Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اندھیر نگری

ظہیر عباس

اندھیر نگری

ظہیر عباس

MORE BYظہیر عباس

    اس نے ایک دوکروٹیں لے کر باقی ماندہ نیند پوری کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن ہر سو سرسراتے سناٹے سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ بازار وں میں دور تک کوئی نہیں تھا ۔گھروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔سورج سوا نیزے پر ہی تھا اور یہ وہ وقت ہوتاتھا جب گلی میں مزدوراورآنے جانے والے شور شرابا کرتے گزرتے اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ بھی انہیں کا حصہ بن جاتالیکن اب ایسا کچھ نہیں تھا اس کے دماغ میں خیالات نے دھماچوکڑی مچا دی۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اچانک یہ کیا ہو گیا؟وہ بازار کے عین درمیان کھڑا تھاجہاں دن میں اگر کوئی ایک لمحے کو رک جاتا تو آنے جانے والوں کے پاؤں تلے کچلاجاتا۔جتنا وہ اس معاملے پر غور کرتا الجھ جاتا ۔وہ سر پکڑکر زمین پہ بیٹھ گیا۔آہستہ آہستہ جب اس کے ہوش بحال ہونے شروع ہوئے تو اس کے دماغ میں ساتھی مزدوروں کی سرگوشیاں گونجنے لگیں جووہ کئی دنوں سے کر رہے تھے۔بھوک کی وبا نے ہولے ہولے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا تھا۔قحط غیر محسوس طریقے سے ہر گھرمیں سرایت کررہا تھا۔چند اموات بھی ہوئی تھیں لیکن لوگوں کو خبر نہیں ہونے دی گئی۔وہ ساری باتیں سنتا ضرور تھا لیکن کبھی اسے مخاطب کر کے کسی نے کوئی بات نہیں کہی، اس وجہ سے اسے یہ خبر نہیں ہوئی کہ شہر میں بھوک کہاں ہے؟ وہ تو روز کھانا کھاتا تھا۔اس نے دور بازار میں دیکھا، سوائے اس کے کوئی نہیں تھا۔ممکن ہے شہر میں اس کے علاوہ اور لوگ بھی ہوں،اس خیال نے اسے کچھ حوصلہ دیا۔ہمت کر کے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

    دروازوں کی چٹخنیاں ابھی تک ہل رہی تھیں جیسے لوگ ابھی ابھی نکل کے گئے ہوں۔وہ کافی دیرکسی دوسرے انسان کو ڈھونڈتارہا لیکن اسے کوئی نظر نہ آیا۔اب تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ اسے بھوک اور پیاس بھی ستانے لگی تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے ایک دو گھروں میں جھانکا ۔سوائے خالی پن کے اسے کچھ دکھائی نہیں دیا۔پھرہمت کرکے وہ ایک ایسے مکان میں داخل ہو گیا جہاں کام کے سلسلے میں اکثراس کاجانا رہتا تھا۔اسے نظریں اٹھا ئے بغیر ہی اندازہ ہو گیا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے ۔جس گھر کے دروازے سے آگے جانے کی نہ کبھی اسے اجازت ملی تھی اور نہ ہی حوصلہ ،آج وہ وہاں بے خوف وخطر کھڑا تھا۔کمروں میں پھرتے پھراتے وہ ایک ایسے کمرے میں جا نکلا جہاں گھر کے مالک کھانا بنانے کا اہتمام کرتے تھے ۔رسوئی پر کپڑے میں ڈھانپی ہوئی بھاپ اڑاتی چپاتیاں پڑی تھیں،جیسے ابھی ابھی کوئی پکا کے چھوڑگیا ہو ۔چولہے میں آگ پورے جوبن پر تھی۔ اس نے ہنڈیا کا ڈھکن اٹھا یاابلتے ہوئے گوشت کو دیکھ کر اسے شدت سے اپنے بھوکے ہونے کا احساس ہوا۔پاس پڑے ہوئے برتن میں اس نے جلدی سے سالن نکالا اور مزے سے کھانے لگا۔وہ کھائے جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ بھی یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے آخری بار کب گوشت کھایا تھا ؟اس نے تو سنا تھا کہ قحط سالی کو طول پکڑے کافی عرصہ ہو چلا ہے، لوگ گھاس کھانے پر مجبور تھے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ اس گھر میں کوئی گوشت پکا کے چھوڑ گیا تھا۔اس نے جی بھر کے اشتہا مٹائی اور کافی دیر پھرتا رہالیکن کوئی ذی روح اسے نظر نہ آیا۔

    سناٹے میں اپنے قدموں کی دھمک سے وہ کانپ کانپ اٹھتاجو اسے اپنے وجود کی گہرائیوں تک محسوس ہو رہی تھی۔ اب وہ دبے پاؤں چل رہا تھا،۔کوئی ہے ،کوئی ہے؟ اس نے چیخ چیخ کر آوازیں دیں لیکن کوئی ہوتا تو اس کی آواز کا جواب بھی دیتا۔جوں جوں وقت گزر رہا تھا اضطراب اس کے گلے کو آرہا تھا۔ دیواروں اور خالی مکانوں کا آسیب اس کے وجود میں سرایت کر رہا تھا ۔شام ڈھلنے سے پہلے اسے کوئی فیصلہ کرنا تھا۔رات اگر وہ شہر میں رہتا تو سناٹا اس کا گلہ گھونٹ دیتا اور اگر شہر سے باہر جاتا تو کدھر جاتا؟وہ اس طویل اور کشادہ بازار میں تھاجہاں سارا دن کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔وہ اپنے سائے کی رہبری میں مغرب کی سمت چل پڑا۔ اس کے کانوں میں دکانداروں ،گاہکوں اورچلتے ہووؤں کی آوازیں گونج رہی تھیں جو بازار سے گزرتے ہوئے وہ روز سنتا تھا۔اتنی دیر مارامارا پھرنے کے بعد اسے یقین ہو چلا تھا کہ اس وقت وہ شہر میں اکیلا ہے۔کچھ خالی مکانوں سے ہو آنے کے بعد خوامخواہ اس کا جی لوگوں کے گھروں میں جانے کو چاہ رہا تھا۔تجسس نے اس کے دل میں ان گھروں اور خفیہ جگہوں میں جانے کی خواہش پیداکی جہاں جانے کا وہ صرف خواب ہی دیکھ سکتا تھا ۔

    اس کے دل میں فوراجس گھر میں جانے کی امنگ بیدار ہوئی، وہ اس لڑکی کا گھر تھا جس سے وہ یکطرفہ محبت میں مبتلا تھا ۔اس کا گھر دو تین گلیا ں چھوڑ کے تھا ۔جب وہ ہوا کھانے کے لیے اپنے گھر کی عقبی کھڑکی کھولتا تو ایک بہت اونچا مکان تھاجس کی تیسری یاچوتھی منزل کی بالکونی سر اٹھاتے ہی نظر آجاتی ۔ایک روز جب صبح اٹھ کر اس نے کھڑکی کھولی تو ایسامنظر دیکھاکہ اس کے دل میں گدگدی ہونا شروع ہوگئی۔دور سے اسے صرف سفید رنگ ہی نظر آیا۔چہرہ تو دکھائی نہیں دیا لیکن یہ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں تھا کہ وہ جو کوئی بھی تھی،تھی بہت خوبصورت !بس وہ دن اور آج کا دن ،وہ ہر صبح کھڑکی کھول کے بیٹھ جاتا،سوائے ایک دو مواقع کے، وہ نظارے سے ہمیشہ محروم ہی رہا ۔دو تین بازار چھوڑ کے وہ گھر تھا ۔پہچاننے میں اسے دقت پیش نہیں آئی ۔آس پاس کے مکان اتنے بلند نہیں تھے ۔کافی دیردروازے پر کھڑاوہ حوصلہ اکٹھا کرتا رہا ،بالآخر ہمت کرکے اندر داخل ہوہی گیا۔بہت کھلا گھرسارے کمروں میں اس نے گھوم کے دیکھا،اب وہ اس بالکونی میں کھڑاتھا جہاں ایک بار اس لڑکی کی جھلک دکھائی دی تھی ۔وہاں سے اس کا مکان اور ارد گر دوسرے مکان اسے دڑبوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔اس نے اپنی کھڑکی کی طرف دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ اتنا سر جھکانے سے قاصر تھا کہ کھڑکی دکھائی دے جاتی۔پہلی بات تو یہ تھی کہ اتنی اونچائی سے وہاں دیکھنا ممکن نہیں تھا،اگر کوئی دکھائی دے بھی جائے تو بہت مضحکہ خیز اورحقیردکھائی دے ۔بلندی سے دیکھنے کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا۔چند لمحے اس نے نظرآنے والے مکانوں کا جائزہ لیا اور نیچے اتر آیا۔اب وہ مطمئن تھا۔ اسے یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ وہ اس سے اتنی بے خبر کیوں تھی۔ وہ سمجھتا تھا شاید وہ اسے جان بوجھ کے نظر انداز کرتی ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔

    لوگوں کے شہر چھوڑ جانے کی وجہ سے خوب مشغلہ اس کے ہاتھ آگیا تھا۔اب وہ بے خوف وخطر کہیں بھی کسی بھی وقت آجا سکتا تھا۔ہوش سنبھالنے سے اب تک اپنی مرضی سے اس نے کوئی کام نہیں کر کے دیکھا تھا۔اپنے ہونے کا اولین احساس اب بھی دھندمیں لپٹی تصویر کی طرح اس کے ذہن پر نقش تھا۔اس کا باپ بیدردی سے اسے ٹھوکریں مار رہاتھا'' حرام زادے تم کوڑیوں کے بھاؤ بکے ہو لیکن مزے سے یوں پڑے ہو جیسے کہ کوئی پارس پتھر ہو''۔وہ دن اور آج کا د ن اس کی قیمت بڑھتی چلی گئی۔مزدور منڈی میں اس کی دھوم تھی ۔ہر کوئی اسے رشک سے دیکھتا اور اس جیسا بننے کوئی خواہش کرتا۔وہ نہ صرف اندھی طاقت کا مالک تھا بلکہ بہت بہادر بھی تھا ۔سارے مزدور اس کے غصے سے ڈرتے تھے ۔جتناوزن وہ اکیلا باآسانی اٹھا لیتا تھا،چار آدمی مل کر بھی نہیں اٹھاسکتے تھے ۔اس کی تعریف میں کوئی اسے گدھا ،کوئی گھوڑا،کوئی سانڈ تو کوئی کچھ کہتا۔مزدوروں میں سب سے چھوٹا ہونے کے ناتے ہر کوئی اس سے شفقت سے پیش آتااور جوابا وہ بھی ہر کسی کی بات مانتا تھا۔مالک کا حکم بجا لانے میں کوئی سدھایا ہوا جانور بھی کہاں اس کا ثانی ہو گا۔بوجھ اٹھا اٹھا کراس کی گردن جھک گئی تھی۔ اس نے کبھی نگاہ اٹھا کر دیکھا ہی نہیں کہ اس کے گرد کیا ہو رہا ہے۔اب جبکہ وہ اکیلا تھااورکوئی اسے نہیں دیکھ سکتا تھا، وہ حیرت سے ایک ایسے شخص کی طرح چاروں طرف دیکھ رہاتھاجوپیدائشی نابینا ہواورمعجزاتی طور پر اسے بینائی مل گئی ہو۔یہ سوچ بہت مسحورکن تھی کہ وہ اس شہر کا اکیلا وارث ہے۔ذہن میں یہ خیال آتے ہی اس نے ماہردرزی کی دکان کا رخ کیا جہاں ایک دفعہ اس نے قیمتی کپڑے کا ایک گٹھڑ پہنچایاتھا۔دوسرے مکانوں کی طرح اس دوکان کادروازہ بھی کھلا تھاجیسے اسی کا منتظر ہو ۔دکان رنگ برنگے ملبوسات سے اٹی پڑی تھی۔ اپنے ناپ کا ایک قیمتی جوڑا زیب تن کر کے وہ نکل کھڑا ہوا۔

    پہلے تواس نے سوچا کہ کیوں نہ شہر کے ہر گھر میں جاکر دیکھا جائے لیکن پھر ارادہ بدل لیااور صرف انہی جگہوں کا انتخاب کیا جہاں جاناعام حالات میں ممکن نہیں تھا۔ایک چوراہے پہ چند لمحے رک کر اس نے کچھ سوچااور چل پڑا ۔اس کے قدم خودبخود اٹھ رہے تھے۔تھوڑی ہی دیر بعد وہ ایک بہت بڑی دیوارکے سائے میں تھا۔کئی فٹ اونچے اوربھاری بھرکم دروازے کا ایک پٹ کھلا تھا۔ یہ شہر کی مرکزی عدالت کا احاطہ تھا جہاں لوگوں کی قسمت کے فیصلے ہوتے تھے ۔اب بالکل سنسان پڑا تھا ۔کاغذات ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے ۔کچھ دیروہ کمرہ عدالت میں کھڑاخالی کرسیوں کو گھورتا رہا اور پھر قاضی کی کرسی پر جا بیٹھا۔ابھی وہ بیٹھ کر ارد گرد کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ اسے عقبی دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔ ملازم نے ایک کتاب لا کر اس کے سامنے رکھی اور الٹے پاؤں چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد ایک ہتھکڑی لگے ملزم کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے کمرۂ عدالت لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔وکیل صفائی اور استغاثہ بھی فائلیں اٹھائے آن پہنچے ۔کافی دیر بحث چلتی رہی لیکن وہ سب سے بے خبر اونگھتا رہا ۔غنودگی کے عالم میں اس نے مقدمے کی کارروائی سنی اورفیصلہ دے دیا۔کوئی جرم ہوا بھی تھا کہ نہیں، قصور کس کا تھا ،حق پہ کون تھا؛اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اسے تو بس فیصلہ صادرکرنے کی جلدی تھی ۔

    ایک بار پھروہ شہر کے بازاروں میں یہ سوچتا ہوا جا رہا تھا کہ مقدمے نپٹانا اور فیصلے کرنا تو انسان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کمرۂ عدالت میں قاضی کی کرسی پر بیٹھتے ہی شاید اسے اونگھ آ گئی تھی ۔جو کچھ وہاں ہوا ،وہ زندگی میں اس نے کسی سے نہیں سنا تھا اور عدالت میں وہ پہلی بار ہی آیا تھا۔ایک بار پھر وہ ویسے ہی تنہا تھا جیسے کمرہء عدالت میں آنے سے پہلے تھا۔اپنی نوعیت کا یہ عجیب خواب تھا۔ خیر ایک بات جو بہت مسرت کا باعث تھی کہ ملزم کو سزا سنانے اور اس کے چہرے پہ رقصاں موت کو دیکھنے سے زیادہ دلکش نظارہ کوئی نہیں ہو سکتا ۔

    اس کے دماغ میں اپنے ساتھی مزدوروں کی وہ لذیذسرگوشیاں گونج رہی تھیں جن کا تبادلہ وہ اس وقت کیا کرتے تھے ۔جب وہ دن بھر کی تھکن اوڑھ کر بستروں پر دراز ہوتے ۔یہ اکثر درباری حرم کی دوشیزاؤں ،طوائفوں کے رقص اور ان کے حسن کے بارے میں ہوتی تھیں ۔شہر میں کوئی ایک عورت بھی ایسی باقی نہیں بچی تھی جسے قبول صورت کہا جا سکتا ہو ۔شاہی کارندے ہر گھر کی خبر رکھتے ۔جس گھر میں کوئی جواں سال خوبصورت لڑکی دکھائی پڑتی، اگلی رات وہ شاہی حرم کی زینت بن چکی ہوتی ۔شروع میں ایک دو گھروں سے دبادباسا احتجاج ہوا تھا ۔صدائے احتجاج اٹھانے والے خبر نہیں پھر کہاں چلے گئے ؟اب تو جس گھر سے لڑکی جاتی، اس گھر کے وارے نیارے ہو جاتے ۔روزی روٹی کی فکر ہمیشہ کیلئے ختم ہوجاتی۔ اناج اور دوسری ضروریات زندگی کی اشیا شاہی خزانے سے پوری ہونے لگتیں ۔ لوگ دعا کرتے کہ ان کے گھروں میں نہ صرف لڑکیاں پیدا ہوں بلکہ خوبصورت بھی ہوں ۔جس گھر میں پرکشش لڑکی پیدا ہو جاتی ،وہاں جشن کا سماں ہو تااورپھربے صبری سے شاہی کارندوں کا انتظار شروع ہوجاتا۔ اگر کسی کے ہاں بدصورت بیٹی یا بیٹاپیدا ہو جاتا تو وہاں صف ماتم بچھ جاتی۔شہر بھر میں شاہی عنایات سے محروم صرف وہی لوگ تھے جن کے گھروں میں بدصورت بیٹیاں پل رہی تھیں یا پھر بیٹے۔وہ انہیں لوگوں میں سے تھا جنھیں اپنے پیٹ کا سامان خود کرنا پڑتا تھا۔بچپن سے اب تک اس نے سینکڑوں مرتبہ یہ باتیں سنی تھیں لیکن غور کرنے کا موقع اب ہاتھ آیاتھا۔

    ان دیکھی جگہیں سارا دن اسے اپنی طرف کھینچتی رہیں۔ اسے گماں تک نہ ہوا کہ وہ ان مکانوں میں بالکل اکیلارہ گیاہے۔ڈھلتے سورج نے جب اونچے نیچے مکانوں اور درختوں کے سایوں کوپھیلا پھیلا کر دوگنا چوگنا کرنا شروع کیا تو اسے احساس ہوا کہ رات ہونے کوآگئی ہے۔وہ جو شہر کا واحد وارث بنا پھرتا تھا،شام کے سائے لمحہ لمحہ اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔جہاں وہ کھڑا تھا وہ جگہ اس کے گھرسے کافی فاصلے پر تھی۔اسے سورج ڈوبنے سے پہلے ہر صورت اپنے ٹھکانے پر پہنچنا تھا۔وہ تیز تیز چلنا چاہتا تھا لیکن اپنے قدموں کی دھمک سے بچنے کے لئے اسے پنجوں کے بل چلنا پڑرہا تھا۔سارے مکان جیسے اس کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے اور آپس میں کچھ سرگوشیاں بھی کررہے تھے۔گھورتی اشیاسے آنکھیں چرا کووہ جلد ازجلد اپنے کمرے میں پناہ لینا چاہتا تھا۔ وہ جس مکان کے قریب سے گزرتا وہ دیر تک اسے مڑمڑکر دیکھتا رہتا۔شہر ،جس میں اس کی زندگی گزر گئی تھی، اب اسے بھوت نگر دکھائی دے رہا تھا۔یہ پہلا دن تھا جب اس نے کوئی کام نہیں کیا وگرنہ رات گئے تک اس کی گردن بوجھ تلے دبی رہتی ۔اسے یاد نہیں تھا کہ کوئی ایسا بھی دن اس کی زندگی میں آیا تھا جب اس نے سارا دن آرام کیا ہو یا آوارہ گردی میں دن ضائع کر دیا ہو۔آج اس کی ٹانگوں سے جیسے کسی نے جان نکال لی ہو۔وہ اپنی ٹانگیں بے بسی سے دیکھ رہا تھا جو آگے بڑھنے میں اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں ۔وزن اٹھانے میں جس کا کوئی ثانی نہیں تھا،آج پہلی بار جب اسے اپنابوجھ اٹھانا پڑگیا تو جان کے لالے پڑگئے ۔بالآخر وہ ہانپتے کانپتے اپنے مکان تک پہنچ ہی گیاجو شام کے دھندلکے میں بے صبری سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔

    اس نے کمرہ اندر سے بند کر لیا۔وہ عقبی کھڑکی جسے وہ رات رات بھر کھلا رکھتا تھا، آج اسے بہت کمزور سی دکھائی دے رہی تھی۔اس نے کھڑکی کو بھی بند کیا۔ ایک بھاری ٹرنک کھڑکی کے آگے کھینچ کر اس طرح لگا دیا کہ اگر کوئی بہت زور بھی لگائے تو اسے کھول نہ پائے۔سارا انتظام کر کے وہ بستر پر لیٹ گیا۔وہ سارے مزدور جو پچھلی رات اس کے پاس لیٹے تھے اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ سارے کے سارے آج اس کے ساتھ نہیں ہیں اور وہ بالکل تنہاہے۔اس نے اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ وہ تو شہر میں اکیلا ہے، اسے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ڈر کا لفظ ذہن میں آتے ہی وہ تھرتھر کانپپنے لگا،اس نے اٹھ کر کمرے میں چہل قدمی کرنا شروع کردی ،کبھی دروازے کے ساتھ جا کر کھڑا ہو جاتا تو کبھی ٹرنک کو ہلا کر دیکھتا ۔کبھی اس کا جی چاہتا کہ دروازہ کھول کر باہر دیکھے کہ کوئی ہے یا نہیں پھر خود کو کوستا کہ دن بھر تو وہ شہر میں اکیلا پھرتا رہا ہے، جب کہیں کوئی نہیں تھا تو اب کہاں سے آجائے گا؟اس نے کھڑکی اور دروازہ کیوں بند کررکھے ہیں؟اندھیرے کمرے میں پہلی باراسے خدا کا خیال آیا۔وہ جو سارا سارا دن جانوروں کی طرح کام کرتا اور رات بستر پر گرتے ہی نیند کی وادی میں غرق ہو جاتا، اسے پتہ ہی نہیں تھاکہ مذہب اور خدا کسے کہتے ہیں ۔اس نے لوگوں سے سن رکھا تھا کہ کوئی ایسی ہستی بھی ہے جو مشکل گھڑی میں انسانوں کے کام آتی ہے۔اس کی زندگی میں تو آج سے پہلے کوئی کٹھن وقت آیا ہی نہیں، اس لئے اسے خدا کو یادکرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔اب اسے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس سے مدد کیسے مانگی جائے ؟شہر میں عبادت گاہیں بھی تو بہت سی تھیں ۔پتہ نہیں کون سا خدا ایسا تھا جو اس طرح کے اوقات میں مدد کو آتا ہے ؟اس نے بڑی مشکل سے خود کو روکا ورنہ وہ تو اونچی آواز سے کسی خدا کو آواز دینے ہی والا تھا۔اسے ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو،اس کی آواز سن کر کوئی اور ہی آجائے۔اس نے دل ہی دل میں خدا کو پکارنے کی کوشش کی لیکن صورت حال پہلے سے بھی بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ پہلے جب وہ سوتا تھا تو ایک بار دن چڑھے ہی اٹھتا تھالیکن آج وہ کھڑکی کھول کر دیکھ بھی نہیں سکتا تھا کہ رات کتنی باقی ہے ؟اندھیرے میں مختلف شبیہیں اسے نبتی بگڑتی دکھائی دے رہی تھیں ۔آنکھیں بند کرکے اس نے خود کو محفوظ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن نتیجہ جوں کا تو ں رہا۔سناٹا گھوں ۔۔گھوں۔۔گھوں کرتا اس کے کانوں میں گھستا چلا آرہا تھا ۔جو بات اس سب سے زیادہ خوف زدہ کر رہی تھی وہ اس کے دل کی دھڑکن تھی۔ٹھک ۔۔ٹھک۔۔ ٹھک۔۔ ٹھک کی آواز تھی جو دل کے اندر سے آرہی تھی۔ اسے پل پل یہ مغالطہ ہو رہا تھا جیسے کوئی ہولے ہولے اس کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے اور مایوس ہونے پر کھڑکی کی طرف آجاتا ہے۔کھڑکی حالانکہ زمین سے کافی بلند تھی ،سیڑھی لگائے بغیر اسے باہر سے نہیں کھولا جا سکتا تھالیکن اسے محسوس ہو رہا تھا کہ باہر جو کوئی بھی ہے وہ حسب ضرورت اپنا قد بڑھانے اورکم کرنے پرقادر ہے۔

    پہردن چڑھے اس کی آنکھ کھلی ،وہ لیٹا کافی دیر تک سوچتا رہاکہ جو واقعات اس کے ساتھ پیش آرہے ہیں ،حقیقی ہیں یا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے ۔دروازہ کھول کے اس نے باہر دیکھا ہر سو ہو کا عالم تھا،صورت حال پچھلے روز جیسی ہی تھی۔لیکن آج وہ سنبھل چکاتھا۔ کھڑکی کے آگے سے ٹرنک ہٹاتے ہوئے اسے اپنی بزدلی پرغصہ بھی آرہا تھا۔کھڑکی کھول کر سامنے بالکونی کی طرف سر اٹھائے کچھ دیر دیکھتا رہا۔سورج بالکل سر کے اوپر تھا۔کافی دیر نہانے کے بعد وہ تازہ دم ہوکر باہر نکلا ۔ اس نے پختہ ارادہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ رات سہم سہم کر نہیں گزارے گا۔اور جہاں رات ہو جائے گی وہیں سوجائے گا۔اپنے گھر کی طرف بھاگنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ جب تک لوگ واپس نہیں آجاتے۔حیرت انگیزطورپرکل صبح سے جو واقعات پیش آرہے تھے، وہ اسے حقیقی ،جبکہ سابقہ مزدوروں والی زندگی اسے ڈراؤنے خواب کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ رات اس کے ذہن میں جب خداسے مدد لینے کا کمزور سا خیال ابھراتھا تو ایک نامحسوس خواہش نے اس کے دل میں انگڑائی لی تھی کہ اگر صبح ہوئی تووہ عبادت گاہوں میں جا کر ضرو ر دیکھے گا ۔شہر کی عبادت گاہوں کے دروازے مزدوروں پر بند تھے۔ ویسے بھی مزدور کا مالک او رمددگار تواس کا آقا ہوتا ہے جو اسے کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑے دیتا ہے۔ تو پھر یہ خدا کون ہے جو آقاؤں کا بھی آقا ہے؟

    جن مکانوں میں اس نے جا کر دیکھا تھا،وہاں تو کھانے کو کافی کچھ موجود تھا اور وہ حیران تھا کہ لوگ تو دو لقموں کو ترس رہے تھے۔وہ کس قسم کا قحط تھا جس نے انہیں شہر سے نکلنے پر مجبور کر دیا؟۔ چند مکانوں میں تو غلہ اتنی مقدار میں تھا کہ ایک خاندان عرصہ تک گزارا کر سکتا تھا۔بلکہ اسے یوں محسوس ہوا جیسے کہ لوگوں نے آنے والے وقت کے لئے بھی ذخیرہ اندوزی کررکھی تھی ۔البتہ کچھ مکان ایسے بھی ضرور تھے جن میں غربت کی حکمرانی تھی۔ ایسے گھروں کے مکینوں کی شہر چھوڑ جانے کی وجہ تو سمجھ آرہی تھی لیکن سب کے سب کی شہر سے کوچ کرجانے کی وجہ کم ازکم بھوک نہیں تھی۔ دوسراکوئی سبب اس کی سمجھ نہیں آرہاتھا۔ یہ معاملہ ہوتا تو لوگ یوں اچانک راتوں رات نہ چلے جاتے۔اورپھر اس کا شہر میں اکیلا رہ جانا،کچھ بھی تو سمجھ نہیں آرہا تھا۔اس کے ساتھی جن کے ساتھ وہ ایک عرصہ سے ایک ہی مکان میں رہ رہا تھا وہ اسے ساتھ کیوں نہیں لے کر گئے ؟کیا کوئی ایسا خزانہ دریافت ہو گیاتھا جسے لوٹنے کی فکر میں سب لوگ منہ اندھیرے نکل گئے ؟ اب وہ آ ہنی سلاخوں والے دروازے کے عین سامنے تھا،جو عبادت گاہ کی طرف کھلتا تھا۔چند لمحے خالی نظروں سے اندر جھانکنے کے بعد دروازہ کھولنے کے لئے اس نے اندر کی طرف ہلکا سا زور لگایا۔خاموشی میں لوہے کا دروازہ یوں چرمرایاجیسے ہاتھ لگانے پر خفگی کا اظہار کررہا ہواورایک طرف کو ہوکر اسے اندر جانے کو راستہ دے دیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو دروازہ پہلی حالت پر ویسے ہی چلا گیاجیسے گہری نیندمیں اچانک کسی کی آنکھ کھل جائے اوروہ کروٹ بدل کر دوبارہ سو جائے۔

    یہ عبادت گاہ ایک دیدہ زیب باغ کے احاطے میں واقع تھی، جس کے گرد پتھر کی دیوار تھی جس نے مکانوں کو عبادت گاہ کی طرف بڑھنے سے روک رکھا تھا۔ عبادت گاہ کے احاطے میں داخلے کے لئے چار راستے تھے جنہوں نے باغ کو چار مساوی حصوں میں تقسیم کیا ہو اتھا۔باغ میں چاربڑے درخت تھے جن میں سے ہر ایک ہر حصے کے عین درمیان میں تھا۔چھوٹے مختلف رنگوں کے پودے ہر درخت کوگھیرے ہوئے تھے۔ ایک راستے سے داخل ہونے والے کودائیں بائیں کے دونوں راستے عبادت گاہ طرف بڑھتے دکھائی دیں گے۔چوتھاراستہ عبادت گاہ کے عقب میں تھاجسے وہ تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتا تھا۔اس سارے منظر میں کھویا ہوا وہ عبادت گاہ کی عمارت کے قریب تر ہو رہا تھا۔عمارت کے گرد ایک بڑا سا چبوترا تھا،جہاں آکرراستے اپنی پہچان کھو دیتے ۔اتنی خوبصورت جگہ اس نے پہلی مرتبہ دیکھی تھی ۔ایک دو مرتبہ وہ کسی کام کے سلسلے میں اس کے قریب سے گزرا تھا۔تب یہاں کوئی مذہبی تہوار تھا ،لوگ آجا رہے تھے ا،س لئے وہ جانتا تھا کہ یہاں کوئی عبادت گاہ بھی ہے۔جس راستے پرچلتے ہوئے وہ وہاں تک پہنچا تھااس راستے کا اختتام عبادت گاہ کی پشت پرہوا۔ عقبی سمت میں دروازہ تھا،باقی تین اطراف میں کھڑکیا ں تھیں ۔کھلے دروازے میں اندر دور تک ایک بہت بڑا کمرہ دکھائی دے رہا تھاجو سورج کی روشنی کی وجہ سے چند قدم تک تو روشن تھا لیکن آگے اندھیرا تھا جس سے اندازہ نہیں ہو رہا تھا کی کمرہ کتنا بڑا ہے۔قدم بڑھانے سے پہلے وہ ٹھٹھکا،اگر خدا نے مجھے یوں اند ر گھستے دیکھ کر دبوچ لیا تو؟اور کیا خبر اندھیرے میں اندر کون ہو؟ارد گرد پھیلی روشنی اور رنگا رنگی میں ۱ندھیرا کچھ زیادہ ہی گہرا دکھائی دے رہا تھا۔اس نے ایک دو بار اندر جھانکنے کی کوشش کی لیکن کچھ دکھائی نہیں دیا۔اس نے اک نظر اٹھا کر مکانوں کی جانب دیکھا جواسے تماشائیوں کی طرح دکھائی دیئے۔اونچے مکان باآسانی اسے دیکھ سکتے تھے جبکہ چھوٹے دیوار کے اوپر سے ایڑیاں اٹھا اٹھاکر جھانکنے کی کوشش کر رہے تھے۔مکانوں کی موجودگی نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔وہ ہمت کر کے عبادت گاہ میں داخل ہوگیا۔

    چند لمحے اسے کچھ نظر تونہیں آیا البتہ مختلف قسم کی مسحورکن خوشبوؤں نے اس کا استقبال ضرور کیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے خود بخود دکھائی دینے لگا۔کمرے میں اندھیراتنانہیں تھا جتنا باہر سے محسوس ہو رہا تھا۔خوف اندھیرے کے چھٹتے ہی غائب ہو چکا تھا۔کمرہ اس کے کمرے سے کئی گنا زیادہ کشادہ اور اونچا تھا۔ اس نے غور سے نیچے اوپر،دائیں بائیں ،آگے پیچھے دیکھا، کمرے میں سوائے اس کے کوئی نہیں تھا۔

    عبادت گاہ میں کسی کو نہ پا کر اسے مایوسی بھی ہوئی اور اطمینان بھی ۔پتھروں سے بنی دیواروں کو تراش تراش کر انسانوں اور جانوروں کی شبیہیں بنائی گئی تھیں، اورکچھ لکھا ہوا بھی تھا۔سامنے کافی اونچا چبوترا تھااوپر جانے کے لئے آٹھ نو سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں۔یہاں ایک بیش قیمت قالین بچھا تھاوہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔خدا یقیناًیہاں بیٹھ کر لوگوں سے ہمکلام ہوتا ہو گااور لوگوں کی مدد بھی کرتا ہو گا۔اس کے دماغ میں خدا کی عجیب عجیب شبیہیں بن ،بگڑرہی تھیں لیکن کوئی حتمی تصویر نہیں بن پا رہی تھی۔اس نے دیواروں پر موجود تصویروں کو غور غور سے دیکھا لیکن کوئی ایسی تصویر نہیں تھی جسے دیکھ کر وہ کہہ سکتا کہ خدا اس طرح کا ہو گا۔ اس نے خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں تھالیکن پھر بھی اسے یقین سا تھا کہ وہ ان جیسا نہیں ہو سکتا۔یہ سارا قضیہ اتنا پریشان کن نہیں تھا جتنایہ کہ خدا بھی کیا لوگوں کے ساتھ ہی شہر چھوڑگیا ہے؟جو اس نے سن رکھا تھاکہ مشکل وقت میں وہ سب کے کام آتا ہے تو وہ کیا ماجرا ہوا؟کیا لوگوں کے معاملات سے وہ بے خبر تھایا اسے کسی نے آکے بتایا ہی نہیں کہ شہر میں لوگوں کو اس کی کتنی ضرورت آن پڑی ہے؟لیکن یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ پکارنے پر وہ خود ہی مددکو آجاتا ہے تو کیا کسی نے اسے پکارا ہی نہیں ؟شہر بھر میں بھوک ،بھوک ہو رہی تھی اور اسے خبر ہی نہیں ہوئی؟وہ یہ سب سوچ سوچ کے حیران ہو رہا تھا۔ممکن ہے بھوک ایسا مسئلہ ہو جسے خدا بھی حل نہ کرسکتا ہو۔اگر خدا خود ہی بھوکا رہے تو لوگوں کی بھوک کیسے مٹاسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اب وہ بھی لوگوں کے ساتھ شہر چھوڑکے چلا گیا ہے۔خدا کے شہر چھوڑنے کی وجہ بھی سمجھ میں آرہی تھی کچھ گھروں میں تو کھانے کو بہت کچھ تھا لیکن خدا کا گھر تو اناج سے بالکل خالی تھا؟تو کیا خدا بھی غریب ہوسکتا ہے ؟پھرلوگوں نے اسے اتنا طاقتور کیوں مشہور کررکھا ہے ؟ دیرتک وہ ان امکانات پر غور کرتا رہا ۔ اس نے یوں سر ہلایا جیسے مسئلے کی تہہ تک پہنچ گیا ہواور اٹھ کھڑاہوا۔

    ****

    وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا،پہلے پہل تو اسے گھر گھر جھانکنے کا شوق بیقرار رکھتا لیکن اب صور ت حال بدلنا شروع ہوگئی تھی۔ وہ کئی کئی دن ایک ہی مکان میں پڑا رہتا۔شام ڈھلتے ہی ہر سو اندھیرا چھا جاتااور وہ کسی کونے میں دبک جاتا۔اس کی کوشش یہی ہوتی کہ پڑاؤ کے لئے انہیں جگہوں کا انتخاب کرے جنہیں وہ ہمیشہ سے جانتا تھا۔شروع کے دنوں میں شہرکے بھید جاننے کی خواہش کے ہاتھوں وہ مغلوب ہو گیا تھا۔ اب اس خواہش کی کوئی رمق بھی اس کے دل میں باقی نہیں بچی تھی۔ وہ محض زندگی کے دن پورے کر رہا تھابلکہ اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ہمیشہ سے ہی اس شہر میں اکیلا ہے۔کبھی یہ ا حساس اسے تقویت بخشتا تھا کہ ایک روز شہر کے سارے باسی واپس آجائیں گے لیکن اب وہ مایوس ہونا شروع ہوگیا تھا۔

    ایک روز جب وہ اٹھاتو پہلا خیال اس کے دماغ میںیہی آیاکہ سب لوگ توعرصہ ہوا جا چکے، میں کب تک یہاں اکیلا رہوں گا۔ اگر یہی صورت حال رہی تو پاگل ہو جاؤں گا ۔کیوں نہ خود بھی شہر سے نکل کر قسمت آزمائی کی جائے ،ممکن ہے کوئی جاننے والا ہی مل جائے۔اگر نہ بھی ملا تو کم ازکم کسی ہم جنس کو تو دیکھوں گا۔ہم جنس کاخیال آتے ہی اسے اپنے اکلاپے کا احساس شدت سے ہونے لگا۔اسے خود پر بہت حیرت اور افسوس بھی ہوا کہ اسے آج تک یہ خیال کیوں نہیں آیا؟اس نے جلدی جلدی کپڑے بدلے اور نکل کھڑاہوا۔شہر سے نکلنے کا خیال ذہن میںآتے ہی مکان اسے آسیب زدہ دکھائی دینے لگے۔ورنہ تو صورت حال یہ ہو چلی تھی کہ وہ بھی چپ چاپ اسی شہر میں منہدم ہو جاتا۔اس نے ارادہ تو کر لیا تھا لیکن وہ راستے سے واقف نہیں تھا۔کبھی باہر جانے کا اتفاق ہی نہیں ہواتھا۔اس کے نزدیک شہر سے باہر کی دنیا کا کوئی تصور نہیں تھا۔ وہ اس بات پہ بھی حیران تھا کہ اس کے دماغ میں شہر سے باہر جانے کا خیال آیا بھی کیسے؟ایک وہ وقت تھا جب وہ نہیں جانتا تھاکہ وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہی ہے۔سب لوگ اس سے محبت ضرور کرتے تھے لیکن کبھی کسی نے اس سے بات چیت کرکے اسے احساس نہیں دلایا کہ وہ بھی دوسروں کی طرح اک انسان ہے ۔وہ اسے اب بھی بچہ ہی سمجھتے تھے حالانکہ وہ ساری باتیں غور سے سنتا تھایہ اور بات ہے کہ کسی سے مکالمہ نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی وہ اس کے ذہن سے نکل جاتی تھیں۔اب ہر لمحہ اس کے دماغ میں نت نئے سوالات جنم لے رہے تھے۔دماغ میں اٹھنے والے سوالات کی نوعیت پر غور کرتے ہوئے وہ ایک ایسے راستے پر نکل کھڑا ہوا جو اس کے گمان میں اسے شہر سے باہر لے جا سکتا تھا۔

    خیالات کا ربط تب ٹوٹاجب وہ گہرے پانی میں گرتے گرتے بچا۔اس نے اب بھی سر جھکا کر چلنے پر اپنے آپ کو کو سا۔اسے خبر ہی نہیں ہوئی کہ وہ کن راستوں سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچاتھا۔ایک بہت اونچی دیوار تھی جس کے وہ عین نیچے تھا۔ درمیان میں ایک بہت گہراشفاف پانی سے بھرا ہوا نالہ تھا،جو دیوارکے ساتھ دور تک چلاگیاتھا۔اس نے کنارے کنارے چلنا شروع کردیا۔وہ جو مزدورمنڈی کے مخصوص علاقے سے واقف تھا اس کے لئے یہ اور ہی دنیاتھی۔ شہر میں اتنی بڑانالہ اور دیواربھی ہے اور اسے خبر ہی نہیں ؟اگلے ہی لمحے اس نے سر پراک دھول جما کر خود کو ڈانٹا کہ وہ ان چیزوں سے کیسے واقف ہوتا، وہ تو کبھی شہر سے باہر گیا ہی نہیں ۔شام ہونے کو آگئی لیکن دیوار اور پانی کا فاصلہ ختم نہیں ہوا۔اس نے جگہ جگہ پتھر پھینک کر گہرائی ناپنے کی کوشش کی ۔گڑم ،گڑم کی کثیف آواز سے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ گہرائی بہت زیادہ ہے۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے شہر کے چاروں طرف یہ دیوار ہے ۔کس مقصد کے لئے ہے یہ وہ بہت سوچنے کے باوجود نہیں سمجھ سکا۔اس امید پر کہ کہیں تو باہر جانے کا راستہ ملے گا وہ چلتا رہا۔اس کے دائیں ہاتھ مکان اور بائیں گہراپانی اور اس کے ساتھ ساتھ دیوار تھی جو آہستہ آہستہ پیچھے سرکتے جا رہے تھے۔شام کے سائے گہرے ہونا شروع ہو چکے تھے اور وہ مکمل اندھیرا ہونے سے پہلے ہر صورت شہر سے نکلنا چاہتا تھا۔

    سورج کب غروب ہو،ا اسے پتہ ہی نہیں چلا۔جوں جوں وہ آگے بڑھ رہا تھا،پانی اور دیوار بھی اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔چلتے ہوئے اسے ایک بات پر حیرت ہو رہی تھی کہ اندھیرا اتنا نہیں تھا جتنا پہلے ہوا کرتا تھا۔ اک لمحے کو اس نے پیچھے مڑکر دیکھا تو گھپ اندھیرا تھا لیکن سامنے کا منظر یوں تھا جیسے وہ اندھیری رات سے صبح کاذب کے اجالے کی طرف بڑھ رہا ہو۔اس اجالے کا منبع کہیں شہر کے عقب میں تھا وہ سحر زدہ سا آگے بڑھتا رہا۔روشنی مدھم سے تیزتر ہوتی جا رہی تھی ۔اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے روشنی پانی میں منعکس ہو کر دیوار پر پڑرہی ہو۔ دیوار یوں کانپ رہی تھی جیسے اپنی جگہ سے حرکت کرنا چاہ رہی ہو۔ تعجب انگیز بات یہ تھی کہ پانی تو نیچے بہت گہرائی میں تھا، اس پر روشنی کیسے پڑسکتی تھی؟روشنی جہاں سے آرہی ہے ہو سکتا ہے وہاں پانی کا کوئی تالاب ہو؟وہ جلد از جلد مکانوں سے آگے بڑھ کر دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ روشنی کہاں سے آرہی ہے جس نے تاریکی کودن میں بدل دیا ہے۔وہ جس نے ایک عرصہ اندھیرے کی ہمراہی میں گزار دیا تھا اب اسے وہ اپنی پشت پراژدھے کی طرح غار سا منہ کھولے قریب تر محسوس ہو رہا تھا۔ جو کسی بھی لمحے اسے ہڑپ کرسکتا تھا۔جونہی وہ آخری مکان کے سائے سے آگے بڑھاتو دائیں رخ سامنے شفاف پتھروں سے بنا فرش تھا جسے دیکھ کراندازہ لگانا مشکل تھا کہ روشنی اس کے اندر سے پھوٹ رہی ہے یا اس کاسرچشمہ کچھ فاصلے پر پر شکوہ عمارت ہے ۔فرق صرف یہ تھاکہ عمارت سے آنے والی روشی ساکن تھی جبکہ فرش پر پڑنے والی روشنی یوں ہلتی تھی جیسے ساکت کھڑے پانی کو ہوا چھو چھو کے گزر جاتی ہو۔تو روشنی کے انعکاس کی یہ صورت ہے۔ اس نے سکھ کا سانس لیا،جیسے کوئی بہت بڑی الجھن حل ہو گئی ہو۔

    سمت کا تو اسے اندازہ نہیں تھا البتہ اب وہ شہر کی ایک حد پہ کھڑا تھا۔دیوار اس کے بالکل سامنے اندھیرے میں خبر نہیں کہاں تک جاتی تھی۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ شہر سے باہر نکل آیا ہے یا ابھی اندر ہی ہے ؟کیونکہ دیوار روشنی کے پیچھے دائیں مڑنے کی بجائے کہیں بائیں طرف کو مڑرہی تھی جیسے کسی اور شہر کو اپنے حصار میں لے رہی ہو۔اس نے شہر میں صرف مٹی کے چراغوں کو جلتے دیکھا تھااور لوگوں کے جانے کے بعدتو اجالے کا تصور صرف دن کے ساتھ ہی منسوب ہو گیا تھا۔شام ہوتے ہی بیکراں اندھیرااسے اپنی آغوش میں لے لیتا۔اس کے دل میں اگر کبھی چراغ جلانے کی موہوم خواہش پیدا ہو بھی جاتی تووہ بیدردی سے اس کا گلہ گھونٹ دیتا۔ وہ جان گیا تھاکہ اگر گھٹاٹوپ اندھیرے کو مدھم روشنی سے پاٹنے کی کوشش کی جائے تو وہ غضبناک ہو جاتا ہے ۔چراغ اندھیرے کی آنکھ بن جاتا ہے جس کی خونخواری کی تاب کوئی اکیلا انسان کسی صورت نہیں لا سکتا۔یہ اندھیرے کا اندھا پن ہی تھاجس نے ہررات اس کی حفاظت کی۔اب وہ روشنی کے فشار کے سامنے مبہوت کھڑا تھا۔ اندھیرے کے دودھیاہالے نے روشنی کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔روشنی کا منبع کچھ فاصلے پر کھڑی پرشکوہ عمارت تھی جس کے سامنے شہر کی اونچی سے اونچی عمارت بھی ہیچ دکھائی دے رہی تھی۔اب تک اس کی محبوبہ کے گھر کارعب اس کے دل پر باقی تھی لیکن اس عمارت کو دیکھ کر اسے پورا شہر نہایت کمتر محسوس ہو رہا تھا۔اگرچہ عبادت گاہوں کا شہر کی عمارتوں میں اپنا رعب وجلال تھالیکن اس عمارت کے سامنے کھڑے ہو کر اسے یوں محسوس ہو رہاتھاجیسے وہ بھٹک کر کسی طلسمی دنیا میں آنکلاہو۔وہ آبی پتھر پر احتیاط سے پاؤں رکھتاہوا آگے بڑھنے لگا۔

    وہ جو بار بار گردن اٹھانا بھول جاتا تھا،جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا اس کی گردن اکڑتی چلی جاتی تھی۔کچھ فاصلے پر جا کراس نے پلٹ کر دیکھاتو شہر کی وہ عمارتیں دکھائی دیں جو روشنی کے عین سامنے جگمگا رہی تھیں۔ان کے پیچھے لامتناہی اندھیرا دور تک پھیلا ہوا تھا۔جس راستے سے وہ آیا تھاوہ تاریکی میں کہیں کھو گیا تھا۔ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اسے یوں محسوس ہو رہا تھاجیسے محل اس کے اوپر جھکتا چلاآرہا ہو۔ روشنی کی کشش تھی یاعمارت کی دہشت،خوف سے پھیلی آنکھیں وہ لمحے بھر کو بھی نہیں جھکا سکا۔دیر تک اندھیرے اور اجالے کے درمیان معلق رہ کراب وہ ایسی جگہ پر پہنچ چکا تھا جہاں سے روشنی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔شہر کا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا جبکہ یہاں رات میں بھی دن کا سماں تھا۔اس نے مہیب عمارت سے نظریں چرا کر اس کے خدوخال پر غور کرنے کی کوشش کی لیکن بری طرح ناکام ہوا۔روشنی اتنی تیز تھی کہ اس کے لئے غور سے دیکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ہر سو پھیلے سناٹے سے وہ جلد ہی اس نتیجے پہ پہنچ گیاکہ محل بھی شہر کی طرح انسانوں سے خالی ہے۔شہر تو پتہ تھا کہ اناج کی فکر میں چلا گیا لیکن شاہ اورشاہ کے مصاحب کہاں چلے گئے؟کافی دیر وہ سوچتا رہا کہ شہنشاہ ہی وہ ہستی ہے جو سب سے زیادہ طاقتور ہے ۔خدا کے گھر میں تو دن کے وقت بھی اندھیرا تھا لیکن یہاں رات بھی جگمگا رہی تھی ۔اس وقت وہ عین شہر اور محل کے درمیان کھڑا تھا۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ قدم آگے بڑھائے یا واپس چلا جائے ۔یہ پہلا موقع تھا جب اس نے رات کے وقت روشنی دیکھی تھی اور روشنی بھی اندھیرے کو شکست دیتی ہوئی ۔اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے شہر کے تاریکی میں ڈوبے ہوئے مکان اس پر پیچ وتاب کھا رہے ہوں۔ اس بات کے منتظر ،کہ کب وہ پلٹے اور وہ اس تکہ بوٹی کردیں ۔اندھیر ے کا خوف اسے عمارت کی طرف دھکیل رہا تھا جبکہ محل اسے قبول کرنے سے انکاری تھا ۔اس کا سایہ عقب میں دور دیوار کے ساتھ چپکاہوا۱سے دیکھ رہا تھا کہ وہ کس نتیجے پر پہنچتا ہے۔

    روشنیوں کے پیچھے محل کی اوٹ سے کوئی اسے گھور رہا تھا، یہ محسوس کر کے اسے جھرجھری آگئی۔ زمین نے اس کے پاؤں جکڑلئے کبھی وہ شہر کی طرف تو کبھی محل کی جانب دیکھ رہا تھا۔شہر اگرچہ اس کا دیکھا بھالا تھا لیکن وہاں اندھیرا تھااور روشنی کو چھوڑکے وہاں وہ جا نہیں سکتا تھا۔ اندھیر لباس کی طرح تھا جسے وہ اوڑھ لیتا تھااور یہاں روشنی نے اسے برہنہ کردیا تھا۔ ایک انجانا خوف بھی ذہن کے کسی کونے میں ہولے ہولے پھنکار رہا تھا کہ اگر محل میں کوئی ہوا تو۔۔۔۔؟ کسی نے اسے دیکھ لیا تو وہ خود کو کہاں چھپائے گا۔۔۔؟روشنی میں ڈوبے محل کے اس پار ٹکٹکی باندھے وہ یوں دیکھتارہا جیسے کچھ تلاش کررہا ہو۔۔۔

    ****

    دوسرا فرمان جو دربار سے جاری ہوا وہ اس کی گردن زدنی کا تھا۔آج سے پہلے کسی کی جرات نہیں ہوئی تھی کہ وہ شاہی دربار کی حدود میں قدم رکھ سکتا۔ شاہی جلاد کی تلوار جب ٹوٹ کر دور جا گری تو شہنشاہ بھی بے ساختہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ آدمی اپنی جگہ جوں کا توں کھڑا رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔اسے اس جگہ سے اٹھوا کر شہر سے باہر پھینکنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن کوئی کوشش کارگر نہیں ہوئی ۔لوگ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھتے اب کیا ہو گا؟شہنشاہ کے خوف کی وجہ سے اس انہونی پر ہر کوئی خو د کومجرم سمجھ رہا تھا۔کسی کا خیال تھا کہ یہ آسمانی طاقتوں کی طرف سے شہنشاہ کے لئے کوئی خفیہ اشارہ ہے،کوئی کہتا تھا کہ کسی دشمن ملک کی سازش ہے،کوئی کچھ کہتا تو کوئی کچھ۔جتنے منہ اتنی باتیں لیکن اصل بات کا کسی کو پتہ نہیں تھا۔پورا شہر جانتا تھا کہ ایک رات پہلے یہ آدمی یہاں نہیں تھااور سب سے زیادہ دہلا دینے والی بات یہ تھی کہ جس جگہ وہ کھڑا تھا وہاں شاہی محافظ تمام رات پہرہ دیتے تھے۔وہ سب بھی بضد تھے کہ انہوں نے کسی کو یہاں آتے نہیں دیکھا۔لیکن یہ آیا کس راستے سے،ہر راستے پر تو مسلح سپاہی کھڑے تھے؟اسے دیکھ کر یوں لگتا تھاجیسے کوئی انسان چلتے چلتے پتھر بن گیا ہو۔اس کے چہرے پر تحیراور ہیبت کے ر نگ عیاں تھے جو دیکھنے والے کو بھی اسی کیفییت میں مبتلا کردیتے تھے ۔ گھورتی آنکھیں اس سمت کو اٹھی ہوئی تھیں جہاں سامنے قصر شاہی تھا ۔ سپاہیوں کے حلفیہ بیان اور دربا ر میں اپنی صفائی کے لیے گڑگڑانے کے باوجود،شہنشاہ نے فی الفور اس عظیم کوتاہی پران سب کو پھانسی کا حکم دے دیا جو اس رات حفاظت پر مامور تھے۔اجتماعی گردن زدنی کے بعد ایک عرصہ تک لوگ سہمے سہمے رہے کہ پتہ نہیں اب کیا ہو گا؟۔درباری نجومی ،شاہی جاسوس ،ذہین فطین وزیر مشیر عرصہ تک اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے لیکن کسی کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئی۔اطلاع دینے والے کے لیے باقاعدہ انعام کا اعلان بھی کیا گیا لیکن نتیجہ پھر بھی صفر ہی رہا۔جب سب تھک ہار کے بیٹھ گئے تو اسے قدرت کی طرف سے کوئی معجزہ سمجھ کر سب نے ہار مان لی۔

    اس کے ارد گرد چھوٹی سی دیوار بنا دی گئی تا کہ دیکھنے والے قریب نہ آسکیں ۔جو کبھی شاہی حدود کے قریب پھٹکنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اب انہیں بھی دربار کی طرف سے خصوصی اجازت تھی کہ وہ جب جی چاہے اس عجوبے کی زیارت کر سکتے ہیں ۔خود بادشاہ بھی عام لوگوں کی طرح اندر سے خوفزدہ ہو چکا تھا،اگر یہ عقدہ حل ہو جاتا تو صورت حال یقیناًمختلف ہوتی۔ اس واقعہ کو رونما ہوئے جب ایک سال گزر گیا تو اسے باقاعدہ ایک تہوار کے طور پر منایا گیا۔پھر تو یہ رسم ہر سال دہرائی جانے لگی ،بت بنے اس آدمی کی حیثیت ایک دیوتا کی ہوگئی تھی ۔ہر کوئی دیوتا کے قریب تر بیٹھنے کی خواہش میں منہ اندھیرے ہی گھروں سے نکل کھڑا ہوتاشہر میں خالی مکان ہی رہ جاتے ۔ہرتہوار پر پورے شہر کے لئے قیام وطعام کا اہتمام دربار کی طرف سے ہوتا۔شاہ سے لے کر گدا تک سب یہاں حاضر ہوتے اور اپنا سینہ کھول کر اس کے قدموں میں رکھ دیتے۔اگرچہ وہ دنیا سے بے نیاز وسعتوں میں کہیں گھورتا رہتا لیکن سب یہی سمجھتے کہ وہ سب سے با خبر ہے۔

    ایک تہوار کے موقع پر جب سارا شہرمجسمے کے قدموں میں پیشانی رگڑرہا تھا۔ مزدور منڈی میں کام کرنے والااپنے بدصورت بچے کی انگلی پکڑے فصیل اور خندق کے ساتھ بنے ہوئے راستے پر چلتا ہوا ویران شہر میں داخل ہو رہا تھا۔

    بابا!یہ سب لوگ یہاں کیا کررہے ہیں ؟وہ آدمی جس کے ارد گرد سارے لوگ بیٹھے ہیں، وہ کون ہے ؟''بچے نے حیرت اور معصومیت سے باپ کے چہرے کی طرف دیکھا۔

    اس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ کھل اٹھی اور وہ اپنے بچے کو اس آدمی کی کہانی سناتا ہوا مکانو ں کی اوٹ میں گم ہو گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے