Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انارکلی

MORE BYرابندرناتھ ٹیگور

    انار کلی کون تھی؟ 

    انارکلی ہندوستان کے شہنشاہ اکبر کے شاہی محلات کی ایک باندی زاد حسینہ جو انارکلی کے نام سے مشہور ہوئی۔ ایک مرتبہ وہ باغیچہ میں کھڑی تھی، شہنشاہ اکبر وہاں آئے اور انہوں نے ہنسی مذاق میں اس کو انارکلی کے نام سے پکارا، بس تب سے ناد رہ کا نام انارکلی پڑ گیا۔ وہ بلا کی خوبصورت تھی۔ 

    اک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
    اُف تیری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی

    انارکلی کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا تھا کہ وہ کھلتی ہوئی کلی ہے۔ یہ معصوم معشوقہ انارکلی نہایت حسین پیاری پیاری لڑکی تھی، جس کا جسم انار کے پھول کی طرح خوبصورت اور نازک تھا۔ شاہی بیگمات بھی انارکلی کے حسن پر جی جان سے شیدا تھیں۔ جب یہ پیاری پیاری حسین چڑیا انارکلی شاہی محلات کی چاردیواری کے محدود سے میدان میں ہنستی، مسکراتی، کھیلتی، دوڑتی۔۔۔ گویا ہرن کے پیارے پیارے بچے کی طرح اٹھکیلیاں کرتی اور خرام کبک رفتار کی طرح اپنی مستانہ چال سے دلوں کو لبھاتی ہوئی پھرتی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حسن معصوم کی دلکش جھلک عشق کے سرسبز میدانوں میں چوکڑیاں بھرتی ہوئی ادھر سے ادھر اور ادھر سےاِدھر اپنی نازک خرامی میں مصروف کار ہے۔ گویا جس طرح پھولوں کی خوب کھلی کنج میں نغمہ خاموش گاتی ہوئی اڑنے والی ہے خوش خرم اور پیاری پیاری سی تیتری۔ 

    حسن معصوم کی یہ پیاری پیاری جھلک انارکلی کس طرح ناشگفتہ رہ سکتی تھی۔ اس کلی کی مانند وہ کھل اٹھی جس کو کہ آفتاب کی پرنور اور سنہری شعاعوں نے اس کی خوبصورتی میں جوش اور اٹھتا ہوا طوفان برپا کردیا ہو، گویا آمدشباب نے انارکلی کے اٹھلاتے ہوئے جوبن کو چار چاند لگادیے، جس سے معصوم حسن کامل بن گیا۔ پھر تو۔۔۔ 

    پہلے ہی کیا کم تھے اب تو اور ستم ڈھانے لگے 

    گویا انارکلی پر شباب کا امڈتا ہوا سیلاب سا آ گیا۔ وہ معصوم حسینہ سے نوجوان نازنین میں تبدیل ہو گئی۔ 

    شباب کے اس قیامت خیز طوفان نے حسن میں ایک طلاطم سا برپا کر دیا تھا۔ نور کے جلوؤں میں تڑپتی کاربوں نے آبنائے حسین میں اس طرح کا مدوجزر پیدا کردیا تھا کہ توبہ توبہ۔۔۔ انارکلی حسن معصوم کے کمسن پودے کی طرح معصوم سی کلی سے نوجوان پودے کی شباب آور کلی اور چٹک سے غنچے کی نمایاں کلی میں تبدیل ہوچکی تھی۔ اسے لڑکپن کی کھیل کود ماضی کی یاد بن کر رہ گئی تھی۔ معصوم کلی کی مسکراہٹ میں ایک حیرت انگیز مادہ تھا۔ ایک لامتناہی سحر تھا جو سب پر قابو پال یتا۔ اس کی سیاہ سی آنکھوں میں کالے جادو کی بےخطا کشش تھی۔ وہ لاکھوں خوبصورتیوں سے بڑھ چڑھ کر دل پذیر تھی۔ لیکن اب تو سحر سامری اور سلیمانی جادو نے جوانی کے جوش میں ایک اٹھتا ہوا طلسم سا بھر دیا تھا۔ انارکلی آرام سے ایک ثانیہ کا قلیل سا وقفہ بھی نہ گزار سکتی تھی۔ ہر لمحہ وہ نئی ادا کا سوانگ بھرنے والی مجسمہ سا بن جاتی۔ 

    شاہی محل میں رہنے والی تمام حسین و جمیل عورتیں حتی کہ کنیزیں بھی انارکلی کو دیکھ کر سرد آہ بھرتیں، کیونکہ اسے دیکھ کر ان کو اپنی جوانی کی گزری ہوئی کہانیاں پھر سے یاد آجاتیں۔ جب انارکلی کی ہم عمر معشوقیں اسے چھیڑ چھاڑ کر کہتیں، ’’آہا اب تو کلی کھلنے لگی ہے۔۔۔‘‘ تو انارکلی ایک خاص طرز کے نازوعشوہ سے ادا ولربائی سے اپنے یاقوتی لبوں پر مٹھاس کی شوخ سی مسکراہٹ لاکر کہہ اٹھتی، ’’کیوں نہ کھلے گی۔‘‘ غرض یہ کہ معصوم انارکلی نوجوان انارکلی میں تبدیل ہو گئی۔ 

    شاہی محل میں کسی قسم کا پردہ نہ تھا۔ انارکلی کے حسن پر سب سے پیشتر جس کی عشقیہ آنکھ پڑی وہ کوئی دوسرا نہ تھا، بلکہ شہنشاہ وقت کا فرزند ارجمند ولی عہد سلطنت شہزادہ جہانگیر تھا۔ 

    ’’انارکلی تو میری ہے اور صرف میری ہے۔‘‘ 

    اداؤں کی پتلی انارکلی بذات خود ان دلکش اداؤں کا مجسمہ تھی اور یہ کہ اسے ایک دفعہ دیکھ لینے سے ہی دل مارے محبت کے مضطرب سا ہو اٹھتا تھا۔ اس کے حسن دلکش نے شہزادہ سلیم (جہانگیر) کو اپنے عشقیہ چنگل میں پھانس لیا تھا اور جہانگیر کسی ایسے مناسب موقع کا منتظر تھا کہ وہ اس سے اپنے دل دیوانہ کی یہ بات صاف طور سے کہہ دے، ’’انارکلی مجھے تم سے عشق ہے۔‘‘ 

    ایک روز بہار کی شام تھی۔ بارش نے بند ہوکر سب چمن کو کھلا دیا تھا۔ باغ کی کیاریاں، پودے اور سب کچھ بارش کے پانی سے غسل کرکے صاف شفاف سے ہو گئے تھے۔ موتیا کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو بادنسیم سے ہم آغوش ہوکر ایک عجیب سا لطف پیدا کر رہی تھی۔ پتوں سے بارش کے پانی کی ٹپ ٹپ کرتی بو ندیں ایک عجیب طرح نغمہ سرا تھیں۔ بارش کے پانی سے آسمان نے بھی غسل کر لیا تھا اور اب چاند کی چاندنی درختوں کے گھنے گھنے پتوں سے چھن چھن کر گزر رہی تھی۔ 

    بہارستان کی اس عجیب وغریب شب ماہ میں انار کلی سنگ مرمر کے فرش پر چہل قدمی کرتی ہوئی اپنے آرا کی تلاش میں سرگرم عمل تھی۔ آرا کون تھا؟ اس کا پالتو غزال، ننھا سا ہرن۔ 

    ’’آرا، آرا، آرا۔‘‘ اس کی مٹھاس بھری سریلی آواز کی پکار کے جواب میں سونے کے گھونگھروؤں کی چھنچھناتی ہوئی ایک ہلکی سی آواز سنائی دی۔ 

    ’’آرا۔ آرا۔‘‘ انارکلی کی آواز پھر گونج اٹھی اور اس کے ساتھ ہی چھن چھن کی آواز اس طرح سے سنائی پڑتی تھی۔۔۔ کبھی دور سے کبھی نزدیک سے، جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ہرنی کے بچے نے اس کی آواز سن لی ہے ورنہ وہ اس کی آواز کا جواب کیوں کر دے رہا تھا۔ مگر وہ کہاں تھا۔ اگر وہ کہیں آزاد ہوتا تو آرا، آرا کی پہلی صدا میں ہی تیز دم چوکڑیاں بھرتا ہوا نہایت خوشی سے انارکلی کے نازک نازک اور پیارے ہاتھوں میں پہنچ جاتا۔ انارکلی نے پھر پکار لگائی۔ پھر وہ جھانجن کی جھنکار سنائی دی۔ آخر اس سے نہ رہا گیا اور وہ آواز کے جھولے پر ہولی، جس طرف سے کہ جھنکار آ رہی تھی۔ اب انارکلی شاہی باغیچہ کے ایک غیرآباد سے گوشہ میں پہنچ گئی۔ نازک اور پیاری انارکلی ہار نزاکت کا بوجھ نہ اٹھا سکی۔ اس نے تھکی ہوئی تکلیف دہ آواز میں محبت کی ایک خواہش پیدا کرکے پھر پکار لگائی، ’’آرا، آرا۔ کہاں ہے تو بدبخت؟‘‘ 

    اس اثنا میں وہ غزالی بچہ ایک درخت کی آڑ سے چوکڑیاں بھرتا ہوا نمودار ہوا اور انارکلی کے محبت بھرے ہاتھوں کی معصوم سی گرفت میں پہنچ گیا۔ بہارستان کی پرشباب شب، وہ وقت، اپنی خاموشی سے غزالی بچے کے اگلے تیز پاؤں میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھونگھروؤں کی جھنکار کو اور بھی دلچسپ سا بنا دیا تھا۔ انارکلی نے عالم خود فراموشی سے غزالی بچے کو چوم چوم کر پچکارا اور پیار کرتے ہوئے بولی، ’’آرا۔ آرا۔‘‘ 

    اور اس کے بعد محبت کے معصوم جوش میں اپنی گوری گوری باہیں اس کے گلے میں ڈال دیں اور اس کو کھینچ کر منہ سے لگا لیا۔ پھر کھینچ کر ایک میٹھا سا بوسہ دینے کے بعد بولی، ’’ارے تو اب تک کہاں تھا۔ تجھے کس نے پکڑ رکھا تھا۔‘‘ 

    ’’میں نے۔‘‘ 

    ایک آواز آئی۔ انارکلی نے خوفزدہ آنکھوں سے اس طرف دیکھا۔ ایک نوجوان کھڑا مسکرا رہا تھا۔ وہ بولا، ’’میں نے تمہارے آرا کو پکڑ رکھا تھا۔‘‘ انارکلی شرم سے دوچار ہوگئی۔ اس کے عارض گلفام حیا کی سرخی سے سرخ ہوگئے۔ اس نے چہرے پر نقاب کھینچ لی اور نوجوان کو مؤدبانہ طور سے سلام کرکے بولی، ’’معاف فرمائیے حضور، مجھے معلوم نہ تھا کہ۔۔۔‘‘ اس کے بعد اس کی آواز میں کانپتی ہوئی خاموشی سی پیدا ہو گئی۔ 

    ’’نہیں نہیں انارکلی، چاہیے تو مجھے کہ تم سے معافی مانگوں۔‘‘ نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر ذرا قریب آکر بولا، ’’پیاری انارکلی تم جانتی ہو کہ میں نے تمہارے ہرن کو کس لیے روکے رکھا تھا؟ صرف اس لیے کہ اس کی چشم غزالی تمہاری آنکھوں جیسی ہیں۔‘‘ انارکلی تصویرِ خاموش بنی سب کچھ سنتی رہی۔ اس کے کانوں نے اس سے پیشتر بھی سن رکھا تھا کہ شہزادہ سلیم اس پر جی جان سے شیدا ہے لیکن اب تو شہزادے کے اپنے لبوں سے اقرار عشق سن کر اس کے دل کا شک و شبہ کافور کی طرح اڑ گیا۔ 

    انارکلی کے دل پر ایک قدرتی خوشی برسات کے بادلوں کی طرح چھائی ہوئی تھی۔ وہ خاموش سی کھڑی تھی اور شہزادہ سلیم اس کے قریب ہی محبت کی للچائی ہوئی مست آنکھوں سے اس کو دیکھ رہا تھا۔ جیسے اس کی آنکھیں کہہ رہی ہوں۔۔۔انار کلی تم اپنے کو ان آنکھوں میں دیکھو، پھر سمجھو کہ تم کون ہو۔ میں کون ہوں اور حسن و عشق کس چیز کا نام ہے۔ 

    انارکلی شرمائی ہوئی پری کی طرح نیچی نظریں کرکے مسکرائی اور پھر تیر محبت چھوڑتی ہوئی آنکھوں سے سلیم کی طرف دیکھا۔ سلیم نے اپنے بامحبت بازو اس کی صراحی دار گردن میں ڈال دیے اور اس کو سینے سے لگاکر جوش محبت سے بولا، ’’انارکلی، تو میری ہے اور صرف میری ہے۔‘‘ انارکلی کچھ لڑکھڑائی۔ سلیم کے بازو اس کے گلے میں محبت کی مالا سی بنے ہوئے تھے۔ وہ ایک طرف کو کھسک گئی۔ 

     آرا چونک پڑا۔ جیسے اس نے کوئی خواب دیکھا ہو۔ انارکلی نے آرا کی طرف دیکھا۔ اس کی غزالی آنکھوں میں آنسوؤں کے دوقطروں کا تار لپکے ہوئے موتیوں کی طرح چاند کی نورانی کرنوں کے ٹھنڈے اجالے میں نظر پڑا۔ 

    *

    کیا انارکلی دراصل بہت حسین تھی؟ 

    یہی ایک سوال تھا جو اس کے اپنے دل میں پیدا ہوتا تھا۔ پھر دنیا کے دل میں کیوں پیدا نہ ہوتا۔ تمام شب وہ جاگتی رہی۔ سو نہ سکی۔ اس کا بخت چمک اٹھا تھا۔ گزشتہ شام کے واقعہ نے اس کی نیند حرام کردی۔ شہزادہ سلیم کے اس عجیب و غریب و اچانک موقعہ کے آزاد عشقیہ اظہار نے ا یک قابل ذکر مسرت کی اٹھتی ہوئی مدوجزر اس کے بحر جسم میں موجزن کر دی تھی۔ 

    انارکلی ایک بحر تخیل میں غوطہ زن تھی۔ اس کا دل حیرت آمیز مسرت کے نہ مٹنے والے خوابوں پر تھا۔ اس کی مستانی آنکھیں معصوم سی کلی کی طرح بند تھیں۔ لیکن وہ بیدار تھی۔ اس وقت اس کے خانہ دماغ میں محض گزشتہ خیال کے واقعات خواب کی طرح اٹھ رہے تھے۔ وہ گزر ی ہوئی بامحبت شام کے ہر ایک چھوٹے چھوٹے واقعہ پر ازسرنو غور کرنے میں مشغول تھی۔ 

    سلیم نے اسے یوں پکارا تھا، ’’انارکلی تم میری ہو اور صرف میری ہو۔‘‘ 

    آہ! شہزادہ کی زبان میں کس قدر مٹھاس بھری تھی اور انارکلی نے اپنے چاند سے چہرے اور شرم کی سرخی کو کس طرح سے دور کرتے ہوئے محسوس کیا تھا کہ وہ کس طرح سلیم سے بغل گیر ہو گئی اور کس محبت سے کپکپی میں لڑکھڑاتی ہوئی اس کی آغوش الفت سے کھسک کر ایک طرف ہو گئی۔ کس طرح دونوں کی آنکھوں نے محبت کے اشارے پھینکے تھے۔ اس کی آنکھوں میں محبت کی کتنی خواہش بھری تھی اور اس کی آنکھیں کس طرح کی ناچیز ترین قلیل سے عرصہ کی انکساری و عاجزی اور اس کے ساتھ ہی طلب معافی کی معصوم کی درخواست کااظہار ہوتا تھا۔ جس نے انارکلی کو ازخود دارفتہ سا بنا دیا تھا۔ 

    اف! اس کے بعد کیا ہوا۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ وہ پرلطف گھڑی بھی بہتے ہوئے پانی کی طرح گزر گئی۔ جب محبت کے دو طرف لب ایک دوسرے سے مل گئے تھے۔ تب کیا ہوا تھا۔ یہ ہوا تھا تب دونوں کے رخسار ایک دوسرے کو گلاب کی معصوم سی پیاری پیاری پنکھڑیوں کی طرح محسوس ہوتے تھے۔ اس کے دل میں پوشیدہ سا خیال اٹھا اور اس نے بار بار محسوس کیا کہ اس کا دل دھک دھک کر رہا ہے لیکن اس کے فوراً ہی بعد انارکلی کو اپنے مسرت کامیابی اور سرکار حسن کی فتح کا خیال آ جاتا تھا۔ یہی دو خیالات تھے جنہوں نے اس کے دماغ پر قبضہ کر رکھا تھا۔ تب انارکلی کی سوچ کس طرح ہو سکتی تھی۔ 

    بیمار محبت کو کب آتی ہے نیند
    کروٹیں لیتے ہی لیتے اڑ جاتی ہے نیند

    محبت، عشق صرف یہی ہے۔ شہزادے نے اس سے اقرار عشق کیا۔ کس قدر حیرت کا مقام تھا۔ یہ وہ اچھی طرح سے نہ سمجھ سکی کہ یہ واقع کس طرح ہوا۔ کیا وہ درحقیقت خوبصورت تھی اور نہایت حسین؟ ہاں! اسے خود اس بات کا یقین سا ہو چکا تھا کہ وہ دنیا کی خاص حسینہ ہے۔ پس اس پرمسرت خیال نے اس حسین باندی کو گرویدہ بنا دیا تھا سلیم کا، جس نے اسے حسینہ کہا تھا۔ محبت اور عیش کی زندگی بسر کرنا کس قدر دلچسپ خیال ہے۔ ایک لمحہ کے لیے مستقبل کی سیر بہار زندگی کا منظر اس کی آنکھوں میں کھینچ گیا۔ 

    شہزادہ سلیم اسے اپنے من کی ملکہ بنائے گا اور محبت کا یہ حسین جادو دونوں کو وادی عشرت کی طرف لے جائےگا۔ 

    آہا۔ مبارک گھڑی۔ آجلد آ۔ برائے خدا جلد آ۔ 

    اس طرح کشش عشق میں انارکلی تخیل میں غوطہ زن تھی۔ عیش و عشرت سے آرام وہ جھرنے سے خوشی کا بہتا اچھلتا سیلاب امڈ آیا اور اس نے انارکلی کے جسم کو تہ آب کردیا۔ ہرلمحہ اس کے لیے ایک محبت کی پہیلی تھی، جسے حل کرنے کی کوشش کرتی لیکن کھولتے کھولتے خود پہیلی بن جاتی۔ 

    کشتہ الفت شہزادہ سلیم نے بھی انارکلی کی طرح رات گزار دی۔ اس کا اٹھتا ہوا عالم شباب تھا۔ ابھی اس نے سن بلوغت میں قدم رکھا ہی تھا مگر اس سے بڑھ کر اور کون زیادہ محبت کسی سے کر سکتا ہے۔ جس کے دل میں بھولےپن کے ساتھ جوانی کا جوش اور منچلا پن بھی ہو۔ راہ عشق میں گامزن ہونے کے لیے سلیم کا یہ سب سے پہلا کارنامہ تھا۔ وہ صرف انارکلی سے ہی دوچار ہوا تھا۔ اس سے پیشتر اس کا دل کسی اور پر نہیں آیا تھا۔ 

    سلیم۔۔۔ بیتاب سلیم کے دل پر تصور تھا۔۔۔ انارکلی۔۔۔ اس کی غزالی آنکھوں کا۔۔۔ اس کی میٹھی میٹھی باتوں کا۔۔۔ اس کے حسین عالم منور چہرہ کا اور سرخ سرخ رخساروں پر شرم دنیا کی اٹھتی ہوئی لہروں کا۔ رات کو وہ کب آیا، یہ اسے معلوم نہ ہوا اور ہوتا بھی کیسے۔۔۔ وہ خود فراموش ہوتے ہیں عشق کمانے والے۔ 

    چند روز کے بعد۔۔۔ 

    شاہی محل کے آراستہ و پیراستہ دربار میں عیش و طرب کا ایک خاص جلسہ منعقد ہوا۔ شہنشاہ اکبر کو علم موسیقی کا خاص شوق تھا اور ہر شام کو اپنے کانوں سے نغموں کی دنیا آباد کرنا اس کا معمول تھا۔ ناچنے گانے میں انارکلی بے حد ماہر تھی۔ یہی باعث تھا کہ وہ شہنشاہ اکبر کی آنکھوں میں چمک سی بن کر رہ گئی تھی۔ گانے بجانے کا کوئی جلسہ بھی اس کی عدم موجودگی سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچتا تھا۔ 

    شہنشاہ اکبر اپنا بہت سا وقت شاہی بیگمات کے ساتھ سیر کرنے میں گزارتا تھا۔ ہر روز انارکلی کو اس کے سامنے اپنے فن نازک کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا۔ آج جب کہ اکبر کا شیش محل چمکتی ہوئی رنگ برنگ کافوری شمعوں سے چودھویں کا چاند سا بنا ہوا تھا، کم خواب کے فرش پر وہ بیگمات کو اپنے ساتھ ساتھ مسند شاہی پر بٹھائے ہوئے حسن و عشق کی پرمسرت وادی میں ڈوبا ہوا تھا اور کئی ایک نازنین کنیزوں کے حلقہ باندھے ناچ گانے نے ایک اور ہی دلکش سا سماں پیدا کر دیا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں انارکلی کو تلاش کرنے میں مشغول تھیں۔ 

    انار کلی ایک تکیہ کی آڑ سے نکلی۔ اس نے شہنشاہ اکبر کو نہایت حسین ادا سے سلام کیا۔ اکبر نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ حسین پری بنی ہوئی تھی۔ آج اس نے ہلکے سے گلابی رنگ کا جامہ زیب کیا تھا۔ اس نے بال بال موتی پروئے ہوئے تھے۔ اس کی صراحی دار گردن اور اٹھتے ہوئے سینہ پر موتیوں کے لٹکتے ہوئے بیش قیمت ہار۔۔۔ دل کی دھڑکن کے ساتھ ساتھ دھک دھک کر رہے تھے۔ آج تک کسی نے اس کو اس طرح کی حسین ترین اور کشش میں ڈوبا ہوا نہیں دیکھا تھا۔ بیشک اس کو خوبصورتی کے لیے کسی طرح کے زیوروں کی ضرورت نہ تھی لیکن پھر بھی سونے پر سہاگا لگایا گیا تھا، جس نے اس کی خوبصورتی کی آگ کو اور زیادہ روشن کر دیا تھا۔ 

    اکبر نے ٹکٹکی باندھ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکراکر بولا، ’’ماہ منیر (چودھویں کے چاند) کو چھوٹے چھوٹے چمکدار تاروں پر فتح حاصل کرنے کے لیے ہار کی ضرورت نہیں پڑتی تو پھر اے خوبصورت لڑکی یہ زرق برق لباس کس لیے؟‘‘ انار کلی کی زبان پر ایک شرم کی ہلکی سی لہر دوڑ گئی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ ان سب باتوں کو جو کہ اس کے دل میں پنہاں تھیں کس طرح سے آشکارا کر سکتی تھی۔ چونکہ جلسہ میں سلیم موجود تھا۔ وہ کیوں نہ عمدہ جامہ زیب تن کر کے آتی۔ 

    ستار کی مستانی سی تن تناتن نے محل میں سماں باندھ رکھا تھا۔ انارکلی کھڑی کھڑی سن رہی تھی۔ اس نے سازندوں کی طرف دیکھا اور سر ہلایا۔ سازندے خاموش ہوگئے۔ ستاریں رکھ دی گئیں۔ انارکلی لہرائی ہوئی آگے بڑھی۔ اس نے اپنے پاؤں کی لگت دی۔ ٹخنوں پر بندھے ہوئے طلائی گھونگھروؤں نے چھم چھم ایک نازک سی لہر فضائے لطیف سے بلند کر دی۔ اس نے پھر پاؤں کو نہایت آہستگی سے اٹھایا اور پھر چھم چھم کی آواز پیدا کی۔ ایک سازندے نے ستار اٹھائی اور بجانے لگا۔ 

    چھن چھن کی جھنکار ستار کی تن تناتن میں مخلوط ہوگئی۔ انار کلی نے اپنے یاقوتی لب کھولے اور باریک سی موسیقی کی ایک اور راگنی مدھم سی آواز میں کہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ صرف اس کے ہونٹ ہل رہے ہیں، آواز پیدا نہیں ہوتی۔ ایک بار پھر آواز پیدا ہوئی اور صاف طور پر بلند ہوئی۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خوش ترین گلوچاند کی رات میں مست بنادینے والا راگ گا رہا ہے۔ اس شام کو گاتے وقت انارکلی کے دل میں ایک شیریں خیال چٹکیاں لے رہا تھا۔ اس کو معلوم ہوتا تھا کہ حقیقت میں وہ کوئی دلچسپ سا خواب دیکھ رہی ہے۔ دراصل یہ صرف محبت ہی تھی جو اس کی رگ رگ میں بس رہی تھی۔ 

    انار کلی نے چاروں طرف دیکھا۔ ایک طرف سلیم کھڑا تھا۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے محبت آشکارا تھی۔ خفیہ ملاقاتوں کی یاد انارکلی کے دل میں پھر سے تازہ ہو گئی۔ اس کی آنکھوں سے، اس کی زبان سے محبت کا بے پایاں پر مسرت خیال ظاہر ہونے لگا۔ سلیم کی آنکھوں میں انارکلی کی ناچتی ہوئی تصویر کا تصور اس کے دل میں رہ رہ کر چٹکیاں لیتا تھاکہ انار کلی کی آنکھوں میں کیا جادو بھرا ہے۔ انارکلی گانے لگی۔ لہراتی ہوئی میٹھی ترنم میں، فارسی کا یہ گیت۔ 

    من تو شدم تو من شدی۔ من تن شدم تو جاں شدی
    تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

    سلیم کی طرف ٹکٹکی باندھ کر گانے والی انارکلی کا یہ گیت اس کے دل میں کسی چھپے ہوئے جذبے کو ظاہر کر رہا تھا جس کو اس نے خود کبھی محسوس نہ کیا تھا۔ بحر محبت میں غوطہ زن ہوتے ہوئے اپنے عاشق کے مقابل میں ان راگنیوں کا گانا جن کے خیال اس کے دل میں بسے ہوئے تھے۔۔۔ وہ سب کچھ بھول گئی۔ اس کو اس بات کا خیال بھی نہ رہا کہ وہ شہنشاہ اکبر کے روبرو ناچ گا رہی ہے۔ انار کلی کو صرف ایک بات کا علم تھا، وہ یہ کہ اسے یہی محسوس ہو رہا تھا کہ دو انسان موجود ہیں۔ ایک وہ، دوسرا اس کا عاشق شہزادہ سلیم۔ 

    وہ ناچ گا رہی تھی لیکن اس کی آنکھیں سلیم کی آنکھوں میں بسی ہوئی تھیں اور شہزادے سلیم کی آنکھوں کا اس کی آنکھوں میں جانا گویا آگ پر تیل کا کام دے رہا تھا۔ اس وقت ایک بلند آواز کانوں میں پڑی۔ 

    ’’گانا بند کرو۔‘‘ یہ آواز شہنشاہ اکبر کی تھی جو بے حد کرخت تھی۔ وجد پھوٹ گیا، طلسم ٹوٹ گیا اور انارکلی کانپ سی گئی۔ گانا بند کرادیا گیا۔ چاروں طرف خاموشی چھا گئی۔ اکبر مارے غصہ کے کانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں تن گئی تھیں اس نے مقابل میں گاتے ہوئے آئینے کے عکس میں دیکھا تھا عاشق و معشوق کی آنکھوں کی عشقیہ شعاعوں کو، جو لگاتار کافی عرصہ تک ایک دوسرے کی طرف جارہی تھیں۔ الٹے آئینے میں دیکھا تھا محبت کا یہ نام و پیام۔۔۔ تیز تیز پڑھنے کے لیے اس نے خود کوشش کی تھی۔ 

    اس نے انارکلی کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور اس کے جواب میں شہزادہ سلیم کی مسکراہٹ بھی دیکھی، آنکھوں کا لڑنا دیکھااور اسے یقین سا ہو گیا کہ انارکلی نے شہزادہ سلیم کو پھانسنے کے لیے نیا دام حسن بچھا دیا ہے۔ اکبر کی طبیعت میں اگرچہ خوب تحمل تھا لیکن اس وقت اس کا مزاج درہم برہم سا ہو گیا۔ اس کے دل میں خیال پیدا ہوا، ’’کیا سلیم جو اس کا فرزند اور ولی عہد سلطنت ہے، ایک باندی کی لڑکی سے محبت کرےگا؟‘‘ 

    وہ جامہ سے باہر ہو گیا۔ اس نے ایک بلند آواز میں خواجہ سراؤں سے کہا اور انارکلی کی طرف اشارہ کیا، ’’اس عورت کو یہاں سے لے جاؤ اور شاہی محل کی حوالات میں بند کردو تاکہ ان معمولی سی عورتوں کو کان ہو جائیں جو بلاوجہ بغیر کسی مناسب موقعہ کے اس طرح کا بناؤ سنگار کرتی ہیں۔‘‘ 

    ہر طرف سناٹا تھا۔ 

    انارکلی اکبر کے چہرے کی طرف معصوم محبت کی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی مگر جب اس نے اکبر کی انگلیوں کو اپنی طرف اٹھتے دیکھا تو اس کے جسم میں خوف کی لہر سی پھیل گئی۔ اس کے دل میں خیال پیدا ہوا۔ شہنشاہ نے اس طرح کا حکم دیا؟ انارکلی نے اپنے دل سے دریافت کیا۔ اس نے قہر کی ایک خوفناک آواز سنی۔ اس کا سر جھک گیا۔ اس کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ جو کچھ بھی اس نے دیکھا وہ اس نے نہ سمجھا۔ بینائی سے دیکھا جاتا ہے سنا نہیں جاتا۔ 

    اچانک اسے کسی کا ہاتھ اپنے جسم سے لگتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے دیکھا ایک خواجہ سرا اس کو سختی سے تھامے ہوئے تھا، جو اسے حوالات میں لے جانے کے لیے آمادہ تھا۔ انارکلی نے خودکو جنبش دی اور پھر تنہا اکبر کے قدموں میں گر پڑی بالکل اسی طرح جیسے۔۔۔ موسم خزاں کا ایک مر جھایا ہوا پھول کہیں پڑا ہو۔ 

    *

    جس طرح چراغ گل ہو جانے سے تاریکی چھا جاتی ہے اور پرندوں کے پھڑپھڑانے کی آواز بھی سکوت سی بن جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح کا سکوت اور تاریکی ہر جانب تھی۔ جب تاریکی اور سکوت دونوں ہم آغوش ہوں تب ایک خوفناک نظارہ پیدا ہوتا ہے۔ 

    تصور سے کسی سے میں نے کی ہے گفتگو برسوں 
    وہ تصویر خیالی ہی رہی ہے روبرو برسوں 

    شب تاریک کے سکوت میں انارکلی کو ہوش آیا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کیا اور پھر محفل میں غوطہ زن ہو گئی۔ اس کو ہر ایک چیز پر تاریکی دکھائی دیتی تھی۔ اچانک اس کے دل میں کون سی منجمد کر دینے والی خوفناک یاد آئی۔ آہ کس قدر خوف کا مقام تھا۔ انارکلی۔۔۔ دنیا کی نازک ترین حسینہ ایک قیدی کی صورت میں اجل کے منتظر کی حیثیت سے جیل کی ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں سنگی چٹان پر پڑی ہوئی تھی۔ 

    موت کے خیال سے اس کا دل اندر ہی اندر ڈوب سا گیا۔ اس موت کے خیال سے اس کی روح لزرگئی جو آنے والی صبح کو ہونے والی تھی۔ صرف چند گھنٹوں کی زندگی کے بعد اس کی معصوم سی زندگی کا خاتمہ ہوجانے والا تھا۔ انارکلی نے اپنے سامنے کے فرشتہ کو انسانی ڈھانچوں پر قیامت کا ناچ ناچتے ہوئے دیکھا۔ دنیا کی ہر ایک چیز کا خاتمہ کردینے والی موت ہر لمحہ اس کے نزدیک تر ہوتی جاتی تھی، جس کے خیال سے انارکلی بید مجنوں کی طرح کانپ رہی تھی۔ 

    اس کے ساتھ ہی وہ عالم مایوسی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ آہ! بے رحم او رظالم موت کتنی خوفناک اور ظالم موت انارکلی کی طرف رفتہ رفتہ بڑھ رہی تھی۔ موت کے انتظار میں رہنا اور اس پر موت کے آنے کے وقت کا ہر لمحہ انتظار کرنا خود موت سے کئی گنا زیادہ تکلیف دہ ہے۔ 

    انارکلی بیٹھی ہوئی تھی لیکن اس کا سر چکرا رہا تھا۔ وہ ناہموار فرش پر سر کے بل گر پڑی۔ دل کے رنج و الم کی تڑپ اس کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ وہ مرنے لگی۔ اس جگہ اس کو بچانے والا کوئی نہ تھا۔ اس سے دلی ہمدردی کرنے والا کون تھا! وہ بے یارومددگار تھی۔ سلیم جس کے لیے اس نے خود کو موت کے منہ میں ڈالا تھا، اس وقت کہاں تھا؟ 

    لیکن خوب اس کے دل میں سلیم کا تصور آیا تو اس نے ایک سرد آہ کھینچی اور پھر خوب روئی۔ زاروقطار مثل ابر نوبہار۔ جب دل کی ہچکیاں لبوں کی سسکیوں کے ساتھ بند ہوئیں تب ہوش میں آکر صبر سے اس نے سوچنا شروع کیا لیکن اس کے دل کا تخیل پھر اس کو بحر آرام کی طرف لے چلا جس کی وجہ سے صبر کی تار ٹوٹ گئی۔ اس نے سوچا وہ کیوں پکڑی گئی۔ اس نے کون سا کام ایسا کیا تھا جو ناجائز تھا، جس کی پاداش میں وہ مجرم قرار دی گئی تھی۔ 

    ’’شہزادے سے محبت کرنا کیا جرم ہے؟‘‘ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا۔ 

    ’’یہ گناہ تو نہیں، نہ ہی خلاف قانون بات ہے۔‘‘ دوسرے لمحہ اس کی آزاد خیالی نے جواب دیا۔ 

    ’’میں نے کوئی برا کام نہیں کیا۔‘‘ اس کو یقین ہو گیا۔ 

    وہ گانے لگی، 

    ’’میں نے تم سے پریم کیا ہے۔۔۔ تم نے میرا دل چھین لیا ہے۔ 

    اب کہاں ہو۔ جان من تم۔۔۔ جام محبت تو اب پیا ہے 

    ہو گئی ویرانی میں۔۔۔ محبت کی کہانی میں۔۔۔ معصوم جوانی میں۔‘‘ 

    شاہی جیل خانے میں میں نے موت سے پاسا جیت لیا ہے۔ اُف اُف، اے خدا تونے امید کی دیوی کو کیوں پیدا کیا۔ جب کہ اس کا پایۂ تکمیل تک پہنچنا ہی مشکل ہے، پھر کس لیے، آہ کس لیے۔ ایک بھی چیز وہاں ایسی نہ تھی جو اس کے لیے چنداں تسکین بخش ثابت ہوتی یا اس کے خوف کو دور کرنے میں امداد دیتی۔ اس کا خیال سلیم کی طرف گیا۔ کیا وہ اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا؟ پھر ایک خیال اس کے دل میں آیا۔ کیا درحقیقت شہزادے کو مجھ سے محبت ہے؟ یا یونہی دکھاوے کا عشق ہے جو انسان ہر لمحہ فراموش کر دینے کے لیے کرتا ہے۔ یہ خیال اس کے لیے موت سے بڑھ کر تکلیف دہ تھا۔ 

    ’’سلیم مجھے دل سے نہیں چاہتا۔‘‘ اس بے یقینی میں موت کے برابر ناپسندیدہ کڑواپن پنہاں تھا۔ اس وقت کسی کے قدموں کی چاپ نے اس کو چونکا دیا۔ دروازہ کھلا۔ ایک سپاہی ہاتھ میں جلتی ہوئی مشعل لیے ہوئے وہاں آیا۔ اس کے پیچھے ایک اور انسان تھا۔ اس نے کہا، ’’انارکلی۔ جان من۔‘‘ 

    ’’سلیم۔‘‘ اس کے لبوں سے بے ساختہ نکل گیا لیکن ساتھ ہی خوشی کی ایک چیخ جس میں کچھ نہ کچھ درد بھی چھپا ہوا تھا۔ دونوں محبت کی ایک آغوش بن گئے۔ سپاہی نے روشن مشعل ایک گوشے میں رکھ دی اور خود باہر نکل گیا۔ گوشہ تنہا ئی میں عاشق و معشوق خوب جی بھر کے گلے ملے، پھوٹ پھوٹ کر روتے روتے انہوں نے ایک دوسرے سے شکوے کیے۔ سلیم نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا، ’’پیاری انارکلی۔ میری اچھی انارکلی۔ میں تمہیں بچا سکتا ہوں۔ میرے ساتھ چلی آؤ۔‘‘ 

    انارکلی نے سلیم کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔ سلیم پھر بولا، ’’میں نے سواری کے لیے دو گھوڑوں کا انتظام کر چھوڑا ہے صبح ہوتے ہی ہم کافی فاصلہ طے کر لیں گے۔ پھر بھیس بدل کر چل دیں گے۔ تب کوئی ہمیں پہچان نہ سکےگا۔‘‘ انارکلی نے دردبھری آواز میں جواب دیا، ’’ضروری بات ہے کہ ہمارا تعاقب کیا جائے۔ ہم گرفتار ہو جائیں گے لیکن میرے لیے تم اپنی جان جوکھوں میں کیوں ڈالتے ہو۔‘‘ 

    ’’لیکن پیاری انارکلی! میرے ہم راہی میری امداد کے لیے ہر لمحہ سینہ سپر ہیں۔ وہ تعاقب کرنے والوں کو الٹا بتائیں گے۔ ہمارے گھوڑوں کے سموں پر بے آواز موزے چڑھے ہوئے ہیں۔ پیاری جلد نکل بھاگ۔ اس وقت ایک ایک ثانیہ بیش بہاگو ہر کی طرح ہے۔ چل انارکلی۔ نکل، وقت کو کیوں کھو رہی ہے۔‘‘ 

    لیکن انارکلی شش و پنج کی جیتی جاگتی تصویر بن گئی۔ 

    ’’شہزادے کو خطرے میں ڈالنے کا مجھے کیا حق ہے؟‘‘ 

    اس نے ٹھنڈی سانس بھرکر کہا، ’’سلیم! بے شک میری موت نزدیک ہے۔ اگر خدا اور شہنشاہ کی یہی خواہش ہے تو میں کیسے زندہ رہ سکتی ہوں۔ میں اس تنگ و تاریک کوٹھری کو ہرگز نہ چھوڑوں گی تاوقتیکہ میری موت مجھے آغوش الفت میں نہ لے لے۔ میرا منہ نہ چوم لے۔‘‘ سلیم سناٹے میں آ گیا۔ چند لمحے توقف کے بعد بولا، ’’انارکلی! میں تمہیں ایک بے رحم اور ظالم انسان کے پنجہ میں موت کا شکار بناکر نہیں چھوڑ سکتا۔ تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘ 

    سلیم نے اس کو سختی سے لے جانا چاہا لیکن انارکلی نے خود کو چھڑا لیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولی، ’’میرے پیارے سلیم! میری زندگی کا ٹمٹماتا ہوا چراغ اب گل ہونے والا ہے۔ موت کے سامنے کسی کی پیش نہیں چلتی۔ اب زندہ بچ رہنے کی کوشش کرنا فضو ل سی بات ہے۔ شہنشاہ جو کچھ بھی ہیں ہمارے آقا ہیں۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ خدائی فرمان ہے۔ تم میرے ساتھ کیوں چلتے ہو؟ جب کہ تمہیں اس بات کا یقین کامل ہے کہ ہمارا تعاقب ضرور کیا جائےگا۔ کیا تم نے اپنی حفاظت میں کام کرنے والے طریقوں پر غور کر لیا ہے۔‘‘ 

    سلیم پریشان سا ہو گیا۔ لیکن اس نے فوراً جواب دیا، ’’اس وقت میں ان باتوں کی تشریح کرنے کے نہ قابل ہوں اور نہ ہی یہ موقعہ ضائع کرنے کا ہے۔ میرا باپ ظالم اور بے رحم ہے۔ میں اس کے ظالمانہ احکام کی تعمیل کرنے سے انکاری ہوں۔ وہ ہر ایک کو اپنے ظلم کے تابع رکھنا چاہتا ہے۔۔۔ ہمیشہ کے لیے دہلی کے شاہی تخت کا مالک بھی کوئی ایک نہیں رہ سکتا۔ میں بھی جلد یا بدیر اس تخت پر بیٹھوں گا۔‘‘ 

    انارکلی نے نہایت خاموشی سے یہ سب کچھ سنا۔ سلیم ہرگز اس بات کو نہ سمجھ سکا کہ انارکلی کے انکار کی وجہ کیا ہے۔ یہ کس لیے قید خانہ سے رہا ہونے کو تیار نہیں اور اس طرح موت سے دوچار ہونا چاہتی ہے۔ 
     
    ’’وقت جا رہا ہے انارکلی پیاری۔۔۔ چلو۔۔۔ برائے خدا چلو۔‘‘ سلیم نے ملتجی نظروں سے دیکھ کر کہا۔ لیکن انارکلی نے یہ خیال کرکے کہا کہ، ’’اس کو بھی آنچ نہ لگے۔‘‘ انکار کرتی رہی۔ آخر سلیم تنگ آ گیا اور پرجوش لہجے میں بول اٹھا، ’’انارکلی یہ انکار کس لیے۔ تمہاری دید کے بغیر میں کیسے زندہ رہوں گا۔ پیاری اگر تو وادیٔ موت کی طرف جانا چاہتی ہے تو میں بھی ہمسفر ہی ہوں۔ تو جب تک میرے ہمراہ نہ چلےگی میں ہرگز اس جگہ سے نہ ہلوں گا۔‘‘ 

    انارکلی میں انقلاب سا آ گیا۔ وہ گھبراکر بول اٹھی، ’’تو کیا اب بھی وقت ہے۔ ہم یہاں سے بھاگ سکتے ہیں؟‘‘ 

    ’’ہاں آسانی سے۔ بے خوف بہادروں کی طرح اب بھی وقت ہے۔‘‘ سلیم نے جواب دیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف چلنے کے لیے تیار ہوگیا۔ 

    کھٹ کھٹ

    دروازہ کھٹکا اور کھل گیا۔ ایک انسان برق رفتاری سے کمرے کے اندر داخل ہوا اور ہانپتے ہوئے سانس روک کر، ’’شہزادہ صاحب! بادشاہ سلامت اسی راستہ سے آرہے ہیں۔‘‘ 

    ’’اب کیا ہوگا؟‘‘ سلیم نے گھبراکر پوچھا۔ 

    اس نے جواب دیا، ’’وقت کو ضائع نہ کریں۔ حضور آپ اسی وقت اس جگہ سے چلے جائیں۔ جب بادشاہ سلامت لوٹ جائیں، تب پھر تشریف لے آئیں۔ ’’

    ’’اچھا باہر ٹھہرو رحیم خاں۔ میں ابھی آتا ہوں۔ ’’سلیم نے حکم دیا اور محافظوں جیسا لباس جس کو کہ وہ ساتھ لیتا آیا تھا، زیب تن کرلیا۔ تھوڑے توقف کی خاموشی کے بعد اس نے انارکلی کو اپنے سینے سے لگاکر بوسہ لیتے ہوئے چراغ گل کردیا۔ انارکلی نے سلیم کو جاتے ہوئے دیکھا۔ اشک بار آنکھوں سے مایوس نظروں سے لیکن اس کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ نہ وہ ہی اپنی جگہ سے ہل سکی۔ یہاں تک کہ وہ بوسہ کا جواب بھی نہ دے سکی۔ سلیم کے چلے جانے کے بعد اس نے وہاں سے نکل کر بھاگنے کی امید کو آخری سلام کر دیا۔ 

    تاریکی نے پھر وہاں خوفناک تنہائی کا دور دورہ کیا اور انارکلی ویسے کی ویسے ہی رہ گئی۔ انارکلی کی کوٹھری میں کوئی بھی نہ آیا۔ رحیم خان نے بالکل جھوٹ ہی کہہ دیا تھا۔ نہ اکبر تھا۔ نہ اس کا سایہ۔ 

    شہزادے جانباز کے دستوں کا ایک گروہ تھا، جس میں رحیم خان شریک تھا۔ جب ایک دفعہ شہزادے نے بادشاہ کی زندگی میں علم بغاوت بلند کرنے کی تیاری کی تھی تو رحیم خان ان لوگوں میں تھا جنہوں نے شہزادے کا ساتھ آخر دم تک دینے کا وعدہ کیا تھا۔ رحیم خان جیل خانے کا داروغہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ سلیم محض انارکلی سے الوداع کہنے آیا ہے۔ اسے یہ خبر نہ تھی کہ وہ انارکلی کو وہاں سے نکال لے جانے کی کوشش کرےگا۔ 

    جب سلیم کمرے میں داخل ہوا تو رحیم خاں کو یہ شوق ہوا کہ دیکھوں اس نازک وقت میں جذبات محبت کے متوالوں میں کیا بات چیت ہوتی ہے۔ وہ دروازے پاس آکر کھڑا ہوا اور اس نے اس کے وہاں سے بھاگ جانے کی تجویز سن لیں۔ جب رحیم خاں نے دیکھا کہ وہ انارکلی کو وہاں سے لے جانے کی فکر میں ہے تو اس نے جان بوجھ کر اس کو روک دینا چاہا۔ آخر وہ کیا کرتا۔ اگر قیدی کو بھاگ جانے دیتا تو اس کی جان خود خطرے میں پڑ جاتی لیکن وہ یہ بھی نہ کرسکتا تھا کہ کھلم کھلا شہزادے کو ناخوش کر دے۔ بادشاہ اب بڈھا تھا اور سلیم جلد ہی بادشاہ ہونے والا تھا، اس لیے رحیم خان نے سوچا ایسی تدبیر ہوکہ کام بھی نکل جائے اور شہزادہ بھی ناخوش نہ ہو۔ 

    جب سلیم باہر آیا تو رحیم خان نے دور دور مشعلیں جلتی ہوئی دکھائیں یہ اس کے آدمی لیے ہوئے جا رہے تھے۔ سلیم نے پھر کر ان کی طرف نہ دیکھا۔ وہ بادشاہ کے خلاف کھلم کھلا کوئی کام نہ کرنا چاہتا تھا۔ رحیم خاں نے گلیوں اور سڑکوں سے ہوتے ہوئے شہزادے کو محل تک پہنچا دیا۔ 

    ’’رحیم خاں! تم ٹھیک جانتے ہو کہ وہ بادشاہ ہی تھا؟‘‘ 

    ’’جی حضور!‘‘ 

    ’’آخر بادشاہ وہاں کیسے تشریف لائے اور کیوں؟‘‘ 

    ’’حضور کو معلوم ہوگا کہ اکثر بادشاہ جیل خانوں کا معائنہ کرنے بغیر اطلاع تشریف لاتے ہیں۔‘‘ 

    ’’ہاں اتنے دنوں تو بادشاہ نے لوگوں کو تعجب میں ڈالا ہے۔ اب بہت جلد خود اس کو متعجب ہونا ہوگا۔‘‘ سلیم نے یہ فقرہ نہایت معنی خیز انداز سے کہا تھا۔ رحیم خاں اب سخت متحیر تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ کچھ دیر میں شہزادہ انارکلی کو جیل خانے سے نکال لے جانے کی غرض سے پھر جائےگا۔ اب کیا کرنا چاہیے۔ وہ قیدی کا قید خانے سے نکل جانا روانہ رکھ سکتا تھا۔ 

    ’’حضور کی اجازت ہو تو غلام تھوڑی سی شراب پیش کرے۔‘‘ 

    سلیم کا حلق مارے غصہ کے خشک ہو رہا تھا۔ اس نے کہا، ’’خیر ذرا سی شیرازی لے آؤ۔‘‘ 

    رحیم خاں وہاں سے گیا اور تھوڑی سی شراب لے آیا اور کمربند سے ایک پڑیا نکال کر شراب میں گھول دی۔ یہ ایک سفید رنگ کا سفوف تھا۔ شراب میں کچھ جھاگ پیدا ہوئی اور پھر اپنی حالت پر آ گئی۔ 

    سلیم شراب کا انتظار کر رہا تھا۔ رحیم خاں کا پیالہ پیش کرنا تھا کہ سلیم کے حلق سے نیچے تھی۔ تھوڑی اور لاؤ۔ رحیم خاں اور شراب لایا اور سلیم نے پھر غٹ غٹ پی لی۔ اب شراب نے اپنا رنگ جمانا شروع کیا۔ اس نے مجنونانہ جوش سے کہا، ’’رحیم! رحیم! مجھے ا نارکلی کے پاس لے چلو۔‘‘ 

    ’’حضور غلام کو کوئی عذر نہیں ہے لیکن۔۔۔‘‘ 

    ’’لیکن۔ لیکن کیا؟‘‘ 

    ’’ممکن ہے کہ بادشاہ ابھی وہیں ہوں۔‘‘ 

    ’’بھائی جان بادشاہ کو چوکیدار کے گھرانے میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ وہ بادشاہی کے قابل نہیں ہے۔ جاؤ دیکھو۔ اس وقت بادشاہ کہاں ہیں؟‘‘ رحیم نے سرتسلیم خم کیا اور وہاں سے چل دیا۔ اس کو یقین تھا کہ شہزادہ صبح تک ہوش میں آئے گا۔ انارکلی سلیم کے واپس آنے کا انتظار کرتی رہی لیکن سلیم نہ آیا۔ انتظار نے سخت پریشان کیا لیکن امید نے اس کا ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ یہی کہتی رہی کہ ممکن ہے سلیم اب بھی آتا ہو۔ 

    صبح کا سپیدہ جھلک رہا تھا اور انار کلی کے تنگ حجرے کی تاریکی اب تنگ ہو چلی تھی۔ دفعتاً اس کو قریب ہی کوئی چیز چمکتی ہوئی نظر آئی۔ یہ وہی انگوٹھی تھی جو انارکلی کی ماں نے اس کو دی تھی اور کہا تھا کہ خدا نہ کرے کہ بیٹی تجھ کو کبھی اس کے استعمال کی ضرورت ہو لیکن جب دنیا میں امید کی دھندلی سی روشنی بھی باقی نہ رہے اور مستقبل بالکل تاریک نظر آئے تب اس کو چاٹ لینا۔ انارکلی کو آج اپنی ماں کی باتوں کی اصلیت معلوم ہوئی۔ اس نے انگوٹھی دباکر ہیرا اپنی مٹھی میں رکھ لیا۔ فوراً اپنے بچپن کا زمانہ اور اس کی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ تب سلیم کی محبت کے جذبات بھی اس کے دل میں موجزن ہونے لگے۔ اس کے بعد ازخود رفتگی شروع ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر میں انارکلی وہاں تھی جہاں سے کوئی خبر نہیں آتی۔ 

    جب بادشاہ کے آدمی وہاں پہنچے کہ اس کو سزائے موت دیں تو پہلے دروازہ کھولنے میں کچھ تامل ہوا۔ جب دروازہ کھلا تو آفتاب کی روشن کرنوں نے انارکلی کے چہرے کو منور کر دیا۔ وہ ایک حسن کی دیوی تھی۔ وہ واقعی ا نارکلی تھی اور اس کا نام اب بھی اس کے رخساروں اور ہونٹوں کے حسن پر پھبتا تھا۔ 

    اب وہ اس بادشاہ حقیقی کے سامنے کھڑی تھی۔ جس کے آگے اکبر ایسے شہنشاہ کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ 

    *

    خاندان بابر کا سب سے زیادہ شاندار بادشاہ اب جنت میں آرام کرتا ہے اور سلیم تخت شاہی پر نورالدین جہانگیر کے نام سے جلوہ افروز ہے۔ انارکلی کی موت کا واقعہ اس شکستہ دل عاشق کے دل سے بھی محو ہوچکا ہے۔ اب اس نے عیش و عشرت کے دوسرے پیالوں کی چاشنی چکھ لی ہے۔ اس نے مہر النسا کو دیکھا اور مہرالنسا کی محبت کے سامنے انارکلی کا عشق ویسا ہی تھا جیسے نصف النہار پر چمکتے ہوئے آفتاب کے آگے جگنو کی چمک بے بضاعت اور حقیر معلوم ہوتی ہے۔ یہ وہی مہرالنسا ہے جسے دنیا نورجہاں کے نام جانتی ہے۔ اب بادشاہ کے دل و دماغ پر سوتے جاگتے نور جہاں کا قبضہ ہے۔ 

    شام کا وقت تھا۔ جہانگیر شاہی باغیچے میں ٹہل رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ حیف اب تک تیری اس سچی محبت پر بھی مہرالنسا کا دل نہیں پسیجتا۔ وہ ٹہل ہی رہا تھا کہ یکایک اس کی نگاہ ایک انار کے نیچے، جس میں پھول کھلے ہوئے تھے اور کلیاں لگی ہوئی تھیں، ایک چھوٹی سی قبر پر پڑی۔ اس نے قبر اس سے پہلے بھی دیکھی تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ اس میں کون دفن ہے۔ ایک بوڑھا مالی کچھ فاصلے پر پھولوں کی کیاری میں کام کر رہا تھا۔ جہانگیر نے اسے بلایا اور پوچھاکہ’’یہ کس کی قبر ہے؟‘‘ 

    مالی نے پہلے قبر کی جانب دیکھا، کچھ سوچا اور بادشاہ کی جانب دیکھ کر چپ ہو گیا۔ اس کا دل خوفزدہ ہوگیا۔ شہزادے نے پھر پوچھا، ’’اس میں کون دفن ہے؟‘‘ 

    باغبان نے رکتے رکتے کہا، ’’انارکلی بیگم۔‘‘ 

    ’’انارکلی!‘‘ رفتہ رفتہ بادشاہ کے دل میں پرانے واقعات تازہ ہو گئے۔ اس نے مغرب کی جانب نگاہ کی۔ ایک چمک دار ستارہ افق کے اوپر چڑھ رہا تھا اور اسی کے ساتھ انارکلی کی یاد بادشاہ کے دل میں ترقی کر رہی تھی۔ 

    تھوڑی دیر کے لیے وہ مہرالنسا کو بھی بھول گیا۔ جس طرح کئی سال ہوئے انارکلی کو اس نے دیکھا تھا، وہی صورت اس کی نظروں کے سامنے پھر گئی۔ اس کی قابل تاسف موت کے واقعات اس کی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگے۔ اس کو انارکلی کا تبسم یاد آ گیا جس کی ایک ادا قسمت جہانگیر یا سلیم کی جان تھی۔ اسے رحیم خان کا وہ دغا بھی یاد آیا۔ جہانگیر فکر میں ڈوب گیا اور آہستہ آہستہ محل کو واپس چلا۔ 

    دوسری صبح داروغہ عمارات کو حکم ہوا کہ وہاں ایک عالی شان عمارت تعمیر کر دی جائے اور یہ شعر اس عالیشان عمارت پر کندہ کر دیا جائے، 

    تاقیامت شکر گوئم کرد گار خویش را
    آہ! گرمن باز بینم روئے یار خویش را

    مأخذ:

    انار کلی (Pg. 36)

    • مصنف: رابندرناتھ ٹیگور
      • ناشر: آزاد بک ڈپو، لاہور
      • سن اشاعت: 1945

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے