Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

افواہ

ابرار مجیب

افواہ

ابرار مجیب

MORE BYابرار مجیب

    میرے خلاف ایک نہ ایک افواہ جنم لے لیتی ہے اور چاروں طرف گشت کرنے لگتی ہے، یہ افواہیں کون پھیلاتا ہے، یا کون لوگ پھیلاتے ہیں مجھے نہ تو علم ہے اور نہ ہی اس کوئی اندازہ لگا سکتا ہوں۔ اپنے تعلق سے پھیلی ہوئی افواہ کا علم بھی مجھے کسی دوسرے کے ذریعہ ہوتا ہے، جب وہ شخص اس پھیلی ہوئی افواہ کے بارے میں مجھ سے تفتیش کرتا ہے کہ آخر ماجرا کیا ہے، یہ بات کیوں گشت کر رہی ہے۔ کیا وجہ تھی کہ میں نے یہ حرکت کی، اب اس حرکت کے ازالہ کی صورت کیا ہے یا میں اس غلطی سے عہدہ بر آ کیسے ہوؤں گا وغیرہ وغیرہ۔ پہلے تو میں اس افواہ کے متعلق سن کر ہی ششدر رہ جاتا ہوں، جو بات میرے وہم وگمان میں نہ تھی وہ سارے شہر کو پتہ ہے، اوپر سے تابڑ توڑ سوالات ،میں ان سوالات کا آخر کیا جواب دے سکتا ہوں؟ جب کہ اس قسم کی افواہ کا کسی بھی سطح پر میری ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ابھی ہفتہ بھر پہلے کی بات ہے ، شہر میں اچانک ایک پراسرار خاموشی رقص کرنے لگی۔ لوگ ایک دوسرے سے نظریں بچا کر گزر جاتے تھے، ایک دوسرے سے برائے نام گفتگو رہ گئی تھی، ایک عجب شک و شبہہ کا ماحول تھا۔ یہ ماحول بہت دھیرے دھیرے بنا تھا، ا س کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ میں اسی سلسلے میں غلطاں و پیچاں تھا کہ ایک جاننے والے نے آکر کہا یہ شہر کا ماحول آپ کی وجہ سے خراب ہو رہا ہے۔ میری وجہ سے، میں حیران رہ گیا، آخر شہر کی پراسرار خاموشی اور شک وشبہہ کی فضا کو بنانے میں میرا کیا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ میں تو چپ چاپ گھر سے نکلتا ہوں، آفس جاتا ہوں، شام تک فائلوں میں سر کھپاتا ہوں اور واپس گھر آ جاتا ہوں، ہاں کبھی سبزی یا پھل اور مٹھائی خریدنے کے لئے ادھر سے ہی بازار چلا جاتا ہوں۔ گھر آکر منہ ہاتھ دھوکر ایک پیالی چائے پیتا ہوں اور صبح کا اخبار اٹھا کر برآمدے میں رکھی کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ اس دن جب میں برآمدے میں آکر بیٹھا، اسی وقت وہ شخص آ گیا جس نے مجھے یہ خبر دی تھی کہ شہر میں پراسرار خاموشی کا سبب میں ہوں۔

    ’’ بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘ اس نے میرے قریب کھسک کر مدھم لہجہ میں کہا۔ ’’سب لوگ آپ ہی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’میرے بار ے میں۔‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔ پھر بولا۔ ’’بھائی اس معاملے سے میرا کیا تعلق ہے؟‘‘

    ’’لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے محلہ سے جانے کا ارادہ کر لیا ہے اور یہ بات آپ نے سب کے سامنے کہی تھی۔‘‘

    ’’ایک تو ایسا کچھ میں نے کہا نہیں، اگر کہا بھی ہے تو اس سے شہر کی پراسرار خاموشی کا کیا تعلق؟‘‘

    ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ، یعنی آپ کے اس فیصلے کا شہر کے ماحول سے کوئی تعلق ہی نہیں؟‘‘

    ’’بھائی محلے سے مکان خالی کرنے کے بارے میں، میں نے کبھی کوئی بات ہی نہیں کی۔ پتہ نہیں کون یہ افواہ پھیلا رہا ہے۔‘‘ میں نے ناگواری کا اظہار کیا۔ ’’دوسری بات یہ کہ اس سے شہر کے ماحول کا کیا تعلق؟‘‘

    ’’عجیب آدمی ہیں آپ بھی، ارے آپ کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی ہوشیار ہو گئے ہیں اور وہ بھی اپنا اپنا مکان خالی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو آپ کی طرح ان کے محلوں میں رہتے ہیں۔‘‘

    ’’یہ کیا بات ہوئی، لوگ خواہ مخواہ مجھے بدنام کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’بدنام نہیں کر رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ آپ کو اندر کی بات کا پتہ ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟

    اندر کی بات کا تو مجھے پتہ نہیں تھا لیکن اند ر ہی اندر میں اضطراب کا شکار ضرور ہو گیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے یہ بات کسی سے نہیں کہی تھی، سامنے بیٹھے شخص پر مجھے بےانتہا غصہ آنے لگا ، لیکن غصہ کو پیتے ہوئے میں نے سوچا اس شخص کا کیا قصور ہے، یہ تو مجھے پھیلی ہوئی افواہ کی جانکاری دے رہا ہے۔ میں نے تھوڑی دیر اور اس سے گفتگو کی اور چائے پلا کر اسے رخصت کر دیا۔ اس نے جو خبریں دی تھیں وہ خوف میں مبتلا کر دینے والی تھیں۔ اس نے بتایا کے میرے مکان خالی کرنے کے فیصلے کے دو دنوں کے بعد چوک پر ایک سمیلن ہوا تھا اور اس میں سادھو سنتو ں کے علاوہ کچھ راج نیتا بھی شامل تھے۔ اس کے بعد دوسرے محلوں سے بھی لوگ اپنا بوریا بستر باندھنے لگے۔ اسے اس بات پر حیرت تھی کہ میں نے مکان چھوڑنے کی بات بتانے کے باوجود ابھی تک اپنا مکان نہیں چھوڑا تھا جب کہ معاملہ اب بےحد نازک ہو چلا تھا۔ بہت دیر تک میں غور کرتا رہا کہ شاید میں نے مکان چھوڑنے کی بات کسی سے کہی ہو، لیکن مجھے کچھ یاد نہیں آیا، یاد آتا بھی کیسے، آخر مکان خالی کرنے کوئی وجہ بھی تو ہوتی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میں نے یہ بات کسی سے نہیں کہی تھی، اپنے گھر والوں سے بھی نہیں۔ میں کرسی پر پھیل کر بیٹھ گیا اور ایک سگرٹ سلگاکر پینے لگا۔ منہ سے نکلتے دھوئیں کے مرغولوں کو دیکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ ایک رات میں نے خواب میں دھوئیں کے گھنے بادل دیکھے تھے، یہ بادل زمین سے اٹھ رہے تھے اور گھنے دھوئیں کے غبار میں چہرے اور مکانات بےحد دھندلے نظر آ رہے تھے، اسی وقت میں سوچا تھا کہ یہ مکان خالی کرکے کسی محفوظ جگہہ پر چلا جاؤں۔ اب خواب میں کئے گئے ارادے کو کوئی دوسرا کیسے جان سکتا ہے؟ مجھے پورا یقین ہے میں نے اپنے خواب میں کئے گئے ارادے کا اظہار ہرگز ہرگز کسی سے نہیں کیا تھا۔

    شہر کی اس عجیب صورت حال نے مجھے اندر سے بےحد پریشان کر دیا تھا، ایک ایسی بات جس سے میرا قطعی کوئی تعلق نہیں تھا پورے شہر کے لئے پریشانی کا باعث بن گئی تھی، میں نے سوچنا شروع کیا کہ اس خطرناک صورت حال سے شہر کو باہر نکالنے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ کیا میں اعلان کر دوں کہ میں نے کبھی بھی محلے سے مکان خالی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا؟ لیکن اب اس اعلان کا کیا فائدہ؟ میرا نام تو اب ہزاروں قسم کی افواہوں کی گرد میں کہیں دب گیا تھا، لوگ متحرک ہو چکے تھے اور مختلف محلوں سے لوگوں کی مراجعت کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا، پھر کیا کیا جائے، بہت غور و خوض کے بعد مجھے ایک راستہ نظر آیا، کیوں نہ مقامی تھانے میں جاکر یہ بات بتا دوں کہ شروع میں میرے تعلق سے جو خبریں پھیلائی گئی تھیں وہ محض افواہ تھیں اور یہ کہ میں اب بھی اسی محلے میں اپنے مکان میں بیوی کے ساتھ رہ رہا ہوں ۔یہ ایک بہتر آئیڈیا تھا۔میں فورا‘‘ تھانے کی اور چل پڑا۔ راًًتھانے کے لئے روانہ ہو گیا۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ تھانیدار نے مشکوک نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے سوال کیا؟

    ’’جی، اپنے بارے میں مجھے کچھ کہنا ہے۔‘‘ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بات کی شروعات کہاں سے کروں۔

    ’’کوئی رپورٹ لکھوانی ہے؟‘‘

    ’’جی نہیں، بس میں اپنے بارے میں ایک حقیقت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’حقیقت کا اظہار!‘‘ تھا نیدار نے غور سے میرا جائزہ لیا، پھر میز پر پڑے ہوئے ڈنڈے کو اٹھا کر ہاتھوں میں لیا اور اسے بڑے دھیان سے دیکھتے ہوئے اس نے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر اپنی ٹانگیں پھیلا دیں۔

    ’’اچھا تو پھر؟‘‘ اس نے ایک ہاتھ سے ڈنڈے کو گھماتے ہوئے پوچھا۔

    ’’میرے بارے میں کچھ لوگوں نے غلط افواہ اڑا کر شہر کے ماحول کو خراب کر دیا ہے۔‘‘ کسی تمہید کے بغیر میں نے کہا۔

    ’’کون سی افواہ؟‘‘ تھانیدار نے ڈنڈا میز پر رکھتے ہوئے مجھے جواب طلب نظروں سے دیکھا۔

    ’’یہی کے میں محلے سے مکان خالی کررہا ہوں۔‘‘

    ’’ کیا؟‘‘ تھانیدار چونک گیا، پھر اس نے پوچھا۔ ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    میں نے اپنا نام بتایا تو اس نے بہت لمبی ہوں کہی پھر گہری نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔ ’’کون سا محلہ ہے؟‘‘

    میں نے محلے کا نام بتا یا تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا پھر سخت لہجہ میں بولا۔ ’’تم نے اب تک مکان خالی نہیں کیا؟‘‘

    ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب، میں بھلا مکان خالی کیوں کروں؟‘‘ میں نے تعجب سے کہا۔

    تھانیدار کچھ دیر تک مجھے گھورتا رہا پھر گہری سانس لے کر بولا۔ ’’دیکھو تمہارے بھلے کے لئے کہہ رہا ہوں۔ دوسرے محلے سے بھی لوگ اپنا اپنا مکان خالی کرنے لگے ہیں، حالات مسلسل بگڑ رہے ہیں، بلکہ بگڑ چکے ہیں جتنی جلد ہو سکے مکان خالی کرکے چلتے بنو۔‘‘

    اب تھانیدار سے کوئی توقع فضول تھی، میں جب تھانے سے باہر نکل رہا تھا تو تھانیدار نے انتہائی دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ میں جتنی جلدی ممکن ہو مکان خالی کر دوں ورنہ وہ کچھ نہیں کر سکےگا، کچھ نہ کرنے کی دھمکی سے میں بخوبی آگاہ تھا ، میں نے کوئی جوا ب نہیں دیا اور چپ چاپ سڑک پر آ گیا، باہر اندھیرا تھا، شاید لوڈ شیڈنگ، اوپر شہر کے مشرقی حصے میں آسمان سرخ ہو رہا تھا۔ اس شہر میں دفعتاً پورا آسمان ہی سرخ ہو جاتا تھا، اس کی وجہ شاید وہ اسٹیل پلانٹ تھا جس کا پگھلا ہوا سلیگ راتوں میں ڈمپ کیا جاتا تھا۔ آسمان کے سرخ ہوتے ہی شہر میں گرمی بڑھ جاتی تھی اور لوگ پیاس محسو س کرنے لگتے تھے، مجھے بھی پیاس محسوس ہوئی لیکن آس پاس کوئی ریسٹورنٹ نہیں تھا جہاں سے پانی لے کر پی لیتا، سوچا اب گھر پہنچ کر ہی پانی پی سکوں گا۔ اوپر بے شمار پرندے سرخ روشنی کے حصار میں قید پرچھائیوں کی صورت بےچینی سے پھڑپھڑاتے نظر آ رہے تھے ۔ یہ پرندے بھی روشنی کے عذاب میں مبتلا ہیں، ایک مسلسل سراب کی کیفیت، انہیں حیرت ہوتی ہوگی کہ اچانک اندھیری رات میں تیز روشنی کیسے پھیل جاتی ہے، یا صبح صادق کا منظر کیوں کر پیدا ہو جاتا ہے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں وہی اندھیری رات۔ مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی، اس لئے میں تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا گھر کی جانب بڑھنے لگا، اچانک مجھے احسا س ہوا کہ چاروں طرف ایک عجیب سا سناٹا پھیلا ہوا ہے، سڑکوں پر ٹرافک نہ ہونے کے برابر تھی، لوگ بھی بہت کم نظر آ رہے تھے، ہاں آوارہ کتے ادھر ادھر بھاگتے ضرور نظر آ رہے تھے۔ عام طور سے آوارہ کتے اتنے سویرے سڑکوں پر اودھم نہیں مچاتے تھے لیکن آج وقت سے پہلے چھا جانے والے سناٹے کی وجہ سے یہ بھی متحرک ہو گئے تھے، مجھے خیال آیا کہ کہیں کوئی ان میں سے اچانک مجھ پر حملہ آور نہ ہو جائے لیکن گھر تک پہنچتے پہنچتے ایسا کچھ نہیں ہوا، ایک دو بار ان کا غول مجھے چھو کر گزرا لیکن مجھ پر بھونکا نہیں۔

    مکان کے دروازے کے سامنے کئی لوگ کھڑے ہوئے تھے، میرے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ گئی، میں ان لوگوں کو نظر انداز کرتا ہوا گھر میں داخل ہو گیا، اندر بیوی صوفے پر بیٹھی ٹی وی پر نیوز دیکھ رہی تھی، مجھے اندر آتا دیکھ اس نے میری طرف دیکھا، مجھے محسو س ہوا اس کی آنکھوں میں خوف کے سائے تیر رہے ہیں۔ یوں بھی وہ اکثر خوف کی کیفیت میں مبتلا رہتی تھی اور اس کی وجہ تھی ہارر مووی اور خوفناک ناولوں سے اس کی دلچسپی۔ پچھلے مہینے کی بات ہے اس نے بہت ضد کرکے مجھ سے برام اسٹوکر کا ناول ڈرایکولا منگوایا تھا، ناول پڑھنے کے دوران اگر کھڑکی ہوا کے جھونکے سے کھڑکھڑاتی تو اسے محسوس ہوتا کہ چمگادڑیں کھڑکی کے شیشہ پر سر پٹخ رہی ہیں، کئی با ر اس نے مجھ سے کھڑکی مضبوطی سے بند کرنے اور پردوں کو ٹھیک سے برابر کرنے کے لئے کہا تھا، اس نے کئی دفعہ اس خوف کا اظہار بھی کیا تھا کہ کھڑکی یا دروازوں کی جھریوں سے دھوئیں کی شکل میں ڈرایکولا اندر آ سکتا ہے، ایک بار وہ ایک دوڑتے ہوئے چوہے کو دیکھ کر بری طرح چیخ پڑی تھی، جب میں نے پوچھا کیا اسے چوہے سے بھی خوف محسوس ہوتا ہے تو اس نے بتایا نہیں دراصل ڈرایکولا چوہے کی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے، اس دن اس نے مجھ سے منت کی تھی کہ میں اسے لہسن کے پھول اور چرچ سے مقدس روٹیاں لا دوں۔ پہلے تو مجھے ہنسی آئی لیکن اس کی ذہنی کیفیت کو دیکھتے ہوئے مجھے لگا یہ چیزیں اس کی نفسیاتی گرہ کو کھولنے میں معاون ہوں گی۔ مقدس روٹیوں کا انتظام تو میرے ایک عیسائی دوست نے کر دیا لیکن سبزی مارکیٹ میں لہسن کے پھول کہیں نہیں ملے، گھر آکر میں نے بیوی سے جھوٹ کہہ دیا کہ عیسائی پادری کا کہنا ہے کہ مقدس روٹی کے ساتھ اگر لہسن کے پھول نہ ہوں تو لہسن کو کچل کر کمرے میں ڈال دینا کافی ہوگا، دراصل ڈرایکولا لہسن کی بو سے بھاگتا ہے خواہ وہ بو پھول سے آئے خواہ خود لہسن سے۔ اسے میری بات کی سچائی پر یقین آ گیا، اس نے لہسن کچل کر کمرے میں جگہ جگہ رکھ دیا، اس کی بو میرے لئے ناقابل برداشت تھی، بلکہ مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ میں ہی دراصل ڈرایکولا ہوں اور مجھے فوراً چھوڑ کر بھاگ جانا چاہئے۔ ان انتظامات سے میری بیوی بہت حد تک پرسکون ہو گئی تھی، لیکن ایک دن اس نے فرمائش کی کہ گھر میں ایک صلیب کا ہونا بھی ضروری ہے، میں بری طرح چونک پڑا، میں نے اسے سمجھایا لوگ کیا کہیں گے ہمارے گھر میں صلیب۔ لیکن وہ بضد رہی، اس نے کہا کہ ہمارا مقصد شیطان کو دور رکھنا ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں، خیر میں نے اسے ایک صلیب بھی لاکر دے دی تھی جسے اس نے کمرے کی دیوار پر ٹانگ دیا تھا۔ بہرحال ان دنوں میری بیوی بالکل نارمل تھی اور حالیہ دنوں میں نہ تو اس نے کوئی ہارر مووی دیکھی تھی اور نہ ہی کوئی ناول پڑھا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں خوف کے سائے ایسے ہی تھے جیسے اس کے ذہن میں تصوراتی ڈرایکولا پھر سے زندہ ہو گیا ہو۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے بیوی کی بغل میں بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’ تم نے سنا نہیں؟‘‘ اس کی آنکھوں کا خوف کچھ اور گہر ا ہو گیا۔

    ’’کیا نہیں سنا، صاف صاف بتاؤ۔‘‘ مجھے جھنجھلاہٹ ہونے لگی، ایک تو تھانیدار کے رویے کی وجہ سے میں پہلے ہی پریشان تھا اوپر سے یہ سپنس پیدا کر رہی تھی۔

    ’’وہ لوگ آئے ہوئے ہیں اور تمہارا ہی انتظار کر رہے ہیں، کیا باہر انہوں نے تم سے کچھ کہا نہیں۔‘‘

    بیوی نے اسرار برقرار رکھا اور میری جھنجھلاہٹ غصہ میں تبدیل ہونے لگی۔ میں نے یاد کیا باہر کچھ لوگ کھڑے ہوئے تھے، لیکن یہ لوگ مجھ سے ملنے آئے ہیں یہ بات میرے لئے تعجب خیز تھی اور اگر وہ ملنے آئے تھے تو انہوں نے مجھ سے کچھ کہا کیوں نہیں، شاید میں بہت تیزی سے اندر آ گیا تھا اور انہیں کچھ کہنے کا موقع نہیں ملا یا وہ چاہتے تھے کہ پہلے میں گھر کے اندر جاکر بیوی سے گفتگو کرلوں، پتہ نہیں۔

    ’’تم بتا دو، کیا بات ہے؟‘‘ میں نے غصہ کو دباتے ہوئے پوچھا۔

    ’’وہ بغیر سر والا، ادھر محلے کے جنوبی حصے میں، بغیر سر والا دوڑ رہا تھا اور اس کی گردن سے خون کے فوارے ابل رہے تھے۔‘‘ میری بیوی تھوک نگلتی ہوئی بےحد خوفزدہ آواز میں بولی۔ ’’کچھ دیر دوڑنے کے بعد وہ گر گیا، یہ لوگ جو ہمارے دروازے پر کھڑے ہیں اسے جھنڈے میں لپیٹ کر لے جانے کے لئے آئے ہیں، انہوں نے بتایا مجھے، کچھ لوگ سر کی تلاش بھی کر رہے ہیں۔‘‘ بولتے بولتے اس کی سانسیں ناہموار ہو گئیں۔

    ’’کیا۔‘‘ میری چیخ حلق میں گھٹ کررہ گئی۔

    ہڑبڑاکر میں باہر آ گیا، وہ لوگ ابھی تک موجود تھے، ان میں سے ایک آگے بڑھ کر میرے قریب آ گیا اور پھسپھسا تی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’آپ ابھی تک یہیں پر ہیں، آپ کو تو سب سے پہلے یہاں سے نکل جانا چاہئے تھا، آپ کو تو صورت حال سے آگاہی تھی۔‘‘

    ’’کون سی صورت حال؟‘‘ میں نے غصہ میں پوچھا۔

    ’’محلے کے جنوبی حصے کا واقعہ آپ کو پتہ ہے؟‘‘

    ’’ابھی میری بیوی نے بتایا ہے۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔‘‘ میں نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔

    ’’دیکھئے بھائی ہم نے اسے جھنڈے میں لپیٹ لیا ہے۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ آپ سے سختی سے کہہ دیا جائے کہ آپ مکان خالی کر دیں ورنہ۔۔۔ بار بار ہم جھنڈے لے کر آنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتے۔‘‘

    کچھ دیر تک وہ لوگ آپس میں گفتگو کرتے رہے پھر مجھے اشارہ کرکے چلے گئے۔ میں سخت تشویش میں مبتلا ہو گیا تھا۔ حالات واقعی قابو سے باہر ہو چکے تھے۔ بغیر سر والے کے دوڑنے کا واقعہ انتہائی خطرناک تھا، میری بیوی بےحد خوفزدہ ہو چکی تھی اور مجھے اس طرح دیکھ رہی تھی کہ میں کوئی فیصلہ لینے کے قابل ہی نہیں ہوں۔ میں نے انتہائی ٹھنڈے دل سے صورت حال پر غور کرنا شروع کیا، محلے کے جنوبی حصے میں جو واقعہ پیش آیا تھا اس کے بعد صورت حال کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ تھا اور یہ جھنڈے کا استعمال تو بےحد خوفناک تھا۔ بیوی کا خیال تھا کہ ہمیں جلد از جلد مکان خالی کر دینا چاہئیے اور یہ لوگ جس جگہہ لے جانا چاہتے ہیں وہاں چلے جانا چاہئے۔ موجودہ منظرنامے میں مکان خالی کر دینا مجھے بھی مناسب لگ رہا تھا لیکن جہاں جانے کے لیے کہا جا رہا تھا اس جگہ کے بارے میں، میں مشکوک تھا۔ بیوی نے کہا چل کر دیکھ لینے میں کیا حرج ہے، بہرحال میں نے مکان خالی کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔

    وہاں عبادت گاہ کے سامنے ایک بہت بڑا میدان تھا، جس میں ٹینٹ لگائے گئے تھے، ہمیں بھی ایک ٹینٹ دے دیا گیا۔ مختلف محلوں سے آکر لوگ یہاں ٹینٹوں میں جمع ہو گئے تھے۔ عبادت گاہ میں وقت کے مطابق عبادت جاری تھی اور جھنڈوں میں لپٹے لوگوں کو لاکر چبوترے پر رکھنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ پھر انہیں وہاں سے ایک ہجوم چوک پر لے جاتا، نعرے لگتے، عہد وپیمان ہوتے اور انہیں جھنڈے سمیت گاڑ دیا جاتا۔

    ایک صبح میری چارپائی کے گرد لوگوں کا ہجوم جمع تھا، میں بےحد حیران ہوا کہ ماجرا کیا ہے، ٹینٹ کے ایک کونے میں میری بیوی زور زور سے رو رہی تھی اور کچھ عورتیں اسے سنبھالنے میں لگی تھیں۔ چارپائی کے ارد گرد کھڑے لوگ میری موت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، ساری سازش میری سمجھ میں آ گئی راتوں رات کچھ لوگوں نے میری موت کی افواہ پھیلا دی تھی۔ مجھے اسی لئے یہ علاقہ مشکوک لگ رہا تھا اور میں یہاں آنا نہیں چاہتا تھا، میرا شک سو فیصد درست ثابت ہوا۔ چارپائی کے گرد کھڑے لوگ کہہ رہے تھے کہ اگر میں مکان پہلے ہی خالی کر دیتا تو آج زندہ ہوتا، انہیں مجھے جھنڈا میں لپیٹنا نہیں پڑتا، لیکن ہونی کو بھلا کون ٹال سکتا ہے۔ میں اندر ہی اندر غصے سے کانپ رہا تھا، میں چیخ چیخ کر کہنا چاہ رہا تھا کہ میری موت کی خبر افواہ ہے، میں زندہ ہوں لیکن میری آواز شاید بےانتہا غصہ کی وجہ سے باہر نہیں نکل رہی تھی اور چارپائی کے ارد گرد کھڑے ہوئے لوگ بھی میری طرف توجہ نہیں دے رہے تھے۔

    تھوڑی دیر بعد کچھ لوگوں نے مجھے نہلانا شروع کیا، نہلاکر مجھے سر سے لے کر پیر تک جھنڈے میں لپیٹ دیا گیا، پھر عبادت گاہ کے چبوترے پر رکھ کر سب لوگ عبادت میں مصروف ہو گئے۔ عبادت سے فراغت پاکر ان لوگوں نے مجھے اٹھا لیا، کسی نے زور سے کہا اسے چوک پر لے جاکر رکھا جائے، کسی دوسرے نے سوال کیا اسے کیوں؟ کئی آوازیں ابھریں ارے ہمیں دکھانا ہے کہ ہم ایسی باتوں سے نہیں گھبراتے۔ مجھے لے کر وہ چوک پر پہنچ گئے اور جھنڈے میں لپٹے میرے وجود کو ایک اونچے چبوترے پر رکھ دیا گیا۔

    جھنڈے میں لپٹا میں، سمجھ نہیں پا رہا ہوں کی اپنی موت کی افواہ کا سدباب کیوں کر کروں؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے