Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنا گوشت

شوکت حیات

اپنا گوشت

شوکت حیات

MORE BYشوکت حیات

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی خاندانی رشتوں میں چھپے غرض کو بیان کرتی ہے۔ اس نے اپنی پوری زندگی چھوٹے بھائی بہنوں کو کامیاب بنانے کے لیے گزار دی تھی۔ وہ تنہا رہا۔ شادی نہیں کی۔ دن رات محنت کرکے اپنے بھائی بہنوں کو پڑھایا لکھایا۔ جب اس پر بڑھاپا آیا تو انہیں بھائی بہنوں نے نہ صرف اسے گھر سے نکال دیا۔ بلکہ جب وہ مرا تو کوئی اس کے جنازے تک میں شامل نہیں ہوا۔

    امی کےکہنے پر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا تھا لیکن کھانے کی اشتہا بالکل نہیں تھی۔

    بڑے ابو کے بارے میں بس کچھ دیر پہلے خبر ملی تھی۔

    مجھ پر عجیب سکتہ طاری ہوا۔ یوں لگا جیسے دل بیٹھ گیا ہو۔ اندرون میں کوئی عمارت گرتی چلی جارہی ہو۔ چہرے پر خون سمٹ آیا۔ عجیب وحشت آگئیں لمحات تھے۔

    پی اے کی آوازا بھری، ’’سر آپ ٹھیک تو ہیں۔ ڈاکٹر کو بلاؤں کیا؟‘‘

    ’’نہیں رہنے دو۔۔۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔‘‘

    دن چڑھے ایسی تکان محسوس ہوئی جیسے اپنے وجود کے ساتھ ساتھ ساری کائنات بھی تحلیل ہوجائے گی۔ چاروں طرف متلاطم لہریں اور گہرا سمندر۔ ہر طرف پانی ہی پانی۔ اوپر چڑھتا ہوا۔ ایک ایسا طوفانِ نوح جہاں کوئی کشتی نہیں تھی اور نہ کوئی اونچی پہاڑی جہاں طوفان تھمنے کے بعد اس کشتی کے ٹکنے کی خوش آئند صورتِ حال ہوتی۔

    کوئی چیز غیر متوقع نہیں تھی۔ بڑے ابو کے ساتھ تو یہ ہونا ہی تھا۔ ہر آدمی اور شئے کے ساتھ یہی ہونا ہے۔ لیکن اب طوفانِ نوح تو پیدا ہوتا ہے لیکن کوئی کشتی۔۔۔

    کچھ ہی دنوں پہلے بڑے ابو کو راستے میں دیکھا تھا۔ تھکے تھکے قدموں سے ہانپتے چلتے ہوئے بے حد ٹوٹے معلوم ہوتے تھے۔ ان کے گھٹنوں کی تکلیف بڑھی ہوئی لگ رہی تھی۔

    جانے کیوں بڑے ابو کو دیکھ کر ہمیشہ ہرے بھرے شاداب درخت کی یادیں آتی تھیں۔ ان کی شفقت کے گھنے سائے ہمیشہ سکون پہنچاتے تھے۔ بچپن میں والدین کے جبر کے درمیان بچوں کو ان ہی کی گود میں پناہ ملتی تھی۔

    سڑک پر اس روز بے حد بھیڑ تھی۔ ٹریفک کی پابندیوں سے گریز کرتے ہوئے میں نے گاڑی ایک ایسی جگہ لگادی جو پارکنگ کے لئے نہیں تھی۔ تیز تیز قدموں سے ان کے پاس گیا۔ بے اختیار ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’کون؟‘‘

    ان کی آواز کسی گہرے کنوئیں سے برآمد ہوئی۔ سونی آنکھیں جن پر بے حد موٹے شیشے کا چشمہ چڑھا ہوا تھا۔ ایک لمحے کے لئے چمکیں۔ چہرے پر مسکراہٹ بھی نمودار ہوئی۔

    انہیں اپنے بارے میں بتایا تو بے حد خوش ہوئے سب کی خیریت پوچھی۔ پھر جیسے کچھ یاد آگیا۔ متوحش نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے، ’’جابیٹا کوئی دیکھ لے گا تو تیری جان مصیبت میں آجائے گی۔ تیرا باپ۔۔۔‘‘

    ’’بڑے ابو! چلئے آپ کو ڈیرے تک چھوڑ ا ٓؤں۔‘‘

    ’’ابھی پاؤں میں گھسٹنے کی سکت باقی ہے بیٹے۔‘‘

    انہوں نے اپنے جانتے اندرونی انہدام اور امنڈتے ہوئے جذبات پر قابو پاتے ہوئے مسکراہٹ کے ساتھ میرے کندھے تھپتھائے تھے۔ لیکن میری آنکھوں نے ان کی آنکھوں کو بہت کچھ چھپاتے ہوئے دیکھ لیا۔ میں اسی طوفانِ نوح میں گھر گیا۔ ڈوبنے ابھرنے کا وہی مرحلہ شروع ہوگیا جو عموماً جذبات صدموں کے وقت مجھے بے بس بنانے کے لئے اپنے حصار میں لے لیا کرتا تھا۔

    جھکی ہوئی گردن۔ پیٹھ میں کوبڑ۔ کپکپاتے ہوئے ہاتھ اور گھسٹتے ہوئے پاؤں۔ کوئی ٹھٹھ درخت دھیرے دھیرے سرکنے لگتا۔

    بڑے ابو۔۔۔ یہ بھیڑ۔۔۔ یہ اژدہام۔۔۔ آپ کو ۔۔۔ آواز گلے میں گھٹ کر رہ جاتی ۔

    تھکے ہارے قدموں کے ساتھ اپنی گاڑی میں واپس آگیا۔

    ان جھکے ہوئے کندھوں پر چڑھ چڑھ کر ہم نے دنیا کو اونچائی سے دیکھنا جانا تھا۔ ان کی پیٹھ کتنی ہی بار ہم بچوں کی خوشی کے لئے ہاتھی اور گھوڑوں کی پیٹھ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ ہنستے جاتے اور ہاتھی یا گھوڑا بنتے ہوئے خوشیوں کے موتی بانٹتے جاتے۔

    نڈر بنانے کے لئے رات کے وقت بچوں کو بڑے آنگن کے کونوں میں چھوڑ دیتے۔بچے شور کرتے یا رونے دھونے اور ضد کرنے کا کاروبار کرتے۔ اگر امی ہمیں جن بھوت یا چور سے ڈراکر چپ کرانے کی کوشش کرتیں تو امی پربگڑ جاتے۔

    ’’خبردار دلہن۔۔۔ انہیں ڈرپوک بنانے کی کوشش نہ کرنا۔۔۔‘‘

    ڈرپوک کی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے جس شدت سے وہ متنبہ کرتے، ایسا معلوم ہوتا گویا ان کی کوئی عزیز چیز چھن گئی ہو اور وہ اس کے حصول کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہوں۔ ان کے چہرے کی وحشت دیکھنے کے قابل ہوتی۔ ہم ان کی آواز کی جلبلاہٹ اور اس میں چھپے ہوئے خوف سے متوحش ہوکر چپ ہوجاتے۔ امی کی بیزاری اور نفرت دیکھنے کے قابل ہوتی۔

    ’’اپنے جیسا۔۔۔‘‘ وہ بدبدا کر رہ جاتیں۔

    کہتے ہیں ، دادا کی موت کے بعدبڑے ابونے تہیہ کیا تھا کہ والد کے فرائض کی ادائیگی سے پہلے اپنا گھر نہیں بسائیں گے۔ قول کے پورا ہوتے ہوتے زمانہ گزر گیا۔ گنگا میں کتنا سارا پانی بہا لیکن بڑے ابو کی زندگی اسی پڑاؤ پر کھڑی رہی، جہاں انہوں نے اپنے والد کو اپنے بچپن میں سپردِ خاک کیا تھا۔ ایک شکستہ قبر ان کے پیچھے تھی۔ آگے بھی قبروں کے سلسلے تھے۔ بڑے ابو قبروں کے درمیان جیتے جی سینڈوچ بن گئے۔

    امی کو ان کا انداز بے حد ناگوار گزرتا۔ زندگی کے معمولات اور بچوں کی تربیت میں ان کی دخل اندازی سے گلوخلاصی چاہتی تھیں۔ لیکن ابو نے اس وقت تک ان کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دینے کا رویہ اختیار کر رکھا تھا۔

    روایت ہے کہ شادی کی عمر نکل جانے کے بعد جب یہ قرار پایا کہ جائیداد میں ان کے حصے کی نشاندہی کی کوئی ضرورت نہیں تو انہوں نے کوئی فریاد نہیں کی۔ خموشی سے والدہ کے اس عندیے کو قبول کرلیا۔ ان کی تیز اور گونج دار آواز پورے علاقے میں مشہور تھی، لیکن والدہ کی اس تجویز پر انہو ں نے عجیب و غریب چپی اختیار کرلی۔

    کچھ عرصے بعد کسی موقع سے انہیں جدی مکان چھوڑنے کا فیصلہ لینا پڑا۔ حالانکہ اس سے پہلے اپنے سلسلے میں گھر کے افراد کے ذریعہ قائم کردہ حدود سے انہوں نے کبھی تجاوز نہیں کیا۔

    بچوں کے لئے ہاتھی اور گھوڑا بننے کے ساتھ ساتھ گھر کے دیگر افراد کے لئے وہ کولہو کا بیل بن جایا کرتے تھے۔ کولہو کا بیل جب بیمار رہنے لگا اور سستی اور کاہلی سے دو چار ہوگیا تو چیزیں قابو سے باہر ہونے لگیں۔ ان کی باتیں اور اطوار ناقابل برداشت ہوگئے۔ حتی کہ چائے کے لئے بھی۔۔۔

    چائے کے وہ بڑے شوقین تھے کچھ نہ ملے لیکن چائے مل جائے تو وہ اسے گاڑی کے لئے پٹرول سے تعبیر کرتے تھے۔ حالانکہ بار بار کی چائے اور خوراک کی کمی نے ان کے چہرے کی جلد کو خشک اوربے رونق بنادیا تھا۔

    بڑے ابو کا دل ٹوٹا تو ’’بس اور نہیں‘‘ کی کیفیت کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ قدموں نے جدی مکان کے ساتھ اپنی برسوں کی رفاقت کو بے اختیار الوداع کہہ دیا۔ قدم کانپ رہے تھے۔ ایک بے حد سفاک اوربے منزل زندگی کی ڈھلان سامنے تھی۔ وہ آگے بڑھ گئے۔ رکے نہیں۔

    کہتے ہیں کہ ان بہنوں نے جن کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے بڑے ابو نے خود فراموشی اختیار کرلی تھی، اپنے بھائی کو بوجھ سمجھنے کے موقف کی پرزور تائید کی تھی۔

    ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس طرح کے بے کار افراد سے گھر کا ماحول بگڑتا ہے۔۔۔ خاندان کے بچوں پر برا اثر پڑتا ہے۔

    ’’جیوتشی کہتا ہے کہ ترے ہاتھوں میں جس نہیں ہے لیکن میں دکھاؤں گا کہ پکا ارادہ نا ممکنات کو ممکن بنادیتا ہے۔‘‘

    کہتے ہیں، اکثر یہ بات وہ پڑوسیوں کے درمیان کہا کرتے تھے۔ پتا نہیں جیوتشی کی رائے کی توثیق اور اپنے عزم کی شکست پر وہ کس قدر لہولہان ہوئے ہوں گے۔

    دادی اماں نے بھی نہیں روکا تھا۔ جانتی تھیں کہ چند دنوں میں غصے پر قابو پاکر قہقہہ لگاتا ہوا اس کا بیٹا زندگی کی چٹانوں سے ٹکراکر لوٹ آئے گا۔ جب بہت دن بیت گئے اور بڑے ابو پر کیا کچھ نہیں بیت گئی۔تب کبھی کبھی دادی اماں پر بیتنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    ان کی نمازیں اور تسبیح طویل ہونے لگیں۔ آنکھیں آسمان کے خلا میں کھوئی کھوئی رہنے لگیں۔ بات کرتے کرتے یوں خاموش ہوجاتیں جیسے سب کچھ بھول گئی ہوں۔ انہیں بات کرنا آتا ہی نہ ہو۔ بڑے ابو جس علاقے اور جس ماحول میں رہنے لگے تھے، وہاں جاکر ان سے ملنا طبقہ اشرافیہ کی عورتوں کے لئے مناسب نہ ہوسکتا تھا۔ کسی نے ان کی کوئی خبر نہ لی۔

    کبھی معلوم ہوتا کہ ٹمپو ڈراائیو کر رہے ہیں۔ کبھی پتہ چلتا کہ کسی دکان میں سیلز مین بن گئے ہیں۔ پھر خبر آئی کہ شراب کی بھٹی کے کاؤنٹر پر کام کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بڑھاپے میں رکشے چلانے کا کام اختیار کرنا پڑا۔ کسی کو ان کا خیال نہ آیا۔

    ہم جوان کی بے چینیوں اور توجہ کے سبب نڈر بنے تھے اور زندگی کی گاڑی کامیابی اور تیز رفتاری سے چلارہے تھے، گھر کے ماحول کے سبب ان کا تذکرہ تک کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ ان کی رہائش گاہ تک جاکر ملنا تو دور کی بات۔

    ان کی ساری خوبیوں کو منفی انداز میں پروجیکٹ کر کے ان کی عجیب و غریب امیج بنادی گئی۔ ان کی درویشی، ان کی قربانی سب کچھ سیانے پن سے تعبیر کی گئیں۔

    ہم لوگوں کے لئے جو اکثر و بیشتر گھوڑا بنے۔ گھوڑے جیسی آواز نکال کر ہنہنائے۔ ہمیں اپنے کندھوں کے سہارے دنیا کو اونچائی سے دیکھنے اور فیض یاب کرنے کا آغاز کیا۔ بقول شخصے ایک ایسے گھوڑے میں تبدیل ہوچکے تھے جس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہو۔ جس کی ٹانگیں اب چھلانگیں لگانے کے بجائے ایک جگہ بیٹھے رہنے کو فوقیت دیتی ہوں۔

    جب اپنوں کی یاد نہ آئے تو سمجھنا چاہئے کہ موت نزدیک آرہی ہے اور جینے کی لہک ختم ہوگئی ہے۔

    سب نے انہیں فراموش کردیا۔ لیکن ہم کیسے بھول سکتے تھے۔ ہم تو ان کی گود میں کھیل کر بڑے ہوئے تھے۔ زندگی کے ہنگاموں میں ہم جب بھی انہیں دیکھتے ، انہیں منا پھسلا کر لانے کا ارادہ کرتے۔ لیکن گھر کے حالات کے تناظر میں یہ خیال چاند چھونے کی تمنا کے مترادف تھا۔

    ’’سر! آپ نے ابھی ابھی کہا تھا کہ آج کے سارے اپوائنٹمنٹس کینسل کردوں اور۔۔۔‘‘ پی اے کی آواز ابھری۔

    ’’ہاں! میرا ایک جگہ پہنچنا ضروری ہے۔‘‘ میری غنودگی ٹوٹی۔

    بذریعہ فون گھر پر خبر دینی چاہی۔ ڈر معلوم ہوا کہ بھولے بسرے ہوئے اس بوجھ کے تذکرے پر ناگواری کی مکدر فضا نہ پیدا ہوجائے ، قیامت نہ گزر جائے۔ پھر خیال آیا کہ ان کی جائیداد تو تصرف میں آہی چکی تھی اور اپنی ضرورتوں کی بنا پر جس طرح انہیں بوجھ مان لیا گیا تھا، وہ کب کا ہٹ چکا تھا۔ اس نتیجے پر کہ اس خبر کی ترسیل سے ان پر اس طرح کا رد عمل نہیں ہوگا۔

    میں نے اندیشوں کے واہمے کو جھٹکا اور فون کی طرف انگلیاں بڑھائیں۔ پھر سوچا، ایسی بری خبر خود جاکر ان تک پہنچانی چاہئے۔ اسی بہانے ان کے چہروں کے تاثرات پڑھنے کا موقع ملے گا۔

    میں گاڑی سے گھر لوٹا تو زندگی معمول پر دکھائی دے رہی تھی۔ دربان اسی طرح گیٹ پر تعینات تھا۔

    ’’امی معلوم ہوا آپ لوگوں کو۔۔۔؟‘‘ امی پر نظر پڑتے ہی میں نے ہانپتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں معلوم ہے۔۔۔‘‘ امی نے درشت لہجے میں کہا۔

    ’’ابو کو۔۔۔؟‘‘

    ’’انہیں بھی۔۔۔‘‘

    ’’وہ گئے۔۔۔؟‘‘

    ’’کیوں جائیں گے۔ اپنے مطالعے میں مصروف ہیں۔۔۔‘‘

    ’’دادی اماں کو۔۔۔‘‘

    ’’وہ بھی جان گئی ہیں۔۔۔‘‘

    ’’کم سے کم وہ تو۔۔۔‘‘

    ’’وہ نماز پڑھ رہی ہیں۔۔۔ تم آج کھانے کے وقت پر آگئے ہو۔۔۔ چلو کھانا کھالو۔۔۔‘‘ انہوں نے خانساماں کو آواز دی اور کھانا لگانے کے لئے کہا۔

    ڈائننگ ٹیبل پر میرے اوپر ابکائی کی کیفیت غالب تھی۔

    امی بول رہی تھیں، ’’کچھ لوگ آئے تھے۔۔۔ کہتے تھے انہیں یہاں لے آیا جائے اور ساری رسوم یہی سے ادا ہوں۔۔۔ میں نے انہیں منع کردیا۔ جن کے ساتھ ان کا دل لگتا تھا وہی تو ان کے اپنے تھے۔ پھر یہ سارا کام وہی کیوں نہ کرتے۔۔۔ ان کے تو کوئی آل اولاد نہیں تھی جو یہ فرض اپنے کندھوں پر لیتی۔ میں نے انہیں۔۔۔‘‘

    کچھ دیر کے لئے امی نے توقف کیا میری طرف نظر اٹھاکر دیکھا۔ آنکھیں چار ہوئیں۔ میں نے ہی شرم سے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔

    پھرمطمئن اور سپاٹ لہجے میں وہ بولنے لگیں، ’’میں نے انہیں آخری رسوم کے خرچ کے لئے روپے دے دیئے۔۔۔ آخر ان کا جائیداد میں حصہ تھا۔۔۔‘‘

    کچھ ہی دیر میں ابو بھی آگئے۔

    امی بولیں، ’’اب اس عمر میں پڑھنا تھوڑا کم کریں۔۔۔ آنکھوں پر بہت زور پڑتا ہے۔‘‘ ابو مسکرائے۔

    ’’شکریہ بیگم۔۔۔ آپ کو میرا کتنا خیال رہتا ہے۔۔۔ مشورہ قابلِ قدر ہے۔۔۔ اب زندگی کو کتابوں کے بجائے براہِ راست پڑھنے کا وقت آگیا ہے۔۔۔‘‘

    ابو خلاف توقع کچھ زیادہ ہی ہلکے پھلکے اور شگفتہ لگ رہے تھے۔ ان کی صحت ابھی بھی نوجوانوں کے لئے قابلِ رشک تھی۔ ہاتھ، پاؤں، آنکھیں، دانت۔۔۔ سب کے سب سلامت اور مضبوط تھے۔

    کھانا کھاتے ہوئے انہوں نے مرغے کی ہڈی چوستے ہوئے اسے کڑکڑا کر توڑ دیا ۔ اور اندر کے گودے کی لذت سے سرشار ہونے لگے۔

    امی نے انہیں زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ پیار بھری نظروں سے دیکھا اور ان کے دانتوں کی مضبوطی کے لئے انہیں میٹھی میٹھی نگاہوں سے داد دی۔

    ڈائننگ ٹیبل پر کھاتے ہوئے مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اپنا گوشت کھارہا ہوں۔

    مأخذ:

    گنبد کے کبوتر (Pg. 86)

    • مصنف: شوکت حیات
      • ناشر: شوکت حیات
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے