aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اجن ماموں کا بیٹھکہ

ذکیہ مشہدی

اجن ماموں کا بیٹھکہ

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    پورے گاؤں میں اجن ماموں کی بیٹھک ایسی جگہ ہے جہاں ہمیشہ ہر طرح کی خبریں پہنچتی رہتی ہیں۔ ایک دن اجن ماموں کو خبر ملتی ہے کہ حویلی میں ہری پرساد بابو کا قتل ہو گیا ہے۔ یہ قتل کچھ اس طرح سے ہوتا ہے کہ اجن ماموں کی بیٹھک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔

    اجن ماموں کے بیٹھکے میں وہ منحوس خبر لے کر سب سے پہلے بابو انوکھے لال شری واستو ایڈوکیٹ وارد ہوئے تھے۔ ’’اجی حضت کچھ سنا آپ نے؟‘‘ انوکھے لال جب نارمل ہوتے تب بھی حواس باختہ ہی لگاکرتے تھے لیکن اس دن تو بالکل ہی باؤلے ہو رہے تھے۔ ایسے جیسے پیچھے سے کسی بھوت پلید نے دوڑا رکھا ہو۔ دھم سے وہ اجن میاں کے بیٹھکے کی خستہ حال کرسی میں ڈوب گئے۔ ’’ارے میاں بکانو، ذرا ایک گلاس پانی تو لانا۔‘‘ انہوں نے پھولتی سانسوں کے درمیان ملازم کوآواز دی۔

    ’’ہوا کیا؟‘‘ اجن ماموں نے حقے کی نے منھ سے نکالی اور پھر منہ میں ڈال کر آرام سے گڑگڑانے لگے۔ یقیناً انوکھے کو آج پھر رام ناتھ اہیرکی مرکھنڈی گیانے دوڑایا ہے۔ کتنی بار کہا ہے کہ شارٹ کٹ کے چکر میں اس کی گلی سے مت گزرا کرو۔ یا گزرو تو ذرا حلیہ درست رکھو۔ جھڑوس شکل دیکھ کر گیّا بھڑکتی ہے۔ مگر وہ انوکھے ہی کیا جو کسی کی بات سن لیں۔

    ’’اَیں تو واقعی آپ کو کچھ نہیں معلوم؟‘‘

    ’’کچھ منھ سے پھوٹیے تو معلوم ہو۔‘‘

    ’’بابو رام پرشاد کی حویلی میں قتل ہوگیا ہے۔‘‘

    اجن ماموں حقے سمیٹ الٹ گئے، ’’کیا کہہ رہے ہیں وکیل صاحب۔ قتل! کس کا قتل؟ رام پرشاد کی حویلی میں؟ ارے وہاں تو صرف رام پرشاد کے خاصے معمر والد بابو ہرپرشاد ہی رہا کرتے تھے اور دوچار نوکر چاکر۔ کیا ملازموں میں سے کسی کو۔۔۔‘‘

    ’’قتل ہر پرشاد بابو کا ہوا ہے۔‘‘

    ’’ان بے چارے بزرگ سے کسی کو کیا دشمنی ہوسکتی تھی؟ آپ رات کچھ زیادہ تو نہیں چڑھا گئے؟‘‘

    ’’کیا بات کرتے ہیں اجن ماموں۔‘‘ انوکھے لال رپٹے میں انہیں اجن میاں کی جگہ اجن ماموں کہہ گئے۔ ویسے اجن ماموں تھے تو جگت ماموں لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ برابر کے یار دوست ماموں کہنے لگیں۔ کبھی کوئی کہہ دیتا تو بڑی زور سے بگڑتے لیکن اس وقت ذہن دوسری طرف مائل تھا۔

    ’’ارے بھائی ہوگا کچھ آپس کا معاملہ یا کوئی چوری کرنے کی نیت سے گھسا ہوگا اور وہ جاگ گئے ہوں گے۔‘‘

    ’’کچھ سامان بھی گیا؟‘‘

    ’’ابھی پتہ نہیں چلا۔‘‘

    اجن ماموں نے جلدی سے کھونٹی پر لٹکی شیروانی اٹھائی اور ٹوپی پھٹکاری لیکن حافظ صدرالزماں جو محلے میں حافظ بھنڈی کے نام سے مشہور تھے، اپنی شیروانی ان سے پہلے چڑھا چکے تھے۔ ماموں نے ٹوپی سر پر رکھی ہی تھی کہ حافظ بھنڈی ہانپتے کانپتے آن پہنچے۔ وہ اجن ماموں کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ سیدھے گالی سے بات کرتے لیکن اس وقت نہایت وحشت زدہ تھے۔ گالی کیا، مہذب الفاظ منھ سے نکالنے میں دقت ہو رہی تھی۔

    ’’ارے بھائی لالہ ہرپرشاد مارے گئے۔ کیا زمانہ آن لگا ہے۔ بے ضرر معمر انسان۔ قتل و تل تو ہم نے بس ابن صفی کے ناولوں میں پڑھے تھے۔ یہ ہمارے محلے سے لگے ہوئے محلے میں قتل۔ بس کوئی دوسوگز کی دوری پر۔‘‘

    ’’قتل۔ یعنی ابھی تھے، ابھی نہیں۔‘‘ حاضرین میں ایک کا اضافہ ہوگیا تھا۔ یعنی ٹھیکیدار رام دین۔ ’’پانی کیرا بلبلا، اس مانس کی جات، دیکھتے ہی چھپ جائے گا جیوں تارا پربھات۔‘‘ انہوں نے ٹھنڈی سانس لے کر ایک بڑا ڈپریسنگ دوہادوہرایا۔ جب سے ایک نہایت منافع بخش ٹھیکے کا ٹنڈر ان کے رقیب نمبر ایک ٹھیکیدار دین محمد کے نام کھل گیا تھا وہ دنیا کی بے ثباتی پر زیادہ غور کرنے لگے تھے۔ رقیب بھی ایسا رقیب روسیاہ کہ نہ جانے کیسی کیسی تگڑم کرکے ٹنڈر تو اپنے نام کھلوایا ہی، محلے کے بچوں کو انتہائی نامعلوم کہبت بھی سکھادی؛’’دنیا پودنیا۔۔۔ باجرے کی روٹی، ٹکا مہینہ۔۔۔‘‘ اب ٹھیکیدار رام دین انگلی پر سفید براق دھوتی کی کور سنبھالتے نکلے نہیں کہ محلے کی چھوٹی امت پیچھے لگی۔۔۔

    دنیا پودنیا۔۔۔ کبھی کبھی کچھ یونہی ہوجایا کرتا ہے۔ دین محمد کو بھی دنیا پودنیا کہہ کر چڑایا جاسکتا تھا لیکن یہ اختراع پہلے ان کی طرف سے ہوئی تھی اور بچے رشوت کھاچکے تھے اس لیے چڑائے گئے رام دین۔ دونوں کا نصف حصہ مشترک تھا لیکن بقیہ غیرمشترک نصف کے لیے ایک دوسرے کو چڑاتے رہتے تھے۔ لوگ ڈرتے تھے کہیں نوبت سرپھٹول تک نہ آجائے۔ آج بھی بچے پیچھے لگ گئے تھے۔ ’ٹھہرتو جاؤ حرامزادو۔ ایک ایک کو قتل نہ کیا تو کہنا۔۔۔ ہمیشہ کی طرح انہوں نے دانت پیس کر کہا لیکن ان حرامزادے لڑکوں کی کون کہے، ان سے ایک چوہا تک قتل نہ ہوپاتا۔ ایسے شریف، نیک دل کہ محلے میں قتل کی واردات سنی تو دل ایسا گھبرایا کہ دھوتی سنبھالتے سیدھے اجن ماموں کے بیٹھکے میں پہنچ گئے کہ چار لوگوں سے بات کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجایا کرتا ہے۔

    ’’ابھی پرسوں ہی تو ملاقات ہوئی تھی۔ بازار میں ٹہلنے نکلے تھے۔‘‘ رام دین کے چہرے پر دلی تاسف تھا۔ اس زمانے میں سبھی شرفاء کی ملاقات چوک میں ہوجایا کرتی تھی۔ شام کو سب کے سب ٹہلنے نکلتے۔ جو جوان تھے وہ ذرا شرماتے جھجکتے بیویوں کے لیے پھول خریدتے اور دونوں میں گلوریاں بندھواتے۔ بزرگ قسم کے لوگ ناتی پوتوں کے لیے گنڈیریاں اور بتاشے خریدتے۔ بابو ہرپرشاد کی پہلی بیوی تو زمانہ ہوا کہ اللہ میاں کو پیاری ہوچکی تھیں، دوسری ایسی مونہہ زور تھیں کہ نہ وہ سنبھلتیں نہ ان کے میکے والے۔ اس لیے ہر پرشاد دمے کے علاج اور زمینوں کے مقدموں وغیرہ کے بہانے شہر میں تنہا رہا کرتے تھے۔ مہینے دو مہینے پر گاؤں جاتے اور بال بچوں سے مل آیا کرتے تھے۔ نہ وہ پھول خریدتے نہ گنڈیریاں۔ ہاں جب گاؤں جانا ہوتا تو مٹھائی اور پھلوں کے جھابے بندھوایا کرتے تھے۔

    اجن ماموں نے دیر سے رکی ہوئی ٹھنڈی سانس چھوڑی، ’’کیا بتایا جائے بھائی۔ میں بھی ان سے بس کل پرسوں ہی ملا تھا۔‘‘

    ’’بڑی تشویش کی بات ہے اس طرح کی واردات۔ کیا پتہ کل کلاں کوئی آئے اور ہمارا گلا بھی داب کر چلتا بنے۔‘‘ چق کے پاس دین محمد کھڑے کھنکھار رہے تھے۔

    ’’آؤ بھائی، آجاؤ۔‘‘ اجن ماموں نے اپنے مخصوص مخلص لہجے میں کہا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو یہ صورت حال یعنی دونوں ٹھیکیداروں کااجن میاں کے بیٹھکے میں اکٹھا ہوجانا، خالی ازعلت نہ ہوتا لیکن اس قدر سنگین واقعے کی خبر ملے تو ذاتی عناد پس پشت جاپڑتا ہے۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔

    ’’قریب قیامت کے آثار ہیں۔‘‘ دین محمد نے فرمایا۔

    ’’کلجگ ہے، گھور کلجگ۔‘‘ رام دین نے سرہلاکر تائید کی۔

    چلو ذرا نکل کر دیکھ آتے ہیں۔ اجن ماموں شیروانی پہن چکے تھے اور اپنے ہی بیٹھکے میں شیروانی ٹوپی چڑھاکر کسی مہمان کی طرح تکلف سے اکڑے بیٹھے عجیب مضحکہ خیز لگ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی چاندی کی موٹھ والی چھڑی اٹھائی اور اٹھ کر کھڑے ہوئے۔ سارے احباب ساتھ چلے۔

    رام پرشاد کی حویلی کے سامنے خلقت ٹھٹھ لگائے کھڑی تھی۔ پولیس والے ہٹو بچو کرتے آجارہے تھے۔ حویلی بیچ بازارمیں تھی۔ چاروں طرف دوکانیں ہی تھیں۔ بہت دن سے بابورام پرشاد کہہ رہے تھے کہ اپنا بھی نیچے کا حصہ کٹرے میں تبدیل کرادیں گے لیکن چونکہ خود زمینوں پر رہتے تھے اس لیے ادھر توجہ نہیں دے پارہے تھے۔ رہے ہرپرشاد تو اب اتنا کچھ جھنجھٹ ان کے بس کا نہیں تھا۔

    ہا۔ بیچارے دکھیا۔ بغل میں کرانے کی بہت بڑی دوکان تھی۔ اس کے مالک عبدالشکور باقاعدہ آنکھیں پونچھ رہے تھے، ’’ساٹھ سے کوئی برس دوبرس اوپر آئے ہوں گے۔ ابھی تو بیس برس اور جی لیتے۔ دمے کا کیا۔ دمے میں کہیں کوئی مرا کرتا ہے۔ وہ بھی جس کے پاس اتنی دولت ہو۔ ہمہ وقت ڈاکٹر حاضر۔ دوائیں ساری لکھنو سے آیا کرتی تھیں۔‘‘

    ’’ارے ابھی تو ان کی ماں کا انتقال ہوا تھا۔ بس ہوئے ہوں گے چھ آٹھ مہینے۔۔۔ کام پر جو سرمنڈایا تو ابھی پورے بال تک نہیں اگے تھے۔ نیک آدمی تھے۔ اپنے کام سے کام۔۔۔‘‘ کسی نے مزید معلومات مہیا کیں۔

    ’’داروغہ جی کیسے سپاٹ بلکہ کرخت چہرے کے ساتھ پوچھ تاچھ کر رہے تھے۔ ارے صاحب ایک آدمی چلا گیا۔ کچھ تو چہرے سے ملال ظاہر ہو۔‘‘ رامیشور دیال نے کہا۔ ان کی مٹھائیوں کی بہت بڑی دوکان تھی۔ بابو ہرپرشاد ان کے مستقل گاہکوں میں تھے۔ سب سے مہنگی مٹھائیاں خریدتے۔ بالائی کا دونا روز جایا کرتا تھا۔ بالائی پر کالی مرچ کا سفوف چھڑک کر کھاتے تھے کہ دمے میں فائدہ ہوتا ہے۔

    ’’بھیڑ ہٹائیے یہاں سے۔ کام کرنے دیجیے ہمیں۔‘‘ ایک پولیس والے نے ڈپٹا۔۔۔ لوگ ذرا تتر بتر ہوئے لیکن پھر وہی جم غفیر۔ کاؤں کاؤں الگ۔ جتنے مونہہ اتنی باتیں۔ لیکن ایک بات مشترک تھی کہ مرنے والا بے چارہ بڑا نیک اور بے ضرر سا انسان تھا۔

    ’’پتہ نہیں چھوٹے لالہ کو خبر ہوئی کہ نہیں۔ اجن ماموں کو بڑی فکر تھی۔ نوکروں کو تو پولیس باندھ لے گئی ہوگی۔‘‘ انوکھے لال ساتھ ہی واپس آگئے تھے۔ انہوں نے جیسے تسلی دی۔ ’’ضرور ہو گئی ہوگی۔ اپنی موٹر ہے۔ جلدی ہی پہنچیں گے۔‘‘ دوچار لوگ اور آگئے۔ اس دن اتفاق سے اتوار تھا۔ کچہری بند تھی اور زیادہ تر دوکانیں بھی۔ اجن ماموں کے بیٹھکے میں احباب کا جمگھٹ ہر چھٹی کا معمول تھا لیکن آج کسی نے نہ پنڈت نہرو کی حالیہ تقریر پر گفتگو کی، نہ سیاست اور قومی آواز کے ایڈیٹوریل زیر بحث آئے، نہ کسی بزرگ نے طلبا میں بڑھتی بے راہ روی پر تشویش کااظہار کیا، نہ ہی روئی کے مقامی تاجر میاں عبدالسلام پر چھینٹے کسے گئے جو ایک بار میونسپلٹی کے الیکشن میں کامیاب ہوگئے تھے تو ایم۔ پی بننے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔

    جاہل نمبر ایک مستیا کبابی کی دوکان کے تھڑے پر بیٹھ کر کباب کھاتے اور چائے سڑکتے، اجن ماموں نے اپنی خالص ذاتی تھیوری کے مطابق (کہ فرائڈ اور ینگ جیسے حضرات سے ان کی واقفیت قطعی نہ تھی) ان کی شخصیت کی درجہ بندی ’احمق فتین‘ کے تحت کی تھی یعنی وہ شخص جو مزاجاً فتنہ پرداز ہولیکن حد درجے کااحمق ہونے کی وجہ سے فتنے کھڑے کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔۔۔ لومیاں۔ اب ایسے ایسے ہمارے ممبران پارلیمنٹ ہوں گے سالے۔۔۔ قہقہہ۔۔۔ اجن میاں کے بیٹھکے کے دسویں طاق قہقہوں سے بھر جاتے اور ان میں رکھے کاغذی پھولوں کے گلدان الٹ الٹ پڑتے۔ موکھوں میں بیٹھی گوریاں پھر پھر کرکے اڑجاتیں۔ لیکن آج اجن ماموں کی بیٹھک میں کوئی قہقہہ نہیں گونجا۔ طاق میں رکھے کاغذی پھولوں کی پنکھڑیاں ذرا نہ ہلیں۔ گوریاں موکھوں میں ساکت بیٹھی رہیں کہ ان سب پر سانسیں بھی بڑی آہستگی کے ساتھ دستک دے رہی تھیں کہ شہر کے بازار میں ایک قتل ہو گیا تھا۔۔۔ صرف ایک قتل۔

    ملازمہ کئی بار آکر پردہ ہٹاہٹاکر بیٹھکے میں جھانک چکی تو کوئی تین بجے اجن ماموں اندرونِ خانہ تشریف لے گئے۔ عذرا بیٹا جن کی وجہ سے اجن ماموں جگت ماموں بن گئے تھے، جلدی سے حسب معمول اپنے اسکول کی روداد سنانے کو دوڑیں لیکن آج ان کی آواز میں جوش و خروش نہیں بلکہ خوف، حیرت اور تاسف کی ملی جلی کیفیت تھی۔

    ’’ماموں۔ آج ہمارے ڈرائیور نے وہاں بس روکی۔‘‘ پھر وہ چپ ہوگئیں۔

    ’’کہاں بیٹا؟‘‘

    ’’وہیں جہاں ایک بوڑھے آدمی کا قتل ہوگیا ہے۔‘‘

    ’’وہ بابوہرپرشاد تھے بیٹا۔ اور ہاں تم نے کھانا کھایا؟‘‘

    ’’آپ نے نہیں کھایا تو ہم کیسے کھالیتے ماموں۔ اور ماموں وہ لالہ ہرپرشاد۔۔۔‘‘

    ’’ہاں بیٹا۔ لالہ ہرپرشاد۔۔۔ دیکھو جاؤ ذرا ممانی کا ہاتھ بٹاؤ اور جلدی سے کھانا لگوادو۔۔۔ میری وجہ سے تمہیں بھی دیر ہوگئی۔ تمہیں کھالینا چاہیے تھا۔‘‘ انہوں نے بیوی کو آوازدی، ’’عذرا کی ممانی۔۔۔‘‘ وہ دوڑی ہوئی آئیں۔‘‘ آگئے آپ۔۔۔ سنا ہے بابو رام پرشاد کی حویلی میں۔۔۔‘‘

    ’’ارے بھائی پھر پوچھ لینا۔۔۔ بچوں کے سامنے یہ قتل و غارت گری کی باتیں۔۔۔ جاؤ جاؤ اپنا کام کرو۔ اور کھانا لگواؤ۔ عذرا بھوکی ہوگی۔‘‘ پھر زیر لب بولے، ’’گرچہ کیا کھانا کھایا جائے گا وہ معلوم ہے۔ ایسا جی خراب ہوا ہے سن کر۔‘‘

    ’’سوتو ہے۔‘‘ ممانی نے تائید میں سرہلایا۔ اور کئی ہفتوں تک ہلاتی رہیں کہ ان سے ملنے والی ہر عورت اور ماموں کے بیٹھکے میں آنے والے ہر مرد کی گفتگو، کیا زمانہ آن لگا ہے، کے ٹیپ کے بند سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوتی تھی۔ پھر یہ گردان کرتے کرتے اجن ماموں کا زمانہ ختم ہونے لگا۔ ان کے بیٹھکے کا پلاسٹر اور ان کے تمام ساتھیوں کا کلف جھڑگیا۔ وہ سب کے سب ڈھیلے ڈھالے سے گردن لٹکائے، بیٹھے اپنی دھندلی ہوتی ہوئی آنکھوں سے سامنے کی دنیا کا منظر دیکھ رہے تھے۔ دنیا جو قتل و غارت گری کا ایک مہیب کو لاج بنتی جارہی تھی اور جس سے انہوں نے عذرا کو دور رکھنا چاہا تھا۔ قصبے میں بیک وقت ایک ہی کنبے کے گیارہ افراد کا قتل، بغل کے ضلع کے گاؤں میں ایک ذات سے تعلق رکھنے والے چوبیس آدمی مارے گئے۔ شمال مشرق میں ایک مخصوص قبیلے کے پورے گاؤں کا صفایا، پٹھانوں کی اس بستی میں اوسطاً روزانہ دو آدمیوں کا قتل۔ پچھلے چند ماہ کی کل تعداد ایک سو ساٹھ۔ گھاٹی میں آج پولیس کے دوجوان سمیت بتیس آدمیوں کی موت۔۔۔

    اس کو لاج میں چپکے اخبار کے تراشے دھرتی سے آسمان تک پہنچ رہے تھے۔۔۔ اجن ماموں نے اپنی دھندلاتی آنکھوں سے بہتا پانی پونچھا اور لاتعلق سے دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔ مگر وہ لاتعلق نہیں رہ سکے، اس لیے کہ عذرا کا سب سے چھوٹا بیٹا جو ماشاء اللہ سے خاصہ بیس برس کا تھا ان کے بیٹھکے میں داخل ہو رہاتھا۔ اجن ماموں خفا ہوکر غرائے۔ بوڑھے شیر کی غراہٹ۔

    ’’کہاں سے چلے آرہے ہو میاں۔ برف کٹ رہی ہے اور موٹرسائیکل پر اڑے اڑے پھرتے ہو۔ اور وہ ہلمٹ کہاں ہے تمہارا؟‘‘

    ’’ماموں، میں ابھی سلام چوک کی طرف سے آرہا ہوں۔‘‘ اس کی آواز کچھ سنجیدہ تھی۔

    ماموں کے سارے دانت جھڑچکے تھے۔ اس لیے انہوں نے دل ہی دل میں دانت کٹکٹائے۔ کوئی سلام چوک کا نام لیتا تو ان کے اندر ایسا ہی ردعمل پیدا ہوتا تھا۔ میاں عبدالسلام کا بیٹا بے وقوف فتین نہیں تھا۔ فتنہ اس نے باپ سے ورثے میں پایا تھا اور چالاکی گردوپیش کے تیزی سے تبدیل ہوتے منظر نامے سے۔ وہ لوگوں کو نقصان پہنچانا چاہتا تو حماقت اس کے آڑے نہیں آتی تھی۔ سلام میاں ایم۔ پی نہ سہی، مقامی ایم۔ ایل۔ اے تو بن ہی گئے۔ ان کی اس کامیابی میں بیٹے کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس نے اور کامیابیاں حاصل کیں۔ جن میں ایک یہ بھی تھی کہ باپ کو ایک عظیم ہستی ثابت کرکے ان کے نام پر شہر کے چوک کا نام رکھوادیا۔

    ’’وہاں کہاں مٹرگشتی کر رہے تھے۔ جاڑوں کی رُت۔ اندھیرا کتنی جلدی اترتا ہے۔ اور ٹھنڈ الگ۔‘‘

    لڑکے نے سوال کا جواب نہیں دیا۔ ذرا رک کر بولا، ’’ماموں میں نے اپنی آنکھوں سے ایک قتل ہوتے دیکھا۔‘‘ اس کے مونہہ سے نکلے ہوئے الفاظ دیر تک ہوا میں کانپتے رہے۔

    ’’تم نے؟ تم نے ایک قتل ہوتے دیکھا۔۔۔‘‘ ماموں نے بیزاری سے اس پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔۔۔ پھر جیسے یکایک وہ ہوش میں آگئے۔

    ’’خاموش!‘‘ انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔ ان کی آواز کسی سانپ کی پھپھکار سے مشابہہ تھی۔

    ’’ماموں۔۔۔‘‘ اس نے بات جاری رکھی۔ ’’میں سلام چوک کے پٹرول پمپ پر رکا تھا۔ دو لڑکے موٹرسائیکل پر آئے۔ انہوں نے پٹرول لیا۔ کیشئر سے ریزگاری پر کچھ تکرار ہوئی۔ لڑکوں نے اسے گالی دی۔ کیشئر گالی پرہتھے سے اکھڑ گیا۔ جواب میں اس نے بھی گالی دی۔ لڑکے موٹر سائیکل اسٹارٹ کرچکے تھے۔‘‘ اچانک ایک بولا، ’’ماردوں کیا سالے کو؟‘‘

    ’’جانے دے یار۔ چل۔ دیر ہو رہی ہے۔‘‘ دوسرے کا جواب تھا۔

    ’’نہیں یار مار ہی دیتا ہوں۔‘‘

    ’’اس نے انجن بند کردیا۔ دوبارہ اندر گیا۔ چمڑے کی جیکٹ کے اندر سے ریوالور نکالا اور کیشئر کو گولی ماردی۔ ماموں۔۔۔‘‘ الفاظ پھر ہوا میں کپکپانے لگے تھے۔

    ’’انہوں نے تمہیں۔۔۔ میرا مطلب ہے وہ تمہیں پہچانتے تو نہیں۔۔۔‘‘

    ’’میں اندھیرے میں تھا۔ دوسرے انہیں کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آخر وہاں اسٹاف کے دوآدمی تو تھے ہی۔ چند قدم دور چوراہے پر کانسٹبل بھی تھا۔‘‘

    ’’میں تمہاری بات کر رہاہوں۔‘‘ ماموں کا جملہ مختصر تھا اور لہجہ سخت و سپاٹ۔

    ’’میں محفوظ ہوں ماموں۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں تو بس یہ سوچ رہا ہوں کہ میری آنکھوں کے آگے ایک شخص مارا گیا۔ ماموں بس چند منٹ قبل وہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہاتھا۔ تندرست و توانا جوان آدمی۔ بھاپ نکلتا چائے کا کوزہ چھوکرے نے اس کے سامنے بس لاکر رکھا ہی تھا۔‘‘ وہ ایک دم سے خاموش ہوگیا۔

    اجن ماموں کی چہیتی عذرا کاسب سے چہیتا، سب سے چھوٹا، نوجوان بیٹا محفوظ ہے۔ انہوں نے اطمینان سے مچمچاتی آنکھیں بند کرلیں۔ آتشدان میں آگ جل رہی تھی۔ اس گھر کے اندر کم از کم، اس دن، اس لمحے ان کے سارے عزیز بخیر و محفوظ تھے۔

    ’’اس نے اسے کیوں مارا؟ کیا مارنے والا جلاد تھا اور مقتول کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی؟‘‘

    اجن ماموں کے بیٹھکے کے طاقچوں میں رکھے کاغذ کے بوسیدہ پھولوں نے باہم سرگوشی کی اور کہا، ’’نہیں۔‘‘

    ’’کیا مارنے والا سپاہی تھا اور مقتول میدانِ جنگ میں دشنس کی فوج کا کوئی آدمی۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’مارنے والا اگر نہ مارتا تو کیا خود مارا جاتا کہ مقتول اس کے گھر میں گھس آیا تھا اور اس کے ہاتھ میں ہتھیار تھے اور نیت میں فساد؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کیا مارنے والا قصاب تھا اور مقتول ایک جانور جس کا ذبح کیا جانا جائز اور مستعمل ہے کہ وہ انسانوں کی غذا بناکر اتارا گیا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔ نہیں۔ اور نہیں۔‘‘

    اس نے بغیر حکم سلطانی، بغیر کسی جنگ کے، اس سے بغیر کسی جان مال کے خطرے کے، اس کے گھر میں گھس کر مارا، اس لیے کہ وہ بلاقصور گالی کھانے کا متحمل نہ ہوسکا تھا وار جواب میں گالی دے بیٹھا تھا جس کا اسے پورا حق پہنچتا تھا۔۔۔ اور وہ جانور نہیں تھا۔ ایک انسان تھا۔ نیک، بے ضررر سا عام آدمی۔

    ’’اور اس دن، اسی صبح کہیں انہوں نے سیکڑوں لوگوں کو ان کی جھونپڑیوں میں زندہ جلادیا تھا، ان کا گوشت پکاکر، کتوں کے دسترخوان پر سجایا تھا۔‘‘

    اجن ماموں نے اخبار کرسی کی پشت پر، بیچ سے کھول کر اپنی شیروانی کی طرح لٹکادیا ہے۔ پھر اپنے نواسے کا چہرہ چھوکر دوبارہ اطمینان کی سانس لی ہے۔ اس دن اس لمحے ان کے سارے عزیز محفوظ تھے اور اب لوگ لمحوں میں جیا کرتے ہیں۔

    ’’بیٹا۔ اپنی ممانی سے کہو چائے بھجوادیں۔ وہ انوکھے لال بھی آتا ہی ہوگا۔‘‘ ماموں ٹھہری ہوئی آواز میں کہہ رہے ہیں۔ ان کا بیٹھکہ پرسکون ہے اور کسی لنگر انداز جہاز کی طرح ساکت بھی۔ لہروں کے تلاطم سے اب اس میں زلزلہ نہیں آتا۔

    اجن ماموں بڑھ کر آتشدان میں تھر تھراتے ہاتھوں سے ایک لکڑی اور ڈالتے ہیں۔ شکر ہے مالک۔ شکر ہے مالک۔ ان کی انگلیاں تسبیح کے دانوں پر تیزی کے ساتھ چلنے لگتی ہیں۔

    مأخذ:

    صدائے باز گشت (Pg. 7)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2003

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے