Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ان دیوتا

MORE BYدیوندر ستیارتھی

    کہانی کی کہانی

    قحط زدہ ایک گاؤں کی کہانی ہے۔ گاؤں کا رہنے والا چنتو اناج کے بارے میں ایک پورانک کہانی سناتا ہے کہ کیسے برہما نے اناج کو دھرتی کی طرٖف بھیجا تھا۔ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے ادھار لےکر کسی طرح اپنا پیٹ بھر رہے ہیں۔ گاؤں کے مکھیا اور منشی بھی غریبوں کو اناج بانٹتے ہیں۔ ان سب سے دکھی چنتو کہتا ہے کہ اناج اب امیروں کا ہو گیا ہے، وہ غریبوں کے پاس نہیں آئے گا۔ وہیں اس کی بیوی کو یقین ہے کہ بھلے ہی اناج امیروں کے پاس چلا گیا ہے لیکن ایک دن اسے اپنے گھر کی یاد ضرور آئےگی اور وہ واپس اپنے گھر (غریبوں کے پاس) ضرور آئے گا۔

    ’’تب ان دیو، برہما کے پاس رہتا تھا۔ ایک دن برہما نے کہا۔ او بھلے دیوتا! دھرتی پر کیوں نہیں چلا جاتا؟‘‘

    ان الفاظ کے ساتھ چنتو نے اپنی دل پسند کہانی شروع کی۔ گونڈوں کو ایسی بیسیوں کہانیاں یاد ہیں۔ وہ جنگل کے آدمی ہیں اور ٹھیک جنگل کے درختوں کی طرح ان کی جڑیں دھرتی میں گہری چلی گئی ہیں۔ مگر وہ غریب ہیں۔۔۔بھوک کے پیدائشی عادی۔ چنتو کو دیکھ کر مجھے یہ گمان ہوا کہ وہ بھی ایک دیوتا ہے جو دھرتی کے باسیوں کو اَن دیو کی کہانی سُنانے کے لیے آنکلا ہے۔ گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اَلاؤ کی روشنی میں بغل کی پگڈنڈی کسی جوان گونڈن کی مانگ معلوم ہوتی تھی۔ گھوم پھر کر میری نگاہ چنتو کے چُھریوں والے چہرے پر جم جاتی۔ کہانی جاری رہی۔۔۔

    ’’دیوتا دھرتی پر کھڑا تھا۔ پر وہ بہت اونچا تھا۔ بارہ آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہوتے، تب جاکر وہ اس کے سر کو چھو سکتے۔‘‘

    ’’ایک دن برہما نے سندیس بھیجا۔ یہ تو بہت کٹھن ہے، بھلے دیوتا! تجھے چھوٹا ہونا ہوگا۔ آدمی کا آرام تو دیکھنا ہوگا۔‘‘

    ’’دیوتا آدھا رہ گیا۔ پر برہما کی تسلی نہ ہوئی۔ آدمی کی مشکل اب بھی پوری طرح حل نہ ہوئی تھی۔ اس نے پھر سندیس بھیجا اور دیوتا ایک چوتھائی رہ گیا۔ اب صرف تین آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہوکر اس کے سر کو چھو سکتے تھے۔‘‘

    ’’پھر آدمی خود بولا، ’’تم اب بھی اونچے ہو، میرے دیوتا!‘‘

    ’’ان دیو اور بھی چھوٹا ہو گیا۔ اب وہ آدمی کے سینے تک آنے لگا۔ پھر جب وہ کمر تک رہ گیا تو آدمی بہت خوش ہوا۔‘‘

    ’’اس کے جسم سے بالیں پھوٹ رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ سونے کا پیڑ کھڑا ہے۔‘‘

    ’’آدمی نے اسے جھنجھوڑا اور بالیں دھرتی پر آ گریں۔‘‘

    میں نے سوچا اور سب دیوتاؤں کے مندر ہیں۔ مگر ان دیو، وہ کھیتوں کا قدیمی سرپرست، کھلے کھیتوں میں رہتا ہے، جہاں ہر سال دھان اگتا ہے نئے دانوں میں دودھ پیدا ہوتا ہے۔۔۔ماں ہونے والی چھوکری کی چھاتیوں کی طرح۔

    ہلدی بولی، ’’اب تو دیوتادھرتی کے بیچوں بیچ کہیں پاتال کی طرف چلا گیا ہے۔‘‘

    چنتو نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ ایسا بھیانک کال اس نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ دھرتی اس طرح بنجر ہو گئی تھی، جیسے عورت بانجھ ہو جائے یا کسی ننھے کی ماں کی چھاتی سوکھ جائے۔

    ہلدی پھر بولی، ’’اور دیوتاؤں کی طرح اَن دیو بھی بہرہ ہو گیا ہے۔‘‘

    چنتو نے پوچھا، ’’پر ان دیو کیوں بہرہ ہو گیا؟‘‘

    ’’یہ میں مورکھ کیا جانوں؟ پر بہرہ تو وہ ہو ہی گیا ہے۔‘‘

    سال کے سال ہلدی ان دیو کی منت مانتی تھی۔ ایک ہلدی پر ہی بس نہیں، ہر ایک گونڈ عورت یہ منت ماننا ضروری سمجھتی ہے۔ مگر اس سال دیوتا نے ایک نہ سُنی۔ کس بات نے دیوتا کو ناراض کر دیا؟ غصہ تو اور دیوتاؤں کو بھی آتا ہے مگر ان دیو کو تو غصہ نہ کرنا چاہیے۔

    ہلدی کی گود میں تین ماہ کا بچہ تھا۔ میں نے اسے اپنی گود میں لے لیا۔ اس کا رنگ اپنے باپ سے کم سانولا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے تازہ پہاڑی شہد کا رنگ یاد آ رہا تھا۔

    ہلدی بولی، ’’ہائے! اَن دیو نے میری کوکھ ہری کی اور وہ بھی بھوک میں اور لاچاری میں۔‘‘

    بچہ مسکراتا تو ہلدی کو یہ خیال آتا کہ دیوتا اس کی آنکھوں میں اپنی مسکراہٹ ڈال رہا ہے۔ پر اس کا مطلب؟ دیوتا مذاق تو نہیں کرتا؟ پھر اس کے دل میں غصہ بھڑک اٹھتا۔ دیوتا آدمی کو بھوکوں بھی مارتا ہے اور مذاق اڑاکر اس کا دل بھی جلاتا ہے۔

    چنتو بولا، ’’سچ جانو تو اب مجھے ان دیو پر وسواس ہی نہیں رہا اور اس کی کہانی، جو میں آج کی طرح سو سو بار سنا چکا ہوں، اب مجھے نری گپ معلوم ہوتی ہے۔‘‘

    ہلدی یہ نہ جانتی تھی کہ چنتو کا طنز بہت حد تک سطحی ہے۔ یہ تو وہ خود بھی سمجھنے لگی تھی۔ کہ دیوتا روز روز کے پاپ ناٹک سے ناراض ہو گیا ہے۔

    ’’ان دیو کو نہیں مانتے پر بھگوان کو تو مانوگے۔‘‘

    ’’میرا دل تو تیرے بھگوان کو بھی نہ مانے۔ مردود بھگوان۔ کہاں ہیں اس کے میگھ راج؟ اور کہاں سو رہا ہے وہ خود؟ ایک بوند بھی تو نہیں برستی!‘‘

    ’’دیوتا سے ڈرنا چاہیے اور بھگوان سے بھی۔‘‘

    چنتو نے سنبھل کر جواب دیا، ’’ضرور ڈرنا چاہیے۔ ہاہا۔ ہی ہی۔۔۔اور اب تک ہم ڈرتے ہی رہے ہیں!‘‘

    ’’اب آئے نا سیدھے رستے پر۔ جب میں چھوٹی تھی ماں نے کہا تھا دیوتا کے غصہ سے سدا بچیو!‘‘

    ’’اری کہا تو میری ماں نے بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ پر کب تلک لگا رہے گا یہ ڈر، ہلدی؟‘‘

    ’’دیوتا پھر خوش ہوگا اور پھر لہرائےگا وہی پیارا پیارا دھان۔‘‘

    کال میں پیدا ہوئے بچّے کی طرف دیکھتے ہوئے میں سوچنے لگا، ’’اِتنا بڑا پاپ کیا ہوگا کہ اِتنا بڑا دیوتا بھی آدمی کو چھماں نہیں کر سکتا!‘‘

    کال نے ہلدی کی ساری سندرتا چھین لی تھی۔ چنتو بھی اب اپنی بہار کو بھول رہا تھا۔۔۔درخت اب بھی کھڑا تھا مگر ٹہنیاں پرانی ہو گئی تھیں اور نئی کونپلیں نظر نہیں آتی تھیں۔

    ہلدی نے مجھے بتایا کہ اس کی چلبلاہٹ اور اس کے ہنس ہنس کر باتیں کرنے کے انداز نے چنتو کو اس کی طرف متوجہ کیا تھا۔ تب وہ جوان تھی۔ ایک مست ہرنی۔ اس کی ناک موٹی تھی اور نتھنے بھی کم چوڑے نہ تھے۔ پر جب وہ اچھلتی کودتی ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں نکل گئی اور چنتو نے اسے دیکھا تو اس کے دل میں بھی ایک ہرن جاگ اٹھا۔ وہ بھی دوڑنے لگا۔ ایک روز وہ اس کے پیچھے بھاگ نکلا تو وہ پیپل کے پیڑ تلے کھڑی ہو گئی۔ کھیتوں میں دھان لہلہا رہا تھا 151 پیار کی طرح جو دل میں اگتا ہے۔ پہلے وہ کچھ کچھ ڈری۔ پھر وہ مسکرانے لگی۔ جب چنتو نے اپنی انگلیوں سے اس کے بال سلجھانے شروع کیے اور بیاہ کی بات چھیڑی تو ہلدی نے سہمی ہوئی آواز سے کہا تھا، ’’ان دیو ہمیں دیکھ رہا ہے۔ پہلے اس کا دھیان کر لو۔ پھر بیاہ کا نام لینا۔‘‘ ہلدی کا خیال تھا کہ دیوتا دھان کے پودوں میں چھپا بیٹھا ہے اور ان کا پیار اس نے دیکھ لیا ہے۔ جب چنتو نے ریشم کے کیڑوں کا گیت گایا تھا تو ہلدی نے یہ محسوس کیا تھا کہ چنتو بھی ایسا ہی ایک کیڑا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کیڑے بیاہ نہیں کرتے، صرف پیار کرتے ہیں۔ ہلدی نے ان دیو کی سوگند کھاکر اپنی سچائی کا یقین دلایا تھا اور چنتو نے کہا تھا، ’’تم ضرور بول کی سچی رہوگی ہلدی! ان دیو کی سوگند بہت بڑی سوگند ہوتی ہے۔‘‘

    ہلدی کا بچہ میری گود میں رونے لگا۔ اسے لیتے ہوئے اس نے سہمی ہوئی نگاہ سے اپنے خاوند کی طرف دیکھا۔ بولی، ’’یہ کال کب جائےگا؟‘‘

    ’’جب ہم مر جائیں گے اور نہ جانے یہ تب بھی نہ جائے۔‘‘

    ’’یہ کتکی اور کودوں دھان کی طرح پانی نہیں مانگتے۔ یہ بھی نہ اگے ہوتے تو ہم کبھی کے بھوک سے مر گئے ہوتے۔۔۔انھوں نے ہماری لاج رکھ لی۔۔۔ہماری بھی، ہمارے دیوتا کی بھی۔‘‘

    ’’دیوتا کا بس چلتا تو انہیں بھی اگنے سے روک دیتا۔۔۔پاپی دیوتا!‘‘

    ’’ایسا بول نہ بولو۔ پاپ ہوگا۔‘‘

    ’’میں کب کہتا ہوں پاپ نہ ہو۔ ہو، سو بار ہو۔‘‘

    ’’نہ نہ، پاپ سے ڈرو اور دیوتا کے غصہ سے بھی۔‘‘

    میں نے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے کہا، ’’دوس تو سب آدمی کا ہے۔ دیوتا تو سدا نردوس ہوتا ہے۔‘‘

    رات غمزدہ عورت کی طرح پڑی تھی۔ دور سے کسی خونی درندے کی دھاڑ گونجی۔ چنتو بولا، ’’اِن بھوکے شیروں اور ریچھوں کو ان دیو مِل جائے تو وہ اسے کچا ہی کھا جائیں۔‘‘

    بیساکھو کے گھر روپے آئے تو ہلدی اسے بدھائی دینے آئی، ’’بپتا میں پچیس بھی پانچ سو ہیں۔ رامو سدا سکھی رہے۔‘‘

    ’’ان دیو سے تو رامو ہی اچھا نکلا۔‘‘ بیساکھو نے فرمائشی قہقہہ لگاکر کہا۔

    چنتو بولا، ’’ارے یار چھوڑ اس ان دیو کی بات۔۔۔ان دیو، وَن دیو۔‘‘

    ’’ہلدی نے اپنے خاوند کو سر سے پانو تک دیکھا۔ اس طنز سے اسے چڑ تھی۔ دیوتا کتنا بھی برا کیوں نہ ہو جائے، آدمی کو تو اپنا دل ٹھیک رکھنا چاہیے، اپنا بول سنبھالنا چاہیے۔‘‘

    غصے میں جلی بھنی ہلدی اپنی جھونپڑی کی طرف چل دی۔ بیساکھو نے پھر قہقہہ لگایا، ’’واہ بھئی واہ۔ رانڈ اب بھی ان دیو کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔‘‘

    چنتو بولا، ’’جپنے دو اسے ان دیو کی مالا۔ ہم تو کبھی نہ مانیں ایسے پاپی دیوتا کو۔‘‘

    ’’تو سچ کہتا ہے چنتو، دیوتا پاپی ہو گیا ہے۔‘‘

    رامو بمبئی میں تھا۔ چنتو سوچنے لگا۔ کاش اس کا بھی کوئی بھائی وہاں ہوتا اور پچیس روپے نہیں تو پانچ ہی بھیج دیتا۔

    بیساکھو نے پوسٹ مین کو ایک دونی دے دی تھی۔ مگر اسے اس بات کا افسوس ہی رہا۔ بار بار وہ اپنی نقدی گنتا اور ہر بار دیکھتا کہ اس کے پاس چوبیس روپے چودہ آنے ہیں، پچیس روپے نہیں۔

    جھونپڑی میں واپس آیا تو چنتو نے ہلدی کو بےہوش پایا۔ اس نے اسے جھنجھوڑا، ’’رسوئی کی بھی فکر ہے۔ اب سوؤ نہیں، ہلدی۔ دوپہر تو ڈھل گئی۔۔۔‘‘

    اس وقت اگر خود ان دیو بھی اسے جھنجھوڑتا تو ہوش میں آنے کے لیے اسے کچھ دیر ضرور لگتی۔

    تھوڑی دیر بعد ہلدی نے اپنے سرہانے بیٹھے خاوند کی طرف گھور کر دیکھا۔ چنتو بولا، ’’آگ جلاؤ ہلدی۔۔۔! دیکھتی نہیں ہو۔ بھوک سے جان نکلی جا رہی ہے۔‘‘

    ’’پکاؤں اپنا سر؟‘‘

    چنتو نے ڈرتے ڈرتے سات آنے ہلدی کی ہتھیلی پر رکھ دیے اور اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا، ’’یہ بیساکھو نے دیئے ہیں، ہلدی اور میں سچ کہتا ہوں میں نے اس سے مانگے نہ تھے۔‘‘

    ہلدی شک بھری نگاہوں سے چنتو کی طرف دیکھنے لگی۔ کیا آدمی غریبی میں اِتنا ہی گر جاتا؟ مگر چنتو کے چہرے سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے مانگنے کی ذلیل حرکت نہیں کی تھی اور پھر جب ایک ایک کرکے سب کے سب پیسے گنے تو اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔۔۔چار روز دال بھات کا خرچ اور چل جائےگا۔

    ’’شکر ہے۔ ان دیوتا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘

    ’’ان دیو کا یا بیساکھو کا؟‘‘

    ’’ان دیو کا جس نے بیساکھو بھائی کے دل میں یہ پریم بھاؤ پیدا کیا۔‘‘

    چنتو کا چہرہ دیکھ کر ہلدی کو سوکھے پتے کا دھیان آیا جو ٹہنی سے لگا رہنا چاہتا ہو۔ دور ایک بدلی کی طرف دیکھتی ہوئی بولی؟ ’’کاش! بوندا باندی ہی ہو جائے اناتھ چھوکری کے آنسوؤں کی طرح‘‘ مگر تیز ہوا بدلی کو اڑا لے گئی اور دھرتی بارش کے لیے برابر ترستی رہی۔

    کال نے زندگی کا سب لطف برباد کر دیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا دھرتی رو دےگی۔ مگر آنسوؤں سے تو سوکھے دھانوں کو پانی نہیں ملتا۔ ان دیو کو یہ شرارت کیسے سوجھی؟ مان لیا کہ وہ خود کسی وجہ سے کسانوں پر ناراض ہو گیا ہے مگر بادلوں کا تو کسانوں نے کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ وہ کیوں نہیں گھِر آتے؟ کیوں نہیں برستے؟ کاش وہ دیوتا کی طرفداری کرنے سے انکار کر دیں!

    چار ایک چھوٹا سا گانو ہے۔

    اس روز یہاں دو تین سو گونڈ جمع ہوئے۔ پھڈکے صاحب اور منشی جی دھان بانٹ رہے تھے۔ اپنے حصے کا دھان پاکر ہر کوئی دیوتا کی جے مناتا۔۔۔ان دیو کی جے ہو۔

    چنتو گانو کی پنچایت کا دایاں بازو تھا۔ دھان بانٹنے میں وہ مدد دے رہا تھا۔ لوگ اس کی طرف احسان مندانہ نگاہوں سے دیکھتے اور وہ محسوس کرتا کہ وہ بھی ایک ضروری آدمی ہے۔ مگر لوگ دیوتا کی جے جے کار کیوں مناتے ہیں؟ کہاں ہے وہ مردود ان دیو۔۔۔؟ وہ خود بھی شاید ایک دیوتا ہے۔۔۔اور شاید ان دیو سے کہیں بڑھ کر۔۔۔

    ہلدی نے سوچا کہ یہ دھان شاید ان دیو نے بھیجا ہے۔ اسے دکھیارے گونڈوں کا خیال تو ضرور ہے۔ مگر جب اس نے پھڈ کے صاحب اور منشی جی کو حلوا اڑاتے دیکھا تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ پہلے تو اس کے جی میں آئی کہ حلوے کا خیال اب آگے نہ بڑھے۔ پر یہ خیال بادل کی طرح اُس کے ذہن پر پھیلتا چلا گیا۔

    قحط سبھا سے ملا ہوا دھان کتنے دن چلتا؟

    چنتو کے چہرے پر موت کی دھندلی پرچھائیاں نظر آتی تھیں، مگر وہ دیوتا سے نہ ڈرتا تھا۔ کبھی کبھی گھُٹنوں کے بل بیٹھا گھنٹوں غیرشعوری طور پر دیوتا کو گالیاں دیا کرتا۔ میں نے سمجھا کہ وہ پاگل ہو چلا ہے۔ دو چار بار میں نے اسے روکا بھی۔ مگر یہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ وہ دیوتا کو اپنے دل سے نکال دینا چاہتا تھا۔ مگر دیوتا کی جڑیں اس کے جذبوں میں گہری چلی گئی تھیں۔

    چنتو کی گالیاں سن کر لوگوں کو ایک خاص طرح کی خوشی ہوتی۔ وہ محسوس کرتے کہ ان کا بدلہ لیا جارہا ہے جو کہ بہت ضروری ہے۔ ان دیو اگر کچھ بھی دم رکھتا ہے تو چنتو کو مار دےگا یا پھر پہلی طرح ٹھیک ہوکر ان کا دوست بن جائےگا۔ گونڈوں کو اتنی دیوتا کی ضرورت نہیں جتنی ایک دوست کی 151 وہ دیوتا کیا جو گھر کا آدمی نہ بن جائے!

    ایک دن چنتو بہت سویرے اٹھ بیٹھا اور بولا، ’’دیوتا اَب دھنوانوں کا ہو گیا ہے۔۔۔مردود۔۔۔پاپی دیوتا! اری میں تو نہ مانوں ایسے نیچ دیوتا کو۔‘‘

    ’’پر نہیں، میرے پتی، دیوتا تو سب کا ہے۔‘‘

    ’’سب کا ہے۔ اری پگلی، یہ سب گیان جھوٹا ہے۔‘‘

    ’’پر دیوتا تو جھوٹا نہیں۔‘‘

    ’’تو کیا وہ بہت سچا ہے؟ سچا ہے تو برکھا کیوں نہیں ہوتی؟‘‘

    ’’دیوتا کو برا کہنے سے دوس ہوتا ہے۔‘‘

    ’’ہزار بار ہو۔۔۔دھورت دیوتا! لے سن لیا؟ وہ اب ہمارے کھیتوں میں کیوں آئےگا؟ وہ دھنوانوں کی پوری کچوری کھانے لگا ہے۔ نِردھن گونڈوں کی اب اسے کیا پروا ہے؟‘‘

    چنتو کی نکتہ چینی ہلدی کے من میں غم گھول رہی تھی۔ اس نے جھونپڑی کی دیوار سے ٹیک لگا لی اور دھیرے دھیرے اچھے وقتوں کو یاد کرنے لگی، جب بھوک کا بھیانک منہ کبھی اتنا نہ کھلا تھا۔ وہ خوشی پھر لوٹےگی، دیوتا پھر کھیتوں میں آئےگا۔ اس کی مسکراہٹ پھر نئے دانوں میں دُودھ بھر دےگی۔ اس کے من میں عجب کشمکش جاری تھی۔ دیوتا۔۔۔! پاپی۔۔۔؟ نہیں تو۔۔۔نیچ؟ نہیں تو۔ وہ باہر چلا گیا تو کیا ہوا۔ کبھی تو اسے دیا آئےگی ہی۔

    ہلدی سنبھل کر بولی، ’’سچ مانو، میرے پتی، دیوتا پھر آئےگا یہاں۔۔۔‘‘

    چنتو کا بول اور بھی تیکھا ہو گیا۔ ’’اری اب بس بھی کر، میری رانڈ، تیرا دیوتا کوئی سانپ تھوڑی ہے کہ تیری بین سن کر بھاگا چلا آئےگا؟‘‘

    اس دن رامو بمبئی سے لوٹ آیا۔ اسے دیکھ کر ہلدی کی آنکھوں کو ایک نئی ہی زبان مل گئی۔ بولی، ’’سناؤ، رامو بھائی، بمبئی میں دیوتا کو تو تم نے دیکھا ہوگا۔‘‘

    رامو خاموش رہا۔

    میرا خیال تھا کہ رامو نے بمبئی میں مزدور سبھا کی تقریر سن رکھی ہوں گی اور وہ صاف صاف کہہ دےگا کہ دیوتا ویوتا کچھ نہیں ہوتا۔ ان آدمی آپ اپجاتا ہے اپنے لہو سے، اپنے پسینے سے۔ اگر آدمی، آدمی کا لہو چوسنا چھوڑ دے تو آج ہی سنسار کی کایا پلٹ جائے۔ کال تو پہلے سے پڑتے آئے ہیں، بڑے بڑے بھیانک کال۔ مگر اب سرمایہ دار روز روز کسانوں اور مزدوروں کا لہو چوستے ہیں اور غریبوں کے لیے تو اب سدا ہی کال پڑا رہتا ہے اور یہ کال دیوتا کے چھومنتر سے نہیں جانے کا۔ اس کے لیے تو سارے سماج کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔

    ہلدی پھر بولی، ’’رامو بھائی! چپ کیوں سادھ لی تم نے۔۔۔؟ ہمیں کچھ بتادوگے تو تمھاری ودیا تو نہ گھٹ جائےگی۔ بمبئی میں تو بہت برکھا ہوتی ہوگی۔ پانی سے بھری کالی اودی بدلیاں گھر آتی ہوگی۔۔۔اور بجلی چمکتی ہوگی ان بدلیوں میں رامو۔۔۔! اور وہاں بمبئی میں دیوتا کو رتی بھر کشٹ نہ ہوگا۔۔۔

    رامو کے چہرے پر مسکراہٹ پیدا ہونے کے فوراً بعد کسی قدر سنجیدگی میں بدل گئی۔ وہ بولا، ’’ہاں، ہلدی! ان دیو اب بمبئی کے محلوں میں رہتا ہے۔۔۔روپوں میں کھیلتا ہے۔۔۔بمبئی میں، ہلدی، جہاں تم سے کہیں سندر رانڈیں رہتی ہیں۔۔۔‘‘

    ہلدی کچھ نہ بولی۔ شاید وہ ان دنوں کے متعلق سوچنے لگی جب ریل ادھر آنکلی تھی اور اَن دیو پہلی گاڑی سے بمبئی چلا گیا تھا۔

    آنسو کی ایک بوند، جو ہلدی کی آنکھ میں اٹکی ہوئی تھی، اس کے گال پر ٹپک پڑی۔ پرے آسمان پر بادل جمع ہورہے تھے۔ میں نے کہا، ’’آج ضرور دھرتی پر پانی برسےگا۔‘‘

    ہلدی خاموشی سے اپنے بچے کو تھپکنے لگی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ کیا ہوا اگر دیوتا کو وہاں سندر رانڈیں مل جاتی ہیں۔ کبھی تو اسے گھر کی یاد ستائے گی ہی اور پھر وہ آپ ہی آپ ادھر چلا آئےگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے