aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اماں ھو مونکھے کاری کرے ماریندا

فارحہ ارشد

اماں ھو مونکھے کاری کرے ماریندا

فارحہ ارشد

MORE BYفارحہ ارشد

    جانے کب اسے یہ لگنے لگا کہ کوئی اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے اس کے ساتھ سائے کی طرح جڑا رہتا ہے۔ پانی بھرنے کے لئے مٹکا سر پہ رکھے وہ سہج سہج کر یوں زمیں پہ پاؤں دھرتی گویا انڈوں پہ چل رہی ہو۔ من کے بھیتر کیا چل رہا تھا وہ تو خود بھی بڑی بے خبر تھی۔ کنویں میں جھانکتی تو اپنا من اسے اس کنویں سے بھی کہیں گہرا لگنے لگتا۔ دانتوں پہ دانت جمائے سانس تک روک لیتی کہ من کی آواز سنے۔ جبڑے دکھنے لگتے، سانس بند ہونے لگتی مگر کوئی آواز سنائی نہ دیتی۔

    سکھیاں سہیلیاں کیا کہہ رہی ہیں کس بات پہ دبے دبے قہقہے تھر کی کُھلی فضا میں گونجتے ہیں وہ بس گم صم سی ان کی شکلیں دیکھنے لگتی۔ چنری کا گھونگھٹ اور گہرا کرتی۔ مٹکا بھر کے سر پر رکھتی اور ریت میں قدم دھنسا کر آہستہ آہستہ چلنے لگتی۔

    یہ کوئی بہت پرانا واقعہ نہیں تھا۔

    کچھ روز پہلے ابا نے ساتھ کے گاؤں کا واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ اردگرد کے گاؤں میں بچوں کی اموات کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور آہستہ آہستہ سارے تھر میں پھیل رہا ہے۔ ایک تنظیم کسی بڑے شہر سے آئی ہے اور انہوں نے ساتھ والے گاؤں کے قریب ایک کیمپ لگایا ہے۔ وہ لوگ بچوں کی دیکھ بھال کے لئے بہت محنت کر رہے ہیں ان میں ڈاکٹر سانول مراد بھی ہے جو بہت تسلی سے بچوں کو دیکھتا اور انہیں دوا دیتا ہے۔ آرام نہ آنے کی صورت میں بچوں کو علاج کے لئے وہ ڈاکٹر اور اس کی تنظیم بڑے شہر کے ہسپتال لے جاتی ہے۔

    بھائی کا بیٹا بیمار ہوا تو اسے بھی ڈاکٹر سانول کے کیمپ میں لے جایا گیا۔ کچھ روز کے بعد جب وہ صحتیاب ہو کر گھر آیا تو اٹھتے بیٹھتے سب کی زبان پہ ایک ہی نام تھا ڈاکٹر سانول مراد۔

    داکٹر سانول مراد ایسا خوبرو جوان ہے۔ ڈاکٹر سانول مراد ایسے محبت سے بچوں کو دیکھتا ہے۔

    ڈاکٹر سانول مراد ایسے پہنتا ایسے باتیں کرتا ہے۔۔۔

    سکھاں چپ چاپ سر نیہوڑائے ڈاکٹر سانول مراد کا سراپا من ہی من میں مجسم کرتی رہتی۔ کنویں پہ لڑکیاں ایک دوسرے کو ڈاکٹر سانول مراد کا نام لے لے کر چھیڑنے لگیں تو جانے اسے کیوں حسد سا محسوس ہونے لگا۔ اسے لگتا ڈاکٹر سانول مراد صرف اسی کے خوابوں کا جوان ہے۔

    ڈاکٹر سانول مراد سے اس کے خوابوں کے جوان، سانول تک پہنچانے میں جہاں اس کے اردگردکی عورتوں اور لڑکیوں کا قصور تھا اس سے کہیں زیادہ اس کی اپنی چڑھتی ندی جیسی عمر بھی خطاکار تھی۔ کب چال میں ٹھمریاں جاگیں اور کلائیوں میں مرداروں کی ہڈیوں سے بنی سفید چوڑیاں بجنے لگیں وہ سمجھ نہ پاتی اورخود بھی سب کے ساتھ حیران اور بولائی پھرتی۔ اماں کے ساتھ مویشیوں کو ہانکتے، لکڑیاں چنتے، گج میں شیشے ٹانکتے جانے کب وہ ان ہاتھ سے بنائے گج کے شیشوں میں اپنا عکس دیکھ کر مسکرانے لگی۔

    ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی کہ وہ سمجھ پاتی اور وہ تھا کہ اب تو سنائی بھی دینے لگا تھا اور دکھائی بھی۔ جانے کس شہر کا باسی تھا اور کہاں سے آیا تھا وہ مارے حیا کے، کسی سے پوچھ تک نہ پاتی۔ عجیب گھمن گھیریوں میں جان آ پھنسی تھی۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ خود چاہتی تھی کہ اسے یاد کرے، اس کی باتیں کرے۔۔۔ تو جب کوئی اور سننے والا نہیں تھا تو خود کلامی ہی کام آئی۔ پھر اسے یوں لگنے لگا جیسے وہ ہر اس جگہ آن پہنچتا ہے جہاں وہ تنہا بیٹھی اس کے خیالوں میں گُم ہوتی۔ آٹا گوندھتے روٹیاں پکاتے وہ مسلسل مسکراتی رہتی اور گھونگھٹ کو اور لمبا کھینچ لیتی۔ وہ ادھر ہی اس کے پاس پیڑھی کھینچ کے بیٹھ جاتا اور اس سے میٹھی میٹھی سرگوشیاں کرتا۔ پانی بھرتے ہوئے وہ اس کے قریب آتا اور سرگوشیوں میں ایسا کچھ کہہ دیتا کہ وہ سارا وقت لجاتی اور سمٹتی رہتی۔ جڑی بوٹیاں توڑنے جاتی تو وہ وہاں بھی پہنچ جاتا۔ اس کی خوشبو ان جنگلی بوٹیوں کی مہک کے باوجود پہچان لیتی۔ میٹھی اورمن اندر مدھ جگانے والی ایسی خوشبو جس نے اسے چودہ سال کی کم سنی میں ایک دم جوان عورت کا روپ دے دیا تھا۔

    قحط بھرے وقت میں جب سب کا روپ اور حسن کملا گیا تھا اور لڑکیوں کے منحنی وجود سُکڑنا شروع ہو گئے تھے ایسے میں وہ بھر پور انگڑائی لے کر پرزور شباب کو چولی کے اندر قابو نہ کر پا رہی تھی۔ چولی کیا تنگ ہوئی کہ چنری کا گھونگھٹ بھی اسے چھپانے میں ناکام نظر آنے لگا۔ ماں نے اسے مسکراتے، لجاتے اور خود سے باتیں کرتے دیکھا تو جھٹ دو چار صلواتیں سنا ڈالیں اور گھر کے مردوں کے سامنے بیر بہوٹی بننے کے سارے ازبر گُر اسے چوٹی سے پکڑکے سکھانے لگی۔

    بھابھی تو جیسے۔ بےہوش ہوتے ہوتے بچی کہ وہ اتنی دیر سے گج میں شیشے ٹانکتے ہوئے کس سے باتیں کر رہی ہے اور کس کی باتوں پہ زور زور سے کھکھلا کے ہنس رہی ہے۔ اردگرد دور تک گہری مشکوک نگاہ سے تاڑنے کے بوجود جب کوئی نظر نہ آیا تو گھبرا کر ساتھ والے گھر اپنی سہیلی کے پاس جا کر داستان کو مرچ مصالحہ لگا کر سنانے لگی۔

    وہ تو خود کسی اور جہان میں تھی ماں کے غیض وغضب بھرے چہرے پہ اسے بس لب ہلتے نظر آتے۔ بھابھی کی مشکوک نگاہوں پہ تو اسے ہنسی آنے لگتی۔

    سب گونگے بہرے لگنے لگے کیونکہ ایک منٹھار سی سرگوشی اس کے من اور تن کا احاطہ کئے رکھتی۔ وہ کسی وقت ذرا سا دور ہوتا تو بھٹائی کی وائی اور سچل سرمست کے اشعار سنائی دینے لگتے۔

    صبح طلوع فجر سے پہلے اٹھ کر چکی پیسنے اور جانوروں کو چارہ ڈال کر ان کا دودھ دوہنے تک وہ اس کے آگے پیچھے ہنستا، باتیں کرتا رہتا۔ ویرو کی شادی پہ اس نے یوں لہک لہک کر گیت گائے کہ سب حیرت زدہ سے اسے دیکھتے رہ گئے وہ جھک کر گول گول دائرے میں رقص کرتے اس کی بلائیں لیتا رہا اور وہ یوں گھومی جیسے سارے تھر کو انگلیوں کی پوروں پہ گھما نے کا عزم کئے بیٹھی ہو۔ سہیلیاں اسے ٹہوکے دے کر چھیڑتیں تو وہ گلنار سی بیر بہوٹی بن جاتی۔

    سارا دن ماں اور بھابھی کی طرح گھر میں مردوں کے حصے کے بھی کام کرتی اور بھائی کو مرغ اور بکرے لڑانے کے لیے تیاریاں کرتے دیکھتی تو آگ بگولہ ہو جاتی۔

    میرا سانول تو ایسا نہیں ہے۔ میرے ہر کام میں میرے ساتھ ہاتھ بٹاتا ہے۔ وہ جمن، سارنگ، رامن سب سے زیادہ مختلف ہے اور سوہنا جوان بھی۔

    وہ اتراتی ہوئی انہیں گھور کر یوں دیکھنے لگتی جیسے وہ سب کیڑے مکوڑے ہوں۔

    اس روز چارہ سر پہ اٹھائے باہر سے آئی تو بھائی کو مرغ کو مکھن کھلاتے دیکھ کر اس پہ پل پڑی۔

    یہ تو کیا ہر وقت بے کار کی چیزوں میں پڑا رہتا ہے تیری بیوی، ماں اور بہن سارا دن کام میں جتی رہتی ہیں اور تو یہاں بیٹھ کر مرغ کو مکھن کھلا رہا ہے۔ بیوی تیری چوتھا بچہ جننے والی ہے اسے کھانے کو خشک روٹی مشکل سے ملتی ہے اور تو یہاں میلے ملاکھڑے کے لیے مرغ کو مکھن کے نوالے کھلا کر تیار کر رہا ہے۔

    وہ بھائی کے ساتھ بیٹھے جمن اور شناور کو بھی ماتھے پہ سو بل ڈال کر غصے سے دیکھنے لگی۔

    چل ری۔۔۔ دو ہتڑ لگاؤں گا۔ میرے سامنے ایک لفظ نہ بولنا اور ہم مردوں کی یہ شان نہیں کہ گھر کے کام کریں تم عورتیں کس لیے ہو اور بھرجائی تیری کو چوتھا بچہ جنوا رہا ہوں تو یہ بھی تو میری مردانگی ہے

    وہ آخری جملہ آہستہ سے کہہ کر جمن اور شناور کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنس دیا تو سکھاں کے تو مانو تلووں میں لگی اور سر پہ جا بجھی۔ ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا لے کر اس کی طرف لپکی

    آ تیری مردانگی بتاؤں۔۔۔

    جمن نے بھائی کی طرف بھاگتے دیکھ کر اسے پیچھے سے جا لیا۔ نرم نرم گداز بدن میں انگلیاں دھنس کر رہ گئیں۔

    تو تو چھوڑ۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک ناکارہ۔ وہ اس سے اپنا آپ پوری طاقت سے چھڑانے لگی مگر جمن کی بانہوں کا گھیرا بہت مضبوط تھا۔ رے۔

    تم سب ایک سے ناکارہ اور ایک وہ سانول ہے۔۔۔

    اے ری کون سانول؟۔۔۔ وہ اسے چھوڑ کر سینہ تان کر سامنے کھڑا ہو گیا۔

    جا جا تیرا کوئی کام نہیں اور میرے منہ نہ لگنا اسی ڈنڈے سے تیرا پنجر چورا بنا کے پھانک جاؤنگی

    وہ اس وحشی عورت کی طاقت سے ایسا دم بخود ہوا کہ اسے گرا کر اپنی طاقت آزمانے کے خواب دیکھنے لگا۔

    بڑا آیا پوچھنے کہ سانول کون ہے۔ وہ گدرے جسم پہ چبھے اس کے ناخنوں سے خون بھری خراشیں دیکھ کر نتھنے پھلائے سو سو بل کھاتی رہی۔

    تو ہے سہی اس کا مقابلہ کرنے والا۔ اور تو کیا پورے تھر کی زمین پہ اس جیسا چھورا کوئی نہیں۔ چل ہٹ وہ پھنکاری۔

    خود سے جانے کتنی دیر ہمکلام رہی۔ سانول اس کی خون بھری خراشوں کو بوسے دیتا رہا اور بند دروازے سے کھلکھلانے کی آواز باہر آتی رہی۔ بچے کو کھانا کھلاتی بھابھی کے ہاتھ خوف سے کانپتے رہے کہ ہو نہ ہو سکھاں پر جن عاشق ہو گیا ہے۔ ماں ایک سوچ بھری نگاہ سے دروازے کو گھورتی رہی۔ اکیلی جھومتی، گاتی اور اکیلی ہی باتیں کرنے لگی تو تھر کی عورتیں انگلیاں دانتوں تلے چبانے لگیں۔

    ماں نے ابا سے مشورہ کر کے اپنے بھائی کے بیٹے جمن سے اس کی پدھری (بات پکی) کر دی اور ماموں نے بیٹے کے لئے سنگ ہی نہیں مانگا بیاہ کی تاریخ بھی رکھ دی۔ وہ جمن کی ساری چالیں سمجھتی تھی۔ مگر کیا کرسکتی تھی۔

    اس روز اسے لگا جیسے سانول روٹھ گیا ہو وصال کی وائیں لبوں کے اندر دم توڑنے لگیں اور ہجر کے آنسوؤں سے بھری آواز ریت کے ٹیلوں میں یوں سرسرانے لگتی جیسے اس کی آواز نہیں ریت میں سرسراتی بلائیں ہوں۔ جمن کی دولہن کے روپ میں سانول کی طلب نے اور بھی بیقرار کر ڈالا۔

    عشق کی اڑان تو تلور طیور سے بھی تیز نکلی۔ جسم نے عشق کا بوجھ اٹھانے سے بےبسی ظاہر کی تو روح تھر کے ریگستانوں میں، صحراؤں میں ببول کے درختوں کی ٹہنیوں پہ ننگے پاؤں بھاگتی لہولہان ہونے لگی۔ کلائی میں بندھے دھاگے کو کلائی کے چوگرد پھیرتی صرف ایک ہی جملہ دہراتی رہی۔ 'تمہاری ہوں سانول'

    عشق کی طلب، بھٹکتے ہوئے پنکھوؤں کی طرح اس کے من منڈیر پہ منڈلانے لگی۔ایک خوشبو کا جھونکا آیا اور وصل کی سرگوشیاں کرتا اس کی بلائیں لینے لگا۔

    وہ سہاگ کی پہلی رات تھی اور وہ بندقبا کھولے سانول کے سامنے تھی۔ وہ اس کی قبا کے اندر وجود میں اتر کرپنکھ بن کر اڑنے لگا۔ وصل کی بارش نے پر بھگوئے تو وہ بھاری بھیگے پروں سمیت وہیں کہیں اس کے اندرہی بیٹھ گیا اور اڑنا بھول گیا۔ سرگوشیوں میں جمن نے اپنے نام کی بجائے سانول کا نام سنا تو ایک دم الگ ہو کر دور جا کھڑا ہوا۔

    کون ہے ری یہ سانول۔۔۔ وہ غصے سے پوچھتا رہا اور وہ انجان بنی آنکھوں پہ بازو دھرے نیم خوابیدہ سی خاموش لیٹی رہی۔

    رات کے کسی پہر اس کے بدن کی حدت جمن کوایسے تپش دینے لگی کہ اس نے خود کو بہتیرا روکا مگر اسے لگتا اس کا غصہ اس کے سوا نکل ہی نہیں سکتا۔ ہر رات ہی وہ پہلے سے بڑھ کر اس کا جسم روئی کی طرح دھنکنے لگا۔ کاہل مرد تھا۔ چھپڑ ہوٹلوں پہ فحش فلمیں دیکھتا اور ہر بار نت نئے طریقوں سے اس کا جسم جھنجھوڑ کے رکھ دیتا۔ اسے اذیت دیتا۔

    ہمرچو اور ملہار گاتے طالب و مطلوب کے درمیان ہجر آن کھڑا ہوا۔ تھر باسیوں نے دیکھا کہ کارونجھر کے پہاڑ اسے پکارتے تھے اور وہ عشق کی آتش سے راکھ ہوتی ادھر دوڑنے لگتی۔

    نہ سمجھ تھی نہ خبر۔۔۔ راز رکھنا یا راز ہونا کیا ہوتا ہے وہ بےخبر ان باریکیوں کو جانتی ہوتی تو یوں من موہنی رانی بنی، سات سنگھار کر کے کہیں دور چھوٹے ٹیلے کے پار جاتی بھلا؟۔۔۔

    سونے جیسی ریت پہ بھاری اور تھکے قدموں سے واپس آتی تو چونرے (ہٹ نما گھر) کی دیوار سے کان لگائے تھر کی عورتیں غضبناک نگاہوں سے اسے دیکھ کر منہ پھیر لیتیں۔ مگر اسے کب کسی کی پرواہ تھی۔ انجانی راہیں اور اس پہ عمر کا پندرہواں سال اورعشق کی آتش ایسی کہ بڑوں بڑوں کو منہ کے بل گرا کر جلا دے، راکھ کر ڈالے اور پھر راکھ کو بھی ہواؤں میں اڑا دے، فنا کر ڈالے تو وہ کیسے اس طوفان کے آگے بند باندھ سکتی تھی۔

    جمن کمرے میں آتا تو اس کی دبی دبی سرگوشیاں سن کر مونچھیں مروڑتا۔ اس کو ساری رات روئی جیسا دھنک کر اپنا پورا غصہ نکالتا۔ وہ جتنی طاقت خود کو چھڑانے میں لگاتی اس سےزیادہ اس کی مردانگی کو ہاتھ پڑتا اور اسے تھر کی ریت جیسا پیس ڈالنے کے سارے ہنر آزما ڈالتا۔

    وہ چپ چاپ پوری رات کا روئی کی طرح پنجا جسم لیے سارا دن اس کے گھر والوں اور مویشیوں کی دیکھ بھال میں لگی رہتی اور جمن مرغ بغل میں دبائے میلوں ملاکھڑوں میں اپنا مرغ لڑانے کے لئے گاؤں کے دوسرے جوانوں کی طرح سارا سارا دن مارا مارا پھرتا۔ من مٹی کے تھیلے میں قید بلکتا، کراہتا تو وہ ٹیلے کی طرف لپکتی۔ ریت پاؤں کے تلوے چاٹتی اور جمن ٹیلے کے سارے رستے بند کئے اس پہ کسی کتے کی طرح غرانے لگتا۔

    ماں بننے کی خبر سن کر اماں اس کے لیے بھوگاڑو بنا لائی۔ بسری پکائی تل کے لڈو بانٹے اور دبا دبا غصہ نکالتی بار بار ایک ہی جملہ دوہراتی رہی۔

    لوئی لج کی پرواہ کر۔۔۔ ری

    لوئی لج کی پرواہ کسے یاد تھی وہ تو صحراؤں کی ریت کا بگولہ بنی کبھی یہاں ہوتی تو کبھی وہاں۔

    جمن کی جب تک جسم تک رسائی رہی خاموش رہا اور جی بھر کے اس کے جسم کو روئی کی مانند دھنکا مگر کب تک ؟۔ جس روز وہ تن کر کھڑی ہوئی کہ اب اسے تکلیف ہوتی ہے تو بالوں سے پکڑ گھسیٹتا ہوا اس کے باپ اور بھائی کے قدموں میں جا پھینکا۔

    بہت برداشت کر لیا۔ اس سے زیادہ بےغیرت نہیں ہو سکتا۔ تیری بیٹی کسی کے ساتھ چھوٹے ٹیلے پہ منہ کالا کرتی ہے مونچھوں کو بل دیتے ہوئے وہ غرا رہا تھا۔

    اماں سر پکڑ کے بیٹھ گئی، باپ اور بھائی کی نگاہیں برچھیاں بن کراس کے وجود کے آر پار ہوئیں، بھرجائی نے طعنوں کی زد میں آ لیا۔

    جسم اپنے اندر پلتے نئے وجود کے بوجھ سے گریزاں ہوا اوپر سے ناتوانی اور آٹھ ماہ کا تشدد الگ۔

    اور اس پہ ہجر کا طوفان۔

    مصیبتوں اور آزمائشوں کا سورج سوانیزے پہ آکے دہکنے لگا۔

    پہرے سخت ہوئے اورٹیلے پہ جا کر دن رات سب کسی کو ڈھونڈتے رہے۔ مگر نہ ملنے والا کسی کو نہ ملا۔

    جمن اور اس کے سسرال والے بات جرگے تک لے گئے۔

    اصل میں تو جمن کسی اور نئی نویلی کلی کو مسلنے کا شوق پورا کرنا چاہتا تھا اور سسرال والے اس کے کردار پہ گاؤں والوں کی اٹھی انگلیوں کے نیچے دب گئے۔

    جب اسے مجرموں کی طرح جرگے کے میدان میں لے جایا جا رہا تھا توپھولے ہوئے پیٹ کے ساتھ اس کا چلنا دوبھر ہو رہا تھا۔

    اس کا دل تو محبت کا استعارہ تھا اور وہاں بھٹائی کی وائی اور سچل سر مست کے نغمے پھوٹتے تھے۔۔۔ وہ کب جانتی تھی کہ اس راہ میں کڑی آزمائشیں ہیں اور جو جانتی بھی تو کیا خود کو روک پاتی؟۔۔۔

    عورتیں اس کا تماشا دیکھنے میدان کی طرف بھاگیں۔ بھاگ بھری، بھیلنی اور ویرو سب کی گواہیاں ہوئیں کہ کب کب انہوں نے اسے سانول سے ملنے جاتے دیکھا۔

    وہ خاموش رہی۔ بولنے کے لیے اس کے پاس تھا بھی کیا۔

    اسے تو خود یہ سفر روز اول سے اب تک حیران کرنے والا لگا تھا۔

    جانے سانول کون تھا اورکہاں سے آیا تھا۔۔۔

    تھا بھی کہ نہیں۔۔۔؟

    تو کیا من مندر کی مورت ہی تھا سانول۔۔۔ وہ زور زور سے رونے لگی

    سانول۔۔۔ سانول

    وہ پوری قوت سے بند لبوں سے سانول کو پکار رہی تھی اس یقین کے ساتھ کہ ابھی ٹیلے کے پیچھے سے سانول آجائےگا۔ مگر سب کے ساتھ اس کی نگاہیں بھی مایوس لوٹ آئیں۔

    وہ تو بس ایک ہیولہ تھا۔۔۔ محض ایک خوابیدہ تصور۔۔۔

    وہ نڈھال ہو کر درد سے تڑپنے لگی۔ جانے دل کا درد تھا یا جسم کا۔ وہ سراپا درد بنی کراہ رہی تھی۔ حقیقت جان لیوا تھی۔ اسے یوں لگنے لگا جیسے سب نے مل کر اس کا سانول مار ڈالا ہو ۔

    باگڑی، بھیل، کولہی مردوں سے میدان بھرا تھا چہ میگوئیاں عروج پہ تھیں۔ سب یوں اکٹھے تھے جیسے میلے ملاکھڑے میں مرغ لڑتے دیکھنے آئے ہوں۔

    وہ تو ابھی پوری طرح سانول کو رو بھی نہ پائی تھی جب اس نے سنا۔

    جرگے کا سردار دوسرے پنچائتیوں کا اور اپنا متفقہ فیصلہ سنا رہا تھا

    ایسی بدچلن لڑکی کو کاری کرنے کا حکم دیا جاتا ہے

    ٭٭٭٭

    اماں ھو مونکھے کاری کرے ماریندا

    (اماں وہ مجھے کاری کر کے مار دیں گے)

    یہ عنوان سندھی کے مشہور شاعر شیخ ایاز کی ایک وائی سے لیا گیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے