Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنی نگریا

ممتاز شیریں

اپنی نگریا

ممتاز شیریں

MORE BYممتاز شیریں

    کہانی کی کہانی

    ادب سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے ایک ایسے جوڑے کی کہانی جو ایک ادبی رسالہ نکالتا ہے۔ اپنے رسالے کو بہتر اور دوسروں سے منفرد بنانے کے لیے دوسری زبانوں کے شاہکار کے اردو تراجم اپنے رسالے میں شائع کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ انھیں اس بات کا احساس ہونے لگتا ہے کہ اس قسم کے رسالوں کی کوئی قدر نہیں ہے اور ان کے لیے رسالے کے معیار کو برقرار رکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔

    شاہد نے قفل کھولا اور وہ دونوں آفس روم میں داخل ہوئے۔ ایک چھوٹی سی ایڈیٹر کی آفس، ایڈیٹر! فیروزی دھاری دارشرٹ اور سرمئی اُونی پتلون پہنے وہ کتنا سجیلا لگ رہا تھا۔ دفتر گھر پر ہی تھا۔ لیکن آفس روم میں جانے سے پہلے وہ ہمیشہ ڈریس کر لیا کرتا تھا۔ ’’کیا ہوا اگر دفتر گھر ہی پر ہے۔ میں آفس ہی کو تو جارہا ہوں‘‘، وہ ساکس چڑھاتے ہوئے ہنس کر کہتا، ’’ڈریس کرلوں تو ایک طرح کی پھرتی آ جاتی ہے اور میں اچھی طرح کام کر سکتا ہوں۔‘‘

    وہ پتلون کی جیب میں ہاتھ رکھے ایک پاؤں پر بوجھ ڈالے کھڑا باہر دیکھ رہا تھا۔ کھڑکی سے باہر کا منظر اچھی طرح دکھائی دیتا تھا۔ کھلا میدان اور سڑک کے کنارے شوخ سرخ پھولوں سے لدے گل مہر کے درختوں میں آگ سی لگی تھی۔ شفاف نیلے آسمان پر کہیں کہیں سفید بدلیوں کے ٹکڑے تیر رہے تھے۔ بڑی روشن صبح تھی۔ کھڑکی کے دودھیا شیشوں میں سے چھنتی ہوئی ہلکی روشنی میں اس کی سبز آنکھیں نیلی جھلک مار رہی تھیں۔ فیروزی دھاری دار شرٹ اور فیروزی آنکھیں جیسے وہ نیلی دھاریاں ان خوبصورت نیلی آنکھوں سے میچ کرنے کے لیے ڈالی گئی ہوں۔ وہ ایک جذبۂ پرستش کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ شاہد نے کھڑکی کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں اور نسرین کی آنکھوں میں وارفتگی کی چمک دیکھ کر اچانک اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ وہ جب بالکل بچی تھی۔ دس گیارہ سال کی اور انہیں دنوں اسے کافی شعور آ گیا تھا۔ وہ ان دنوں ’پھول‘، ’غنچہ‘ نہیں پڑھا کرتی تھی۔ بلکہ ’نیرنگ خیال‘، ’ساقی‘ اور ’ہمایوں ‘، ’مدینہ‘ اور ’انقلاب‘ نصر اللہ خاں عزیز کے سرراہے اور سالک کے ’افکار و حوادث‘ سے اسے بڑی دلچسپی تھی۔ ان دنوں وہ کس شدت کے ساتھ محسوس کرتی تھی کہ ایڈیٹر ہونا بھی کتنی بڑی بات ہے۔ اسے ایڈیٹر سے، کسی شخصیت سے نہیں، ایک طرح کی عقیدت سی ہو گئی تھی۔ ایک عجیب طرح کا ایڈمریشن! اور وہ سوچتی تھی۔ جب بڑی ہوگی تو۔۔۔ لیکن کیا اس کے پاس اتنے روپے ہوں گے کہ وہ خود رسالہ نکال سکے؟ یا لیکن یہاں اچھے رسائل ہیں کہاں کہ وہ ان کے دفتر میں کام کر سکے؟ لیکن کبھی کبھی دلی تمنائیں کیسے، عجیب، انجانے طور پر، بر آجاتی ہیں! وہ اب ایک خوبصورت معیاری رسالے کی آفس میں کھڑی تھی۔ آفس ہی میں نہیں ایڈیٹر کے بازوؤں میں! ان بازوؤں کا حلقہ تنگ ہوتا جا رہا تھا اور نسرین اپنا سر اس کے کشادہ سینے پر رکھے اس سینے کی تسکین آمیز گرمی محسوس کر رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا اور آنکھیں بند کر لیں۔ شاہد نے جھک کر۔۔۔

    لیکن اوہ! ذرا ٹھہریے۔ یہاں ایک بات بتا دینا ضروری ہے۔ کیونکہ بھئی لوگوں کو بہت جلد غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ انسان ہر بات میں بہد جلد برائی سونگھنے کا عادی ہے۔ بہت سے لوگ اسے ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ نہیں، صاحب نہیں۔ یہ لڑکی نازنسرین نہ ٹائپسٹ یا سٹینوگرافر تھی نہ ا سوسیٹ ایڈیٹر، نہ سکریٹری جس سے ایڈیٹر صاحب، بلکہ وہ ان کی بیوی تھی۔ کیوں مایوسی ہوئی؟ اور شاہد نے اسے جلدی سے بازوؤں سے الگ کرتے ہوئے مسکراکر کہا، ’’اب بس کام بہت ہے۔ ہم اسی طرح رومان میں کھوئے رہیں تو کام نہیں کر سکیں گے نازی!‘‘ وہ پھرتی سے دوسری طرف جاکر بیٹھ گیا۔ لیکن وہ ابھی تک کچھ مدہوش سی تھی بوجھل آنکھوں سے اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔ وہ میز پر انگلیاں بجانے لگا اور شریر چمکیلی نظروں سے اسے دیکھ کر بولا، ’’میناکا!‘‘ نسرین نے مصنوعی غصہ سے منہ پھلا لیا۔ ’’ہاں، میں صرف میناکا کی طرح ٹمپٹ (Tempt) کرتی ہوں نا۔ تہامری ذرا بھی مدد نہیں کرتی۔‘‘

    ’’کرتی ہو نا، نازی، سچ، تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو مجھے کتنی دشواری ہوتی، پھر وہ پیار میں ڈوبی آواز میں کہنے لگے، ’’تم صحیح معنوں میں جیون ساتھی ہو، میری نازی، میری ہم ذوق، میرے ارادوں میں، میرے کام میں ساتھ دینے والی!‘‘ ایک نشیلی کیفیت کے زیر اثر وہ بادامی پپوٹے جھک آئے لانبی گھنی پلکیں جھیل کے پانیوں کی سی سبز پتلیوں کو چومنے لگیں۔ ان خوبصورت بھیگی ہوئی آنکھوں کی مقناطیسی چمک سے کھنچی، میں کچھ دیر وہیں کھڑی رہی پھر میز کے اس طرف آکر شوخی سے خطوں کا پلندہ ان کی طرف پھینکتی ہوئی بولی، ’’ابھی تو کہہ رہے تھے کام بہت کرنے ہیں۔‘‘

    ’’افوہ کتنے خطوط کے جواب دینے ہیں ابھی!‘‘ وہ چونک پڑے۔ ’’ایک دو روز خط نہ لکھیں تو کتنے جمع ہو جاتے ہیں۔‘‘ وہ خطوں کو سرسری طور پر دیکھنے لگے۔ ’’اس ایجنسی کو مزید پرچے بھجوا دیے تم نے؟‘‘ انہوں نے ایک خط بتاکر پوچھا۔

    ’’بھجوا دیے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ وہ پھر خطوط دیکھنے لگے۔

    شاہد کو کام کا احساس دلاکر وہ خود کسی تصویر میں کھو گئی۔ ’’تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو۔۔۔‘‘ شاہد کے ایک خط کے الفاظ اسے یاد آنے لگے۔ ان دنوں وہ اپنے میکے میں تھی اور خط آیا تھا۔ ’’نیادور‘‘ کا تازہ نمبر نکل گیا ہے اور تم جانتی ہو ان دنوں کتنا کام ہوتا ہے۔ ڈھیروں کام سامنے پڑا ہے اور تم یہاں نہیں ہو، یہ کہنے سے میرا مطلب یہ نہیں کہ میں تم سے بھی کام لینا چاہتا تھا۔ لیکن میری نازی میری اپنی نازی، تم یوں ہی میرے سامنے بیٹھی رہو۔ تو میں دگنا تگنا کام کر سکتا ہوں۔ صرف تمہاری موجودگی مجھ میں گویا ایک بجلی سی بھر دیتی ہے۔ میں خوشی میں سرشار رہتا ہو ں اور کام ہلکا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اب میرا من اداس ہے، دل پر ایک بوجھ سا رہتا ہے، کام بہت بھاری معلوم ہوتا ہے۔۔۔‘‘ لیکن وہ یوں ہی نہیں بیٹھی رہتی تھی۔ وہ بھی اس کے ساتھ کام کیا کرتی۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ کام کرتے۔ کبھی خطوط لکھ رہے ہوتے، مضامین پڑھ کر انتخاب کر رہے ہوتے۔ ٹائیٹل پیج کے لیے ڈیزائن تجویز کر رہے ہوتے۔ رنگوں کی آمیزش پر بحث کر رہے ہوتے، پروف دیکھ رہے ہوتے، اعزازی پرچے بھیج رہے ہوتے۔ خریداروں اور ایجنسیوں کو پرچے پیک کراکے بھجواتے، آمد و خرچ کا اندراج اور پھر حساب پھر خطوط خطوط ہر روز بیسیوں خطوط! وہ چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑی دلچسپی سے آپ ہی کیا کرتی۔ رسیدوں کی پرانی کتاب بھر گئی تھی۔ وہ چپکے سے انڈین لسنر کی کاپیاں اٹھالائی، اندر کے پونے پونے صفحے کاٹ ڈالے اوت ین کاپیوں میں منی آرڈر، وی پی اور رجسٹریوں کی رسیدیں چپکا رہی تھی۔ شاہد چپکے سے اس کے بالکل پیچھے آ کھڑا ہوا۔ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یوں ہی مسکراتی رہی۔ ’’ارے، یہ سب تم کیوں کرتی ہو، جانی، تک جاؤگی، دوسرے کام ہی کیا کم ہیں تمہارے لیے۔‘‘ ’’مجھے پسند ہیں یہ کام‘‘ ’’سچ؟‘‘ ’’ہاں‘‘ شاید عورتیں میکانیکل کام بھی دلچسپی سے کر سکتی ہیں۔ اسی لیے شاید، سٹینو گرافرس اور سکریٹری زیادہ تر لڑکیاں ہی ہوتی ہیں۔ میں کبھی بڑا آدمی ہو جاؤں، تو تمہیں کو سکریٹری بناؤں گا، بنوگی؟‘‘ شاہد نے ہلکے سے اس کے بالوں کو تھپکتے ہوئے کہا۔ وہ خوشی سے معمور آواز میں بولی، ’’ایم این رائے کی بیوی۔ ملین رائے کی طرح میں شارٹ ہینڈ سیکھوں گی۔ ٹائپ کرنا سیکھوں گی اور پھر۔۔۔‘‘ ’’اور میری نازسی، نازی‘‘ شاہد نے اسے گھما دیا۔ پھر یک دم سے اسے چھوڑ کر کرسی پر جا بیٹھا اور بےتحاشا ہنسنے لگا۔ ’’آخر کیوں؟‘‘ نسرین نے پوچھا، ’’تم تو ایسے یقین سے کہہ رہی ہو جیسے میں سچ مچ بڑا آدمی بن جاؤں گا۔ میں تو یوں ہی مذاقاً کہہ رہا تھا۔ اچھا اب آؤ، دیکھو مختلف رنگوں میں پرنٹ کراکے چند کورپیج لے آیا ہوں، دیکھو کون سی انک (Ink) ٹھیک بیٹھتی ہے۔‘‘

    وہ یونہی ہنستے کھیلتے کام کیا کرتے۔ لیکن کبھی کبھی اتنا کام رہتا کہ وہ بالکل تھک جاتے۔ خصوصاً پرچہ نکلنے سے چند دن پہلے اور چند دن بعد تو بہت ہی زیادہ کام رہتا، وہ چھوٹے سے ایڈیٹر تھے۔ پرچہ ابھی ابھی نکلا تھا۔ ان کے دفتر میں نوکر اور کلرک اور منیجر اور ایڈیٹر۔ بعض سرمایہ دار ’’ایڈیٹر‘‘ تو ایڈیٹ بھی دوسروں سے کرواتے ہیں۔ نہیں تھے بہت سارا کام وہ خود ہی کیا کرتے۔ شاہد اور وہ۔ ’’نیا دور‘‘ کو انہوں نے محنت سے پالا پوسا، پروان چڑھایا، شاید اسی لیے انہیں ’’نیادور‘‘ سے اس قدر محبت تھی!

    آج کل، آج کل کے وعدوں سے پریشان کرکے کاتب آخرکار کتابت ختم کرتے۔ طباعت کے لیے پھر وہی وعدے۔ آخر تنگ آکر وہ ان دنوں کورٹ جانا بھی چھوڑ دیتا اور دن بھر دونوں پریس کا چکر کاٹتا رہتا۔ کورپیج کی پرنٹنگ ایک پریس میں ہوتی تھی اور فارموں کی کتابت اور طباعت دوسرے پریس میں۔ ایک سٹی میں تھا تو دوسرا چھاؤنی میں۔ میلوں دور۔ ’’کور پیج چھپ گئے؟‘‘ ’’نہیں‘‘ ’’کور کارڈ اور بلاک اور اشتہارات کے مضمون تو ہفتوں پہلے آپ کو دیے گئے تھے!‘‘ ’’کورس کاٹ دیے گئے۔‘‘ ’’صرف کاٹ رکھے ہیں؟ بلاک نہیں چھے و؟‘‘ ’’نہیں‘‘ اور ’’اشتہار؟‘‘ ’’اشتہار بھی نہیں‘‘ اور وہ سرپکڑ وہیں بیٹھ جاتا، جب تک پورے کور تیار نہ ہوجائیں وہ وہیں بیٹھا رہےگا۔ ٹائیٹل پیج کے سرے پر بلاکس چھاپے جاتے۔ پھر درمیان میں کس طرح کا گراؤنڈ باندھا جائے اور یہ کس رنگ کا ہو، اس کے بازو اور نیچے کس طرح کے لائنس ہوں، کتنی لکیریں باریک ہوں اور کتنی موٹی، یہ کس طرح کے لائنس ہوں، کتنی لکیریں باریک ہوں اور کتنی موٹی، یہ کس طرح سے سیٹ کی جائیں۔ فلاں فلاں عبارت کے لیے کس نمونے کے اور کتنے موٹے ٹائپس چنے جائیں اور فلاں عبارت کون سے رنگ کی انک میں چھپے، سب کچھ بڑے انہماک سے آپ ہی انتخاب کرکے چھپواتا تھا، پھر سائیکل تیزی سے چلاتا وہ چھاؤنی جا پہنچتا۔ ’’کتنے فارم چھپے ہیں؟‘‘ ’’تین۔‘‘ ’’پرسوں بھی تین ہی چھپے تھے۔ اس دن سے کچھ نہیں کیا، آپ نے وعدہ کیا تھا آج تک دو اور فارم چھاپ دیں گے۔‘‘ ’’وہ دو فارم جو آپ دوسرے کاتب کے پاس لکھوا لائے تھے، بالکل خراب تھے، پتھر پر چڑھائے تو جملے کے جملے اڑ گئے تھے۔ عبارت بالکل پڑھی نہ جا سکتی تھی۔ آپ نے اس کے پاس کیوں لکھوایا؟ وہ اچھا کاتب نہیں ہے اور کاغذ پر گنجی بھی برابر نہیں چڑھائی تھی۔ دو فارم اڑ گئے۔ پھر سے لکھوانا ہوگا انہیں!‘‘ ’’آخری دو فارموں کی کتابت ختم کر دی آپ نے؟‘‘ ’’ہاں ختم ہو گئی‘‘ تو ان دو فارموں کی کتابت بھی آپ ہی کر دیجیے۔ کل ہی شروع کر دیجیے، میں گھر جاکر آج ہی مسودے بھجواتا ہوں۔‘‘ وہ فارم اڑ گئے تو دوسرے کیوں نہ چھوبا دیے۔‘‘ ’’دیکھیے بہت دیر ہو رہی ہے۔‘‘ کل آپ ہی کا کام کریں گے۔ اب بہت دن جا چکا ہے۔‘‘ ’’آج کم سے کم ایک فارم تو چھاپ دیجیے۔‘‘

    ’’بڑی مشکل سے ایک فارم چھپواکے آیا ہوں، نازی‘‘، وہ آتے ہی صوفے پر گر پڑا اور مایوسانہ لہجہ میں کہتا۔ دن بھر کی سائکلنگ سے تھک کر چور، پسینہ میں شرابور تھکا ہوا جسم اور تھکا ہوا دماغ لیے! ’ابھی آدھا کام بھی نہیں ہوا، پھر کل جانا ہوگا۔ یہ پریس والے بھی کتنا دق کرتے ہیں۔‘‘ ’’بستر لگادوں گی، چل کر کچھ دیر سو رہو، بہت تھک گئے ہو۔‘‘ ’’نہیں بستر پر سوؤں گا تو بہت دیر سو جاؤں گا۔ یہیں چند منٹ آنکھیں بند کرے پڑے رہوں گا، نیند لگ جائے تو اٹھا دینا۔ آخری دو فارمس لے آیا ہوں۔ پروف دیکھنا ہے، اٹھا دوگی نا؟ کل نہ لوٹادوں تو چھاپنے میں اور دیر کر دیں گے۔ کتناشدید درد ہو رہا ہے سر میں۔‘‘ وہ اسے نہیں اٹھائےگی، وہ سوچتی اور آہستہ آہستہ اس کا سر دبانے لگتی۔ شاہد کو نیند سی آ جاتی۔ پھر وہ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھتا۔ ’’میں بہت دیر سو تو نہیں گیا۔‘‘ ’’ارے دس منٹ ہی تو ہوئے ہیں۔ تم سو جاؤ، میں کسی سے پڑھواکر تصحیح کر دوں گی۔‘‘ ’’نہیں نازی، جانے وہ کس طرح پڑھیں گے۔ کاما، ڈاٹس، حرف کے نقطے اور بہت ساری چیزیں مثلاً مسودے میں کتنی جگہ چھوڑ کر دوسراحصہ شروع کیا گیا ہے، یہ سب کچھ دیکھنا چاہیے۔ تم پڑھو تو میں تصحیح کر دوں گا۔ بیگ میں سے فارم نکال لو، مسودے بھی وہیں ہیں۔‘‘

    اب انہیں رومان کے لیے پہلے کی طرح وقت نہ ملتا تھا۔ لیکن ان کی محبت اب روحانی طور پر اتنی گہری ہو گئی تھی کہ دفتر میں بیٹھے کام کرتے ہوئے بھی ہر لمحہ اس محبت کا شدید احساس ہوتا۔ وہ مقابل کی کرسیو ں پر بیٹھے ہوتے، ان کی درمیان ایک لانبی سی میز پڑی ہوتی، ہاتھ کام کر رہے ہں د، نگاہیں کاغذوں پر لگی ہیں۔ لیکن پھر بھی ایسے محسوس ہوتا جیسے اس میز کے اوپر سے ان کے دلوں کے درمیان، محبت کی دھارا بہہ رہی ہے، بہہ رہی ہے، ایک دل سے دوسرے دل کو، پیہم، وہ سر اٹھاکر دیکھتی۔ شاہد کے چہرے پر پسینے کی بوندیں آ جمی ہیں۔ اس کے بال پریشان ہوکر پیشانی پر آ پڑے ہیں۔ وہ تھکا ہوا ہے، وہ چپکے سے اٹھ کر اندر چلی جاتی اور چائے لے آتی۔ اس کے بال ہٹاکر ایک مادرانہ شفقت سے اس کی پیشانی چوم کر کہتی، ’’چائے پی لو، بہت تھک گئے ہو۔‘‘ وہ چپکے سے اس کا ہاتھ اٹھاکر آنکھوں سے لگا لیتا۔ چائے پی کر وہ تازہ دم ہو جاتے اور پھر اپنے کام میں مشغول ہوجاتے۔ نسرین کو یہ زندگی بہت پسند تھی۔

    ’’خط ایسے کوئی ضروری تو نہیں۔‘‘ شاہد نے خطوں کو پرے رکھتے ہوئے کہا، ’’آئندہ پرچے کی ترتیب دے دیں گے۔‘‘ ’’ابھی سے؟‘‘

    ’’ہاں، پچھلا پرچہ نکل کر کتنے دن ہو گئے۔ آج اتوار ہے کل پھر مجھے کورٹ جانا ہوگا اور کاتب کو ان دنوں فرصت بھی ہے، ورنہ درسی کتابوں کا کام شروع ہو جائے تو بڑی مشکل ہوگی۔ اب بھی کافی دیر ہو گئی ہے۔ آئندہ سے ہمیں ایک پرچہ نکلنے کے پہلے ہی دوسرا مرتب کرکے کتابت کے لیے دیدینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا۔

    ’’اچھا وہ مضامین والی فائل نکال دو، میں آئے ہوئے مضامین کی فہرست بناؤں گی۔‘‘ انہوں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے یوں ہی ذرا سا پیچھے کو جھک کر الماری میں سے ایک فیروزی فائل نکال لی، میں نے ہاتھ بڑھاکر فائل لے لی اور فہرست بنانے لگی۔ وہ مضامین جو انتخاب میں لے لیے گئے تھے۔ پھر وہ مضامین جو زیر غور تھے۔ ناقابل اشاعت مضامین تو پہلے ہی سے الگ کرکے دوسری فائل میں ڈالے جا چکے تھے۔ فہرست تیار کرکے میں نے ان کے ہاتھ میں دے کر کہا، ’’وہ خطوط ادھر بڑھا دو۔ میں ان کے جواب لکھ دوں۔‘‘

    ’’خطوط کی ایسی کیا جلدی ہے۔ تم کل بھی لکھ سکتی ہو، آج مجھے چھٹی ہے، ترتیب دے دیں گے، مضامین کی فائل ادھر بڑھا دو۔ میں پہلے یہ اندازہ لگا لوں، مضمون کتنے کتنے صفحوں میں آئیں گے اب تو ہمیں پیپر کنٹرول آڈر کے تحت ۱۶۰ صفحوں سے بڑھنے کی اجازت نہیں۔‘‘ میں نے فائل دے دی۔

    شاہد مضامین نکال کر صفحات گننے لگا۔ تب تک وہ بیٹھی کیا کرے؟ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا میز پر کوئی کتاب رکھی ہو تو لے کر پڑھے۔ میز کے آخری کونے پر ننھا سا ایک روالونگ شلف رکھا تھا، دیکھیں اس میں کونئی کام کی کتاب نکل آئے، برنارڈ شا۔ یوری باڈیس پولیٹکل داٹ ازواٹ، جواہر لال نہرو کی گلمپس آف ورلڈ ہسٹری، یچ، یل فیشر، ہسٹری آف یورپ کتنے دلکش انداز میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب! تاریخ ہوکر بھی بالکل خشک نہیں معلوم ہوتی! لیکن بھئی اب پالیٹکس اور ہسٹری کون پڑھے گا۔ فرانز کافکاوی کیا سل، اس کے بہت سارے حصے تو اس نے پڑھے ہیں۔ کہیں کہیں اکتاکر چھوڑ دیا تھا، لن یوتانگ کی اما رٹنس آف لیونگ، لیف اِن دی سٹارم یہ تو وہ پڑھ چکی ہے۔ تھارن ٹن وائلڈر کی برج آف سان لوئی رے‘‘ یہ بھی حال ہی میں پڑھی تھی، الکسی ٹالسٹائی روڈ ٹو کیالواری، جان ڈاس ماپاس .U.S.A افوہ! ٹریلوجیس! اب فی الحال تو اسے کوئی شارٹ سٹوریس کی کتاب چاہیے تھی۔ شاہد کے صفحات دیکھ کر اندازہ لگانے تک ایک چھوٹا سا افسانہ پڑھ سکے۔ وہ پیچھے کے شیلفوں میں سے کوئی کتاب لانے کے لیے اٹھی تو بید کے ٹرے کی اوٹ میں میز پر تازہ ساؤنڈ، پڑا دکھائی دیا، ٹائیٹل پیج پر دیاز لنگ نیو فائنڈ بیگم پارہ کی تصویر تھی۔ اس سے ساؤنڈ اٹھا لیا اور یونہی ورق الٹ پلٹ کر تصویریں دیکھنے لگی۔

    ’’تصویریں کیا دیکھ رہی ہو، نازی، عباس کا آرٹیکل پڑھو۔‘‘ جانے انہوں نے کیسے دیکھ لیا، مجھے تصویریں دیکھتے۔

    شاہد احمد عباس کے مضامین کو اتنا پسند کرتا تھا۔ ’’فارفنٹی پیس آف سلور‘‘ طرح کی چیزیں کون نہیں پسند کرےگا۔ وہ خود بھی ساؤنڈ میں احمد عباس کے مضامین بڑے شوق سے پڑھا کرتی تھی۔ لیکن ساؤنڈ ملتے ہی اسے تصویریں دیکھنے کی بڑی بیتابی رہتی۔ ’’فلم انڈیا بھی کیوں نہ خریدیں؟‘‘ ’’فلم انڈیا اب یوں ہی سا پرچہ ہوکر رہ گیا ہے۔ کبھی اس میں بھی بڑے اچھے مضامین ہوا کرتے تھے‘‘ لیکن اس میں بہت سے آرٹ پلیٹ ہوتے ہیں اور بڑی بڑی تصویریں۔‘‘

    ’’تصویریں؟ او نازی تم تو ابھی بچی ہو!‘‘ تصویروں سے اسے دلچسپی نہ تھی۔ وہ یہ بھی غور کیے بغیر کہ ٹائٹیل پیج پر کس کی تصویر ہے، عباس کے آرٹیکل پر ٹوٹ پڑتا اور صبا کے۔ ’’میں کہتا ہوں یہ صبا بھی عباس ہی ہوں گے، نازی، دیکھو تو سٹائل کتنا ملتا ہے اور Saba یوں ہی Abbas کا الٹا ہے۔‘‘ ’’واقعی کیا لکھتے ہیں عباس!‘‘ وہ ہمیشہ بمبئی کرانیکل کا آخری صفحہ اس کے سامنے پکڑ کر کہتا۔ نسرین عباس کا مضمون پڑھ چکی تھی۔ تصویریں دیکھ کر اس نے ساؤنڈ میز پر رکھ دیا۔ میز پر چیزیں بےترتیبی سے بکھری پڑی تھیں۔ مختلف Seals ایک پیڈ لیٹر ہیڈ پنسلیں، فاؤنٹن پین، رسید اور بل کی چھوٹی چھوٹی کتابیں، پنچنگ مشین، چند فائلیں، گوندکی بوتل اس نے بید کے ٹرے میں تازہ خطوط رکھے اور دوسری چیزیں بھی قرینے سے رکھنے لگی۔

    ’’مجھے بھی چند مضامین دو۔‘‘ میں نے سب چیزیں اپنی اپنی جگہ رکھ کے پوچھا۔

    ’’نہیں تم اندازہ نہیں لگا سکوگی۔‘‘

    ’’تو پھر میں کیا کروں؟‘‘

    ’’چپ بیٹھی رہو رانی۔‘‘ انہوں نے بڑی ہی میٹھی نظروں سے دیکھتے ہوئے پیار سے کہا اور ان بلوریں نینوں میں رس بھر آیا۔ جگمگاتی سبز پتلیوں پر جھکی ہوئی وہ گھنی پلکیں! میں سفید و سبز و سیاہ کے اس خوبصورت سنگم کو دیکھتی رہی، دیکھتی رہی۔

    پھر وہ ریشمیں پلکیں جھپک گئیں اور سبز کانچ کی سی پتلیاں بادام کے سے پپوٹوں میں چھپ گئیں اور نسرین کی نگاہیں ان پر سے ہٹ کر ادھر ادھر کمرے میں بھٹکنے لگیں۔ افوہ کتنا ٹھنسا ہوا معلوم ہوتا تھا یہ کمرہ کتنا سارا سامان یہاں لاکر ٹھونس دیا گیا ہے۔ بید کا سیٹ بھی، کتابوں کے شیلف بھی، پہلے کتناکشادہ معلوم ہوتا تھا یہ کمرہ۔ اس میں صرف دفتر کا سامان تھا۔ ایک چھوٹے سے دفتر کا سامان۔ دو میزیں ایک لانبی، ایک ذرا چھوٹی اور ان کی میزوں کی دونوں طرف رکھی ہوئی چار کرسیاں۔ ایک کونے میں چند ریم سفید کاغذ اور کروکڈائل کارڈ اچھی طرح ڈھکے ہوئے دوسرے دو کونوں میں دو بڑے سٹانڈ۔ جن میں بید کے گہوارے سے لگے تھے۔ ایک میں اردو رسائل کی فائلیں رکھی تھیں۔ دوسرے میں ہندوستان کے انگریزی اخباروں اور رسائل کے ہندوستان کے سبھی اچھے اردو رسائل کی فائلیں ان گہواروں میں رکھی تھیں۔ ’’نیا دور‘‘ اتنے اعلیٰ معیار اور اچھے پروڈکشن کارسالہ مانا جاتا تھا کہ دو تین بہت اچھے انگریزی رسائل بھی اس کے تبادلے میں آتے تھے۔ پاس ہی The Hindu تودہ پڑا تھا معمولی رسائل اور اخبارات ایک طرف رکھ دیے گئے تھے۔ چوتھے کونے میں ایک چھوٹی سی الماری جس میں مشہور لکھنے والوں، دوسرے مضمون نگاروں، ایجنسیوں اورخریداروں کے خطوط کی فائلیں، مضامین، ناقابل اشاعت مضامین پچھلے پرچوں میں شائع شدہ مضامین کی فائلیں خریداروں کا رجسٹر، رسیدوں کی کتابیں، اکونٹ بکس، لیٹر ہیڈس اور نیچے کے خانے میں ’’نیادور‘‘ کے پچھلے پرچوں کی دو کاپیاں رکھی تھیں۔ لانبی میز کے نیچے پٹیوں کے پاس ردی کی ٹوکریاں تھیں۔

    ’’دیکھو نازی میرا خیال ہے اس دفعہ نظم سے پہل نہ کی جائے چھوٹے ے ہی احمد علی کا مضمون دے دیا جائے کیوں؟‘‘

    اوہ! انہوں نے ترتیب شروع کر دی۔ میں نے چونک کر کہا، ’’ہاں مضمون ہی سے شروع ہو تو اچھا ہے۔‘‘

    ’’پھر، ٹھہرو تمہیں کیسے معلوم ہو، فہرست کی ایک اور کاپی تمہارے لیے بنا دیتا ہوں۔‘‘

    اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے یاد ہیں سب مضامین کے نام۔ میرے خیال میں اس کے بعد فیض احمد فیض یا اختر انصاری کی نظم۔۔۔‘‘

    ’’نہیں اختر انصاری کی یہ نظم تو ان پر مضمون کے ساتھ آئےگی اور ان کی سب نظمیں ایک ساتھ آئیں تو اچھا ہے۔ ایک یہاں، ایک وہاں ڈالی جائے تو ترتیب میں بڑی بےسلیقگی نظر آئےگی، فیض کی نظم ٹھیک رہےگی۔ پھر؟‘‘

    ’’کرشن چندر کا۔۔۔‘‘

    انہوں نے میری بات کاٹ دی۔ ’’اوہ نازی! تو سب بڑے بڑے ناموں کو شروع میں رکھنا چاہتی ہو، ترتیب میں ناموں کو کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، مشہور لکھنے والوں کے مضامین تو سب پڑھتے ہی ہیں، خواہ وہ شروع میں چھپے ہوں یا درمیان میں یا آخر میں۔ ترتیب میں محض ناموں کاخیال نہیں رکھنا چاہیے، ٹھہرو میں پہلے ایک رف سا خاکہ بنا لیتا ہوں۔ پرش ترمیم کرنا ہو تو غور کریں گے۔‘‘ شاہد محض یوں ہی ترتیب نہیں دیتا تھا۔ کتنا سلیقہ ہوتا تھا اس کی ترتیب میں! مشہور اہل قلم بھی اس کے سلیقہ اور حسن ترتیب کی دل کھول کر داد دیتے تھے۔ ’’کیا کہوں آپ کو پرچہ مرتب کرنے کا ایسا سلیقہ ہے۔‘‘ ’’نیا دور‘‘ کے مضامین تو بلند پایہ ہوتے ہی ہیں لیکن آپ اس میں اندازِ ترتیب سے نئی جان، نئی بیداری، نیا حسن پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘ ہاں شاہد کے انداز ترتیب میں ایک خاص ذوق جھلکتا تھا۔ وہ کہیں ایسے مضامین ایک کے بعد دیگر رکھتا تھا جن میں بالکل تضاد ہو۔ اگر ایک افسانے میں بالکل اونچی سوسائٹی کی زندگی کی تصویر کشی کی ہو۔ تواس کے فوراً بعد ہل چلاتے ہوئے، پسینہ بہاتے ہوئے لیکن اپنے خون پیسنے سے سینچے ہوئے کھیت کے اگلے ہوئے اناج سے محروم، فاقہ کش کسان کی تصویر پیش کرتی ہوئی، ایک درد بھری نظم کو جگہ دےگا۔ تاکہ اس تضاد سے اثر اور زیادہ پیدا ہو، کبھی ایسے بہت سے مضامین کی ایک ساتھ ترتیب دیتا جن میں ربط اور ہم آہنگی ہو اور ان میں ایک دوسرے سے گذرتی ہوئی ایک دھارا سی بہتی چلی جائے۔ کبھی ذرا ملتے جلتے موضوعات پر الگ الگ طریقے سے لکھے گئے، یا الگ الگ نظریے پیش کرتے ہوئے مضامین یا افسانوں کی اس طرح ترتیب دیتا جیسے ایک ہی مقام سے نکل کر چاروں طرف بکھرتی ہوئی ایک پھلجھڑی سی چھوٹ جائے، کبھی ایسی ترتیب کہ غضب کا تنوع ظاہر ہو، کبھی یہ ترتیب قوس و قزحی شکل اختیار کر لیتی وہ دو دو افسانوں یا نظموں کے درمیان ایک ایک ایسی نظم لا دیتا جس میں اپنے آگے اور پیچھے کے دونوں مضمونوں کا رنگ ملا ہو۔ گو وہ دو مضمون اپنی اپنی جگہ بالکل الگ ہوں جیسے قوس قزح کے کنارے کمان تانے ہوئے اپنے دونوں طرف کے رنگوں کے کناروں میں مدغم ہو جاتے ہیں، گو درمیان میں الگ ہی رنگ پھوٹ رہا ہوتا ہے۔

    میں جانتی تھی اب وہ پھر بڑے انہماک سے نظمیں وغیرہ ہے پڑھ کر بڑی سوچ بچار کے بعد خاکہ تیار کریں گے۔ اتنی دیر تک پھر خاموش بیٹھنا ہوگا؟ میں اندر اٹھ کر جانے والی تھی کہ انہوں نے پوچھا۔

    اس دفعہ ہم نے دوسری زبانوں کی کہانیوں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے نا؟ مالتی کا ترجمہ مکمل کر لیا ہے کیا؟

    ’’مکمل تو کیا، آدھا بھی نہیں کیا، اتنا طویل ہے وہ افسانہ میں نے اکتاکر چھوڑ دیا، آئندہ نمبر کے لیے ضرور کردوں گی۔‘‘

    تو پھر اس دفعہ کون سی کہانیاں شامل کی جائیں؟ میں نے یہیں کے دو تین آدمیوں سے چند ترجمے کروائے ہیں۔ لیکن ترجمے خراب ہوئے ہیں۔ تم دیکھ کر تصحیح کر دو تو میں شامل کر لوں گا۔

    ’’میں نہیں کروں گی تصحیح، میں نے پڑھا ہے انہیں‘‘ میں جھنجھلا گئی، جملہ جملہ بدلنا پڑےگا۔ ازسرنو ترجمہ کرنا ہوگا، اس سے تو بہتر ہے اوریجنل دیکھ کر میں خود ہی ترجمہ کر دوں۔‘‘

    ’’لیکن، نازی، وہ نارویجین کہانی کا ترجمہ کر دیا ہوتا۔ چھوٹی سی ہے نا!‘‘

    ’’کونسی نارویجین کہانی؟‘‘

    ’’Knut Hamsun کی دی کال آف لائف۔‘‘

    ’’ہاں وہ ضرور کر دوں گی، کنوٹ ہامزون کو نوبل پرائز ملا تھا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ اور سنو کوئی اور بہت اچھی کہانیاں ہیں۔ تمہاری نظر میں جن کا ترجمہ ہو سکے؟‘‘

    ’’ترجمے کے لیے میں نے چند کہانیوں کا انتخاب کر رکھا ہے۔ آسٹرین آتھرسٹیفنس زدیگ کا، ’’دی لیٹر فرم ان ان نون اومن‘‘، لیام اوفلارٹی کی ’’دی ریپنگ ریس‘‘، لیام اوفلارٹی امریکن ہے؟ میں بھول رہی ہوں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، آئرش!‘‘

    ’’اور لوئی پیرانڈیلو کے مجموعے میں ’’دی اینویٹی‘‘ مجھے پسند آئی۔ تم کہہ رہے تھے یہ اطلالوی آتھر نئے ادیبوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن کیا ہرج ہے مجھے یہ افسانہ اتنا اچھا لگا اسی وقت ترجمہ کرنے کا خیال ہوا۔ لیکن ہے بہت طویل۔ پہلے اس اڑیا کہانی کا ترجمہ کر دوں؟ چھوٹی سی ہے اڑیسہ کی کوئی کہانی ہم نے اب تک پیش نہیں کی۔‘‘

    ’ہاں، ہمیں ہندوستانی زبانوں کی طرف کچھ اور توجہ دینی چاہیے۔ زیادہ تر یوروپی ادب ہی پیش کرتے رہے ہیں اب تک۔ یہاں کی دوسری زبانوں میں بھی ترقی پسند رجحانات آچلے ہیں۔ بنگالی، گجراتی، مرہٹی، پرسوں میں نے کھانڈے کر، کی کہانی پڑھنے کو دی تھی۔ پسند آئی تمہیں؟ کھانڈے کر، مرہٹی ادیبوں میں بہت مشہور ہے۔‘‘

    ’’ہاں پسند آئی تھی۔ دوالگ قصے لیکن ایک مرکزی خیال، ایک ہی تار میں منسلک اور بنگالی کہانیوں میں سے کونسی ڈالیں؟‘‘ ’’دس ارتھ از ناٹ یورس؟‘‘ بودھا دیو بوس کی ’’ڈسپیر؟ وہی جولانگ مسنیس مسلینی میں چھپی تھی۔ پربودھ کمار سانیال کی، پریتینی، کتنا اچھا نفسیاتی تجزیہ ہے! اور ’’پنّم‘‘ پریم نند مترا کی۔ بس ایک فہرست ہی بنتی چلی جا رہی ہے۔ کتنا مشکل ہے بنگالی کہانیوں میں انتخاب کرنا! سبھی اچھی ہیں۔ ان کا افسانوی ادب واقعی Mature ہے، زندگی ہوتی ہے بنگالی افسانوں میں اور فن، پروپیگنڈا نہیں نصائح اور تقریروں کے ذریعہ نہیں۔ واقعات کی تفصیل اور کرداروں کے تجزیہ سے اپنا مقصد بیان کرتے ہیں۔ جذباتی رو میں بہہ نہیں جاتے، ایسی افراط تفریط بھی نہیں ہوتی کہ ایک ہی پہلو کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جائے۔ کتنا تناسب اور توازن ہوتا ہے۔ زندگی کا تناسب اور توازن۔‘‘

    ’’یو آر اے مارول ڈارلنگ!‘‘ میں چونک پڑی میں تو کچھ ایسے جوش میں کہے جا رہی تھی، میں نے غور ہی نہیں کیا وہ کیسی تحسین آفرین نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ ہونٹ بھنچے۔ میں شرما گئی اور بات ٹال کر پوچھا۔ ’’اچھا تو کس کا ترجمہ کروں میں اس نمبر کے لیے؟‘‘

    ’’میں نہیں چاہتا، تم اتنا وقت ترجموں میں صرف کرو۔ تم میں تخلیقی صلاحیت ہے۔ ترجموں میں تمہارا بہت سا وقت بیکار جا رہا ہے۔ تم افسانے تو بالکل نہیں لکھ رہی ہو آج کل؟‘‘

    ’’لیکن لکھوں کس پر، میرا مشاہدہ تو اتنا محدود ہے، بچپن ہی سے اتنے سخت پردے میں رکھا تھا، ہر پھرا کے ذرا آٹوبیاگرافک افسانے ہی تو لکھ سکتی ہوں۔‘‘

    ’’تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے اس طرح کے افسانے لکھنا کمتری کا باعث ہے۔ دنیا کے لٹریچر میں کئی بہترین چیزیں آٹوبیاگرافک ہی تو ہیں، واقعات کی سچائی اور جذبات و احساسات کی مہین باریکیوں کی صحیح عکاسی اس میں آسانی سے ہو سکتی ہے۔‘‘

    ’’ہاں ٹھیک ہے لیکن میدان ہی کچھ محدود ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’ایک حد تک۔ لیکن ہم توجہ دیں تو بہت سارے موضوع مل سکتے ہیں، کیوں کیا ایک فروکی زندگی میں اتنا مواد نہیں کہ بیسیوں افسانے بن سکیں؟‘‘

    ’’اور اگر واقعات ایسے چنے جائیں جن میں بہتوں کی زندگی کا عکس ہو یا اس کے اندر سے کوئی Basic Human element جھلکتا نظر آئے تو خواہ پس منظر ایک ہی فرد کی زندگی کا کیوں نہ ہو افسانہ میں اجتماعی رنگ آ جاتا ہے۔‘‘

    ’’ارے تم نے میرے منہ سے بات چھین لی، میں اب بالکل یہی کہنے والا تھا، جب ہم بحث کر رہے ہوتے ہیں تم کبھی کبھی کیسے وہی بات کہہ دیتی ہو جو میں کہنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’دل سے دل کو راہ ہوتی ہے، کی یہ ایک ’’ترقی پسند‘‘ صورت ہے۔‘‘

    ہم دونوں پر بری طرح ہنسی کا دورہ پڑا۔

    بہ مشکل ہنسی تھام کر میں نے پوچھا، ’’اچھا تو اس دفعہ کون سے ترجمے ہوں گے؟‘‘ شائع شدہ ترجموں میں سے دو بہت اچھے چن لیں گے کیوں؟ ہم نے اب تک چین کی کوئی کہانی پیش نہیں کی ہے۔ ’’یڈگرسنو‘‘ کی ’’لیونگ چینا‘‘ کی سبھی کہانیاں اچھی ہیں اور تمنائی نے بہت اچھا ترجمہ کیا ہے ان کے ’’زندہ چین‘‘ میں سے ایک لیں گے اور کوئی دوسری کہیں اور سے۔ آئندہ نمبروں کے لیے ہم شمالی ہند کے اچھے مترجموں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ افسانوں کا انتخاب تو ہم ہی کریں گے۔ ہر ملک کے منتخب شدہ افسانوں کے مجموعے جو ہیں ہمارے پاس۔‘‘

    دونوں ترجموں کا نام فہرست کے نیچے لکھ کر وہ پھر کاغذوں پر جھک گئے اور نسرین خطوط میں سے جو زیادہ ضروری تھے، انہیں نکال کر جواب لکھنے لگی۔

    میں نے چھٹواں خط لکھ کر ان کی طرف بڑھایا۔ ’’ذرا دستخط کر دو اس پر۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’تمہاری طرف سے لکھا ہے وہی پبلشر کے خط کا جواب۔‘‘

    دستخط کرکے انہوں نے میرے ہاتھ میں خط دیتے ہوئے کہا، ’’میں نے خاکہ بنالیا ہے پڑھ کر سناؤں؟‘‘

    ’’ارے اتنا جلد۔‘‘ میں متعجب ہوگئی۔ ’’تمہاری ترتیب تو۔۔۔‘‘

    ’’دھارے کی طرح بہتی ہے، پھلجھڑی کی طرح بکھر جاتی ہے، فوارے کی طرح چھوٹتی ہے، قوس و قزح کے رنگوں میں بٹ جاتی ہے، کیسے کیسے شاعرانہ نام دے رکھے ہیں تم نے۔ لیکن اس دفعہ مضامین ہی کچھ ایسے ہیں کہ کسی خاص سلیقہ سے ترتیب دینا ممکن نہیں۔ میں نے یوں ہی ترتیب دے دی ہے سنوگی؟‘‘

    ’’اچھا۔‘‘

    ’’تمہارے کہنے کے مطابق میں نے پہلے احمد علی کا مضمون رکھا ہے، پھر فیض احمد فیض کی نظم پھر کرشن چندر کا افسانہ۔۔۔‘‘ وہ پڑھتے گئے۔

    میں غور سے سن رہی تھی۔ ایک نظم کا نام سن کر میں نے چونک کر پوچھا،

    ’’یہ نظم؟ مجھے ایسے یاد پڑتا ہے۔ یہ معمولی تھی ادھر لاؤ پھر پڑھ کے دیکھوں۔۔۔‘‘

    ’’معمولی ہے؟‘‘

    ’’پھر بھی اتنی ساری معمولی نظمیں جو موصول ہوئیں ہیں، ان میں غنیمت ہے۔‘‘

    ’’غنیمت؟ کیا ’نیادور‘ کا معیار غنیمت پر اتر آیا ہے؟‘‘

    ’’لیکن نازی، اس دفعہ اچھی نظمیں بہت کم موصول ہوئی ہیں۔‘‘

    ’’کم ہیں تو شائع شدہ نظموں میں سے بہت اچھی چن کے ڈالیں جیسے پہلے نمبروں میں کیا تھا۔‘‘

    ’’لیکن مطبوعہ چیزیں حتی الامکان کم۔۔۔ اس دفعہ دونوں ترجمے بھی تو مطبوعہ ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے فہرست پڑھنی شروع کی۔ ’’پھر یہ نظم۔‘‘

    ’’ارے یہ بھی معمولی ہے۔ ایک سے دو معمولی چیزیں شامل ہوں تو مجموعی اثر بھی خراب ہو جائےگا۔‘‘ پر وہ بہت دیت تک خاموش رہے۔ ’’آگے پڑھونا، کیوں خفا ہو گئے کیا؟‘‘

    ’’خفا کیوں ہوں گا، میری نازی، تم تو وہی کہہ رہی ہو جو میں نے بھی محسوس کیا لیکن مجبوری ہے۔‘‘

    ’’پھر کیا ہے اس کے بعد؟‘‘

    ’’کہوں تو تم اور بھی متعجب ہوگی۔ یہ افسانہ بھی دوسرے درجہ کی چیز ہے لیکن اس مصنف کی بہت ساری چیزوں سے بہتر ہے۔‘‘

    ’’دوسرے درجہ کا افسانہ؟ یہ تو اور بھی بری بات ہے، ایک دوسرے درجہ کے افسانے کو ’’نیادور‘‘ میں جانے دیں؟‘‘

    ’’اگر یہ نکال دیں تو اس نمبر میں اردو کے صرف دو ہی افسانے رہ جائیں گے، وہ بھی چھوٹے۔‘‘

    ’’دوہی کیوں۔ ہم نے تو اردو کے بہت اچھے افسانوں کی اتنی لمبی فہرست بنا رکھی ہے۔ ’’نیادور‘‘ میں نے شائع کرنے کے لیے؟‘‘

    ’’لیکن حتی الامکان غیر مطبوعہ۔۔۔‘‘

    ’’غیرمطبوعہ، غیر مطبوعہ، آخر کیوں؟ ہم نے شائع شدہ چیزوں کے شائع کرنے کی سب ایڈیٹروں اور پبلشروں سے اجازت لے لی ہے نا اور اعلان بھی کردیا ہے کہ ’’نیادور‘‘ پنگون نیورائٹنگ کی طرز پر نکالا جا رہا ہے۔ اس میں بہترین مطبوعہ چیزوں کا انتخاب بھی شامل ہوتا ہے اور سبھی مشہور اہل قلم نے رسالہ کی اس روش کو کس قدر پسند کیا ہے۔ بلکہ کرشن چندر نے تو لکھا تھا، ’’اگر آپ اردو اور دوسری زبانوں کے ادب سے بہترین چیزیں چنکر پیش کریں تو یہ بھی بجائے خود ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔‘‘

    لیکن شاہد احمد صاحب نے لکھا تھا، ’’ملک میں ایسے پرچے کی قدر ہونی مشکل ہے۔‘‘ اور یہ بہت بڑی حقیقت ہے، نازی، ہم اسے بھلا نہیں سکتے۔ مطبوعہ چیزیں ہوں تو اکثر لوگ پرچہ نہیں خریدیں گے۔‘‘

    ’’پہلے پرچے تو بک گئے۔‘‘

    ’’ہاں پہلے تو بک گئے۔ پرچہ نیا تھا۔ شاندار نکلا تھا۔ اس لیے خریدلیا۔ شاید لیکن اب دیکھا کتنے خطوط آتے ہیں، آپ کے پرچے میں تو بہت سارے مضامین مطبوعہ ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’ایسے خطوط تو تعریفی خطوط کے مقابلے میں کم ہیں۔‘‘

    ’’لیکن عوام کی ذہنیت اور ذوق کاپر تو تو انہیں میں نظر آتا ہے۔‘‘

    ’’لیکن انگریزی میں اس طرح کی چیزیں کس قدر مقبول ہوتی ہیں۔ پینگون نیورائٹنگ میں تو خیر تین چار چیزیں غیرمطبوعہ ہوتی ہیں لیکن آرگوسی اور ریڈرس ڈائجسٹ میں تو سبھی انتخاب ہی ہوتا ہے، پھر بھی ان کی کتنی قدر ہوتی ہے، ہمارا ’’نیا دور‘‘ کیوں؟ ’’تم بھول رہی ہو نازی، یہ ہندوستان ہے۔‘‘ انہوں نے ہنس کر کہا۔ کتنی تلخی تھی۔ اس ہنسی میں! لیکن سوچو تو صرف غیرمطبوعہ چیزوں سے اتنا اعلیٰ معیار رکھنا کیسے ممکن ہے، فرض کرو سبھی مشہور ادیو ں کی معاونت ہمیں حاصل بھی ہو گئی۔ پھر بھی ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہر دفعہ وہ فسٹ ریٹ ہی لکھیں گے؟ بہت کم ادیب ہمیشہ ایک ہی سطح کے افسانے لکھتے ہیں، بیدی کی طرح۔ آج کل کتنے ہی اچھے ادیب پہلے کے سے افسانے نہیں لکھ رہے ہی۔

    ’’میں مانتا ہوں پرچہ کا یہ معیار قائم رکھنا دشوار ہے۔ لیکن جن سے بہت اچھی کہانیاں انتخاب کی جا سکتی ہیں۔ ایسی کتابیں اور رسائل تو بہت کم ہیں ہندوستان میں اور اکثروں کی نظر سے یہ گذر چکے ہوتے ہیں۔ ایسا پرچہ تو صرف ان لوگوں کے ذوق کا ہوگا، جنہیں اچھی کتابیں رکھنے کا شوق ہے۔ لیکن اکثریت تو ان لوگوں کی ہے جو رسالوں میں نئی نئی چیزیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ انہیں پڑھنے کے بعد وہ رسالہ ان کے لیے پرانا ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’تو ہم پرچے کم چھپوائیں گے۔ ’’نیادور‘‘ صرف بہت اچھے ذوق والوں کے ہاتھوں میں پہنچے۔‘‘

    ’’کم چھپوائیں تو خرچ کیسے نکل سکےگا؟‘‘

    ’’پرچوں کی تعداد خواہ کتنی بھی کم ہو کتابت اور طباعت اور کور پیج کی پرنٹنگ کا وہی خرچ ہوگا۔ طباعت اور کتابت کے لیے روپے فارم کے حساب سے دیے جاتے ہیں اور کورپیج کے لیے کتنے رنگ کی پرنٹنگ ہے اس حساب سے۔‘‘

    ’’ہم نے پرچہ مالی فائدہ کی غرض سے تو نکالا نہیں۔ لیکن خرچ بھی نہ نکلے تو؟ تم جانتی ہو کتنا خرچ آتا ہے ہمیں ’’نیادور‘‘ پر۔ چھتیس روپے ریم سے کم کا کاغذ ہمیں کبھی ملا ہی نہیں اور آئندہ نمبر کے لیے تو پچاس روپے ریم والا چکنا، بتیس پونڈ کا کاغذ خرید کر پریس میں رکھ آیا ہوں۔‘‘

    ’’افوہ! کیوں خریدا اتنا مہنگا کاغذ؟ پچاس روپیہ ریم!‘‘

    ’’سفید کاغذ بالکل ناپید ہے ان دنوں! جو ملتا ہے وہی خریدنا پڑتا ہے، یہاں اتنی قیمت پر بھی کافی نہیں ملتا۔‘‘

    ’’لیکن ہم اخباری کاغذ کیوں نہ استعمال کریں؟ تم کہہ رہے تھے اس کی قیمت صرف بارہ روپیہ ہے۔‘‘

    ’’اخباری کاغذ استعمال کرنے کی ہمیں اجازت نہیں۔ صرف ان پرچوں کے لیے جو ۱۹۴۲ء سے پہلے نکلتے تھے اخباری کاغذ کا کوٹا منظور ہوا ہے۔‘‘

    ’’تو پھر کیا کریں؟ ’’نیادور‘‘ کی نوعیت کو بدلنا ہوگا؟‘‘

    ’’ہاں‘‘، انہوں نے دبی آواز میں جواب دیا اور فہرست کی کاپیاں بنانے لگے۔

    نسرین اٹھ کر کونے والی الماری میں سے خطوط کی فائلیں نکال لائی اور جن خطوط کا جواب دے دیا تھا، انہیں پنچ کرکے الگ الگ فائلوں میں لگانے لگی۔ چند خطوط خریداروں کے تھے۔ یہ فائل خطوط سے بھر کر پھوٹ رہی تھی۔ اس میں تعریفی خطوط بھی تھے اور ایسے بھی جن میں مطبوعہ مضامین شامل کرنے کی شکایت ہوتی تھی۔ نسرین کو اس وقت بے حد غصہ آ رہا تھا۔ اسی کاجی چاہا اس طرح کے خطوط چن چن کر پھاڑ دے۔ اکثر خطوط میں ہلکے سے یہ لکھا ہوتا ’’لیکن بہتر ہوگا آپ مطبوعہ مضامین نہ شامل کریں۔ ویسے گٹ اپ تو بہت خوبصورت ہے۔۔۔‘‘ ’’آپ کے رسالے میں ادھر سے ادھر سے لی ہوئی چیزیں ہی ہوتی ہیں آئندہ سے نئی چیزیں دینے کی کوشش کیجیے۔‘‘ کبھی کوئی وی-پی میں ڈاک خرچ کے تین چار آنے معاف نہ کرنے پر بڑی خفکی سے لکھ دیتا۔ ’’آپ تو محض شہرت حاصل کرنے کے لیے ایڈیٹر بن بیٹھے ہیں۔ اِدھر سے ایک مضمون لے کر ڈال دیا، ادھر سے ایک لے کر ڈال دیا۔ چند ترجمے شائع کر دیے۔ کیا یہی ایڈٹنگ ہے؟ ایسا رسالہ کون پڑھےگا؟ گویا ایک رسالہ نکالنے سے شہرت حاصل ہو جاتی ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر بیکار رسالہ کاایڈیٹر مشہور آدمی بن جاتا! اور تراجم کی یہاں بالکل قدر نہیں! وہ اور شاہد تھے کہ مختلف ملکوں کے افسانوں کے مجموعے پڑھ کر انتخاب کرتے، اس خیال سے کہ اردو ادب دوسری ہندوستانی اور غیرملکی زبانوں سے استفادہ حاصل کر سکے۔ اردو دان مختلف ملکوں اور زبانوں کے ادب کی رفتار، رجحانات اور نئی تکنیکوں سے آگاہ ہوں۔ ان کے پاس کسی ملک کے افسانوں کے مجموعے نہ ہوتے تو شاہد محض ترجمے کی غرض سے انہیں خرید لاتا اور وہ اپنا وہ وقت جس میں وہ افسانے یا مضامین لکھ سکتی تھی، ترجموں میں صرف کر رہی تھی۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد ان تراجم کی یہ قدر ہو رہی! واقعی ہندوستان میں پنگون نیورائٹنگ کی طرز کا پرچہ نکالنا حماقت ہی تو ہے۔ ایک اور خط میں لکھا تھا، ’’کئی چیزیں تو میں پہلے بھی پڑھ چکا تھا۔ کیا آپ مہمانوں کی جھوٹے کھانے سے تواضع کرتے ہیں؟‘‘ جھوٹا کھانا! ایسی نعمت جو مغرب میں خزینہ کی طرح حفاظت سے رکھی جاتی یہاں جھوٹا کھانا سمجھ کر پھینکی جا رہی تھی۔ یہ صاحب خریدار نہ تھے۔ شاید کسی بک سٹال سے لے کر پڑھا تھا۔ پھر ہر ایک نظم، افسانے کی خامیاں جی کھول کر بیان کی گئی تھیں! جوش اور احتشام حسین تک لپیٹ میں آ گئے تھے۔ ’’یہاں تک کہ ’’ٹرمینس‘‘ جیسا بلند پایہ افسانہ بھی ان کی نگاہوں میں جچ نہ سکا تھا اور اکثر خطوط میں پرچہ کے وقت پر نہ نکلنے کی شکایت تھی۔ ان کی دشواریوں میں یہ خط الگ انہیں پریشان کر دیتے تھے۔ لیکن چند ذوق والے بھی تھے۔ ’’نیادور‘‘ کے پچھلے سب پرچے بھیجنے کی ان کے خطوں میں درخواست ہوتی تھی۔ اس نے خطوط رکھ کے یہ فائل بند کر دی۔

    پبلشر کا خط اس نے اپنے خطوں کی فائل میں رکھ دیا۔ ’’ناز نسرین کا مجموعہ شائع کرنے کا خیال ہے۔ ازراہ مہربانی ان کا پتہ لکھ بھیجیےگا۔‘‘ اس فائل میں دو تین اور ناشروں کے خط بھی تھے اور ان میں سے ہر ایک لکھتا تھا۔ ’’نفع کمانا ہمارا مقصد نہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ابھرنے والوں کی مدد کرسکیں۔‘‘ شاید آئندہ رائلٹی کم دینے کے لیے پہلے ہی سے یہ حربہ استعمال کیا جا رہا تھا! مضمون نگاروں کے خطوط کی فائل میں اس نے دو خط رکھے اور ان کے ساتھ ملفوف نظمیں پڑھ کر ایک ناقابل اشاعت مضامین میں رکھ دی۔ دوسری زیر غور مضامین کی فائل میں اور ان مضمون اور نظمیں بھیجنے والوں کے خطوط میں تو ’’نیادور‘‘ کی اس قدر لمبی چوڑی تعریف ہوتی تھی۔‘‘ اچھے رسالوں کی کمی کے دنوں میں آپ نے اس قدر جلد ہندوستان کے بہترین اردو رسالوں کی صف میں جگہ لے لی ہے۔ ’’ادبی دنیا‘‘، ’’ادبِ لطیف‘‘ اور ’’ساقی‘‘ کے پایہ کار رسالہ ہے اور اس کے ظاہری حسن کا کیا کہنا، آنکھیں چوندھیا جاتی ہیں۔۔۔‘‘ وغیرہ، وغیرہ، ’’پھر آمدم برسرمطلب‘‘ ایک نظم (یا مضمون یا افسانہ) بھیج رہا ہوں۔ ’’نیادور‘‘ میں شائع کر دیجیے۔ پھر احمد علی کا خط رکھنے کے لیے اس نے مشہور اہل قلم کے خطوط کی فائل نکالی۔ یہ فائل دیکھ کر اسے کچھ سکون سا ہوا۔ کتنے اچھے خطوط ہیں اس میں! پہلے پہلے جب ان ادیبوں کے خطوط آنے شروع ہوئے تھے تو کتنی بےپناہ خوشی ہوتی تھی انہیں! انہیں ڈاک کا کس بیتابی سے انتظار رہتا۔ پوسٹ مین کو دور سے آتا دیکھ کر شاہد گیٹ میں جاکھڑا ہوتا اور وہیں سے آواز دیتا۔ ’’ہمارا کچھ ہے پوسٹ مین؟‘‘ ڈاکیہ اثبات میں سر ہلادیتا۔ پھر نزدیک آکر کہتا۔ ’’آپ کی تو ہر روز اتنی ڈاک آتی ہے‘‘، وہ ان کی بے تابی دیکھ کر ہنس دیتا۔ اوپر ہی سے لفافوں کی تحریر دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرتے۔ ’’یہ احتشام حسین کا ہے، یہ غلام عباس کا، یہ اختر اور ینوی کا، یہ قاضی عبدالغفار کا، یہ فراقؔ کا۔۔۔ کبھی وہ دور ہی سے اسے لفافہ دکھاکر کہتا، ’’اگر تم پہچان لو یہ کس کا ہے تو تمہیں پہلے پڑھنے کو دوں گا۔‘‘ اور وہ غور سے دیکھتی ’’مادا موزیل لکھا ہے۔۔۔ اختر رائے پوری کا ہے۔

    کھلے کھلے حرفوں میں لکھا ہے، انور کا ہے اور یہ تو پوسٹ مین نے بیرنگ بتایا تھا۔ سلام مچھلی شہری کا ہے اور وہ معلوم نہیں کہ کرشن چندر کا ہے یا رامانند ساگر کا، دونوں کی تحریر اس قدر ملتی جلتی ہے، کرشن چندر کا ہوگا۔۔۔‘‘ ’’نہیں ساگر کا دیکھیں؟‘‘ اور وہ لفافہ پھاڑ کر برے فتح مندانہ انداز میں کہتا ساگر کاہے؟‘‘ کبھی وہ ڈاکیے کو دور سے دیکھ لیتی، تو شاہد کو پتہ لگنے سے پہلے چپکے سے کھسک کر ڈال لے لیتی۔ پھر اسے آواز دے کر دور ہی سے ہاتھ اٹھا کر خطوط دکھاتی۔ ’’ارے، ڈاک آئی ہے کیا۔ لاؤ ادھر۔۔۔‘‘ نہیں وہ اور دور بھاگ جاتی لیکن جلد ہی پکڑ لی جاتی اور ایک ہی جھپٹے میں خطوط چھن جاتے اور وہ بڑے اشتیاق سے شاہد کی سبز پتلیوں کو گھومتے دیکھتی۔ کبھی کبھی ان میں ایسی چمک آ جاتی۔ ’’کیوں کیا لکھا ہے؟‘‘ وہ بے تابی سے پوچھتی۔ احمد علی نے اسے بک اسٹالوں پر ڈھونڈا ہے۔ بیدی نے خرید کر پڑھا ہے۔ پرچہ کی کامیابی کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوسکتا ہے؟ یہ تو پہلا ہی پرچہ ہے، سوچو تو! سبھی نے رسالہ کے معیار اور گیٹ اپ کی بہت تعریف کی ہے اور تمہارے مضمون۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا، وہ سبز کانچ کی گولیاں امرت رس میں ڈوب کر جگمگا گئیں اور ان پر ریشمی جھالر جھلملا اٹھی! وہ ٹکٹکی باندھے اسے کچھ ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ اپنے چہرے پر ان محبت پاش نظروں کو محسوس کرتی۔ وہ خطوں کو بھی کچھ دیر کے لیے بھول گئی۔ شاہد نے اس کا ہاتھ لے کر اس میں خطوط تھما دیے پھر سب ادیبوں کے خطوط انہیں باقاعدگی سے آنے لگے تھے۔ کتنے اچھے ہوتے تھے یہ خطوط۔ ان میں ان کی شخصیت کی ذرا سی جھلک دکھائی دیتی، کرشن چندر کی انسانیت پرستی، شاہد احمد صاحب کی بزرگانہ شفقت، اختر انصاری اور اشک کی دوستی، امرت رائے کی اور وامق کی دوست نوازی، تمنائی کی منکسر مزاجی، احمد ندیم قاسمی کے خطوں میں برادرانہ محبت اور خواہر نوازی، عزیز احمد اپنے خطوں میں بھی بے لاگ اور پراعتماد نقاد لگتے تھے۔۔۔ عسکری کے خطوط گمبھیر اور وزنی ہوتے تھے۔ بیدی کے خطوط میں اسی طرح کا پرمعنی اختصار ہوتا جیسے ان کے افسانوں میں اور انور کے خطوں میں جدت، بغاوت، آگ جیسے ان کے افسانوں میں ہوتی ہے، دھرم پر کاش آنند ان معدودے چند خوش قسمت ادیبوں میں سے ایک جو بڑے عہدے پر فائز ہیں، آفس میں اپنے ماتحتوں کی Sirring سے اکتاکر دوستوں میں بے تکلفی سے اظہار خیالات کے متمنی۔ کنہیا لال کپور کے خطوں میں بھی ہلکے مزاحیہ ٹچ ہوتے چنانچہ ایک خط میں لکھا تھا۔۔۔ مضمون بہت پسند آیا اور تصویروں میں۔۔۔ کا فوٹو!

    صرف ایک دو ادیبوں کے خطوط ذرا مربیانہ رنگ کے ہوتے۔ بڑے ادیبوں میں اپنی شہرت کے غرور کا شائبہ بھی نہ تھا۔ لیکن ذراچھوٹے ادیبوں کو اپنے ’کچھ ہونے کا‘ بہت احساس ہوتا ہے۔ وہ افسانہ یا مضمون بھیجنے کا اس طرح وعدہ کرتے جیسے رسالہ پر احسان کر رہے ہوں اور بعض تو لکھتے۔ ’’نیا مضمون یا افسانہ تیار نہیں ہے، فلاں فلاں رسالے میں میرے مضامین یا افسانے چھپے ہیں۔ ان میں سے آپ لے سکتے ہیں۔‘‘ لیکن بڑے ادیبوں نے کبھی یہ نہیں لکھا تھا کہ میرا کوئی مطبوعہ مضمون یا افسانہ لے لو، بلکہ افسانہ نہ بھیجنے پر بڑے اور خلوص سے لکھتے۔ ’’میں بہت شرمندہ ہوں بھائی۔ افسانہ نہ بھیج سکا۔ کچھ ایسی پریشانیاں رہیں کہ مکمل نہ ہوا۔ مکمل کرلوں تو آپ ہی کو بھیجوں گا۔ آپ ہی کے لیے لکھ رہا ہوں۔۔۔‘‘ اور یکایک مجھے ایک خیال آیا۔

    ’’ارے فہرست کی کاپی بنا ڈالی کیا۔ ذرا ٹھہرو۔ کیا ہم کچھ دیر اور انتظار نہیں کر سکتے۔ سہیل عظیم آبادی نے لکھا تھا وہ افسانہ مکمل کرکے جلد ہی بھیج دیں گے۔‘‘

    ’’نہیں بہت دیر ہو جائےگی۔ ہاں کتابت کے دوران میں ان کا افسانہ آ جائے تو یہ افسانے نکال کر ان کا شامل کر لوں گا۔‘‘

    ’’اور احتشام حسین نے بھی بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔‘‘

    ’’لیکن نازی ہم یہ کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ وہ لکھیں گے اور جلدی بھیجیں گے بات یہ ہے کہ جو نئے لکھنے والے ہوتے ہیں وہ جلد جلد لکھتے ہیں تاکہ جلد ابھر آئیں۔ جنہیں شہرت حاصل ہو چکی ہے، انہیں جلدی نہیں ہوتی۔ آج کل کتنے مشہور ادیب بالکل نہیں لکھ رہے ہیں۔۔۔ میں نے فہرست کی کاپی بنا ڈالی ہے۔ پھر ایک دفعہ دیکھ لو۔‘‘ ان کی کرسی کے پیچھے جاکر میں نے فہرست دیکھی، وہ اس انداز میں لکھی گئی تھی جیسے رسالے کے پہلے صفحہ میں ہوتی ہے اور فہرست کے نیچے ہمیشہ کی طرح ایک مخصوص نشان ڈال کر Specially written for the Penguin new writing کا سا جملہ لکھنے کی بجائے موٹے موٹے حروف میں لکھا گیا تھا۔ سب مضامین غیرمطبوعہ ہیں اور خاص ’’نیادور‘‘ کے لیے بھیجے گئے ہیں، یہ بتانے کے لیے کہ کہیں پچھلے نمبروں کی طرح یہ بھی مطبوعہ نہ سمجھے جائیں۔ گویا مطبوعہ چیزوں کا انتخاب شائع کرنا شرم کی بات تھی! ہم معمولی پرچوں میں ’’خاص برائے۔۔۔‘‘ دیکھ کر کتنا ہنسا کرتے تھے! اور اب ’’نیادور‘‘ کی فہرست کے فٹ نوٹ پر یہی مضحکہ خیز جملہ لکھ کر کس قدر کوفت ہو رہی تھی ہمیں!

    ’’لڑکے کو آواز دو، نازی، ابھی کاتب کے پاس فہرست اور مسودے بھجوا دوں۔‘‘ میں لڑکے کو بلا لائی۔ وہ غور سے فہرست دیکھ رہے تھے۔ ان کی خوبصورت پیشانی پر بل پڑتے تھے اور چہرہ پر اداسی چھائی ہوئی تھی، میں جانتی تھی۔ کیوں اداس تھے۔ میرے شاہد! وہ اتنا اچھا ذوق رکھ کر بھی اپنے ذوق کے مطابق پرچہ مرتب نہ کر سکے تھے!

    انہوں نے لڑکے کے ہاتھ میں مسودوں کا لفافہ دیتے ہوئے کہا، ’’اس دفعہ پرچہ واقعی کمزور ہوگا، اچھے ادیبوں کے مضامین اور افسانے بھی اتنے اچھے نہیں ہیں اس میں! لیکن گھبراؤ نہیں، نازی، یہ ایک ہی پرچہ ایسا ہوگا۔ آگے چل کر سب اچھے ادیب ہمیں مضامین بھیجتے رہیں گے۔‘‘

    ’’لیکن کتنے ہی ذوق والے ’’نیادور‘‘ کا فائل رکھ رہے ہیں، ایک پرچہ بھی کمزور ہونا ہمارے لیے شرم کی بات ہے۔‘‘

    وہ لڑکے کو گیٹ سے باہر نکل کر مڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ لڑکا سائیکل پر سوار ہوکر آن کی آن میں دور نکل گیا۔

    انہوں نے دروازے کی طرف سے نظریں پھیر کر مجھے دیکھا اور دبی آواز میں اداسی سے جواب دیا۔ ’’ٹھیک کہتی ہو۔‘‘

    اب وہ سبز پتلیاں کتنی اداس اور پھیکی تھیں۔

    مأخذ:

    اپنی نگریا (Pg. 58)

    • مصنف: ممتاز شیریں
      • ناشر: مکتبہ جدید، لاہور
      • سن اشاعت: 1948

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے