Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انار کلی اور بھول بھلیاں

اختر اورینوی

انار کلی اور بھول بھلیاں

اختر اورینوی

MORE BYاختر اورینوی

    کہانی کی کہانی

    ایک ادیب جوانی میں ہزاروں قسم کے ارمانوں، خواہشوں اور حوصلوں کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے لیکن زمانہ کی ناقدری، سماج کی بے حسی اسے زندہ درگور کر دیتی ہے اور وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انار کلی اور بھول بھلیاں میں ایک ایسے ہی ادیب کی کہانی بیان کی گئی ہے جو بے پناہ دماغی محنت کے بعد بھی مالی طور پر مستحکم نہیں ہو پاتا۔ وہ ایک دن بازار میں مارا مارا پھرتا ہے۔ اپنی خیالی بیوی کے لئے کپڑے خریدتا ہے لیکن جیب میں پیسے نہ ہونے پر دکاندار سے معذرت کر لیتا ہے۔ اپنے خیالی بچہ کے لئے چند آنے کی گڑیا خریدتا ہے اور اپنی کوٹھری میں آ کر سو رہتا ہے۔ خواب میں جب وہ اپنے بچہ کو گڑیا دینے کی خواہش ظاہر کرتا ہے تو اس کی بیوی حسرت سے کہتی ہے کہ میری قسمت میں بچہ کہاں اور اس کی نیند ٹوٹ جاتی ہے۔

    اس نے ایک خواب دیکھا۔ رات بہت دیر تک جاگتا رہا تھا۔ رسالہ کا چھوٹا سا دفتر، بس ایک چھوٹی سی کوٹھری، اس میں ایک دروازہ، جو بڑے بے ربط سے ہال میں کھلتا تھا اور ایک دریچہ جس سے گلی کا ایک حصہ دکھائی دیتا تھا۔ گلی کے اس جانب چھوٹی چھوٹی اینٹوں کی ایک بے حس، بیگانہ دیوار، ماضی کی منجمد رسموں سے پابہ گل تو ہمات کی طرح کھڑی ہوئی، کھلے آسمان کے نظارے کو روکتی تھی۔ بےربط ساہال بس ایک اونچا سا شڈ تھا، یہاں آہنی پریس گھڑگھڑاتا رہتا تھا۔ چرخی چلتی تھی، تسمے گھومتے تھے، دندانے وصل ہو ہوکر علیحدہ ہو جاتے۔ دستے تختیوں کو لئے ہوئے قیام، رکوع اور سجدہ کئے جاتے تھے اور سفید کاغذ کے سینے گنجینے بن جاتے۔

    صفحات پر سطر یں ایسی معلوم ہوتی تھیں جیسے سویرے سویرے سائرن بجنے کے بعد میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئی مزدوروں کی قطاریں فیکٹری میں جا رہی ہوں۔ پریس گھڑگھڑاتا رہتا۔ اس کے دماغ دوز شور سے اکتا کر وہ گلی میں دیکھنے لگتا۔ وہاں بھی موتی عورتیں، دبلی لڑکیاں، گندے مرد، محلہ کے لڑکے، نلکے پر لڑائی دنگا کرتے رہتے۔ خوانچہ والے سودے کے اعلان کو کان میں ٹھونستے ہوئے گذرتے جاتے۔ اس کی میزد یوار سے لگی ہوئی تھی۔ اس پر روزانہ، ہفتہ وار، ماہوار اخبارات، رسالے، مصور وغیرہ مصور جریدے، ڈھیر کے ڈھیر پڑے رہتے اور معمولی سے قلم دوات، بالکل معمولی۔

    اس کی کتنی آرزو تھی کہ ایک سلیقے کی میز ہوتی۔ میز پوش، گلدان، گھڑی، قاعدہ کا قلمدان، ایک اچھا سابک شلف۔ وہ ایک حسن مذاق رکھنے والا ادیب تھا مگر ملازم۔ مطبع اور رسالوں کا پروپر ائٹر اس بات کا قائل تھا کہ کم سے کم دانہ گھاس پر ایک ادنیٰ سے اصطبل میں رکھ کر گھوڑے کو زیادہ سے زیادہ دوڑایا جائے۔ گھوڑے کا وہ مالک تو نہ تھا۔ کرایہ کا گھوڑا، بھاڑے کا ٹٹو، یہ گیا وہ آیا۔ سب گھوڑے ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں اورگھوڑے بہت ہیں۔ کرائے کا ادیب اور بھاڑے کا ٹٹو ادیب بہت ہیں۔ غرض دریچہ اس کے داہنے کان کے بالکل متصل تھا اور گلی کی ہانک پکار اس کے کان میں یوں داخل ہوتی تھی جیسے وہ لاؤڈ اسپیکر کا بمبا ہو۔

    ’’سردے ہیں جی پشاؤ اَر کے سردے۔‘‘

    ’’دودھ بکری دا بم بے والا، بوم بی دالا!‘‘ اور کوئی شوخ چشم رمال تو بس اس کے کان سے لگ کر زور سے کہتا، ’’پائی جی! تھاڈی تقدیر دی گھتیاں سلجھاواں، ہاتھ دکھلاؤ، زائچہ بنواؤ، بیشک جو چاہو پوچھ لو۔‘‘

    وہ چونک پڑتا اس کا جی چاہتا کہ رمال کا سر سامنے کی بےحس دیوار سے ٹکرا دے، مگر ہوتا یہ کہ دیوار خود اسی سے ٹکراتی رہتی۔ گلی کی الجھن سے تھک کر وہ اپنی میز پر رکھے ہوئے مسودوں کو الٹتا پلٹتا۔ کچھ لکھنے لگتا۔ لکھتا جاتا۔ یک بہ یک پریس کی گھڑگھڑاہٹ زبان اختیار کر لیتی۔ کچو کے لگانے والی زبان! اس کا مضمون چھپتا ہے اور پھر ناقدین کی کند چھری۔ اسے ناقدوں کی کیا پروا ہونی، وہ ان کے پورے قبیلے کو پریس کے شکنجے میں کچومر بنا کر رکھ دیتا اور اسے اتنی بھی حس نہ ہوتی جتنی سگریٹ یا دیاسلائی کے خالی ڈبے کے کچل جانے سے ہوتی ہے، مگر ناقدین کی آواز پر وپرائٹر کے کان میں سیدھی گھسی چلی جاتی ہے۔ اور عرض و نیاز کا اثر قبول نہ کرنے والی ہستی یوں اثر پذیر ہوتی ہے جیسے بٹن دبانے سے الیکٹرک مشین پریس کا رولر۔

    معاذ اللہ! تخفیف مشاہرہ کی دھمکی اور بر طرفی کے قاتل اشارات، تو پریس کی گھڑگھڑاہٹ اسے ناقدوں کی جاں گسل آواز معلوم ہوتی۔ وہ مڑکر نفرت سے شڈ کے اندر بھاری بھر کم پریس پلانٹ کو دیکھتا اور پھر خوف و نفرت کے ملے جلے جذبہ کے ساتھ آنکھیں پھیر لیتا۔ پریس مین، کمپوزیٹر اور دوسرے عمال اسے فراعنہ کے ان حبشی غلاموں کی طرح دکھائی دیتے جن سے جلادی کا کام لیا جاتا تھا۔ وہ پھر لکھنے لگتا۔ اسے کیا کیا نہیں لکھنا پڑتا تھا۔ اداریے، افسانے، نظمیں، علمی مضامین۔ پروف دیکھنا بھی اسی کے سپرد تھا اور پریس کے انتظامات بھی۔ لکھتے لکھتے وہ سوچنے لگا کہ پریس اور رسالوں کا عملہ رومی غلاموں سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے جو آپس میں لڑ لڑ کر مر جایا کرتے تھے۔ اسے پریس مین، کمپوزیٹر اور اپنے پر رحم آنے لگتا۔ اس کی نظریں کوٹھری کے اس گوشے میں پڑی ہوئی آرام کرسی کی طرف اٹھ جاتیں جس پر فربہ جسم پروپرائٹر روزانہ ایک دوگھنٹے آکر بیٹھا کرتا تھا اور ترقی کے خواب دیکھتا رہتا۔

    رات وہ اسی دفتر میں بیٹھا بہت دیر تک جاگتا رہا تھا۔ دور سالوں کا سالنامہ سر پر تھا۔ ماہوار اور ہفتہ وار جریدوں کی ساری ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر تھی۔ اسی طرح اور کئی بے خواب راتیں گذارنی تھیں۔ گذشتہ رات کو اس نے ایک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا، انار کلی بازار سجا ہوا ہے اپنی ساری پر کاریوں اور رنگینیوں کے ساتھ۔ اپنی رنگ برنگ اور بھرپور دوکانوں کو لئے ہوئے۔ آمدورفت، خرید و فروخت، اکل و شرب، نمائشیں اور حسرتیں، زندگی کی حرارت، روانی اور تنوع کو پیش کر رہی تھیں۔

    خواب کی دنیا عجیب ہوتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ انار کلی سے ملحق لیکن اس کی سطح سے بلند مال روڈ اپنا دامن پھیلائے ہوئے ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انار کلی زمین ہے اور مال روڈ اس کا زریں آسمان۔ انار کلی اور مال کے گرد اونچی اونچی آہنی دیوار یں حائل ہیں، آہنی مگر شفاف۔ وہ باہر کھڑا کھڑا سارا منظر دیکھ رہا ہے۔ ان دیواروں سے پرے چھوٹی چھوٹی پر پیچ گلیاں ہیں اور اندھے راستے۔ یہ الجھی ہوئی گلیاں سب کی سب انار کلی کی طرف جانے کی سعی کر رہی ہیں۔ مگر گتھ گتھا کر بھول بھلیاں بن گئی ہیں۔ خواب ہی میں اسے ایسا محسوس ہوا کہ یہ پتلی پتلی گلیاں اس کی گردن میں پھندا بن کر لپٹی جاتی ہیں۔ وہ بےتحاشا انار کلی کی طرف دوڑتا ہے مگر آہنی دیواروں سے ٹکرا کر گر پڑتا ہے۔ مال کی بلندیوں سے کچھ لوگ اسے گرتے دیکھ کر ہنسنے لگتے ہیں۔ اس دلدوز قہقہے کی نشریت سے بوکھلا کر وہ جاگ اٹھا۔

    یہ تھا اس کا خواب۔ دن بھروہ خواب کی گرانی محسوس کر تا رہا۔ وہ اس غیر مرئی بوجھ کو پٹک دینا چاہتا تھا، تاکہ سالناموں کی اشاعت کے انتظامات میں منہمک ہو جائے۔ مگر خواب بھوت کی طرح سوار رہا۔ آج حالات اس کے لئےناقابلِ برداشت ہو رہے تھے۔ وہ بس ایک ادیب ہو کر رہ گیا تھا۔ کالج میں تعلیم حاصل کرتے وقت ادب تو محض اس کی خوبصورب ٹائی جیسا تھا۔ وہ ذوق ادب کے اعلان سے اپنی نوجوان شخصیت کی آرائش کا کام لیتا تھا۔ ورنہ اس کی تمنا ئیں تو آئی سی ایس کے ملاء اعلیٰ پر جا پہنچتی تھیں۔ حکومت کے کنگرے کو تخیل سےمس کرنا، کالج کی طویل خوش خرام زندگی کے لئے پٹرول ہوتا ہے۔ زندگی کے ٹھوس مطالبات آرزو ؤں کی حدت سے نقطۂ احتراق پر پہنچ کر گیس بن جاتے ہیں اور تصورات کی پنکھی چلنے لگتی ہے۔ پرواز خیال کے آگے ہر یکین اور اسپٹ فائر کی رفتار مات۔ مگر نشہ کے اتار کے وقت صرف ڈپٹی مجسٹریٹی نظر آتی ہے اور اس سے بھی نیچے اتر کر تحصیل داری۔

    غرض وہ ادیب یوں بن کر رہ گیا جیسے کسی ہوا باز کو’’فورسڈ لینڈنگ‘‘ کرنا پڑے اور وہ بھی کسی بیگانہ سے جزیرے میں۔ بہر کیف! فی الحال وہ ایک ادیب تھا۔ ا س کا ایک نام بھی تھا اور اس کی ایک شکل صورت بھی تھی مگر صورت، شکل اور نام تو اس وقت منفرد و مشخص ہوتے ہیں جب کوئی کامیاب ِ حیات ہوجائے اور وہ تو اس منزل کی مخالف جانب پھسلتا جا رہا تھا۔ وہ خلقت کے ہجوم میں ایک سپاٹ سا فرد تھا۔ لاکھوں لاکھ افراد کی طرح ایک فرد تھا۔ وہ زندگی کی چپٹی سطح پر ایک رینگتا ہوا ادیب تھا، محض ایک ادیب۔

    وہ صبح سے شام تک رسالہ کے دفتر میں بیٹھا ہوا ادب کی چرخی چلاتا رہتا تھا۔ ۹ بجے صبح سے لے کر ۵ بجے شام تک، دوپہر کا کھانا وہ دفتر کی کوٹھری میں بیٹھا ہوا کھا لیتا تھا۔ کسی چائے خانہ در بغل پھیری والے سے چند سوکھے ہوئے بسکٹ اور ایسی چائے جس کا رشتہ کتھے کے رقیق گھول سے زیادہ قریبی ہوتا، وہ قہر درویش کے طور پر خرید لیا کرتا تھا اور اب تو وہ ایسی چیزوں کو سانس کی سی یکسانیت کے ساتھ پی جاتا تھا۔ اس نے دفتر سے قریب کہنہ، فرسودہ شہر کی بوڑھی فصیلوں کے آغوش میں ایک معمولی سی کوٹھری کرایہ پر لے لی تھی۔ اس میں بھی شرکت تھی۔ دنیا میں کوئی چیز اس کی اپنی نہ تھی۔ گاؤں میں رہنے والے باپ ماں کی تنگ دستی وتنگ دامانی کے کسی گوشے میں اتنی ناممکن وسعت کہاں سے پیدا ہوسکتی تھی کہ وہ اسے اپنی خاص ایک دنیا سمجھتا۔ وہاں بھی اس کے بھائی بہن شریک تھے۔ گاؤں کا مکان بھی جدی مکان تھا اور یہاں اجنبی شہر میں اسے ایک چھوٹی سی تنگ کوٹھری میں بھی شرکت گوارا کرنی پڑی تھی۔

    اس کی اپنی ذات بھی تو اپنی نہ تھی۔ اس کے سارے اوقات، ساری مشغولیت پر رسالہ کا دفتر چھایا ہوا تھا۔ وہ کنوارا تھا۔ وہ دنیا کی کسی ہستی کو اپنا نہیں کہہ سکتا تھا۔ ٹوپیوں کی دکان کا ایک ملازم دست فروش اس کے ساتھ رہتا تھا۔ بس رات کے چند اندھے گھنٹوں اور صبح کی چند عاجلانہ ساعتوں کا شریک۔ وہ دونوں اس طرح ملتے تھے جیسے دو ماہانہ ٹکٹ رکھنے والے مسافر کسی ویٹنگ روم کو استعمال کرتے ہیں۔

    اس کی چھوٹی سی کوٹھری میں سورج کی زریں کرنیں کبھی نہیں جھانکتی تھیں۔ پیاری پیاری نازک کرنیں اور رچی ہوئی سنہری دھوپ معمولی سی جھونپڑی میں بھی جان ڈال دیتی ہیں۔ ادیب کو اس بات کا احساس کہاں ہو سکتا تھا، مگر جب وہ سوکھے بسکٹ کھاتے کھاتے اور کام کے بوجھ سے دبتے دبتے بیمار پڑ جاتا تھا تو اسے کوٹھری میں دن بھر رہنا پڑتا۔ اس وقت اسے اس بات کا تلخ احساس ہوتا کہ اس کوٹھری میں فطرت کے ہلکے سے ہلکے تبسم کی بھی جگہ نہ تھی۔ وہاں ادھر ادھر گوریا، مینا، ابابیلیں کبھی آکر کھیلتی نہ تھیں۔ ننھی گوریا، پیاری مینا، چونچال ابابیلیں، ادیب کو اپنا گاؤں یاد آتا اور اس کے ویران سے دل میں ان پرندوں کے پیار کا درد سا اٹھتا۔ یہ پیارے گھریلو پرندے! اس کو ٹھری کے ارد گرد تو شوخ، شریر، پاجی، اچکے، کائیں کائیں کرنے والے کوے بھی نہ پھٹکتے تھے۔

    پرانی وضع کی اونچے مکانات سے گھری ہوئی دکانوں کے کٹہروں کے عقب میں، گلی کے اندر، نچلی منزل کی ایک کوٹھری۔ کاش وہاں ایک چوہا ہی ہوتا۔ مگر جب روٹی کا سوکھا ٹکڑا تک نہ ہو تو پھر غریب چوہا کیسے قسمت آزمائی کرے۔ بیماری میں ادیب اکثر فاقہ کرتا اور جب ذراسکت ہوتی تو وہ اپنے اسی گھٹیا ہوٹل کا رخ کرتا یاکسی پھیری والے دودھ فروش سے دودھ کا ایک کو زہ لے لیتا۔ وہ جب اچھا ہوتا تو اسی ہوٹل میں صبح کی چائے پیتا اور رات کا کھانا کھاتا۔ رات کو وہ تھکا تھکایا آکر پڑ کر بےچین سی نیند سو جاتا تھا اور خواب دیکھا کرتا تھا۔ وہ غیر معمولی طور پر زیادہ خواب دیکھا کرتا۔ جسمانی کام کی تھکن سے نیند تو اچھی آتی ہے کم از کم، مگر دماغی کام کے بوجھ سے اعصاب جھنجھنا اٹھتے ہیں اور نیند اچاٹ ہو جاتی ہے۔

    وہ اکثر رات کی تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا کرتا تھا۔ اپنے گاؤں سے نکلتی ہوئی اسے ایک پگڈنڈی نظر آتی تھی۔ وہ پگڈنڈی سیدھی نازوارمان سے بڑھتی ہوئی اس عظیم الشان شہر تک چلی آتی تھی۔ یہ نازک مگر آرزو مند پگڈنڈی پھیل کر، رچ اور سنور کر انار کلی بن گئی تھی۔ کالج کی زندگی کی انار کلی، البیلی، بھرپور اور شاداب، امنگوں سے بھری ہوئی، ارمانوں سے کھیلتی ہوئی۔ پھر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انار کلی جوان ہوکر مال کی ٹھنڈی سڑک بن جائےگی، مطمئن، نازاں، سرشار، پھولتی پھلتی، گرم سیر اور یہ مال وسیع ہوتے ہوتے سار ا ہندوستان بن جائےگا۔ گونجتا ہوا ملک۔

    پھر وہ اپنا سفر یاد کرتا۔ جب راوی اور گنگ و جمن کی وادیوں کو روندتا ہوا وہ سارے شمالی ہند کا دورہ کر رہا تھا۔ وہ ہر شہر میں فاتح کی طرح داخل ہوتا تھا۔ ہر شہر اسے اپنا معلوم ہوتا، اپنی ملکیت، سحر آگیں کلکتہ، باغ و بہار لکھنؤ، خوبصورت آگرہ، شاندار دلی۔ یہ سارے کے سارے اس کے دل کے ایک گوشے میں آباد تھے۔ ادیب کی آنکھیں پرنم ہو جاتیں۔ رات کی چشمِ بیدار کے کا جل پر اس کے سفید آنسو ڈھلک کر ایک ملگجی سی پگڈنڈی بنا دیتے، جونہ انار کلی بن پاتی نہ ٹھنڈی سڑک۔ اسے دکھائی دیتا کہ اس کی تمناؤں کی انار کلی ایک بیدرد سی بھول بھلیاں میں الجھ کر گم ہو گئی۔ بہر کیف رات کٹ ہی جاتی اور صبح ہوتے ہی وہ اپنا دن دفتر کی بےکیفی میں گم کرنے کو روانہ ہو جاتا۔

    اسی طرح سے پانچ سال سے وہ زندگی کے ناقابلَ برداشت بوجھ کو لاحاصل کاموں کی چٹان پر رسالے کے آہنی دفتر میں جا کر دے مارتا تھا۔ شام کو ادیب پر اذیت خلا میں الٹا لٹکا ہوا سا محسوس کرتا۔ دفتر کا ناقابل اختتام کام ختم کر کے خالی خالی وہ گلیوں اور بازاروں سے گذر کر اپنے مخصوص گھٹیا سے ہوٹل میں جاتا۔ اکتا یا ہوا، بےیقین، بےمقصد۔ ہر شے اسے دھواں دھواں سی، مبہم، غیرحقیقی اور بےمعنی معلوم ہوتی۔ وہ زندگی کو چھو کر اپنی زندگی کا ٹھوس احساس حاصل کرنا چاہتا تھا مگر سارا شہر، ساری کائنات اسے جادو سے بنی ہوئی محسوس ہوتی۔ دیواریں پگھلتی ہوئی دکھائی دیتیں، مکانات محلول ہوتے ہوئے اور قدیم شہر کی بےمہر فصیل بخارات میں تبدیل ہوتی ہوئی سی معلوم ہوتی۔ اسے نفی حیات سے سخت دکھ پہنچتا۔ وہ بڑی بے تابی سے چاہنے لگتا کہ یہ بھری دنیا قائم رہے، لیکن جو سماء میں یہ ناچیز کرہ دخانی صورت اختیار کر کے تحلیل ہوتا جاتا۔ وہ اسے بچانا چاہتا مگر اس کے پھیلے ہوئے نامراد ہاتھ اٹھے کے اٹھے رہ جاتے۔ وہ تیزی سے سانس لے کر مٹتی ہوئی زندگی کی ایک رمق کو اپنے اندر جمع کر لینا چاہتا تھا۔

    اس کیفیت میں کبھی کبھی وہ دیر تک بازاروں اور گلیوں میں یونہی آوارہ پھرتا رہتا۔ اور جب یہ احساس درد ناک حد تک بڑھ جاتا تو وہ اپنی کوٹھری میں واپس آ جاتا۔ اس وقت اسے اپنی کوٹھری کی فرسودہ، مضمحل، مگر جانی بوجھی اور محدود فضا زیادہ یقینی اور قابل اعتبار معلوم ہوتی۔ اسے اپنے ساتھی کے خراٹے بھی بھلے لگتے۔ زندگی کے ایک ذرے پر قدم رکھ کر وہ بلند مینار سے پھسلے جانے کی پر الم غیر یقینی کیفیت سے نجات پا جاتا تھا۔ بلندی سے گرتا ہوا انسان ما حول کی اشیا کو بھی قلا بازیاں کھاتے ہوئے اور ٹھوس حد بندیوں کو غیرواضح ہو کر بکھر جاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ بھرے بازار اور رچی ہوئی دنیا میں ادیب اسی نوع کے فریب نظر میں مبتلا ہو کر اذیت اٹھانے لگتا تھا اور اپنی ہیچ سی، بے مایہ کوٹھری میں اس کے تصورات کو ٹیک سی مل جاتی تھی اور تقابلی طور پر سکون سا مل جاتا تھا لیکن پھر صبح ہوتے ہی یہ کوٹھری، دوسرے مکانات کی دیواریں اور قدیم شہر کی بے مہر فصیل اس قدر مبالغے کے ساتھ ٹھوس، مستحکم، منجمد اور اٹل ہو جاتیں کہ وہ ان کے درمیان یوں محسوس کرتا کہ وہ ایک چنا ہے اور اوپر کا پاٹ بے چلے ہوئے اسے دباتا جاتا ہے۔ وہ اپنی پسلی کی ہڈیاں کڑ کتی ہوئی محسوس کرتا اور سرکی کھوپری تڑختی ہوئی۔

    اس طرح وہ کام کئے چلا جاتا تھا۔ چھ سال قبل کا خوش باش، دوست دار نوجوان اپنے احباب سے الگ تھلگ ہو گیا تھا، اور اس کے چہرے پر ہر وقت منجمد سنجیدگی طاری رہتی تھی۔ وہ اپنے دوستوں یا شناساؤں کو اپنی کوٹھری یا رسالے کے دفتر میں لانا اپنی تضحیک سمجھتا۔ وہ اپنی پستی کی تشہیر کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس کا ایک دوست دور دراز علاقے سے ملنے آیا۔ اس ملاقات سے اسے سخت الجھن ہوئی۔ دفتر کی کوٹھری میں دونوں آمنے سامنے دیر تک بیٹھے رہے۔ کچھ یونہی سی رسمی، اکھڑی اکھڑی باتیں ہوئیں۔ اس کی دور ریز آنکھوں سے آشکارا تھا کہ وہ اس وقت یہی محسوس کر رہا تھا۔ گویا کوئی جیتے جی اس کی کھال ادھیڑ کر اس کی چیر پھاڑ پر تلا ہوا ہے لیکن نگاہوں میں التجا تھی اور کرب۔ کاش اس کا دوست نہ آیا ہوتا!

    ایک سال سے وہ اپنے گاؤں نہ گیا تھا۔ وہ تو اپنے کو مطبع کی مشین کے ایک پرزے کی طرح بنا دینا چاہتا تھا۔ اتنا ہی بے احساس، اتنا ہی نادیدہ۔ وہ کہیں نہیں جاتا تھا، کسی سے نہیں ملتا تھا۔ مگر آج رات کا خواب اس کے احساس کی چنگاریوں کو زندگی کی خاکستر سے کرید کر نکال رہا تھا۔ خود اسے صرف یہ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مبہم طور پر بےچین ہے، کسی کام میں اس کا جی نہیں لگ رہا تھا۔ نہ آئے ہوئے مضامین کی اصلاح و ترتیب ہو رہی تھی، نہ ادیبوں کو خط لکھا جا رہا تھا۔ اس نے پیڈا ٹھایا۔ ملک کے مشہور شاعروں اور افسانہ نگاروں کو خط لکھ کر مضامین اور نظموں کی استدعا کرنی تھی، پروہ ایک سطر بھی تو نہ لکھ پایا۔ اسے غیر واضح ڈر سا محسوس ہو رہا تھا کہ مضمونِ خط میں کچھ بھونڈ اپن رہ جائےگا۔ جس سے اس کی سبکی ہوگی۔

    وہ ڈی ایچ لارنس کے ایک افسانہ کا ترجمہ کرنے بیٹھا۔ ایک دو جملوں کے بعد اس کی طبیعت کی نارسائی کھلنے لگی۔ پھر اس نے ایک المیہ نظم لکھنے کی ٹھانی۔ دو بند بڑی سرعت سے وہ لکھ گیا، تیسرے بند پر موزونیت آکر جو اٹکی تو دس پندرہ منٹ کے صبر کے بعد وحشت ہونے لگی۔ اس نے ادب ودب کو تہہ کر کے رکھ دیا اور لگا سالنامہ کے لئے اب تک کے خرچ کا حساب پڑتالنے۔ مگر ہر دفعہ جوڑنے گھٹانے میں غلطی پر غلطی ہوتی جاتی اور بہت سے خرچ کی مدیں یاد ہی نہیں آتی تھیں۔ اس نے اکتا کر رجسٹر پٹک دیا اور مطبع میں لیتھو کے پتھروں کو دیکھنے چلا گیا۔ کئی پتھروں پر الفاظ کچے جمے تھے۔ ذمہ دار عملہ سے اس کی تو تو میں میں ہو گئی۔ چڑچڑا کر وہ شڈ سے باہر گلی میں نکل آیا۔ نلکے پر ایک دس سالہ لڑکی نہا رہی تھی۔ وہ اسے غور سے دیکھنے لگا۔ اس کے بھیگے ہوئے کپڑے جسم سے چپک چپک کر بدنما معلوم ہو رہے تھے۔ اس حال میں اس کا دبلا پتلا جسم اور نحیف دکھائی دیتا تھا۔ لڑکی کے چپٹے چپٹے جسم میں ناگوارسی زبونی کا تلخ احساس ہوا۔

    وہ اپنے دل کے نہاں خانوں میں کچھ کمی کا احساس پا رہا تھا۔ وہ پھر دفتر کی کوٹھری کے اندر چلا گیا۔ اب کے اس نے پروف دیکھنے شروع کئے۔ اس میں کتابت کی اتنی غلطیاں تھیں کہ وہ سالنامہ کی طرف سے مایوس سا ہونے لگا۔ اسے اپنے پر اعتبارنہ تھا کہ وہ ا س قسم کے سارے انبار کی تصحیح کر سکےگا۔ پریس کسی سنیما کا اشتہار چھاپ رہا تھا۔ اس کی سمع خراش گھڑگھڑاہٹ ادیب کے لئے دماغ سوز ہونے لگی۔ وہ آپ ہی آپ چڑچڑانے لگا۔ اس کا دل چاہنے لگا کہ یہاں سے ان ساری مشینوں کو توڑ پھوڑ کر بھاگ جائے اور بس بھاگتا چلا جائے۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا، اپنا پرانا گرم کوٹ پہن لیا اور پھر کرسی کا پشتہ پکڑ کر میز پر پڑے ہوئے انبار کو مبہم طور پر تکنے لگا۔ رات کا سارا خواب اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ پھر اس کے اندر عجیب سی بے چینی شروع ہوئی۔ وہ مطبع کے دفتر سے باہر نکل آیا اور تیز قدم اٹھاتا ہوا پرانی فصیلوں کی تنگ آغوش سے باہر نکل آیا۔

    مہینوں کے بعد اس نے ایسا کیا تھا۔ کئی ماہ ہوئے، وہ کاغذ کی تھوک خریداری کے لئے اس حلقے سے باہر نکلا تھا۔ آج اس کا جی چاہتا تھا کہ ساری ذمہ داریوں کو پھینک کر آزاد پھرا پھرے۔ بغیر سوچے سمجھے اس کے دل میں بہت سی واضح، غیر واضح خواہشیں پیدا ہوئیں۔ اور بہت سی نفرتیں بھی جاگ اٹھیں۔ اس کی حیات کابند سرچشمہ محبت و نفرت لئے ہوئے آج پھوٹ بہا تھا۔ آج وہ شالامار جانا چاہتا تھا، انار کلی کی سیر دل بھر کے کرنا چاہتا تھا، ٹھنڈی سڑک پر آدھی رات تک گرم نظارہ رہنا چاہتا تھا اور پھر نہ جانے کیا کیا کرنے کا آرزو مند تھا۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ کیا کیا، پر ایسا لگتا تھا کہ اور بھی بہت کچھ کرنے کو ہے۔ وہ باہر نکلنے سے عموماً اس لئے بھی گھبراتا تھا کہ اس شہر میں ہر جگہ ادیب و شاعر ہوتے تھے اور ان ادباء و شعراء کے درمیان افسرانہ فرقِ مراتب اور تاجرانہ رقابت و ساز باز پائی جاتی تھی۔ یہ اس بیچارے رے ادیب کے لئے بہت روح فرسا چیز تھی۔ وہ ڈرتا تھا کہ کہیں ان حضرات میں سے بزعم خود کوئی اونچا ادیب سر راہ نہ مل جائے۔

    مالی طور پر کامیاب ادباء و شعرا نیچی منزل والی ہستیوں کو بس ایک رینگتا ہوا کیڑا سمجھتے تھے۔ کامیاب ادیب بننے کی اسے تمنا تو ضرور ہوتی تھی مگر اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وہ کبھی اپنے متعلق کسی مغالطہ میں نہیں پڑ سکتا تھا۔ ہاں وہ یہ ضرور سمجھتا تھا کہ اگر اسے فضا ساز گار مل جاتی تو وہ بہتوں سے آگے نکل جاتا لیکن حالات نے رفتہ رفتہ اسے ایسا کچلا تھا کہ اب تو وہ اپنے کو بالکل بےوقعت سمجھنے لگا تھا بے نام و نشان، نیم ادبی و نیم تاجرانہ رسالوں کے دفتر کا حقیر سا ایک ملازم۔ وہ کبھی کبھی اپنا نام زیر لب لیتا، اسے دوہراتا اور کئی بار اس کی تکرار کرتا، مگر نام کے کوئی معنی مرتب نہ ہوتے، کوئی شخصیت ابھرتی نہیں۔ وہ تو گاہے آئینہ دیکھنے سے بھی جھجکتا تھا۔ دوسرے ادباء سے ملنا ملانا تو اس کے لئے وبالِ جان ہوتا تھا، مگر آج اس کے دل میں تمناؤں کے ساتھ نفرت بھی جاگ اٹھی تھی۔ وہ شہر بھر کے شعراء ادباء سے اتنی نفرت کر رہا تھا کہ وہ سارے کے سارے بےوجود ہوکر رہ گئے تھے۔ آج وہ ان کو استغنا کے ساتھ نظر انداز کرتا ہوا ان کے سامنے سے گذرنا چاہتا تھا۔

    اس کے قدم آگے بڑھتے گئے اور وہ کشاں کشاں لارنس باغ جا نکلا۔ سہ پہر ہو چکی تھی۔ دوپہر کی ہلکی سنہری دھوپ لارنس کے درختوں سے اختلاط کر رہی تھی۔ اکاد کا لوگ باگ سیر کرنے کے لئے آ رہے تھے۔ ادھر ادھر ٹولیاں بھی نظر آ جاتی تھیں۔ یہ باغ اس کے لئے نیانہ تھا لیکن اس وقت اسے نیا معلوم ہو رہا تھا۔ اس کی ہمدردی، وسعت، ’’اس کی آبادی‘‘، اس کا سکون ادیب کے لئے نا آشناسی مسر ت پیدا کر رہے تھے۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ چپہ چپہ پر لیٹ کر سبزۂ بیگانہ کو، جو ابھی یگانہ محسوس ہو رہا تھا، اپنی آغوش میں لے لے اور خود اس کی گود میں چلا جائے۔ وہ بلند و بالا درختو ں سے لپٹ جانے کا آرزومند تھا۔

    آخر وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا۔ اس اقدام سے اسے ناقابل بیان سرور حاصل ہو رہا تھا، خاص سرور۔ ٹیلے کی مدور صورت، اس کا بھرپور، گداز اور دعوت کناں رفعت! اوپر جاکر ادیب لیٹ گیا اور نیلے آسمان میں اپنے تصورات، خیالات اور اپنی آرزوؤں کو گھولنے لگا۔ زمین کی کھلی آغوش اتنی پیاری معلوم ہوئی اور اتنی محبت کناں کہ لیٹے لیٹے اس کی آنکھوں میں درد الفت اور بجہت وسپاس گذاری کے آنسو امڈ آئے۔ آسمان کی آزادی بخش روحانیت، اس کی منزہ، مطہر فضا ادیب کی روح کو اپنی طرف بلند کر رہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر آسمان نیلا نہ ہوتا تو فطرت کی کتنی نامہربانی ہوتی۔ آسمان کی نیلاہٹ آج اس کے لئے نیا پیام تھی۔ وہ اپنے خواب کو اس کی گہرائیوں میں تحلیل کر کے پھیکا، بےاثر، ہیچ کر چکا تھا۔ فی الحال وہ اپنے آپ کو زمین و آسمان کا ایک جز محسوس کر رہا تھا اور ان کی عظمت، وسعت، رفعت اور محبت کا شریک۔ رخصت ہوتا ہوا آفتاب رقص کناں پتوں پر آب زر چھڑک رہا تھا۔ جس کے چھینٹے ادیب پر بھی چھن چھن کر پھوار کی طرح گر رہے تھے۔ وہ ازلی و ابدی لذت و سرور میں گم تھا۔

    ایک ریشمی آواز نے اس کی توجہ اپنی طرف منعطف کی۔ ایک جوڑ اٹیلے کی خاموش تنہائیوں میں مخل ہوا تھا۔ ادیب کو انھیں دیکھ کر وقت کا احساس ہوا۔ اس نے نیلی ساٹن کی شلوار اور استرخانی اوورکوٹ کو عجیب بیکسانہ نظر سے دیکھا اور اس کے اندر ملفوف ہستی کے متعلق جاگتے خواب دیکھنے لگا۔ آنے والا جوڑا بنچ پر بیٹھ گیا اور مرد چڑچڑائی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ ادیب کوتلخ بیگانگی کا احساس ہوا۔ اس نے پناہ کے لئے لڑکی کی آنکھوں کی طرف آنکھیں اٹھائیں مگر وہاں اسے نمایاں بے توجہی اور دل شکن بعد و غیریت کا سراغ ملا۔ وہ ٹیلے سے نیچے اترنے لگا اور شاید فردوس گم شدہ آدم سے بھی زیادہ تلخ کیفیت میں مبتلا وہ ٹیلے سے نیچے اتر کے بے خبری کے عالم میں لارنس سے باہر نکل آیا۔ کھوکھلی سی روح فرساکمی کی تلخیاں لئے ہوئے وہ چلتا گیا، چلتا گیا۔ بالکل غیر شعوری طور پر وہ ٹھنڈی سڑک سے بھی گذر گیا اور اسے اس کا احساس تک نہ ہوا۔ وہ زمان و مکان کے بےرنگ و نور خلا میں ڈوبا جا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کا دل سینے میں نہیں۔ اس کا دماغ کھوپڑی کو خالی چھوڑ کر فنا ہوگیا۔ ساکن ویرانی، لا انتہا، بےآسرا، مجہول۔ راہ میں انار کلی بھی ملی۔ آباد، پر رونق، رواں دواں، سرگرم، رنگین گویا خند اں انار کلی، مگر وہ گذر تا گیا۔ کون جانے وہ کہاں جاتا مگر اسے لاہوری دروازہ پر شہر کا ایک اور ادیب مل گیا۔

    ’’کہئے جناب سالنامے کب نکل رہے ہیں؟ مضامین کی آپ کے پاس کمی تو نہ ہوگی؟ کیوں؟‘‘ وہ چونک پڑا۔ ٹھٹک گیا۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے دفتر کی طرف چلا جا رہا ہے۔ مگر وہ قدیم شہر کی بے رحم فصیلوں، تنگ ظرف گلیوں اور اندھے بہرے گونگے مکانات کے اندراپنے کو دفن کرنے سے گھبرانے لگا۔ وہ پلٹ پڑا۔ وہ ایک بار پھر انار کلی میں تھا۔ شام جو ان اور رسیلی ہوکر رات میں تبدیل ہو چکی تھی۔ برقی شمعلیں جل چکی تھیں۔ دکانیں دلہنوں کی طرح سجی ہوئی تھیں جیسے کا جل حسین آنکھوں کو محشرستان بنا دیتا ہے، اسی طرح رات نے انار کلی کو جادو نگار بنا دیا تھا۔ زریں کلاہوں سے لپٹی ہوئی پگڑیاں، خوش وضع سوٹ، نئی قماش کے سوئٹر، گلوزیب مفلر، چمکتے ہوئے جوتے، لہراتی ہوئی اوڑھنیوں، پھسلتے ہوئے جمپروں، چست کوٹوں، نظر نواز سموروں اور طرحدار گرگابیوں سے ناز و نیاز میں مشغول تھے۔

    دکانیں اپنے خزانے لٹا رہی تھیں اور جیبیں جذبۂ عطا سے الٹی پڑتی تھیں۔ گوری گردنیں، فراخ بازوؤں کو حمائل ہونے کے لئے بلا رہی تھیں۔ بالا و بلند سرو ناز دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ جسموں کے مد و جزر سے جذبات اور تخیلات میں نقرئی لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔ دائرے اور خطوط، نشیب و فراز، نور اور سائے، صورتیں اور خیال، خندہ ریزیاں اور مسکراہٹیں، گفتگو اور سرگوشیاں، حرکت و سکون سب مل کر زندگی کے تنوع کا ایک مجموعی احساس پیدا کر رہے تھے۔ تانگے اور موٹریں، ریڈیو کے نغمے اور ہوٹلوں سے آنے والی اشتہا خیز خوشبوئیں، گریزاں دامنوں کی عطر بیزیاں، خوبصورت ہمکتے ہوے بچےاور ان کی گداز سینہ مائیں، جوان اور ادھیڑ عمر کی عورتیں اور مرد، چھلکتے ہوئے پیمانوں کی طرح کالج کے بالیدہ نوجوان اور شوخ، چنچل اور تھرکتی ہوئی تیتریاں۔ یہ ساری موجیں انار کلی کے ایک دھارے میں وصل ہو ہو کر غلطاں اور رواں تھیں۔

    زندگی کی گرم سانسوں سے سڑک اور دوکانوں کی فضا ایسی بوجھل ہو رہی تھی جیسے پر نمو بہار کی سہ پہر کود امنِ چمن۔ ادیب مسحور ہو کر رہ گیا۔ وہ کپڑوں کی دوکان میں گیا اور سوٹ کے طرح طرح کے کپڑے نکلوائے۔ ٹوٹیڈ، سرج، در سٹیڈ، گبرڈین، فلالین، کشمیرے، استرخان، پشمینے۔ یہ سب چیزیں نکلوا کر اس نے اس طرح دیکھیں جیسے وہ بہت سی شیروانیاں بنوائےگا۔ بہت سے کوٹ اور ایک دو چسٹر اور اوور کوٹ۔ اس نے قمیص کے کپڑے ملاحظہ کئے، سوئٹر کے نئے نئے ڈیزائن بہت سنجیدگی سے پسند کرتا رہا، پھر وہ جوتے اور ٹوپیوں کی دکانوں میں باری باری گیا اور جدید فیشن کی چیزیں دیکھیں بھالیں۔ پارچون کی دکان میں اس نے کریم پاؤڈر، اسنو، سینٹ، پائتابے، ٹائیاں، رومال، بٹنوں کے سٹ نکلوائے اور ان سب کا اس طرح جائزہ لیتا رہا جیسے وہ الہ دین ہے اور الف لیلہ کے کسی جادوگر نے ایسے باغ میں پہنچا دیا ہے جہاں مرجان کی شاخیں، نیلم کے پتے، زبر جد کی کلیاں، لعل و یاقوت کے پھول پھل ہیں۔ اس پر ایک عجیب حال طاری تھا۔ وہ اس سنجیدگی کے ساتھ دکان دکان پھر رہا تھا جیسے وہ ان چیزوں سے اپنے دامن کو بھر لے گا مگر وہ ہر دکان سے یہ کہہ کر لوٹ آتا کہ اسے چیزیں پسند نہیں آئیں۔

    ایک مجسمہ نے اس کی توجہ اپنی طرف پھیر لی۔ وہ دوکان کا ایک نمائشی مجسمہ تھا۔ ایک عورت کا مجسمہ، مگر اسے سچ مچ کی خوبصورت ساڑھی پہنائی گئی تھی۔ اس کی طبیعت میں گداز پیدا ہوا، دل میں درد اٹھا۔ ہلکا، مگر قلب کی گہرائیوں میں پیوست۔ بیساختہ اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ اس مجسمے سے لپٹ کر رونے لگے۔ وہ اس مجسمہ کو پہچان سا رہا تھا، جیسے وہ ایک بچھڑی ہوئی عزیز ہستی سے سرراہ زمانے کے بعد ملا ہو۔ ادیب کے دل میں اچانک ایک ہوک سی اٹھی۔ وہ انار کلی کی ساری چیزیں اس حقیقی مگر موہوم وجود کے قدموں پر لاکر ڈال دینا چاہتا تھا۔ اسی جذبہ کے ما تحت اس نے پھر دکانوں میں ساڑھیاں، بلاؤز کے کپڑے، گرگا بیاں اور زنانہ سوئٹر دیکھنے شروع کئے۔ اس نے ایسا محسوس کیا جیسے ساڑھیاں، بلاؤز، گرگابیاں گھر میں کافی ہوں اور فی الحال ضرورت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہم سوئٹر کوٹ ہو۔

    اس نے دس بارہ ڈیزائن دیکھنے کے بعد ایک سرمئی رنگ کا فردار زنانہ سوئٹر کوٹ پسند کر لیا۔ دوکان دار سے مول جول بھی ہوا۔ بات طے ہو گئی۔ پیکٹ بندھ گیا اور اسے خرید لینے کی لذت بھی حاصل ہونے لگی۔ قیمت ادا کرنے کے لئے اس نے اپنی جیب میں ہاٹھ ڈالا۔ پرس نکالا، اسے کھولا، اس کے اندر صرف چند آنے پیسے تھے۔ اسے خود بھی جیسے تعجب سا ہوا۔

    ’’اچھا! اوہو! بڑی غلطی ہوئی، میں کافی روپئے ساتھ نہیں لایا۔‘‘ اس نے بغیر جھجک، بلا حجاب دکاندار سے معذرت کی۔

    ’’کوئی حر ج نہیں۔ آپ کی پسند کی ہوئی چیز ایسے ہی رہنے دیتا ہوں۔ آ کر لے جائیےگا۔‘‘ دکاندار نے جوا ب دیا۔

    ’’بس اسی پیکٹ میں۔ میں ابھی آیا۔‘‘

    وہ دوکان سے باہر چلا آیا۔ اس نے گویا سوچا کہ ایک کام رہ گیا ہے، اسے کرتا ہی چلے۔ کھلونوں کی دکان پہ جا کے اس نے تین آنے کی ایک گڑیا لی اور دو آنے کا ایک باجہ۔ وہاں سے سیدھا اپنی کوٹھری کی طرف چل پڑا، جیسے واپس آ کر اسے فوراً سوئٹر کوٹ لے جانا ہے۔ کوٹھری کے دروازے پر اسے رسالوں کے دفتر کا ایک کاتب ملا کہنے لگا، ’’آپ کی تلاش ہو رہی تھی جی، پتہ نہیں آپ کہاں چلے گئے تھے؟ مولوی صاحب ناراض ہو رہے تھے۔ کئی آدمی آئے آپ کو ڈھونڈھنے۔‘‘ ادیب کو ایسے معلوم ہوا جیسے اچانک وہ دوسری دنیا میں آ گیا۔ جو بےحد جانی بوجھی ہوئی اور قاتل ہو جانے تک گلوگیر تھی۔ اسے اتھاہ، ڈبو دینے والی تکلیف کا احساس ہوا۔

    وہ دفتر نہیں گیا بلکہ کوٹ پہنے ہوئے بستر پر اسی حالت میں دھم سے گر کر لیٹ گیا۔ اس نے سوئٹر خرید لیا تھا۔ ا سے لے کر وہ گھر واپس لوٹا۔ وہ جانی پہچانی ہوئی عزیز ہستی جو اب اس کی رونق کا شانہ ہو چکی تھی، اس کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی تھی۔ بہت سے گلے شکوے ہوئے اور بہت سی پیار کی باتیں۔ سوئٹر، جدید وضع کاسر مئی سوئٹر اور اس پرسیاہ فر۔ اس عزیز ہستی نے سوئٹر پہن لیا۔ گوری گوری گردن پر سیاہ فر، جیسے رات کی آغوش میں چاندنی مچل رہی ہو۔ وہ کتنی حسین، کتنی وفا شعار، کتنی محبت کناں تھی۔ ادیب کی دنیا کیسی کامران۔ کیسی خوش آئند، کیسی شاداب تھی۔ اس نے اپنی نازش حیات کو گلے لگا لیا، جیسے وہ بالکل بھول گیا تھا۔

    اچانک اپنی جیب سے اس نے کھلونے نکالے اور اپنے بچے کے لئے بھی تحفہ دینے لگا۔ اسے اپنے بچے کا کتنا خیال تھا۔ پیار اسا ہمکتا ہوا بچہ، پربچہ سامنے نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ بچہ بھی سامنے ہوتا اور ماں بچے کو گڑیا لے کر ہنستے دیکھتی تو اور زیادہ خوش ہو جاتی مگر جب وہ اپنی سرمایۂ زندگی کو بچے کے کھلونے دینے لگا تو وہ رنجیدہ ہوکر ہٹ گئی۔ مغموم، دل شکستہ، درد ناک۔ وہ سرد آہیں بھرنے لگی۔ اس نے نہایت ہی اداس لہجے میں کہا، ’’بچہ! مجھے بچہ کہاں؟‘‘

    اب وہ جانی پہنچانی ہوئی عزیز ہستی مجسمہ بن گئی، بالکل مجسمہ۔ ساکت، بے حس، بے جان! ادیب بے تاب ہو گیا۔ اتنا بےتاب کہ اس کی نیند اچٹ گئی۔ وہ بیدار ہو گیا۔ اس پر اذیت، تلخ اذیت کا احساس طاری تھا۔ کوٹھری میں اس کا ساتھی خراٹے لے رہا تھا۔ اور وہ کوٹ کی جیب سے کھلونے نکال کر گڑیا کی ٹانگ اور ہاتھ اکھیڑ رہا تھا۔ وہ رات بھر جاگتا رہا۔

    اس نے پھر یہ دوسرا خواب دیکھا تھا۔

    مأخذ:

    اختر اورینوی کے افسانے (Pg. 182)

    • مصنف: اختر اورینوی
      • ناشر: بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے