Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اندھروا

MORE BYسچدانند راوت رائے

    گلے میں ہڈیوں کا ہار پہنا، دانتوں میں تنکا دبایا، زبان ہونے کے باوجود توتلا بن کر پہلی پدھان نے دربدر جھولی پھیلائی۔

    گھٹاٹوپ اندھیرے میں اپنے لمبے لمبے گٹھیلے بازوؤں کو اوپر اٹھاکر، گاؤں کے سرے پر واقع دکان کے پاس بیٹھ کر گاگا کر، سب سے اپنے دل کی بات کہنے کی کوشش کرتا یا پھر کسی حیلے خریداروں کی جیب سے ایک پیسہ یا دھیلا نکلوانے کی سعی کرتا۔ کوئی دے دیتا، کوئی منہ موڑکر چلا جاتا۔ بیشتر لوگ اسے بتیسی دکھاکر ’ہوہو‘ قہقہے لگاتے، زبان نکال کر چڑاتے۔ پہلی زمین پر لوٹتا، بال بکھراکر ہاتھ کے اشارے سے نہ جانے کیا کہتا، سب کہتے فضول پریشان کرتا ہے۔

    اس کا سیاہ جسم، گندے کپڑے، ناہموار چوڑی چھاتی کالی رات کے ساتھ اس طرح مدغم ہو جاتی کہ انہیں الگ الگ شناخت نہیں کیا جا سکتا۔ ضدی بچوں کی مائیں ان کے دودھ پینے سے انکار کرنے پرخوف زدہ کرنے کے لیے کہتیں، ’’وہ دیکھ، اندھروا آ گیا ہے، گاؤں کے کنارے بیٹھا ہوا زبان لپلپا رہا ہے۔‘‘

    پہلی پوری جا رہا ہے۔ راستے میں شام ہو جاتی تو کسی گاؤں میں رات بھر کے لیے ٹھہر جاتا۔ سورج ڈوبنے سے قبل دو لقمے منہ میں ڈال کر کسی کے برآمدے میں پیال بچھاکر دراز ہو جاتا۔ وہ جس گاؤں میں پہنچتا، وہاں تہلکہ سامچ جاتا کہ اندھروا آیا ہے۔ لڑکے تالیاں پیٹتے ہوئے اس کا تعاقب کرتے، لاوارث کتے بھونک بھونک کر اسے دوڑاتے، پھر سوں سوں کرتے ہوئے اس کے پیروں کے بیچ میں گھس کراسے سونگھتے۔ اندھروا دن بھر راستہ طے کرتا، شام کوب ھیک مانگتا۔

    اندھیری رات۔۔۔ حاملہ عورت کی طرح سیاہ بادل کا نچلا حصہ لٹک گیا ہے۔ اس کے درمیان رواں تاریکی کی مانند لاٹھی تھامے اندھروا چلا جا رہا ہے۔

    کبھی کبھی اندھروا خواب دیکھتا۔۔۔

    دھان کی پکی ہوئی بالیں کھیت میں لہرا رہی ہیں۔ موٹے موٹے دھان کے لاتعداد پودوں کی اوٹ میں سانپ، کیکڑے، بچھو اور گرجائی جیسے کیڑے مکوڑوں نے میلہ لگا رکھا ہے۔ ہر طرف بساندی بوپاکر مٹیالی چیلیں اوپر دائرے میں اڑ رہی ہیں۔ ایسی گھٹا ٹوپ بھرپور رات میں کھیت کے وسط میں مچان بناکر، لکڑیاں سلگاکر پہلی کھیت کی رکھوالی کر رہا ہے۔ دھان کے پودوں کی جڑوں میں کھاد کے ڈھیر لگے ہیں۔ کڑاکے کی سردی میں کس طرح منہ اندھیرے، مانجھی کے گھر سے چوڑا کوٹنے کی آواز بلند ہونے سے قبل، گیلی کی ماں ٹھٹھرتی ہوئی پتھریلی زمین، باغ باغیچے، میدان وغیرہ میں گھوم کر ٹوکری میں گوبر لاکر باڑی میں کھاد کے ڈھیر جمع کرتی اور پہلی خون پسینہ ایک کرکے اس کھاد کو کوٹ کوٹ کر ڈلیا میں بھر بھر کر کھیت میں یکجا کر آتا۔

    صرف اتناہی نہیں، پتھر کی طرح سخت کھیت کی مٹی میں موٹھ پکڑ کر ہل چلاتے ہوئے اسے جو تکلیف ہوا کرتی تھی، اس کی یاد آتے ہی پہلی کی ہڈیوں میں سرسراہٹ ہونے لگتی تھی۔ پیشانی پر آگ کے گولے کی طرح سورج، پیروں تلے تپتی ہوئی زمین۔ تلوؤں کے جلنے سے کھال کی پرتیں اتر اتر جاتیں۔ پہلی کی اس جانفشانی کو ثمر آور بناتے ہوئے جس دن پکتی ہوئی فصل کے بےشمار دھان کے پودوں سے میٹھی ہوا نے آنکھ مچولی کھیلی، اس دن پہلی کی طبیعت مسرور ہوکر جھوم جھوم اٹھی۔ وہ ساری تکالیف فراموش کر کے ٹکٹکی لگاکر اس نیم پختہ کھیت کو دیکھتا رہا۔

    بعدازاں ایک دن۔۔۔

    گہری تاریکی۔۔۔ اگہن مہینے کی برفیلی ہوا کلیجے میں لرزہ پیدا کرتی تھی۔ پہلی مچان پر ایک چٹائی اوڑھے اوندھا لیٹا ہوا بٹوے سے تمباکو نکال کر ہتھیلی پر مل رہا تھا۔ کھیت کے بیچ چھپ چھپ کی آواز آئی۔ کیچڑ میں سے دھان کے پودوں کو روندتے ہوئے جانور کے چلنے کا گمان ہوتا تھا۔ پہلی نے سوچا شاید بارہ سنگھا یا ریچھ ہے۔ وہ غصے کے ساتھ ایک مضبوط لاٹھی لے کر اٹھا۔ دھان کے پودوں کے سیاہ سائے کو چیرکر جل پریاں چمک رہی ہیں۔ گہرے اندھیرے میں پہلی کو ایک بہت بڑا سیاہ جانور نظر آیا۔ اس کی ناک کے نتھنوں سے تیز ہوا خارج ہو رہی تھی۔

    پہلی اس کے عقب میں دوڑا لیکن وہ کالی پرچھائیں دھان کے پودوں کو کچلتی ہوئی روندتی ہوئی ادھر ادھر دوڑتی رہی۔ ایک دھان کا پودا ضائع ہوتا تو پہلی کے جسم کا ایک پاؤ خون سوکھ جاتا۔ اب سامنے ایک کھڈ ہے۔ وہ جانور آگے نہ بڑھ سکا، منہ گھماکر پیچھے دیکھنے لگا۔ پہلی کی بانس کی لاٹھی دھم سے اس کی پیشانی پر پڑی۔ ٹھیک اس کی پیشانی پر۔ پہلی نے بجلی کی روشنی میں دیکھا، دوبڑے نکیلے سینگ اوپرکی طرف تنے ہوئے ہیں۔ دم اٹھاکر فوں فوں سانس چھوڑتے ہوئے وہ جانور اندھا دھندناک کی سیدھ میں بھاگنے لگا۔ پہلی نے سنا، کچھ دور جاکر وہ کانٹوں کے جھرمٹ میں دھڑام سے گرپڑا اور کیچڑ دلدل سے اٹھ نہیں سکا۔

    پہلی مچان پر لوٹ کر چین سے سوتا رہا۔ اس رات نیندمیں اس نے خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑی سیاہ لاش ہے، اس کے گردوپیش کوے منڈلا رہے ہیں اور ایک بھوکا گدھ اس پنجر کی ناف کے اندر چونچ ڈالے ہوئے ہے۔

    پروہت نے پوتھی دیکھ کر کہا، ’’گھور پاپ لگا ہے۔ پوری جاکر مکتی منڈپ میں کفارہ ادا کیے بغیر یہ گناہ نہیں دھل سکتا۔ کفارہ جب تک ادانہ ہو جائے، دانتوں میں تنکا دبائے رکھنا ہوگا اور بات نہیں کی جا سکےگی۔‘‘ گاؤں بھر میں سرگوشیاں ہوئیں۔ ’’پہلی کو ہڈیوں کا ہار پہننا ہوگا۔ اس نے مویشی کی جان لی ہے۔‘‘

    اس دن کا پہلی اور آج کا اندھروا۔۔۔ کتنا فرق ہے۔

    پِہلی سوچتا، اس دن پرم پر ان پڑھ کرپروہت ندھی مصر نے اس سے کیا کہا تھا؟ فرط خوف سے اس کا حلق خشک ہو جاتا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے ایک بہت بڑا جلتا ہوا الاؤ ناچنے لگتا۔ بڑی بڑی کڑاہیوں میں تیل کڑکڑا رہا ہے۔ وہ ادھر ادھر دیکھتا اور لرز جاتا۔ پھر اس کی نگاہوں کے سامنے بھینسوں کے منہ والے دو یم دوت رقص کرنے لگے۔ اس دن ان کی تصویر پروہت مہاراج نے مہربان ہوکر، پران سے نکال کر ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں اسے دکھلائی تھی۔ اسے وہ سہ رنگی تصویر یاد آ جاتی۔ کتنی بڑی بڑی آنکھیں، کیسے سینگ اور دونوں ہاتھ کیسے نوکیلے۔ وہ خوفزدہ بچوں کی طرح دل میں ہی بڑبڑانے لگتا تھا۔

    ’’آیا، آیا، ووہ آ گیا۔‘‘

    کسی دن راہ چلتے چلتے دوپہر میں تھکا ماندہ وہ کسی پیڑ کے نیچے بیٹھ جاتا۔ چاروں طرف سناٹا سائیں سائیں کر رہا ہوتا۔ اسے نل گاؤں کے راما کی بات یاد آتی۔ اس نے گائے مار کر بات کو چھپا لیاتھا لیکن موت کے وقت زبان میں زخم پڑ گیا، کیڑے پڑ گئے جومنہ میں کلبلانے لگے تھے۔ وہ اسی طرح بول و براز، خون اور پیپ میں سڑتا رہا، پھربھی اس کی جان نہیں نکل سکی۔

    آخرش محلے والوں نے دریافت کیا، ’’راما! تونے کیا کیا ہے، بتا دے نہیں تو تیری جان آسانی سے نہیں نکلےگی۔‘‘ راما مان گیا۔ گائے مارنے کی بات بتلاتے ہی اسے ہچکی آ گئی اور تین بار گائے کی طرح ڈکرا کر اس کی جان نکل گئی۔

    پہلی مزید کچھ سوچ نہ پاتا۔ اسے ایک غصیلی مرتی ہوئی گائے کی دورسے آتی ہوئی آواز سنائی دیتی اور وہ ڈرکے مارے درخت سے لپٹ جاتا۔ ممکن ہے کہیں قریب میں دو ایک گائیں چر رہی ہوں اور سفید، کالے، بھورے بچھڑے دودھ پینے کا کھیل کرتے ہوئے ان کے چاروں جانب ناچ رہے ہوں، لیکن پہلی کو محسوس ہوتا جیسے وہ لوگ سینگیں اٹھائے اسے مارنے کے لیے آ رہے ہیں۔ وہ لاٹھی پکڑ کر کھڑا ہو جاتا اور خوف زدہ آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتا۔

    کبھی کبھی رات کوپہلی خواب دیکھتا۔۔۔ ایک مردہ سیاہ گائے پیٹ پھلائے اس کے صحن میں سو رہی ہے۔ اس کے پیٹ میں ایک ننھی سی بچھیا ہے۔ گیلی کی ماں تلسی چارے کے پاس بیٹھی چپ چاپ رو رہی ہے اور اس کی مرحوم بچی گیلی دوبارہ زندہ ہو گئی ہے۔ وہ بابا بابا پکارتی ہوئی چاروں طرف اسے تلاش کر رہی ہے۔ چٹ سے پہلی کی نیند کھل جاتی۔ وہ اٹھ کربیٹھ جاتا۔ دور سے اس طرح آوازیں آتیں جیسے سوں سوں کرتا ہوا کوئی چر رہا ہو۔

    کبھی چلتے چلتے اچانک پہلی تکان سے چور چور ہوکر کھڑا ہو جاتا۔ اسے محسوس ہو جاتا جیسے عقب سے کوئی بلا رہا ہو۔ اس کے نوک دار سینگ ہیں اور ہاتھ میں شیر پھنسانے والی پھندے دار رسی۔ اسے راما گوالے کا منہ یاد آ جاتا، پیپ خون اور غلیظ کیڑوں سے بھرا ہوا۔ لیکن جی کو سمجھا کر وہ راستے پر ہو لیتا۔ سو بار بڑے ٹھاکرجی کا نام لیتا۔

    پوری کا مقدس مقام ہے۔ سیکڑوں کوڑھیوں کے درمیان بیٹھا ہوا پہلی کاسہ پھیلائے بھیک مانگ رہا ہے۔ بڑے مندر پر بڑے ٹھاکرجی کا تکونا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ پہلی ٹکٹکی لگاکر اس کی جانب دیکھتا رہتا۔ پوری کے مقدس برگد کی جڑیں چھونے سے اس کے دل کو قدرے تشفی ہو گئی ہے۔ اب وہ پہلے کی طرح بڑبڑاتا نہیں ہے اور نہ ہی کھڑے کھڑے خوفناک خواب دیکھ کر چونکتا ہے۔ پاس میں سوئی ہوئی جذام کی مریضہ استفسار کرتی ہے، ’’موسا! تو اور کتنے دن تک ہڈیوں کا ہار پہنےگا؟‘‘ پہلی ہاتھ کی انگلیاں گن کر بتاتا ہے، ’’سات دن اور ہیں۔‘‘

    سات دن کے بعد پہلی گاؤں لوٹ آیا۔ وہ گیلی کی ماں کے پیتل کے کنگن، برتن بھانڈے فروخت کرکے پانچ روپے کمرمیں کھونس کر پوری گیا تھا۔ سارے گھر کی چیزیں بیچ کر وہ پوری میں پاپ سے نجات پاکر آ گیا ہے۔

    پانچ یگیہ کرنے کے بعد جب ایک مہینہ پچیس دن پورے ہو گئے تو برہمن بھوج کرواکر، مکتی منڈپ میں سادھو مہاپرشوں کو تھوڑی بہت دان دکشنا دے کر ان کے پیروں کی دھول اور آشیرواد لے کر وہ گھر لوٹا ہے۔ آتے ہوئے گیلی کی ماں کے لیے تھوڑا سا مہاپرساد (تبرک) اور کچھ نرمالیہ (جگن ناتھ جی کو نذر کیے جانے والے چاولوں کو خشک کرکے رکھ لیا جاتا ہے، اسے نرمالیہ کہتے ہیں) ساتھ لینا اس نے فراموش نہیں کیا۔ گھر لوٹتے ہوئے پہلی کے پیر زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ اس کا دل مارے خوشی کے بلیوں اچھل رہا تھا۔

    مادر شام نے اپنی ہلکی سیاہ سبک اوڑھنی کا آنچل گاؤں پر ڈال دیا تھا۔ گاؤں کے سرے پر پیڑ کے اوپر مکھیوں کی شام کی مجلس ہو رہی تھی۔ گیلی کی ماں اپنے گرسنہ چہرے پر ساڑی کا پلو ڈھانک کر تلسی کے پاس شام کا چراغ رکھ کر پرنام کرنے جا رہی تھی کہ ٹھیک اسی وقت عقب سے پہلی نے آواز دی، ’’گھر میں سب خیریت ہے گیلی کی ماں؟‘‘

    گیلی کی ماں کا جواب سن کر پہلی کا خون خشک ہو گیا اور گھر واپس پلٹنے کی مسرت ایک لمحے میں زائل ہو گئی، ’’گھر میں پندرہ دن سے چاول نہیں ہیں۔ کودوں چھیری کھا گئی اس ٹھنڈے موسم میں جوناوقت آندھی پانی آیا تو تین دن ہوئے، باورچی خانے کی دیوار بھربھراکر گر گئی ہے اور ساجھے کی کاشت سے جو دھان ملا تھا اسے پہلی کی پوری کو روانگی کے بعد زمیندار مہاراج نے سال گزشتہ کے بقایا لگان کے طور پر ضبط کر لیا ہے۔ سابقہ لگان ایک ماہ کے اندرادانہ کیا گیا تو گھر بار قرق کر لینے کی دھمکی بھی دے دی گئی ہے۔‘‘

    پیشانی پر ہاتھ رکھ کر پہلی نے یہ سب کچھ سن لیا، کچھ نہیں بول سکا۔ اس دن پوری سے لائے ہوئے مہاپرساد کے سہارے دونوں نے رات گزار دی۔ صبح پہلی نے دیکھا چولہے پر ہنڈیا چڑھانے کے لیے چاول نہیں ہیں۔ سبزی بھاجی دورکی بات ہے۔ رسوئی کی دیوار گر کر مٹی کا ڈھیربن گئی ہے۔ ایک کونے میں دیمکوں کی بڑی سی بانبی کھڑی ہے۔ ہانڈی کنڈی وغیرہ جو دو چار برتن رہ گئے تھے، دیوار کے گرنے سے چکناچور ہو گئے ہیں۔ کمرے کے اندر شکستہ کھپریل بکھرے ہوئے ہیں۔ پہلی اچھوت بن کر دو ماہ سے پوری میں بیٹھا تھا۔ گھر میں دو مڑی بھی نہ تھی۔ جو چیزیں گروی رکھنے یا فروخت کرنے کے لائق تھیں، انہیں توپہلے ہی بیچ کر پہلی پوری جاکر گؤہتیا کے پاپ سے نجات پاکر آیا ہے اور رہاہی کیا ہے جس کے لیے وہ ہاتھ پھیلائے۔ صرف ایک شنکھ (خاص طرح کی چوڑی) عورت کی کلائیوں میں رہ گیا ہے، جو روز بروز ڈھیلے ہوتے جا رہے ہیں۔

    صبح گاؤں کے برہمن پہلی کو دیکھ کر دوڑے آئے۔ برہمنوں کو بھوجن کروانا ہوگا۔ برہمن جب تک شدھ نہ کرے شدھی نہیں ہو سکتی۔ زمیندار کا کارندہ آکر دروازے پر ڈٹ گیا۔ اگر گزشتہ سال کا لگان ادانہ کیا گیا تو زمیندار مالک مقدمہ چلائیں گے۔ برادری کے لوگوں نے کہا، ’’ذات بھات دے کر شدھ ہونا پڑےگا۔‘‘

    پہلی مزدوری کرنے نکلا لیکن دھان کی کٹائی کے بعد پوس کے مہینے میں کام کہاں؟ علاوہ ازیں پہلی نے محسوس کیا کہ گاؤں کے لوگ اسے دیکھ کر عجیب طرح سے ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ ایک نے تواس دن بآواز بلند کہہ ہی دیا، ’’گؤہتیا کرنے والے کو چھونے سے پاپ لگےگا۔‘‘ پہلی اسی روزسے سب سے کتراتا ہے۔ کسی کے ساتھ پیش قدمی کرکے میل ملاقات نہیں کرتا۔ برادری کے لوگوں کو بھات نہ دینے کی بناپر وہ اب بےذات ہے۔ سماج میں اٹھنے بیٹھنے کی ممانعت ہے۔ برہمن گوسائیں لوگ روٹھ گئے ہیں۔ نائی، آگ، پانی سب کی ممانعت ہو گئی ہے۔ پہلی کو گاؤں والوں نے ’تنہاگھر‘ (برادری باہر) قرار دے دیا ہے۔

    پہلی کا تروتازہ جسم دیکھتے ہی دیکھتے سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے۔ گیلی کی ماں کا تو وہ حال ہے کہ پھونک دو تواڑ جائے۔ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے۔ پہلی نے گھر والی کو مائکے بھیج دیا۔ پہلی کے ہاں ایک دن چولہا جلتا تو دو دن فاقے ہوتے۔ اتنار وپیہ پیسہ خرچ کرکے وہ پوری میں جس سیاہ داغ کودھوکر آیا تھا، وہ اب اور زیادہ دل کی گہرائی میں نقش ہو گیا تھا۔

    حسب سابق خوفناک خواب اب بھی کبھی کبھی پاگل کر دیتے ہیں۔ وہ رہ رہ کر چونک اٹھتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے جیسے ایک سیاہ جانور اس کے چاروں طرف چرتا پھرتا ہے۔ وہ رات کو خواب دیکھتا کہ ایک بدمزاج بیل اپنی دم اٹھائے اسے سینگوں سے چھیدنے کے لیے دوڑا چلا آ رہا ہے۔ وہ خواب میں چیخ پڑتا۔ وہ آیا، وہ آیا۔ سینگ بھونک دےگا۔ چھید ڈالےگا۔ بھاگو۔ بھاگو۔

    سب کچھ ختم ہو جانے کے بعد پہلی کا وہ شکستہ مکان بھی لگان ادانہ کرنے کے باعث نیلام ہو گیا۔ اس کے لیے اس طویل وعریض دنیا میں سر چھپانے کے لیے سوئی کے ناکے کے برابر بھی جگہ نہ رہ گئی۔ گھر کی نیلامی کے وقت پہلی ہکابکا دیکھتا رہا۔ اس کے منہ سے نفی یا اقرار میں کچھ نہ نکل سکا۔ جب اسے یہ بتا دیا گیا کہ اب وہ اس مکان میں نہیں رہ سکتا تو وہ خاموشی کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور باورچی خانے سے اپنے ’’ایشان ویدی‘‘ (باورچی خانہ کے شمال مشرق زمین میں گڑی ہوئی وہ چوکی جہاں کھانا تیار ہونے کے بعد سب سے پہلے کل دیوی کی نذر کیا جاتا ہے) اور باڑی سے اپنی مرحوم لڑکی گیلی کے ’’ششٹھی گات‘‘ (بچے کی چھٹی پر ششٹی دیوی کی پوجا کے لیے تیار کردہ نقش) کھود کر لے آیا اور آہستہ آہستہ گھر سے باہر نکل گیا اور ایک بار جونکلا تو پھرلوٹ کر نہیں آیا۔

    موروثی مکان ہاتھ سے نکل جانے کے بعد پہلی کے دل کی حالت اور بھی خراب ہو گئی۔ وہ اپنی راتیں کبھی اس چھپر اور کبھی اس سائباں کے نیچے گزارنے لگا۔

    گھر کے درمیان لگا ہوا سہجن کا پیڑ پہلی کو بہت عزیز تھا۔ اس نے چھینے کی ڈھیروں راکھ اس کی جڑوں میں ڈالی تھی۔ اس پیڑکی پھلیوں کی لڑیاں خواہ بڑھ بڑھ کر نیچے گر جائیں لیکن ان میں سے ایک بھی توڑکر باسی روٹی کے ساتھ کھانے کے لیے پہلی کا کبھی ہاتھ نہ بڑھتا۔ اس کے سائے میں بیٹھ کر اس نے کتنی چاندنی راتیں بسر کی تھیں۔ راستے میں کھڑے ہوکر کبھی کبھی پہلی اس پیڑ کو تاکتا رہتا۔ اس کے سائے میں بیٹھنے کے لیے اس کی طبیعت للچانے لگتی، لیکن وہ لوٹ آتا۔ مالک کا چوکیدار اسے دیکھ کر مذاق اڑاتا، ’’کیوں بے گؤہتیارے پہلی۔‘‘

    پہلی کو یاد آتا، گھر کے عقبی حصے میں پر چھی کے نیچے کنکرا بھابی کے پودے خوب اگے ہوں گے۔ کنوئیں کے پاس والے کنیر اور سدابہار کے پودے پھولوں سے لد گئے ہوں گے۔ اس کا جی چاہتا کاش وہ ان کی ایک جھلک دیکھ سکتا۔ اس کے ٹوٹے ہوئے دل میں ہوک اٹھتی اور وہ چکناچور ہوکر بکھر بکھر جاتا۔ وہ کھلی آنکھوں سے نہ جانے کتنے ہولناک خواب دیکھتا اور بڑبڑانے لگتا۔ اسے محسوس ہوتا جیسے اس اثنا میں اس کی موت واقع ہو گئی ہے۔

    گھر نیلام ہونے کے بعد ایک ماہ بعد ایک دن محلے والوں میں تذکرہ چھڑ گیا کہ پہلی پدھان پاگل ہو گیا ہے۔ گندگی میں لتھڑا ہوا ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے اور آدمی کو دیکھ کر چیخنے لگتا ہے، ’’وہ آیا۔۔۔ آیا۔۔۔ سینگ بھونک دےگا۔۔۔ ہوشیار۔‘‘

    ایندھن لینے کے لیے پہاڑ سے لکڑیاں لانے کے لیے کچھ باورنی (ایک خاص نچلا طبقہ) لڑکیاں گئی تھیں۔ وہ لوگ شام گیے ساہو دھوبی کی دکان کے پاس باتیں کر رہی تھیں کہ پہلی پہاڑ پر بیٹھا ہے اور بالکل بیلوں کی طرح آوازیں نکال رہا ہے اور کہتا ہے، ’’وہ آیا۔۔۔ کتنی بڑی بڑی سینگیں ہیں۔ وہ فوں فوں کر رہا ہے۔ میں مر گیا۔ میں مر گیا مالک۔‘‘

    تمام باتیں سن کر ندھی مصر نے سنجیدگی کے ساتھ کہا، ’’اس کا پاپ اسے نظر نہ آئےگا تو کیا ہوگا؟ شدھی کے بغیر کیا گؤہتیا کا پاپ دھل سکتا ہے؟ ہم نے لاکھ سمجھایا لیکن اس نے ہماری بات نہ مانی۔ دس روپیہ خرچ کرکے برہمن بھوج کرتا اور شدھ ہو جاتا اور آج پاک صاف ہوکر آرام سے بیٹھا ہوتا۔ دھرم کیا دنیا سے اٹھ گیا ہے؟‘‘ پریکچھت برہما نے کہا، ’’آج کل شاستر اور پران کی بات کون مانتا ہے مصرجی؟ دیکھتے نہیں مرنے کے وقت کس طرح مویشی کی مانند چیخ رہا ہے۔ اس کا وقت آ لگا ہے۔ اس کا پاپ آگے آ رہا ہے، چھپ تو نہیں سکتا۔‘‘

    سنسان پہاڑ پر پہلی کا جسم تو نہیں، ڈھانچہ پڑا ہے۔ ایک بھیانک تصور کا آسیب اس کے وجود پر لمبا سایہ ڈالے دبوچ کر بیٹھا ہے۔ اس سے پہلی کو مفر نہیں۔ اس آسیب کے ساتھی ہیں۔۔۔ بہت دنوں کی بھوک، فاقہ کشی، قلت، صعوبت اور توہین۔ سب مل کر اس کے دل کو پیس دینے پر آمادہ ہیں۔

    پہلی دیکھ رہا ہے کہ اس کے سامنے گھربار، اہل وعیال، خاندان کچھ نہیں ہے۔ محض ایک سنسان خلاہے اور ایک بہت بڑی کتاب جس کے صفحات پر بڑے بڑے یم دوتوں کی تصویریں ہیں، کالی کالی آنکھیں، نوکدار سینگ۔ اس کتاب کا ہر ہر حرف کولہو کی گھانی جیسا ہے۔

    پہلی سوچتا، اس کے ہاتھ سے گائے نہیں مری ہے بلکہ اس نے اپنے ہی گلے پر چھری پھیر لی ہے۔

    پہلی کے ساکت ویران دل میں کوئی ہلچل نہیں ہے۔ گردوپیش کی فضا بوجھل اور اپنے وجود پر حاوی ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور وہ اپنے وجود کو سائیں سائیں کرتے ہوئے سونے پن کے درمیان گھرا ہوا پاتا ہے۔

    بیدوں کی پھیلی ہوئی گھنی شاخوں کے بیچ سے پہاڑی کوا چیختا ہے۔ کائیں، کائیں، کائیں۔ جنگل، جھاڑ جھنکاڑ، ٹیلے وغیرہ مل کر زندہ انسان کی طرح اس کے کانوں میں بار بار آواز لگا رہے ہیں، آ-آ-آ۔

    پہلی نے نل گاؤں والے راما کی لاش بھی دیکھی ہے۔ اس کے بھرائے ہوئے منہ سے لہراتی بل کھاتی ہنسی ابل پڑی ہے اور دور کوئی سوں سوں کرتا ہوا چر رہا ہے۔ پہلی خوف زدہ ہوکر چیختا ہوا ایک نوکدار پتھر پر گرپڑا۔

    دوسرے دن پتیاں لانے والی چھوکریوں نے گاؤں والوں کو مطلع کیا کہ پہلی آخری سانس لے رہا ہے۔ بس دو چار گھڑی کی دیر ہے۔ بکری چرانے والے نوکانے ہاتھ پاؤں ہلا ہلاکر محلے والوں کو بتا دیا۔ دویم دوت پہلی کی طرف نگاہ جماکر بیٹھے ہیں۔ ان کے منہ بیل کی مانند ہیں۔ اس کے ہکلانے سے وہ بھاگ گئے۔

    گاؤں کے دو چارجوان چھوکروں نے جاکر دیکھا۔ پہلی دو پتھروں کی دراڑ میں منہ چھپاکر پڑا ہے۔ اس کے بھیجے کا ایک حصہ اڑ گیا ہے۔ خبر ملتے ہی اسی رات گیلی کی ماں آ گئی۔ وہ اپنے گھر والے کی شدھی کرواکر گؤہتیا کے پاپ سے نجات دلانے کے لیے مائکے سے کچھ روپے لائی ہے۔ اسی رات کو اپنے شوہر کے پاس پہنچنے کے لیے اس نے ان گنت لوگوں کی منت خوشامد کی لیکن اتنے بڑے گاؤں سے ایک آدمی بھی رات کو ٹیلے پر جانے کے لیے آمادہ نہ ہوا۔

    صبح تڑکے گیلی کی ماں نے ٹیلے پر پہنچ کر باورنی لڑکیوں سے پوچھ تاچھ کی اور جاکر دیکھا۔ پہلی مر چکا ہے۔ منہ سے جھاگ نکلا ہوا ہے، آنکھ الٹ گئی ہے، کان کے پاس سر کا نصف حصہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر کہیں بکھر گیا ہے۔

    اس کی آنکھوں کے آنسو خشک ہو گئے اور وہ ویران نگاہوں سے اس کی طرف تاکتی رہی۔ ناپاک پہلی کا مردہ کیسے اٹھےگا؟ گاؤں والوں میں اس مسئلے پر کافی گرما گرم بحثیں ہوئیں۔

    گیلی کی ماں اپنے آدمی کو شدھ کرنے کے لیے باپ کے گھر سے جو دس روپے لائی تھی، انہیں پلو سے کھول کر اس نے گاؤں کے سربراہوں کی طرف بڑھا دیا اور لمبی لمبی سب کے پیروں پر گر پڑی۔

    برہمن، گوسائیں اور برادری کے لوگوں نے خوش ہوکر مردے کو آشیرواد دیا۔

    مأخذ:

    اڑیا افسانے (Pg. 44)

      • ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1980

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے