایک عورت بیٹھی گردن موڑکرساری تکلیف سہہ رہی تھیں۔ اس کی سکھیاں آس پاس کھڑی مزے سے ہنس رہی تھیں۔ دیے کی روشنی میں گدناکرنے والی لمبی سوئی چمک رہی تھی اور ٹررر کی آواز کے ساتھ تصویر کھینچ رہی تھی۔ گدنا ختم ہوتے عورت نے پیسے دیے اوراٹھ کھڑی ہوئی۔ کلائی پرخون کی بوندیں چھلک آئی تھیں، ان پرسہیلیاں پھونکیں مارنے لگیں۔ تصویر کی تعریف کرنے لگیں۔ رتنایہ دیکھ کرآگے بڑھی۔

    ’’بائی گدناکرالو۔ گورے ہاتھوں پرتصویربھلی معلوم ہوگی۔ تلسی کی چھاپ اچھی رہے گی۔ چارآنے ہوں گے۔ بالکل تکلیف نہیں ہوگی۔ بیٹھ جاؤنا۔۔۔‘‘

    رتنا اس کی باتوں کے دام میں آگئی۔ روپ کی تعریف نے دام کام کیاتھا۔ وہ زمین پر اکڑوں بیٹھ گئی۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کروہ گیلی روئی سے اس کی کلائی پونچھنے لگا۔ جب اس نے رتنا کی کلائی کوچھوا تو رتنا کوایسا لگاجیسے وہ اس لمس سے واقف ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی وہ بول پڑا، ’’تورتنا ہے نا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ اور تووشرام؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ شوہر کے ساتھ آئی ہے کہ۔۔۔‘‘

    ’’ماما کے ساتھ آئی ہوں۔۔۔ توکہاں سے آیاہے؟‘‘

    ’’میں بمبئی میں رہتاہوں۔ میلے کے موقع پر یہاں آتاہوں۔ چارپیسے مل جاتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھاہے ناتو۔۔۔ تیرادھندہ ٹھیک چل رہاہے نا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ تواپنی سنا۔‘‘

    ’’اچھی ہوں۔‘‘

    ’’شوہرکیساہے؟‘‘

    رتنا شرم سے چپ رہی۔

    ’’بال بچے؟‘‘

    ’’اوں ہوں۔۔۔ تیری شادی؟‘‘

    ’’ہوگئی۔۔۔ ایک بچی ہے۔ تیرے باپ نے مجھے مارالیکن عمربھر کے لیے راستہ مل گیا۔ بمبئی بھاگ گیا۔ وہاں چترکاربن گیا۔ کیسا ہے تیرا باپ؟‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘

    ’’اوربوا؟‘‘

    ’’وہ بھی اچھی ہے۔‘‘

    ’’رتنا میں تیری بولی تک بھول گیا، لیکن تجھے اب تک نہیں بھولا۔ تجھ سے شادی ہوجاتی۔۔۔‘‘

    رتنا نے جلدی سے ہتھیلی کوجنبش دی اوربات بدل دی۔

    ’’دس برس بیت گئے۔۔۔‘‘

    ’’ہاں دن کیسے تیزی سے گذرجاتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’مجھے جلدی لوٹنا ہے تلسی کی چھاپ ڈال دے۔‘‘ رتنا نے کاغذپربنے تلسی کے پودے کی طرف انگلی دکھائی۔

    ’’رتنا تصویر گدوانی ہے توبات کورہنے دے۔ اپنی۔۔۔‘‘ لیکن اس سے پہلی کہ وشرام کی نظرچولی کی کھڑکی سے اندرجائے، رتنا نے اس کی راہ کھوٹی کی، ‘‘ جلدی سے ہاتھ پرچھاپ ڈال دے۔‘‘

    ’’نام بھی لکھوانا ہے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’کس کا؟شوہرکا؟‘‘

    ’’ہوں!‘‘

    ’’توکم از کم وہ توسینے پرگدوالے۔‘‘

    رتنا کی سمجھ میں پوری بات نہیں آئی لیکن گدوانے کی جگہ اسے معلوم ہوگئی۔

    ’’بے شرمی مت کرو۔ ماما ادھر موجود ہے۔ مجھے جلدی جانا۔۔۔‘‘

    ’’نام کیاہے شوہر کا؟‘‘

    ’’شرماتی کیاہے نام بتانا۔‘‘

    ’’تلسی کے پتی کانام ڈال دے۔‘‘

    ’’کرشن؟‘‘

    ’’اوں ہوں!‘‘

    ’’کسن کسن؟‘‘

    ’’ناں!‘‘

    ’’تب توہی بول۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ توہی بتا‘‘

    ’’اچھاگوپال؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ وہی۔‘‘

    وشرام نے گورے ہاتھ پراپنی ہتھیلی پھیردی۔ پرانے لمس کی ایک بھی لکیر باقی نہ تھی۔ روشنی کا رنگ پی کر اوربھی چمکیلی ہوگئی تھی۔ اس کار نگ روپ پہلے سے زیادہ دلکش لگ رہاتھا۔ جسم میں پہلے سے زیادہ شراب بھری ہوئی تھی۔ تلسی برندابن۔ گودنے والا اس کا ہاتھ تھرتھرانے لگا۔ رتنا کے جسم پرپڑنے والی اس کی ہرنظر وحشت زدہ سی ہونے لگی۔‘‘ جلدہی اس سلسلے کوختم کرناچاہئے ورنہ اس کے اندر دہکتی ہوئی آگ اس بھرے میلے میں نہ جانے کیاآفت لائے۔‘‘

    گدنا ختم ہوتے ہی رتنا نے انٹی سے چارآنے باہرنکالے۔ ماتھے پرپسینہ پونچھتے ہوئے وشرام بولا، ’’رتنا!مجھے نہیں چاہئیں۔۔۔ پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ اتنا ہی کافی ہے۔۔۔ میری نشانی کے طورپر یہ گدنا لے لے تو۔‘‘

    ’’نکو۔۔۔‘‘

    رتنا اس کے الفاظ کامطلب نہیں سمجھ رہی تھی لیکن وہ اس کی یاد کوبھی اپنے سے دوررکھناچاہتی تھی۔ اس نے سکہ اس کے آگے اچھال دیا اورہاتھ پرپھونکیں مارتی ہوئی فوٹووالے کے خیمے پرآرکی۔ ماما اس کا انتظار ہی کررہاتھا۔

    ’’ماماچلو۔‘‘

    ’’کیوں رتناگدناکرایاہے۔‘‘

    ہاتھ پرپھونک مارتے ہوئے رتنا نے سرہلادیا۔

    ’’کون سا چھاپ لیاہے؟‘‘

    ’’تلسی کا۔۔۔ اورنانو۔‘‘

    ’’نام کس کا۔۔۔ گوپال کا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ یہ پڑھو۔۔۔‘‘

    رتنا ماما کے چہرے کے پاس اپناہاتھ لے گئی۔

    ’’ارے!‘‘

    ’’کیاہوا؟‘‘

    ’’کس نے لکھا ہے یہ نام؟‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’دھوکہ بازی کی ہے۔ چھاپ میں نام ہے وشرام۔۔۔ گوپال نہیں ہے۔‘‘

    ’’ہے بھگوان۔۔۔ اس نے اپنا ہی نا م لکھ دیانارے۔‘‘

    دہل کررتناوحشت زدہ ہرنی کی طرح بھیڑکوچیرتی ہوئی بھاگ نکلی۔

    اوربھاگتے ہی اس منزل پرپہنچ گئی جہاں پہنچنے میں ابھی دیرتھی۔

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے